ارمغان سالک راہ مودت
یعنی
آدابِ زیارت
مرتبہ
منھال رضا خیرآبادی
احوال واقعی
زیارت: انوار الٰہیہ سے معنوی مستحکم رابطہ ہے، مذہب حقہ جعفریہ کے نزدیک حضرات ائمہ معصومین ؑ کی قبروں کی زیارت پروردگار عالم سے قربت کا بہترین ذریعہ ہے جس کی احادیث میں بے حد فضیلت وارد ہوئی ہے، گر چہ اسلامی دنیا کا ایک بڑا گروہ اپنی کج فکری کے باعث، قرآن وحدیث کی صحیح تعلیمات سے دوری کے سبب اس کی حرمت اور اس عمل کے مشرکانہ بتانے کی ہر ممکن سعی کرتا ہے۔
زیارت ان انوار مقدسہ سے معنوی مستحکم رابطہ کا نام ہے، جس کی افادیت و اہمیت کو دشمنان اسلام بخوبی درک کررہے ہیں ،پیہم زیارتی قافلہ جات کا آنا جانا، عاشقوں کا ہجوم دشمن کی نیند حرام کر دیتا ہے۔
زیارت ایک قلبی رابطہ ہے، جو انسانی نیتوں کے محور پر گردش کرتا ہے جتنا سطح معرفت بلند ہوگا زیارت اتنی ہی موثر ہوگی۔
شیخ ابو علی سیناؒ فرماتے ہیں: زائر اپنے مادی و روحانی وجود کے ساتھ اس مقام پر پہونچتا ہے جس کی زیارت کرنا چاہتاہے، اور اس سے استعانت چاہتا ہے تا کہ کسی نیکی کو حاصل کر سکے اور نقصان کا دفعیہ کر سکے ۔۔۔۔۔۔ چونکہ زائر اپنے جسم و جان کے ساتھ اس بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے لہذا مادی و روحانی فوائد سے بہرہ مند ہوتا ہے
زیارت کرنے والا اللہ کی جانب سفر کرنے والا ہوتا ہے جس کا مقصد لقاء الٰہی اور قرب خداوندی ہوتا ہے، جسکا آغاز امام کی ہمراہی میں ہوتا ہے اور اختتام زیر عنایت معصوم ہوتا ہے۔
زیارت چونکہ خدا کی طرف اک معنوی وروحانی سفر ہے لہذا انسان کو غور کرنا چاہئے، اس سفر کی عظمت وافادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو آمادہ کرنا چاہئے۔
بحمد اللہ ادھر کچھ عرصہ سے ہندوستان سے زائرین کی معتد بہ تعداد مختلف قافلوں کے ہمراہ اس مقدس سفر پر جانے لگی ہے جس کی وجہ سے اکثر ایسے افراد سے ملاقات ہوتی رہتی ہے جو زیارت کے آداب، لوازمات اور مقامات زیارت سے بے خبر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے زیارت میں وہ کیف حاصل نہیں کر پاتے ہیں اور زیارت کے لا متناہی ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں، بعض احباب نے کبھی کبھی اشارہ و کنایہ میں اس احساس کا تذکرہ بھی کیا کئی مرتبہ ہمت بھی کیا کہ کوئی ایسا کتابچہ ترتیب دیا جائے مگر زندگی کے مصروفیات، تبلیغی مشغولیات اجازت نہیں دے رہے تھے اور یہ تمنا دل ہی میں رہ جاتی۔
ادھر کچھ عرصہ سے قدرے آسودگی و فرصت کے لمحات حاصل ہوئے تو ترتیب کا عمل شروع کیا اور بطفیل محمد و آلہؐ کتاب مرتب ہوگئی، عجلت کے باعث ممکن ہے بہت سی ضروری چیزیں درج نہ ہو سکی ہوں یا ترتیب میں تقدم وتأخر ہو گیا ہو جس کی طرف احباب و قارئین متوجہ فرما کر ممنون ومشکور فرمائیں گے۔
خدایا ہمیں توفیق زیارات عتبات عالیات نصیب فرما اور جب سفر زیارت پر جائیں تو ایسے جائیں جیسے ہمارے معصومینؑ چاہتے ہیں اور ان صفات کو حاصل کر سکیں جو زائرین کے احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔
والسلام علیٰ من اتبع الهدیٰ
مولانا منھال رضا خیرآبادی
جامعه حیدریه مدینة العلوم
خیرآباد ضلع مئو یوپی الہند
mubarakpur-azamgarh
فصل اول
زیارت کے معنی و آداب
mubarakpur-azamgarh
★ مفہوم زیارت:
زیارت صاحبان کمال ومفاخر عظام کی تعظیم کا نام ہے، علمی معنوی حیات کے استمرار و بقاء کا سبب ہے، نسل حاضر کو گذشتہ و آئندہ نسلوں سے ملانے والی کڑی کا نام ہے، صاحبان فضل و شرف سے روحانی رابطہ کو کہتے ہیں، معصوم کے ساتھ اللہ کی طرف اک روحانی سفر ہے، زائر در حقیقت قرب الٰہی کی شاہراہ کا وہ مسافر ہے جس کا مقصد و منتھیٰ خدا ہے اور بس، یہ انوار مقدسہ اس مقصد تک رسائی کا وسیلہ ہیں، مفہوم زیارت کو واضح طور پر بیان کرنے کیلئے لغت و اصطلاح علما کا سہارا لینا ضروری ہے۔
الف:- لغت:
زور سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں میلان اور کسی چیز سے منھ موڑنا۔ جھوٹ کو زور اسلئے کہا جاتا ہے کہ وہ حق سے منحرف کر دیتا ہے اور زائر کو زائر اسلئے کہتے ہیں کہ وہ دوسروں سے منھ پھیر لیتا ہے اور جس کی زیارت کیلئے حاضر ہوا ہے ساری توجہات اس کی طرف مرکوز کرلیتا ہے. (مقاییس اللغۃ، 3/ 36)
قرآن کریم میں لفظ "تزاور" اسی معنی میں استعمال ہوا ہے ارشاد ہوتا ہے: وتری الشمس اذا طلعت تزاور عن کہفہم ذات الیمین۔ (سورہ کہف 17)
بعض علمائے لغت نے زیارت کے معنی قصد و توجہ بیان کیا ہے. (المصباح المنیر، مادہ زور)
ب:- اصطلاح علماء:
کسی فرد یا مقام پر اس لئے حاضر ہونا کہ اس مقام یا فرد کی تکریم وتجلیل ہو اور اس سے انسیت پیدا ہو۔
زائر کا مزور (جس کی زیارت کر رہا ہے) کے پاس حاضر ہونا اس طرح کہ اس کے رفتار و گفتار کے سانچے میں اپنے رفتار و گفتار کو ڈھال لینا۔
زیارت اہلبیتؑ کی حقیقت یہ ہے کہ انسان ما سویٰ اللہ سے جدا ہو کر معصوم و ولی خدا کی طرف کوچ کرے اور اللہ کی طرف ہجرت کا بہترین نمونہ ہے جس کی تائید رسول اکرمؐ کی حدیث سے ہوتی ہے آنحضرتؐ نے فرمایا:
من اتیٰ مکۃ حاجا ولم یزرنی بالمدینۃ جفوتہ یوم القیامۃ ومن زارنی زائراً وجبت لہ شفاعتی ومن وجبت لہ شفاعتی وجبت لہ الجنۃ ومن مات فی احد الحرمین مکۃ اوالمدینۃ لم یعرض الی الحساب ومات مہاجراً الیٰ اللہ وحشر یوم القیامۃ مع اصحاب بدر (کامل الزیارات، ص13)
جو حج کیلئے مکہ آئے اور میری زیارت مدینہ میں نہ کرے اس پر روز قیامت جفا ہوگی اور جو میری زیارت کرے گا میری شفاعت اس کیلئے لازم ہوگی اور جس کیلئے میری شفاعت لازم ہوگی اس کو جنت ضرور حاصل ہوگی اور جو شخص حرم مکہ و مدینہ میں سے کسی ایک مقام پر مر جاتا ہے اس کا حساب نہیں ہوگا اور وہ مہاجر کی موت مرے گا اور روز قیامت اصحاب بدر کے ساتھ محشور ہوگا۔
ارکان زیارت:
زیارت کے تین رکن ہوتے ہیں ان تینوں رکن میں سے اگر کوئی ایک رکن بھی مفقود ہوگا تو زیارت کی حقیقت گم ہو جائے گی، لہذا مندرجہ ذیل ارکان کی رعایت ہر زائر پر لازم وضروری ہے۔
وہ ارکان جو ہر زیارت کیلئے لازم ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ زائر: وہ شخص جو کسی فرد یا مقام کی طرف میلان رکھتا ہو۔
2۔ مزور: وہ شخص یا مقام جس کی طرف میلان و رجحان پیدا ہوتا ہے کہ اس کے حضور حاضر ہو کر معنوی کمالات وشرف کا اکتساب کیا جائے۔
3۔ قلبی میلان: جو مزور سے انسیت اور اس کی عظمت کے پیش نظر پیدا ہوتا ہے۔
اقسام زیارت:
دین حقہ و مذہب شیعہ میں زیارت ایک انسان ساز عمل شمار کیا جاتا ہے، صفائے قلب کا باعث ہے قرآن کریم نے پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفؐیٰ کو حکم دیا تھا کہ منافقین کے جنازوں پر نماز ادا نہ کریں کیونکہ وہ فسق و فجور کے عالم میں دنیا سے جاتا ہے۔ اس حکم سے یہ بات بہر حال واضح ہوجاتی ہے کہ زیارت قبور شریعت الٰہیہ میں جائز ہے ارشاد ہوتا ہے: و لا تصل علیٰ احد منہم مات ابدا ولاتقم علیٰ قبرہ انہم کفروا باللہ ورسولہ وما توا وھم فاسقون. (سورہ توبہ 84)
ان منافقوں کی نماز میت ہرگز نہ پڑھو اور ان کی قبروں یا میت پر کھڑے نہ ہو کہ ان لوگوں نے خدا اور رسول کا انکار کیا اور فسق و بد حالی کے عالم میں موت واقع ہوئی ہے۔
علمائے شیعہ نے زیارت کے مندرجہ ذیل اقسام احادیث و روایات کی روشنی میں ذکر کیا ہے:
زیارت اہل قبور۔
دینی بھائیوں کی زیارت۔
زیارت چہاردہ معصومیؑن۔
زیارت اولیائے کرام و علمائے عظام۔
زیارت بیت اللہ۔
متذکرہ بالا تمام اقسام کا تذکرہ روایات میں ہادیان دین سے نقل ہوا ہے نیز اس کی عظمت و فوائد، آثار و برکات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے بعنوان مثال رسولخداؐ نے فرمایا: من زار اخاہ المومن الیٰ منزلہ لاحاجۃ منہ الیہ کتب من زوار اللہ وکان حقیقا علیٰ اللہ ان یکرم زائرہ. (بحار الانوار، 77/ 192۔ میزان الحکمۃ، حدیث نمبر 7926)
جو اپنے مومن بھائی کی زیارت کرنے اس کے گھر جائے گا بغیر کسی ضرورت کے تو اللہ اس کو اپنا زائر قراردے گا اور اللہ پر لازم ہے کہ وہ اپنے زائر کا اکرام کرے۔
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: تزاوروا فان زیارتکم احیاء لقلوبکم و ذکرا لاحادیثنا. (بحار الانوار، 74/ 258۔ میزان الحکمۃ حدیث نمبر 7934)
ایک دوسرے کے دیدار کیلئے جاؤ کہ یہ عمل دلوں کو زندہ کرتا ہے اور ہماری احادیث کا یاد کرنا ہے.
امام علیؑ نے ارشاد فرمایا: زوروا موتاکم فانہم یفرحون بزیارتکم ولیطلب الرجل عند قبر ابیہ وامہ بعد ما یدعوا لہما. (بحار الانوار، جلد 10۔ میزان الحکمت حدیث 3987)
اپنی اموات کی قبروں کی زیارت کیلئے جاؤکیونکہ تمہارے جانے سے انکو خوشی ہوتی ہے اور اپنے والدین کی قبروں پر حاجت طلب کرو ان کیلئے دعا کے بعد۔
امام موسی کاظؑم کا ارشاد ہے: من لم یستطع ان یزور قبورنا فلیزر قبور صلحاء اخواننا (بحار الانوار، 74/ 311۔ میزان الحکمۃ حدیث 7985)
جو ہماری قبروں کی زیارت نہیں کر سکتا ہے اس کو ہمارے صالح بھائیوں کی زیارت کیلئے جانا چاہئے۔
فضائل زیارت:
اقسام زیارت میں ہم نے ذکر کیا کہ کن مقامات کی زیارت کا تذکرہ معصومیؑن کی احادیث میں ملتا ہے اس مقام پر ہم کلی و انفرادی طور پر زیارت کے فضائل و برکات پر روشنی ڈالیں گے۔
امام جعفر صادقؑ نے ارشاد فرمایا: زیارۃ قبر رسول اللہ و زیارۃ قبور الشهداء و زیارۃ قبر الحسین تعدل حجة مبرورۃ مع رسول اللہ. (وسائل الشیعہ، 10/ 278)
قبر رسولخداؐ کی زیارت، شہدا کی قبروں کی زیارت، امام حسینؑ کی قبر کی زیارت رسولخداؐ کے ساتھ انجام دئے ہوئے حج مقبول کے برابر ہے۔
رسولخداؐ کا فرمان ہے: من زارنی اوزار احدا من ذریتی زرتہ یوم القیامۃ فانقذتہ من اھوالھا. (بحار الانوار،97/ 123)
جو میری یا میری ذریت میں سے کسی ایک کی زیارت کریگا روز قیامت میں اسکی زیارت کو آؤں گا اور اس ہولناک مرحلہ سے نکالوں گا۔
امام جعفر صادقؑ کا ارشاد گرامی ہے: من ترک زیارتہ وھو یقدر علیٰ ذلک قد عق رسول اللہ وعقنا. (سفینۃ البحار،1/ 564)
جو قدرت رکھتے ہوئے ہماری زیارت کیلئے نہ آئے وہ رسولخداؐ اور ہمارا عاق کردہ ہے۔
زیارت بیت اللہ الحرام:
شریعت اسلامی میں حج ہر مستطیع پر زندگی میں ایک مرتبہ واجب ہوتا ہے، حج کرنے والا اعمال و مناسک حج کی ادائیگی میں بے شمار مرتبہ خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہوتا ہے، طواف خانہ کعبہ زیارت بیت اللہ کا بہترین مظہر ہے۔
انبیائے کرام نے اس گھر کے طواف کو اپنے لئے شرف سمجھا ہے چنانچہ زرارہ نے امام محمد باقرؑ سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ان سلیمان بن داؤد حج البیت فی الجن والانس والطیر والریاح وکسا البیت القباطی. (اصول کافی،4/ 213، حدیث 6)
سلیمان ابن داؤد نے حج بیت اللہ کیا جن و انس، ہوا و پرند میں سے اور بیت اللہ پر قباطی چادر ڈالی۔
امام سجادؑ نے ارشاد فرمایا: حجوا واعتمروا تصح ابدانکم وتتسع ارزاقکم وتکفون مؤنات عیالاتکم وقال الحاج مغفور لہ وموجب لہ الجنۃ ومستانف لہ العمل ومحفوظۃ فی اہلہ ومالہ. (وسائل الشیعہ، 5/ 5)
حج وعمرہ کرو صحت مین رہو گے رزق میں وسعت ہوگی اور تمہارے اہل وعیال کے زندگی کے اخراجاے کیلئے کفایت کرے گا اور فرمایا حاجی بخشا ہوا ہوتا ہے، مستحق جنت ہوتا ہے، اس کے عمل کا اب سے آغاز ہوتا ہے، اس کا مال و عیال محفوظ ہوتے ہیں۔
زیارت مدینہ منورہ:
قال الحسین لرسول اللہ یا ابتاہ ما لمن زارک فقال رسول اللہ یا بنی من زارنی حیا او میتا او زار اباک او زار اخاک او زارک کان حقا علی ان ازورہ یوم القیامۃ فاخلصه ذنوبه. (بحار الانوار، 100/ 140)
امام حسینؑ نے رسول اکرمؐ سے سوال کیا آپ کے زائرین کے لئے کیا ثواب مقررہواہے آپؐ نے ارشاد فرمایا جس نے میری زیارت زندگی یا موت کے بعد کیا یا تمہارے والد، بھائی یا تمہاری زیارت کیا تو میرے اوپر اس کی زیارت روز قیامت لازم ہوگی پس میں اس کے گناہوں کو محو کردونگا۔
امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: من زارنی غفرت لہ ذنوبہ ولم یمت فقیراً (بحار الانوار، 100/ 145)
جس نے میری زیارت کیا اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور وہ فقیر نہیں مر سکتا ہے۔
نجف اشرف کی زیارت:
نجف اشرف مرنے کے بعد مومنین کی آماجگاہ ہے اور جنت عدن کا ایک ٹکڑا ہے یہ دار السلام ہے اس سرزمین کی عظمت کيلئے یہی کافی ہے کہ اس مقام کو سردار اولیاء حضرت علی ابن ابیطالبؑ نے اپنی آخری آرامگاہ کي خاطر منتخب فرمایا تھا۔
امام جعفر صادقؑ نے ارشاد فرمایا: اعلم ان امیر المومنین افضل عند اللہ من الائمۃ کلہم ولہ ثواب اعمالہم وعلیٰ قدر اعمالہم فضلوا (بحار الانوار، 100/ 258)
جان لو امیر المومنین کو تمام انبیاء پر برتری حاصل ہے اللہ کے نزدیک اور ان کیلئے انکے اعمال کا ثواب ہے اور اعمال کے حساب سے انسان کو برتری حاصل ہے۔
زیارت کربلائے معلیٰ:
صادق آل محمدؑ نے ارشاد فرمایا: من زار الحسین عارفا بحقہ کتب اللہ لہ ثواب الف حجۃ مقبولۃ والف عمرۃ مقبولۃ وغفر لہ ماتقدم من ذنبہ وما تاخر. (بحار الانوار، 100/ 257)
جو امام حسین کی زیارت انکی معرفت کے ساتھ کرے گا اللہ اکو ایک ہزار حج مقبولہ کا ثواب عطا کرے گا اور ہزار عمرہ مقبولہ کا، اور اس کے تمام گذشتہ وآئندہ کے گناہ معاف کر دے گا۔
عن معاویۃ بن وہب قال استاذنت علیٰ ابی عبد اللہ فقیل لی ادخل فدخلت فوجدتہ فی مصلاہ فی بیتہ فجلست حتی قضیٰ صلاتہ وسمعتہ وہو یناجی ربہ وہویقول: اللہم یامن خصنا بالکرامۃ ووعدنا بالشفاعۃ وخصنا بالوصیۃ واعطانا علیٰ مامضیٰ ومابقی وجعل افئدۃ من الناس تھوی الینا ،اغفر لی ولاخوانی وزوار قبر ابی الخسین الذین انفقوا اموالہم واشخصوا ابدانہم رغبۃ فی برنا ورجاء لما عندک فی صلتنا وسرورا ادخلوہ علیٰ نبیک. (بحار الانوار، 101/ 52 و53)
معاویہ کا بیان ہے کہ میں نے امام جعفر صادق ؑ کے در پر اذن دخول طلب کیا مجھے اجازت ملی جب اندر گیا تو دیکھا مولا مصلی پر ہیں میں فراغت کا انتظار کرتا رہا اور جب نماز ختم ہوگئی تو آپ نے مناجات شروع کیا اور عرض کیا: اے اللہ کہ ہمیں کرامت سے مختص فرمایا اور شفاعت کا وعدہ کیا اور وصیت سے مختص کیا ہمیں ماضی کی تمام چیزیں اور ما بقی چیزیں عطا کیا اور لوگوں کے قلوب کو ہمارے طرف جھکایا مجھے اور میرے بھائیوں کو معاف کر دے میرے جد امام حسین کے زائرین کو بخش دے جن لوگوں نے اپنا مال خرچ کیا اور اپنے اجسام کو ہمارے نیکی میں متحمل تکلیف قرار دیا صرف اس امید میں کہ جو کچھ تم نے ان کیلئے اس کے عوض قرار دیا ہے اور انھیں نبی کی بارگاہ میں داخل فرما۔
زیارت کاظمین:
حسن بن علی الوشا قلت للرضا مالمن اتیٰ قبرا حد من الائمۃ قال لہ مثل ما لمن اتیٰ قبر ابی عبد اللہ قال قلت مالمن زار قبر ابی الحسن موسی بن جعفر قال لہ مثل من زار قبر ابی عبد اللہ (ثواب الاعمال، ص۔۔۔۔۔۔۔)
میں نے امام رضاؑ سے دریافت کیا کہ کسی ایک امام کی زیارت کرنے والے کیلئے کیا اجر ہے؟ آپ نے فرمایا اسی ثواب کے مثل جو زائر امام حسینؑ کیلئے ہے، میں نے عرض کیا زائر قبر امام موسی کاظمؑ کا اجر کیا ہےِ فرمایا زائر امام حسینؑ کے مثل۔
امام علی رضا ؑ نے ارشاد فرمایا: من زار قبر ابی ببغداد کان کمن زار قبر رسول اللہ وقبر امیر المومنین، اِلا ان الرسول وامیر المومنین فضلہما. (اصول کافی،4/ 583)
جس نے میرے والد کی بغداد میں زیارت کیا اس نے گویا رسول اکرمؐ وعلی مرتضیٰؑ کی زیارت کے سوائے یہ کہ ان کا فضل ومرتبہ زیادہ ہے۔
سامراء کی زیارت:
امام حسن عسکریؑ نے فرمایا: قبری بسر من رای امان لاہل الجانبین. (بحار الانوار،102/ 59)
میری قبر سامرا میں دونوں سمت کیلئے امان کا سبب ہے۔
مشہد مقدس کی زیارت:
رسولخداؐ نے ارشاد فرمایا: ستدفن بضعۃ منی بارض خراسان لایزورہا مومن الا اوجب اللہ عزوجل لہ الجنۃ وحرم جسدہ علیٰ النار (بحار الانوار،ج102،ص31)عنقریب میرا پارہ جگر زمین خراسان میں دفن ہوگا اسکی کوئی مومن زیارت نہیں کریگا مگریہ کہ اسپر جنت واجب اور جہنم حرام ہوگی۔
امام محمد باقر ؑ نے فرمایا: ان بین جبلی طوس قبضۃ قبضت من الجنۃ من دخلہا کان آمنا یوم القیامۃ من النار(بحار الانوار،ج102،ص37)طوس کے دو پہاڑوں کے درمیان جنت کا ایک ٹکڑا ہے جو اسمیں داخل ہوگا وہ روز قیامت آتش جہنم سے نجات یافتہ ہوگا۔
زیارت قبور انبیاء:
انبیائے کرام کی تعظیم وتکریم عقلاً و شرعاً جائز ہے اور انکی زیارت بھی امر پسندیدہ ہے جس کی تصریح علمائے کرام نے فرمایا ہے۔
انبیاء کی تعداد چونکہ زیادہ ہے اور تمام انبیاء کے مقام دفن ہمیں معلوم نہیں ہیں لہذا جن انبیاء کے سلسلے میں معلوم ہو سکا ہے اور ان کا تذکرہ کتب ادعیہ و زیارات میں موجود ہے ان کی زیارت بھی ماثورہ ہے۔
امام محمد باقرؑ نے ارشاد فرمایا تھا: کہ رکن و مقام کے درمیان کا حصہ پیغمبروں سے مملو ہے. (کافی، 4/ 214)
امام جعفر صادقؑ سے منقول ہے کہ حجر اسود ورکن یمانی کے درمیان 70 انبیاء مدفون ہیں (کافی، 4/ 214)
تفصیلات کیلئے مصباح الزائر سید ابن طاؤس کی طرف رجوع کیا جائے۔
زیارت مومنین و صالحین:
امام علی رضا ؑ ارشاد فرماتے ہیں: مامن عبد زار قبر مومن فقرا علیہ انا انزلناہ فی لیلۃ القدر سبع مرات الاغفر اللہ لہ ولصاحب القبر. (وسائل الشیعہ، 3/ 227، حدیث 3479)
کوئی مومن کسی مومن بھائی کی قبر پر جاکر 7 مرتبہ سورہ قدر کی تلاوت کرتا ہے تو اللہ اسے اور صاحب قبر کو بخش دیتاہے۔
آداب سفر:
سفر انسانی ضرورتوں میں سے اہم ترین ضرورت ہے دین اسلام نے اس ضرورت کی اہمیت وافادیت کے پیش نظر اس کے فوائد وبرکات کا تذکرہ کیا ہے۔
رسولخداؐ نے فرمایا: سافروا تصحوا وترزقوا (کنز العمال، حدیث 17469)
سفر صحت ورزق کا سبب ہے
مولائے کائنات حضرت علی ابن ابیطالبؑ نے سفر کے مندرجہ ذیل فوائد و اثرات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: سفر فہم کی بلندی، معلومات میں زیادتی، شخصیت میں نکھار پیدا ہونے کا سبب ہے.
ملاحظہ ہو عیون الفاظ:
تغرب عن الاوطان فی طلب العلیٰ و سافر ففی الاسفار خمس فوائد
اپنے گھروں سے بلندی کے حصول کیلئے نکل پڑو اور سفر کرو کہ سفر میں پانچ فائدہ ہیں
تفرج ھم واکتساب معیشۃ علم وآداب وصحبۃ ماجد
ہم وغم دور ہوتا ہے، معاش کے ذرائع نصیب ہوتے ہیں، علم و ادب ملتا ہے اور صاحب کرامت کی ہمنشینی۔
سفر اپنے مقاصد و اہداف کے اعتبار سے مختلف نوعیت کا حامل ہوتا ہے جس کو علمائے فقہ نے واجب، حرام، مکروہ، مستحب و مباح کے عنوان سے بیان کیا ہے.
سفر سے پہلے اور خود سفر میں کن چیزوں کا خیال رکھنا ضروری ہے اس کو ائمہ معصومینؑ نے نہایت واضح طور پر بیان کیا ہے۔
الف: سفر سے پہلے کے آداب:
1۔ دینی بھائیوں کو آگاہ کرے: رسول خدا ؐنے فرمایا: حق علی المسلم اذا اراد سفراً ان یعلم اخوانہ(۔)
مسلمان کا حق ہے کہ جب وہ سفر پر جائے تو اپنے بھائیوں کو مطلع کرے۔
2۔ دعا: امام صادقؑ جب سفر کا ارادہ فرماتے تھے تو دعا کرتے تھے: "اللہم خل سبیلنا و احسن تسییرنا و اعظم عافیتنا"
خدایا راستہ کو کشادہ کر دے آسانی سفر کو حسین بنا دے اور میری سلامتی وعافیت کو عظیم قرار دے۔
3۔ آذوقہ سفر: امام جعفر صادقؑ نے ارشاد فرمایا: اذا سافرتم فاتخذوا سفرۃ وتذوقوا فیھا۔
جب تم سفر کرو تو آذوقہ سے بھرا دسترخوان ساتھ رکھو۔
4۔ صدقہ دینا: امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: تصدق واخرج ای یوم شئت۔
صدقہ نکال کر جس دن چاہو سفر کرو۔
5۔ مناسب ہم سفر کا تعین: امام علیؑ نے فرمایا: سل عن الرفیق قبل الطریق (بحار الانوار، 76/ 229)
ہمسفر تلاش کرو سفر شروع کرنے سے پہلے۔
6۔ مناسب وقت کا انتخاب: امام محمد باقرؑ فرماتے ہیں: کان رسول اللہ یسافر یوم الخمیس۔
رسولخداؐ پنجشنبہ کو سفر کا آغاز کرتے تھے۔
7۔ دوستوں سے خدا حافظی: رسولخداؐ نے فرمایا: اذا خرج احدکم الیٰ سفر فلیودع اخوانہ فان اللہ تعالیٰ جاعل لہ فی دعائہم البرکۃ۔
جب سفر پر نکلو تو اپنے بھائیوں سے رخصت ہو کیونکہ اللہ نے تمہاری دعا میں برکت قرار دیا ہے۔
8۔ اہل خانہ کو اللہ کے سپرد کرے: امام محمد باقرؑ نے ارشاد فرمایا: اللہم انی استودعک الیوم دینی ونفسی ومالی واہلی وولدی وجیرانی واہل حزانتی الشاہد منا والغائب وجمیع ما انعمت بہ علی۔
خدایا میں نے آج کے دن تیرے سپرد کیا اپنے دین، نفس، مال، اہل و عیال، پڑوسیوں اور میرے اعزا جو حاضر وغائب ہیں اور ہر اس چیز کو جو تم نے مجھ پر نازل کیا ہے۔
9۔ دین محفوظ رہے: امام علیؑ ارشاد فرمایا: لایخرج الرجل فی سفر یخاف فی علیٰ دینہ وصلاتہ۔
اس سفر پر انسان جانے سے پرہیز کرے جس میں دین اور نماز کے فوت ہو جانے کا خوف ہو۔
10۔ ضروری اشیا اپنے ساتھ رکھے: فی وصیۃ لقمان لابنہ یا بنی سافر بسیفک وخفک وعمامتک وخبائک وسقائک وابرتک وخیوطک ومخرزک وتزود معک الادویۃ تنتفع بہا انت ومن معک وکن لاصحابک موافقاً الا فی معصیۃ اللہ (بحار الانوار، 76/ 270)
جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا: اے بیٹا! سفر میں اپنی تلوار، موزہ، عمامہ، خیمہ، مشکیزہ، دھاگہ، اپنا علم اپنے ہمراہ رکھو اور جب سفر پر جاؤ تو دوائیں بھی ساتھ میں لے جاؤ کہ اس سے خود اور اپن ساتھیوں کو فائدہ ہوتا ہے اور اپنے ہمسفر کے ساتھ موافقت و ہمراہی کرو سوائے معصیت خداوند عالم کی مخالفت کرتے ہوئے.
ب: آداب اثناء سفر:
1۔ معنویت وروحانیت: امام جعفر صادقؑ نے ارشاد فرمایا: اذا خرجت من منزلک فاخرج خروج من لا یعود۔
جب گھر سے نکلو تو اس طرح نکلو کہ جیسے لوٹ کر آنا نہیں ہے.
2۔ صدقہ دینا: امام صادقؑ نے فرمایا: افتتح سفرک بالصدقۃ۔
اپنے سفر کا آغاز صدقہ سے کرو۔
3۔ سورہ مبارکہ قدر کی تلاوت کرے: امام محمد باقرؑ نے فرمایا: لو کان شی یسبق القدر لقلت قاری "انا انزلناہ" حین یسافر ویخرج من منزلہ سیرجع الیہ سالما ان شاء اللہ۔
…..
4۔ آیۃ الکرسی کی تلاوت کرے: اما م صادقؑ نے فرمایا: من قرأ آیۃ الکرسی فی السفر فی کل لیلۃ سلم وسلم ما معہ۔
جو آیۃ الکرسی سفر میں ہر شب پڑھے گا تو سالم رہے گا خود بھی اور وہ لوگ جو اس کے ساتھ ہیں
5۔ سورہ زخرف کی آیہ نمبر 13و 14 کی تلاوت کرنا: امام رضاؑ نے ارشاد فرمایا: ان خرجت براً فقل الذی قال اللہ عز وجل "سبحان الذی سخر لنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الیٰ ربنا لمنقلبون "فانہ لیس من عبد یقولہا عند رکوبہ فیقع من بعیر او دابۃ فیصیبہ شی باذن اللہ۔
اگر نیک ارادہ سے نکلو تو پڑھو "سبحان الذی سخر لنا ھذا وما کنا لہ مقرنین وانا الیٰ ربنا لمنقلبون" کیونکہ جو شخص سوار ہوتے وقت یہ آیہ پڑھے گا اور وہ سواری سے نیچے گر بھی جائے گا تو اس کو کسی قسم کا نقصان نہیں ہوگا باذن خدا۔
6۔ ضرورت کا سامان ساتھ رکھے: کان النبی لا یفارقہ فی الاسفارہ قارورۃ الدہن والمکحلۃ والمقراض والمرآۃ والسواک والمشط۔
نبی اکرم (ص) سفر میں اپنے ہمراہ تیل کی شیشی، سرمہ دانی، قینچی، آئینہ، مسواک اور کنگھی رکھتے تھے.
7۔ تنہا سفر نہ کرے: رسولخداؐ نے فرمایا: لا تخرج فی سفرک وحدک فان الشیطان مع الواحد۔
تنہا سفر کیلئے نہ نکلو کہ شیطان تمہارے ساتھ ہوگا.
8۔ دوسرے مسافروں کا تعاون کرے: رسول اسلامؐ نے فرمایا: من اعان مومنا مسافراً نفس اللہ عنہ ثلاثاً وسبعین کربۃ۔ جو سفر میں اپنے مومن بھائی کی اعانت کرے گا اللہ اس سے تہتر مشکلات دور کر دے گا۔
9۔ اموال کی حفاظت پر توجہ دے: امام جعفر صادقؑ نے فرمایا کہ میرے پدر بزرگوار بارہا فرماتے تھے: من قوۃ المسافر حفظ نفقتہ۔
مسافر کی توانائی اس میں ہے کہ وہ اپنا نفقہ اپنے ہمراہ رکھے.
10۔ اپنی حفاظت کرے: امام محمد باقرؑ نے اپنے ایک شیعہ سے جو سفر کا ارادہ رکھتا تھا فرمایا: لا تذوقن بقلۃ ولا تشمھا حتی تعلم ماھی ولاتشرب من سقاء حتی تعلم ما فیہ۔
11۔ یاد و ذکر خدا: امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: کان رسول اللہ فی سفرہ اذ ھبط سبح واذا صعد کبر۔
امام ششم سے مروی ہے کہ جب سفر میں رسول اسلامؐ ہبوط (پستی کی طرف سفر کرنا) کرتے تھے تو تسبیح کیا کرتے تھے اور جب صعود (بلندی کی طرف سفر کرنا) کہا کرتے تھے تو تکبیر کہا کرتے تھے.
12۔عام راستے پر چلنا: امام علیؑ نے فرمایا: علیکم والجادۃ وان دارت۔
13۔ مناسب مقام استراحت کا انتخاب: رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: ایاکم والتعریس علیٰ ظہر الطریق وبطون الاودیۃ۔
14۔دوستوں سے رابطہ میں رہے: امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: التواصل بین الاخوان فی الحضر التزاور وفی السفر التکاتب۔
ج: کارواں کے ساتھ سفر کے آداب:
1۔ قافلہ سالار کا انتخاب: رسولخداؐ نے فرمایا: اذا خرج ثلاثۃ فی سفرفلیؤمروا احدھم۔
2۔ اخراجات کا ذمہ دار معین کرے: رسولخداؐ نے فرمایا: اذا اجتمع القوم فی سفر فلیجمعوا نفقاتہم عند احدھم فانہ اطیب لنفوسہم واحسن لاخلاقہم۔
3۔ امور کی تقسیم: روی عن النبی انہ امر اصحابہ بذبح شاۃ فی سفر فقال رجل من القوم علی ذبحہا وقال الآخر علیٰ سلخہا وقال آخر علیٰ طبخہا فقال رسول اللہ علی ان القط لکم الحطب فقالوا یا رسول اللہ لاتتبعن بابائنا وامہاتنا انت نحن نکفیک قال عرفت انکم تکفونی ولکن اللہ عزوجل یکرہ من عبدہ اذا کان مع اصحابہ ان ینفرد من بینہم فقام صل اللہ علیہ وآلہ یلقط الحطب ۔
4۔ ایک دوسرے کی خدمت کرنا: رسولخداؐ نے فرمایا: سید القوم فی السفر خادمہم فمن سبقہم بخدمۃ لم یسبقوہ بعمل الا الشہادۃ۔
5۔ اختلاف ونزاع سے پرہیز کرے: امام جعفر صادقؑ نے ارشاد فرمایا کہ جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کیا تھا: یا بنی کن لاصحابک موافقا الا فی معصیۃ اللہ عز و جل۔
6۔ مشورہ کرنا: قال لقمان لابنہ اذا سافرت مع قوم فاکثر استشارتہم فی امرک وامورھم۔
7 ۔بزرگوں کی اطاعت کرے: جناب لقمان نے اپنے بیٹے سے وصیت کیا تھا: واسمع لم ھو اکبر منک سناً واذا امروک بامر سالوک شیئا فقل نعم ولا تقل لا۔
8۔ بہترین توشہ مہیا کرو: جناب لقمان نے اپنے بیٹے کو وصیت کرتے ہوئے فرمایا تھا: واستعمل طول الصمت وکثرۃ الصلاۃ وسخاء النفس بما معک من دابۃ او ماء اوزاد۔
9 ۔حسن خلق ومزاح: رسول اکرمؐ نے فرمایا: ست من المروۃ ثلاث منہا فی الحضر وثلاث منہا فی السفر واما التی فی السفر فبذل الزاد وحسن الخلق والمزاح فی غیر المعاصی۔
10۔ کمی وکاستی کو در گذر کردے: امام جعفر صادقؑ نے ارشاد فرمایا: لیس من المروۃ ان یحدث الرجل بما یلقی فی السفر من خیر وشر۔
د: سفر سے واپسی کے آداب:
1۔ واپسی میں جلدی کرے: رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا: السیر قطعۃ من العذاب واذا قضیٰ احدکم سفرہ فلیسرع الایاب الیٰ اھلہ۔
2۔ اہل خانہ کیلئے تحائف لائے: رسول اکرمؐ نے فرمایا: اذا خرج احدکم الیٰ سفر ثم قدم علیٰ اہلہ فلیہدہم و لیطرفہم و لو حجارۃ۔
3۔ اپنی آمد سے مطلع کرے: جابر ابن عبد اللہ انصاری کا بیان ہے: نہی رسول اللہ ان یطرق الرجل اہلہ لیلا اذا جاء من الغیبۃ حتی یؤذنہم۔
4۔ وضو و نماز پڑھے: امام جعفر صادقؑ نے ارشاد فرمایا: اذا قدم الرجل من السفر ودخل منزلہ ینبغی ان لایشتغل بشی حتیٰ یصیب علیٰ نفسہ الماء ویصلی رکعتین ویسجد ویشکر اللہ مائۃ مرۃ ۔
5۔ ولیمہ: رسولخداؐ نے ارشاد فرمایا: الولیمۃ فی اربع العرس والخرس وھو المولود یعق عنہ ویطعم لہ واعذار وھو ختان الغلام والایاب وھو الرجل یدعوا اخوانہ اذا آب من غیبتہ۔
ھ: آداب سفر زیارت:
1۔ نیت خالص ہو، تقرب الٰہی کی خاظر ہو، دیگر دنیاوی مقاصد سے اس کے تقدس کو ضائع نہ کرے، دنیا کی تمام چیزوں کا خیال دل سے نکال کر صرف اور صرف قرب خدا کا حصول اور شفاعت کو مدنظر رکھے۔
2۔ زاد راہ بحد کافی ساتھ لے جائے جیسا کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا ہے کہ انسان کا شرف یہ ہے کہ اس کا زاد راہ نیک ہو، نیز امام جعفر صادقؑ نے فرمایا: جب سفر کیلئے نکلو تو دسترخوان ساتھ ہو اور عمدہ غذائیں اس میں رکھ لو۔
3۔ اخراجات سفر مال حلال سے جمع کرے کیونکہ لقمہ حرام سے ملنے والی قوت زیارت کی شیرینی و حلاوت کو ختم کر دیتی ہے۔
4۔اعزاء، اقرباء واحباب نیز جملہ متعلقین کو باخبر کرے اور ان سے رخصت ہو امام جعفر صادقؑ نے فرمایا ہے کہ رسولخداؐ کی یہ سیرت تھی کہ جب کسی مومن کو رخصت کرتے تھے تو فرماتے تھے خدا تم پر رحمت نازل کرے اور تقویٰ تمہارا توشہ قرار دے۔
5۔ غسل کرے اور یہ دعا پڑھے: اللہم طہر قلبی واشرح لی صدری واجر علیٰ لسانی مدحتک والثناء علیک اللہم اجعلہ لی طہورا وشفاء ونورا انک علی کل شی قدیر اللہم اجعلہ لی نورا وطہورا وحرزا و کافیا من کل داء وسقم ومن کل آفۃ وعاھۃ وطہر بہ قلبی وجوارحی وعظامی ولحمی ودمی وشعری وبشری ومخی وعصبی وما اقلت الارض منی واجعلہ لی شاھدا یوم القیامۃ یوم حاجتی وفقری وفاقتی۔
6۔ انگوٹھی پہنے، اگر عقیق کی انگوٹھی ہو تو اس پر نقش ہو "ما شاء اللہ لا قوۃ الا باللہ استغفر اللہ" اور اگر فیروزہ کی ہو تو "اللہ الملک" کندہ ہو۔
7 ۔خاک قبر امام حسینؑ ساتھ رکھے۔
8۔ سورہ حمد، سورہ فلق ،سورہ ناس،آیۃ الکرسی ،سورہ قدر پڑھے۔
9۔ دورکعت نماز افراد اہل خانہ کو جمع کرکے پڑھے اور پھر اہل وعیال کو اللہ کی تحویل میں دے۔
10۔ اہل خانہ سے خدا حافظی کرے اور دروازہ پر کھڑے ہو کر تسبیح حضرت زہراؑ پڑھے اور سورہ حمد و آیۃ الکرسی کو اپنے تینوں جانب پڑھ کر دم کرے. (داہنے، بائیں اور سامنے)۔
11۔ گیارہ مرتبہ سورہ توحید پڑھ کر دم کرے۔
12۔ حفظ وامان کے لئے دعا پڑھے۔
13۔ رسولخداؐ سے منقول دعا پڑھے جو گھر چھوڑتے وقت پڑھتے تھے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْتَوْدِعُكَ نَفْسِي وَ أَهْلِي وَ مَالِي وَ ذُرِّيَّتِي وَ دُنْيَايَ وَ آخِرَتِي وَ أَمَانَتِي وَ خَاتِمَةَ عَمَلِي۔
14۔ صدقہ ادا کرے
15۔ سواری پر قدم رکھنے کے بعد آیہ شریفہ "سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَٰذَا وَ مَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ وَ إِنَّا إِلَىٰ رَبِّنَا لَمُنقَلِبُونَ" کی تلاوت کرے اور پھر تسبیحات حضرت زہراؑ پڑھے۔
آداب زیارت:
1۔ غسل زیارت۔
2۔ بیہودہ گوئی، لغویات سے پرہیز کرے۔
3۔ ائمہ معصومینؑ کی زیارت کیلئے غسل کے وقت یہ دعا پڑھے: "بسم اللہ وباللہ اللہم اجعلہ نورا وطہورا وحرزا وشفاء من کل داء وسقم وآفۃ وعاھۃ اللہم طہر بہ قلبی واشرح بہ صدری وسھل بہ امری"
4۔ حدث اکبر (جنابت، حیض وغیرہ) و حدث اصغر (پیشاب وغیرہ) سے پاک ہو.
5۔ پاک و پاکیزہ لباس زیب تن کرے اور بہتر ہے سفید رنگ ہو۔
6۔ جب روضہ اطہر کی طرف روانہ ہو تو قدم چھوٹے چھوٹے اٹھائے، متانت و اطمینان سے چلے، انداز تواضع سے بھرا ہو اور خشوع نمایاں ہو، سر جھکائے ہو۔
7۔ امام حسینؑ کے علاوہ دیگر ائمہ کی زیارت کیلئے خوشبو لگائے۔
8۔ روضہ کی طرف جاتے ہوئے "اللہ اکبر، لا الٰہ الا اللہ، الحمد للہ" کا ورد کرتا رہے کم از کم صلوات پڑھے۔
9۔ حرم کے دروازہ پر کھڑے ہو کر اذن دخول طلب کرے اس طرح کہ گویا امام دیکھ اور سن رہے ہیں ۔
10۔ حرم کے در و دیوار کا بوسہ لے۔
11۔ جب داخل حرم ہو تو پہلے داہنا پیر رکھے اور نکلتے وقت بایاں پیر باہر پہلے رکھے۔
12۔ کوشش کرے کہ ضریح اقدس سے پورا بدن مس ہو جائے۔
13۔ زیارت کے وقت قبر کی طرف رخ ہو پشت قبلہ کی طرف ہو اور جب زیارت ختم ہو جائے تو ضریح سے لپٹ کر تضرع و زاری کرے پھر بائیں حصہ کو ضریح سے مس کر کے صاحب قبر کی قسم دے کر خدا سے شفاعت طلب کرے پھر سر اقدس کے پاس جا کر رو بقبلہ کھڑا ہو اور دعا کرے۔
14۔ زیارت حالت قیام میں پڑھے اور اگر مجبور ہو تو بیٹھ کر پڑھ سکتا ہے۔
15۔ جب قبر پر نظر پڑے تو تھوڑا جھک کر احترام کرے اور کہے"لا الٰہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ"۔
16۔ ماثورہ زیارت پڑھے۔
17۔ دو رکعت نماز زیارت ادا کرے۔ بہتر ہے پہلی رکعت میں سورہ یٰس اور دوسری رکعت میں سورہ رحمٰن پڑھے یہ اس صورت میں ہے کہ جب کوئی خاص نماز زیارت ائمہ معصومینؑ سے وارد نہ ہوئی ہو۔ نماز کے بعد ادعیہ ماثورہ پڑھے اور اگر نہ ہوں تو جو دعا چاہے پڑھے۔
18۔ اگر حرم میں داخل ہوتے وقت نماز واجب کا وقت ہو گیا ہے تو نماز واجب پہلے ادا کرے پھر نماز زیارت پڑھے۔
19۔ شہید اولؒ نے آداب زیارت میں ذکر کیا ہے کہ کچھ دیر قرآن کی تلاوت کرے ضریح کے پاس۔
20۔ دنیاوی امور اور بیکار کی باتوں میں وقت نہ گذارے۔
21۔ زیارت بآواز بلند پڑھے۔
22۔ صاحب قبر سے وداع اور خدا حافظی کرے اس سلسلہ میں جو دعائیں منقول ہیں وہ پڑھے۔
23۔ توبہ واستغفار کرے۔
24۔ حرم کے منتظمین کو نقدی اعانت پیش کرے۔
25۔ زیارت سے فراغت کے بعد آداب زائر میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں سے جلد رخصت ہو جائے۔
26۔ بھیڑ کی کثرت میں کوشش کرے جلد زیارت ختم کرے اور دوسروں کیلئے مواقع فراہم کرے۔
ایک تبصرہ شائع کریں