نشترؔ مبارکپوری کی والہانہ نعتیہ شاعری

جواد حسین

نشترؔ مبارکپوری

کی والہانہ نعتیہ شاعری




 

مضمون میں مطالب


١- جواد حسین کی ابتدائی کی تعلیم 

٢- شاعری اور ذاتی تحقیق / شاعر کی ذاتی ڈائری سے معلومات 

٣- ان کی نعتیہ شاعری 

۴-ہندی کلام 

۵- تمنائے نشتر، دعائے نشتر، انتباہی شاعری 

۶- جواد حسین نشتر کی شخصیت پہ مبارکپور کے شعرا کے تاثرات 

۷- نشترؔ کی والہانہ نعتیہ شاعری


تحریر : محمد رضا ایلیا


۱- جواد حسین کی ابتدائی کی تعلیم


تاریخ ولادت: 25؍ جنوری 1926ء

تاریخ وفات: 13؍ دسمبر 2015ء


جواد حسین، نشترؔ نے مدرسہ باب العلم (مبارکپور، اعظم گڑھ) میں تعلیم حاصل کی۔ بچپن سے ہی ان کو تعلیم کی طرف خاصی دلچسپی تھی۔ بنا بر ایں استاد مولانا عبد الحمید ناظرؔ کی نشترؔ پر نظر خاص رہا کرتی تھی۔ یہ ہمیشہ سے اپنے استاد کے ساتھ علمی مباحثہ کیا کر تے تھے۔ نشترؔ مولانا عبد الحمید ناظر ؔ کے محبوب شاگرد تھے، نشترؔ بھی اپنے استاد سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ وہ اپنے استاد کے تخلص ’’ناظر‘‘کو نشترؔ ناظری کی شکل میں اپنا کر محبت کا ثبوت پیش کیا۔ ان کا مشغلہ تعلیم یافتہ حضرات کی بزم میں درس و تدریس و علمی موضوع پر گفتگو کرنا تھا۔ گویا وہ اپنی استقبالی دنیا کو علم و فن سے منورو مزین دیکھ رہے تھے۔ مگر افسوس کہ رفتار زمانہ نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ غریبی نے ان کی کمر توڑ دی مگر انہوں نے مالک حقیقی سے رو گردانی نہیں کی جس کا ثمرہ انہیں رحمات و عنایات ربانی کی صورت میں ضرور ملا اور ملتا رہے گا۔ نشترؔ کی اکثر و بیشتر زندگی ملک سے باہر گزری ۴۰ سال کی عمر میں انہوں نے اپنے وطن مبا رکپور میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔

نشترؔ کے استاد شاہ عبد الحمید ناظرؔ مدرس مدرسہ باب العلم، مبارکپور، اعظم گڑھ کے باشندے تھے۔ جن سے انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ شعر و شاعری کے اسرار و رموز بھی دریافت کیے۔  ناظرؔ کا انتقال ۱۵؍ جولائی ۱۹۹۰ء بروز جمعرات غالباً شب میں ۸ بجے ہوا۔

نشترؔ سن ۱۹۶۸ء کی ذاتی ڈائری میں کچھ اس طرح اپنے سلسلہ نسب کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ہمارے جد اعلیٰ جناب یاد علی مرحوم جو مذہب شیعہ سے تھے۔ یہ ہماری خوش قسمتی رہی کہ ہمارے ہاتھ میں محمد و آل محمدؐ کا دامن آیا یہ اللہ کابہت بڑا احسان و کرم ہے اور اس پر جتنا شکر کیا جائے کم ہے۔ ہمارے جد اعلیٰ کی تفصیل مجھے نہیں معلوم کیونکہ میرے بچپن ہی میں میرے دادا حیدر حسین مرحوم کربلائی کا انتقال ہو گیا.‘‘

نشترؔ کے خاندان کا تعلق مبارکپور سے نہیں تھا کسی زمانے میں مبارکپور آکر سکونت اختیار کر آج تک یہیں قیام پذیر ہیں۔ جواد حسین نشترؔ کے خاندانی بزرگوں کو محلہ پورہ صوفی کا سردار بھی بنایا گیا تھا جس سے ان کی خاندانی عظمت بخوبی واضح اور روشن ہوتی ہے۔ نشترؔ کے خاندان کے کچھ لوگوں نے سوداگری کو پسند کیا اور بعض افراد نے دست کاری کا پیشہ اختیار کیا۔ ان کے بزرگوں کا اعظم گڑھ شہر میں ایک ذاتی مکان تھا جس میں دست کاری کی اشیا خرید و فروخت ہوا کرتی تھی جہاں پر ریاست کے مختلف علاقوں سے تاجر مال خریدنے آیا کرتے ہیں۔ مبارکپور آج بھی اسی دست کاری کے کاروبار سے جڑا ہو ا ہے۔ اصل میں مبارکپور میں دست کاری اور بنارسی ساریاں تیار کی جاتی ہیں جن کی بنا پر زیادہ تر لوگوں کا بزنس بھی مبارکپورسے ہے جہاں سے غیر ممالک میں بھی ساڑیاں فروخت کی جاتی ہیں۔  

نشترؔ صاحب بچپن سے ہی میلاد پاک، محافل، نعت خوانی وغیرہ میں بڑے ماہر تھے، ان کو پڑھنے کا بھی بہت شوق تھا، ہمہ وقت اسی فراق میں رہتے تھے کہ کہیں موقع ملے اور ہم اپنی آواز کا جادو سامعین پر چلائیں۔ بچپن میں انہوں نے شعرا سے اشعار لکھوا کر پڑھنا شروع کیا مگر شعرا بہت کم لکھتے تھے اور بہت دوڑاتے تھے جس کا اظہار اپنی ذاتی ڈائری میں یوں کیا ہے:

’’بچپن سے میں محمد و آل محمدؐ کی شان میں قصائد اور نعتیں وغیرہ لکھوا کر پڑھتا تھا۔ مگر شعرا مجھے بہت کم لکھ کر دیتے تھے اور بہت دوڑاتے تھے جس سے میرے دل کو بہت تکلیف پہنچتی تھی اس لیے میں نے عزم مصمم کر لیا کہ اب میں خود ہی محمد و آل محمد ؐکی مدح میں اشعار لکھوں گا اور کسی سے کچھ نہیں کہوں گا اس ارادے کا کرنا تھا کہ تائید غیبی شروع ہوئی اور میں نے اللہ کا نام لے کر ایک مناجا ت لکھی.‘‘

اس طرح انہوں نے اپنی شاعری کی ابتدا کی۔ محلہ شاہ محمد پور قصبہ مبارکپور کی جب انجمن قائم کی گئی۔ ۱۹۳۸ء میں ان کو ممبر بنایا گیا لیکن حالات نے ان کا ساتھ نہیں دیا جس کے سبب نشترؔ صاحب کو وطن سے باہر جانا پڑا۔ جب وہ دوبارہ وطن واپس آئے تو انہوں نے دوسری انجمن قائم کر لی جس میں لوگوں نے ان کی آواز، فن، طرز اور نعت گوئی و نعت خوانی کو دیکھتے ہوئے بعض ممبران کی رضا مندی سے انہیں انجمن کا صاحب بیاض منتخب کیا گیا۔

نشترؔ مبارکپوری اپنے دور کے قادر الکلام شاعر تھے۔ انھوں نے شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی اور ہر صنف میں اپنی دسترس، طباعی، قوت لسانی، روانی اور سلاست کا ثبوت فراہم کیا ہے۔ نشترؔ مبارکپوری کا کلام ترتیب وار دستیاب نہیں ہے لیکن بہ استثناء ان کا سارا کلام خواہ وہ کسی نوعیت کا ہو مدح اور منقبت پر منحصر ہے۔ نشترؔ نے جب قصیدہ مدح خیر المرسلین لکھا تو اپنی انکساری کا یوں اظہار کیا۔

دربار محمدؐ کی توصیف ہو کیا ہم سے

چوکھٹ پہ فرشتوں نے آ آکے جبیں خم کی

نشترؔ نے مضمون کے مختلف جزئیات اور متعدد نعتوں کو مختلف عنوانات سے بھی نوازا ہے۔ ان کی مشہور نعتیں جستجوئے نشتر، شکوۂ نشتر، فریاد نشتر، تمنائے نشتر، مناجات نشتر ہیں۔ انہوں نے یوم آزادیٔ ہند کے موضوع پر دیش بھکتی گیت بھی تحریر کیا۔ علاوہ ازیں آدمی نامہ، شاعر کا مولوی سے خطاب، وغیرہ۔ ان کی مشہور نظمیں ہیں مگر ان کی عقیدتمند طبیعت صرف مدحیہ شاعری سے ہی میل کھاتی تھی۔ ان کا سینہ عشق حقیقی سے منور تھا۔ وہ الفت رسولؐ و آل رسولؑ میں ہمہ وقت سر شار رہتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی نعتوں میں اپنی زندگی کی تاریکیوں کا ذکر جا بجا کیا ہے۔ کہیں شکوہ ہے تو کہیں پر فریاد کسی نعت میں تمنا تو کہیں پر مناجات کہیں بے بسی کا تذکرہ تو کہیں پر غربت کا شکوہ مگر جستجو اس بات کی کرتے ہیں کہ کاش ان کو دیار مدینہ کی زیارت نصیب ہو جائے۔ ان کی تمنا لباس بشری پہننے کے بعد شروع نہیں ہوئی بلکہ جب رب کائنات عالم ارواح میں تمام ارواح سے وحدانیت اور رسالت کی گواہی طلب کر رہا تھا اس وقت سے انہوں نے جستجو و تلاش کو ایک شکل دی اور ایسی شکل جس میں ان کے مطالبات پورے ہوتے ہیں اور وہ جستجو ایک درویش کی شکل میں ان کے اشعار میں دکھائی دیتا ہے۔

جستجوئے نشترؔ میں کچھ اس طرح اپنی دلی خواہشات اور حقیقی محبت کا اظہار کرتے ہیں:

لیے اپنے دل میں ہزاروں تمنا چمن در چمن اور صحرا بصحرا

ازل سے میں دنیا میں درویش بن کر در شاہ باغ ارم ڈھونڈتا ہوں

نشترؔ نے متعدد نعت گو شعراء حکیم مومن خاں مومن اور محسن کاکوروی، حماد مباکپوری، جاوید مباکپوری، ایوب مبارکپوری وغیرہم کی طرح امرا و روسا کی شان میں تعریفی قصیدے نظم کرنے یا پڑھنے سے ہمیشہ اعراض کیا۔ کیونکہ وہ داد و دہش، انعام و اکرام کے خواہشمند کبھی نہیں رہے پھر بھی جو شہرت اور ناموری انھوں نے حاصل کی وہ صرف اور صرف ان کی شاعری کی دین ہے۔ ان کی شاعری خالص محبت کا ثبوت پیش کر تی ہے۔ انہوں نے شاعری کبھی شہرت یا اخبار و رسائل میں چھپنے کی غرض سے نہیں بلکہ تا عمر وہ عقیدے کو بنیاد بنا کر شاعری کرتے رہے۔ اسی منظر کی عکاسی کرتے ہوئے وہ خود اس کا اعتراف کرتے ہیں۔

جہان فکر میں نشترؔ مرا تخلص ہے

مگر خدا کی قسم شوق اشتہار نہیں

زمانہ خود بخود پہچان لے گا تجھ کو اے نشترؔ

حکایت جب کبھی چھیڑیں گے اہل گلستاں میری


نشترؔ مبارکپوری کے کلام کے عام اوصاف یہ ہیں کہ وہ نعتیہ مضامین کو اپنے جذبات و عقائد کی گرمی کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ جس سے جواہر مضامین، شاعرانہ بلند پردازی انداز کے شان و شکوہ بندش کی چستی، استعاروں کی رنگینی اور تلمیحات کے ساتھ مکمل طور پر کھل کر سامنے آتی ہیں اور اسی سے ان کے شعری امتیازات مستحکم ہوتے ہیں۔ جس میں بلاشبہ ان کے معاصرین میں ایک نظیر بن کر ابھرے بلکہ یہ کہنا بھی حق بجانب ہوگا کہ اردو کی نعتیہ شاعری ان کی شناخت کا سبب بنی ہے۔

نشترؔ کی نعتیہ شاعری کے بارے میں ظفر عمر قدوائی کہتے ہیں:

’’ان کا کلام خیالات نادرہ، سخن آفریں، فصاحت و بلاغت کا ایک عالم ہے جسے دیکھ کر انسان حیران ہو جاتا ہے ان کی نعتیہ شاعری در حقیقت معراج بلاغت ہے اور محمد و آل محمدؑ سے محبت کا بین ثبوت ہے۔ ان کی شاعری میں انوکھا پن، سادگی، عام فہم الفاظ وغیرہ ہی لوگوں کو اپنا گرویدہ بناتی ہے.‘‘

 (ظفر عمر قدوائی کا تاثراتی خط بعد از مرگ سے ماخوذ)

نشترؔ کا کلام مبارکپور کی پیداوار ہونے کے باوجود مبارکپور کے عوامی رنگ سے الگ تھلگ ہے۔ ان کا خا ص موضوع نعت ہے جس کے ذریعہ انہیں آج پہچانا جا تا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو کوئی مبالغہ آرائی نہیں ہو گی کہ ان کی شاعری ان کے دل کی آواز تھی جس کو انہوں نے نعتیہ شاعری کی شکل میں صفحہ قرطاس پر منقش کر دیئے۔ نعت گوئی کی فضا اس قدر وسیع ہے کہ اس فضا میں پرواز کرنا مشکل ہے۔ اگر شاعر کی معراج یہ ہے کہ اگر شعر گوئی مشکل مقام پر پہنچا دے تو شاعر کا یہ کمال ہے کہ اس مشکل منزل سے خوش اسلو بی سے گذر جائے۔ نعت گوئی دشوار گزار مرحلہ ہے مگر وہ بخوبی اس جادے کے راہی ہوئے۔ اس بات کا خود وہ اعتراف کرتے ہیں کہ نعت گوئی ایک ایسا پر خطر راستہ ہے جس راستے پر چلنا عام انسان کے بس کی بات نہیں ہے مگر جس پر خصورؐ کی نظر عنایت ہو جائے اس کے لیے ساری مشکلیں آسان ہو جا تی ہیں۔


اے عبدیت کی روح سرا پائے نور حق

تیری تجلیوں سے منور ہے ہر طبق

تو نے کتاب دیں کا پڑھایا ورق ورق

تو نے  دیا ہر ایک کو اسلام کا سبق

کس شئے سے دوں مثال کہ تو بے مثال ہے

نشترؔ مبارکپوری نے نعت کی وسیع فضا میں خوب خوب پرواز کی اور بہت سے مشکل مقامات پر انہوں نے انتہائی خوبی اور خوبصورتی کے ساتھ طے کیے ہیں۔ مضمون میں موضوع کے اعتبار سے حدیث اور عقائد کی صحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے خلوص و محبت کے اظہار میں تہذیب و متانت کا پاس ان کے کلام کی عام خوبیاں ہیں۔ ان سب کے علاوہ ایک امتیاز جو نشترؔ کو شاعروں کی صف اول میں کھڑا کرتا ہے۔ ان کی شاعری میں سادگی ہے۔ ان کے کلام اس لیے زیادہ سادہ ہیں کیونکہ انہوں نے عوام کو نظر میں رکھ کر شاعری کی ہے جس کی وجہ سے وہ اور زیادہ مقبول ہوئے۔

نشترؔ کی نعت گوئی کا بڑا وصف یہ ہے کہ ان میں تخلیقی شان نمایاں ہے اس کا سبب یہ ہے کہ نشتر سے پہلے بہت سے شاعروں نے نعت گوئی کو بحیثیت شاعری تسلیم تو کیا جیسے حماد مبارکپوری، ایوب مبارکپوری، مختار مبارکپوری، ظفر ناصری مبارکپوری، ندیم مبارکپوری، جعفر علوی وغیرہ وغیرہ مگر نعت کو بحیثیت ایک فن کے نہیں اپنایا تھا حالانکہ اردو شاعری میں نعت گوئی ہمیشہ سے موجود تھی جن ابتدائی لوگوں نے محض عقیدت کی بنا پر نعت کو اپنا موضوع یا نعت گوئی کو اپنا شعار بنایا۔ ان کے یہاں کوئی شاعرانہ کمال نظر نہیں آتا مگر بعد کے شعراء نے نعت کو ایک صنف سخن کی حیثیت سے پروان چڑھایا ان میں محسن کاکوروی کا نام نامی زیادہ معروف ہوا لیکن ادب میں مقدار یا خوبی کے اعتبار سے نعت گوئی بلند درجہ حاصل نہ کر سکی۔ شعراء نے صرف دعاؤں کی ابتداء حمد باری تعالیٰ سے کی ہے اس کے بعد کسی نے نعت کسی نے منقبت کو جگہ دی ہے۔ اب یہاں سے نشترؔ مبارکپوری کے کلام سے کچھ مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جن سے ان کی شاعری کے امتیازات اور ان کی والہانہ عقیدت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔

جس شان سے لہرایا حضرت نے علم دیں کا

اب تک وہی عظمت ہے اسلام کے پرچم کی

وہ ذکر مصطفی ہو یا ہو وہ ذکر خالق

دونو ہی ہیں سہارا ایمان پروری کا

نشترؔ نے نعتیہ شاعری میں اپنی عاجزی کا اقرار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مجھ جیسا گنہگار اس نوری بشر و سر دار انبیا کی کیا مدح سرائی کر سکتا ہے بہر کیف جتنی میں نے توصیف یا مدح و ثنا کی ہے اس کا مقصد اپنی عاقبت سنوارنا ہے۔ شاعری میں ہمیشہ مبالغہ آرائی ہوتی ہے مگر پیغمبرؐ کی شان میں مبالغہ آرائی نہیں کی جا سکتی یہ ان کی شان ہے جس کے لیے اللہ نے عرش و فرش بنایا جس کے لیے قرآن میں ان کی تعریف کی، آسمان پر ستارے مزین کیے اسی پس منظر کی تائید کچھ اس طرح کر تے ہیں:

سرکار رسالت کی کیا شرح کرے کوئی

محبوب الٰہی کی کیا مدح کرے کوئی

توصیف ہے قرآں میں جب مرسل اعظم کی

نشترؔ مبارکپوری کی شاعری کا اہم عنصر صنائع اور بدائع میں ہے جس کے شوق میں مبارکپور کے شعراء نے اس میں اپنے اپنے کمالات دکھائے ہیں مثال کے طور پر الحاج حمادؔ مبارکپوری بحیثیت ایک قادر الکلام شاعر کے فوقیت رکھتے ہیں۔ اس میں شبہ بھی نہیں کہ بعض نے اعتدال کی راہ اپنا کر اپنے کلام کو بے مزہ نہیں ہونے دیا۔ نشترؔ کا کلام بھی شاعرانہ صناعی کا بہترین نمونہ ہے۔ تشبیہات و استعارات کنائے تجنیس اور مضمون آفرینی ان کے کلام میں جابجا موجود ہیں ۔

ثنائے زلف مصطفی کروں میں کس زبان سے

کہ جس کی بو سے خوشبوئے ارم بھی شرمسار ہے

 نشترؔ کا کمال یہ ہے کہ ان کی آورد میں بھی زور اور آمد کا احساس ہوتا ہے ان کی تشبیہات اور استعارات اور کنائے آسانی سے سمجھ میں آجاتے ہیں انکی مضمون آفرینی میں ان کا تخیل پرواز کر کے خلا میں گم نہیں ہو جاتا یہ وصف بھی نشتر کو ان کے ہمعصروں میں فوقیت عطا کرتا ہے۔ نشترؔ کے کلام اس اعتبار سے قابل قدر ہے کہ اس کی بنیاد خلوص و محبت پر استوار ہے نشتر نے اپنی شاعری کو اپنی شہرت عزت یا صلہ کا ذریعہ نہیں بنایا اپنی تمناؤں کا اظہار انھوں نے نہایت خوبی سے اپنی نعتیہ شاعری میں کیا ہے۔

ہیں لب معانیٔ ارم تو دافت در بے بہا

ہے آنکھ نور ایزدی تو ابرو ذوالفقار ہے

 نشترؔ مبارکپوری نے حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے اپنی فنی ہنر مندیوں کو شاد کام کرتے ہوئے اوصاف حسن حضرت محمدؐ بیان کیے اور اس ذات اقدس کی جانب اپنے قاری کی توجہ مبذول کرائی ہے۔

وہ رخ کہ جس کے حسن پر جمال حق کو ناز ہے

وہ حسن حق کہ جس پہ حسن ایزدی نثار ہے

نشترؔ حالات حاضرہ کے بگڑتے ہوئے چلن کو شہر آشوب کے انداز میں پوری شاعرانہ فنکاری کے ساتھ پیش کرتے ہیں اور ساتھ ہی تبلیغ بھی کرتے ہیں کہ آج کے دور میں مسلمان کو کیا ہو گیا ہے کیوں اپنے کردار سے ثابت نہیں کرتے ہیں کیونکہ مسلمان تو نام ہے خندہ پیشانی کا مسلمان نام ہے الفت سرکار دو عالم کا، نبیؐ کے زمانے کے صحابہ کے کردار پر روشنی ڈالی جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنے کردار کو مثال بنا دیا ہے۔ ا یسے بہت سے اصلاحی منظر نامے انھوں نے پیش کر کے اپنے عقائد میں عشق رسولؐ کا اظہار کیا ہے۔

ذرا اہل نظر سلمان و بوذر کی طرف دیکھیں

کہ ان کی کتنی الفت تھی شہنشاہ ولایت سے

امت نے دامن رسولؐ کو چھوڑ دیا ہے زمانہ رسولؐ کے امتی جو کہتے تھے اس پر عمل بھی کر تے تھے مگر آج کے امتی جب عقیدے کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں جہاں رسولؐ ہوں گے وہاں ہم امتی ہوں گے۔ وہیں جب عمل کی بات آتی ہے تو کہتے ہیں کہاں وہ بلند پایہ شخصیت رسول عربیؐ اور کہاں ہم گنہگار امتی ان کا ہم سے کیا تقابل ہو سکتا ہے۔ زمانہ رسولؐ کے امتی اپنے دشمنوں کا شکا ر کرتے تھے اور جہاں جس جگہ سے ان کا گزر ہوتا تھا ان کے لباس کو دوسرے لوگ تبرک کے طور پر چومتے تھے اور خواہش ظاہر کرتے تھے کہ کاش یہ ہمارے گھر کے مہمان ہوں مگر آج کیا ہو گیا ہے کہ اسی لباس کو دیکھتے ہی دوسرے مذاہب کے لوگ دہشتگردی کا الزام لگاتے ہیں کوئی اپنے پہلو میں بٹھانے کو تیار نہیں ہے اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ عمل کو چھوڑ کر زبانی کھوکھلے دعوے ہیں۔ انہیں بہت زیادہ افسوس ہوتا کہ جب دور حاضر کے مسلمانوں کے کردار کو دیکھتے ہیں جو اپنے آپ کو نبی کا امتی کہتے ہیں مگر صرف زبان سے ان کے اندر عمل نام کی چیز نہیں ساتھ ہی دور حاضر کے مسلمانوں کے لیے حضرت رسول خداؑ سے دعائے خیر بھی کچھ اس انداز میں کرتے ہیں:

ڈبو کر رکھ دیا انسانیت کو آج انساں نے

پسینہ بہہ رہا ہے دین کے ماتھے پہ غیرت سے

بچالو اے شہ کون و مکاں اپنے محبوں کو

گھٹا الحاد کی پھر اٹھ گئی بحر ضلالت سے

ثنائے سرکار ختمی مرتبت میں ہر بند نئی صنعت لفظی و معنوی استعارے، تشبیہات، کنائے و تلمیحات سے سرا پائے رسول اکرمؐ کو بیان کیا ہے نشترؔ مبارکپوری کو رسول پاک سے کتنا لگاؤ کتنا عشق تھا ان کے اس قصیدے کا ہر ہر لفظ نیا لطف اور نیا انبساط فراہم کرتا ہے کہا جاتا ہے کہ ’’جوش کے سامنے‘‘ الفاظ دست بستہ حاضر رہتے تھے کہ مجھے موقع دیا جائے۔‘‘ یہی بات عاشق رسولؐ نشترؔ مبارکپوری کے باب میں بھی کہی جا سکتی ہے اور اللہ نے انھیں بطور خاص یہ ہنر بھی دیا تھا کہ ان کا استعمال وہ جس طرح چاہیں کریں۔

آتا ہے جب تصور اللہ کے نبی کا

پھر جاتا ہے نظر میں وہ دور ہاشمی کا

پاؤں جو زندگی میں آنکھوں سے میں لگا لوں

منزل کا راستہ ہے نقش قدم نبی کا

نشتر کی ایک نظم ’’مولوی سے شاعر کا خطاب‘‘ جو انہوں نے ۲؍ اگست ۱۹۸۵ ء کو لکھی جو اس قدر مشہور ہوئی کہ ہر خاص و عام کی زبان پر اس نظم کا چرچا تھا۔ نشتر ؔنے اس نظم میں ایک ایسا پیغام دیا ہے جو واقعی دلچسپ اور مطالعہ کے لائق ہے۔ نشترؔ نے نعتیہ کلام کو جس بلند مقام تک پہنچایا ہے اس سے اہل علم با خبر ہیں۔ بعض بے عقل ایسے افراد ہیں جو شاعر کو برا بھلا کہتے ہیں۔ ان کو نشترؔ نے اپنی نظم سے آگاہ کیا ہے وہ کہتے ہیں:

خدا خود بنا ہے نبی کا سخنور

نبی کے برادر علی کا سخنور

اور انسان کی بندگی کا سخنور

ہے واللہ اپنے ولی کا سخنور

یہ ارشاد ربی بخط جلی ہے

نشترؔ نے اپنی نظم کے ذریعہ شاعر کو برا کہنے والے سے سوال کرتے ہیں کہ شاعر کی دنیا کہاں سے چلی ہے؟ شاعری کا موجد اعلیٰ کون ہے؟، شاعری کی جلوہ گری کس سے منسوب ہے؟ شاعری کا مقصد کیا ہے؟ شاعر جو اشعار کہتا ہے اس میں کتنی محنت و مشقت صرف ہوتی ہے؟ شاعر کی پرواز کہاں تک ہے؟ کس کی بدولت شاعر کو یہ دولت نصیب ہوتی ہے؟ ا س کا صلہ کیا ہے؟ شاعری سے کیا کیا ملتا ہے؟ یہ سارے سوالات انہوں نے معترض سے اپنی نظم میں پوچھا ہے۔ وہیں دوسری جانب انہوں نے اس کا جواب بھی دیا ہے۔ یہ نظم اپنے آپ میں سوالات و جوابات کا مجموعہ ہے جسے ہر شخص کو ضرور ایک بار پڑھ لینا چاہئے۔

نشتر کہتے ہیں:

ہیں شاعر علی تو پدر ان کے شاعر

یہ شاعر کی دنیا کا پہلا سخنور

کیا اس نے شاعر کی دنیا اجاگر

چھلکنے لگا جس سے مدحت کا دفتر

کہ پہلے ہی حمد خدا نظم کی ہے

نشترؔ اس نظم میں معترض سے یہ بات بڑے پر جوش انداز میں کہتے ہیں کہ شاعر کا ایک فن یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ شاعری یکجہتی کے لیے کرتا ہے، اپنی شاعری سے کسی کا گھر نہیں اجاڑتا، نہ کسی کو کسی سے لڑواتا ہے، شاعر تو محبت کا پیغامبر ہوتا ہے شاعر کو ہر شخص سے الفت و محبت ہوتی ہے۔ شاعر کسی چیز یا کسی بھی مسئلے پر ہلکان نہیں ہوتا۔ شاعر کو تو صرف خوف خدا ہو تا ہے ساتھ ہی شاعر اپنی شاعری کو بندگی و عبادت سمجھتا ہے۔ شاعر تو عقیدت کے سمندر میں موجیں مارتی ہوئی لہر کا نام ہے، شاعر کا ایمان و اعتقاد خدا کی مدحت کرنا اور رسالتؐ سے محبت کر نا، ان کی شان میں قصائد رقم کرنا، شاعر تو شہنشاہ عصمت کے نغمے شاعری کی شکل میں صفحہ قرطاس پر سنہرے حرفوں سے لکھتا ہے شاعر کا یہ انداز سنت پروردگار ہے۔

اللہ نے فرمایا خود مرسل اعظم سے

الفت تیری عترت کی بس اجر رسالت ہے

جنہیں خود نور سے اپنے سنوارا رب اکبر نے

انہیں کی ذات سے اس بزم ہستی میں اجالا ہے

شاعری نشترؔ کے نزدیک دلوں کی صداقت کا نام ہے، شاعری محض عقیدت و محبت کے آشکار کا نام ہے، شاعری درس وفا ہر بشر کو دیتی ہے اور شاعر اپنی شاعری کے ذریعہ لوگوں کی غلطیوں کی اصلاح کرتا ہے، لوگوں کو ترقی کی راہ دکھاتا ہے، تخیلات کی دنیا کو سنوارتا ہے اور ہر قوم و ملت کو فکر و فن کی دعوت دیتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو شاعر حقیقت میں عوام کا استاد ہوتا ہے۔ ان تمام خیالات کو نشتر نے اپنی نظم میں پیش کیا ہے۔

 نشترؔ مبارکپوری نے جہاں نعت و منقبت سے زبان اردو کے دامن کو آراستہ کیا وہیں انہوں نے نوحہ گوئی کے باب میں بھی اضافہ کیا۔ انہوں نے بہت سے ایسے نوحے کہے جن کا شمار اردو کے بہترین نوحوں میں ہوتا ہے مثلاً یہ نوحہ جس کا مطلع ہے:

قرآن کی آیت میں جو لفظ مودت ہے

واجب ہر اک انساں پر شبیرؑ کی الفت ہے

یہ وہ نوحہ ہے جس کا نام ان کے بہترین طرحی نوحوں کے طور پر لیا جاتا ہے جس کی تضمین ملاحظہ کریں:

ایمان نہیں ان کا توحید و رسالتؐ پر

شبیرؑ کے ماتم کو کہتے ہیں جو بدعت ہے

مزید برآں نشترؔ مبارکپوری نے اردو میں شعر گوئی کے علاوہ ہندی بھاشا میں بھی خاصے کلام لکھے جن سے ان کی قادر الکلامی کا اظہار ہوتا ہے۔ جیسے یہ نوحہ:

بین کرت ہیں بانو دکھیا لال کہاں ہو آجاؤ

تجھ بن تڑپے جییرّا مورا لال کہاں ہو آجاؤ

اصغر پیارے سوگ میں تمری ہردئے سے ہے ہوک سی اٹھتی

نیر بہائے کب تک نینا لال کہاں ہو آجاؤ

نشترؔ کی سب سے مشہو ر و مقبول نظم ’’حضرت انسان کی کرتوت کا ایک مر قع‘‘ انہوں نے ۲؍مارچ ۱۹۷ء میں رقم کی تھی اس نظم کا مطلع اس قدر مشہو ر ہے کہ زبان زد خاص و عام ہو کر نشترؔ کی شناخت کا سبب بن گیا ہے اس نظم میں تشبیب کو بطور خاص برتا گیا ہے جس کی وجہ سے نظم تبلیغی الفاظ کے ذخیرے سے مرصع ہو کر حد درجہ مالا مال زبان کی چاشنی اور فصاحت و بلا غت سے لبریز ہو گئی ہے۔

یہ انسان اف کیا سے کیا بیچ ڈالیں

عروس حرم کی ردا بیچ ڈالیں

عبا بیچ ڈالیں قبا بیچ ڈالیں

عمامہ کی شرم و حیا بیچ ڈالیں

زمانے میں جنس وفا بیچ ڈالے

یہ دولت کے بندے ہوس کے شکاری

بظاہر بنے ہیں جہاں میں مداری

مگر ہیں حقیقت میں زر کے پجاری

اگر موقع پائیں تو بن کر بھکاری

مزار شہۂ انبیا بیچ ڈالیں

نشترؔ ایسے شاعر تھے جو ہر دل عزیز تھے۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ جس سے بھی ملاقات کرتے بڑے جوش و خروش اور والہانہ انداز میں کرتے تھے۔ گاندھی نگر، مبارکپور میں ان کا دولت کدہ تھا وہ اکثر و بیشتر صبح سویرے سیر کے لیے جایا کرتے تھے سر راہ کوئی مل جاتا تو وہیں ٹھہر کر ان کی خیریت دریافت کر تے، اگر کسی کی بیماری کا انہیں معلوم ہوتا تو اپنے تمام مصروفیات کو ترک کر کے ان کی عیادت کے لیے جاتے۔ خاص کر بچوں سے بہت زیادہ پیار کرتے، بچوں کی تعلیم کا مشورہ دینے کے ساتھ بچوں کو اشعار یاد کرواتے، اگر کہیں میلاد، محفل، مجلس یا نشست، تقریب ہوتی تھی تو وہ سب سے پہلے وہاں پہنچ کر سب کا خیر مقدم کرنا اپنا معمول سمجھتے۔ بچوں اور نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرنا ان کی اولین ترجیحات میں شامل تھا۔ اخلاق فاضلہ و فاخرہ صرف زبان تک محدود نہ تھے بلکہ ان کے عمل میں ساری باتیں صاف طور پر لوگوں کی محسوس کی۔

یہاں ان چند لوگوں کے تاثرات بھی پیش خدمت ہیں جن کا شمار مبارکپور کے چنندہ شعرا میں ہوتا ہے۔

★ شاعر ندیم مبارک پوری تاثرات:

’’نشترؔ صاحب ایسے شاعر تھے جو فنکاری، شاعری بزم ادب، نشستوں وغیرہ سے تعلق رکھنے والوں کے دلوں پر حکومت کرتے تھے۔ ہمیشہ اہل علم و اہل فن کو ان کی ضرورت محسوس ہوتی رہے گی۔ رسول و آل رسولؐ کے سچے چاہنے والے تھے اس کے ساتھ وہ سخنوران مبارک میں بعض لوگوں کی شاعری میں اصلاح و اچھے مشوروں سے آگاہ بھی کر تے تھے جب بھی محفل شعر و ادب سجتی تھی یا سجے گی ان کا نام سر فہرست ہو گا۔‘‘

(تعزیتی خطوط، ندیم مبارکپوری سے ماخوذ)

نشترؔ مبارکپوری میں وہی مخصوص رنگ ہے جس کی انھیں آرزو تھی کہ ان کا کلام خواہ غزل ہو یا قصیدہ یا رباعی ہو مدح و ثنائے پیغمبرؐ سے خالی نہ ہو۔ زبان و بیان کا لطف تخیل کی بلند پردازی بات میں بات پیدا کرنے کا ڈھنگ اپنے آپ میں بے مثال ہے۔ زبان و بیان کے ساتھ ان کی آواز میں ایک الگ طرح جا دو تھا، سریلی آواز، جاذب الحان کے حامل تھے۔ مسجد میں اذان اکثر و بیشتر دیا کرتے تھے۔ خدا داد سریلی آواز کے مالک تھے۔ نشترؔ کی اذان کوئی بھی سنتا تھا دور سے پہچان جاتا تھا اور کھچا ہوا چلا مسجد تک آتا تھا۔ بسا اوقات مصلیان مسجد اذان کی فرمائش کرتے تھے اور وہ بلا تاخیر اسے پورا بھی کر تے۔ ان میں ذرا سا بھی غرور نہیں تھا چاہے وہ نوحہ، قصیدہ، نعت خوانی، سب میں بے مثال تھے۔ انہیں اوصاف کی بدولت ان کو خدا نے نعتیہ شاعری جیسی نعمت سے نو ازا ہے۔

بقول ڈاکٹر احمد علی بر قی:

’’نشترؔ صاحب کا شعور و فکر و فن بہت ہی نرالا تھا اور ان کی شاعری نیز ان کا حسن اخلاق لوگوں کے دلوں پر راج کرتا تھا۔ جہاں تک ان کے قول و عمل کی بات وہ ایک سچے عاشق رسول و آل رسولؐ تھے اور وہ ہمیشہ کامیاب محفل کی ضمانت ہوا کرتے تھے۔ نشترؔ صاحب کو ہمیشہ تاریخ ادب میں نعت گو شاعر کی حیثیت سے جانا جائے گا۔‘‘

(تاثراتی خطوط ۔ ڈاکٹر علی برقی ۔ بعد از مرگ)

نشترؔ صاحب کی فنکارانہ صلاحیت کا اعتراف کرتے ہوئے جناب احمر مبارکپوری کہتے ہیں:

’’نشترؔ صاحب آسمانی فکر کے خاور ہونے کے ساتھ دریائے نعت و منقبت کے شناور تھے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں اخلاق کے پہلو کو بلند مقام تک پہنچا دیا ہے۔ اور بعض اہل علم و ادب داں انہیں ’اخلاق فاضلہ کے پیکر‘ کے نام سے جانتے تھے۔ ان کی شاعری سادہ اور بامعنی ہوتی اور ان کی شاعری کی خاص بات یہ ہے کہ پڑھنے والا ان کی شاعر میں غرق ہو جاتا ہے۔‘‘

(تاثراتی نظم ۔ احمر مبارکپوری سے ماخوذ)

انسان ہی کیا بلکہ خداوند تعالیٰ اور اس کے فرشتے تک رسول اللہؐ پر درود و سلام بھیجتے ہیں یہ ان کی ہمہ جہت اوصاف اور خوبیوں کا ثبوت ہی تو ہے ۔اس میں شبہہ نہیں کہ آج تک کوئی ولی یا بزرگ حضرت محمدؐ کی خوبیوں اور عظمتوں کو کما حقہ معرفت رکھنے والا نہیں ہوسکا آج جو حمد و ثنا کے موتی نچھاور کئے جا رہے ہیں وہ صرف بقدر ظرف و نظر و ہمت ہیں نشترؔ نے یہ قصیدہ در مدح رسولؐ لکھ کر ہمیں راہ دکھائی ہے قصیدے کے لحاظ سے بھی اس کی عظمت مسلم ہے۔

سن کر شہرہ ترے حسن کا یا نبی

دید کی تیری یوسف کو حسرت ہوئی

سیر کی آپ نے قاب و قوسین کی

پل میں طے دو جہاں کی مسافت ہوئی

چہرۂ کفر پر چھا گئی مردنی

قلب اسلام سے دور کلفت ہوئی

جب رسول کا ثنا خواں، مدح خواں اس دنیا سے جاتا ہے تو ہر مسلمان کا یقین کامل ہے کہ وہ جنت میں جاتا ہے اور فرشتے ان کے استقبال کے لیے آتے ہیں ان ہی باتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے نشترؔ کے انتقال پر جعفر علوی مبارکپوری نظم تعزیت پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں:

محب نبیؐ کا ہوں اتنا بتا رہے ہوں گے

علیؑ کے ہاتھ سے انعام پا رہے ہوں گے

کہ حاضری دینے نبی کی خدمت میں

رسولؐ پہلو میں اپنے بٹھا رہے ہوں گے

٭٭٭٭٭




محمد رضا (ایلیا)

محلہ پورہ رانی،

قصبہ مبارکپور، اعظم گڑھ

رابطہ نمبر: 9369521135

 

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی