مجلۂ علمیہ ماہ نامہ سُهَيلِ يَمَن لکھنؤ، رجب ۱۳۴۶ ھ، جنوری 1828 ء، ج: ۲/ ش: ۱۰/ ص: ۱۱
کمپوزنگ : ابو دانیال اعظمی بُرَیر
علم فراست انسان کی ہیئت و شکل سے اس کے اخلاق و صفات پر استدلال کرنے کو کہتے ہیں بسا اوقات اس کی تعریف یہ کہ جاتی ہے کہ وہ ایسی صنعت ہے جو معرفت اخلاق و عادات انسانی کی بنیاد یے اس علم کی سچائی پر ان آیات کریمہ سے استدلال کیا گیا ہے. "إن في ذلك لآيات للمتوسمين" «اس میں نشانیاں ہیں غور و تامل کرنے والوں کیلئے جو علامات سے پہچان لیتے ہیں» (سورۃ الحجر: 75) اور اس آیت سے بھی "تعرفنهم بسیماهم" «اے پیغمبر! آپ ان کو ان کی علامتوں سے پہچان لیتے ہو» (سورة البقرة: 273) اور اس آیت سے بھی "ولتعرفنهم فی لحن القول" «ان کو تن چھپا چھپا کے باتیں کرنے سے پہچان لو گے» (سورة محمد: 30) چونکہ فرس کے معنی چاک کر ڈالنے کے ہیں اور یہ علم حجاب کو چاک کر کے اخلاق کا چہرہ دکھلا دیتا ہےاس لئے اس کو علم فراست کہتے ہیں یہ علم فراست دو قسموں کا ہے ایک تو سیکھنے سے نہیں آتا بلکہ وہ الہام کی قسم سے یا وحی قلبی کی صورت میں ہوتس ہے یا رؤیائے صادقہ کے سبب سے ہوتا ہے بہر حال وہ محتاج تعلیم نہیں ہوتا ہے اسی کی طرف پیغمبر نے اپنے قول "المومن ینظر بنور اللہ" «مومن نور خدا کے ذریعہ سے دیکھتا ہے» اور اس قول میں کہ "إتقوا فراسة المومن" «فراست مومن سے ڈرتے رہو» میں اشارہ کیا ہے.
دوسری قسم وہ ہے جس میں تعلیم و تعلّم کو دخل ہے اس قسم کی فراست الوان و اشکال اور مزاج و اخلاق و افعال طبعی کے درمیان میں جو اتّحاد یا اختلاف ہے اس کے پہچان لینے سے ہوتی ہےجس شخص کو اس کا علم حاصل ہوجاتا ہے وہ فراست میں ماہر ہو جاتا ہء در حقیقت فراست عقل کے فروع میں سے ہے جس قدر عقل مجں کمال ہوگا اتنا ہی فراست قوی ہو گی اسی وجہ سے عرب فراستیں اوروں کی فراستوں سے قوی ہیں امام ماوردی نے کتاب "أعلام النبوۃ" میں ذکر کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
"فأول من أسس لهم (بعدنان) مجدا و شيد لهم ذكرا معد بن عدنان حين اصطفاه بختنصر و قد ملك أقاليم الأرض و كان قد هم بقتله حين غزا بلاد العرب فأنذره نبي كان في وقته بأن النبوة في ولده فاستبقاه و أكرمه و مكنه و استولى على تهامة بيد عالية و أمر مطاع و فيه يقول مهلهل الشاعر:
غنيت دارنا تهامة بالأمس
وفـيهـا بـنـو مــعــد حـلـولا
ثم ازداد العز بولده نزار وانبسطت به اليد وتقدم عند ملوك الفرس واجتباه [تَسْتَشِفُّ] ملك الفرس وكان إسمه خلدان و كان مهزول البدن فقال الملك: ما لك يا نزار؟ و تفسيره في لغتهم: يا مهزول فغلب عليه هذا الإسم و فيه يقول "قمعة بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان":
جديسا خلفناه وطسما بأرضه
فأكرم بنا عند الفخار فخار
فنحن بنو عدنان خلدان جدنا
فسماه تَسْتَشِفُّ الهمام نزارا
فسني نزارا بعد ما كان إسمه
لدى العرب خلدان بنوه خيارا
و كان لنزار أربعة أولاد: مضر و ربيعة و إياد و أنمار فلما حضرته الوفاة وصاهم فقال:
يا بني هذه القبة الحمراء و ما أشبهها لمضر
وهذا الخباء الأسود وما أشبهه لربيعة
وهذه الخادمة وما أشبهها لأياد
وهذه الندوة و المجلس و ما أشبهها لأنمار
فإن أشكل عليكم واختلفتم فعليكم بالأفعى الجرهمي بنجران.
فاختلفوا في القسمة فتوجهوا إليه فبينما هم يسيرون
إذ رأى مضر كلأ قد رعي فقال: إن البعير الذي رعى هذا الكلأ لأعور
وقال ربيعة: هو أزور
و قال إياد: هو أبتر
و قال أنمار: و هو شرود
فلم يسيروا قليلا حتى لقيهم رجل يوضع على راحلته فسألهم عن البعير
فقال مضر: هو أعور قال نعم
وقال ربيعة: هو أزور قال: نعم
وقال إياد: هو أبتر قال نعم
وقال أنمار: هو شرود قال نعم وهذه والله صفة بعيري فدلوني عليه
فقالوا: والله ما رأيناه قال: قد وصفتموه بصفته فكيف لم تروه.
و سار معهم إلى نجران حتى نزلوا بالأفعى الجرهمي فناداه صاحب البعير هؤلاء أصحاب بعيري وصفوه لي بصفته وقالوا: لم نره فقال لهم الأفعى الجرهمي: كيف وصفتموه ولم تروه؟.
فقال مضر: رأيته يرعى جانبا و يترك جانبا فعرفت أنه أعور.
و قال ربيعة: رأيت إحدى يديه ثابتة الأثر و الأخرى فاسدة الأثر فعرفت أنه أزور.
و قال إياد: رأيت بعره مجتمعا فعرفت أنه أبتر.
و قال أنمار: رأيته يرعى المكان الملتف ثم يجوزه إلى غيره فعرفت أنه شرود.
فقال الجرهمي لصاحب البعير: ليسوا أصحاب بعيرك فاطلب من غيرهم ثم سألهم من هم فأخبروه أنهم بنو نزار بن معد فقال: أ تحتاجون إلي و أنتم كما أرى؟ فدعا لهم بطعام فأكلوا و بشراب فشربوا و شرب
فقال مضر لم أر كاليوم خمرا أجود لو لا أنها نبتت على قبر
وقال ربيعة: لم أر كاليوم لحما أطيب لو لا أنه ربي بلبن كلبة
وقال إياد: لم أر كاليوم رجلا أسرى لولا أنه يدعى لغير أبيه
وقال أنمار: لم أر كاليوم كلاما أنفع في حاجتنا
وسمع الجرهمي الكلام فتعجب لقولهم وأتى أمه فسألها فأخبرته: أنها كانت تحت ملك لا ولد له فكرهت أن يذهب الملك فأمر كنت رجلا من نفسها كان نزل بها فوطئها فحملت منه به
وسأل القهرمان عن الخمر فقال من كرمة غرستها على قبر أبيك
وسأل الراعي عن اللحم فقال: شاة أرضعتها بلبن كلبة لأن الشاة حين ولدت ماتت ولم يكن ولد في الغنم شاة غيرها
فقيل لمضر من أين عرفت الخمر ونباتها على قبر؟ قال: لأنه أصابني عليها عطش شديد.
وقيل لربيعة من أين عرفت أن الشاة ارتضعت على لبن كلبة؟ قال: لأني شممت منه رائحة الكلب.
و قال لأیاد: من أين عرفت أن الرجل يدعى لغير أبيه؟ قال لأبي رأيته يتكلف ما يعمله.
ثم أتاهم الجرهمي وقال: صفوا لي صفتكم فقصوا عليه ما أوصاهم به أبوهم نزار
فقضى لمضر بالقبة الحمراء والدنانير والإبل وهي حمر فسمي مضر الحمراء
وقضى لربيعة بالخباء الأسود و الخيل الدهم سمي ربيعة الفرس
وقضى لإیاد بالخادمة الشمطاء و الماشية البلق
و قضى لأمار بالأرض و الدراهم ."
«یعنی پہلا شخص جس نے مجد و شرف عدنان کی نیو رکھی اور ان کی یادگار اور ذکر کی تشئید کی وہ "معد بن عدنان" تھے کیونکہ بخت النصر بادشاہ نے اقالیم زمین کا مالک اور حکمران تھا انہیں منتخب کیا تھا اور اپنے مخصوصین میں قرار دیا تھا جب اس نے عرب سے جنگ کی تھی تو اس نے معد کے قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن اس وقت میں جو پیغمبر (غالباً دانیال پيغمبر ع) تھے انہوں نے معد کے قتل کرنے سے یہ کہہ کے روک دیا کہ اس کو قتل نہ کرو کیونکہ پیغمبری اس کی اولاد میں ہے. بخت النصر نے نعد جو باقی رکھا اور ان کی بڑی عزت و اکرام کی اور ان کو تہامہ پر حکومت دیدی اور وہ وہاں کے حاکم بالا دست مقرر ہوئے اسی واقعہ کو مہلہل شاعر نے اپنے اس شعر میں نظم کیا ہے: "مقام تہامہ میں کل ہمارا گھر آباد تھا جس میں اولاد معد اترے ہوئے تھے."
اس کے بعد خاندانی عزت کا ستارا نزار کی وجہ سے اور چمکا اور حکومت کا ہاتھ اور زیادہ پھیلا اور وہ بادشاہان فارس کے مقرب ہوئے اور ان کو تَسْتَشِفُّ بادشاہ فارس نے منتخب کیا نزار کا نام در اصل خلدان تھا اور وی خلیقۃً لاغر اندام تھے بادشاہ نے ایک دن ان سے کہا: اے نزار! تمہیں کيا ہو گیا ہے؟ اور فارس کی زبان میں نزار لاغر اندام کو کہتے ہیں آخر کار ان کے نام پر یہ صفت غالب آئی اور ان کا نام نزار ہو گیا.
قمعہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان نے اس وجہ تسمیہ کو اپنے ان اشعار میں نظم کیا ہے:
ہم نے طسم و جدیس کی قائم مقامی کی اور جب مقام فخر ہو تو ہم سے زیادہ فخر کے اعتبار سے کون کریم تر ہوگا.
ہم عدنان کی اولاد ہیں اور ہمارے جد کا نام خلدان تھا ان کا بادشاہ شتاسف نے نزار نام رکھا.
پہلے ان کا نام خلدان تھا پھر ان کا نام نزار رکھا گیا اور ان کی اولاد بہترین اولاد ہیں. نزار کے چار بیٹے تھے: ۱- مضر ۲- ربیعہ ۳- ایاد ۴- انمار جب ان کا وقت وفات قریب آیا تو ان کو یوں وصیت کی: کہا کہ اے میرے فرزندو! یہ سرخ قبہ اور جو اس کے مانند ہو وہ مضر کا مال ہے اور یہ سیاہ خیمہ اور اس کے مانند ہے وہ ربیعہ کا مال ہے اور یہ خادمہ اور جو اس کے مانند ہے وہ ایاد کا مال ہے اور یہ مجلس اور نشستگاہ اور جو اس کے مانند ہے وہ انمار کا ہے اگر پھر آپس میں نزاع ہو تو افعیٰ جرہمی کے پاس جانا جو نجران میں ہے. بعد میں نزار نے انتقال کیا اور اولاد میں اختلاف یوا اور ان سب نے فیصلہ کیلئے نجران کا قصد کیا وہ سب لوگ راہ سفر طے کر رہے تھے کہ اتنے میں مضر کی آنکھ چری ہوئی گھاس پر جا پڑی پس کہا کہ وہ اونٹ جس نے گھاس جو چرا ہے اعور یعنی کانا تھا، ربیعہ نے کہا کہ وہ ازور یعنی اس کا پاؤں مڑا ہوا تھا، ایاد نے کہا کہ وہ ابتر یعنی دن بریدہ تھا، انمار نے کہا کہ وہ شرود یعنی بھاگا ہوا تھا. یہ باتیں کر کے تھوڑی دور چلے تھے کی سواری پر ایک شخص ملا جو تیز ہانکتا ہوا چلا آتا تھا اس نے ان سب سے پوچھا کہ میرا اونٹ تم لوگوں نے نہیں دیکھا؟
مضر نے نے کہا: وہ کانا تھا؟. اس سوار نے کہا: ہاں ایسا ہی تھا.
ربیعہ نے کہا: اس کا ایک پاؤں مڑا ہوا تھا؟ اس سوار نے کہا: ہاں.
ایاد نے کہا: اس کی دم کٹی ہوئی تھی؟ اس سوار نے کہا: ہاں.
انمار نے کہا: وہ بھاگا ہو تھا؟.اس سوار نے کہا: ہاں، یہ سب صفتیں میرے ہی اونٹ میں جمع تھیں، تو اچھا تو وہ کہاں ہے؟
مجھے اس کا پتہ بتاؤ. ان لوگوں نے کہا خدا کی قسم ہم نے اس اونٹ کو نہیں دیکھا. اس سوار نے کہا: یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ تم نے تمام صفتیں بتائیں اور پھر بھی نہیں دیکھا؟ آخر کو وہ بھی ساتھ ہو لیا یہاں تک کہ سب کے سب نقام نجران میں پہونچے اور افعیٰ جرہمی کی خدمت میں باریاب ہوئے. اس اونٹ والے نے افعیٰ جرہمی سے پکار کر کہا: ان لوگوں سے میں اپنے اونٹ کا مطالبہ کرتا ہوں انہوں نے اسے لیا ہے کیونکہ اس کے تمام اوصاف ان لوگوں نے بتائے ہیں. افعیٰ جرہمی نے کہا: تم نے بغیر دیکھے ہوئے اس کے اونٹ کے اوصاف کیوں کر بیان کئے؟
مضر نے کہا: میں نے اس کے چرے ہوئے مقام دیکھے ایک جانب چرتا ہے دوسری جانب کو چھوڑتا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ ایک آنکھ نہیں ہے.
ربیعہ نے کہا: میں نے زمیں پر اس کے ہاتھوں کے نشان کو غور کیا تو ایک ہاتھ کا نشان زمین پر ثبت ہے اور دوسرے کا نشان اچھی طرح نہیں ابھرتا اس لئے میں سمجھا کہ اس کا ایک ہاتھ مڑا یوا ہے.
ایاد نے کہا: میں نے اس کی مینگنیاں مجمتع دیکھیں چِھٹکی ہوئی نہیں ہے اس لئے نیں سمجھا کہ اس کی دم نہیں ہے.
انمار نے کہا: میں نے یہ بات دیکھی کہ ایک گھنی ہوئی جگہ کو چرتا ہے پھر اس کو چھوڑ کر دوسری جگہ پہونچ جاتا ہے اس لئے میں سمجھا کہ وہ بھاگا ہوا یے. افعیٰ جرہمی نے دعوا کرنے والے سے کہا: تمہارا اونٹ انہوں نے نہیں لیا کسی اور سے اس کا مطالبہ کرو. پھر ان لوگوں سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو اور میرے پاس کیوں آئے ہو؟ چاروں بھائیوں نے بتایا: ہم نزار بن معد کے بیٹے ہیں اور اس (میراث کی تقسیم کی) ضرورت سے آئے ہیں. افعیٰ جرہمی نے کہس: کیا تم لوگ میرے فیصلہ کے محتاج یو حالانکہ تمہاری ذکاوت اور ذہانت جو میں دیکھ چکا ہوں.
اس گفتگو کے بعد اس نے کھانا منگوایا، شراب منگوائی سب نے کھایا پیا جب کھانے پینے سے فارغ ہوئے.
تو مضر نے کہا: آج کی ایسی عمدہ شراب میں نے کبھی نہیں پی عیب فقط اتنا تھا کہ جس سے شراب بنائی گئی ہے وہ درخت کسی قبر پر ہے.
ربیعہ نے کہا: آج کا سا خوش مزہ گوشت میں نے کبھی نہیں کھایا عیب اتنا ہے کہ اس بکری کو کتیا نے دودھ پلایا تھا.
ایاد نے کہا: اس مرد سے بہتر میں نے جواں مرد نہیں دیکھا عیب اتنا ہے کہ جو اس کا باپ نہیں ہے اس کی طرف یہ منسوب ہے.
انمار نے کہا: میں نے آج کے دن جا سا کلام جو ہماری حاجت کیلئے زیادہ مفید ہو دیکھا نہیں ہے.
افعیٰ جرہمی یہ سب باتیں سنتا تھا اس کو ان کی باتوں پر نہایت تعجّب ہوا.
پہلے اپنی ماں کے پاس گیا اس سے اپنے باپ کا حال پوچھا اس نے بیان کر دیا کہ بادشاہ کے یہاں اولاد نہ ہوتی تھی مجھے برا معلوم یوا کہ ملک ضائع ہو جائے گا اس لئے میں نے ایک ایسے مہمان سے توسل کیا جو شاہی مہمان تھا اور تو اسی کا فرزند ہے.
پھر شرابخانہ کے داروغہ سے پوچھا کہ یہ شراب کیسی تھی؟ داروغہ نے کہا: اس انگور سے بنی تھی جو تیرے باپ کی قبر پر میں نے لگایا تھا.
پھر چراواہے سے پوچھا: گوشت کیسا تھا؟ چرانے والے نے کہا': بکری کا مگر اس کو کتیا نے دودھ پلایا تھا کیونکہ جب اس بکری کی ماں مری تھی تو کسی اور بکری کے دودھ نہیں تھا.
پس جب مضر سے پوچھا گیا کہ تم نے کیوں کر ھانا کہ شراب اس انگور کی ہے جو قبر پر اگی ہے؟ تو انہوں نے کہا: جس وقت میں نے شراب پی تھی تو مجھ پر پیاس کا غلبہ یوا تھا.
ربیعہ سے پوچھا کہ تم نے کیوں کر سمجھا کی اس بکری کو کتیا نے دودھ پلایا ہے؟ تب انہوں نے کہا: مجھے گوشت سے کتے کی بو محسوس ہوئی.
ایاد سے پوچھا کہ تم نے کیوں کر جانا کہ اس کا باپ وہ نہیں ہے جس سے یہ منسوب ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے اس کو دیکھا کہ اپنے کام کو بتکلّف انجام دیتا ہے.»
افعی جرهمی کے معنی دهخدا لغت میں
أَفـــعـــیٰ جُـــرهَـــمـِــی
[اَ عا جُ هَ] (اِ خ)
اَفعیٰ بن حصین جُرهَمی: عرب کے زمانۂ قدیم کے دور جاہلیت میں ایک حکیم ہے کہ جو نزار یعنی ربیعہ و مضر کا ہمعصر تھا اور نجران میں زندگی بسر کرتا تھا اور عرب اپنے اختلافات کے حل و فصل کیلئے اسی کے پاس آتے تھے اور اس کے فیصلوں جو رد یا تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرتے تھے. (منقول از الاعلام زرکلی).
(یہ ایک نہایت پر معنی بات ہے. جس پر سے ہم کبھی نقاب اتاریں گے ممکن ہے کہ اسی مضمون میں وہ مقام آجائے اور شائد ارباب ذہن و ذکا اس کلام ایاد پر غور کر کے خود ہی نتیجہ پر پہونچ جائیں.)
اس کے بعد جرہمی نے حسب وصیت نزار ان کا فیصلہ کر دیا اس حکایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فراستیں اولاد نزار میں آئندہ کرامتوں کی پیش خیمہ تھیں اور اگر اس کو کرامت نہ کہئے تو کرامت نما ضرور تھیں.
عرب کی تاریخ میں برابر ان باتوں کے نشانات ملتے ہیں اور اعضائے ظاہری میں بہت کچھ قدرت نے باطن کے سراغ رکھے ہیں جن کو وہ لوگ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جن کے پاس عقل سلیم اور نظر صحیح ہے اور یہ فراستیں قبل و بعد برابر باقی تھیں چنانچہ طبقات ابن سعد میں ہے:
"وقال قوم من بنی مدلج لعبد المطلب احتفظ بهفانا لم نر قدما أشبه بالقدم التي في المقام منه"
يعنی بنی مدلج میں سے ایک جماعت نے جناب عبد المطلب سے یہ بات کہی کہ اپنے پوتے کی حفاظت کرتے رہئے گا کیونکہ اس کے قدم سے زیادہ کوئی قدم اس قدم کے مشابہہ نہیں ہے جو مقام (ابراہیم ع) میں ہے.
اس فراست کوئی حد معلوم ہوتی ہے کہ ان لوگوں نے جناب ابراہیم (ع) کا قدم مبارک نہیں دیکھا تھا نشان قدم مقام میں دیکھا تھا لیکن اس قدم سے جناب رسالتمآب (ص) کے قدم پر مشابہت کا حکم کر رہے تھے در آن حالیکہ آپ کے قدم صغر سن میں سن ہی مناسبتطسے عریض و طویل رہے ہوں گے اور اس سے استدلال آپ کی نبوتت پر کرتی تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو شخصوں میں مشابہت ہو تو ان کے اعمال میں بھی مشابہت ہو گی چنانچہ اسی مشابہت قدم کی وجہ سے عمل خلیل اور عمل حبیب ایک ٹھہرا یہ دوسری بات ہے کہ ایک کا مرتبہ دوسرے سے زیادہ ہو. جب بنی مدلج نے عبد المطلب سے خبر مذکور بیان کی تھی تو جناب عبد المطلب نے حضرت ابو طالب سے کہا:
"إسمع ما يقول هؤلاء"
ابو طالب سن رہے رکھ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں چنانچہ حضرت ابو طالب آپ کی حفاظت کیا کرتے تھے یونہی ایک مرتبہ کا اور واقعہ ہے جو طبقات جلد اول میں مذکور ہے کہ جناب رسالتمآب کو حضرت ابو طالب چھوڑ کر سفر کرنے والے تھے حضرت ختمی مرتبت نے فرمایا کہ چچا میں یہاں کس کے پاد رہوں گا؟ جناب ابو طالب کا دل اس کلمہ سے بہت نرم ہوا اور انہوں نے سواری پر اپنا ردیف بنا لیا.
"فخرج به فنزلوا علي صاحب دير فقال: صاحب الدير ما هذا الغلام منك؟ قال: ابني. قال: ما هو بابنك و لا ينبغي ان يكون له اب حي؟ قال: و لم؟ قال: لأن وجهه وجه نبي و عينه عين نبي. قال: و ما النبي؟ قال: الذي يوحي إليه من السماء فينبي به أهل الإرض. قال الله أجل مما تقول قال فإتق عليه اليهود"
يعني جب جناب رسالتمآب (ص) کو حضرت ابو طالب لے کے نکلے تو ایک صاحب دیر کے یہاں فروکش ہوئے صاحب دیر نے جناب ابو طالب سے کہا کہ یہ لڑگا تمہارا کون ہے/ آپ نے فرمایس کہ میرا بیٹا ہے. اس نے کہا کہ ہرگز تمہارس بیٹا نہیں. اس کے باپ کو زندہ نہ ہونا چاہئے حضرت ابو طالب نے کہا کہ کیوں؟ س نے کہا کہ اس لئے کہ اس کا چہرہ پیغمبر کا چہرہ ہے اور اس کی آنکھ پیغمبر کی آنکھ ہے. جناب ابو طالب نے کہا کہ نبی کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ نبی وہ ہے جس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے اور اس کے مضمون سے وہ اہل زمین کو مطلع کرتا ہے.
وہاں سے کوچ کر کے پھر آگے بڑھے یہاں تک کہ ایک صاحب دیر کے یہاں فوکش ہوئے اس نے پھر وہی سوال کیا ھو راہب اول نے سوال کیا تھا اور حضرت ابو طالب نے بعینہ وہی جواب دیا اس نے انکار کیا جناب ابو طالب نے اس سے بھی پوچھا کی میرا بیٹا کیوں نہیں ہو سکتا اور کیوں اس کے والد زندہ نہیں ہو سکتے؟ اس نے بھی یہی کہا:
"لأن وجهه وجه نبي و عينه عين نبي"
یعنی اس لئے کہ اس کا چہرہ نبی کا چہرہ ہے اور اس کی آنکھ نبی کی آنکھ ہے. تب حضرت ابو طالب نے جناب رسالتمآب سے کہا:
"یا إبن أخي ألا تسمع ما یقولون. قال: یا عم لا تنکر الله قدرۃ"
یعنی میرے بھتیجے تم ان لوگوں کی باتیں سنتے ہو. انہوں نے کیا: چچا خدا کی قدرت کا انکار نہ کرنا چاہئے.
یہاں سے ایک بڑا فائدہ معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ پیغمبروں کے اعضا و جوارح کی ساکت خدا کی طرف سے ایسی ہوتی ہے جو ان کی نبوت پر دلالت کرتی ہے اس میں خلق کی رائے کو کوئی دخل نہیں بلکہ منصب کے موافق فطرت اعضا و جوارح میں کام کرتی ہے اور یہ ایک شاہد محسوس ہے جیسا کہ اور شکاری جانوروں کے جوڑ بندوں کی ساخت اور جانوروں سے ممتاز اور علاحدہ ہوتی ہے جن سے یہ مطلب اچھی طرح ہویدا ہے کہ وہ کسی اور کام کیلئے پیدس کئے گئے ہیں. اب جب نوبت کلام یہاں تک پہونچی تو یہ بھی جان لینے کے قابل بات ہے کہ مشابہت اگر دو چیزوں میں یا چند چیزوں میں موجود ہو تو کام میں اتحاد پیدا ہوتا ہے ابھی ابھی آپ نے راہب کا قول سنا کہ اس کا چہرہ نبی کا چہرہ ہے اور اس کی آنکھ نبی کی آنکھ ہے تو یہ قانون تشابہ جو انبیا کے چہروں میں اور آپ کے چہرہ میں اور ان کی آنکھ میں اور آپ کی آنکھ میں موجود تھا وہ اس بات پر دلالت کرتا تھاچکہ ان دونوں میں اتحاف عمل و کار مشترک ہے اور اس مطلب جو جرجی زیدان نے اپنی کتاب "الفراسة" كے صفحہ نمبر ۳۲ اور ۳۳ پر نہایت واضح طریقہ پر بیان کیا ہے. میں اس مضمون میں اس کی بعض بعض اقتباسات ذکر کرتا ہوں وہ کہتے ہیں:
"وهنا موضع نظر في أمرين: ١- إن الأنواع المتشابهة شكلا تتشابه عملا و العكس بالعكس"
يعني وہ نوعیں جو شکل میں متشابہ ہوتی ہیں وہ عمل میں بھی متشابہ ہوتی ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو عمل میں بھی متشابہ نہیں ہے.
٢- إن التشابه أکثر وضوحا في الجماد و مما في النبات و في هذا أوضح مما في الحيوان"
يعني جمادات میں باہم مشابہت زیادہ ہے اور نباتات میں اس سے کم اور حیوانات میں اس سے (بھی) کم.
"فالتشابه قريب وثابت في الأجسام الجامدة ثم يبعدو يتشوش في الأحياء و يزداد تشويه كلما ارتقى في سلم الحيوة معنى ذلك إن أفراد النوع الواحد من المخلوقات يزيد الإختلاف بين ظواهرها بنسبة التفاوت في أعمالها فالجماد قليل العمل بسيط التركيب و الإختلاف بين أفراده قليل و النبات وظائفه مركبته و أعماله ارقي فتنوعاته أكثر و أما الحيوان فانه ارقي من النبات و وظائفه أكثر و الإختلاف بين أفراده أبعد."
يعني تشابہ اجسام جامدہ میں قریب قریب ثابت ہے پھر یہ ناپیدس ہوتا جاتا ہے جیسا جیسا زینہ ترقی پر چڑھتی جاتی ہیں اور اس سے مقصود یہ ہے کہ ایک ہی قسم کے افراد ہیں اختلاف ظاہر میں اتنا ہی ہوتا ہے جتنا ان کے اعمال میں اختلاف ہوتا ہے چونکہ جماد قلیل العمل اور بسیط الترکیب ہے اس لئے اس کی افراد میں اختلاف کم ہے اور چونکہ بناتات اس سے بلند ہیں اور اس کے وظائف مرکب ہیں اس لئے ان میں اختلاف زیادہ ہے اور چونکہ حیوانات کے اعمال نباتات سے زیادہ ہیں اس لئے ان کا اختلاف بناتات سے بھی زیادہ ہے یہاں تک کہ اس نے بیان کیا ہے:
"وإن الإنسان فأنه أكثر عملا من الجميع"
يعني انسان کے اعمال اور وظیفہ تمام مخلوقات ما تحت سے زیادہ ہیں لہذا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان کی افراد میں اختلافات سب سے زیادہ ہوں گے. اور تمام کلام کا نتیجہ یہ نکلا جو اس نے اپنی اس عبارت میں بیان کیا ہے:
"بناء علی ما تقدم أن ظواهر الأجسام تختلف بإختلاف بواطنها فكلما تقرعت أعمال الجسم تعددت ظواهره و ما ذلك إلا لعلاقة ثابتة بين ظواهر الأجسام و بواطنها و الخلق الظاهر يدل على الخلق الباطن وهي الباطن"
يعني نتیجہ بیانات سابقہ یہ ہے کہ جب باطن میں اختلاف ہوتا ہے تو ظاہر میں بھی اختلاف پیدا ہوتا ہے اور جب باطنی کام پڑیں گے تو ظاہر میں اس کی جھلک نظر آئے گی اور یہ اس علاقہ کے سبب سے ہے جو باطن و ظاہر میں ہے اور خلق ظاہر خلق باطن پر دلالت کرتا ہے.
بس اسی کا نام "فراست" ہے.
میں کہتا ہوں کہ ان اصوک کے دیکھتے ہوئے جب انسانی افراد میں با وصف اسباب اختلاف اگر پھر کسی نقطہ پر اشتراک ہو جائے تو اتحاد عمل پر دلالت کرے گا جس کا اعتراف خود اسی مصنف نے کیا ہے. چنانچہ صفحہ ۵۱ پر لکھتے ہیں:
"و إذا بصرت رجلا طويل القامة عريض المنكبين قلت انه شجاع"
جب تم کسی مرد طویل القامت "عريض المنكبين" کو دیکھو تو تم سمجھو گے کہ یہ شجاع ہے چنانچہ جتنے اس صفت کے ملیں گے شجاعت میں متحد ہوں گی. یونہی اور اخلاق پر خط نظری صفحات چہرہ پر پڑیں گے اور دلیلیں قائم کریں گے.
"وقال جامع بن شداد كان رجل منا يقال له طارق فأخبر أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة فقال هل معكم شيء تبيعونه قلنا هذا البعير قال بكم قلنا بكذا وكذا وسقا من تمر فأخذ بخطامه وسار إلى المدينة فقلنا بعنا من رجل لا ندري من هو ومعنا ظعينة فقالت أنا ضامنة لثمن البعير رأيت وجه رجل مثل القمر ليلة البدر لا يخيس بكم ..."
(شفاء القاضي عياض، ٣٠٨، چاپ قديم) و (الشفا بتعريف حقوق المصطفى، القاضي عياض، ١/ ٢٤٨، چاپ جديد)
چنانچہ خیر جامع بن شداد بیان کرتے ہیں: ہم میں ایک شخص طارق نام تھا وہ بیان کرتا تھا کہ اس نے پیغمبر (ص) کو مدینہ میں دیکھا تھا تو آپ نے فرمایا: تمہارے پاس بیچنے کی کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: ہاں! یہ اونٹ بیچتے ہیں. پوچھا: کتنی قیمت کو بیچتے ہو؟ ہم نے کہا: اتنے وسو خرمے کی (تعداد بتائی) آپ نے مہار اس اونٹ کی پکڑ لی اور اس اونٹ کو لے کر چلے جب آپ آگے بڑھے تو ہم نے کہا: افسوس اونٹ ایسے شخص کے ہاتھ بیچا جس کو ہم پہچانتے نہیں اوت ہمارے ساتھ ایک پردہ نشین خاتون تھی. اس نے کہا: میں اونٹ کی قیمت کی ضمانت کرتی ہوں. میں نے اس خریدنے والےطکے چہرہ کو دیکھا تو "وہ چودہویں رات کی چاند کی طرح" تھا. وہ قیمت کو تم سے روکے گا نہیں.
ناظرین خیال کر سکتے ہیں کہ چہرہ میں باین حسن و جمال جس کی تشبیہ بدر کامل سے دی ایسی علامتیں موجود تھیں جن کو دیکھ کر اس نے یہ حکم لگا دیا کہ جو کچھ خریدنے والے نے کہا اس پر وہ وفا ضرور ہی کرے گا اور اس کس اس شدت سے یقین ہوا کہ اس نے اس کی قیمت کی ضمانت کر لی.
اب جب ہم ان باتوں کو اجمالاً لکھ چکے تو اب ہم کہتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص جو پیغمبر کے حلیہ میں شریک ہو وہ متحد العمل ہوگا اس لئے کہ "فراست" اسی بات پر دلالت کرتی ہے.
حلیۂ مبارکہ خاتم النبیین (ص)
اردو ترجمہ
حلیۂ مبارکہ امیر المومنین (ع)
★ الشفاء قاضی عیاض ۱/ ۵۰
اور
★ استیعاب، شرح ابن الحدید، فصول المهمه
ربعة القد
/ ميانہ قد /
ربعة من الرجال
أنجل
/ بڑی آنکھیں /
أنجل
أدعج
/ کالی پتلی والی آنکھیں /
أدعج العينين
يَتَلأْلأُ وَجْهُهُ تَلأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ
/ چہرہ بدر سا روشن /
حسن الوجه كأنه القمر ليلة البدر
شَثْنَ الْكَفَّيْنِ
/ پُر گوشت ہتھیلیاں /
شثن الكفين
بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبِينِ
/ سینہ چوڑا /
عريض المنكبين
كَثَّ اللِّحْيَةِ
/ گھنی داڑھی والا آدمی /
كث اللحية
ضَخْمَ الْكَرَادِيسِ
/ ہڈیوں کے سر موٹے تھے /
ضخم الكراديس
أَزَجَّ الْحَوَاجِبِ
/ قوسی ابرو جو طویل اور زیادہ بال رکھتا ہو /
أزج الحاجبين
يَخْطُو تَكَفُّؤًا
/ لہرا کے چلتے تھے /
إذا مشى تكفأ
بَادِنًا مُتَمَاسِكًا
/ پُر گوشت معتدل الخلق /
هو إلي السمن أميل
كَأَنَّ عُنُقَهُ جِيدُ دُمْيَةٍ فِي صَفَاءِ الْفِضَّةِ
/ گویا کہ گردن تراشی ہوئی تھی اور وہ چاندی کی صفائی میں تھی /
أغيد كأن عنقه إبريق فضةٍ
پیغمبر خدا (ص) کی هیبت
پیغمبر اکرم (ص) کی ہیبت روایت میں نقل ہوئی ہے:
"و فی حدیث ابن مسعود ان رجلاً قام بین یدیه فارعد فقال له هَوِّنْ عَلَيْكَ فَإِنِّي لَسْتُ بِمَلِكٍ"
يعني حدیث ابن مسعود میں ہے کہ جناب رسالتمآب (ص) کے سامنے ایک شخص کھڑا ہوا تو اس کے جسم میں ہیبت کے سبب سے لزرہ پڑ گیا پس آنحضرت (ص) نے فرمایا: سنبھل میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں.
اسی رعب و جلالت کو کعب بن زہیر نے اپنے قصیدۂ طویلہ میں بیان کیا ہے:
لَــذاكَ أَهْـيَبُ عِـنْدي إذْ أُكَـلِّمُهُ
وقـيـلَ إنَّكَ مَـنْسوبٌ ومَـسْئُولُ
منْ خَادِرٍ منْ لُيُوثِ الأُسْدِ مَسْكَنُهُ
مِنْ بَطْنِ عَثَّرَ غِيلٌ دُونَهُ غِيلُ
يعني پیغمبر میری نظر میں زیادہ با رعب و اجلال ہیں (جب میں ان سے کلام کر رہا ہوں اور مجھ سے یہ کہہ دیا گیا ہے کہ تمہاری طرف بعض خطائیں منسوب کی گئی ہیں اور تم سے پوچھی جائیں گی.) اس شیر بیشہ سے جس کا مسکن مقام عثّر (جو شیروں کی نشو و نما کا مقام ہے.) کے بیشوں میں سے ہے جس کے پاس اور شیروں کے بیشہ ہیں.
اسی ہیبت کی تعبیر آپ کے حلیہ مبارکہ میں ہے "وکان فخماً مفخماً" یعنی عظیم تھی اور عظیم سمجھی جاتی تھی.
امیر المومنین (ع) کی هیبت
امير المومنين (ع) كي ہیبت روایت میں نقل ہوئی ہے:
"وقال معاوية لقيس بن سعد: رحم الله أبا حسن، فلقد كان هشا بشا، ذا فكاهة قال قيس: نعم، كان رسول الله (ص) يمزح، ويبتسم إلى أصحابه، وأراك تسر حسوا في ارتغاء (يسر حسوا في ارتغاء: الارتغاء: شرب الرغوة، وأصله الرجل يؤتى باللبن، فيظهر أنه يريد الرغوة خاصة ولا يريد غيرها، فيشربها وهو في ذلك ينال من اللبن. وهو مثل يضرب لمن يريك أنه يعينك وإنما يجر النفع إلى نفسه (مجمع الأمثال: ٣/ ٥٢٥/ ٤٦٨٠)، وتعيبه بذلك! أما والله لقد كان مع تلك الفكاهة والطلاقة أهيب من ذي لبدتين قد مسه الطوى، تلك هيبة التقوى، وليس كما يهابك طغام (الطغام: أوغاد الناس وأرذالهم (تاج العروس: ١٧/ ٤٤١) أهل الشام (شرح نهج البلاغة: ١/ 25.)." (موسوعة الإمام علي بن أبي طالب (ع) في الكتاب والسنة والتاريخ الريشهري ٩/ ١٤١ و ١٤٢)
يعنب معاویہ نے قیس بن سعد سے کہا: خدا علی (ع) پر رحم کرے نہایت ہی خوش و شاد رہتے تھے. قیس نے کہا: پیغمبر خدا (ص) بھی اصحاب میں آپ مزاح اور تبسم فرمایا کرتے تھے اور میں یہ دیکھتا ہوں کہ تو آنحضرت کی بلندیوں کو چھپاتا ہے اور اس کا ذکر تو آپ کی معیوب قرار دینے کیلئے کرتا ہے. خدا کی قسم باین مشابہت رخ مبارک و طلاقت چہرہ آنحضرت کی ہیبت اس شیر سے کہیں زیادہ تھی جو گرسنہ ہو اور یہ ہیبت جو امیر المومنین (ع) میں تھی وہ تقوائے الہی کی ہیبت تھی نہ کہ اس طرح کی جد سے تجھے شام کے بدمعاش ڈرتے ہیں.
اتنے نقاط اشتراک کے بعد اور اتحاد عمل کی دلیل کیا ہوگی اگر دلیل ختم نبوت نہ ہوتی تو ملتی ہوئی تصویر ہی سہی لیکن نبوت کے نفی کے بعد اتحاد عمل اور کام کا اشتراک اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وزارت متعلق ہو اور یہی فراست اور علم قیافہ کا حکم ہے. جس پر جاننے والے اتفاق کرتے ہیں.
خیر یہ تو وہ جہات ہیں جن سے فراست اتحاد کا حکم دیتی تھی اور ارباب فراست و قیافہ پر ان کے مذاق کی بنا پر حجت تھی لیکن پیغمبر (ص) تو دو نفسوں کی اتحاد کا حکم دیتا تھا اور یہ ایک عجیب و غریب بات ہے کہ ان لوگوں کیلئے بھی حجت موجود ہے جو ان باتوں کی حجیت تسلیم نہ کریں. چنانچہ مناقب خوارزمی میں صفحہ نمبر ۸۱ پر یہ روایت نقل ہوئی ہے:
"عن عبد الرزاق عن معمر بن طاووس عن أبيه عن المطلب بن عبد الله بن خطيب قال: قال رسول الله لوفد ثقيف حين جاؤه لتسلمن أو ليبعثن الله رجلا أو قال مثل نفسي فليضربن أعناقكم بالسيف و ليسبين ذراريكم ولياخذن أموالكم. قال عمر بن الخطاب فوالله ما تمنيت الأمارة إلا يومئذ جعلت أنصب صدري له رجاء أن يقول هو هذا قال فالتفت إلي علي بن أبي طالب فأخذه بيده ثم قال هو هذا هو هذا."
يعني سند مذکور سے أبو القاسم محمود بن عمر الزمخشری نے روایت کی ہے:
"جناب رسالتمآب (ص) نے ثقیف کے وفد سے جبکہ وہ حاضر خدمت ہوئے ہوئے. تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: تم لوگ اسلام لاؤ ورنہ خدا ایک ایسے مرد کو بھیجے گا جو مجھ سے ہوگا یا یہ ارشاد فرمایا: جو میرے نفس کے مانند ہوگا وہ تمہاری گردنیں تلوار سے مارے گس اور تمہاری ذریتوں کو ادیر کرے گا اور تمہارے مالوں کو چھین لے گا. عمر بن خطاب کا بیان ہے: اس موقع مجھے امارت کی اتنی تمنا ایسی ہوئی جو کبھی بھی نہیں ہوئی تھی میں اپنے سینہ کو اس لئے ابھار رہا تھا کہ شائد فرماویں کہ وہ شخص یہی ہے لیکن آنجناب (ص) نے علی بن ابیطالب (ّع) کی طرف التفات فرمایا پس انہیں کا دست مبارک اپنے مقدس ہاتھ میں لے کر پھر ارشاد فرمایا: وہ یہی ہے، وہ یہی ہے."
یہ اور اس کی امثال تو جناب رسالتمآب کے اقوال تھے. لیکن نزول آیت مباہلہ نے اد مطلب کو بالکل ہی تمام کر دیا ہے.
والسلام علی من إتبع الهُديٰ
تمت بالخیر به نستعین و هو خیر المعین
کمپوزنگ : ابو دانیال اعظمی بُرَیر
علم فراست انسان کی ہیئت و شکل سے اس کے اخلاق و صفات پر استدلال کرنے کو کہتے ہیں بسا اوقات اس کی تعریف یہ کہ جاتی ہے کہ وہ ایسی صنعت ہے جو معرفت اخلاق و عادات انسانی کی بنیاد یے اس علم کی سچائی پر ان آیات کریمہ سے استدلال کیا گیا ہے. "إن في ذلك لآيات للمتوسمين" «اس میں نشانیاں ہیں غور و تامل کرنے والوں کیلئے جو علامات سے پہچان لیتے ہیں» (سورۃ الحجر: 75) اور اس آیت سے بھی "تعرفنهم بسیماهم" «اے پیغمبر! آپ ان کو ان کی علامتوں سے پہچان لیتے ہو» (سورة البقرة: 273) اور اس آیت سے بھی "ولتعرفنهم فی لحن القول" «ان کو تن چھپا چھپا کے باتیں کرنے سے پہچان لو گے» (سورة محمد: 30) چونکہ فرس کے معنی چاک کر ڈالنے کے ہیں اور یہ علم حجاب کو چاک کر کے اخلاق کا چہرہ دکھلا دیتا ہےاس لئے اس کو علم فراست کہتے ہیں یہ علم فراست دو قسموں کا ہے ایک تو سیکھنے سے نہیں آتا بلکہ وہ الہام کی قسم سے یا وحی قلبی کی صورت میں ہوتس ہے یا رؤیائے صادقہ کے سبب سے ہوتا ہے بہر حال وہ محتاج تعلیم نہیں ہوتا ہے اسی کی طرف پیغمبر نے اپنے قول "المومن ینظر بنور اللہ" «مومن نور خدا کے ذریعہ سے دیکھتا ہے» اور اس قول میں کہ "إتقوا فراسة المومن" «فراست مومن سے ڈرتے رہو» میں اشارہ کیا ہے.
دوسری قسم وہ ہے جس میں تعلیم و تعلّم کو دخل ہے اس قسم کی فراست الوان و اشکال اور مزاج و اخلاق و افعال طبعی کے درمیان میں جو اتّحاد یا اختلاف ہے اس کے پہچان لینے سے ہوتی ہےجس شخص کو اس کا علم حاصل ہوجاتا ہے وہ فراست میں ماہر ہو جاتا ہء در حقیقت فراست عقل کے فروع میں سے ہے جس قدر عقل مجں کمال ہوگا اتنا ہی فراست قوی ہو گی اسی وجہ سے عرب فراستیں اوروں کی فراستوں سے قوی ہیں امام ماوردی نے کتاب "أعلام النبوۃ" میں ذکر کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
"فأول من أسس لهم (بعدنان) مجدا و شيد لهم ذكرا معد بن عدنان حين اصطفاه بختنصر و قد ملك أقاليم الأرض و كان قد هم بقتله حين غزا بلاد العرب فأنذره نبي كان في وقته بأن النبوة في ولده فاستبقاه و أكرمه و مكنه و استولى على تهامة بيد عالية و أمر مطاع و فيه يقول مهلهل الشاعر:
غنيت دارنا تهامة بالأمس
وفـيهـا بـنـو مــعــد حـلـولا
ثم ازداد العز بولده نزار وانبسطت به اليد وتقدم عند ملوك الفرس واجتباه [تَسْتَشِفُّ] ملك الفرس وكان إسمه خلدان و كان مهزول البدن فقال الملك: ما لك يا نزار؟ و تفسيره في لغتهم: يا مهزول فغلب عليه هذا الإسم و فيه يقول "قمعة بن الياس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان":
جديسا خلفناه وطسما بأرضه
فأكرم بنا عند الفخار فخار
فنحن بنو عدنان خلدان جدنا
فسماه تَسْتَشِفُّ الهمام نزارا
فسني نزارا بعد ما كان إسمه
لدى العرب خلدان بنوه خيارا
و كان لنزار أربعة أولاد: مضر و ربيعة و إياد و أنمار فلما حضرته الوفاة وصاهم فقال:
يا بني هذه القبة الحمراء و ما أشبهها لمضر
وهذا الخباء الأسود وما أشبهه لربيعة
وهذه الخادمة وما أشبهها لأياد
وهذه الندوة و المجلس و ما أشبهها لأنمار
فإن أشكل عليكم واختلفتم فعليكم بالأفعى الجرهمي بنجران.
فاختلفوا في القسمة فتوجهوا إليه فبينما هم يسيرون
إذ رأى مضر كلأ قد رعي فقال: إن البعير الذي رعى هذا الكلأ لأعور
وقال ربيعة: هو أزور
و قال إياد: هو أبتر
و قال أنمار: و هو شرود
فلم يسيروا قليلا حتى لقيهم رجل يوضع على راحلته فسألهم عن البعير
فقال مضر: هو أعور قال نعم
وقال ربيعة: هو أزور قال: نعم
وقال إياد: هو أبتر قال نعم
وقال أنمار: هو شرود قال نعم وهذه والله صفة بعيري فدلوني عليه
فقالوا: والله ما رأيناه قال: قد وصفتموه بصفته فكيف لم تروه.
و سار معهم إلى نجران حتى نزلوا بالأفعى الجرهمي فناداه صاحب البعير هؤلاء أصحاب بعيري وصفوه لي بصفته وقالوا: لم نره فقال لهم الأفعى الجرهمي: كيف وصفتموه ولم تروه؟.
فقال مضر: رأيته يرعى جانبا و يترك جانبا فعرفت أنه أعور.
و قال ربيعة: رأيت إحدى يديه ثابتة الأثر و الأخرى فاسدة الأثر فعرفت أنه أزور.
و قال إياد: رأيت بعره مجتمعا فعرفت أنه أبتر.
و قال أنمار: رأيته يرعى المكان الملتف ثم يجوزه إلى غيره فعرفت أنه شرود.
فقال الجرهمي لصاحب البعير: ليسوا أصحاب بعيرك فاطلب من غيرهم ثم سألهم من هم فأخبروه أنهم بنو نزار بن معد فقال: أ تحتاجون إلي و أنتم كما أرى؟ فدعا لهم بطعام فأكلوا و بشراب فشربوا و شرب
فقال مضر لم أر كاليوم خمرا أجود لو لا أنها نبتت على قبر
وقال ربيعة: لم أر كاليوم لحما أطيب لو لا أنه ربي بلبن كلبة
وقال إياد: لم أر كاليوم رجلا أسرى لولا أنه يدعى لغير أبيه
وقال أنمار: لم أر كاليوم كلاما أنفع في حاجتنا
وسمع الجرهمي الكلام فتعجب لقولهم وأتى أمه فسألها فأخبرته: أنها كانت تحت ملك لا ولد له فكرهت أن يذهب الملك فأمر كنت رجلا من نفسها كان نزل بها فوطئها فحملت منه به
وسأل القهرمان عن الخمر فقال من كرمة غرستها على قبر أبيك
وسأل الراعي عن اللحم فقال: شاة أرضعتها بلبن كلبة لأن الشاة حين ولدت ماتت ولم يكن ولد في الغنم شاة غيرها
فقيل لمضر من أين عرفت الخمر ونباتها على قبر؟ قال: لأنه أصابني عليها عطش شديد.
وقيل لربيعة من أين عرفت أن الشاة ارتضعت على لبن كلبة؟ قال: لأني شممت منه رائحة الكلب.
و قال لأیاد: من أين عرفت أن الرجل يدعى لغير أبيه؟ قال لأبي رأيته يتكلف ما يعمله.
ثم أتاهم الجرهمي وقال: صفوا لي صفتكم فقصوا عليه ما أوصاهم به أبوهم نزار
فقضى لمضر بالقبة الحمراء والدنانير والإبل وهي حمر فسمي مضر الحمراء
وقضى لربيعة بالخباء الأسود و الخيل الدهم سمي ربيعة الفرس
وقضى لإیاد بالخادمة الشمطاء و الماشية البلق
و قضى لأمار بالأرض و الدراهم ."
«یعنی پہلا شخص جس نے مجد و شرف عدنان کی نیو رکھی اور ان کی یادگار اور ذکر کی تشئید کی وہ "معد بن عدنان" تھے کیونکہ بخت النصر بادشاہ نے اقالیم زمین کا مالک اور حکمران تھا انہیں منتخب کیا تھا اور اپنے مخصوصین میں قرار دیا تھا جب اس نے عرب سے جنگ کی تھی تو اس نے معد کے قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا لیکن اس وقت میں جو پیغمبر (غالباً دانیال پيغمبر ع) تھے انہوں نے معد کے قتل کرنے سے یہ کہہ کے روک دیا کہ اس کو قتل نہ کرو کیونکہ پیغمبری اس کی اولاد میں ہے. بخت النصر نے نعد جو باقی رکھا اور ان کی بڑی عزت و اکرام کی اور ان کو تہامہ پر حکومت دیدی اور وہ وہاں کے حاکم بالا دست مقرر ہوئے اسی واقعہ کو مہلہل شاعر نے اپنے اس شعر میں نظم کیا ہے: "مقام تہامہ میں کل ہمارا گھر آباد تھا جس میں اولاد معد اترے ہوئے تھے."
اس کے بعد خاندانی عزت کا ستارا نزار کی وجہ سے اور چمکا اور حکومت کا ہاتھ اور زیادہ پھیلا اور وہ بادشاہان فارس کے مقرب ہوئے اور ان کو تَسْتَشِفُّ بادشاہ فارس نے منتخب کیا نزار کا نام در اصل خلدان تھا اور وی خلیقۃً لاغر اندام تھے بادشاہ نے ایک دن ان سے کہا: اے نزار! تمہیں کيا ہو گیا ہے؟ اور فارس کی زبان میں نزار لاغر اندام کو کہتے ہیں آخر کار ان کے نام پر یہ صفت غالب آئی اور ان کا نام نزار ہو گیا.
قمعہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان نے اس وجہ تسمیہ کو اپنے ان اشعار میں نظم کیا ہے:
ہم نے طسم و جدیس کی قائم مقامی کی اور جب مقام فخر ہو تو ہم سے زیادہ فخر کے اعتبار سے کون کریم تر ہوگا.
ہم عدنان کی اولاد ہیں اور ہمارے جد کا نام خلدان تھا ان کا بادشاہ شتاسف نے نزار نام رکھا.
پہلے ان کا نام خلدان تھا پھر ان کا نام نزار رکھا گیا اور ان کی اولاد بہترین اولاد ہیں. نزار کے چار بیٹے تھے: ۱- مضر ۲- ربیعہ ۳- ایاد ۴- انمار جب ان کا وقت وفات قریب آیا تو ان کو یوں وصیت کی: کہا کہ اے میرے فرزندو! یہ سرخ قبہ اور جو اس کے مانند ہو وہ مضر کا مال ہے اور یہ سیاہ خیمہ اور اس کے مانند ہے وہ ربیعہ کا مال ہے اور یہ خادمہ اور جو اس کے مانند ہے وہ ایاد کا مال ہے اور یہ مجلس اور نشستگاہ اور جو اس کے مانند ہے وہ انمار کا ہے اگر پھر آپس میں نزاع ہو تو افعیٰ جرہمی کے پاس جانا جو نجران میں ہے. بعد میں نزار نے انتقال کیا اور اولاد میں اختلاف یوا اور ان سب نے فیصلہ کیلئے نجران کا قصد کیا وہ سب لوگ راہ سفر طے کر رہے تھے کہ اتنے میں مضر کی آنکھ چری ہوئی گھاس پر جا پڑی پس کہا کہ وہ اونٹ جس نے گھاس جو چرا ہے اعور یعنی کانا تھا، ربیعہ نے کہا کہ وہ ازور یعنی اس کا پاؤں مڑا ہوا تھا، ایاد نے کہا کہ وہ ابتر یعنی دن بریدہ تھا، انمار نے کہا کہ وہ شرود یعنی بھاگا ہوا تھا. یہ باتیں کر کے تھوڑی دور چلے تھے کی سواری پر ایک شخص ملا جو تیز ہانکتا ہوا چلا آتا تھا اس نے ان سب سے پوچھا کہ میرا اونٹ تم لوگوں نے نہیں دیکھا؟
مضر نے نے کہا: وہ کانا تھا؟. اس سوار نے کہا: ہاں ایسا ہی تھا.
ربیعہ نے کہا: اس کا ایک پاؤں مڑا ہوا تھا؟ اس سوار نے کہا: ہاں.
ایاد نے کہا: اس کی دم کٹی ہوئی تھی؟ اس سوار نے کہا: ہاں.
انمار نے کہا: وہ بھاگا ہو تھا؟.اس سوار نے کہا: ہاں، یہ سب صفتیں میرے ہی اونٹ میں جمع تھیں، تو اچھا تو وہ کہاں ہے؟
مجھے اس کا پتہ بتاؤ. ان لوگوں نے کہا خدا کی قسم ہم نے اس اونٹ کو نہیں دیکھا. اس سوار نے کہا: یہ کیوں کر ہو سکتا ہے کہ تم نے تمام صفتیں بتائیں اور پھر بھی نہیں دیکھا؟ آخر کو وہ بھی ساتھ ہو لیا یہاں تک کہ سب کے سب نقام نجران میں پہونچے اور افعیٰ جرہمی کی خدمت میں باریاب ہوئے. اس اونٹ والے نے افعیٰ جرہمی سے پکار کر کہا: ان لوگوں سے میں اپنے اونٹ کا مطالبہ کرتا ہوں انہوں نے اسے لیا ہے کیونکہ اس کے تمام اوصاف ان لوگوں نے بتائے ہیں. افعیٰ جرہمی نے کہا: تم نے بغیر دیکھے ہوئے اس کے اونٹ کے اوصاف کیوں کر بیان کئے؟
مضر نے کہا: میں نے اس کے چرے ہوئے مقام دیکھے ایک جانب چرتا ہے دوسری جانب کو چھوڑتا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ ایک آنکھ نہیں ہے.
ربیعہ نے کہا: میں نے زمیں پر اس کے ہاتھوں کے نشان کو غور کیا تو ایک ہاتھ کا نشان زمین پر ثبت ہے اور دوسرے کا نشان اچھی طرح نہیں ابھرتا اس لئے میں سمجھا کہ اس کا ایک ہاتھ مڑا یوا ہے.
ایاد نے کہا: میں نے اس کی مینگنیاں مجمتع دیکھیں چِھٹکی ہوئی نہیں ہے اس لئے نیں سمجھا کہ اس کی دم نہیں ہے.
انمار نے کہا: میں نے یہ بات دیکھی کہ ایک گھنی ہوئی جگہ کو چرتا ہے پھر اس کو چھوڑ کر دوسری جگہ پہونچ جاتا ہے اس لئے میں سمجھا کہ وہ بھاگا ہوا یے. افعیٰ جرہمی نے دعوا کرنے والے سے کہا: تمہارا اونٹ انہوں نے نہیں لیا کسی اور سے اس کا مطالبہ کرو. پھر ان لوگوں سے پوچھا کہ تم لوگ کون ہو اور میرے پاس کیوں آئے ہو؟ چاروں بھائیوں نے بتایا: ہم نزار بن معد کے بیٹے ہیں اور اس (میراث کی تقسیم کی) ضرورت سے آئے ہیں. افعیٰ جرہمی نے کہس: کیا تم لوگ میرے فیصلہ کے محتاج یو حالانکہ تمہاری ذکاوت اور ذہانت جو میں دیکھ چکا ہوں.
اس گفتگو کے بعد اس نے کھانا منگوایا، شراب منگوائی سب نے کھایا پیا جب کھانے پینے سے فارغ ہوئے.
تو مضر نے کہا: آج کی ایسی عمدہ شراب میں نے کبھی نہیں پی عیب فقط اتنا تھا کہ جس سے شراب بنائی گئی ہے وہ درخت کسی قبر پر ہے.
ربیعہ نے کہا: آج کا سا خوش مزہ گوشت میں نے کبھی نہیں کھایا عیب اتنا ہے کہ اس بکری کو کتیا نے دودھ پلایا تھا.
ایاد نے کہا: اس مرد سے بہتر میں نے جواں مرد نہیں دیکھا عیب اتنا ہے کہ جو اس کا باپ نہیں ہے اس کی طرف یہ منسوب ہے.
انمار نے کہا: میں نے آج کے دن جا سا کلام جو ہماری حاجت کیلئے زیادہ مفید ہو دیکھا نہیں ہے.
افعیٰ جرہمی یہ سب باتیں سنتا تھا اس کو ان کی باتوں پر نہایت تعجّب ہوا.
پہلے اپنی ماں کے پاس گیا اس سے اپنے باپ کا حال پوچھا اس نے بیان کر دیا کہ بادشاہ کے یہاں اولاد نہ ہوتی تھی مجھے برا معلوم یوا کہ ملک ضائع ہو جائے گا اس لئے میں نے ایک ایسے مہمان سے توسل کیا جو شاہی مہمان تھا اور تو اسی کا فرزند ہے.
پھر شرابخانہ کے داروغہ سے پوچھا کہ یہ شراب کیسی تھی؟ داروغہ نے کہا: اس انگور سے بنی تھی جو تیرے باپ کی قبر پر میں نے لگایا تھا.
پھر چراواہے سے پوچھا: گوشت کیسا تھا؟ چرانے والے نے کہا': بکری کا مگر اس کو کتیا نے دودھ پلایا تھا کیونکہ جب اس بکری کی ماں مری تھی تو کسی اور بکری کے دودھ نہیں تھا.
پس جب مضر سے پوچھا گیا کہ تم نے کیوں کر ھانا کہ شراب اس انگور کی ہے جو قبر پر اگی ہے؟ تو انہوں نے کہا: جس وقت میں نے شراب پی تھی تو مجھ پر پیاس کا غلبہ یوا تھا.
ربیعہ سے پوچھا کہ تم نے کیوں کر سمجھا کی اس بکری کو کتیا نے دودھ پلایا ہے؟ تب انہوں نے کہا: مجھے گوشت سے کتے کی بو محسوس ہوئی.
ایاد سے پوچھا کہ تم نے کیوں کر جانا کہ اس کا باپ وہ نہیں ہے جس سے یہ منسوب ہے؟ تو انہوں نے کہا: میں نے اس کو دیکھا کہ اپنے کام کو بتکلّف انجام دیتا ہے.»
افعی جرهمی کے معنی دهخدا لغت میں
أَفـــعـــیٰ جُـــرهَـــمـِــی
[اَ عا جُ هَ] (اِ خ)
اَفعیٰ بن حصین جُرهَمی: عرب کے زمانۂ قدیم کے دور جاہلیت میں ایک حکیم ہے کہ جو نزار یعنی ربیعہ و مضر کا ہمعصر تھا اور نجران میں زندگی بسر کرتا تھا اور عرب اپنے اختلافات کے حل و فصل کیلئے اسی کے پاس آتے تھے اور اس کے فیصلوں جو رد یا تسلیم کرنے سے انکار نہیں کرتے تھے. (منقول از الاعلام زرکلی).
(یہ ایک نہایت پر معنی بات ہے. جس پر سے ہم کبھی نقاب اتاریں گے ممکن ہے کہ اسی مضمون میں وہ مقام آجائے اور شائد ارباب ذہن و ذکا اس کلام ایاد پر غور کر کے خود ہی نتیجہ پر پہونچ جائیں.)
اس کے بعد جرہمی نے حسب وصیت نزار ان کا فیصلہ کر دیا اس حکایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ فراستیں اولاد نزار میں آئندہ کرامتوں کی پیش خیمہ تھیں اور اگر اس کو کرامت نہ کہئے تو کرامت نما ضرور تھیں.
عرب کی تاریخ میں برابر ان باتوں کے نشانات ملتے ہیں اور اعضائے ظاہری میں بہت کچھ قدرت نے باطن کے سراغ رکھے ہیں جن کو وہ لوگ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں جن کے پاس عقل سلیم اور نظر صحیح ہے اور یہ فراستیں قبل و بعد برابر باقی تھیں چنانچہ طبقات ابن سعد میں ہے:
"وقال قوم من بنی مدلج لعبد المطلب احتفظ بهفانا لم نر قدما أشبه بالقدم التي في المقام منه"
يعنی بنی مدلج میں سے ایک جماعت نے جناب عبد المطلب سے یہ بات کہی کہ اپنے پوتے کی حفاظت کرتے رہئے گا کیونکہ اس کے قدم سے زیادہ کوئی قدم اس قدم کے مشابہہ نہیں ہے جو مقام (ابراہیم ع) میں ہے.
اس فراست کوئی حد معلوم ہوتی ہے کہ ان لوگوں نے جناب ابراہیم (ع) کا قدم مبارک نہیں دیکھا تھا نشان قدم مقام میں دیکھا تھا لیکن اس قدم سے جناب رسالتمآب (ص) کے قدم پر مشابہت کا حکم کر رہے تھے در آن حالیکہ آپ کے قدم صغر سن میں سن ہی مناسبتطسے عریض و طویل رہے ہوں گے اور اس سے استدلال آپ کی نبوتت پر کرتی تھی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو شخصوں میں مشابہت ہو تو ان کے اعمال میں بھی مشابہت ہو گی چنانچہ اسی مشابہت قدم کی وجہ سے عمل خلیل اور عمل حبیب ایک ٹھہرا یہ دوسری بات ہے کہ ایک کا مرتبہ دوسرے سے زیادہ ہو. جب بنی مدلج نے عبد المطلب سے خبر مذکور بیان کی تھی تو جناب عبد المطلب نے حضرت ابو طالب سے کہا:
"إسمع ما يقول هؤلاء"
ابو طالب سن رہے رکھ یہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں چنانچہ حضرت ابو طالب آپ کی حفاظت کیا کرتے تھے یونہی ایک مرتبہ کا اور واقعہ ہے جو طبقات جلد اول میں مذکور ہے کہ جناب رسالتمآب کو حضرت ابو طالب چھوڑ کر سفر کرنے والے تھے حضرت ختمی مرتبت نے فرمایا کہ چچا میں یہاں کس کے پاد رہوں گا؟ جناب ابو طالب کا دل اس کلمہ سے بہت نرم ہوا اور انہوں نے سواری پر اپنا ردیف بنا لیا.
"فخرج به فنزلوا علي صاحب دير فقال: صاحب الدير ما هذا الغلام منك؟ قال: ابني. قال: ما هو بابنك و لا ينبغي ان يكون له اب حي؟ قال: و لم؟ قال: لأن وجهه وجه نبي و عينه عين نبي. قال: و ما النبي؟ قال: الذي يوحي إليه من السماء فينبي به أهل الإرض. قال الله أجل مما تقول قال فإتق عليه اليهود"
يعني جب جناب رسالتمآب (ص) کو حضرت ابو طالب لے کے نکلے تو ایک صاحب دیر کے یہاں فروکش ہوئے صاحب دیر نے جناب ابو طالب سے کہا کہ یہ لڑگا تمہارا کون ہے/ آپ نے فرمایس کہ میرا بیٹا ہے. اس نے کہا کہ ہرگز تمہارس بیٹا نہیں. اس کے باپ کو زندہ نہ ہونا چاہئے حضرت ابو طالب نے کہا کہ کیوں؟ س نے کہا کہ اس لئے کہ اس کا چہرہ پیغمبر کا چہرہ ہے اور اس کی آنکھ پیغمبر کی آنکھ ہے. جناب ابو طالب نے کہا کہ نبی کیا چیز ہے؟ اس نے کہا کہ نبی وہ ہے جس پر آسمان سے وحی نازل ہوتی ہے اور اس کے مضمون سے وہ اہل زمین کو مطلع کرتا ہے.
وہاں سے کوچ کر کے پھر آگے بڑھے یہاں تک کہ ایک صاحب دیر کے یہاں فوکش ہوئے اس نے پھر وہی سوال کیا ھو راہب اول نے سوال کیا تھا اور حضرت ابو طالب نے بعینہ وہی جواب دیا اس نے انکار کیا جناب ابو طالب نے اس سے بھی پوچھا کی میرا بیٹا کیوں نہیں ہو سکتا اور کیوں اس کے والد زندہ نہیں ہو سکتے؟ اس نے بھی یہی کہا:
"لأن وجهه وجه نبي و عينه عين نبي"
یعنی اس لئے کہ اس کا چہرہ نبی کا چہرہ ہے اور اس کی آنکھ نبی کی آنکھ ہے. تب حضرت ابو طالب نے جناب رسالتمآب سے کہا:
"یا إبن أخي ألا تسمع ما یقولون. قال: یا عم لا تنکر الله قدرۃ"
یعنی میرے بھتیجے تم ان لوگوں کی باتیں سنتے ہو. انہوں نے کیا: چچا خدا کی قدرت کا انکار نہ کرنا چاہئے.
یہاں سے ایک بڑا فائدہ معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ پیغمبروں کے اعضا و جوارح کی ساکت خدا کی طرف سے ایسی ہوتی ہے جو ان کی نبوت پر دلالت کرتی ہے اس میں خلق کی رائے کو کوئی دخل نہیں بلکہ منصب کے موافق فطرت اعضا و جوارح میں کام کرتی ہے اور یہ ایک شاہد محسوس ہے جیسا کہ اور شکاری جانوروں کے جوڑ بندوں کی ساخت اور جانوروں سے ممتاز اور علاحدہ ہوتی ہے جن سے یہ مطلب اچھی طرح ہویدا ہے کہ وہ کسی اور کام کیلئے پیدس کئے گئے ہیں. اب جب نوبت کلام یہاں تک پہونچی تو یہ بھی جان لینے کے قابل بات ہے کہ مشابہت اگر دو چیزوں میں یا چند چیزوں میں موجود ہو تو کام میں اتحاد پیدا ہوتا ہے ابھی ابھی آپ نے راہب کا قول سنا کہ اس کا چہرہ نبی کا چہرہ ہے اور اس کی آنکھ نبی کی آنکھ ہے تو یہ قانون تشابہ جو انبیا کے چہروں میں اور آپ کے چہرہ میں اور ان کی آنکھ میں اور آپ کی آنکھ میں موجود تھا وہ اس بات پر دلالت کرتا تھاچکہ ان دونوں میں اتحاف عمل و کار مشترک ہے اور اس مطلب جو جرجی زیدان نے اپنی کتاب "الفراسة" كے صفحہ نمبر ۳۲ اور ۳۳ پر نہایت واضح طریقہ پر بیان کیا ہے. میں اس مضمون میں اس کی بعض بعض اقتباسات ذکر کرتا ہوں وہ کہتے ہیں:
"وهنا موضع نظر في أمرين: ١- إن الأنواع المتشابهة شكلا تتشابه عملا و العكس بالعكس"
يعني وہ نوعیں جو شکل میں متشابہ ہوتی ہیں وہ عمل میں بھی متشابہ ہوتی ہیں اور اگر ایسا نہیں ہے تو عمل میں بھی متشابہ نہیں ہے.
٢- إن التشابه أکثر وضوحا في الجماد و مما في النبات و في هذا أوضح مما في الحيوان"
يعني جمادات میں باہم مشابہت زیادہ ہے اور نباتات میں اس سے کم اور حیوانات میں اس سے (بھی) کم.
"فالتشابه قريب وثابت في الأجسام الجامدة ثم يبعدو يتشوش في الأحياء و يزداد تشويه كلما ارتقى في سلم الحيوة معنى ذلك إن أفراد النوع الواحد من المخلوقات يزيد الإختلاف بين ظواهرها بنسبة التفاوت في أعمالها فالجماد قليل العمل بسيط التركيب و الإختلاف بين أفراده قليل و النبات وظائفه مركبته و أعماله ارقي فتنوعاته أكثر و أما الحيوان فانه ارقي من النبات و وظائفه أكثر و الإختلاف بين أفراده أبعد."
يعني تشابہ اجسام جامدہ میں قریب قریب ثابت ہے پھر یہ ناپیدس ہوتا جاتا ہے جیسا جیسا زینہ ترقی پر چڑھتی جاتی ہیں اور اس سے مقصود یہ ہے کہ ایک ہی قسم کے افراد ہیں اختلاف ظاہر میں اتنا ہی ہوتا ہے جتنا ان کے اعمال میں اختلاف ہوتا ہے چونکہ جماد قلیل العمل اور بسیط الترکیب ہے اس لئے اس کی افراد میں اختلاف کم ہے اور چونکہ بناتات اس سے بلند ہیں اور اس کے وظائف مرکب ہیں اس لئے ان میں اختلاف زیادہ ہے اور چونکہ حیوانات کے اعمال نباتات سے زیادہ ہیں اس لئے ان کا اختلاف بناتات سے بھی زیادہ ہے یہاں تک کہ اس نے بیان کیا ہے:
"وإن الإنسان فأنه أكثر عملا من الجميع"
يعني انسان کے اعمال اور وظیفہ تمام مخلوقات ما تحت سے زیادہ ہیں لہذا نتیجہ یہ نکلے گا کہ ان کی افراد میں اختلافات سب سے زیادہ ہوں گے. اور تمام کلام کا نتیجہ یہ نکلا جو اس نے اپنی اس عبارت میں بیان کیا ہے:
"بناء علی ما تقدم أن ظواهر الأجسام تختلف بإختلاف بواطنها فكلما تقرعت أعمال الجسم تعددت ظواهره و ما ذلك إلا لعلاقة ثابتة بين ظواهر الأجسام و بواطنها و الخلق الظاهر يدل على الخلق الباطن وهي الباطن"
يعني نتیجہ بیانات سابقہ یہ ہے کہ جب باطن میں اختلاف ہوتا ہے تو ظاہر میں بھی اختلاف پیدا ہوتا ہے اور جب باطنی کام پڑیں گے تو ظاہر میں اس کی جھلک نظر آئے گی اور یہ اس علاقہ کے سبب سے ہے جو باطن و ظاہر میں ہے اور خلق ظاہر خلق باطن پر دلالت کرتا ہے.
بس اسی کا نام "فراست" ہے.
میں کہتا ہوں کہ ان اصوک کے دیکھتے ہوئے جب انسانی افراد میں با وصف اسباب اختلاف اگر پھر کسی نقطہ پر اشتراک ہو جائے تو اتحاد عمل پر دلالت کرے گا جس کا اعتراف خود اسی مصنف نے کیا ہے. چنانچہ صفحہ ۵۱ پر لکھتے ہیں:
"و إذا بصرت رجلا طويل القامة عريض المنكبين قلت انه شجاع"
جب تم کسی مرد طویل القامت "عريض المنكبين" کو دیکھو تو تم سمجھو گے کہ یہ شجاع ہے چنانچہ جتنے اس صفت کے ملیں گے شجاعت میں متحد ہوں گی. یونہی اور اخلاق پر خط نظری صفحات چہرہ پر پڑیں گے اور دلیلیں قائم کریں گے.
"وقال جامع بن شداد كان رجل منا يقال له طارق فأخبر أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم بالمدينة فقال هل معكم شيء تبيعونه قلنا هذا البعير قال بكم قلنا بكذا وكذا وسقا من تمر فأخذ بخطامه وسار إلى المدينة فقلنا بعنا من رجل لا ندري من هو ومعنا ظعينة فقالت أنا ضامنة لثمن البعير رأيت وجه رجل مثل القمر ليلة البدر لا يخيس بكم ..."
(شفاء القاضي عياض، ٣٠٨، چاپ قديم) و (الشفا بتعريف حقوق المصطفى، القاضي عياض، ١/ ٢٤٨، چاپ جديد)
چنانچہ خیر جامع بن شداد بیان کرتے ہیں: ہم میں ایک شخص طارق نام تھا وہ بیان کرتا تھا کہ اس نے پیغمبر (ص) کو مدینہ میں دیکھا تھا تو آپ نے فرمایا: تمہارے پاس بیچنے کی کوئی چیز ہے؟ میں نے کہا: ہاں! یہ اونٹ بیچتے ہیں. پوچھا: کتنی قیمت کو بیچتے ہو؟ ہم نے کہا: اتنے وسو خرمے کی (تعداد بتائی) آپ نے مہار اس اونٹ کی پکڑ لی اور اس اونٹ کو لے کر چلے جب آپ آگے بڑھے تو ہم نے کہا: افسوس اونٹ ایسے شخص کے ہاتھ بیچا جس کو ہم پہچانتے نہیں اوت ہمارے ساتھ ایک پردہ نشین خاتون تھی. اس نے کہا: میں اونٹ کی قیمت کی ضمانت کرتی ہوں. میں نے اس خریدنے والےطکے چہرہ کو دیکھا تو "وہ چودہویں رات کی چاند کی طرح" تھا. وہ قیمت کو تم سے روکے گا نہیں.
ناظرین خیال کر سکتے ہیں کہ چہرہ میں باین حسن و جمال جس کی تشبیہ بدر کامل سے دی ایسی علامتیں موجود تھیں جن کو دیکھ کر اس نے یہ حکم لگا دیا کہ جو کچھ خریدنے والے نے کہا اس پر وہ وفا ضرور ہی کرے گا اور اس کس اس شدت سے یقین ہوا کہ اس نے اس کی قیمت کی ضمانت کر لی.
اب جب ہم ان باتوں کو اجمالاً لکھ چکے تو اب ہم کہتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص جو پیغمبر کے حلیہ میں شریک ہو وہ متحد العمل ہوگا اس لئے کہ "فراست" اسی بات پر دلالت کرتی ہے.
حلیۂ مبارکہ خاتم النبیین (ص)
اردو ترجمہ
حلیۂ مبارکہ امیر المومنین (ع)
★ الشفاء قاضی عیاض ۱/ ۵۰
اور
★ استیعاب، شرح ابن الحدید، فصول المهمه
ربعة القد
/ ميانہ قد /
ربعة من الرجال
أنجل
/ بڑی آنکھیں /
أنجل
أدعج
/ کالی پتلی والی آنکھیں /
أدعج العينين
يَتَلأْلأُ وَجْهُهُ تَلأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ
/ چہرہ بدر سا روشن /
حسن الوجه كأنه القمر ليلة البدر
شَثْنَ الْكَفَّيْنِ
/ پُر گوشت ہتھیلیاں /
شثن الكفين
بَعِيدَ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبِينِ
/ سینہ چوڑا /
عريض المنكبين
كَثَّ اللِّحْيَةِ
/ گھنی داڑھی والا آدمی /
كث اللحية
ضَخْمَ الْكَرَادِيسِ
/ ہڈیوں کے سر موٹے تھے /
ضخم الكراديس
أَزَجَّ الْحَوَاجِبِ
/ قوسی ابرو جو طویل اور زیادہ بال رکھتا ہو /
أزج الحاجبين
يَخْطُو تَكَفُّؤًا
/ لہرا کے چلتے تھے /
إذا مشى تكفأ
بَادِنًا مُتَمَاسِكًا
/ پُر گوشت معتدل الخلق /
هو إلي السمن أميل
كَأَنَّ عُنُقَهُ جِيدُ دُمْيَةٍ فِي صَفَاءِ الْفِضَّةِ
/ گویا کہ گردن تراشی ہوئی تھی اور وہ چاندی کی صفائی میں تھی /
أغيد كأن عنقه إبريق فضةٍ
پیغمبر خدا (ص) کی هیبت
پیغمبر اکرم (ص) کی ہیبت روایت میں نقل ہوئی ہے:
"و فی حدیث ابن مسعود ان رجلاً قام بین یدیه فارعد فقال له هَوِّنْ عَلَيْكَ فَإِنِّي لَسْتُ بِمَلِكٍ"
يعني حدیث ابن مسعود میں ہے کہ جناب رسالتمآب (ص) کے سامنے ایک شخص کھڑا ہوا تو اس کے جسم میں ہیبت کے سبب سے لزرہ پڑ گیا پس آنحضرت (ص) نے فرمایا: سنبھل میں کوئی بادشاہ نہیں ہوں.
اسی رعب و جلالت کو کعب بن زہیر نے اپنے قصیدۂ طویلہ میں بیان کیا ہے:
لَــذاكَ أَهْـيَبُ عِـنْدي إذْ أُكَـلِّمُهُ
وقـيـلَ إنَّكَ مَـنْسوبٌ ومَـسْئُولُ
منْ خَادِرٍ منْ لُيُوثِ الأُسْدِ مَسْكَنُهُ
مِنْ بَطْنِ عَثَّرَ غِيلٌ دُونَهُ غِيلُ
يعني پیغمبر میری نظر میں زیادہ با رعب و اجلال ہیں (جب میں ان سے کلام کر رہا ہوں اور مجھ سے یہ کہہ دیا گیا ہے کہ تمہاری طرف بعض خطائیں منسوب کی گئی ہیں اور تم سے پوچھی جائیں گی.) اس شیر بیشہ سے جس کا مسکن مقام عثّر (جو شیروں کی نشو و نما کا مقام ہے.) کے بیشوں میں سے ہے جس کے پاس اور شیروں کے بیشہ ہیں.
اسی ہیبت کی تعبیر آپ کے حلیہ مبارکہ میں ہے "وکان فخماً مفخماً" یعنی عظیم تھی اور عظیم سمجھی جاتی تھی.
امیر المومنین (ع) کی هیبت
امير المومنين (ع) كي ہیبت روایت میں نقل ہوئی ہے:
"وقال معاوية لقيس بن سعد: رحم الله أبا حسن، فلقد كان هشا بشا، ذا فكاهة قال قيس: نعم، كان رسول الله (ص) يمزح، ويبتسم إلى أصحابه، وأراك تسر حسوا في ارتغاء (يسر حسوا في ارتغاء: الارتغاء: شرب الرغوة، وأصله الرجل يؤتى باللبن، فيظهر أنه يريد الرغوة خاصة ولا يريد غيرها، فيشربها وهو في ذلك ينال من اللبن. وهو مثل يضرب لمن يريك أنه يعينك وإنما يجر النفع إلى نفسه (مجمع الأمثال: ٣/ ٥٢٥/ ٤٦٨٠)، وتعيبه بذلك! أما والله لقد كان مع تلك الفكاهة والطلاقة أهيب من ذي لبدتين قد مسه الطوى، تلك هيبة التقوى، وليس كما يهابك طغام (الطغام: أوغاد الناس وأرذالهم (تاج العروس: ١٧/ ٤٤١) أهل الشام (شرح نهج البلاغة: ١/ 25.)." (موسوعة الإمام علي بن أبي طالب (ع) في الكتاب والسنة والتاريخ الريشهري ٩/ ١٤١ و ١٤٢)
يعنب معاویہ نے قیس بن سعد سے کہا: خدا علی (ع) پر رحم کرے نہایت ہی خوش و شاد رہتے تھے. قیس نے کہا: پیغمبر خدا (ص) بھی اصحاب میں آپ مزاح اور تبسم فرمایا کرتے تھے اور میں یہ دیکھتا ہوں کہ تو آنحضرت کی بلندیوں کو چھپاتا ہے اور اس کا ذکر تو آپ کی معیوب قرار دینے کیلئے کرتا ہے. خدا کی قسم باین مشابہت رخ مبارک و طلاقت چہرہ آنحضرت کی ہیبت اس شیر سے کہیں زیادہ تھی جو گرسنہ ہو اور یہ ہیبت جو امیر المومنین (ع) میں تھی وہ تقوائے الہی کی ہیبت تھی نہ کہ اس طرح کی جد سے تجھے شام کے بدمعاش ڈرتے ہیں.
اتنے نقاط اشتراک کے بعد اور اتحاد عمل کی دلیل کیا ہوگی اگر دلیل ختم نبوت نہ ہوتی تو ملتی ہوئی تصویر ہی سہی لیکن نبوت کے نفی کے بعد اتحاد عمل اور کام کا اشتراک اس کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے کہ وزارت متعلق ہو اور یہی فراست اور علم قیافہ کا حکم ہے. جس پر جاننے والے اتفاق کرتے ہیں.
خیر یہ تو وہ جہات ہیں جن سے فراست اتحاد کا حکم دیتی تھی اور ارباب فراست و قیافہ پر ان کے مذاق کی بنا پر حجت تھی لیکن پیغمبر (ص) تو دو نفسوں کی اتحاد کا حکم دیتا تھا اور یہ ایک عجیب و غریب بات ہے کہ ان لوگوں کیلئے بھی حجت موجود ہے جو ان باتوں کی حجیت تسلیم نہ کریں. چنانچہ مناقب خوارزمی میں صفحہ نمبر ۸۱ پر یہ روایت نقل ہوئی ہے:
"عن عبد الرزاق عن معمر بن طاووس عن أبيه عن المطلب بن عبد الله بن خطيب قال: قال رسول الله لوفد ثقيف حين جاؤه لتسلمن أو ليبعثن الله رجلا أو قال مثل نفسي فليضربن أعناقكم بالسيف و ليسبين ذراريكم ولياخذن أموالكم. قال عمر بن الخطاب فوالله ما تمنيت الأمارة إلا يومئذ جعلت أنصب صدري له رجاء أن يقول هو هذا قال فالتفت إلي علي بن أبي طالب فأخذه بيده ثم قال هو هذا هو هذا."
يعني سند مذکور سے أبو القاسم محمود بن عمر الزمخشری نے روایت کی ہے:
"جناب رسالتمآب (ص) نے ثقیف کے وفد سے جبکہ وہ حاضر خدمت ہوئے ہوئے. تو آنحضرت (ص) نے فرمایا: تم لوگ اسلام لاؤ ورنہ خدا ایک ایسے مرد کو بھیجے گا جو مجھ سے ہوگا یا یہ ارشاد فرمایا: جو میرے نفس کے مانند ہوگا وہ تمہاری گردنیں تلوار سے مارے گس اور تمہاری ذریتوں کو ادیر کرے گا اور تمہارے مالوں کو چھین لے گا. عمر بن خطاب کا بیان ہے: اس موقع مجھے امارت کی اتنی تمنا ایسی ہوئی جو کبھی بھی نہیں ہوئی تھی میں اپنے سینہ کو اس لئے ابھار رہا تھا کہ شائد فرماویں کہ وہ شخص یہی ہے لیکن آنجناب (ص) نے علی بن ابیطالب (ّع) کی طرف التفات فرمایا پس انہیں کا دست مبارک اپنے مقدس ہاتھ میں لے کر پھر ارشاد فرمایا: وہ یہی ہے، وہ یہی ہے."
یہ اور اس کی امثال تو جناب رسالتمآب کے اقوال تھے. لیکن نزول آیت مباہلہ نے اد مطلب کو بالکل ہی تمام کر دیا ہے.
والسلام علی من إتبع الهُديٰ
تمت بالخیر به نستعین و هو خیر المعین
ایک تبصرہ شائع کریں