حسین بن علی حسنی شہید فَخ سنہ 169 ہجری


ماہ ذی الحجة الحرام کی 8 تاریخ


مقام فخ میں سادات علوی کی شہادت
سنہ 169 ہجری

"فَخ" ایک قریہ کا نام ہے جو مکہ سے ایک فرسخ یعنی تقریباً 6 كلو ميٹر کے دوری پر واقع ہے.
حسین بن علی بن حسن مثلث بن حسن مثنیٰ بن امام حسن مجتبیٰ بن علی مرتضی بن ابیطالب (ع) اپنے اہلبیت کے ساتھ اسی فَخ کے مقام پر مظلومانہ طریقہ سے شہید کر دئے گئے.
حضرت امام تقی الجواد (ع) نے فرمایا: ہم اہلبیت کیلئے کربلا کے بعد فاجعہ ہائلہ "فَخ" سے بڑھ کر کوئی بھی مقتل نہیں دیکھا گیا.
مورخین تحریر کرتے ہیں: حسین بن علی بن حسن سوم بن حسن دوم بن حسن سبط اکبر (ع) ایک نہایت ہی جلیل القدر و طبیعت کے اعتبار سے سخاوت كرنے والى شخصيت تھي جو اپنے اصحاب و اہلبیت جن کی تعداد تقريبا 300 افراد پر مشتمل تھی حج کے ارادہ کے ساتھ مدینہ سے باہر نکلے اور ہادی عباسی خلیفہ نے محمد بن سلیمان کو مقرر کیا کہ حسین بن علی حسنی کے ساتھ جنگ کرے. دونوں لشکر جب سرزمین فخ میں تو ترویہ کے روز ہی ایک دوسرے سے مقابلہ کیلئے صف آرائی کرنے میں مصروف ہوئے، دشمن کے لشکر نے علویوں کے قافلہ یعنی حسین بن علی حسنی پر حملہ کر دیا تو سید حسنی نے بھی ان دشمنوں کے حملہ کا جواب دیا.
ادھر دشمن نے سید حسنی کے قافلہ کو فریب دینے کیلئے راہ فرار اختیار کیا اور ایک وادی میں داخل ہو گئے پھر قافلہ علوی نے بھی ان کا تعاقب کیا اور وادی میں داخل ہوگئے ناگہاں دشمن کی ایک فوجی ٹکڑی نے عقب سے حملہ کر دیا اور علویوں کو محاصر میں لے لیا اور ایک ہی حملہ میں حسین بن علی حسنی کے اکثر اصحاب کو شہید کر دیا.
بالآخر قافلہ علوی مغلوب ہعا اور ان کے بعض افراف مجروح ہوئے اور بعض گرفتار ہو کر اسیر ہوئے اور بعض درجہ شہادت پر فائز ہوئے.
شہدائے فخ کے سروں کو ان کے جسد سے جدا کیا جن کی تعداد تقریباً ۱۰۰ افراد کی تھی اسیروں کے ساتھ الہادی کے پاس بھیجا گیا. خلیفہ عباسی نے بھی حکم دیا کہ اسیروں کی گردن اڑا دی جائے اور حسین بن علی حسنی نیز ان کے اہلبیت اور اصحاب کے گھروں کو آگ لگا دی گئی اور قافلہ علوی کے مال و اسباب لوٹ لیا.

قیام سادات حسنی
عباسی حکومت كے خلاف مسلحانه تحريک

حسین بن علی بن حسن مثلث بن حسن مجتبیی بن علی مرتضی بن ابیطالب (ع) نے سنہ 169 ہجری میں ہادی عباسی (دوران حکمرانی سنہ 168 سے 179 ہجری تک) کی حکومت کے خلاف شہر مکہ کے قریب فخ نام کے ایک منطقہ میں مسلحانہ تحریک شروع کی انہوں نے اپنے قیام کو مدینہ سے شروع کیا اور اس شہر پر تسلط موسم حج کے قریب کا ہی زمانہ تھا.
جن کے ہمراہ تین سو افراد شیعیان اور اقربا بھی مکہ کی طرف سفر کر رہے تھے.
وہ جب منطقہ فخ میں پہونچے تو خلافت عباسی کے سپاہیوں سے مقابل ہوا اور جو جنگ کی ہوئی اسی میں شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے ان کے ساتھ چند دیگر حسنی سادات بھی جام شہادت پینے میں شریک تھے.

شهیدِ فَخ

شهیدِ فَخ، بزرگان علوی میں امام حسن مجتبیٰ (ع) کی چند اولاد بھی آپ کے ساتھ شامل تھے کہ جن کی حمایت و تائید ائمہ اطہار (ع) نے بھی فرمائی ہے.

پیغمبر اسلام (ص) کی زبان مبارک سے شہدائے فخ کی شہادت سے با خبر فرمانا

نقل شدہ روایات کے علاوہ بھی خود پیغمبر اسلام (ص) کی زبان مبارک سے شہدائے فخ کیلئے خبریں اور پیشنگوئیاں فریقین کی کتابوں درج ہوئی ہیں.
جسے ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں: 
امام باقر (ع) سے ابو الفرج اصفهانی نے ایک روایت نقل کیا ہے که جس میں آنحضرت (ع) نے فرمایا: رسولخدا (ص) ایک زمانہ میں سرزمین فخ سے گزر رہے تھے تو وہاں قیام کیا، ابھی ایک رکعت نماز ادا کی اور جب دوسری رکعت نماز پڑھنے لگے تو آنحضرت گریہ و زاری کرنے لگے تو اصحاب رسول بھی گریہ و زاری کرنے لگے جب اس گریہ کا سب پوچھا تو حضور ختمی مرتبت نے فرمایا: جبرئیل نے مجھے خبر دی:
۱- «یا محمد! إِنّ رجلا مِنْ وُلْدک یُقْتَل فی هذا المکان و أجر الشهيد مَعَهُ، أجر الشهیدین» [مقاتل الطالبیین، ص ۳۶۷.]
«اے محمد! (ص) آپ کی اولاد میں سے ایک شخص کو اسی مقام پر قتل کیا جائے گا کہ جس کے ساتھ شہید ہونے والوں کو دو شہید کا اجر و ثواب دیا جائے گا.»
یہی ابو الفرج اصفهانی نے دوسری روایت میں نقل کیا ہے کہ جب پیغمبر اسلام (ص) سرزمین فخ پر پہونچے تو اپنے اصحاب کے ساتھ نماز میت پڑھی اور فرمایا:
۲- «یُقْتَلُ هٰهُنا رَجُلٌ مِنْ أهلِ بَیْتی فی عصابة مِنَ المؤمنین، ینزل لهم بأکفان و حنوط من الجنة، تسبق أرواحهم أجسادهم اِلَی الجَنّة» [مقاتل الطالبيين، ص ۳۶۶.]
«اسی مقام پر میری اہلبیت میں سے ایک شخص اپنے احباب و انصار کے ساتھ درجہ شہادت کو پہونچیں گے کہ انہی لوگوں کی خاطر کے کفن و کافور بہشت سے آئے گا اور ان کی ارواح انہی لوگوں کے جسد سے پہلے ہی بہشت کے طرف سبقت حاصل کریں گی.»
اسی طرح سے امام صادق (ع) نے مکہ کی طرف ایک سفر میں اختیار کیا تو انجناب کی اپنے اصحاب گفتگو کتابوں میں نقل ہوئی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا: ہم جس وقت سرزمین فخ پہونچے گے تو مجھے آگاہ کریں پس جب ہم مذکورہ مقام پر پہونچے تب آنحضرت پیادہ ہوئے وضو فرمایا اور نماز پڑھی پھر سوار ہوئے. امام کے کسی صحابی نے اس ایک عمل کی وجہ معلوم کیا. آنحضرت (ع) نے سابق الذکر روایت کو رسول اکرم (ص) سے اس کی خاطر نقل فرمایا. [مقاتل الطالبیین، ص ۳۶۶.]
جس وقت شہدائے فخ کے سرہائے اقدس کو حاکم وقت ہادی عباسی کے سامنے لایا جاتا ہے تو امام موسی کاظم بن جعفر صادق (ع) اور اولاد علوی کے چند بزرگ افراد بھی وہاں پر حاضر تھے تب آنحضرت نے شہید فخ کے بارے میں فرمایا:
«مَضی و الله مُسْلِماً صالحاً صوّاماً قوّاماً آمِراً بالمعروف، ناهِیاً عَنِ المُنْکر» [مقاتل الطالبیین، ص ۳۸۰. و بحار الأنوار، ۴۸/ ۱۶۴.].
"خدا کی قسم! (یہ شہید) صاحب اسلام، اعمال صالح انجام دینے والے، (دنوں کو) بہت زیادہ روزہ رکھنے والے، (راتوں کو عبادت کیلئے) بہت زیاد قیام کرنے والے، معروف کا حکم دینے والے، برائی سے باز رکھنے والے نے اس دنیا سے کوچ کیا."

جغرافیائی محل وقوع اور شهدائے فَخ کا مزار


فی الحال یہ مقبرہ یا مزار (شارع شہداء) شہدا روڈ پر واقع ہے اور اس پورے خطہ کو منطقہ شہدا کے نام سے ہی لوگوں کے درمیان  شہرت رکھتی ہے اور یہی نام بھی صحیح طور پر شہید فخ کی شہادت کی بنا پر موسوم ہوا ہے.
ایک فرعی سڑک شہدا روڈ کے زدیک کچھ فاصلہ پر شہدا اور تنعیم کے نام کا ایک چوراہا مقبرہ کی طرف جاتا ہے. مذکورہ مقبرہ یا مزار پاڑی کے نیچے ہی واقع ہے لیکن فی الحال اس کی ایک سمت میں مقبرہ یا مزار ہے تو دوسری سمت میں فوٹبال کا میدان واقع ہے نیز حقیقت میں یہی مقبرہ یا مزار "مسجد البوقری" کے عقب میں واقع ہے.

عبد الله بن عمر کا مقبرہ نمبر (٢)

مذکورہ مقبرہ تیراہوں کی وجہ سے تقسیم ہو کر ایک چھوٹے سے مثلث میں تبدیل ہو گیا اور اب اس کا ہی ختم ہونے کے مرحلہ میں ہے اس کا ایک حصہ سڑک سے ایک یا دو میٹر بلند ہے اور سنہ ۱۴۲۳ / ۲۰۰۲ کو اسی حصہ پر اطراف میں ایک چہار دیواری کے کھڑی کر کے اس پر ایک بورڈ پر شہری انتطامیہ کی طرف سے "عبد الله بن عمر کا مقبرہ رقم یعنی نمبر (۲)" تحریر کیا گیا ہے.
ادھر فاکہی کی تحریر کے مطابق "عبد الله بن عمر کا مقبرہ" تو "محصب" نامی علاقہ میں واقع ہے کہ جس کی تشریح آئندہ بیان کے قابل ہے. اس بورڈ پر مذکوره بالا شخص کے نام کی وجہ واضح و روشن نہیں ہے کہ کس مقصد کے تحت ایسا لکھا گیا ہے.؟!


محل قبر حسین بن علی حسنی (ع) شهیدِ فَخ

شہدائے فخ کے قبرستان کا اصلی حصہ جو اب تک باقی بچ گیا ہے وہ ایک قدیم چہار دیواری میں پہاڑ کے پہلو اور ایک مسدود دروازہ میں واقع ہے اور اس چار دیواری کے درمیان نیم خرابہ کی صورت میں ایک مقبرہ بھی موجود ہے کہ جسے ہم پہاڑی کے اوپر سے کسی حد تک دیکھ سکتے ہیں
قاعدہ کے مطابق تو اسی مقام پر ہی حسین بن علی شہید فخ واقع ہے نیز اسی جگہ پر ہی مدفون ہوں گے کہ موجودہ دور کے حکمرانوں نے مذہبی وجوہات کی بنا پر اسے بند کر رکھا ہے. (آثار اسلامی مکه و مدینه، ص ۱۶۷-۱۶۹، رسول جعفریان.)

امام موسی کاظم (ع) اور شهید فخّ

سرزمین فخّ پر خونی داستان

عباسی سلطنت میں بنی ہاشم کے آزاد اور دلیر مردوں پر ہر طرح کے دباؤ کی بنا پر عاجز و پریشان ہو گئے تھے ہاشمیوں نے بنی عباس کے پے در پے حملوں اور سختگیر و ظالم حکمران کا پا مردی سے مقابلہ کرنے پر مجبور کیا اور اسی ظلم و جور کا اثر تھا کہ دھیرے دھیرے حکومت وقت بنی عباس سے مقابلہ کی تحریک کی بنیاد پڑی جو امام حسن مجتبی (ع) کے پوتوں میں سے ایک فرد جنہیں دنیا «حسین بن علی صاحبِ فَخ» کے نام سے یاد کرتی ہے کی رہبری میں منعقد ہوئی. ابھی یہ اس تحریک نے مکمل طور پر تحریک کی شکل تو نہیں لی تھی یعنی کہ ابتدائی مراحل میں تھی حج کا زمانہ آن پہونچا تھا لیکن مدینہ کے گورنر کی تھکا دینے والی ظلم و زیادتی کی سختیوں کے باعث یہ ہوا کہ یہ تحریک جلدی ہی شعلہ ور ہوگئی تھی.
مدینہ کا گورنر جو کہ خاندان نبوت کے مخالفین میں سے تھا بنی عباس کی حکومت کی چاپلوسی اور اپنی صلاحیت کو ثابت کرنے کی خاطر ہر روز ہی مختلف بہانوں کی بنا پر بزرگان بنی ہاشم کے مردوں اور عظیم شخصیتوں کو تکالیف پہونچایا کرتا تھا انہیں میں سے ایک امر یہ بھی تھا کہ بنی ہاشم کے بزرگان کو مجبور کرتا تھا کہ ہر روز دار الامارہ یعنی گورنر ہاؤس پر حاضر ہوں اور اپنی شناخت کروائیں حاکم مدینہ نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اس بد بخت حاکم نے ایک دوسرے کو حاضر ہونے کی ضمانت بھی قرار دیا تھا اور اسی بنا پر کسی ایک کی غیر حاضری سے دوسرے کا مواخذہ اور باز پرس کرتا تھا یہاں تک کہ انہیں گرفتار کر کے قید خانہ میں بھی ڈال دیتا تھا.
ایک روز «حسین بن علی حسنی صاحب فخ» اور «یحیی بن عبد الله محض بن حسن مثنی بن حسن سبط اکبر بن علی بن أبیطالب هاشمی قرشی» کو بنی ہاشم کے کسی بزرگ کی غیر حاضری کی بنا پر سختی سے مواخذہ اور پوچھ تاچھ کیا اور بطور یرغمال انہیں گرفتار کر لیا. اسی عمل کے رد عمل کی صورت نے ہی آگ میں تیل ڈالنے کا کام کیا اور نتیجہ میں قبیلہ بنی ہاشمی کے بزرگان خاص و عام کا غم و غصہ نیز نفرت و دشمنی دلوں سے پھوٹ پڑا جس کے رد عمل میں یہ تحریک وقت سے پہلے ہی چل پڑتی ہے اور مدینہ میں جنگ کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں.


شهیدِ فَخّ کون ہے؟

چنانچہ جیسا کہ ہم نے سابق میں تحریر کرتے ہوئے اشارہ کیا کہ صاحبِ فَخ کے لقب سے مشہور اس تحریک کے رہنما و رہبر امام حسن بن علی بن ابیطالب (ع) کے پڑپوتے ہیں اور یہی اس تحریک کے روح رواں اور ذمہ دار ہوتے ہیں.
جن کا مکمل شجرہ نسب یہ ہے: "حسین بن علی بن حسن مثلث بن حسن مثنیٰ بن امام حسن مجتبیٰ بن علی مرتضی بن ابیطالب (ع)"
شہیدِ فَخ ایک عظیم المرتبت، با فضیلت و دلیر و شجاع نیز عالی قدر ہاشمی فرد تھے آپ کی ذات گرامی میں عالی صفات کرامت نفسی نیز جود و سخاوت، عظمت و مکرمت و دیگر دیگر صفات حمیدہ آپ کی ذات گرامی میں بدرجہ اتم موجود تھے آپ کا شمار ایک مشہور و معروف اور ممتاز شخصیتوں میں ہوا کرتا تھا.
آپ صاحب فضیلت اور پاکدامن والدین (ماں باپ) کے انسانی صفات عالیہ کے پرتو اور نشانی ہیں کہ ایک صالح اور ہاشمی جوڑے سے منتسب ہونا مشہور تھے. اسی ہاشمی صفات کے سے متصف ہو کر متولد بھی ہوئے تھے اور اس دنیا میں آنے کے بعد فضیلت و کمال کے مالک، صاحب تقوا اور شجاعت و بہادری کے حامل خاندان میں پرورش بھی پائی تھی.
آپ کے والد بزرگوار، آپ کے عزیز ماموں، جد امجد، مادری چچا اور دیگر آپ کے احباب، عزیز و اقارب سب ہی (دور و نزدیک کے) رشتہ دار «منصور دوانیقی ملعون» کے ذریعہ شہادت پر فائز ہوئے تھے اور اس عظیم خاندان کے چند بہادر و شجاع مردوں نے اپنے آپ کو دشمنوں کے ساتھ مقابلہ کرتے ہوئے اسلام کے عدل و انصاف کے نظام پر قربان کر دیا تھا نتیجہ میں بنی ہاشم کو مستقل غم و اندوہ میں  بہت زیادہ غرق کر دیا تھا.
حسین بن علی حسنی ایسے ہی خاندان کے درمیان تعلیم و تربیت پائی تھی کہ جنہوں نے اپنے پدر بزرگوار اور احباب و انصار کی شہادت عظمی کو جو منصور کے جلادوں کے ہاتھوں سے ہوئی اسے ہرگز فراموش نہیں کیا تھا اور بنی ہاشم کے افراد کی شہادت نے ہی ان کی روح اور دل کو جوش و دلیری سے بھر کر ظالم عباسی سلطنت کے خلاف جذبات سے لبریز کر دیا تھا.
بنی عباس کے ذریعہ بنی ہاشم پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم نے آپ کو سخت آزردہ کر دیا تھا لیکن نا مساعد حالات و ماحول کی بنا پر درد نھری خاموشی کیلئے مجبور تھے. آپ کے احساسات و جذبات پہلے ہی مجروح ہو چکے تھے تو دوسری طرف ہادی عباسی کے مظالم اور بے انصافیوں کی بن  پر اور خاص طور سے حاکم مدینہ کی بربریت و بہمیت نے آپ کے صبر کے ظرف کو لبریز کر دیا لہذا عباسی حکومت کے خلاف تحریک چلانے کیلئے آگے بڑھنے پر مجبور ہوگئے. 

تحریک کی ناکامی اور شکست کیوں؟

محض حسین بن علی حسنی کے تحریک کیلئے اٹھتے ہی بنی ہاشم کے اکثر افراد اور مدینہ کے لوگوں نے بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کیا پھر عباسی طاقتوں کے ساتھ بھڑ گئے اور عباسی سلطنت کے حامیوں کو عقب نشینی پر مجبور کر دیا.
چند ہی روز کے بعد ہی فاتح بنی ہاشم کے حامیوں نے اپنے فوجی ساز و سامان کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے تا کہ مسلمانوں کے عظیم اجتماع سے جو ایام حج کے دوران شہر مکہ میں جمع ہوتا ہے اسے ہی اپنا مرکز بنائیں اور اس تحریک کے دامن مزید وسعت بخشیں.
ادھر جنگ مدینہ کی گزارش اور حسین بن علی حسنی کے گروہ کا مکہ کی طرف روانہ ہونے کی خبر عباسی خلیفہ تک پہونچی تو خلیفہ وقت نے سپاہیوں کو ان کی سرکوبی کیلئے روانہ کر دیا تو دونوں ہی طرف کی فوج جب سرزمین «فَخّ» پہونچی اور اسی مقام پر جنگ کی سخت آگ بھڑک اٹھی اسی دوران جنگ ہی میں حسین بن علی حسنی کے ہمراہ بنی ہاشم کے برگزیدہ مرد افراد درجہ شہادت پر فائز ہوئے اور ہاشمی لشکر کے بقیہ سپاہی بھی پراکندہ ہو گئے پھر ایک گروہ کو اسیر بھی کیا جاتا ہے اور انہیں قیدی بنا کر شہر بشہر اور دیار بدیار گھومایا جاتا ہے یہاں تک کہ انہیں عباسی دربار میں پیش کرنے پر ان سب کو قتل کرنے کا عباسی فرمان جاری ہوتا ہے نتیجہ میں بچے کھچے افراد کو بھی ظلم و جور کے ساتھ شہر بغداد میں شہید کر دیا جاتا ہے.
سلطنت عباسی کے مزدوروں نے حسین بن علی حسنی کے سپاہیوں کو صرف قتل کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کی لاشوں کو بھی دفن کرنے سے گریز کیا اور ان کے سروں کو جسموں سے جدا کہا گیا اور انہی سروں کو نیزوں پر نصب کر کے خلیفۂ عباسی کے پاس بغداد بھیجا گیا یہ طالمانہ کاروائی ایسی حکومت نے کیا تھا جق بنی ہاشم کو عدل و انصاف دلانے کیلئے بنی امیہ کی سلطنت کا تختہ پلٹ کر خود ہی حکومت ک  اپنے ہاتھوں میں لے کر بنی ہاشم پر بنی امیہ سے بھی زیادہ ظلم و ستم ڈھایا کیا گیا.
بعض مورخین نے نقل کیا ہے کہ حسنی فوج کی تعداد سو سے بھی تجاوز کر رہی تھی.
شہید فَخّ کی تحریک کی ناکامی نے ایک عظیم خونچکاں سانحہ اور درد انگیز حالت پیدا کر دی تھی کہ جس سے ہر شیعہ اہلبیت (ع) اور خاص کر پیغمبر اسلام (ص) کے خاندان کیلئے تو بہت ہی سخت تلخ آلود اور درد بھرا نیز فاجعہ ہائلہ رونما ہوا کہ جس نے امام حسین (ع) کے واقعہ کربلا کی سانحہ کی دوبارہ لوگوں کے دل و دماغ میں یاد تازہ کر دی تھی. لہذا اسے بھی کربلائے ثانی کے نام سے یاد کیا جائے تو بے نہ ہوگا. سادات حسنی کا فَخّ کے مقام پر شہید ہونا دلخراش، غمناک اور درناک تھا کہ کافی سالوں کے بعد نویں امام تقی الجواد (ع) بھی شہدائے فخ کے سلسلہ میں فرماتے تھے: واقعہ کربلا کے بعد کوئی بھی ہمارے لئے واقعہ فخ سے بڑھ کر کوئی اور واقعہ رونما نہیں ہوا ہے.

مکہ میں شهداء کا محلہ
(صاحبِ فَخ کی محل شہادت اور دفن کا مقام)

امامِ کاظم (ع) اور شهیدِ فَخّ

یہ حادثہ ایسا ہرگز نہیں تھا امام موسیٰ کاظم (ع) اس سے لا تعلق ہونے اظہار فرمائیں بلکہ امام کاظم (ع) اس کے آغاز سے یہاں تک کہ اس تحریک کے تشکیل پانے سے بھی با خبر تھے جبکہ حسین بن علی حسنی شہید فخ کے ساتھ رابطہ میں بھی تھے گرچہ امام (ع) نے اس مسلحانہ تحریک کے شکست کی پیشنگوئی بھی فرمائی تھی جب آنحضرت (ع) نے یہ محسوس کیا کہ خود حسین بن علی حسنی مضبوطی کے ساتھ مصمم ارادہ رکھتے ہیں تو آنحضرت (ع) نے صاحبِ فَخ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: اگر چہ آپ شہید ہو جاؤ گے، پھر بھی (سماج میں عدل و انصاف کے اجرا کیلئء) جہاد اور مقابلہ کرتے رہئے. یہ گروہ پلید اور بدکار افراد پر مشتمل ہے کہ ایمان کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن باطن میں میں ایمان و عقیدہ ہرگز نہیں رکھتے میں اس راہ میں آپ کی خاطر خداوند متعال کی بارگاہ میں اجر و ثواب کا طالبگار ہوں.
حسین بن علی حسنی شہید فخ کی شہادت کے بعد جس وقت صاحبِ فَخ کا سر بریدہ مدینہ میں لایا گیا تو امام کاظم (ع) نے شہید کے سر کو دیکھا تو شدید افسردہ ہوئے اور شدت غم و الم کی کیفیت میں فرمایا: قسم بخدا! وہ ایک نیکی کرنے والے مسلمان ہی تھے، بہت اکثر روزہ رکھتے تھے، کثرت سے نمازیں پرھا کرتے تھے، فتنہ و فساد اور بد عنوان و آلودہ سماج سے جنگ کر رہے تھے، یہ نیکی کا ھکم دینا اور برائی سے روکنے کی ذمہ داری کو انجام دے رہے تھے اور اپنے خاندان کے درمیان بے نظیر فرد تھے. (ابو الفرج الاصفهانی، مقاتل الطالبین، ص ۳۰۲)
دوسری طرف عباسی خلیفہ ہادی جانتا ہی تھا کہ امام کاظم (ع) خاندان رسالت کی عظیم ترین شخصیت ہیں اور آپ کے سادات نیز بنی ہاشم سے ہونے کی بنا پر لوگ آپ ہی کے طور طریقہ سے الہام حاصل کرتے ہیں لہذا حادثہ فَخ کے بعد عباسی حکمران شدید غم و غصہ کا اظہار کرتا ہے کیونکہ اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ اس امام بھی تحریک سے با خبر ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی راہنمائی بھی فرماتے رہتے تھے اس اعتبار سے دیکھا جائے تو آنحضرت ہی اصل رہبر تھے اسی لئے عباسی خلیفہ نے پردہ کے پیچھے سے رہبری کرنے کی بنا پر امام کاظم  (ع) کو قتل کرنے کی بھی دھمکی دیتے ہوئے حاکم وقت نے کہا: «خدا کی قسم! حسین بن علی حسنی (صاحب فخ) نے موسی بن جعفر (ع) کے حکم کے مطابق ہی میرے خلاف تحریک چلائی اور انہی کی پیروی کی گئی ہے کیونکہ اس خاندان کا سوائے موسی بن جعفر (ع) کے کوئی بھی امام و رہبر نہیں ہے، اگر میں نے انہیں زندہ چھڑ دیا تو خدا مجھے قتل کرے.»
اگرچہ ان سھمکیون کا امام کاظم (ع) کی طرف سے کوئی بھی قابل ذکر رد عمل یا توجہ نہیں دیا گیا بلکہ سرد مہری سے کام لیا گیا اور آنحضرت (ع) کے متعلقین و مخلصین کے درمیان شدت کے ساتھ وحشت و خوف پیدا ہوا لیکن اس سے پہلے کہ حاکم وقت ہادی عباسی اپنے پلید مقاصد کو پورا کرنے میں کامیاب ہو جاتا اس کے نامہ اعمال کو بند کرنے کا وقت آن پہونچا اس کی حکمرانی کا دور سنہ 168 سے 179 ہجری تک ہی رہا لیکن اس عرصہ میں بنی ہاشم پر ظلم و بربریت کی انتہا کر دی تھی پھر اچانک اس ظالم و جابر حاکم کے مرنے کہ خبر نے مدینہ کے متعلقین و مخلصین کے دلوں میں خوشی و انبساط کی لہریں لے کر آیا اور مومنین کے درمیان ایک خوشی کی موج اٹھی.


مترجم: ابو دانیال اعظمی بُرَیر


★وَسَلَامٌ عَلَيْهِ يَوْمَ وُلِدَ وَيَوْمَ يَمُوتُ وَيَوْمَ يُبْعَثُ حَيًّا★
[سورہ مریم (15) آيت 19]

Sahih International
Peace be to him, the day he was born, and the day he dies, and the day he is raised alive!

Farsi
و سلام حق بر او باد در روز ولادتش و روز وفاتش و روزی که زنده برانگیخته خواهد شد.
و سلام بر او باد، روزی که متولد شد، و روزی که می میرد، و روزی که زنده برانگیخته می شود.

French
Que la paix soit sur lui le jour où il naquit, le jour où il mourra, et le jour où il sera ressuscité vivant !

Urdu
اور ان پر سلام ہو جس روز متولد ہوئے اور جس روز انہیں موت آئی اور جس روز زندہ مبعوث ہوں گے. (مترجم)
اس پر سلام ہے جس دن وه پیدا ہوا اور جس دن وه مرے اور جس دن وه زنده کر کے اٹھایا جائے.

تمت بالخير به نستعين و هو خير المعين
$}{@J@r

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی