بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

آئیے خمس نکالیں
(مطابق فتاویٰ آیات عظام: امام خمینیؒ، اراکیؒ، خوئیؒ، گلپائگانیؒ، بہجتؒ، جواد تبریزیؒ، فاضلؒ،
خامنہ ای، سیستانی، صافی، زنجانی، مکارم شیرازی، وحید خراسانی، نوری ہمدانی مد ظلہم العالی)
مرتبہ
مولانا منھال رضا خیرآبادی
فصل اول
اموال مکلفین
اموال مکلفین:
مجموعی طور پر ہر انسان مکلف کے پاس ۱۵ قسم کے مال ہوتے ہیں:
1۔ میراث کا مال۔
2۔ سرمایہ محفوظ
3۔ وہ آمدنی جو خرچ ہو گئی ہو
4۔ وہ آمدنی جو محفوظ ہو
5۔ وہ قرض جو خرچ ہو گیا ہے
6۔ وہ قرض جو محفوظ ہو
7۔ ہدیہ وتحائف
8۔ وہ مال جو کسی کو بطور قرض دیا ہے.
9۔ مہر کی رقم
10۔ دیت کی رقم
11۔ صدقات ورقوم شرعیہ
12۔ پنشن
13۔ بیمہ قسط
14- سال خمس کے آخری دن بچی ہوئی خوراک اور کھانے پینے کی اشیاء وغیرہ
15۔ حلال مال حرام میں مخلوط اور مل جائے۔
نوٹ:
خزانہ و کان پر بھی خمس واجب ہے لیکن دور حاضر میں عموما ایسے موارد پیش نہیں آتے ہیں اسلئے اس کے تذکرہ سے گریز کیا گیا ہے۔
جن اشیاء پر خمس واجب ہے ان میں سے اور بھی موارد ہیں جو دور حاضر میں مبتلا بہ نہیں ہیں جن کو درج نہیں کیا گیا ہے۔
میراث میں خمس:
مندرجہ ذیل نظریات ہیں:
الف: میراث میں خمس نہیں ہے، اگر وارث جانتا ہے کہ جب مالک (مورث) کے ہاتھ میں یہ مال تھا تو خمس واجب تھا مگر خمس ادا نہیں کیا ہے یا اس بات کا علم ہو کہ خمس اس کے ذمہ باقی ہے تو ایسی صورت میں خمس واجب ہوگا (امام خمینیؒ، اراکیؒ، خامنہ ای، زنجانی، صافی، فاضلؒ، مکارم، وحید خراسانی، نوری ہمدانی)
ب: میراث میں خمس واجب نہیں ہے لیکن اگر ورثاء جانتے ہوں کہ خمس واجب تھا ادا نہیں کیا گیا ہے تو احٹیاط واجب کی بنا پر (بڑے وارث پر۔ تبریزیؒ) خمس ادا کرے، اور اگر پتہ ہو کہ مالک خمس کا مقروض ہے تو میت کے مال سے خمس ادا کرے. (خوئیؒ، تبریزیؒ)
ج: آقائے سیستانی نے ۳ صورت بیان کیا ہے:
1۔ اگر مرنے والا خمس کا عقیدہ ہی نہیں رکھتا تھا تو وارث پر خمس واجب نہیں ہے۔
2۔ خمس کا عقیدہ رکھتا تھا لیکن ادا نہیں کیا تھا تب بھی وارث پر خمس ادا کرنا واجب نہیں ہے۔
3۔ مرنے والا خمس کا عقیدہ رکھتا تھا اور خمس ادا بھی کرتا تھا لیکن بعض اموال کا خمس ادا نہیں کر سکا تھا تو ایسی صورت میں تقسیم میراث سے پہلے خمس ادا کیا جائے گا موجودہ اموال کا، اور جو خمس قرض کے عنوان سے اس پر پہلے سے ہو وہ ادا کیا جائے گا.
میراث غیر متوقع:
مرنے والے سے دور کی عزیزداری تھی اور اسکو توقع بھی نہیں تھی کہ میراث ملیگی لیکن مل گئی تو ایسی صورت میں ۳ نظریہ ہیں:
الف: اگر سال کے مخارج سے بڑھ جائے تو خمس ادا کرنا واجب ہے. (وحید خراسانی)
ب: اگر سال کے اخراجات سے بچ جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر خمس واجب ہوگا. (اراکیؒ، بہجتؒ، خوئیؒ، تبریزیؒ، زنجانی، سیستانی، صافی، فاضلؒ، مکارم)
ج: اگر اس کے سال کے اخراجات سے بچ جائے تو احتیاط مستحب یہ ہے کہ خمس ادا کرے. (خمینیؒ، خامنہ ای، نوری ہمدانی)
★ تاجر نے خمس کی تاریخ معین کیا تھا اور تجارت میں منافع بھی ہوا لیکن خمس کی تاریخ آنے سے پہلے ہی انتقال ہوگیا تو اس مال میں خمس کے واجب ہونے یا نہ ہونے پر ۲ نظریہ ہے:
الف: موت کے وقت تک کے مخارج کو اس منفعت سے کم کر دیں گے اور باقی مال سے خمس ادا کریں گے. (خمینیؒ، اراکیؒ، خوئیؒ، خامنہ ای، زنجانی، سیستانی، صافی، فاضلؒ، گلپائگانیؒ، مکارم، وحید خراسانی)
ب: وارث پر واجب نہیں ہے کہ موت کے وقت تک کے مخارج کو کم کرکے باقی مال میں خمس ادا کرے. (تبریزیؒ)
ہبہ، ہدیہ، تحفہ جات وغیرہ:
اس کی دو صورت ہے:
الف: پہلے یہ دیکھیں کہ اس پر خمس واجب تھا یا نہیں؟ یعنی وہ تحفہ و ہدیہ اس کے ان منافع یا آمدنی میں سے تھا جس پر خمس واجب ہوا تھا یا نہیں؟ ایسی صورت میں اگر ہدیہ و تحفہ درمیان سال کی آمدنی سے لیا گیا ہو اور ہدیہ دینے والے کی شان کے مطابق ہو تو تمام مراجع کا اتفاق ہے کہ خمس واجب نہیں ہوگا۔
ب: جس کو ہدیہ و تحفہ دیا گیا ہے اس پر خمس واجب ہے یا نہیں؟ اسکی دوصورت ہوگی:
1۔ اگر پورا ہدیہ وتحفہ سال کے درمیان زندگی کے اخراجات میں خرچ ہوجائے تو تمام مراجع کے نزدیک خمس واجب نہیں ہوگا
2۔ تاریخ خمس آنے تک تحفہ وہدیہ خرچ نہ ہو اہو اور باقی رہ جائے تو اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل پانچ نظریات ہیں:
★ اگر سال کے مخارج سے بچ جائے تو ضروری ہے خمس ادا کرنا. (اراکیؒ، خوئیؒ، گلپائگانیؒ، سیستانی، صافی)
★ اگر سال کے اخراجات سے بچ جائے اور اتنا معمولی ہو کہ اس کی عرف عام میں قیمت ہی نہ ہو، بلکہ ضروری ہے کہ قابل اعتنا قیمت رکھتا ہو تو اس کا خمس ادا کرنا ضروری ہے. (تبریزیؒ، وحید خراسانی)
★ سال کے اخراجات سے بچ جائے اور وہ مال قیمت رکھتا ہو تو لازم ہے خمس ادا کرے، احتیاط کی بنا پر بے قیمت چیز بھی ہو تو اس کا خمس ادا کردے۔
★ اگر سال کے مخارج سے بچ جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر خمس ادا کرنا چاہئے. (بہجتؒ، فاضلؒ، مکارم)
★ خمس واجب نہیں ہے اگر چہ احتیاط مستحب یہ ہے کہ خمس ادا کردے. (خمینیؒ، خامنہ ای، نوری ہمدانی)
مصادیق ہبہ و ہدیہ:
1۔ انعامات خواہ وہ بینک سے ملیں
2۔ وہ ہدیہ جو دوستوں کے ذریعہ سے ملے
3۔ اسکالر شپ جو حکومت وغیرہ طلبہ کو دیتی ہیں
4۔ عیدی
5۔ جیب خرچ جو والدین اپنے بچوں کو دیتے ہیں
6۔ ہدیہ
7۔ وہ پیسہ ومال جو کسی چیز کیلئے حوصلہ افزائی کے طور پر ملے
8۔ وہ مال جو شہدا کے خانوادہ کو ملتا ہے
9۔ عطیہ
سرمایہ (بچت):
سرمایہ کی ۲ صورت ہوگی:
الف: اگر سرمایہ ان چیزوں پر مشتمل ہو جن پر خمس واجب نہیں ہوتا ہے جیسے میراث، مہر، دیت وغیرہ تو اس میں خمس واجب نہیں ہوگا۔
ب: اگر سرمایہ تجارت ،نوکری کی تنخواہ، حرفت وصنعت وغیرہ سے حاصل ہو تو اس سلسلے میں 7 نظریات ہیں:
1۔ ایسے سرمایہ میں خمس واجب ہوگا لیکن اگر اس کی مقدار اتنی کم ہے کہ خمس ادا کرنے کے بعد آمدنی اور ما بقی سرمایہ سے زندگی کے ضروریات پورے نہیں ہو سکتے ہیں یا آمدنی اور مابقی سرمایہ اسکی شان کے مطابق نہ رہ جائے تو ان دونوں صورتوں میں خمس واجب نہیں ہوگا. (خمینیؒ، خامنہ ای)
2۔ سرمایہ پر اس وقت خمس ہوگا جب کہ وہ ایسی چیزوں سے حاصل ہواہو جس پر خمس واجب نہیں ہوتا ہے ایسی صورت میں وہ آمدنی جو تجارت یا کسی کام یا تنخواہ وغیرہ کے ذریعہ ہوئی ہو اس میں بہر حال خمس ہوگا خواہ زندگی کی ضروریات پوری کر سکے یا نہ کر سکے اور انسان مجبور ہو کہ ایسا شغل انجام دے جو اسکی شان کے مطابق نہ ہو. (گلپائگانیؒ، صافی)
3۔ اگر سرمایہ سال گذشتہ کی آمدنی سے حاصل کیا گیا ہو تو بہر حال خمس واجب ہے لیکن اگر درمیان سال جاری میں آمدنی ہوئی ہے تو جتنا سال میں زندگی کے ضروریات میں خرچ ہوگا اس میں خمس نہیں ہوگا اور جو بچ جائے گا اخراجات سے اسمیں خمس واجب ہوگا. (خوئیؒ، تبریزیؒ)
4۔ جتنی مقدار سرمایہ کی اس کے اور اس کے اہل خانہ کے معاشیات میں خرچ ہوگی اس میں خمس واجب نہیں ہوگا اور مابقی میں خمس واجب ہوگا اب اگر پورا سرمایہ اس کے اور اس کے گھر کی ضروریات پر خرچ ہوجاتا ہے تو خمس واجب نہیں ہوگا. (بہجتؒ، فاضلؒ)
5۔ سرمایہ سے موجودہ قیمت کے اعتبار سے خمس ادا کیا جائے گا لیکن اگر خمس ادا کرنے کی وجہ سے زندگی کا بقیہ دن نہیں گزار پائے گا تو خمس واجب نہیں ہوگا لیکن اگر ٹرن اوور کے ذریعہ بقیہ ایام کے اخراجات کو تدریجا پورا کرسکتے ہیں تو خمس ساقط نہیں ہوگا. (سیستانی، مکارم)
6۔ سرمایہ میں خمس واجب ہوگا لیکن اگر سرمایہ اتنا ہے کہ اس کے ہی ذریعہ سے وہ اپنا اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات زندگی کو پورا کر سکتا ہے تب بھی احتیاط واجب کی بنا پر خمس ادا کرے گا. (وحید خراسانی)
7۔ اگر سرمایہ اتنا ہے جو اس کی ضروریات زندگی کے مطابق ہو یا اس سے کم مقدار میں ہو کہ وہ اپنی شان کے مطابق اپنی زندگی کے اخراجات کو پورا نہیں کر سکتا ہے تو خمس واجب نہیں ہوگا لیکن اگر خمس ادا کرنے سے مشکلات پیدا نہیں ہوں گے زندگی کی ضروری اخراجات کو پورا کرنے میں تو خمس ادا کرنا واجب ہوگا. (زنجانی)
آمدنی:
آمدنی: (تجارت، کاروبار، کاشتکاری، نوکری وغیرہ سے جو آمدنی ہو) اس کی دو صورتیں ہیں :
1۔ جو خرچ ہوگئی ہو:
اس میں مندرجہ ذیل صورتیں ہیں:
الف: سال خمس مکمل ہونے سے پہلے زندگی کے ضروری اخراجات میں خرچ نہ ہو اور سال خمس آنے پر وہ بچی رہ گئی ہو تو سرمایہ میں شمار ہوگی اور اس پر سرمایہ (بچت) کا حکم نافذ ہوگا۔
ب: سال کے اندر ہی زندگی کے ضروری اخراجات جو اس کی شان کے مطابق تھے میں خرچ ہو گئی ایسی صورت میں تمام مراجع کرام کا فتویٰ ہے کہ خمس ساقط ہے۔
ج: سال خمس مکمل ہونے کے بعد زندگی کے ضروری اخراجات میں خرچ ہو گئی ایسی صورت میں تمام مراجع کرام نے فتویٰ دیا ہے کہ خمس واجب ہوگا لیکن آیات عظام بہجتؒ، زنجانی و فاضل کا حکم ہے کہ اگر ضروریات زندگی میں خرچ کرنے کے ارادہ سے رکھا تھا اور بعد میں اسی میں خرچ بھی ہو تو خمس واجب نہیں ہوگا۔
آیۃ اللہ گلپائگانیؒ وصافی نے حکم دیا ہے کہ اگر سرمایہ اس قصد سے رکھا ہے کہ اس سے گھر خریدیں گے اور اس کے علاوہ کوئی راستہ وچارہ نہ ہو اور گھر خریدنا ضروری ہو تو خوواہ اسی سال یا چند سال بعد گھر خریدے خمس واجب نہیں ہوگا ورنہ خمس واجب ہوگا۔
د: وہ آمدنی زندگی کے ضروری اخراجات میں خرچ ہوگئی ہے مثلا گھر خریدلیا یا گاڑی کی ضرورت تھی وہ خرید لیا یا گھر کيلئے اور کوئی سامان جو ضروری ہو خرید لیا لیکن اب اس کو شک ہو رہا ہے کہ آیا سال خمس کے درمیان خرچ کیا ہے یا سال خمس مکمل ہونے کے بعد تو ایسی صورت میں مراجع کے درمیان تین نظریہ ہے:۔
1۔ احتیاط واجب کی بناپر حاکم شرع سے مصالحت کر لے. (خمینیؒ، اراکیؒ، تبریزیؒ، خوئیؒ، خامنہ ای، سیستانی، وحید خراسانی)۔
2۔ احتیاط مستحب کی بنا پر حاکم شرع سے مصالحت کر لے (گلپائگانیؒ، صافی)۔
3۔ احتیاط واجب کی بنا پر حاکم شرع سے مصالحت کر لے جبکہ مال کی وضعیت مشخص نہ ہو اور اگر ایسی چیز خریدا ہے جس کی اسے ضرورت تھی اور لازم تھی تب بھی خمس واجب نہیں ہے. (زنجانی)
2۔ وہ آمدنی جو محفوظ کرلی گئی تھی:
وہ آمدنی کو محفوط کرلی گئی اور ایک سال گزر گیا پھر وہ زندگی کے اخراجات میں خرچ ہوگئی اس سلسلے میں مراجع کرام کے درمیان مندرجہ ذیل نظریات پائے جاتے ہیں:
الف: خمس واجب ہے. (خمینیؒ، اراکیؒ، خوئیؒ، تبریزیؒ، سیستانی، وحید خراسانی)
ب: آمدنی کو محفوظ کرے اسلئے کہ وہ بعد والے سال میں خرچ کرے گا خواہ اس کی مدت چند روزہ ہی کیوں نہ ہو مثلا بیس روز کے بعد نیا سال شروع ہو جائے گا تو یہ خرچ کر دیں گے یا خود محفوظ شدہ آمدنی اس کے سال کے اخراجات میں شمار ہو تو خمس واجب نہیں ہوگا اور اگر ایسی صورت نہیں ہے تو خمس واجب ہے. (خامنہ ای)
ج: خمس واجب ہوگا لیکن اگر یہ محفوظ شدہ آمدنی اسلئے ہو کہ اس سے ان چیزوں کو خریدیں گے جن کا ایک گھر میں اس کی شان کے مطابق ہونا ضروری ہے (مثلا گھر، جہیز، فرنیچر، گاڑی وغیرہ) اور وہ ایک ساتھ سارا سامان نہیں خرید سکتا ہے تو ایسی صورت میں کئی سال بھی گزر جائیں تب بھی خمس واجب نہیں ہوگا. (بہجتؒ، زنجانی، فاضلؒ)
د: خمس واجب ہوگا لیکن اگر آمدنی کو بچائے اسلئے کہ وہ اپنی شان کے مطابق گھر رہنے کیلئے خریدے گا اور اسی صورت میں گھر خریدنا ممکن بھی ہوگا ورنہ نہیں خرید پائے گا تو خمس واجب نہیں ہوگا. (گلپائگانیؒ و صافی)
قرض: (LOAN)
قرض یا لون (LOAN) دو طرح کے ہوتے ہیں:۔
1۔ جو خرچ ہو گیا ہو.
2۔ جو محفوظ ہو
1۔ وہ قرض جو خرچ ہو گیا ہے:
اس سلسلے میں مندرجہ ذیل نظریات ہیں:
الف: سال خمس مکمل ہو جائے اور تاریخ خمس تک کوئی ایک قسط بھی ادا نہ کیا ہو ایسی صورت میں تمام مراجع کرام کا نظریہ یہی ہے کہ خمس واجب نہیں ہوگا خواہ وہ مقدار جو اس نے قرض لیا ہے سال مکمل ہونے پر اس کے پاس موجود ہو یا زندگی کے اخراجات میں لگ گئی ہو یا پھر وہ سرمایہ کی شکل میں اس کے پاس موجود ہو۔
ب: پورا قرض اور قسط یا کچھ قسطیں سال کے دوران جمع کر دیا ہو لیکن اصل قرض جو لیا تھا وہ سال کے دوران زندگی کے ضروری اخراجات میں خرچ ہوگیا ہو تو اس صورت میں بھی تمام مراجع کرام کا حکم ہے کہ خمس ساقط ہے کیونکہ یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ وہ بچت جو دوران سال زندگی کے اخراجات میں خرچ ہو جائے اس پر خمس تمام مراجع کرام کی نظر میں ساقط ہے۔
ج: پورا قرض اور قسط یا کچھ قسطیں دوران سال میں ادا کردیا ہے لیکن جب خمس کی تاریخ آئی تو زندگی کے ضروری اخراجات میں خرچ کر دیا مثلا رہنے کیلئے گھر خرید لیا، گاڑی کی ضرورت تھی یا گھر کے فرنیچر وغیرہ کی ضرورت تھی اس میں خرچ کر دیا ہو تو ایسی صورت میں آیات عظام: بہجتؒ، زنجانی، فاضلؒ کے نزدیک خمس واجب نہیں ہوگا۔ آیات کرام گلپائگانیؒ، صافی کے فتوے کے مطابق وہ قرض جو گھر خریدنے میں خرچ ہو گیا ہے اس میں خمس واجب نہیں ہے۔ آقای مکارم کے نزدیک اگر رہنے کیلئے گھر، گاڑی، زندگی کے ضروری سامان اپنی شان کے مطابق، لڑکی کیلئے زیورات خریدتا ہے تو خمس واجب ہے لیکن تشویق وترغیب کی غرض سے چھوٹ دی گئی ہے۔ آیات کرام: خمینیؒ، اراکیؒ، خوئیؒ، تبریزیؒ، خامنہ ای، سیستانی، وحید خراسانی و نوری ہمدانی وغیرہم نے فتویٰ دیا ہے کہ وہ مقدار جو ادا کی گئی ہے قرض کی اس میں خمس واجب ہے۔
د: قرض کا کچھ حصہ اور کچھ قسطیں ادا کر دی ہوں سال کے اندر لیکن اصل قرض سرمایہ (بچت) یا مال تجارت میں تبدیل ہو جائے تو ایسی صورت میں سرمایہ کا حکم نافذ ہوگا جس کا تذکرہ گذر چکا ہے اس کی طرف مراجعہ فرمائیں۔
2۔ وہ قرض جو محفوظ ہو:
یعنی پورا قرض ادا کردیا ہو لیکن اصل مال قرض موجود ہو اور خرچ نہ ہوا ہو اس کو محفوظ کر دیا گیا ہو اسکی دو صورتیں ممکن ہیں:
الف: زندگی کے ضروری اخراجات کے لئے اس کی ضرورت ہی نہیں پڑی ایسی صورت میں تمام مراجع کرام نے فتویٰ دیا ہے کہ وہ مقدار جو قرض کی ادا کیا ہے اس میں خمس واجب ہوگا۔
ب: زندگی کے ضروری اخراجات کو پورا کرنے اور اپنی شان کے مطابق زندگی کے اخراجات کو پورا کرنے میں اس کا محتاج وضرورت مند تھا ایسی صورت میں مندرجہ ذیل چار نظریہ سامنے آتے ہیں:
1۔ مؤنہ (زندگی کے ضروری اخراجات) خمس سے مستثنیٰ ہیں اور خمس واجب نہیں ہوگا. (بہجتؒ، زنجانی، فاضلؒ )
2۔ اگر اس مبلغ کی ضرورت گھر خریدنے کیلئے ہو اور اس کے علاوہ گھر خریدنے کا کوئی راستہ نہ ہوتو خمس نہیں ہوگا. (گلپائگانیؒ و صافی)
3۔ خمس واجب ہے لیکن تشویق و ترغیب کی بنا پر چھوٹ دی گئی ہے. (مکارم)
4۔ بقیہ تمام مراجع کرام نے حکم دیا ہے کہ وہ مقدار قرض جو ادا کردی گئی ہے اس میں خمس واجب ہے۔
قرض و مطالبہ:
اس قسم کے مال کی دو صورتیں متصور ہیں:
1۔ وہ مال جو اپنی آمدنی سے کسی کو بطور قرض دیا ہے۔
2۔ وہ مال جو دوسرے سے اجرت یا تنخواہ وغیرہ کے عنوان سے لینا ہے۔
1۔ وہ مال جو اپنی آمدنی سے کسی کو بطور قرض دیا ہے اس سلسلے میں دو نظریہ سامنے آتے ہیں:
الف: اگر سال گزرنے کے بعد اس قرض کو دیا ہے تو ایسی صورت میں تمام مراجع نے فتویٰ دیا ہے کہ خمس واجب ہے کیونکہ قرض دینے سے پہلے اس سے خمس متعلق ہو چکا تھا۔
ب: دوران سال قرض دیا ہے ایسی صورت میں تمام مراجع کرام نے فتویٰ دیا ہے کہ اگر قرض کا واپس لے لینا سال کے آخر میں ممکن ہو تو خمس ادا کرے لیکن اگر واپس لینا ممکن نہ ہو تو جب تک واپس نہیں ملتا ہے خمس واجب نہیں ہوگا لیکن واپس ملتے ہی اسمیں خمس واجب ہو جائے گا۔
2۔ وہ مال جو دوسرے سے اجرت یا تنخواہ وغیرہ کے عنوان سے لینا ہے اس میں بھی دو صورت ہو سکتی ہے:
الف: اگر سال خمس مکمل ہونے پر ملنے کی امید ہے تو ایسی صورت میں تمام مراجع کرام نے خمس واجب قراردیا ہے۔
ب: سال خمس کے مکمل ہونے پر ملنے کی امید نہ ہو مثلا وہ تنخواہ جو پہلے سے ٹل رہی ہے اور ادا نہیں کی جا رہی ہے ایسی صورت میں تمام مراجع (علاوہ آیات عظام تبریزی، سیستانی و وحید خرسانی) نے حکم دیا ہے کہ جب ملے گی اسی سال کی آمدنی میں شمار ہوگی اور اسی سال میں خرچ بھی ہوگئی تو خمس نہیں ہوگا اور اگر باقی رہ گئی تو خمس واجب ہوگا۔
آقای تبریزیؒ: اگر کسی خاص شخص یا معین کمپنی کیلئے کام کیا ہے تو اسی سال جس سال کام کیا ہے خمس ادا کرے اور اگر حکومتی ادارہ میں کام کیا ہے تو جب وہ ملے گی اور سال کے اخراجات سے بچ جائے گی تو خمس ادا کیا جائے گا۔
آقای سیستانی: جیسے ہی ملے گی اجرت خمس واجب ہوگا۔
آقای وحید: احتیاط واجب کی بنا پر جیسے ہی ملے گی فورا خمس ادا کرے۔
مہر:
مہر کے سلسلے میں دو نظریہ ہیں:
الف: تمام مراجع کرام نے فتویٰ دیا ہے کہ خمس واجب نہیں ہے۔
ب: آیۃ اللہ بہجت: اگر سال کے مخارج سے بچ جائے تو احتیاط واجب کی بنا پر خمس ادا کرے۔
دیت:
دیت کی تین الگ الگ صورتیں ہیں:
1۔ دیت نفس وجان: اس سلسلے میں دو نظریہ ہیں:
الف: تمام مراجع کرام نے حکم دیا ہے کہ اس دیت میں خمس واجب نہیں ہے۔
ب: آقای وحید: دیت چونکہ میراث غیر متوقع ہے اس کئے خنس واجب ہوگا۔
2۔ دیت اعضاء (ہاتھ، پیر،آنکھ، کان وغیرہ) اس سلسلے میں بھی دو نظریہ ہیں:
الف: تمام مراجع کرام نے فتویٰ دیا ہے کہ خمس واجب نہیں ہے۔
ب: آقای بہجت: اگر دوران سال زندگی کے اخراجات سے بچ جائے تو خمس واجب ہوگا۔
3۔ دیت منافع اعضاء (مثلا بصارت، سماعت وغیرہ) اس سلسلے میں بھی دو نظریہ ہیں:
الف: تمام مراجع کرام کے فتوے کے مطابق خمس واجب نہیں ہے
ب:آقای بہجت: اگر دوران سال زندگی کے اخراجات سے بچ جائے تو خمس واجب ہوگا۔
وجوہ شرعیہ:
وجوہ شرعیہ سے مراد رقوم شرعی ہیں مثلا خمس،زکات، صدقات وغیرہ، اس سلسلے میں مندرجہ ذیل پانچ نظریات ہیں:
1۔ اگر چہ سال کے اخراجات سے زائد ہو جائے لیکن خمس واجب نہیں ہوگا. (خمینیؒ، بہجتؒ، خامنہ ای، مکارم، نوری)
2۔ وہ مال جو کسی غریب کو خمس و زکات سے دیا گیا ہو اس میں خمس واجب نہیں ہے لیکن احتیاط واجب یہ ہے کہ جو مستحبی صدقہ اس کے پاس ہے اگر سال اخراجات سے بچ جائے تو خمس واجب ہوگا. (گلپائگانی، صافی، فاضل)۔
اگر فقیر کی مدد صدقہ واجب مثلا کفارات یا رد مظالم یا مستحبی صدقہ سے کی گئی ہے اور وہ سال کے اخراجات سے بچ جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ خمس ادا کرے لیکن اگر خمس وزکات کے ذریعہ مدد کیا گیا ہے تو خمس لازم نہیں ہے. (سیستانی)
3۔ اگر مستحق خمس تھا اور خمس دیا گیا ہے تو اس پر خمس واجب نہیں ہے خواہ سال کے اخراجات سے بچ جائے لیکن اگر زکات یا صدقہ مستحبی دیا گیا ہے اور سال کے اخراجات سے بچ جائے تو خمس دینا واجب ہے. (زنجانی)
4۔ اگھر خمس و زکات کسی کو دیا جائے اور وہ سال کے مخارج سے بچ جائے تو احتیاط واجب یہ ہے کہ خمس ادا کرے اور وہ مال جو صدقہ کے عنوان سے لیا ہے اور سال کے اخراجات سے بچ جائے تو خمس واجب نہیں ہوگا. (وحید خراسانی)
5۔ اگر سال کے اخراجات سے بچ جائے تو یقینا خمس ادا کرنا واجب ہے. (خوئیؒ، تبریزیؒ)
نکتہ:
اگر کسی کو زکات ،خمس یا صدقہ واجب یا مستحبی دیا جائے اور وہ اس سے منفعت حاصل کرے مثلا تجارت کرے، مضاربہ کرے یا کوئی درخت خمس وزکات کے عنوان سے دے اور اس سے میوہ و پھل حاصل ہو تو یہ منفعت ہے تو تمام مراجع کرام کے فتوی کے مطابق اس منفعت میں خمس واجب ہوگا لیکن بعض مراجع کرام مثلا آقای بہجتؒ، آقای زنجانی اور آقای فاضل ؒ نے کہا کہ مؤنہ خمس سے مستثنیٰ ہے اور یہ استثنا صرف آمدنی کے سال سے مختص نہیں ہے بلکہ اگر کچھ چیزیں جو اس کی زندگی کی ضرورت کیلئے ضروری ہوں اور اس کو خریدنے کیلئے مجبور ہے کہ اپنے اخراجات سے کچھ بچت کرکے محفوظ کرے تاکہ جب اتنی رقم ہو جائے تو وہ سامان خرید سکے تو اس بچت پر خمس واجب نہیں ہے۔
پنشن:
پنشن میں تمام مراجع کے فتوے کے مطابق خمس واجب ہے لیکن اختلاف اس میں ہے کہ کب واجب ہے۔
اس سلسلے میں دو نظریہ ہیں:
الف: اگر قرار داد کے مطابق یہ طے ہے کہ پنشن ملے گی تو سال کی آمدنی میں شمار ہوگی اور اگر سال کے اخراجات سے بچ جائے گی تو خمس واجب ہوگا لیکن اگر نوکری کے دوران تنخواہ سے کچھ کٹ جانا تھا اور نوکری کے ختم ہوتے ہی اس کو مل کیا تو ملتے ہی خمس واجب ہوگا. (خمینیؒ، سیستانی، وحید خراسانی)
ب: بقیہ تمام مراجع کرام نے پنشن کو سال کی آمدنی میں شمار کیا ہے اور اگر سال کے آخر تک باقی رہ گئی تو خمس واجب ہوگا۔
بیمہ:
بیمہ خواہ اپنا ہو، گاڑی وغیرہ کے بیمہ سے جو رقم ملے، اس سلسلے میں تین نظریہ ہیں:
1۔ سال کی آمدنی میں شمار ہوگی اور اگر سال کے آخر میں زندگی کےضروری اخراجات سے بچ گئی تو خمس واجب ہوگا۔ (خوئیؒ، تبریزیؒ، زنجانی، سیستانی، صافی، فاضلؒ، مکارم، وحید خراسانی، نوری ہمدانی)
2۔ وہ پیسہ جو بیمہ کمپنی بیمہ کرانے والے کو دیتی ہے اس میں خمس واجب نہیں ہے. (خامنہ ای)
3۔ بنا بر احوط اگر سال کے اخراجات سے بچ جائے اور اس پر ہدیہ کا نام صادق آئے تب خمس واجب ہوگا۔ (بہجتؒ)
بچا ہوا آذوقہ حیات:
بچے ہوئے آذوقہ زندگی سے مراد خورد و نوش کی چیزیں جیسے دال، چاول، گوشت، آٹا وغیرہ۔ اس سلسلے میں تین صورتیں سامنے آتی ہیں:
1۔ آذوقہ ایسے مال سے خریدا گیا ہو جس کا خمس ادا کر چکا ہے تو تمام مراجع کرام کا حکم ہے کہ خمس واجب نہیں ہوگا۔
2۔ وہ آذوقہ جو سال کے اختتام پر بچا ہوا ہے وہ یا تو خود کسی نے ہبہ کیا تھا یا ایسے پیسے سے خریدا گیا تھا جو ہبہ تھا تو ایسی صورت میں ہبہ کا حکم نافذ ہوگا جس کا تذکرہ گذر چکا ہے۔
3۔ وہ آذوقہ سال کے اخراجات سے اضافہ ہو جائے اور وہ آذوقہ اس آمدنی سے خریدا گیا ہو. جو اسی سال کے درمیان میں ہوئی ہو تو اس میں دو نظریہ ہیں:
الف: خمس واجب ہے خواہ اصل دے یا اس کی قیمت ادا کرے اور اگر قیمت دے تو جس وقت دے رہا ہے اس وقت کی قیمت کا حساب کرے. (تمام مراجع کرام)
ب: آقای زنجانی: خمس کے حساب میں ہر مال کا علاحدہ حساب کرے ایسی صورت میں اگر کسی نے اپنا سال معین کیا ہے اور اس سال سے پہلے آذوقہ مہیا کیا تھا اور ابھی سال گذرا نہیں ہے تو خمس ادا کرنا واجب نہیں ہے۔
مال حلال حرام میں مخلوط ہو جائے:
جب حلال مال حرام میں مل ضائے تو اس کی مندرجہ مختلف صورتیں ہوں گیں:
1۔ حرام کی مقدار اور اس کا مالک معلوم ہو تو ایسی صورت میں تمام فقہاء نے حکم دیا ہے کہ اسی مقدار معلوم کو مالک کے حوالہ کر دے۔
2۔ مقدار مال حرام معلوم ہو لیکن مالک معلوم نہ ہو اس سلسلے میں دو نظریہ ہیں:
الف: تمام مراجع کرام: مجہول المالک کا حکم نافذ ہوگا اس کو مالک کی نیت سے صدقہ کرے اور احتیاط واجب یہ ہے کہ حاکم شرع سے اجازت بھی لے۔
ب: آقای زنجانی: مجتہد کی اجازت سے اس کا خمس نکال کر صدقہ کر دے خوہ مال حرام کی مقدار خمس کی مقدار سے زیادہ ہی ہو۔
3۔ مقدار حرام کا علم نہ ہو مالک معلوم ہو مثلا کئی بار ایک ہی آدمی سے سود لیا ہے اسلئے مالک کو پہچانتا ہے لیکن اس بات کا علم نہیں ہے کہ سود کی مقدار کتنی ہے
۔اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل احکام نافذ ہوں گے:
الف: ایک دوسرے کو راضی کریں اوراور اگر صاحب مال راضی نہ ہو تو اتنی مقدار میں مال اس کو دیں جس کا یقین ہو اور احتیاط مستحب یہ ہے کہ جتنی مقدار ہے اس سے بڑھا کر دیں. (خمینی ؒ، اراکیؒ، صافی، گلپائگانی ؒ)
ب: جتنی مقدار کا یقین ہو کہ اس کا مال ہے اس کو دیدے لیکن بہتر ہے کہ اس سے کچھ بڑھا کر دیدے. (خوئی ؒ، تبریزیؒ)
ج:ایک دوسرے کو راضی نہیں کرسکتے ہیں تو اتنی مقدار مال کی دیدے جس کا یقین ہے اور حرام وحلال کے مخلوط ہونے میں کوتاہی خود اسی نے کیا ہو تو احتیاط یہ ہے کہ کچھ مال اور بڑھا دے(سیستانی)
د: جتنی مقدار کا گمان ہے کہ اس کا مال ہے اس میں مصالحت کر لے اور اگر مصالحت ممکن نہ ہو تو یقینی مقدار سے زیادہ دینا واجب نہیں ہے. (بہجتؒ)
ھ: جتنی مقدار کا یقین ہے وہ دیدےاور جو اس سے زیادہ احتمالی ہے اس میں سے نصف اس کو دیدے(مکارم)
و: اگر مخلوط ہونے کی وجہ سے جدا کرنا ممکن نہ ہو مثلا روغن حلال حرام میں مخلوط ہو جائے ایسی صورت میں جس مقدار پر اتفاق ہو جائے وہی ادا کردے اور اگر اتفاق نہ ہو سکے تو جتنی مقدار کا یقین ہو وہ اس کو دیدے۔ اور اگر جدا کرنا ممکن ہو تو جس کا یقین ہے وہ دیدے اب خصوصیت کے اعتبار سے کہ یہ لے گا یا یہ اس سلسلے میں قرعہ کریں گے لیکن احتیاط مستحب یہ ہے کہ تھوڑا زیادہ دے جس کا احتمال ہے کہ یہ بھی اس کا ہوگا. (وحید خراسانی)
4۔ نہ مقدار معلوم ہے نہ مالک معلوم ہے مثلا کئی لوگوں سے کئی مرتبہ سود لیا ہے یا رشوت لیا ہے، اس وجہ سے نہ افراد کو جانتاہے اور نہ مقدار کو ایسی صورت میں تمام مال کا خمس ادا کرنا واجب ہے لیکن اس خمس کے ادا کرنے کی نیت کے سلسلے میں اختلاف ہے فقہاء کے درمیان:
الف: احتیاط واجب یہ ہے کہ اس خمس کو ما فی الذمہ کی نیت سے ادا کرے تو اس میں خمس، رد مظالم و صدقہ سب شامل ہو جائیں گے. (خوئی ؒ، تبریزیؒ، سیستانی، صافی، فاضلؒ، گلپائگانیؒ)
ب: تمام مراجع کرام کا فتویٰ ہے کہ حلال و حرام مال کے مخلوط ہو جانے کی صورت میں احتیاط واجب یہ ہے کہ عین مال سے ہی خمس دے لیکن دیگر چیزوں میں اختیار ہے عین مال دے یا قیمت دے۔
ایک تبصرہ شائع کریں