کیا حضرت علی (ع) صحابہ میں افضل ہیں یا مفضول؟؟

via imam hussain holy shrine



کيا امیر المومنین (ع) سے یہ قول

«لا أوتي بمن يفضلني علىٰ أبي بكر و عمر إلَّا جلدته حدّ المفتري»

ترجمہ: "جو کوئی بھی میرے پاس ابو بکر و عمر سے زیادہ فضیلت مجھے دے گا تو میں بھی اس پر بہتان لگانے کی سزا کی صورت میں کوڑے ماروں گا" کی روایت صحیح ہے؟

سائل: شاهين مقيم


}i{ مترجم:  ابو دانیال اعظمی بریر }i{


سوال کی وضاحت: کیا مذکورہ روايت اہلسنت کی کتابوں میں من جملہ «فضائل الصحابة» مولفہ أحمد بن حنبل نے تذکرہ کیا ہے جنہوں نے ابو بکر کی خلافت کی شرعی حیثیت کی تائید کے طور پر ذکر کیا ہے. جس کا مفہوم یہ ہے کہ امیر المومنین حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے: «جو کوئی بھی میرے پاس ابو بکر و عمر پر مجھے افضلیت دے گا تو میں اسی پر بہتان لگانے کروں گا.»


سوال کا مختصر جواب


۱- سند کے اعتبار سے مذکوره حدیث میں اشکال ہے.

۲- بہت سے صحابہ اور تابعین حضرت علی (ع) کی افضلیت کے قائل اور عقیدہ رکھتے تھے.

۳- بذات خود ابو بکر کا اقرار و اعتراف کتابوں میں مرقوم ہے کہ وہ افضل نہیں ہیں.

۴- حضرت علی (ع) کی بعص تصریحات میں اپنے آپ کو افضل قرار دینا بھی کتابوں میں مذکور ہے.

۵- مذکورہ سزا کا حکم کسی بھی ایک فرد کیلئے خود آنحضرت (ع) نے جاری نہیں کیا ہے. یعنی تاریخ اسلام میں اس روایت کی بنیاد پر کسی ایک فرد کو بھی سزا نہیں دی گئی ہے.

۶- رسول اکرم (ص) کی بعض احادیث میں تذکرہ ملتا ہے کہ صحابہ میں حضرت علی (ع) یی امت میں افضل فرد ہیں. 


تفصيلي جواب


۱- سند حديث کا ضعف ہونا:


★ احمد بن حنبل نے اپنی كتاب "فضائل الصحابة" ميں اس روايت کو اس طرح نقل كیا یے:

حدثنا عبد الله قال: حدثني هدية بن عبد الوهاب، قال: ثنا أحمد ابن إدريس، قال: ثنا محمد بن طلحة، عن أبي عبيدة بن الحكم، عن الحكم بن جحل، قال : سمعت عليا يقول: «لا يفضلني أحد عليَّ أبي بكر وعمر إلا جلدته حد المفتري.»


روایت کا ترجمہ:

عبد اللہ بن احمد نے ہم سے حدیث بیان کی، انہوں نے فرمایا مجھ سے، هدیه بن عبد الوهاب نے حدیث بیان کی، انہوں نے نے فرمایا احمد بن ادریس نے اور انہوں نے محمد بن طلحہ سے اور انہوں نے عبیدہ بن حکم اور انہوں نے حکم بن حجل سے حدیث بیان کی انہوں نے فرمایا میں نے حجرت علی کو فرماتے سنا: "کوئی بھی میرے نزدیک ابو بکر  و عمر پر میری فضیلت کا قائل نہیں ہوا مگر یہ کہ میں نے اس پر بہتان کی حد جاری کی."

پھر سند کے سلسلہ کو اس طرح نقل کیا ہے:

وهو من زيادات عبد الله بن أحمد.

"يہ روايت عبد الله بن احمد کی من گھڑتوں میں سے ہے.

★ «فضائل الصحابه» کتاب کے محقق نے اپنے حاشیہ میں یہ تحریر کیا ہے:

إسناده ضعيف لأجل أبي عبيدة بن الحكم و محمد بن طلحة لم يتبين لي من هو ؟

"سند میں ابو عبد الله بن احمد کی موجودگی کی وجہ سے یہبروایت ضعيف ہے اور میرے لئے "محمد بن طلحه" مشخص نہ ہو سکا کہ یہ شخص کون ہے؟

[فضائل الصحابة، 1/ 83، رقم: 49، 294/1 رقم: 387، تحقيق د. وصي اللّه محمد عباس. ط. مؤسسة الرسالة - بيروت.]

★ عقيلي نے بھی اپنی كتاب الضعفا میں اسی روایت کو نقل کرنے کے بعد سند میں جو "محمد بن طلحه" کے متعلق تحریر کرتے ہیں: 

وضعّفه يحيي، و روي عن عبد اللّه بن أحمد قال سمعت يحيى بن معين يقول: كان يقال: ثلاثة يتقي حديثهم، محمد بن طلحة و أيوب بن عتبة وفليح.

يحيي نے محمد بن طلحه کو ضعفاء میں شمار کیا ہے اور "عبد الله بن احمد" سے مروی روایت لینے کے بارے میں ہمیشہ کہا کرتے تھے: تین افراد سے حدیث لینے سے پرہیز کرو. وہ تین اشخاص کے نام یہ ہیں: 

۱- محمد بن طلحه ۲- ایوب بن عتبه ۳- فلیح بن سلیمان. 

[ضعفاء العقيلي، 1/ 108 و 4/ 85، اور ان کتابوں کی طرف رجوع کیجئے: تهذيب الكمال، مزي، 25/ 420 وسير أعلام النبلاء، 7/ 353 و ميزان الاعتدال، 3/ 365. و الجرح والتعديل، الرازي، 7/ 292 و الكامل، عبد الله بن عدي، 6/ 236 وغیره کتب رجال.]


۲- بہت سے صحابہ اور تابعین حضرت علی (ع) کی افضلیت کے قائل اور عقیدہ رکھتے تھے.


★ ترمذي متوفّي 279 هـ نے اپنی سند کے ساتھ عائشہ سے روایت نقل کی ہے:

روى الترمذي، بإسناده عن جميع بن عمير قال: دخلت مع عمّتي علي عائشة فسألت: أيّ الناس كان أحبّ إلي رسول اللّه (ص)؟ قالت: فاطمة، فقيل: من الرجال؟ قالت: زوجها....

جميع بن عمير کہتے ہیں: میں اپنی پھوپھی کے ساتھ عائشہ سے ملاقات کی اور ان سے یہ سوال کیا: رسولخدا (ص) کے نزدیک لوگوں میں سے سب سے زیادہ محبوب ذات کون ہے؟ تو انہوں نے کہا: فاطمہ (س) پس میں پھر پوچھا: مردوں میں کون ہے؟ تو جواب دیا: ان کے شوہر حضرت علی (ع) ہیں. 

★ ترمذي نے اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے:

هذا حديث حسن غريب .

يہ حديث حسن اور عجيب ہے.

[سنن الترمذي، 5/ 362 و المستدرك، حاكم نيشابوري متوفي 405 هـ، 3/ 157،. الاستيعاب، ابن عبد البر، متوفي 462 هـ، 4/ 1897.]


★ ذهبي تحریر کرتے ہیں:

ليس تفضيل علي برفض ولا هو ببدعة، بل قد ذهب إليه خلق من الصحابة والتابعين. 

(حضرت) علي (ع) کو افضل جاننا نہ ہی رفض ہے اور نہ بدعت، بلكه صحابہ اور تابعین کا ایک گروه اسی بات کا معتقد ہے. [سير أعلام النبلاء، 16/ 457.]

★ عالم دین اپنی كتاب "الاستيعاب" میں جو اہلسنت کے یہاں علم رجال پر معتبر ترین کتاب میں نقل کیا یے:

وروي عن سلمان، وأبي ذر، والمقداد، وخباب، وجابر، وأبي سعيد الخدري، وزيد بن أرقم: أنّ علي بن أبي طالب (ر) أوّل من أسلم، وفضله هؤلاء علي غيره.

"سلمان، ابوذر، مقداد، خباب، جابر، ابو سعيد خدري اور زيد بن أرقم سے روايت نقل کیا ہے: علي ابن ابيطالب (ع) ہی اسلام لانے میں سب سے پہلی فرد ہیں اور صحابہ میں سے مذکورہ بالا افراد کا گروہ ہی (حضرت علی ع) کو دیگر صحابہ پر افضیل و برتر جانتا تھا." [الإستيعاب في معرفة الأصحاب، 3/ 1090.]

★ ابن حزم نے بھی اپنی کتاب «الفصل» ميں تحریر کیا ہے:

اختلف المسلمون في من هو أفضل الناس بعد الأنبياء، فذهب بعض أهل السنة وبعض المعتزلة وبعض المرجئة وجميع الشيعة: إلي أن أفضل الأمة بعد رسول الله (ص): علي بن أبي طالب (ر). وقد روينا هذا القول نصا عن بعض الصحابة (ر) وعن جماعة من التابعين والفقهاء.

مسلمانوں کے درمیان اس بات پر اختلاف پایا جاتا ہے کہ انبیاء کے بعد "افضل الناس" یعنی لوگوں میں سب سے افضل کون ہے؟ بعض معتزلہ و بعض مرجئہ اور تمام شیعہ فرقے کا یہی عقیدہ رہا ہے کہ رسولخدا (ص) کے بعد امت میں افضل فرد (حضرت) علي (ع) ہین اور ہم نے اس روایت کی نص کے اعتبار سے بعض صحابہ کی ایک جماعت اور تابعین و فقہا کے بھی ایک گروہ سے ہم نے نقل کیا ہے. [الفصل في الملل والنحل، 4/ 181.]


★ ابن جوزي نے بھی مناقب میں أحمد کا ایک قول ان کے بیٹے أحمد بن حنبل سے اس طرح تحریر کیا ہے:

عبد الله بن أحمد بن حنبل يقول: حدثت أبي بحديث سفينة فقلت … ما تقول في التفضيل؟ قال: في الخلافة أبو بكر وعمر وعثمان، فقلت: فعليّ؟ قال: عليّ من أهل بيت لا يقاس بهم أحد.

احمد بن حنبل کے بیٹے عبد اللہ کہتے ہیں: میں نے اپنے والد کی خدمت میں حدیث «سفينه» نقل کیا ہے اور ان سے میں نے سوال کیا: آپ کا نظریہ رسولخدا (ص) کے صحابہ میں کون افضل ہے؟ تو انہوں نے جواب میں کہا: خلافت کے اعتبار سے پہلے ابو بکر افضل ہیں ان کے بعد عمر اور پھر عثمان ہیں. میں پھر سوال کیا: علی کی فضیلت کیا ہوئی؟ تو انہوں نے کہا: علی کا شمار اہلبیت میں ہوتا ہے اور صحابہ میں سے کسی اور کو اہلبیت کے ساتھ قیاس نہیں کیا جا سکتا. [مناقب الإمام أحمد لابن الجوزي ص 163.]


۳- ابو بكر کا یہ اعتراف کہ مفضول ہونے پر دلیل ہے


★ اہلسنت کے محدثین نے بھی ابو بکر کے قول کو نقل کیا ہے کہ انہوں نے اقرار کا تذکرہ بھی کیا ہے:

… ولّيتكم وَ لَستُ بخيركم ...

میں نے تمہاری ولایت کو قبول تو کیا ہے لیکن میں تم سے بہتر نہیں ہوں.

[طبقات ابن سعد، 3/ 182 و تأويل مختلف الحديث، لابن قتيبة متوفى 276، ص 109 ط. دار الجيل - بيروت تحقيق محمد زهري النجار و تاريخ مدينة دمشق، 30/ 304 و تخريج الأحاديث والآثار للزيلعي متوفي 762، ط. دار ابن خزيمة الرياض وغريب الحديث للخطابي، متوفي 388 ط. جامعة أم القرى بتحقيق عبد الكريم العزباوي، تفسير القرطبي، 3/ 262 و غريب الحديث، 2/ 35 و الإمامة والسياسة، ص 22 و العقد الفريد، 5/ 13 والسقيفة وفدك، للجوهري، ص 52 والمعيار والموازنة، جعفر الإسكافي، ص 39 و شرح نهج البلاغه، ابن أبي الحديد المعتزلي الشافعي، 1/ 169 و 2/ 56 و كنز العمال، 5/ 636 و البداية والنهاية، ابن كثير، 5/ 269.]


★ دوسري روايت ميں ان سے نقل ہوا ہے:

أقيلوني ولست بخيركم.

مجھے چھوڑو (مجھ سے بہتر شخص کے پاس جاؤ.) کہ تم میں تم سے بہترین فرد نہیں ہوں.

[مجمع الزوائد، 5/ 183 وسيرة ابن هشام، 2/ 661 وتاريخ الخلفاء، ص 71 وشرح النهج للمعتزلي، 1/ 169 وتفسير القرطبي، 1/ 272 والسير الكبير للشيباني، 1/ 36 والإمامة والسياسة، 1/ 31 والمعيار والموازنة للإسكافي، ص 39 والمعجم الأوسط للطبراني، 7/ 267 وكنز العمال، 5/ 631.]


اگر یہ کہا جائے کہ ابو بکر نے یہ الفاظ تواضع و انکساری کی نیت سے کہا ہے تو ہم یہی کہنا چاہیں گے کہ ایسی باتیں کہنا جبکہ انسان جو شک و شبہہ میں ڈالے گی تو ایسی صورت میں کسر نفسی کا اظہار کرنا کوئی بھی معنی نہیں رکھتا.


۴- حضرت علي (ع) کی تصریح خود ان کی افضليت کی دلیل


★ ابن ابي الحديد معتزلي شافعی نقل کرتے ہیں:

وقال عثمان لعلي (ع) إنّك إن تربّصت بي فقد تربّصت بمن هو خير منّي ومنك،

قال: ومن هو خير منّي؟ قال: أبو بكر وعمر. فقال: كذبت، أنا خير منك ومنهما، عبدت الله قبلكم وعبدته بعدكم.

حضرت علی (ع) سے عثمان نے عرض کیا: اگر آپ میرا انتطار کر تے ہیں تو میں بھی آپ سے بہتر شخص کا انتطار کر رہا ہوں.

پھر آنحضرت (ع) نے فرمایا:  مجھ سے اور تم سے بہتر کون ہے؟ تب عثمان نے کہا: ابو بکر و عمر ہیں.

پھر آنحضرت (ع) نے فرمایا: تم جھوٹ بول رہے ہو. تم سے اور ان دونوں یعنی ابو بکر و عمر سے میں ہی افضل و بہتر ہوں کیونکہ میں نے ہی تم لوگوں سے پہلے اور بعد کے زمانہ میں اس خدا کی عبادت کی ہے.

[شرح نهج البلاغة ابن ابی الحدید معتزلي شافعی، 10/ 25 (جزء 20)، احتجاج طبرسي، 1/ 229 و مناقب ابن شهر آشوب، 1/ 289 والمسترشد للطبري، ص 227 و الفصول المختارة، شيخ مفيد، ص 261.]


۵- يہ حكم کسی کے بھی حق میں جاری نہیں ہوا:


چنانچہ اگر یہ روایت صحیح بھی ہے تو حضرت امیر المومنین (ع) نے اپنے زمانہ کے کسی ایک بھی فرد پر یہی حکم جاری کیوں نہیں کیا یعنی کسی ایک شخص کو بھی سزا کیوں نہیں دیا. جبکہ تمام اہلبیت (ع) نیز صحابہ اور تابعین کی ایک بڑی تعداد آنحضرت کو ابو بکر و عمر سے افضل ہونے کے قائل اور معتقد تھے.

سب سے پہلے جس ذات گرامی نے حضرت علی کو دوسروں پر افضلیت بخشی ہے وہ تو پیغمبر اسلام ہی کی والا صفات ذات ہے.

اگر ہم اس مذکورہ حدیث کو صحیح تسلیم کر لیں تو (نستجير بالله) ایسا حكم خود رسولخدا (ص) پر ہی سب سے پہلے جاري ہونا چاہئے تھا.


۶- رسول اكرم (ص) کی صراحت کہ تمام صحابہ سے حضرت علي (ع) افضل ہیں:


اگر ہم اس مذکورہ حديث کو صحيح تسلیم کر لیتے ہیں تو یہ لازم یوگا کہ (نستجير بالله) ایسی سزا سب سے پہلے رسولخدا (ص) پر جاری کیا جائے گا کیونکہ آنحضرت (ص) ہمیشہ اور ہر موقع و محل پر حضرت علی (ع) کو ہی دوسرے صحابہ پر ترجیح دیا کرتے تھے یہاں تک کہ واقعہ مباہلہ میں اسی افضلیت کے پیمانہ کو استعمال کرتے ہوئے اپنے نفس کی جگہ پر حضرت علی (ع) کو بھی پنجتن کی ایک فرد قرار دیا:


★ اہلسنت کی صحيح مسلم اور دیگر بہت سی معتبر کتابوں میں مذکور ہے:

ولمّا نزلت هذه الآية: (فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ) دعا رسول الله (ص) عليّاً وفاطمة وحسناً وحسيناً فقال: أَللّٰهُمَّ هٰؤلاء أهلي.


اور جب يہ آيت نازل ہوئی (پس اے رسول! آپ کہہ دیجئے کہ تم اپنے بچوں کو لاؤ، ہم اپنے بچوں کو لاتے ہیں اور تم اپنی عورتوں کو لاؤ، ہم اپنی عورتوں کو لاتے ہیں اور تم اپنے نفسوں کو لاؤ، میں اپنے نفسوں کو لاتا یوں پھر کاذبین پر لعنت قرار دیتے ہیں) رسولخدا (ص) نے حضرات امیر المومنین علي، خاتون جنت فاطمه، امام حسن اور امام حسين (ع) کو بلایا اور فرمایا: خدايا! یہی میری اہلبیت عترت ہیں..

[صحيح مسلم، 7/ 120، ح 6373، و 5/ 23، ح 32 و كتاب فضائل الصحابة، باب فضائل علي، مسند أحمد، 1/ 185 و صحيح الترمذي، 5/ 596 و المستدرك على الصحيحين، 3/ 150 و فتح الباري، 7/ 60 و تفسير الطبري، 3/ 212 و الدر المنثور، 2/ 38 و الكامل في التاريخ، 2/ 293.]


★ زمخشري نے بھی اسی آیت کے ذیل میں یہ تحریر کیا ہے:

وفيه دليل لا شیء أقوى منه على فضل أصحاب الكساء (ع).

اور اس آیت مبارکہ میں سب سے زیادہ قوی دلیل اصحاب کساء (ع) کی افضلیت پر ہے اور اسے زیادہ مضبوط برہان کوئی اور بھی موجود نہیں ہے. [الكشاف زمخشری، 1/ 370.]


بہت سے دیگر مواقع و مقامات کو ہم مضمون کے طولانی ہونے جانے کے خوف سے ترک کر رہے ہیں مگر بطور اشارہ چند احاديث و روايات كے تذکرے کر رہے ہیں جیسے:

۱- آنحضرت (ص) مکہ اور مدینہ میں عقد اخوت کے وقت صرف حضرت علی (ع) ہی کو اپنا بھائی قرار دیا تھا.

في حديث المؤاخاة بين الأصحاب: أنت أخي في الدنيا و الآخرة»

جس وقت آپ (ص) نے اصحاب کے درمیان رشتہ اخوت کو قائم کیا تو فرمایا: اے علی تم دنیا اور آخرت میں میرے بھائی ہو. (مستدرك الصحيحين 3/ 14)

۲- رسول اکرم (ص) نے حضرت علی (ع) کو اپنا بھائی، وزیر، خلیفہ اور بہترین فرد قرار دیا ہے: 

«فی حدیث: إنه أخي ووزيري وخليفتي في أهل بيتي وخير من أخلف بعدي»

حديث ميں ہے: علی میرا بھائی، میرا وزیر اور میرے اہلبیت میں میرا خلیفہ اور میرے بعد میرا سب سے بہتر خلیفہ ہے. (الاصابه 1/ 217)

٣- مسجد کی طرف جن کے گھروں کے دروازے کھلتے تھے سوائے امیر المومنین (ع) کے دروازہ کے سارے ہی دروازوں کو مسدود کرا دیا تھا.


۴- حضرت فاطمہ زہرا (س) کے کفو کی حیثیت سے پہچنوایا ہے جبکہ بہت سے بڑے بڑے صحابہ نے آنحضرت (ص) کی بیٹی سے شادی کے خواہاں تھے مگر سوائے حضرت علی (ع) کے سب ہی کو رد کر دیا تھا.

«ثلاث خصال لأن تکون لي خصلة منها أحب إلی من أن أعطى حمر النعم. قیل و ما هی یا امیر المؤمنین؟ قال تزوجه فاطمة بنت رسول الله (ص) و سکناه المسجد مع رسول الله (ص) یحل له فیه ما یحل له و الرأیة یوم خیبر»

۵- رسولخدا ص) نے انہیں وصی، رازدار، خیر امت، آنحضرت کا وعدہ وفا کرنے والے اور قرض کی ادائیگی کرنے والے بنایا ہے: 

«فإن وصيي وموضع سري و خير من أترك بعدي و ينجز عدتي ويقضي ديني علي بن إبي طالب»

یقیناً میرا وصی اور میرا قائم مقام اور میرے بعد سب سے بہتر میرے وعدوں کو وفا کرنے والا اور میرے وعدوں کو وفا کرنے والا اور میرے قرض کو ادا کرنے والا علی بن ابیطالب ہے. (مجموع الزوائد للهيثمي 9/ 113)

۵- آنحضرت (ص) متعدد بار فرمایا کرتے تھے: جو علی سے محبت کرے گا وہی خدا و رسول سے بھی محبت کرتا ہوگا اور خدا و رسول بھی اسی سے محبت کرتے ہوں گے.

«ما بال قوم ينتقصون عليا من تنقص عليا ومن فارق عليا فقد فارقني إن عليا مني وأنا منه خلق من طينتي وخلقت من طينة إبراهيم»

لا پرواہ ہے وہ قوم جو علی کی منقصت کرتی ہے جس نے علی منقصت کی اس نے میری منقصت کی اور جس نے علی کو چھوڑ دیا اس نے مجھے چھوڑ دیا بیشک علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں، علی کو میری طینت سے خلق کیا گیا ہے اور میں ابراہیم کی طینت سے خلق ہوا ہوں. (مجمع الزوائد 9/ 128)

۶- علی خیر البشر ہیں:

«علی خیر البشر فمن أبی فقد کفر»

علي سب سے افضل انسان ہیں جس نے بھی انکار کیا پس وہ کافر ہو گیا. (تاریخ بغداد 7/ 421 و كنز العمال 11/ 625)

«من لم یقل علی خیر الناس فقد کفر»

جو کوئی علی کو سب سے افضل انسان نہ مانے پس اس نے کفر اختیار کیا. (تاریخ بغداد 7/ 419 و كنز العمال 11/ 625)

۷- رسول اکرم (ص) نے فرمایا: علی کی صلح تو رسول کی ہی صلح ہے اور علی سے جنگ کرنا گویا رسول سے جنگ کرنا ہے نیز اس کا خون میرا خون اور اس کا گوشت میرا گوشت ہے.

«هذا جبرئيل يخبرني: أن السعيد حق السعيد من أحب عليا في حياته و بعد موته وإن الشقي كل الشقي من أبغض عليا في حياته وبعد موته»

جبرئيل نے مجھے خبر دی ہے کہ یقینا خوش بخت اور کامیاب ہے وہ شخص جس نے علی سے محبت کی اپنی زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی اور بد بخت اور نامراد ہے وہ شخص جس نے علی سے دشمنی رکھی اپنی زندگی میں بھی اور موت کے بعد بھی ہے. (مجمع الزوائد 8/ 132)

۸- آنحضرت (ص) نے بُرَیدہ سے فرمایا: 

«قال (ص) لبریدۃ لا تقع فی علی فإنه مني وأنا منه و ہو ولیکم بعدی قالہا مرتین»

علی میں چھان بین مت کرو بیشک علی (ع) مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد تمہارا ولی و حاکم ہے اور آپ نے اس جملہ کو دو بار تکرار فرمائی تھی. 

(مسند أحمد بن حنبل 5/ 356)

۹- علی حق کے ساتھ اور حق علی کے ساتھ ہے.

«علی مع الحق و الحق مع علی و لن یفترقا حتی یردا علی الحوض یوم القیامة»

علي حق کے ساتھ ہیں اور حق علی کے ساتھ ہے اور یہ دونوں ہرگز ایک دعسرے سے جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ بروز قیامت حوض کوثر پر میرے پاس پہونچیں گے. (تاریخ بغداد 14/ 321)

۱۰- علی قرآن کے ساتھ اور قرآن علی کے ساتھ ہے.

«علی مع القرآن و القرآن مع علی و لا یفترقان حتی یردا علی الحوض یوم القیامة»

علي قرآن كے ساھ ہیں اور قرآن علی کے ساتھ ہے یہ دونوں ایک دوسرے سے ھدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ حوض کوثر پت میرے پاس پہونچیں گے. (صواعق محرقہ 47 و نور الأبصار للشبلنجي 62)

۱۱- اس کا گوشت میرا گوشت اور اس کا خون میرا خون:

«هذا علي بن أبي طالب لحمه لحمي ودمه دمي فهو مني بمنزلة هارون من موسي»

یہ علی بن ابیطالب ہیں اس کا گوشت میرا گوشت ہے اس کا خون میرا خون ہے اور اس کو مجھ سے وہی منزلت ہے جو ہارون کو موسی سے تھی. (مجمع الزوائد 9/ 111)

۱۲- آیت خیر البریه بھی حضرت علی (ع) اور ان کے شیعوں کی شان ہی میں نازل ہوئی ہے.

۱۳- امت ميں اختلاف كي صورت ميں حضرت علی (ع) ہی راہ نجات ہے:

«تكون بين الناس فرقة واختلاف فيكون هذا وأصحابه على الحق يعني عليا عليه السلام»

لوگوں کے درمیان فرقہ بندی اور اختلاف واقع ہوگا پس اس وقت یہ علی اور اس کے ساتھی حق پو ہوں گے. 

(کنز العمال 11/ 621)

۱۴- اس سے بھی زیادہ واضح اور صریح طور پر سنی عالم دین علامہ مناوی نے ایک حدیث کو اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ہے کہ رسول اسلام نے فرمایا:

«من قاتل عليا على الخلافة فاقتلوه كائنا من كان»

مسئلۂ خلافت میں جو بھی علی (ع) سے جنگ کرے اسے قتل کر دو چاہے کوئی بھی ہو. (كنوز الحقائق 145)

۱۵- سب سے پہلے ایمان لانے والے حضرت علی ہی ہیں:

«سيكون من بعدي فتنة فإذا كان ذلك فالزموا علي بن أبي طالب فإنه أول من آمن بي، و أول من يصافحني يوم القيامة و هو صديق الأكبر و هو فاروق هذه الأمة وهو يعسوب المؤمنين والمال يعسوب المنافقين» (الإصابة 7/ 167)

رسول اسلام (ص) نے فرمايا: عنقريب ميرے بعد فتنہ برپا ہوگا جب ایسا ہو تو تم لوگ علی بن ابیطالب (ع) کے دامن کو پکڑ لینا وہی سب سے پہلے مجھ پر ایمان لانے والا ہے، وہی روز قیامت سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کرنے والا ہے اور وہی صدیق اکبر ہے اور وہی اس امت کا فاروق ہے اور وہی مومنین کا سردار ہے لیکن منافقین کا سردار مال ہے.


مترجم: ابو دانیال اعظمی بریر


موفق باشيد

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی