بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
Image by Nawal Escape from Pixabay
آئیے خمس نکالیں
(مطابق فتاویٰ آیات عظام: امام خمینیؒ، اراکیؒ، خوئیؒ، گلپائگانیؒ، بہجتؒ، جواد تبریزیؒ، فاضلؒ،
خامنہ ای، سیستانی، صافی، زنجانی، مکارم شیرازی، وحید خراسانی، نوری ہمدانی مد ظلہم العالی)
مرتبہ
منھال رضا خیرآبادی
حرف تقدیم
بعثت سے لے کر آج تک اعلائے کلمہ حق، شریعت اسلامیہ کی سربلندی وسرفرازی، مقاصد رسالت وامامت کی پاسبانی و نگہبانی کی راہ میں شہید ہو جانے والے شہدائے اسلام کی پاکیزہ ارواح کے نام۔
شہدائے راہ خدا، مبلغین شریعت غرا، ناشرین نظام الٰہیہ کی خالصانہ قربانیوں کو اپنے خون دل سے سیراب کر کے ابدی حیات دینے والے شہدائء عالم اسلام کی مقدس ارواح کے نام جن کی شہادت نے قلعہ اسلام کو مستحکم کردیا۔
سلام علیهم یوم یموتون ویوم یبعثون حیا
برگ سبز است تحفۂ درویش
عرض مرتب
شریعت اسلامیہ کے اہمترین فرائض میں سے ایک فریضہ خمس ہے جس کو رب الارباب، ذات احدیت نے مسلمانوں کے اقتصادی روابط کو مستحکم و منظم بنانے کیلئے فرض کیا ہے، اس فریضہ کے ذریعہ ایک طرف جہاں پروردگار عالم نے اقتصادی روابط کے استحکام کو مد نظر رکھا ہے وہیں دوسری طرف معاشرہ سے طبقاتی اختلاف کو ختم کرنے کا نسخہ بھی قرار دیا ہے استاد محسن قرائتی حفظہ اللہ نے خمس کی اجتماعی افادیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"اجتماعی نقطہ نظر سے خمس ادا کرنے سے سماج کے مختلف طبقات میں باہمی الفت و محبت جنم لیتی ہے اور سماج میں پائی جانے ولی طبقاتی خلیج پر ہوتی ہے، سیاسی طور پر خمس کی افادیت بھی قابل غور ہے کہ یہ لوگوں اور جانشین پیغمبر (ص) کے رابطہ کو تقویت بخشتا ہے، تبلیغ و ترویج افکار معصومین ؑ کے بہترین مواقع فراہم کرتا ہے اور فکری انحراف، اخلاقی انحطاط سے لڑنے میں معاون ہوتا ہے"
اس اہم فریضہ کی افادیت پیش نظر معاندین و متعصبین نے بیجا شکوک و شبہات پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کیا ہے اور کرتے رہے ہیں لیکن ہر دور میں علماء امامیہ نے مسکت و مدلل جوابات تحریری کر کے ان شکوک و شبہات کی بیخ کنی کا فریضہ ادا کیا ہے۔
حوزہ علمیہ قم سے واپسی اور ہندوستان میں تبلیغی مصروفیات کے دوران اکثر شیعیان آل محمدؐ کے درمیان مسئلہ خمس کے حوالہ تشویش اور حساب خمس میں درپیش دشواریوں کا سامنا رہا، بسا اوقات منابع تک رسائی نہ ہونے کی وجہ بے انتہا دشواریاں پیدا ہو جاتی تھیں اسلئے اکثر یہ بات ذہن میں گردش کرتی رہتی تھی کہ کوئی ایسا کتابچہ ترتیب دیا جائے جس؛ میں مسائل کو بالکل عام فہم، سادہ عبارات میں پیش کیا گیا ہو تا کہ مومنین کے مشکلات کم سے کمتر ہو سکیں اسی فراق میں متعدد ویب سائٹس پر کتب کی تلاش شروع کیا مطالب تو بحمد اللہ بہت ملے مگر ان تمام مطالب کو اکٹھا کرنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف تھا، حتی المقدور ان مواد و مطالب سے استفادہ کیا لیکن اسی دوران مندرجہ ذیل منابع تک رسائی ہوئی جو نہایت مفید ثابت ہوئے:
1۔ آسانترین شیوہ خمس مؤلفہ عباس ظہیری ناشر مؤسسہ فرہنگی مشعر
2۔ توضیح المسائل مراجع کرام۔ دو جلد
3۔ محاسبہ خمس نامی سافٹ ویئر جو سولہ مراجع کرام کے فتاویٰ کے مطابق ہے یہ سافٹ ویئر فارسی میں ہے جس کوROBIKSOFT نامی ایرانی کمپنی نے تیار کیا ہے۔
بحمد اللہ احباب کے مفید و متقن مشوروں اور راہنمائی سے یہ کتاب تدوین وترتیب پائی، لائق صد شکر ہیں احباب کہ انھوں نے علمی مشوروں سے نوازا۔
آخر کلام میں یہ عرض کر دینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ مراجع کرام و فقہائے عظام مد ظلہم کے صرف مشہور اسماء ذکر کئے گئے ہیں القابات سے گریز کیا گیا ہے اختصار اور صرف اختصار کے پیش نظر، گرچہ ممکن ہے یہ طرز بعض قارئین کرام کیلئے بار خاطر ہو مگر اللہ گواہ ہے قصد سوء نہیں ہے۔
اس کتاب میں مندرجہ ذیل آیات کرام کے فتاویٰ کو مد نظر رکھا گیا ہے:
1۔ آیۃ اللہ العظمیٰ آقای امام خمینیؒ رہبر انقلاب اسلامی ایران
2۔ آیۃ اللہ العظمیٰ آقای خوئی ؒ
3۔ آیۃ اللہ العظمیٰ آقای اراکی ؒ
4۔ آیۃ اللہ العظمیٰ آقای گلپائگانی ؒ
5۔ آیۃ اللہ العظمیٰ آقای فاضل لنکرانی ؒ
6۔ آیۃ اللہ العظمیٰ آقای جواد تبریزی ؒ
7۔ آیۃ اللہ العظمیٰ آقای بہجت ؒ
8۔ آیۃ اللہ العظمیٰ آقای خامنہ ای مد ظلہ الوارف
9۔ آیۃ اللہ العظمیٰ آقای سیستانی مد ظلہ الوارف
10۔ آیۃ اللہ العظمیٰ آقای صافی مد ظلہ الوارف
11۔ آیۃ اللہ العظمیٰ آقای مکارم شیرازی مد ظلہ الوارف
12۔ آیۃ اللہ العظمیٰ آقای وحید خراسانی مد ظلہ الوارف
13۔ آیۃ اللہ العظمیٰ آقای نوری ہمدانی مد ظلہ الوارف
علمائے اعلام، افاضل کرام، مومنین محترم و قارئین گرامی قدر سے التماس ہے جہاں کہیں بھی کسی بھی قسم کی کوئی کمی و کوتاہی نظر آئے تو ہمیں متوجہ کر کے اپنے دینی فریضہ سے سبکدوش ہوں، ہم ہر تعمیری تنقید کا صمیم قلب سے استقبال کرتے ہیں۔
خدایا تجھے تیرے رحم و کرم کا واسطہ اس حقیر کاوش کو ہمارے لئے ذخیرہ آخرت قرار دینا بطفیل محمد ؐ و آلہؑ
والسلام
منھال رضا خیرآبادی
جامعہ حیدریہ مدینۃ العلوم
خیرآباد ضلع مئو
مقدمہ
فضیلت خمس قرآن وآیات کی روشنی میں:
ارشاد رب العزت ہے: واعلموا انما غنمتم من شی فان للہ خمسہ وللرسول ولذی القربیٰ والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل ان کنتم آمنتم باللہ وما انزلنا علیٰ عبدنا یوم الفرقان یوم التقی الجمعان واللہ علیٰ کل شی قدیر (انفال 41)
ترجمہ: جان لو کہ جو کچھ تم مال لڑ کر حاصل کرو اس میں پانچواں حصہ مخصوص ہے خدا و رسول اور رسول کے قرابتداروں اور یتیموں اور مسکینوں اور پردیسیوں سے اگر تم خدا پر اور اس غیبی امداد پر ایمان لا چکے ہو جو ہم نے اپنے خاص بندے محمد پر فیصلہ کے دن نازل کی تھی جس دن مسلمانوں اور کافروں کی جماعت باہم گتھ گئی تھیں اور خدا تو ہر چیز پر قادر ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ: وما افاء اللہ علیٰ رسولہ منہم فما اوجفتم علیہ من خیل ولا رکاب ولکن اللہ یسلط رسلہ علیٰ من یشاء واللہ علیٰ کل شی قدیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دولۃ بین الاغنیاء منکم (سورہ حشر 6 و7)
ترجمہ: جو مال خدا نے اپنے رسول کو دیہات والوں سے بے لڑے دلوادیا وہ خاص خدا ورسول اور ان کے قرابتداروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پردیسیوں کا ہے تاکہ جو لوگ تم میں سےدولت مند ہیں دولت ان ہی میں نہ رہ جائے۔
تمام اسلامی مذاہب خمس کے واجب ہونے پر اتفاق رکھتے ہیں صرف اختلاف اس سلسلہ میں ہے کہ کن چیزوں پر خمس واجب اور مصارف خمس کیا ہیں، اکثر علمائے اہلسنت کا نظریہ ہے کہ صرف جنگی غنائم اور خزانہ پر خمس واجب ہے (الفقہ علی المذاہب الخمسہ جواد مغنیہ، ص 186)
مستحقین خمس کے حوالہ سے بھی اختلاف نظر پایا جاتا ہے تفصیلات کیلئے کتب فقہی کی طرف مراجعہ کیا جائے۔
احادیث معصومینؑ اور فرامین حضرات ہادیان دین کا مطالعہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ معصومین ؑ نے ان افراد پر لعنت کیا ہے جو آل محمد ؑ کے حق خمس سے بے اعتنائی برتتے ہیں چنانچہ امام عصر ارواحنا لہ الفدا نے ارشاد فرمایا:
لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین علیٰ من استحل من اموالنا درھما (کمال الدین، 2/ 198)
خدا، فرشتوں اور تمام لوگوں کی اس شخص پر لعنت ہے جو ہمارے اموال میں سے ایک درہم کو بھی اپنے لئے حلال سمجھتا ہے۔
امام جعفر صادق ؑ نے فرمایا:
الصدقۃ علینا حرام و الخمس لنا فریضۃ (وسائل الشیعہ، 6/ 337)
ہم پر صدقہ حرام ہے اور خمس ہمارے لئے لازم ہے
امام علی ؑ نے ارشاد فرمایا:
ھلک الناس فی بطونہم وفروجہم لانہم لم یؤدوا الینا حقنا (وافی، 10/ 337)
لوگ اسلئے ہلاک وبرباد ہوجائیں گے کہ وہ ہمارے حق کی ادائیگی نہیں کرتے ہوں گے ان کی غذا حرام اور ان کی آمیزش ناپاک ہوگی۔
معصومؑ نے فرمایا:
من استحل منھا شیئا فامسکہ فانما یاکل النیران (وسائل الشیعہ، 9/ 550)
جو خمس اپنے لئے حلال سمجھ کر ادا نہ کرے وہ آگ کھاتا ہے
امام محمد باقر ؑ نے ارشاد فرمایا:
لا یعذرعبد اشتریٰ من الخمس شیئا ان یقول رب اشتریته بمالی حتی یاذن له اهل الخمس (وافی، 10/ 337)
مال خمس سے خریدنے والے کا عذر اس وقت تک قبول نہ ہوگا جبتک صاحب خمس اجازت نہ دیدے۔
فریضہ خمس پر مختلف وجوہات و اسباب کے پیش نظر ہمیشہ حملہ کیا جاتا رہا ہے، افسوس تو تب ہوتا ہے جب صرف دشمنوں کے ذریعہ نہیں بلکہ مقدس نما، سادہ لوح اور بخیال خود روشن فکر دوست نما دشمنوں کے ذریعہ شکوک و شبہات پیدا کئے جاتے ہیں، بعض دریدہ دہن و کج فکر تو یہاں تک کہتے نظر آتے ہیں کہ خمس صرف امام کو ہی دیا جائے اسی گمان و خیال میں اسیر ہو کر وہ اپنے اموال خمس کو اپنے پاس ہی محفوظ رکھتے ہیں تا کہ امام جب ظہور کریں گے تو ان کی خدمت میں پیش کریں گے یا عصر حاضر میں کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو خمس تو نکالتے ہیں مگر اموال خمس اپنے پاس محفوظ رکھتے ہیں تا کہ مراجع کرام کے دفاتر میں پہونچائیں گے جبکہ ان کے گرد و پیش میں ایسے افراد و مستحقین موجود ہوتے ہیں جنھیں شرعی اجازت حاصل ہے، کچھ افراد نے تو جسارت کی حد ہی کر دیا ہے اموال خمس کو اپنے پاس اس لئے محفوظ رکھتے ہیں تا کہ جب کوئی صاحب اجازہ یا مستحق ان کے در دولت پر آکر دست سوال دراز کرے تو یہ اسی کا حق اس کے سوال کے بعد ہزار قسم کے نخروں کے بعد ادا کریں جبکہ شریعت اسلامیہ نے خمس نکالنے والے پر لازم قرار دیا ہے کہ وہ مستحقین کو تلاش کر کے پہونچائے، انھیں غلط تصورات اور خام خیالی کے نتیجہ اور ہوس آلود افکار کے ہجوم میں اس الٰہی فریضہ کی افادیت ختم ہوتی جارہی ہے جبکہ فقہائے امامیہ نے کتاب و سنت کی روشنی میں اس سلسلہ میں نہایت ہی محکم و متقن اصول قائم کئے ہیں جن پر عمل کرکے دوست نما دشمنوں، ناعاقبت اندیش تقدس مآب افراد کے خدشات اور شکوک کو برطرف کیا جاسکتاہے۔
فقہا و مراجع کرام نے کمال احتیاط کا مظاہرہ کرتے ہوئے حتی المقدور اموال خمس میں دقت نظر صرف کیا ہے ان حضرات کی نگاہ میں اموال خمس ان کا اپنا ذاتی مال نہیں ہے جیسا کہ بعض مخالفین مرجعیت ہوا دے رہے ہیں، فقہاء کی تاریخ و سیرت کا بغور مطالعہ اس بات پر گواہ ہے کہ اپنی ذاتی ضروریات مراجع کرام مومنین کے ہدایا سے پوری کرتے تھے اس سلسلہ میں بے شمار واقعات کتب میں درج ہیں کہ اگر فقہا کی ان سیرت کو یکجا کیا جائے تو کئی ضخیم کتابیں وجود میں آجائیں گی۔
فلسفۂ وجوب خمس:
اسلامی سماج کے اقتصادی بحران کو دور کرنے کے متعدد رستوں میں ایک راستہ زکات ہے اور دوسرا راستہ خمس ہے جس کے دو حصے ہوتے ہیں ایک حصہ امام معصوم ؑ سے مختص ہوتا ہے جبکہ دوسرا غریب سادات کرام سے۔
چونکہ نگاہ پروردگار میں ائمہ معصومینؑ اور ان کی اولاد کا بیحد احترام ہے اسلئے زکات جو ایک قسم کا صدقہ ہے آل محمدؑ اور ان کی اولاد پر حرام قرار دیا گیا ہے اسلئے کہ ممکن ہے اس میں کسی قسم کا تروق وبرتری کا اظہار ہو جو نگاہ پروردگار میں غیر مناسب امر ہے اللہ نے سادات کے حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہوئے اور برتری و تروق طلبی کے جذبہ کو ختم کرنے کیلئے خمس کا حکم نافذ کیا ۔
حضرت علی ؑ نے ارشاد فرمایا :
لم یجعل لنا سھما فی الصدقۃ اکرم (اللہ)نبیہ واکرمنا ان یطعمنا اوساخ ما فی ایدی الناس (وسائل الشیعہ، ابواب خمس، باب 1، حدیث 4)
خدا نے زکات میں ہمارا حصہ نہیں رکھا ہے، اللہ نے پیغمبر کو اور اہلبیت کو لوگوں کے اموال کی کثافت (زکات) کے استعمال سے بالا تر قرار دیا ہے۔
اس حدیث کی روشنی میں اگر سادات پردیس میں مفلوک الحال و پریشان حال ہو جائے یا یتیم مالی پریشانیوں سے دوچار ہو جائے تو ان کے ضروری اخراجات کی تکمیل کا ایک راستہ خمس بتایا گیا ہے جس کے ذریعہ سے انسان سادات کی ضروریات کو برطرف کر سکتا ہے۔
کلی طور پر خمس کی ادائیگی اسلامی سماج میں دو بنیادی و اہم رول ادا کرتی ہے:
1۔ مادی: (یعنی عدالت اجتماعی کی بنیاد پر اموال کی تقسیم)
2۔ معنوی یعنی تہذیب نفس اور عزت نفس کا تحفظ
عدالت کی افادیت و ضرورت سے ہر صاحب عقل و شعور واقف و با خبر ہے، بلا تفریق مذہب وملت انسانی معاشرہ وسماج عدالت کا خواہاں ہے کیونکہ سماج کو تشکیل دینے والے افراد مدنی بالطبع ہونے کے اعتبار سے انفرادی طور پر اپنی زندگی نہیں گزار سکتے ہیں اجتماعی زندگی ان کی حیات کا جزو لا ینفک ہے ایسی صورت میں عدالت کی بنیاد پر قوانین کا نفاذ بھی ضروری ہے تا کہ نظام معاشرہ مختل نہ ہونے پائے اور ظلم وبربریت کا بازار گرم بھی نہ ہونے پائے، زندگی کے ہر شعبہ کیلئے مستحکم وعادلانہ نظام ہوتاکہ اس کے سایہ میں عدالت اجتماعی سماج پر حاکم ہو اور پر امن زندگی بسر کرنا آسان ہو جائے۔
اجتماعی زندگی میں خمس کے حیرت انگیز اثرات ہیں جن سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی ہے ان اثرات میں دو اہم اثر یہ ہیں:
1۔ اسلامی حکومت کا استحکام: اگر انسان اپنے خمس کے ذریعہ غریب سادات کی دستگیری کرنے لگے تو سادات فقر وفاقہ سے نجات پاجائیں گے اور اسلامی حکومت کا بجٹ بھی متاثر نہیں ہوگا اور دوسرے فلاحی امور انجام دینے میں مددگار ہوگا جو ایک طرح سے حکومت کے دست و بازو کو مضبوط بنانے کے مترادف ہے۔
2۔ عدالت اجتماعی کی راہیں ہموار ہوں گی: خمس و زکات کے ذریعہ معاشرہ میں ثروت کا توازن قائم ہوتا ہے اور اقتصادی شعبہ میں عدالت اجتماعی کا نفاذ آسان ہوجائے گا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:
"ما أفاء اللہ علیٰ رسوله من أھل القریٰ فلله وللرسول ولذی القربیٰ والیتامیٰ والمساکین وابن السبیل کی لا یکون دولة بین الأغنیاء" (سورہ حشر 7) جو مال خدا نے اپنے رسول کو دیہات والوں سے بے لڑے دلوا دیا وہ خاص خدا و رسول اور ان کے قرابتداروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پردیسیوں کا ہے تا کہ جو لوگ تم میں سے دولتمند ہیں دولت ان ہی میں نہ رہ جائے۔
محمد ابن سنان کا بیان ہے کہ میں امام رضاؑ کے ہمراہ خراسان میں تھا مامون بھی حاضر تھا اسی وقت یہ خبر ملی کہ ایک صوفی نے چوری کیا ہے مامون نے اس کو حاضر کرنے کا حکم دیا جب وہ حاضر ہوا تو دیکھا کہ کثرت سجدہ وعبادت کی وجہ سے پیشانی پر گھٹے پڑے ہیں سوال کیا کیا اتنے اچھے صفات و علامات کے ہوتے ہوئے تم نے چوری کیا ہے؟ صوفی نے کہا مجبوری میں یہ قدم اٹھایا ہے کیونکہ تم نے خمس میں ہمارے حق سے ہمیں محروم کر دیا ہے، مامون نے کہا خمس میں تمہارا کیسا حق؟ صوفی نے آیہ کریمہ "واعلموا انما غنمتم من شی فان للہ خمسہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" سے استدلال کرتے ہوئے کہا میں پردیسی ہوں مسکین ہوں (گویا سلسلہ سادات سے تھا) مجھے میرا حق نہیں ملا تم نے ہمیں محروم کر دیا یہ سن کر امام رضاؑ کی طرف متوجہ ہوا اور عرض کیا آپ کا کیا نظریہ ہے؟ امام نے مختصر گفتگو فرمایا اور آخر میں فرمایا اس نے قرآن سے دلیل پیش کیا ہے (تفسیر کبیر رازی، 15۔16/ 166)
خمس ادا کرنے کے فوائد و برکات:
فرامین ائمہ معصومینؑ کی روشنی میں خمس ادا کرنے کے نتیجہ میں انسانی زندگی میں مندرجہ ذیل برکات وفوائد ظاہر وآشکار ہوتے ہیں:
1۔ تقویت دین: امام علی رضا ؑ نے ارشاد فرمایا: الخمس عوننا علیٰ دیننا (۔۔۔۔۔۔۔) خمس ہم اہلبیت کا حق اور ہمارے مکتب و دین کی تقویت کا ذریعہ ہے۔
2۔ پاکیزگی نسل کا ذریعہ ہے: امام عصر (عج) نے فرمایا: واما الخمس لتطیب ولادتهم (۔۔۔۔۔) خمس ادا کرنے سے مال پاک ہوتا ہے اور جب مال پاک ہوگا تو یہ مقدمہ قرار پائے گا پاکیزگی نسل کا۔
3۔ وفاداری کی علامت ہے: ارشاد ہوتا ہے: المسلم من یفئ اللہ بما عهد الیه ولیس المسلم من اجاب باللسان وخالف بالقلب (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) واقعی مسلمان وہ ہے جو پیمان الٰہی کا وفادار ہو اگر زبان سے مثبت اور دل سے منفی جواب دے تو وہ حقیقی مسلمان نہیں ہے۔
4۔ انصار ائمہ کی اعانت ہے: امام علی رضاؑ نے فرمایا: ان الخمس عوننا علیٰ عیالاتنا ودعوتنا علیٰ موالینا (۔۔۔۔۔۔۔) خمس ہمارے خاندان اور ناصرین کی مدد کا ذریعہ ہے.
5۔ مال کی پاکیزگی کا سبب ہے: امام صادق ؑ نے ارشاد فرمایا: ما ارید بذلک الا ان تطهروا (۔۔۔۔۔۔۔) ہمارا مقصد تمہارے اموال کو پاک کرنا ہے ورنہ ہمارے حالات اس وقت بہتر ہیں
6۔ خاندان رسالت سے فقر وفاقہ کا خاتمہ: امام موسی کاظم ؑ نے فرمایا: وجعل للفقراء وقرابة الرسول نصف الخمس فاغناهم به عن صدقات الناس (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) خمس کا آدھا حصہ خاندان رسول سے فقر کو ختم کرنے کیلئے قرار دیا ہے کیونکہ وہ زکات و صدقات سے محروم ہوتے ہیں۔
7۔ کلید رزق وبرکت ہے: امام علی رضا ؑکا فرمان ہے: فان اخراجه مفتاح رزقکم (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) خمس ادا کرنا کلید رزق ہے
8۔ کفارہ گناہ ہے: امام رضا ؑ نے فرمایا: فان اخراجه ۔۔۔۔۔۔ تمحیص ذنوبکم وما تمھدون لانفسکم لیوم فاقتکم (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) خمس ادا کرنا گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ اور ذخیرہ روز قیامت ہے۔
9۔ امام کی دعائیں شامل حال ہوتی ہیں: امام رضاؑ نے ارشاد فرمایا: ولا تحرموا انفسکم دعائنا ماقدرتم علیه (۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔) امام نے خمس کو محافظ مکتب اہلبیت بتاتے ہوئے کہا تھا جتنا ممکن ہو ہماری دعاؤں سے خود کو محروم نہ کرو۔
خمس ادا نہ کرنے کے برے اثرات:
اسلام کے قوانین کے مطابق زندگی گزارنے کے مثبت اثرات انسانی زندگی میں ظاہر ہوتے ہیں جس سے انسان کے کردار وسیرت کا حسن نکھر جاتا ہے بر خلاف اس کے قوانین الٰہیہ سے سرکشی و سرپیچی کے منفی اثرات انسانی زندگی کو بے نور کردیتے ہیں، خمس اسلامی فرائض میں سے ایک اہم ترین فریضہ ہے جو اقتصاد اسلامی کا اہم ستون ہے اس سے بے اعتنائی اور لا پرواہی کے اجتماعی وانفرادی برے اثرات ہیں جو کردار انسانی کو پست کرتے ہیں، ذیل میں خمس نہ ادا کرنے کے چند برے اثرات کا ذکر کیا جارہا ہے:
1۔ خمس ادا نہ کرنے والا خائن ہوتا ہے: خیانت اس عمل کو کہتے ہیں جس میں انسان مالک کی اجازت کے بغیر مال کو استعمال کرے، حضرت رسولخدا جب جنگ میں مال غنیمت ملتا تھا تو ارشاد فرماتے تھے: ایاکم والغلول الرجل ینکح المرائۃ اویرکب الدابۃ قبل ان نخمس (بصائر الدرجات، 5/ 29)
غنائم میں خیانت کرنے سے پرہیز کرو اگر خمس ادا کئے بغیر کوئی جنگ میں حاصل شدہ کنیز سے شادی کرتا ہے یا کسی سواری پر سوار ہوتا ہے تو یہ خیانت ہے مال غنیمت میں۔
اس روایت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ انسان کا مال در حقیقت ایک امانت ہے جو اس کے ہاتھ میں ہے اور جب تک خمس ادا نہیں کرتا ہے اس کے استعمال کا حق نہیں رکھتا ہے اسی وجہ سے اکثر فقہاء بلکہ تمام فقہاء نے فتویٰ دیا ہے کہ بغیر خمس ادا کئے ہوئے مال کا استعمال کرنا انسان کیلئے جائز نہیں ہے۔
2۔ خمس ادا نہ کرنے والا غاصب ہے: دوسروں کے مال میں بغیر اجازت تصرف کرنا غصب کہلاتا ہے اور یہ مسلم ہے اور یہ بات بھی ہم جانتے ہیں کہ ہر انسان کے مال کا پانچواں حصہ خمس کا ہے تو جب تک اس کو ادا نہ کر دیں ایک طرح سے حکم غصب صادق آئے گا۔
3۔ ثروت کے زوال کا سبب ہے: فطری طور پر ہر انسان مال حاصل کرنے اور اس میں زیادتی کا خواہاں ہوتا ہے اور روایات کی روشنی میں خمس ادا نہ کرنے سے نہ صرف یہ کہ مال کم نہیں ہوتا ہے بلکہ مال میں زیادتی ہوتی ہے اور خمس کا ادا نہ کرنا مال کے زائل ہوجانے کا سبب ہے امام صادق ؑ نے اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ما من رجل یمنع درھما فی حقه الا انفق اثنین فی غیر حقه وما من رجل یمنع حقا فی ماله الا طوقه اللہ به حیة من نار یوم القیامة (وسائل الشیعہ، 6/ 378)
جو شخص خمس کا ایک درہم بھی حقدار کو نہیں دے گا تو دو درہم ناحق خرچ ہو جائے گا اور جو شخص اس حق کو جو اس کے مال سے متعلق ہے ادا نہیں کرے گا روز قیامت خدا اس کے مال کو آتشی سانپ طوق کی شکل میں اس کی گردن میں ڈال دے گا۔
ایک دوسری روایت میں ارشاد ہوتا ہے: من منع حقا للہ عز وجل انفق فی باطل مثلیه (وسائل الشیعہ، 6/ 378)
جو اللہ کے حقوق ادا نہیں کرتا ہے اس کا دو برابر مال باطل راہ میں خرچ ہو جاتا ہے۔
فقہائے شیعہ کے فتاویٰ کا بغور مطالعہ مندرجہ ذیل نتائج واثرات کی طرف اشارہ کرتا ہے:
1۔ جب تک انسان مال سے خمس ادا نہ کر دے اس میں تصرف کا حق نہیں ہے۔
2۔ جس مال کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو اس خرید و فروخت صحیح نہیں ہوگی۔
3۔ جس مال کا خمس ادا نہ کیا گیا ہو اس کے ذریعہ کوئی نیک عمل اگر انجام دیا جارہا ہے تو اس کا ثواب ضائع ہوجائے گا۔
کن کن چیزوں پر خمس واجب ہوتا ہے:
مندرجہ ذیل اشیاء پر خمس ادا کرنا واجب ہے:
1۔ وہ منافع جو کاروبار سے حاصل ہوں (سالانہ بچت)
2۔ کان (معدن)
3۔ خزانہ (زمين سے خزانہ حاصل ہونا)
4۔ مال حلال اور حرام آپس میں مل جائے
5۔ وہ جواہرات جو غوطہ لگا کر حاصل ہوں
6۔ کفار سے جنگ کرنے پر جو مال غنیمت ملے
7۔ وہ زمین جو کافر ذمی نے مسلمان سے خریدا ہو.
مستحقین خمس:
خمس کے دو حصے ہوتے ہیں :
1۔ سہم امامؑ جو زمانہ غیبت کبریٰ میں بالاتفاق مراجع کرام مجتہد جامع الشرائط کو دیا جائے گا یا ایسے افراد کو دیا جائے گا جن کو مراجع کرام نے خمس وصول کر کے خرچ کرنے کی اجازت مرحمت فرمایا ہو۔
2۔ سہم سادات یہ حصہ ہے اس سید کا جو فقیر، یتیم، پردیسی ہو اور اس کے پاس اخراجات نہ ہوں گرچہ وہ وطن میں فقیر نہ ہو۔ سہم سادات دینے کیلئے سید کا شیعہ اثنا عشری ہونا ضروری ہے، معصیت کار ہو تو بھی خمس دینے سے پرہیز کرنا چاہئے، ہاں اگر سہم سادات دینا اس کی معصیت کو تقویت پہونچائے تو ایسی صورت میں نہیں دیا جائے گا۔
تاریخ خمس کا تعین:
فریضہ خمس کی ادائیگی میں سب سے پہلے سال خمس و تاریخ خمس کا تعین کرنا ضروری ہے گرچہ اس کو اختیار ہے سال بھر اپنی آمدنی سے زندگی کی ضروریات کو پورا کرے لیکن اگر خرچ نہیں کیا تو اس پر خمس واجب ہوگا اس کے شرائط و مسائل کی روشنی میں جو بعد میں مذکور ہوں گے۔
تاریخ وسال خمس کے تعین کے سلسلہ میں تین نظریہ مراجع کرام کے یہاں پائے جاتے ہیں:
1۔ وہ لوگ جن کی آمدنی تدریجی ہے یعنی تاجر وصنعتگر افراد ان کیلئے سال وتاریخ کا تعین اس طرح ہوگا کہ جس دن کام شروع کیا ہے وہی دن ان کے سال کی ابتدا کا دن ہوگا، جو تنخواہ لیتے ہیں ان کے سال کی ابتدا اسی دن سے ہوگی جس دن تنخواہ حاصل ہوئی ہے یا ممکن تھا حاصل کرنا لیکن کسی وجہ سے لے نہیں سکا ہے، کسان و کاشتکار کے سال کی ابتدا اس وقت شمار ہوگی جب کہ وہ محصولات کو جمع کرے باغبان جس دن میوہ توڑے سال کی ابتدا کہی جائے گی (امام خمینی، بہجت، خامنہ ای، صافی، فاضل)
2۔ ہر شخص کے سال کی ابتدا اسی دن شمار کی جائے گی جس دن اس کی آمدنی ہو خواہ کاریگر ہو، تنخواہ لیتا ہو یا تاجر و کاشتکار ہو (خوئی، تبریزی، زنجانی،مکارم، نوری، وحید خراسانی)
3۔ جس شخص کا مشغلہ ہے اس کے سال کی ابتدا وہی دن شمار ہوگا جس دن کام شروع کیا ہے لیکن جس کا کوئی مشغلہ نہیں ہے جس سے زندگی کے اخراجات پورے کر سکے بلکہ اس کے اخراجات حکومتی امداد یا اتفاقیہ حاصل شدہ منافع سے پورے ہوتے ہیں تو ایسے شخص کیلئے منفعت ملنے سے ایک سال تک گزر جانے کے بعد جو بچ جائے اس پر خمس واجب ہوگا. (سیستانی)
اگر کسی کے پاس کئی مشغلہ ہوں یعنی آمدنی کے متعدد ذرائع ہوں جیسے نوکری، کاشتکاری، تاجر، مکان یا دکان کرایہ پر دیا ہو تو ایسے شخص کیلئے مراجع کرام کے درمیان دو نظریہ ہیں:
1۔ ایسا شخص ہر کام کیلئے الگ الگ سال معین کر سکتا ہے لیکن اگر کسی ایک کام میں نقصان ہو جائے تو اس کی بھرپائی دوسرے سے نہیں کرے گا. (اکثر مراجع کرام)
2۔ واجب ہے تمام کاموں کیلئے ایک ہی تاریخ وسال خمس معین کرے (مکارم، وحید خراسانی)
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سال کے تعین میں ہجری سال کو معیار بنایا جائے یا عیسوی سال وغیرہ کو بھی معیار بنایا جا سکتا ہے اس سلسلے میں تین نظریات ہیں:
1۔ انسان کو اختیار ہے. (اکثر مراجع کرام)
2۔ اگر زراعت وغیرہ کے ذریعہ آمدنی ہے تو چونکہ زراعت عیسوی سال کے اعتبار سے انجام پاتی ہے تو عیسوی سال کو معیار قراردینا کوئی حرج نہیں رکھتا ہے. (بہجت)
3۔ احتیاط واجب یہ ہے کہ ہجری سال کو معیار قرار دے. (وحید خراسانی)
ایک تبصرہ شائع کریں