بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آئیے خمس نکالیں
(مطابق فتاویٰ آیات عظام: امام خمینیؒ، اراکیؒ، خوئیؒ، گلپائگانیؒ، بہجتؒ، جواد تبریزیؒ، فاضلؒ،
خامنہ ای، سیستانی، صافی، زنجانی، مکارم شیرازی، وحید خراسانی، نوری ہمدانی مد ظلہم العالی)
مرتبہ
مولانا منھال رضا خیرآبادی
فصل دوم
مؤونہ زندگی اور اس کا خمس
مؤونہ :
مؤونہ کی دو قسم ہے:
1۔ مؤونہ کسب: یعنی وہ اخراجات جو منفعت حاصل کرنے کیلئے خرچ ہوتے ہیں جیسے ٹرانسپورٹ خرچ، لیبر چارج وغیرہ اس خرچ کو منفعت سے نکال کر خمس ادا کریں گے۔
2۔ مؤونہ زندگی: اس میں مندرجہ ذیل چیزیں شامل ہیں:
1۔ کھانے پینے، لباس، گھر وغیرہ کے اخراجات۔
2۔ گاڑی وغیرہ۔
3۔ تعلیمی اخراجات۔
4۔ شادی بیاہ کے اخراجات۔
5۔ مستحبی و واجب سفر حج وزیارت، سیاحتی سفر کے اخراجات۔
6۔ جہیز۔
7۔ دیت جس کا ادا کرنا واجب ہو، یا وہ اموال جو کسی حادثہ کے بعد کسی شخص پر واجب الادا ہوتے ہیں مثلا گاڑی وغیرہ کی مرمت وغیرہ کے اخراجات۔
8۔ فریج، فرش، لحاف، کمبل، برتن، ٹیلیویژن وغیرہ۔
9۔ ہدایا، صدقات و خیرات جو دوسروں کو دیا ہے۔
10۔ جن کا نفقہ واجب ہے ان پر کئے گئے اخراجات (والدین واولاد)۔
11۔ کفارات، نذر وعہد وغیرہ کا مال۔
12۔ مہر۔
13۔ ضمانت شرعیہ کی وجہ سے جو قرض ذمہ میں آیا ہو۔
14۔ مسجد، امامبارگاہ اور مدرسہ وغیرہ کی تعمیر یا اس میں امداد وغیرہ۔
نکات:
1۔ متذکرہ بالا امور میں اپنی آمدنی کو خرچ کرنا مؤونہ شمار ہوگا بشرطیکہ اپنی شان کے مطابق ہو اور اگر خرچ میں شان سے بڑھ کر ہو جائے تو تمام مراجع کرام نے فتویٰ دیا ہے کہ خمس واجب ہوگا۔
2۔ مؤنہ کی چند صورتیں ہیں:
الف: اگر سال کی آمدنی ان چیزوں میں خرچ کر رہا ہے جس کی ضرورت اسی سال ہو تو ایسی صورت میں تمام مراجع کا حکم ہے کہ خمس واجب نہیں ہوگا۔
ب: سال کی آمدنی ایسی چیزوں میں خرچ کر رہا ہے جس کی اس سال ضرورت نہیں ہے بلکہ اگلے سالوں میں ہوگی جیسے لڑکی کيلئے جہیز کا انتظام کرنا، شادی سے پہلے گھر خریدنا وغیرہ۔
ج: سال کی آمدنی محفوظ کر دے اس مقصد سے کہ اس کی ضرورت پڑے گی۔
متذکرہ آخری دو صورتیں عموما مبتلا بہ ہیں اور زیادہ سر و کار رکھتی ہیں عوامی زندگی سے اس میں مراجع کے نظریات مختلف ہیں اسلئے ہم قدرے تفصیل سے بیان کریں گے۔
1۔ زمین خریدے تا کہ آئندہ سالوں میں گھر تعمیر کرائے:
اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوں گی:
الف: اگر اسکے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہ ہو گھر بنوانے کيلئے تو خمس واجب نہیں ہوگا. (تمام مراجع کرام)
ب: زمین کی موجودہ قیمت کا خمس ادا کرے. (تبریزیؒ، وحید خراسانی)
ج: اگر مالی اعتبار سے قدرت نہیں رکھتا ہے کہ ایک مرتبہ میں گھر خرید لے اور اس جیسے افراد ایسے ہی تدریجی طور پر مکان تعمیر کراتے ہیں تو خمس واجب نہیں ہوگا. (سیستانی)
د: خمس واجب نہیں ہے. (مکارم)
2۔ گھر خریدنے کیلئے بچت کرنا:
اس کی ٢ مندرجہ ذیل صورتیں ہیں:
الف: خمس واجب ہے. (خمینیؒ، تبریزیؒ، خوئیؒ، خامنہ ای، سیستانی، مکارم، وحید خراسانی)
ب: اگر گھر خریدنے کيلئے اس کے علاوہ کوئی راستہ نہ ہو تو خمس اس بچت میں واجب نہیں ہوگا. (بہجتؒ، زنجانی، فاضلؒ، صافی، گلپائگانیؒ، نوری ہمدانی)
3۔ رہن: وہ ایڈوانس رقم جو مکان مالک کو بعنوان ڈپازٹ دیا جاتا ہے گرچہ عوام اس کو رہن کہتے ہیں جبکہ درحقیقت وہ پگڑی ہوتی ہے۔
اس میں مندرجہ ذیل صورتیں متصور ہیں:
الف: خمس واجب ہے لیکن جب تک اسی مقصد سے مالک کے پاس ہے ادا کرنا واجب نہیں ہے لیکن جب واپس مل جائے تو فورا ادا کرے. (خمینیؒ، خامنہ ای، سیستانی)
ب: اگر بغیر پگڑی دیئے اس کو گھر نہیں مل سکتا ہے تو خمس واجب نہیں ہوگا لیکن جب واپس مل جائے اور سال کے اخراجات سے بچ جائے تو خمس واجب ہوگا. (بہجتؒ، تبریزیؒ، فاضلؒ، وحید خراسانی)
ج: پگڑی کا پیسہ مؤونہ زندگی میں شمار ہوگا اور خمس واجب نہیں ہوگا لیکن جب واپس مل جائے اور اس کی ضرورت نہ ہو تو بنا بر احتیاط خمس ادا کرے. (صافی، مکارم)
4۔ وہ مال جو دوران سال ملا اور اس سے گھر خریدا یا قرض لے کر گھر خریدا کئی سال گھر میں رہا پھر اس گھر کو بیچ دے تا کہ اس سے دوسرا گھر خریدے ایسی صورت میں جو مال گھر بیچنے کے نتیجہ میں ملا ہے اس میں خمس ہوگا یا نہیں.
اس سلسلے میں مندرجہ ذیل چند نظریہ ہیں:
الف: اگر گھر بیچ دیا ہے تو جو مال ملا ہے اس میں فورا خمس ادا کرنا ضروری ہے لیکن اگر گھر سے گھر بدل رہا ہے تو خمس ادا کرنا ضروری نہیں ہوگا. (خمینیؒ)
ب: اگر بیچے ہوئے گھر کی قیمت بغیر دوسرا گھر خریدنا ممکن نہ ہو تو خمس واجب نہیں ہوگا. (بہجتؒ، زنجانی، نوری ہمدانی)
ج: خمس واجب نہیں ہے. (خامنہ ای، مکارم)
د: جو منافع ہوا ہے. (جو قیمت خرید اور قیمت فروخت کے درمیان) اس سے خمس متعلق ہوگا. (تبریزیؒ، سیستانی، صافی،فاضلؒ)
ھ: جو منافع ہوا ہے اس میں سے سال خمس آنے پر بنابر احتیاط واجب خمس ادا کرنا ہوگا. (وحید خراسانی)
5۔ وہ مال جو شادی کیلئے جمع کیا گیا ہے:
اس سلسلہ میں تین نظریہ ہے:
الف: خمس واجب ہوگا. (خمینیؒ۔ تبریزیؒ، سیستانی، صافی، مکارم)
ب: اگر بغیر جمع کئے شادی نہیں کر سکتا ہے تو خمس واجب نہیں ہوگا. (بہجتؒ، زنجانی، فاضلؒ، نوری ہمدانی)
ج: اگر جلد ہی شادی کرنے کیلئے جمع کیا ہے اور خمس ادا کرنے کی صورت میں شادی نہیں کر پائے گا تو خمس واجب نہیں ہے. (خامنہ ای)
6۔ وہ آمدنی جس سے جہیز خریدا ہے:
اس سلسلے میں دو نظریہ ہیں :
الف: دوران سال کی آمدنی سے خریدا ہے اور اسی سال شادی بھی کر دے تو ایسی صورت میں تمام مراجع کرام نے کہا ہیکہ خمس واجب نہیں ہوگا۔
ب: جس سال کی آمدنی سے جہیز خریدا ہے اسی سال شادی نہ ہو بلکہ آئندہ سال شادی ہو تو اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے اور تین نظریہ پائے جاتے ہیں:
1۔ اگر ایک ساتھ پورا جہیز خریدنے کی توانائی نہ ہو یا ایسے شہر میں رہتا ہو جہاں عموما ہر سال جہیز کیلئے کچھ سامان خریدا جاتا ہے اور اگر نہیں خریدتا ہے تو یہ عیب سمجھا جاتا ہے تو ایسی صورت میں اگر سال کی آمدنی سے خریدا ہے تو خمس واجب نہیں ہوگا. (خمینییؒ، خوییؒ، خامنہ ای، سیستانی، فاضلؒ، مکارم، وحید خراسانی، نوری ہمدانی)
(عیب سمجھا جائے یعنی اس کی شان کے خلاف ہو.)
2۔ اگر جہیز ایسے دور میں خریدا جا رہا ہے جبکہ شادی ہونے والی ہو تو خمس واجب نہیں ہوگا. (صافی)
3۔ جو شادی والے سال میں خریدا ہے اس پر خمس واجب نہیں ہوگا لیکن جو گذشتہ سالوں میں جمع کیا ہے جہیز اس پر احتیاط واجب کی بنا پر خمس واجب ہوگا لیکن اگر کچھ مال لڑکی کے بالغ ہونے سے پہلے ہبہ کر دیا گیا ہے تو لڑکی پر اس کا خمس ادا کرنا واجب نہیں ہوگا. (تبریزیؒ)
7۔ وہ مال جو جہیز خریدنے کیلئے محفوظ کیا گیا ہو تاکہ شادی کے وقت رائج ماڈل کاسامان خریدے:
اس سلسلے میں تین نظریہ ہیں:
الف: خمس واجب ہے. (خمینیؒ، خوئیؒ، سیستانی، تبریزیؒ، صافی، گلپائگانیؒ، مکارم، وحید خراسانی)
ب: اگر بغیر محفوظ کئے اور بچائے ہوئے وقت ضرورت نہیں خرید پائے گا تو خمس واجب نہیں ہوگا. (بہجتؒ، زنجانی، فاضلؒ، نوری ہمدانی)
ج: اگر مستقبل قریب میں جہیز خریدنے کیلئے جمع کیا ہے اور خمس ادا کر دینے کے بعد جہیز نہیں خرید پائے گا تو خمس واجب نہیں ہے. (خامنہ ای)
8۔ گاڑی وغیرہ:
اس کی مندرجہ ذیل صورتیں ہوں گی:
الف: وہ گاڑی جو تجارت و حرفت کا ذریعہ نہ ہو: اس کو خریدنے کی دو الگ الگ صورت ہوگی:
1۔ سال کے دوران کی آمدنی سے لیا ہو یا قرض سے لیا ہو اور اس کی ضرورت بھی ہو اور شان کے مطابق ہو تو تمام مراجع کرام کے نزدیک خمس واجب نہیں ہوگا۔
2۔ اس مال سے خریدا ہو جو جمع کیا تھا اور ایک سال گذر گیا ہو تو ایسی صورت میں دو نظریہ ہیں:
الف: خمس واجب ہے. (خمینیؒ، خوئیؒ، تبریزیؒ، خامنہ ای، سیستانی، صافی، گلپائگانیؒ، وحید خراسانی)
ب: اگر بغیر جمع کئے ہوئے نہیں خرید سکتا تھا اور اس کو اگلے سال اس کی ضرورت بھی تھی تو خمس واجب نہیں ہے. (بہجتؒ، زنجانی، فاضلؒ)
ب: گاڑی اس کی آمدنی ہے اور یہی اس کا ذریعہ آمدنی ہے تو ایسی صورت میں تمام مراجع کرام کی نظر میں سرمایہ کا حکم رکھے گی جس کی تفصیلات گذر چکی ہیں۔
ج: کبھی کبھی ذاتی ضروریات اور کبھی کبھی وسیلہ تجارت ہے:
اس سلسلے میں تین نظریات ہیں:
1 ۔اگر زیادہ تر شخصی امور کے لئے استعمال ہوتی ہے تو ایسی صورت میں تمام مراجع کرام کے مطابق پہلی صورت کا حکم نافذ ہوگا۔
2۔ زیادہ تر وسیلہ تجارت وکام ہے مثلا مال ادھر ادھر پہونچایا جاتا ہے ٹرانسپورٹ کے کام میں استعمال ہوتی ہے ایسی صورت میں دوسری صورت کا حکم نافذ ہوگا تمام مراجع کرام کی نظر میں۔
3۔ جتنی مرتبہ ذاتی کام میں استعمال ہوتی ہے اتنی ہی مرتبہ تجارتی امور میں استعمال میں آتی ہے تو ایسی صورت میں اس کی آدھی قیمت پر پہلی صورت کا حکم اور آدھی قیمت پر دوسری صورت کا حکم نافذ ہوگا تمام مراجع کرام کے فتوے کے مطابق۔
9۔ وہ رقم جو گاڑی خریدنے یا گھر خریدنے کیلئے جمع کی گئی ہو یا ایڈوانس دی گئی ہو:
اس کی دوصورت ہوسکتی ہے:
1۔ وہ رقم اسی سال کی آمدنی میں سے ہو اور ایڈوانس کے طور پر دی گئی ہو اور سال خمس بھی اس پر گذر چکا ہو تو ایسی صورت میں تین نظریہ ہیں:
الف: خمس واجب ہوگا (خمینیؒ، خوئیؒ، تبریزیؒ، خامنہ ای، سیستانی، وحید خراسانی)
ب: اگر گھر خریدنا ضروری ہے یا گاڑی خریدنا ضروری ہے اور بغیر اس صورت کے ممکن نہیں ہے خریدنا تو خمس واجب نہیں ہوگا. (بہجتؒ، زنجانی،صافی، فاضلؒ، گلپائگانی ؒ،مکارم، نوری ہمدانی)
ج: صرف گھر خریدنے کیلئے جمع کیا ہو تو خمس واجب نہیں ہوگا. (گلپائگانیؒ، صافی)
2۔ رقم اسی سال کی آمدنی سے گھر یا گاڑی خریدنے کیلئے دی گئی ہو تا کہ مستقبل میں گھر یا گاڑی اس کے قبضہ میں ہو ایسی صورت میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے:
الف: خمس واجب نہیں ہوگا. (خمینیؒ، بہجتؒ، خامنہ ای، زنجانی، صافی، فاضلؒ، گلپائگانیؒ، مکارم،نوری ہمدانی)
ب: اگر تاریخ خمس تک گھر یا گاڑی اس کے قبضہ میں نہ آپائے تو خمس واجب ہوگا. (وحید،تبریزیؒ)
اگر گھر یا گاڑی نہ خریدنا عرف عام میں حق خانوادہ (فیملی) میں تقصیر شمار ہو اور عیب مانا جائے تو خمس واجب نہیں ہوگا. (سیستانی)
نوٹ: یہ متذکرہ بالا مطالب اس گاڑی سے متعلق ہیں جو اس کیلئے ضروری ہو لیکن اگر وہ گاڑی تجارت وغیرہ کے لئے ہو تو اس پر سرمایہ کا حکم نافذ ہوگا۔
10۔ آذوقہ جو سال کے اختتام پر بچ جائے:
اس کی دو صورت ہے:
1۔ اگر اپنے اہل وعیال کیلئے آذوقہ سال کے درمیان کی آمدنی سے مہیا کیا ہے اور سال کے آخر میں کچھ بچ جائے تو تمام مراجع کرام کا حکم ہے کہ خمس واجب ہے۔ اس کو اختیار ہے عین جنس دے یا اس کی قیمت دے۔
2۔ حساب خمس میں ہر سال کا علاحدہ حساب کرے مثلا اگر کسی نے اپنا سال معین کر لیا ہے اور اس سے پہلے ہی آذوقہ کا انتظام کرے اور سال ابھی ختم نہ ہوا ہو تو خمس نہ دینے کا اختیار ہے. (زنجانی)
11۔ وہ رقم جو حج وعمرہ کیلئے بینک میں ڈپازٹ کی گئی ہے:
اس کی ۳ صورتیں ہو سکتی ہیں:
1۔ وہ رقم جس سال نام لکھوایا ہے اس سے پہلے والے سال کی آمدنی میں سے ہو ایسی صورت میں تمام مراجع کرام کا فتویٰ ہے کہ خمس واجب ہے اصل مال میں لیکن جو منفعت ہے وہ چونکہ حاصل نہیں ہو سکتی ہے اسلئے خمس نہیں ہوگا۔
2۔ وہ رقم جو نام لکھوانے کے لئے دی گئی ہے اسی سال کی آمدنی میں ہو جس سال نام لکھوایا ہے اور اسی سال حج پر جانے کا موقع بھی مل جائے گرچہ ایس ابہت کم ہوتا ہے لیکن پھر بھی تمام مراجع نے فتویٰ دیا ہے کہ خمس واجب نہیں ہوگا۔
3۔ وہ رقم جو جمع کیا ہے وہ اسی سال کی آمدنی میں سے ہے جس سال نام لکھوایا ہے لیکن اس کے بعد والے سال میں حج وعمرہ پر گیا تو ایسی صورت میں متعدد نظریات ہیں:
الف: اصل رقم پر خمس واجب ہوگا لیکن اس کی منفعت پر نہیں. (خمینیؒ، خوئیؒ، خامنہ ای، تبریزیؒ، وحید)
ب: اصل رقم و منفعت دونوں پر خمس واجب نہیں ہے. (صافی، نوری)
ج: اصل رقم پر خمس واجب ہوگا لیکن جو لوگ مستطیع ہو گئے ہیں اس طریقہ کے علاوہ حج پر جانے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے تو خمس اصل رقم پر واجب نہیں ہوگا منفعت پر دونوں صورتوں میں خمس واجب ہوگا. (سیستانی، فاضلؒ)
د: جو لوگ حج کی سعادت سے مشرف ہوتے ہیں ان کی تین قسم ہے:
1۔ جن کا سال خمس معین ہے ایسا شخص سال خمس کے درمیان حج وعمرہ کیلئے پیسہ جمع کر رہا ہے تو نہ اصل رقم پر خمس واجب ہے اور نہ منفعت پر۔
2۔ سال خمس معین نہیں ہے اور اس کے پاس ایسا سرمایہ ہے جس میں سے خمس ادا نہیں کیا ہے تو اصل رقم ومنافع دونوں پر خمس واجب ہوگا۔
3۔ وہ نوکری پیشہ افراد جن کا سال معین نہ ہو دو طرح کے ہیں:
۱- کچھ وہ جو اپنی پہلی تنخواہ پانے کی تاریخ جانتے ہیں تو ہجری سال واضح ہو جائے گا اب اگر اس رقم پر سال خمس گذر چکا ہے تو اصل رقم اور اس کی منفعت دونوں پر خمس واجب ہوگا.
۲- کچھ وہ ہیں جن کو پہلی تنخواہ پانے کی تاریخ یاد ہی نہ ہو تو اس صورت میں اگر اس آمدنی سے ہے جس پر گیارہ مہینہ گذر چکا ہے اور نام لکھوایا ہے تو اصل و منفعت دونوں پر خمس واجب نہیں ہوگا لیکن اگر اس سے پہلے سے ذخیرہ کیا ہے تو اصل و منفعت دونوں پر خمس واجب ہوگا. (مکارم)
12۔ 13۔ لباس احرام و قربانی:
اس سلسلہ میں بھی ۳ نظریہ ہیں:
ا۔ اگر وہ رقم جس سے احرام کا لباس یا قربانی کا جانور خریدا گیا ہے ایسے مال سے ہو جس پر خمس واجب نہیں ہے جیسے میراث، مہر، دیت وغیرہ ایسی صورت میں تمام مراجع کرام نے خمس واجب نہ ہونے کا فتویٰ دیا ہے اور طواف وقربانی صحیح ہوگی۔
2۔ لباس احرام یا قربانی سال کے دوران ہونے والی آمدنی سے خریدا گیا ہو ایسی صورت میں چونکہ مؤونہ میں شمار ہوگا لہذا خمس واجب نہیں ہوگا۔
3۔ لباس احرام یا قربانی ایسے مال سے خریدا گیا ہو جس پر سال خمس گذر چکا ہو یا شک ہو رہا ہے کہ سال خمس گذر چکا ہے یا نہیں تو ایسی صورت میں دو نظریہ ہوں گے:
الف: خمس واجب ہے اور بغیر خمس ادا کئے طواف و قربانی صحیح نہیں ہوگی. (خمینیؒ، فاضلؒ، نوری ہمدانی)
ب: خمس ادا کرنا واجب ہے لیکن اگر جیسا کہ عموما ہوتا ہے خرید لے تو حج وعمرہ صحیح ہوگا. (بہجتؒ، تبریزیؒ، خوئیؒ، خامنہ ای، زنجانی، سیستانی، صافی، گلپائگانیؒ، وحید خراسانی)
توضیح:
لباس احرام اور قربانی خریدنے کی دو صورتیں متصور ہیں ایک شخصی طور پر خریدے مثلا خریدنے والا بیچنے والے سے کہے کہ یہ قربانی کا جانور یا لباس احرام اسی معین پیسہ سے جس کا خمس ادا نہیں کیا گیا ہے میں خریدتا ہوں دوسری صورت یہ کہ عمومی طور پر معاملہ انجام پائے یعنی خریدار لباس احرام وقربانی کو بغیر رقم معین کئے ہوئے خریدے اور جب قیمت ادا کرے تو اسی رقم سے قیمت ادا کرے جس کا خمس ادا نہیں کیا گیا ہے۔
پہلی صورت میں تمام مراجع کرام کا نظریہ ہے کہ معاملہ درست نہیں ہے اور طواف و قربانی صحیح نہیں ہوگی لیکن دوسری صورت میں معاملہ صحیح ہوگا طواف و قربانی بھی صحیح ہوگی لیکن خمس اس کے ذمہ واجب الادا ہوگا لیکن ادا نہ کرنے کی صورت میں طواف و قربانی غلط نہیں ہوگی۔
14۔ کفن و قبر کھودنے کی اجرت دی گئی ہے:
اس میں دو صورتیں ہوں گی:
1۔ اگر کفن ایسے مال سے خریدا گیا ہے یا قبر کھودنے کی اجرت ایسے مال سے دی گئی ہو جس پر خمس واجب نہیں ہوتا ہے جیسے دیت، مہر وغیرہ اس مال میں خمس واجب نہیں ہے تمام مراجع کرام کے نزدیک۔ خواہ اسی سال جس سال خریدا ہے انتقال ہوا ہو یا بعد کے سالوں میں انتقال ہوا ہو۔ اگر ہدیہ ہو تو تو حکم ہدیہ نافذ ہوگا جس کی تفصیلات گذر چکی ہیں۔
2۔ اگر کفن و قبر کی کھدائی میں ایسا مال خرچ ہوا ہو جو تجارت وغیرہ کی منفعت سے حاصل ہوا ہے یا تنخواہ کے ذریعہ وہ مال حاصل ہوا ہو تو اس سلسلہ میں تین صورتیں متصور ہیں:
الف: اس مال سے خریدا گیا ہے جس پر سال خمس گذر چکا ہے تو ایسی صورت میں تمام مراجع کے نزدیک خمس واجب ہوگا۔
ب: سال کے دوران ہونے والی آمدنی سے خرچ کیا ہے لیکن بعد والے سال میں انتقال ہو اور اس سے استفادہ بھی کیا ہو ایسی صورت میں بھی تمام مراجع کرام نے خمس واجب ہونے کا فتویٰ دیا ہے۔
ج: سال کے دوران ہونے والی آمدنی سے خریدا ہو اور اسی سال انتقال بھی ہوگیا ہو اور اس سے استفادہ بھی کیا ہو ایسی صورت میں بھی تمام مراجع کرام نے حکم دیا ہے کہ خمس واجب نہیں ہوگا۔
ایک تبصرہ شائع کریں