اَلفِرقَةُ النَّاجِيَّةُ فِي الإِسلَامِ
اسلام میں فرقۂ ناجیہ
تصنيف: فقيه اهلبيت حضرت آيت الله سيد علي رضوي گوپالپوري متوطن اتروله (طاب ثراہ)
اشاعت جديد: فروري سنـــــہ 2014
کتاب کے کل صفحات: 615
كتب فريقين كے حوالہ جات: تقریبا 196 (شيعه و سني كتابيں)
ناشر: اداره اصلاح، مسحد ديوان ناصر علي، مرتضي حسين روڈ، لکھنؤ، یو. پی (هندوستان)
تنظیم و تنسیق
بسم الله الرحمن الرحیم
"الفرقۃ الناجیۃ فی الاسلام" نامی کتاب کے مصنف فقیی اہلبیت حضرت آیۃ اللہ سید علی رضوی گوپالپوری، متوطن اترولہ اس با عمل، محقق، مدبر، مفکر، صاحب قلم اور آفاقی علمی شخصیت کا نام ہے جو مرنے کے بعد بھی زندہ ہے موصوف آسمان تصنیف و تالیف کے ان چمکتے ہوئے ستاروں میں ایک ہیں جن کے ذریعہ علم و حکمت کے پروانے روشنی حاڈل کرتے ہیں رسول اللہ (ص) نے ارشاد فرمایا: "العلماء فی الأرض مثل النجوم فی السماء" علما زمین پر رہ کر آسمانی ستاروں کی طرح چمکتے ہیں.
نیز ایک دوسری حدیث میں آیا ہے: "فضل العالم علی العابد کفضل القمر علی سائر النجوم لیلة البدر" عالم، عبادت گزار پر اسی طرح فضیلت رکھتا ہے جیسے چودہویں کا چاند تمام ستاروں پر.
مرحوم مصنف کی یہ کتاب فقط تاریخ و کلام، احادیث و آیات ہی کے گرانبہا متحقق گوہر اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے نہیں ہے بلکہ صاحبان قلم کیلئے مشعل راہ بھی ہے جس کی روشنی میں تحقیق و تصنیف کے باب کھلتے ہیں یہ کتاب علمی مناظروں کی وادیوں سے با آسانی گزرنے کا بہترین نمونہ ہے نیز ان لوگوں کیلئے راہ راست پر آنے کے مسکت اور مدلل ثبوت ہیں جو لوگ غلط پروپیگنڈوں کے ذریعہ مذہب کے نام پر نا ہنجار پگڈنڈیوں پر گامزن ہیں.
مصنف نے اس کتاب میں احتجاج، استدلال، انبساط اور متقن دلیلوں کے ساتھ اہم ثبوت فراہم کئے ہیں ھو قاری پر اعجازی اثر چھوڑتے ہیں اور اس کے قدم اس کتاب کے مستحکم اور موجز مطالب پر گامزن ہونے کیلئے مجبور ہوجاتے ہیں، یہ اپنے دور کی بے مثال کتاب ہے جو متون و مفہوم کی گہرائی و گیرائی میں بے مثل یے، اس کے فوائد کو سطروں کی شکل میں عوام کے سامنے پیش کرنا ناممکن ہے بلکہ قارئین ان کی طرف خود متوجہ ہوں گے.
مصنف نے اس کتاب کیلئے مکمل جانفشانی اور دقت نظر سے کام لیتے ہوئے مستحکم اور قابل اعتبار منابع پیش کر کے نہایت ایمانداری اور امانتداری کا ثبوت دیا ہے، اس میں فریقین کے علما، مورخین اور صاحبان قلم کے نظریات جو نقل کر کے منصفانہ نتیجہ عوام کے حوالے کیا ہے، مرحوم نے جو بھی ادعا کیا، بڑے اعتماد کے ساتھ کیا ہے اس کیلئے فریقین کی کتابوں سے ثبوت فراہم کئے ہيں بسا اوقات مخالفین کو انہیں کے منابع و مآخذ کے ذریعہ خاموش کیا ہے.
یہ کتاب اپنی افادیت و اعتماد مطالب کے پیش نظر اس سے پہلے بھی دو مرتبہ زیور طبع سے آراستہ ہو چکی ہے اور اس کے ذریعہ کئی افراد راہ حق تلاش کر چکے ہیں کیونکہ یہ کتاب معاشرے کیلئے نہایت مفید ہے لہذا مرحوم مصنف کے تلمیذ خاص، استاد محترم حجۃ الاسلام و المسلمین سید شمشاد حسین رضوی، اترولوی، ہندوستان (مقیم حال ناروے) کی خواہش تھی کہ اس کو نئے اسلوب اور تنظیم و تنسیق کے ساتھ شائع کیا جائے اس با عظمت خدمت کیلئے استاد محترم نے مجھے منتخب فرمایا خدائے وحدہ لا شریک کا لا محدود شکر گزار ہوں کہ اس نے مجھے یہ عظیم سعادت عطا فرمائی.
مصنف کی اس عظیم المرتبت کتاب کا مبنیٰ اور اساس 10 عدد اختلاف ہیں. ان میں اہمترین اختلاف "واقعۂ قرطاس" سے متعلق ہے جو حیات رسول (ص) ہی میں رونما ہوا، جس سے مختلف فرقے وجود میں آئے اور تمام جھگڑوں کی بنیاد اور اساس قرار پایا، اگر کچھ نامور صحابی آپ کو قلم و دوات دینے سے انکار نہ کرتے اور بخار کا غلبہ بتا کر آپ پر ہذیان کی تہمت نہ لگاتے تو بعد رسول (ص) ہرگز یہ اخلاف وجود میں نہ آتے اور آپس میں 72 يا 73 فرقے نہ بنتے.
امت مسلمہ میں وہ 10 اختلاف جو رسول الله (ص) کی وفات کے بعد تفرقہ واقع ہونے کے سبب قرار پائے.
مصنف نے ان کی ترتیب یوں بیان کی ہے: ملاحظہ فرمائیں:!!!
(ماخوذ صفحات از 7 تا 10)
پہلا اختلاف
واقعہ قرطاس
مرض الموت كے وقت آنحضرت (ص) کو قلم و دوات دینے سے انکار کرنا اور "حسبنا کتاب اللہ" کا دعویٰ کر دینا. (از 61 تا 66)
دوسرا اختلاف
جیش اسامہ
بعض سرشناس صحابیوں کا رسول اللہ (ص) کے حکم کی مخالفت کرنا، آپ کے مرض کو بہانہ بنا کر جیش اسامہ میں شرکت نہ کرنا. (از 67 تا 70)
تیسرا اختلاف
قتل کی دھمکی
آنحضرت (ص) کی وفات کے وقت حضرت عمر کا یہ کہنا: "جو یہ کہے گا کہ محمد مصطفیٰ (ص) اس دنیا سے چلے گئے میں اس کو قتل کر ڈالوں گا وہ حضرت عیسیٰ (ع) کی طرح آسمان پر آٹھا لئے گئے ہیں اور واپس آ کر ان لوگوں کے ہاتھ پیر قلم کر ڈالیں گے جو یہ کہیں گے کہ وہ مر چکے ہیں وغیرہ…" (از 71 تا 72)
چوتھا اختلاف
دفن رسولخدا (ص)
آنحضرت رسولخدا (ص) کے دفن کے بارے میں مہاجرین کا نظریہ یہ تھا کہ آپ کو مکہ لے جائیں اور مدینہ والے یہ چاہتے تھے کہ مدینہ میں دفن کیا جائے جبکہ حضرت علی (ع) نے آنحضرت (ص) کو اسی مقام پر دفن کیا جہاں آپ (ص) نے رحلت فرمائی، مسلمانوں کے نزدیک غسل و کفن دینے میں آپ (ع) کے ساتھ جناب عباس، فضل، قثم، اسامہ اور شقران کے علاوہ کوئی نام نہیں ملتاـ یہ جھگڑا اور چہ میگوئیاں آنحضرت (ص) کی حیات طیبہ میں ہوئیں ہیں یا رحلت سے تین دن بعد جب خلافت معین یو چکی تھی. (از 73 تا 74)
پانچواں اختلاف
امامت و خلافت پر ناجائز قبضہ
رسولخدا (ص) کی رحلت کے فوراً بعد بجائے یہ کہ مسلمان ان کی تجہیز و تدفین کرتے، تخت خلافت پر قبضہ کرنے کے ہتھکنڈوں میں الجھ گئے جبکہ خدا اسے غدیر خم کے میدان میں اپنے رسول (ص) کے ذریعہ آخری حج کے وقت پہلے ہی معین کر چکا تھا مگر ہوا و ہوس کے شکار مسلمانوں نے سقیفہ کا بازار گرم کیا، مہاجرین وانصار کے درمیان تو تو میں میں ہوئی ایک گروہ نے کہا: ایک امیر ہم سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے!! دوسرے نے کہا: امیر ہم میں سے ہوگا اور وزیر تم میں سے ہوگا!! بہر حال جب خلافت کا نشہ ڈھیلا ہوا تو جنازہ رسول (ص) کی فکر ہوئی لیکن اس وقت حضرت علی (ع) تجہیز و تدفین کے فرائض انجام دے چکے تھے. (از 75 تا 333)
چھٹا اختلاف
فدک اور وراثت
وہ فدک اور رسولخدا (ص) کا ترکہ جو فاطمہ زہرا (س) کو آپ (ص) کی طرف سے ملا تھا، خلیفۂ وقت نے ایک بے بنیاف حدیث کو سہارا بنا کر اسے اپنے قبضہ میں لے لیا دختر رسولخدا (ص)، فاطمہ زہرا (س) نے فدک اور وراثت دونوں کا مطالبہ کیا، خلیفۂ وقت کے انکار کرنے پر شہزادی نے ان سے رابطہ ختم کر لیا اور تا دم حیات بات نہ کی جس پر صحیح بخاری کے جملے شاہد ہیں "فهجرته فلم تکلمه حتی توفیت" یہی نہیں بلکہ خلیفہ نے شہزادی سے گواہ طلب کر ڈالے جبکہ فدک آپ کے تحت تصرف تھا. (از 334 تا 352)
ساتواں اختلاف
مانعین زکات سے جنگ
ان لوگوں نے ابو بکر کو زکات دینے سے اس لئے انکار کیا تھا کہ انہیں خلیفۂ بر حق نہیں سمجھتے تھے، نہ کہ زکات دینے کے منکر تھے، لیکن خلیفہ نے ان کا قےک عام کرایا، ان پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے اور ان کی عورتوں سے زنا کاری ہوئی. (از 353 تا 358)
آٹھواں اختلاف
ابو بکر کا خلیفہ منصوب کرنا
یہ اختلاف جناب ابو بکر کا عمر بن خطاب کو اپنی وفات کے وقت با اختیار خلیفہ بنانے اور لوگوں کی رائے کا احترام نہ کرنے سے وجود میں آیا. (از 359 تا 378)
نواں اختلاف
عثمان کا خاندان پروری کرنا
اپنے دور خلافت میں حکم بن امیہ کو اپنے پاس مدینہ میں بلایا، جس کو رسول اللہ (ص) نے مدینہ سے نکلوا دیا تھا، ابو ذعمر غفاری کو ربذہ جلا وطن کیا، مروان بن حکم کو 2 لاکھ دینار افریقہ کا خمس دیا، عبد اللہ بن سرح کو مصر کا گورنر بنایا حالانکہ رسول اللہ (ص) نے اس کا خون ہدر (مباح) کر دیا تھا، عبد اللہ بن عامر کو بصرہ کا گورنر بنایا جہاں اس نے فسق و فجور اور بدعت ایجاد کی، معاویہ کو شام، سعد بن ابی وقاص کو کوفہ اور سعد کے بعد ولید جو کوفہ کا والی قرار دیا. (از 379 تا 408)
دسواں اختلاف
ناکثین، قاسطین اور مارقین کا وجود میں آنا
ناکثین: بیعت شکنی کرنے والے "طلحہ اور زبیر" جو جنگ جمل میں حضرت علی (ع) کے خلاف عائشہ جو ساتھ لے کر آئے.
قاسطین: ستمگروں کا گروہ "معاویہ اور عمر عاص" وغیرہ جنہوں نے حضرت علی (ع) کے خلاف خروج کیا اور جنگ صفین وجود میں آئی.
مارقین: خوارج جن سے نہروان کی جنگ ہوئی. (از 409 تا 606)
اس کے بعد اس کتاب میں 73 فرقوں کا بغور و تدبر جائزہ لیا ہے جو ان جھگڑوں کے سبب سے وجود میں آئے.
مصنف نے حدیث رسول (ص) "ستفترق أمتي ثلاثا و سبعين فاقة كلها في انار إلا واحدة منها ناجية" كي روشني ميں اپنے اس تحقيقي سفر كو آگے بڑھایا اور مختلف فرقوں کی اصلیت پر مدلل گفتگو کی اور ان کے باطل ہونے پر ثبوت فراہم کئے نیز ایک فرقہ کو فریقین کی مستحکم دلیلوں سے ثابت کیا کہ وہ جنتی اور ناجی فرقہ ہے.
خدایا! ہمیں راہ حق پر گامزن رکھ، اہلبیت رسول (ص) کے ساتھ محشور فرما، دنیا میں ان کی محبت پر پائیدار رکھ اور آخرت میں ان کے جوار میں جگہ عنایت فرما. آمین!!!
شیخ وزیر عباس حیدری
گڑھی مجھیڑا سادات
مظفر نگر، مغربی یو. پی
(حوزہ علمیہ قم سنہ 1432)
ایک تبصرہ شائع کریں