ﺍﺳﯿﺮﺍﻥ اهلبیت (ع) کے قافله کا ﻛﻮﻓﻪ سے ﺷﺎﻡ نیز ﺷﺎﻡ سے ﻣﺪﯾﻨﻪ کے سفر کے سلسلہ میں ایک وضاحت
مترجم: ابو دانيال اعظمي برير
ہم ابتدائی طور پر اس زمانے میں موجود راستوں کی نشاندہی کریں گے پھر قرائن کو بیان کرتے ہوئے تجزیہ و تحقیق کریں گے.
ان شاء الله المستعان
اسیران کربلا کا قافلہ کوفہ منتقل ہونے کے بعد کچھ مدت کیلئے وہیں پر ٹھہرایا گیا اور پھر اموی سلطنت کی دار الحکومت دمشق کی طرف روانہ کیا، سیرت و تاریخ کی کتابوں میں اس قافلہ کے سفر کیلئے کوئی ایک راستہ مشخص و معین نہیں ہوا ہے اسی لئے ممکن ہے کہ کسی بھی راستے سے اس زمانہ میں کوفہ سے شام جانے کے امکانات و احتمالات پائے جاتے ہیں.
بعض لوگوں نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ ثبوتوں کی بنیاد پر اسیران کربلا کے سفر کے کئی راستوں میں سے کسی ایک راستہ کو یقینی طور پر معین و مشخص کیا جائے؛ لیکن قرینوں کا مجموعہ ہمیں کافی و شافی اطمینان کی منزل تک نہیں پہونچنے دیتے.
[ﻣﺮﺣﻮﻡ ﺣﺎﺝ ﺷﻴﺦ ﻋﺒّﺎﺱ ﻗﻤّﻰ اپنی کتاب ﻧَﻔَﺲُ ﺍﻟﻤﻬﻤﻮﻡ کے صفحہ ۳۸۸ پر تحریر کرتے ہیں: یہ جان لیجئے کہ اس سفر کے منازل کی ترتیب جہاں پر یہ لوگ قیام کرتے ہیں یا شب بسر کرتے ہیں یا پھر بغیر ٹھہرے یا بغیر شب بسری کے ان منزلوں سے گذرتے ہیں متعین نہیں ہیں اور معتبر کتابوں میں بھی اس سلسلہ میں کچھ بھی ذکر نہیں ہوا ہے. بلکہ اکثر کتب میں امام ع کے اہلبیت کا سفر شام کے سلسلہ میں احوال ہی درج نہیں ہوا ہے.]
ہم ابتدا میں اسی زمانہ میں نقل و حمل کے راستوں کو بیان کریں گے اور اس کے بعد قرائن کو پیش کرتے ہوئے اس پر تحقیق و تجزیہ کریں گے.
مذکورہ بحث میں وارد ہونے سے پہلے اس نکتہ کو مد نظر رکھنا لازمی ہے کوفہ اور دمشق کے درمیان فقط تین ہی اصلی راستے اس زمانہ میں ہوا کرتے تھے.
البتہ یہ بھی یاد رہے کہ ان اصلی راستوں میں بعض متعدد فروعات اور دیگر ذیلی راستے مختصر اور طویل آنے جانے کیلئے ہونا ایک طبعی و فطری امر ہے.
[دانشنامه امام حسین (ع)، جلد: ۸ کے آخر کتاب میں ﻧﻘﺸﻪ نمبر: ۵ ملاحظہ کیجئے.]
جو راستہ اسیران کربلا نے کوفہ سے شام تک کے سفر میں طے کیا ہے ہم اسے ذیل میں تحریر کر رہے ہیں.
پہلی راہ:
ﺑﺎﺩیة الشام كے راسته سے
ﻛﻮﻓﻪ جغرافیائی اعتبار سے تقریبا عرض البلد پر بتیس درجہ اور دمشق کا عرض البلد تینتیس درجہ پر واقع ہیں. اس کے یہی معنی ہیں کہ طبیعی طور پر ان دونوں شہروں کا راستہ تقریبا ایک مدار قرار پاتا ہے اور روئے زمین پر آنے جانے کیلئے دائیں اور بائیں ہونے کی ضرورت ہی نہیں ہے سوائے یہ کہ ایک ہی درجہ کی کمی واقع ہو سکتی ہے.
اسی مدار کے اوپر جو راستہ واقع ہوتا ہے اسے ہی «راہ بادیہ» کے نام سے شہرت حاصل ہے اور یہی راستہ ان دو شہروں کے درمیان مختصر ترین راہ ہے جس کی مسافت تقریبا 923 کلو میٹر قرار پاتی ہے.
[ﻛﻮﻓﻪ سے ﺷﺎﻡ تک کا ایکدم ہی سیدھا فاصلہ 867 کلو میٹر ہوتا ہے.]
اس مختصر ترین اصلی راستہ کی سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ عراق اور شام کے ایک بڑے صحرا سے گذرنا پڑتا ہے کہ جو قدیم زمانہ میں «بادیۃ الشام» کے نام سے شہرت رکھے ہوئے ہے.
یہی راستہ کچھ افراد کیلئے کار آمد ہوا کرتا تھا جو کافی امکانات خاص طور پر پانی کی ضرورت کو پوری کرنے کیلئے طویل مسافت میں منزلوں کی دوری کو طے کرنے کی خاطر اسی وسیع و عرض صحرا سے سابقہ پڑا کرتا ہے. ہر چند کبھی کبھار مسافر کی جلد بازی اسی راستہ کو اپنانے کی خاطر مجبور یا مختار کرتی رہتی ہے.
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وسیع و عریض صحرا میں کوئی ایک بھی بڑا شہر یا آبادی و بستی موجود نہیں ہے؛ لیکن اس کے یہ معنی ہرگز نہیں ہے کہ اس صحرا میں راستہ یا چند چھوٹی چھوٹی آبادی و بستی نہیں پائی جاتی ہے.
دوسری راہ:
ساحل ﻓﺮﺍﺕ كے راسته سے
عراق کے دو دریاؤں میں سے ایک دریائے فرات بھی ہے کہ جو ترکی ملک سے نکلتا ہے پھر شام ہوتے ہوئے عراق میں بہتا ہوا پہونچتا ہے اور آخر میں نہر فرات خلیج فارس سے مل جاتا ہے.
کوفہ کے لوگ شمالی عراق اور شام کی طرف سفر کرنے کیلئے اسی فرات کے کنارے کنارے چلا کرتے تھے تا کہ پانی کی فراہمی بھی اسی نہر فرات سے ہوتی رہے نیز اس کے ساحل پر آباد شہروں کی سہولیات سے بھی فائدہ اٹھاتے رہیں.
قابل تذکرہ بات یہ ہے کہ کچھ بڑے لشکر یا قافلے جنہیں پانی کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے تو ایسے قافلے بھی اسی راستہ سے سفر کرنے پر مجبور ہوا کرتے تھے.
[کتابوں میں ﺍﻣﻴﺮ المومنین (ع) کے لشکر نے بھی جنگ صفّین کی خاطر اسی راستہ کو اپناتے ہوئے سفر کیا تھا.]
ﺍبتدا میں یہی راستہ کوفہ سے بہت زیادہ مقدار میں شمال مغرب کی طرف جاتا ہے اور پھر وہاں سے جنوب کی طرف مڑتا ہے اور شام کے بہت سے شہروں سے گذرتا ہوا پھر دمشق پہونچ جاتا ہے.
اس راستہ پر بہت سے متعدد فرعی راستے بھی نکلتے ہیں اور اس طرح سے مختصر ترین راستے کے مناسب متبادل کے طور پر اس کی مسافت تقریبا 1190 کلو میٹر سے 1333 کلو میٹر تک طویل ہو جاتی ہے لیکن اس راستہ سے سفر کرنا «بادیہ» سے بھی سخت ہوتا ہے. فرات کے کنارہ اور بادیہ کے راستے کو جمع کرنے پر ہم ایک مثلث نما بن سکتا ہے کہ جس میں اس کا قاعدہ بادیہ ہی ہے.
تیسری راہ:
ساحل ﺩﺟﻠﻪ كے راسته سے
عراق کا دوسرا بڑا دریائے دجلہ ہے اور یہ بھی فرات کے جیسے ہی ترکی ملک سے نکلتا ہے لیکن شام سے ہو کر بہتا نہیں ہے اور گذشتہ دور میں شمال مشرقی عراق جانے کیلئے اسی راستہ کا استعمال کیا جاتا رہا ہے. یہی اصلی راستہ کوفہ اور دمشق کے درمیان کی نہیں ہوا کرتا تھا اور کچھ مقدار کی مسافت طے کرنے کے بعد ہی دھیرے دھیرے مغرب کی سمت مڑنا پڑ جاتا ہے. پس کچھ راستہ طے کرنے کے بعد ہی یہ آگے چل کر دریائے فرات کے ساحل سے ملحق ہوجاتا ہے اور وہی راستہ مسافر کو دمشق تک پہونچاتا ہے.
اس راستہ کو ہم ایک مستطیل کے تین ضلع تصور کر سکتے ہیں کہ جس کا دوسرا طولی ضلع کو تین ضلع میں سے راہ بادیہ کو ہی سمجھتے ہوئے مسافت کو بے کریں. کوفہ سے شمال کی سمت راستہ چلیں گے تو پھر مغرب کی طرف مڑیں گے اور راستہ چلتے چلتے جنوب کی سمت کی طرف واپس پلٹتے ہوئے طے شدہ راستہ سے قبل تشکیل پاتا ہے.
اسی بنا پر دیگر تمام راستوں میں سے یہ سب سے طویل راستہ ہے اور اس مسافت کی لمبائی تقریبا 1545 کلو میٹر بنتی ہے.
اسی راستہ کو «راه سلطاني يا سلطانی راستہ» کا نام دیا گیا ہے.
چند ﻗﺎﺑﻞ ﺗﻮﺟّﻪ نکات
ہمارے پاس موجود ثبوتوں میں کوئی بھی واضح و روشن دلیل نہیں پائی جاتی کہ کسی معتبر قدیم اور تاریخی کتابوں سے یہ ثابت کرنے کیلئے کہ اسیران کربلا کا قافلہ ان تین راستوں میں سے کسی ایک ہی راستہ سے یقینی طور پر گذرا تھا اور اہلبیت ع سے بھی کوئی ایک حدیث اس سلسلہ کی کتابوں میں ہمیں نہیں ملتی. جو کچھ ہماری دسترسی میں ہے تو وہ بعض جزئی و ناکافی علامات ہیں جو پراکندہ صورت کے طور پر بعض کتابوں میں مرقوم و مذکور ہیں.
نیز بغیر سند اور غیر معتبر قصہ گو افراد اور شرح حال بیان کرنے والے لوگوں نے غیر قابل استناد کتابوں میں تذکرہ کیا ہے اور پھر دیگر کتابوں میں تکرار پر تکرار ہوتا رہا ہے. جیسے ابو مخنف کی طرف منسوب خود ساختہ مقتل یا ملا حسین کاشفی کی روضۃ الشہدا میں بھی اسی طرح درج ہے.
؛؛[منجملہ ان کتب کے "ﻃﺮﻳﻖ ﺍﻟﻜﺮﺍﻡ ﻣﻦ ﺍﻟﻜﻮﻓﺔ ﺇﻟﻰ ﺍﻟﺸﺎﻡ" نامی کتاب ملاحظہ کیجئے.]
یہاں پر مذکورہ بالا باتوں کے ثبوت میں جزوی طور پر ہم ذیل میں تجزیہ کرتے ہیں:
۱- ﻣﻌﺠﻢ ﺍﻟﺒﻠﺪﺍﻥ؛ یہ ایک سب سے قدیم جغرافیہ پر تحریر کی گئی کتاب ہے. اسی کتاب میں ایک حصہ شام کے شہر حلب کی تعریف کے سلسلہ میں ذیل کی عبارت مرقوم ہے: اسی شہر کے مغربی سمت میں ایک جوشن نامی پہاڑ کے دامن میں محسن بن حسین ع کی قبر ہے لوگوں کا گمان ہے کہ جب اسیران کربلا کو عراق سے دمشق لے جا رہے تھے تو بچہ کی ماں کا اسقاط ہو گیا یا ایک بچہ ان قیدیوں کے ساتھ میں ہوا کرتا ہے جس وقت حلب سے گذرتے ہیں تو اسے وہیں پر دفن کر دیا جاتا ہے. [ﻣﻌﺠﻢ ﺍﻟﺒﻠﺪﺍﻥ؛ 1/ 186 و 284. ان مطالب کو کتاب ﺑﻐﻴﺔ ﺍﻟﻄﻠﺐ ﻓﻰ ﺗﺎﺭﻳﺦ ﺣﻠﺐ؛ 1/ 411 تا 414 میں بہت ہی تفصیل کے ساتھ تذکرہ ملتا ہے.]
پس یہ ﻣﻌﻠﻮﻡ ہونا چاہئے کہ یہی گزارش اگر ہم اسے صحیح مان بھی لیں تو یہ ثابت کرتا ہے کہ اسیران کربلا کا قافلہ راہ بادیہ سے گذرنے کی نفی کرتا ہے. (کیونکہ اس راستہ میں شہر حلب پڑتا ہی نہیں ہے) لیکن بقیہ دو راستوں راہ سلطانی (براہ ساحل دجلہ یا فرات) میں سے کسی ایک کی تائید بھی نہیں ہو سکتی ہے کیونکہ یہ شہر دونوں ہی راستے طولانی مسافت کے ساتھ ہی بعض مسافت مشترک بھی رکھتے ہیں نیز حلب کا منطقہ دونوں ہی راستوں پر قرار پاتا ہے.
دوسری طرف معجم البلدان کے مؤلف کا عبارت میں لفظ «ﯾﺰﻋﻤﻮﻥ» (وہ لوگ ﮔﻤﺎﻥ کرتے ہیں) کی عبارت کا استعمال کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ یہ واقعہ قابل استناد نہیں ہے. خاص کر یہ کہ محسن نامی فرزند یا امام حسین ع کی کوئی حاملہ زوجہ کا واقعہ کربلا میں تذکرہ ہی نہیں ملتا اور یہ بات ان کتابوں میں درج نہیں ہے جو کتابیں ہماری دسترسی میں ہیں. پس اگر مقامی شہرت کی بنا پر ہم اسے درست بھی تسلیم کر لیں تو یہ ایک معمولی عوامی عقیدہ سے آگے نہیں بڑھ سکے گی.
[ﺻﺮﻑ ایک واقعہ یا ماجرا کا تذکرہ کرنا یا لوگوں کے درمیان زبانزد عام ہونا بغیر کسی تاریخی حوالہ یا معتبر ذرائع کے کتابوں تحریر کر دینا اطمینان بخش نہیں ہو سکے گا. خاص طور پر یہ کہ گذشتہ زمانہ میں وقائع و حوادث کو ثبت و محفوظ کرنے میں معمول ہی نہیں ہوتا تھا اور قبور کے کتبہ یا تختی پر کچھ لکھنا بھی عموماً رائج و مرسوم نہیں ہوتا تھا لہذا خلط ملط نیز شک و شبہہ کا بہت زیادہ امکان پایا جاتا ہے کیونکہ کبھی کبھار کچھ قبروں کو کئی مقامات پر ایک ہی فرد کیلئے منسوب قرار دیتے ہیں، جیسا کہ اس کی نظیر جناب زینب کبریٰ (س) کے سلسلہ میں اتفاقاً مل رہی ہے.
اس طرح کی بحث کافی طولانی ہے اور یہاں پر ہم بطور نمونہ چند مثالوں کا فقط تذکرہ کر رہے ہیں.
ﺷﻴﺦ ﻃﻮﺳﻰ اپنی ﻛﺘﺎﺏ ﺍﻟﻐﻴﺒﺔ کے صفحہ نمبر ۳۵۸ پر درج ذیل کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں:
«ﺍﺑﻮ ﻧﺼﺮ ﻫﺒﺔ ﺍﻟﻠّﻪ ﺑﻦ ﻣﺤﻤّﺪ نے کہا ہے: ﻗﺒﺮ ﻋﺜﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺳﻌﻴﺪ کی قبر بغداد شہر کے مغرب کی سمت میں، میدان روڈ پر ابتدا میں ہی پائی جاتی ہے جو دروازہ جبلہ کے نام سے مشہور ہے.
داہنی طرف مسجد کے اندر دروازہ و قبر اور قبلہ کی سمت مسجد موجود ہے. خدا اس پر اپنی رحمت نازل کرے.!
ﻣﺤﻤّﺪ ﺑﻦ ﺣﺴﻦ [شیخ ﻃﻮﺳﻰ] صاحب ﻛﺘﺎﺏ کہتے ہیں: جس قبر کا تذکرہ ابو نصر نے کیا تھا میں ان کی قبر کو دیکھا ہے اور اس کے سامنے ایک دیوار تعمیر شدہ موجود تھی اور اسی میں مسجد کی محراب بھی پائی جاتی ہے نیز اسی کی ایک جانب ایک دروازہ پایا جاتا ہے کہ جو اسی چھوٹے سے تاریک کمرے میں کھلتا ہے اور اسی کے ذریعہ آنا جانا بھی ہوتا ہے. ہم اس میں وارد ہوئے اور وہاں پر ظاہر میں ہم نے زیارت بھی کی تھی.
میرا بغداد جانے کے وقت تقریبا سنہ ۴۳۰ ھ سے آج سنہ ۴۸۰ تک اسی طرح ہی میں پایا، یہاں تک کہ رئیس ابو منصور محمد بن فرج نے اس دیوار کو منہدم کیا اور قبر کو کھلے آسمان تلے کر کے اسی پر ایک ضریح تعمیر کیا اور چھٹ بھی لگا دی اور جو چاہتا وہ وارد ہو سکتا ہے اور ان کی زیارت کرے. اسی محلہ کے پڑوسی حضرات عثمان کے قبر کی زیارت کرتے اور متبرک شمار کرتے تھے نیز یی کہتے تھے کہ یہ ایک مرد صالح گذرا ہے اور کبھی کہتے تھے کہ یہ امام حسین ع کی دایہ کا بیٹا ہوتا ہے(!) لیکن واقعی حالات سے مطلع نہیں ہیں. یہی قبر آج تلک یعنی سنہ ۴۴۷ ہجری میں بھی اسی طرح سے ہی رہی ہے.
ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک گروہ عثمان بن سعید کہ جو امام زمانہ کے خاص نواب اربعہ میں سے ایک ہیں کہ ان کی مشخص شدہ قبر کے بارے یہ بحث کر رہا ہے کہ امام حسین ع کی دایہ کے فرزند کے طور پر تعارف کر رہا ہے جبکہ امام زمانہ کے نائب کو گذرے ہوئے ابھی بہت طولانی زمانہ بھی نہیں گذرا ہے.]
۲- ممکن ہے کہ بعض مورخین سر امام حسین ع کے سر کو لے جانے اور اسیران کربلا کو بھی لے جانے کا راستہ سے استناد کرے جیسا نظنزی کے نقل کے مطابق ابن شہر آشوب نے صومعہ (خانقاہ) کے راہب کا سر امام حسین ع کے ساتھ سلوک کرنا قِنَّسرین کی منزل پر جو شام کے شمالی حصہ میں واقع ہونے کو تحریر کیا ہے. [ﺍﻟﻤﻨﺎﻗﺐ، ﺍﺑﻦ ﺷﻬﺮ ﺁﺷﻮﺏ: 4/ 60] اسی کو بطور سند پیش کرتے ہوئے ہم اسیران کربلا کے راستہ کو «راہ سلطانی» سے گذرنا ثابت کر سکتے ہیں.
تو اس کے جواب میں یہ کہیں گے کہ اگر ہم اس دلیل کو تسلیم بھی کر لیں تو اسیران کربلا نیز سر اقدس امام کا ایک ہی راستہ سے ہو کر کوفہ سے شام تک لے جانا مسلم نہیں ہے. [تفصیل کیلئے رجوع کیجئے: دانشنامه امام حسین (ع) ﺹ: ۲۲۵ (ﻧﻜﺘﻪ).]
یہ بھی ﺍﺣﺘﻤﺎﻝ پایا جاتا ہے کہ سر امام کو شہروں میں گھمایا ہوگا لیکن اسیران کربلا کو ایک مختصر ترین راستہ سے دمشق لے ہوگئے ہوں گے. یہاں تک کہ بعض روایات میں ذکر ملتا ہے کہ امام کے سر مطہر کو اہل حرم کے دمشق میں وارد ہونے کے بعد بھی شام کے شہروں میں بھی گھمایا جاتا ہے.
چنانچہ شرح الاخبار میں اس طرح سے مرقوم ہے:
جس وقت یزیلد ملعون نے حکم دیا کہ سر امام (ع) کو شام کے شہروں میں گھمایا جائے نیز دیگر شہروں میں بھی گھمایا جائے. [ﺷﺮﺡ ﺍﻷﺧﺒﺎﺭ: 3/ 159]
ﺍس ﻧﻘﻞ کے مطابق یہ امکان پایا جاتا ہے کہ امام کے سر مطہر کو شام پہونچنے کے بعد دیگر مناطق میں بھی گھمایا گیا ہے جیسے موصل و نصیبین بھی جو راہ سلطانی کے درمیان پڑتے ہیں یہاں تک پر سر مقدس پہونچا ہے.
اسی بنا پر یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اس طرح کے حادثات و واقعات رونما ہوئے جو سیران کربلا کے شام پہونچنے کے بعد اس زمانہ میں گھمایا یا پھر ان کے شام کی طرف سفر کرنے کے دوران ظاہر ہوئے ہیں.
یہی احتمال «راس الحسین (ع)» نامی مقامات کے سلسلہ میں بھی پایا جاتا ہے.
ابن شہر آشوب نے مناقب امام ع کے تذکرہ میں بیان کیا ہے: یہ تو (امام حسین ع) کی کرامات ہی تو ہیں جو کسی ایک (رأس الحسین ع) نامی مقام کیلئے بیان کی جاتی ہیں اور کربلا سے عسقلان تک اور ان دو شہروں کے درمیان پائی جاتی ہیں (ﻣﻮﺻﻞ، ﻧَﺼﯿﺒﯿﻦ، ﺣَﻤﺎۃ، ﺣِﻤْﺺ، ﺩﻣﺸﻖ وغیرہم) شہروں میں راس الحسین ع نامی مقامات پائے جاتے ہیں نیز دیکھے بھی جاتے ہیں.
[ﺍﻟﻤﻨﺎﻗﺐ، ﺍﺑﻦ ﺷﻬﺮﺁﺷﻮﺏ؛ 4/ 82]
«ﺭﺃﺱ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ ع» نامی مقامات مذکورہ مناطق میں موجود ہونے کی طرف اشارہ ہے اور یہاں تک کہ ان مناطق کے باہر بھی پایا جانا نیز ان کا تاریخی اعتبار سے تحقیق و تجزیہ کرنا بھی پڑا رہا ہے.
[اس سلسلہ میں مندرجہ ذیل کتابیں ملاحظہ کیجئے: "ﻧﮕﺎﻫﻰ ﻧﻮ ﺑﻪ ﺟﺮﻳﺎﻥ ﻋﺎﺷﻮﺭﺍ": ﺹ ۳۵۵ اور فارسی ﻣﻘﺎﻟﻪ «ﺭﺃﺱ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ (ع) ﻭ ﻣﻘﺎمهاﻯ ﺁﻥ»، از ﻗﻠﻢ: ﻣﺼﻄﻔﻰ ﺻﺎﺩﻗﻰ.]
اس کے علاوہ ان مناطق کے سلسلہ میں ابن شہر آشوب نے صراحت کے ساتھ ذکر ہی نہیں کیا ہے کہ اسیران کربلا یا سر اطہر امام ان مقامات سے یقینی طور پر گذارا گیا ہے. یہ بھی احتمال پایا جاتا ہے چونکہ سالیان دراز تک شیعہ حکومتوں کے علاقوں میں محبان اہلبیت ع رہتے رہے ہیں جیسے شمالی شام میں آل حمدان، مصر میں سلطنت فاطمی، شمالی افریقہ میں مملکت ادراسہ، سواحل لبنان و شام میں حکومت بنی عمار، عربی حکومت خاندان مرادسی، عراق میں دولت مزیدیہ، یمن میں زیدیہ، و دیگر عرب کی شیعہ سلطنتیں شامل رہی ہیں. لہذا کسی بھی دلیل یا جذبہ کے ما تحت (چاہے واقعاً یا بطور یادگار یا مکاشفہ و خواب کی بنا) پر ہی مقامات راس الحسین (ع) بنایا گیا ہو گا چنانچہ مصر کی دار الحکومت شہر قاہرہ میں بھی ایک راس الحسین (ع) بھی موجود ہے جو فاطمی سلطنت کے زمانہ میں تعمیر ہوا ہے.
مستزاد یہ کہ "راہب و سر" کا واقعہ دوسرے مقامات کیلئے ذکر کیا جاتا رہا ہے کہ یہ واقعہ تکرار ہونے دلیل سے بعید ہونے کی بنا پر ابن شہر آشوب کی تو اس گزارش میں تمسخرانہ تعارض پایا جاتا ہے. [دانشنامه امام حسین (ع): ﺹ ۹۱ ﺡ ۲۲۵۴.]
کیونکہ یہ واقعہ ان مقامات میں سے کسی ایک ہھی مقام پر جو راستے کی ابتدا میں دیر پایا جاتا اسی کے متعلق مذکور تو ہے. [دانشنامه امام حسین (ع): ﺹ ۹۷، ﺡ ۲۲۵۸.]
اور ﻗِﻨَّﺴﺮﯾﻦ کا مقام جو راستے کے ایکدم ہی آخیر میں واقع ہے لہذا اسی مقام پر رونما ہونا یکسانیت کا حامل نہیں ہے.
قابل ذکر بات یہ ہے کہ اگر ابن شہر آشوب کی گزارش کو صحیح تسلیم بھی کر لیں تو اسیران اہلبیت کے قافلہ کا "راہ سلطانی" سے گذرنا کا اثبات نہیں ہو پائے گا؛ کیونکہ "راہ سلطانی" کا ایک حصہ "راہ فرات" کے ساتھ مشترک بھی ہے اﻭر ﻗِﻨَّﺴﺮﯾﻦ کا منطقہ فرات کے کنارے کے راستہ میں بھی قرار پاتا ہے.
البتہ اسی گزارش کے درست ہونے کی صورت میں "راہ بادیہ" سے عبور کرنے کی نفی بھی قرار پاتی ہے.
۳- جو کچھ اخیر کے زمانہ میں رواج پایا ہے اور ہمارے خیال کے بر خلاف اسیران کربلا کے قافلہ کا "راہ سلطانی" سے گزرنے کا احتمال کم از کم پایا جاتا ہے. کیونکہ دورترین راستہ ہے اور اسی بنا پر کوئی اور بھی راستہ نہیں ہے کہ ایک چھوٹے کاروان کو اسیر کر کے لے جاتے ہیں، نہ کہ سیاحت و تفریح کیلئے انتخاب کرتے ہیں. مزید یہ کہ اس راستے کے طے کرنے کے سلسلہ میں بھی کوئی معتبر ثبوت بھی موجود نہیں ہے اور یہ مستند قول بھی مقتل ابو مخنف کی طرف منسوب قرار دیا جاتا یے. [ﻣﻘﺘﻞ ﺍﻟﺤﺴﻴﻦ (ع) ﺍﻟﻤﻨﺴﻮﺏ ﺇﻟﻰ ﺃﺑﻰ ﻣﺨﻨﻒ؛ ﺹ: ۱۸۰.]
دوسری طرف طویل راستے یعنی راہ سلطانی سے عبور کرنے کو قبول بھی کر لیا جائے تب «ﺍﺭﺑﻌﯿﻦ» کے واقعہ کے ساتھ اور یہ کی اسران اہلبیت شام سے پلٹ کر واقعہ عاشورا کے پہلے چہلم کے موقع پر کربلا میں امام حسین (ع) کی قبر مبارک پر حاضر ہونے سے یکسانیت نہیں پائی جاتی ہے. [خصوصیت یہ ہے کہ اس مقتل نے زمانہ اور تفصیل کے ساتھ واقعہ کو کاروان اسیران کی روانگی کے ضمن میں ذکر بھی کیا ہے.]
ﻣﻤﻜﻦ ہے کہ یہی کہا جائے گا کہ حکمران کی طاقت و قوت کی نمائش کے اظہار و منشا کی خاطر اسیران کربلا کو شہروں میں پھیرایا گیا اسی لئے انہیں "راہ سلطانی" سے لے گئے ہیں؛ لیکن یہ دلیل تو اسیران کربلا کو فرات کے کنارے کے راستے سے لے جانے کے موافق بھی معلوم ہوتی ہے؛ کیونکہ اس راستے پر بھی وہ اہمترین شہروں کے علاقے پائے جاتے ہیں. مزید یہ کہ شہدائے کربلا کے سروں کو گھمانے کے ساتھ اپنی طاقت و قوت کی نمائش انجام دینا بھی مقصد رہتا ہے جبکہ ایک مختصر سے گروہ کو (وہ بھی ایک چھوٹے سے خاندان کو جو چند خواتین اور بچوں پو مشتمل ہوتا ہے) پھیرائے جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے؛ لہذا یہ عمل انجام دینا حکومت کی کمزوری کی نشانی نہیں ہوگی تب تو قدرت و طاقت کی بھی علامت شمار نہیں ہو گا. خاص طور پر یہ کہ حکمران انتظامیہ حضرت امام زین العابدین (ع) اور جناب زینب کبری (س) اور دیگر اسیران کربلا کی شجاعت و خطابت کو کوفہ میں مشاہدہ کر چکے ہیں. اسی لئے سیاست کا تقاضا یہی تھا کہ اسیران کربلا کو غیر معمول و معروف راستوں سے شام کی طرف لے جایا جائے اور شہروں میں نہ گھمایا جائے.
۴- جو کچھ ہم نے تحریر کیا ہے اسی کی بنیاد پر ہم صرف ایک یہی نکتہ بیان کر سکتے ہیں کہ اسیران کربلا کے قافلہ کو "راہ سلطانی" یا ساحل فرات کے راستے ہوتے ہوئے "راہ بادیہ" پر جانے کق ترجیح دی گئی. تا کہ فرات کے پانی تک ان کی دسترسی برقرار رہے گی، یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ قافلہ کا مختصر ہونا اور اونٹوں پر پانی کا بوجھ لادنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی ہے.
یہ نکتہ اس بات کی تائید کرتا ہے کہ سفر کی جزئیات کا تذکرہ اور اس سلسلہ میں گزارشات کا نہ پایا جانا کہ قافلہ اسیران شہروں میں پہونچنے یا پھر کم از کم ایک یا دو اہمترین شہروں کا سر راہ پایا جانا بھی ذکر نہیں ملتا ہے تو یہ خود ہی اس دلیل کو ثابت کرتا ہے کہ اسیران اہل حرم کو بیابان یا متروک راستوں سے عبور کرتے ہوئے کوفہ سے شام لے جایا گیا ہے.
۵- بعض شواہد اس بات پر دلیل ہو سکتے ہیں کہ دیگر دو راستوں پر "راہ بادیه" کے ترجیح دینے کا موجب درج ذیل نکات کی خاطر ہیں.
۱- فرات کے ساحل کا راستہ اور راہ سلطانی دونوں ہی قافلہ کی راہوں میں اہمترین شہروں کا وجود پایا جاتا ہے اور اگر اسی راستے کو ہی اسیران کربلا کے قافلہ کی خاطر منتخب کیا گیا تھا تو ضروری تھا کہ منقولہ روایات یا تاریخ میں جب شہر کے لوگوں کو پتہ چلے کہ کوئی قافلہ یا کاروان یا شہروں کے قرب و جوار میں مشاہدہ کیا جا چکا ہے تو معتبر منابع و مصادر میں بھی تذکرہ کیا جاتا چنانچہ کربلا یا کوفہ یا شام میں ایسی کوئی گزارشات کا پایا جانا در آنحالیکہ اس سلسلہ میں کچھ بھی منقول نہیں ہوا ہے.
اسی بنا پر ایسا نطر آتا ہے کہ اسیران کربلا کے عبور کرنے کا راستہ ایسے منطقہ سے رہا ہوگا کہ جہاں پر عام لوگوں کی بھیڑ بھاڑ کم سے کم رہتی ہو تو یہ صرف "راہ بادیہ" ہے.
۲- شہادت امام حسین ع کے وقت سے اموی حکومت کی مخالفت میں جو اعتراضات وارد ہو رہے تھے یہاں تک کہ بعض حامیان حکومت، قاتلین و ظالمین کے خاندانوں کی طرف سے ہی اٹھ رہے تھے نیز واقعہ عاشورا کا رد عمل کی تحریک کوفہ میں ہی پنپ چکی تھی لہذا با قاعدہ طور حکومت کو ان اسیران کربلا اور سر امام کو ابادی سے بھرے شہروں اور قریوں کے راستوں عبور کرنے سے پرہیز کرتے ہوئے گزر رہے تھے.
جیسا کہ کامل بہائی کی عبارت سے اس مسئلہ کی تائید بھی ہو رہی ہے:
ملاعین سر امام حسین ع کو کوفہ سے لے کر باہر آئے تو خوفزدہ تھے کہ کہیں عرب کے قبائل میں شور و غل مچ جائے گا اور انہیں اس عمل سے باز رکھیں گے. پس اسی خاطر ایسے راستہ سے عراق سے نکلنے انتخاب کیا جو عموما استعمال میں نہیں ہوتا تھا یا پھر متروک تھا. [ﻛﺎﻣﻞ شیخ بهائی؛ 2/ 291]
۳- کسی بھی حکومتی امور کو انجام دینے میں سرعت کار ایک اہمترین اصول قرار دیا جاتا ہے لہذا اس اصول کی رعایت کا لازمہ یہی ہے کہ ایسے راستے سے گذر ہو جو مختصر ترین اور تیزگام بھی ہوتا ہے.
آخری ﻧﺘﯿﺠﻪ
تمام دلائل کی عدم دستیابی سے یہی روشن ہوتا ہے کہ قطعی اور یقینی طور پر ہم اس بات کا اظہار نظر نہیں کر سکتے لیک اسیران کربلا کے کاروان کا "بادیہ" کے راستہ سے گزرنے کا ایک نکتہ یہ ہے کہ زیادہ احتمال خصوصیت سے پایا جاتا ہے. لہذا اسیران کربلا کی گزرگاہ شام سے مدینہ کی طرف دانشنامہ ﺍﻣﺎﻡ ﺣﺴﯿﻦ (ع) کے نقشہ کی بنیاد پر ہی ہے.
[دانشنامه امام حسین (ع)، 8/ 226 تا 235؛ ﺭجوع کیجئے: ﻧﻘﺸﻪ ﺷﻤﺎﺭﻩ: ۵ اسی جلد کے آخر میں درج ہے.]
دمشق سے مدينه کے درمیان کا فاصلہ تقریباً 1229 ﻛﯿﻠﻮﻣﺘﺮ ہوتا ہے اور دمشق اور مدینہ کی 32 منزلوں کو شامل کرتے ہوئے حساب کر رہے ہیں.
اسیران اہلبیت (ع) شام سے واپسی میں قطعی طور پر اسی راستہ کو ہی طے کیا ہے چنانچہ کربلا کی طرف روانگی کے ضمن میں بھی اسی راستہ کو اپنائے ہیں
امام (ع) کے اصحاب اور خاندان کی رنج و غم سے بھری ہوئی روانگی مدینہ سے شروع ہو کر مدینہ پر ہی ختم بھی ہوتی ہے. (یعنی مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کربلا پھر کربلا سے کوفہ کے راستے دمشق نیز دمشق سے کربلا پھر کربلا سے مدینہ)
جس رستہ کو بھی کم از کم ان مخدرات عصمت و طهارت نے طے کیا ہے. (بالفرض سب سے مختصر مسافت کوفہ سے دمشق تک جانا یعنی براہ بادیہ اور کربلا کی طرف واپسی کو شامل نہیں کرنے کی صورت میں) تقریباً 4100 ﻛﻠﻮﻣﺘﺮ کا فاصلہ بنتا ہے.
تو مذکوره مسافت کے حساب سے اس طرح مکمل سفر کا دورانیہ قرار پاتا ہے:
431 ﻛﻠﻮ میٹر
(ﻣﺪﯾﻨﻪ سے ﻣﻜّﻪ تک کا سفر)
+
1447 ﻛﻠﻮ میٹر
(ﻣﻜّﻪ سے ﻛﺮﺑﻼ تک کا سفر)
+
70 ﻛﻠﻮ میٹر
(ﻛﺮﺑﻼ سے ﻛﻮﻓﻪ تک کا سفر)
+
923 ﻛﻠﻮ میٹر
(ﻛﻮﻓﻪ سے ﺩﻣﺸﻖ تک کا سفر برﺍﻩ ﺑﺎﺩية)
+
1229 ﻛﻠﻮ میٹر
(ﺩﻣﺸﻖ سے ﻣﺪﯾﻨﻪ تک کا سفر براه كربلا)
=
4100 ﻛﻠﻮ میٹر
قافلہ حسینی نے مجموعی طور پر مسافت طے کی ہے
(مدينه سے مدينه تک کا سفر براه كربلا، كوفه و دمشق)
مزید تفصیلی معلومات کیلئے مندرجہ ذیل کتاب کا مطالعہ کیجئے:
کتاب كا نام:
"دانشنامه امام حسين"
(ع)
بر پايه قرآن، حديث و تاریخ
8/ 226 تا 235
نویسنده:
محمدی ری شهری
تمّت بالخير به نستعين و هو خير الناصر المعين
$}{@J@r
ایک تبصرہ شائع کریں