کرونا وائرس سے متعلق مذہبی شکوک و شبہات کا ازالہ

Image by Alexey Hulsov from Pixabay  



(﷽)


کرونا وائرس سے متعلق مذہبی شکوک و شبہات کا ازالہ


تلخیص: منهال رضا خیرآبادی

جامعه حیدریه مدینة العلوم، خیرآباد ضلع: مئو (یو.پی)


    (موجودہ حالات کے تناظر میں مساجد ومزارات مقدسہ میں داخلہ پر لگی پابندیوں سے ذہن و دماغ میں پیدا ہونے والے شکوک و شبہات کا مسکت و مدلل ازالہ مکالمہ کی صورت میں پیش کیا گیا ہے. آستانہ قدس رضوی نے اس مکالمہ کو چند روز قبل طبع کیا ہے افادیت کے پیش نظر اردو زبان افراد کيلئے حاضر خدمت ہے۔ منھال رضا)

    موسم بہار کی سفید چادر سمٹ رہی تھی، رخصت ہونے کيلئے رخت سفر باندھ رہا تھا، شہر کی فضا موسم بہار کی آمد کی اطلاع دے رہی تھی، میں لمحوں کو شمار کرنے میں مصروف، دن گننے میں منہمک کہ نئے سال میں اس سال پھر بارگاہ ملکوتی امام رضاؑ میں حاضر ہو کر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ تحویل سال کا جشن منائیں گے، سالہائے گذشتہ کی مانند موسم بہار کی آمد کے لمحات قریب سے قریب تر ہو رہے تھے، ہم نئے سال کے پر جوش استقبال کيلئے آمادہ ہو رہے ہیں، ہم اپنے دستور کے مطابق چاہتے تھے کہ یہ گھڑی اس مقدس و مبارک بارگاہ میں معبود سے راز و نیاز میں گزاروں۔

    بہن اور بھائی ڈرائنگ روم میں بیٹھے گذشتہ سالوں کے واقعات و یاد داشت کو بڑے ہی پر جوش انداز میں بیان کررہے تھے، حرم میں بجنے والے نقارہ کی دل آویز آواز اور اسکے پر کیف مناظر کو دہرا رہے تھے کہ یکایک بھائی بہن سے مخاطب ہوا اور اک آہ سرد بھر کر کہتا ہے اس سال تحویل سال کے مراسم گھر ہی میں انجام دیئے جائیں گے یہ کہتے ہوئے آواز گرفتہ ہو گئی۔

    بہن: (گھبراہٹ و اضطراب میں) کیوں بھائی؟ اس سال ہم اس سعادت سے محروم کیوں رہیں گے؟

    بھائی: کیونکہ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی غرض سے حرم بند ہے، نماز جمعہ بھی برپا (قائم) نہیں ہو رہی ہے، حرم کے مصلے اور سجدہ گاہیں ہٹا دی گئیں ہیں یہ کہتے ہوئے بھائی کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں۔

    بہن: (یہ جواب سن کر حیرت و استعجاب میں غرق ہوگئی، دانتوں تلے انگلیاں دبا کر نہایت ہی کربناک لہجے میں گویا ہوئی) امام علی رضاؑ اس وائرس کو ختم نہیں کر سکتے؟ ہم اپنے بیماروں کو شفا کیلئے حرم ہی تو لے کر جاتے ہیں، حرم امام شفا خانہ نہیں ہے؟ و.........۔

    اپنی جگہ سے اٹھ کر بہن گھر میں موجود دینی کتب کی ورق گردانی کرنے لگی، صفحات کے حروف و کلمات نے افکار و خیالات کے دریا میں تلاطم پیدا کر دیا، متضاد افکار و خیالات صفحہ ذہن پر ظاہر ہوتے اور میری حیرت و اضطراب میں اضافہ کر دیتے اسی اثناء میں نظر والد بزرگوار کے اوپر جا کر ٹھہر گئی تیز قدموں سے چل کر ان کے پاس پہونچی اور تمام سوالات و شبہات بغیر توقف کے تیزی سے بیان کرنا شروع کر دیا۔

    باپ: عجلت سے کام نہ لو بیٹی میں ابھی تمہارے تمام شکوک و سوالات کا مدلل و مسکت جواب دوں گا۔

    "باپ چونکہ علم دوست اور ذوق مطالعہ رکھتے تھے اور ہمیشہ منطقی و علمی جوابات سے مجھے قانع کر دیتے تھے اسلئے ان سوالات سے میری ہیجانی کیفیت میں قدرے اضافہ ہوتا جا رہا تھا، ذہن میں صرف یہ بات گردش کر رہی تھی کہ اب تک ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ حرم امام رضاؑ کو بند کر دیا جائے اور زائرین کا داخلہ ممنوع کر دیا گیا ہو."

    باپ اپنی نشستگاہ پر نہایت ہی اطمینان سے تشریف فرما ہوئے اور کہا بیٹی دنیا کا نظام، نظام اسباب و مسببات ہے، اللہ دنیا میں امور کو اسباب کے ذریعہ انجام دیتا ہے اور بغیر سبب کے امور کا انجام پذیر ہونا ممتنع ہے، ہر چیز کیلئے اسباب ہیں، زمین میں جاذبہ کی صلاحیت رکھی ہے، پانی کو تشنگی کے ختم کرنے کا ذریعہ قرار دیا ہے، آگ کو جلانے کی خاصیت عطا کیا ہے ان تمام اسباب کا مسبب الاسباب خدا ہے اسی کے فیض سے ان اشیاء میں یہ صلاحیت و خاصیت پائی جاتی ہے، وہ جب چاہے ان خاصیتوں کو سلب کر سکتا ہے اور چھین سکتا ہے، الہی ہاتھ مسدود نہیں ہیں جیسا کہ یہودی نظریہ ہے کہ دست خدا مسدود ہے۔ خدائے متعال جناب ابراہیم (ع) کو نار نمرودی سے بچا لیتا ہے اور آگ کی حرارت برودت میں تبدیل ہو جاتی ہے، پانی ہمیشہ نشیب کی طرف بہتا ہے مگر جناب موسیٰ (ع) کے عصا کی برکت سے مثل دیوار بن جاتا ہے اور پانی کی خاصیت جو بہاؤ ہے اس سے مفقود ہو جاتی ہے۔ یہ خاصیتیں اور اسباب مومن و کافر نہیں دیکھتے ہیں، جسم اقدس حضرت امام حسینؑ پر تلوار اثر انداز ہو جاتی ہے، زہر امام حسنؑ مجتبیٰ، امام علی رضاؑ اور امام حسن عسکریؑ پر اثر کر جاتا ہے، ائمہ معصومینؑ اگر چاہتے تو زہر کا اثر زائل کر دیتے لیکن ایسا نہ کیا، خدائے متعال نے تاکید فرمایا ہے کہ اسباب کو مد نظر رکھا جائے اور یہ بات ذہن نشین رہے کہ ان اسباب کی مہار دست الہی میں ہے یعنی صرف اسباب کے ظواہر پر نظریں مرکوز نہ رہیں بلکہ اسباب کے پس منظر و پشت پردہ اس ملکوت پر نظریں مرکوز رہیں جس کو خدا کہتے ہیں۔

    بیٹی: (افسردگی عالم میں کربناک لہجہ میں گویا ہوئی) بابا! پھر یہ حرم بند کیوں کر دیا گیا؟ بہت سے لوگ یہیں شفا حاصل کرنے کی غرض سے آتے تھے، زائرین کے حرم میں داخلہ پر پابندی حرم کی توہین نہیں ہے؟

    باپ: اے لخت جگر! یہ تحقیر و توہین نہیں ہے، یہ دنیا کا دستور اور نظام ہے، امام علی رضاؑ کو یہ بات پسند نہیں ہے کہ تمہاری فکروں میں کجی پیدا ہو کیونکہ تمہاری فکر کے نتیجہ میں نظام عالم مختل ہو سکتا ہے اور اگر قانون ودستور کائنات کو توڑ دیا جائے گا تو پھر زہر جسم اطہر امام رضاؑ پر بے اثر ہو جائے گا اور شہید نہیں ہوں گے اگر زہر جسم اقدس امام رضا ؑپر اثر انداز ہو سکتا ہے تو وائرس زائرین کے جسم کو متاثر نہیں کر سکتا ہے جیسے حرم میں داخل ہونے سے پہلے جسم کی طہارت ضروری ہے اسی طرح اس وائرس سے پاک  صاف ہونا بھی ضروری ہے۔ اسلام دین عقل ہے بے عقلوں کا مذہب نہیں ہے لیکن اسلام کا یہ بھی حکم ہے کہ صرف مادیات پر نگاہیں مرکوز نہ رکھو، سلامتی اور حفظان صحت کی رعایت کریں، "﷽ اللہ" ورد زبان رہے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے راز و نیاز کرے اور عرض کرے بار الٰہا! بلائیں دور فرما دے کیونکہ اگر اعلیٰ قسم کا ماسک اور عمدہ قسم کا سینیٹائزرس تمہارے اختیار میں ہو تب بھی محفوظ خیال نہ کرنا اسی وجہ سے ہم حرم مطہر امام رضاؑ کے منتظمین کے شکر گذار ہیں کہ انھوں نے اس مقدس بارگاہ کو کرونا جیسے موذی وائرس سے آلودہ ہونے کے پیش نظر یہ قدم اٹھایا۔

    باپ کی باتیں سن کر بیٹی کے چہرے پر آثار اطمینان ہویدا ہونے لگے اور بے ساختہ زبان سے نکلا "الحمد للہ" کیا بہترین اقدام ہے ورنہ پوری دنیا سے آئے ہوئے زائرین اس خطرناک وائرس میں مبتلا ہو کر نہایت تلخ یادوں کے ساتھ مشہد مقدس سے واپس لوٹتے اور عالم انسانیت کیلئے خطرہ بن جاتے۔

    دو پہر کے دو بج رہے تھے والد محترم صوفہ پر نیم دراز دوپہر کی خبریں سن رہے تھے نامہ نگار بازاروں، شاپنگ مال، تجارتی مراکز کے حالات پر رپورٹنگ کرتے ہوئے افسوس جتاتے ہوئے لوگوں سے دست بستہ گذارش کر رہا تھا کہ گھروں میں رہیں شدید ضرورت کی صورت میں تمامتر احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہی گھر سے نکلیں۔

    بیٹی: (خبر سنتے ہوئے) بابا! بازاروں، شاپنگ مال اور تجارتی مراکز کو بھی حرم کی طرح کیوں بند نہیں کر دیا گیا؟ بازار کو یہ وائرس آلودہ نہیں کرتا ہے صرف مقدس مقامات پر ہی اجتماع سے وائرس پھیلنے کا خوف ہے؟

    یہ سن کر بھائی نے مداخلت کرتے ہوئے  کہا بہن کتنے سوالات کر رہی ہو؟ ٹھہرو ملک میں اس وائرس میں مبتلا افراد اور اموات کے اعداد و شمار دیکھ لیں پھر تمہارے سوالات کو جواب بابا دیں گے۔

    خبروں میں بتایا جا رہا تھا کہ کل سے آج تک تقریبا سات سو سے زائد نئے افراد اس وائرس سے متاثر ہو چکے ہیں وہ بار بار لوگوں سے عاجزانہ گزارش کر رہا تھا کہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے گھروں سے میں رہیں باہر نہ نکلیں۔ مگر ذہن میں بار بار یہ سوال سر اٹھا ئے کھڑا تھا کہ تجارتی مراکز بند کیوں نہیں کئے گئے؟ اچانک بابا میری طرف متوجہ ہو کر گویا ہوئے میری بیٹی چند نکات ذہن نشین کر لو:

  1. بہت سی رفت و آمد غیر ضروری ہے جس سے پرہیز کرنا چاہئے اور اس کو کینسل کر دینا چاہئے۔

  2. ضروری اور غیر ضروری رفت و آمد کے درمیان کا فرق پہچاننا چاہئے بہت سے افراد اپنے اس دن کی مصروفیت کے باعث گھر سے نکلنے پر مجبور ہوتے ہیں۔

  3. اجتماعی پروگرام، محافل و مجالس برپا نہ کرنے کی تاکید اسلئے کی جاتی ہے تا کہ وائرس کے دوسروں تک منتقل ہونے کی رفتار سست پڑ جائے اسی لئے مدارس اور یونیورسٹی نیز کالجوں میں تعلیمی سلسلہ روک دیا گیا ہے اور چونکہ تمام افراد کو خانہ نشیں کرنے کا قدام عملی طور پر امکان پذیر نہیں ہے اسلئے ماہرین اور کرونا کی جنگ لڑ رہے ذمہ داروں نے اجتماعی پروگرام سے گریز کرنے کی تلقین برابر کیا ہے اور کر رہے ہیں۔

  4. شرعی و اخلاقی ذمہ داریوں کے تئیں ہم فکرمند ہیں اور یہ فکرمندی اس وقت نہیں ہوتی ہے جب انسانوں کی جان پر بَن آئے۔

  5. ہم دیندار افراد کو دوسروں کے لئے نمونہ عمل و آئیڈیل ہونا چاہئے نہ کہ دوسروں کے غیر مناسب امور میں معاون۔

  6. ہمارا طریقہ کار دین، متدین افراد، مساجد و انجمن کیلئے ہو مقدسات و دینی شعائر پر ہجوم کا ذریعہ نہ قرار پائے اسی لئے مذہبی اجتماعی پروگرام کو موجودہ حالات کے پیش نظر خود دیندار افراد کے ذریعہ ملتوی کر دیا جانا چاہئے اور مذہبی مراسم کو گھر کی چہار دیواری میں انجام دینا چاہئے تا کہ معاشرہ کے اراکین و ممبران کی جسمانی سلامتی اور معاشرہ کے دینی عقائد کیلئے مددگار ثابت ہوں۔

    (والد صاحب کی بات سن کر کسی حد تک قانع ہو چکی تھی لیکن اب بھی شکوک و شبہات کا سیلاب تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا، سوالات کا ایک بحر ذخار تھا جو متلاطم تھا، ذہن بار بار یہ سوال کر رہا تھا کہ زائرین تمام احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے اور سوشل ڈسٹینس کی رعایت کرتے ہوئے بھی تو زیارت کر سکتے ہیں، ایسی صورت میں ان مقدس مقامات پر داخلہ پر لگی پابندی ہٹا دینے میں کیا قباحت ہے؟ مجالس و دینی جلسات کے انعقاد میں کونسی پریشانی ہے؟)

    سوال کرنا چاہتی تھی مگر خبروں میں والد کے انہماک کو دیکھ کر ہمت نہیں جٹا پا رہی تھی، خوف تھا بابا ناراض نہ ہو جائیں کہ یکایک ماں کی آواز نے جھنجھوڑ دیا کھانا آمادہ ہے۔ یہ سنتے ہی نئی پریشانی سر اٹھائے کھڑی نظر آئی کہیں سوالات شہر نسیاں میں مسکن گزیں نہ ہو جائیں لہذا وقت کو غنیمت جان کر دسترخوان پر بیٹھتے ہی سوال پیش کر دیا۔

    باپ: (کھانے سے ہاتھ روکتے ہوئے) اے میری بیٹی! یہ باتیں ذہن نشین کر لو:

  1. محدود وسائل (بخار ناپنے کا آلہ، سینیٹائزر) کی وجہ سے تمام پروگراموں میں حفظان صحت کے تمام پہلؤوں اور شرائط کی رعایت کی کوئی ضمانت و گارنٹی نہیں ہے۔

  2. چونکہ بیماری کے علائم ابتدائی دو ہفتوں میں مخفی رہتے ہیں لہذا اگر حفظان صحت کے تمام اصولوں کی رعایت کر بھی لی جائے تب بھی پروگرام کے شریک تمام مریضوں کی تشخیص کی کوئی گارنٹی نہیں ہے۔

  3. اگر بالفرض تمام مشکوک افراد کی تشخیص کو ممکن تسلیم کرلیں اور ان کو روکنا بھی ممکن ہو تب بھی اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ حاضرین کی چھینک جو اس وائرس کے انتقال و پھیلاؤ کا ذریعہ ہے اس کو  روکا جا سکے۔

    اسی لئے ماہرین نے اجتماعی پروگرام کے انعقاد سے کرونا کے سرایت کرنے کا اندیشہ جتایا ہے اور یہ خطرہ بہت حد تک بڑھ بھی جاتا ہے لہذا انسان کو کوئی ایسا کام نہیں کرنا چاہئے جس سے اس کو کوئی خطرہ لاحق ہو اور کسی آسیب میں مبتلا ہو۔ شریعت محمدی نے مریض پر واجب روزہ کو کچھ شرائط کے ساتھ حرام قرار دیدیا ہے چہ جائیکہ مستحب۔

    باپ کے دقیق منطقی و عاقلانہ جواب کے بعد میرے پاس کوئی معقول سوال تو نہیں رہ گیا مگر نہ جانے کیوں باربار ذہن میں یہ سوال گردش کررہا تھا کہ کچھ بھی ہو ان مقدس مقامات کو زائرین کیلئے کھول دینا چاہئے چنانچہ سوال کو نئے زاویہ سے پیش کرنے کی ہمت کر کے عرض کیا۔

    بیٹی: بابا مجالس اہلبیتؑ کا کسی دوسری چیز سے موازنہ درست نہیں ہے؟ یہ مجالس خود شفا خانہ ہیں۔

    باپ: یقیناً میری لاڈلی بیٹی کسی چیز سے موازنہ کرنا صحیح نہیں ہے. لیکن مندرجہ ذیل باتیں قابل غور ہیں:

  1. اہلبیت کرامؑ کی مجالس و محافل کے برکات و فضائل سے انکار شپرہ چشم کر سکتا ہے، انھیں برکات کے پیش نظر کہا جارہا ہے کہ گھروں میں منعقد کریں تا کہ ان فوائد و برکات سے محروم نہ رہیں۔

  2. آیات وروایات میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ نظام کائنات اسباب و مسببات کے محور پر گردش کرتا ہے اور اسی کے ذریعہ ارادہ الہی متحقق ہوتا ہے۔

    بیٹی: بابا یہ غیر طبعی اور خارق العادہ امور جن کو معجزہ سے تعبیر کیا جاتا ہے پھر ان کی کیا توجیہ کی جائے، معجزات پر کن دلائل سے استدلال کیا جائے؟

    باپ: معجزہ کی دنیا استثنائی ہے،معجزہ حکمت الہی کے تقاضوں کے پیش نظر ظہور پذیر ہوتاہے ورنہ خانہ کعبہ یزیدی لشکر کے ذریعہ ویران نہ ہوتا،ائمہ معصومین ؑ پر زہر اثر انداز نہ ہوتا،امام رضاؑ کے حرم کے زائرین بم بلاسٹ میں ٹکڑے ٹکڑے نہ ہوتے۔ایسا نہیں ہے کہ صرف دعائیں اور ائمہ سے توسل ہی کے ذریعہ علاج ہو بلکہ خود ائمہ معصومین ؑ نے بارہا ذکر ،دعا اور توسل کے ساتھ ساتھ بیماریون میں اطباء کی طرف مراجعہ کرنے کی تاکید فرمایاہے،روایت میں بیان ہواہے کہ اگر کوئی شخص طبیب ومعالج سے اپنی بیماری کو مخفی رکھتا ہے تو اس نے بدن سے خیانت کیاہے۔لہذا اب یہ بہانہ کہ ہم اہل بیتؑ سے توسل کرنا چاہتے ہیں قابل قبول نہ ہوگا کیونکہ مجالس اہل بیتؑ کی آڑ میں اپنی اور جملہ محبان اہل بیتؑ کی سلامتی سے کھلواڑ کرنے اجازت نہیں دی جاسکتی ہے۔

    باپ نے کھانا شروع کردیا اور میں نے جوابات کی روشنی میں اپنے شکوک وشبہات کو ختم کرنے کی ذہنی کوشش شروع کردیا ،موسم بہار کی آمد کا پتہ دیتی ہوائیں میرے وجود میں سما رہی تھیں،کمرے کی نیم وا کھڑکی موسم بہار کا سلام پیش کررہی تھی اور میرے ذہن کا طائر یادداشت کے افق پر محو پرواز تھا اورموسم بہار کے پر شگوفہ شاخوں پر اپنا گھونسلہ بنانے کی فراق میں تھا ،ہرقسم کے افکار وخیالات سے پاک ہوکر مرور ایام کے دبیز پردہ کو چاک کرکے پرانی یادوں کا ایک عظیم لشکر لئے میری نگاہوں کے سامنے کھڑا تھا میں موقع کی تلاش میں تھی کہ اپنے حافظہ میں محفوظ اس روایت کے بارے میں سوال واستفسار کروں جس میں حکم دیا گیا ہ کہ جب بیمار ہوجاؤ تو شہر قم کی طرف سفر کرو اور آج کا منظر یہ ہے کہ شہر قم خود بیماری کا مرکز بنا ہواہےیہ دو متضاد مفہوم سطح ذہن پر ہچکولے لے رہاتھا ناچار باپ سے عرض کرہی دیا۔

    بیٹی: بابا ان دونوں مناظر میں کتنا تضاد نظر آتاہے؟

    باپ: ہاں امام جعفر صادقؑ کا ارشاد گرامی ہے:

"اذا عمیت البلدان الفتن فعلیکم بقم وحوالیھا ونواحیھا فان البلاء مدفوع عنھا"

(جب تمام شہروں میں فتنے پھیل جائیں تو قم اور اطراف قم میں مراجعت کرلو کیونکہ بلائیں اس شہر سے دور کردی گئیں ہیں)

    اے میری دختر!فتنہ وبلاء کی جو لفظیں ان جیسی روایات میں بیان ہوئی ہیں ان سے مذہبی واعتقادی بلائیں اور فتنے مراد ہیں،قرآن مجید میں بھی یہ الفاظ انھیں معنی میں استعمال ہوئے ہیں چنانچہ قرآن مجید نے مال واولاد کو فتنہ سے تعبیر کیا ہے:

"انما اموالکم و اولادکم فتنة و اللہ عندہ اجر عظیم"

(اموال واولاد وسیلہ آزمائش ہیں اور اجر عظیم صرف خدا کے پاس ہے) فتنہ اس بلا ومشکل کو کہتے ہیں جس میں آزمائشی پہلو نمایاں ہوتاہے لفظ بلاء بھی قرآن مجید میں امتحان کے معنی میں استعمال ہوا ہے جناب ابراہیمؑ کے تذکرہ میں آیا ہے:

"و ان ھذا لھو البلاء المبین"

(یقیناً یہ ایک عظیم امتحان تھا)

یا ارشاد ہوتا ہے:

"ولیبلی المومنین منه بلاء حسنا"

(مومنین کو بلاء حسنہ کے ذریعہ  موردامتحان میں قرار دیا جائے گا)

    بعض روایات میں اہل قم کو دنیوی مشکلات اور دشواریوں میں مبتلا بتایا گیا ہے مثلا امام علی نقیؑ نے قم کے لوگوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:

"یجری علیھم الغم والھم والاحزان والمکارہ"

(اہل قم پر ہم وغم، حزن وملال سایہ فگن رہتا ہے)

    میری پارہ جگر! جناب معصومہ قم اپنے قم کے دوران قیام مریض ہوئیں اور اسی مرض میں دنیا سے کوچ کرگئیں۔

    بیٹی: (والد محترم کے مدلل جوابات سن کر مجھ میں اعتراض کی ہمت نہیں تھی پھر بھی کچھ نہ کچھ استفسار کرتی رہی اسی دوران خیال آیا کہ) بعض لوگ کہتے ہیں کہ موت اللہ کے ہاتھ میں ہے لہذا خواہ ہم اصول حفظان صحت کی رعایت کریں یا نہ کریں اگر اللہ نے ارادہ کرلیا ہے تو موت اٹل ہے. (بھائی گفتگو کی جذابیت سے متاثر ہوکر اس گفتگو میں شامل ہونے کا متمنی نظر آیا)

    باپ: امیر المومنین حضرت علی ابن ابیطالبؑ کی مشہور ومعروف حدیث ہے کہ امامؑ ٹیڑھی دیوار کے نیچے بیٹھے تھے لیکن جب آپ نے دیوار کی حالت دیکھا تو فوراً دور ہوگئے اور ایک محفوظ جگہ پر تشریف فرما ہوگئے کسی نے سوال کیا مولا قضائے الہی سے فرار کر گئے ؟ امام نے فرمایا ہاں قضاء الہی سے قدر الہی کی طرف فرار کیا ہے ۔امام نے واضح لفظوں میں بیان کردیا قضاء الہی کا تقاضا ہے کہ میں اس ٹیڑھی دیوار کے نیچے رہوں لیکن قدر الہی کا فرمان ہے یہاں سے ہٹ جاؤ ۔یہ در حقیقت ایک مشروط قضاء الہی تھی لیکن امام نے برمحل اقدام کے ذریعہ اس قضاء کو منتفی کردیا۔

قرآن کریم نے فرمایا:

"ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسہم"

سرنوشت کی تبدیلی ہمارے قبضہ میں ہے ایک مومن کو احکام عقلی پر عمل کرتے ہوئے اپنی حفاظت کرنا چاہئے اور زندگی میں اپنے امور کو تدبیر کے سہارے آگے بڑھانا چاہئے لیکن اپنی تدبیر کو تقدیر الہی سے سازگار بنائے رکھنا چاہئے اور اللہ پر توکل رکھنا بھی ضروری ہے۔

    بیٹی: اگر علم اور دین کا باہمی تقابل کیا جائے تو شکست کس کو ہوگی علم کو یا دین کو؟اگر دین ہزیمت خوردہ ہو اور علم کامیاب وکامران ہو تو راز وعلت کیا ہے؟ کیوں آج اس موذی وائرس کی وجہ سے دین علم کے مقابل شکست خوردہ نظر آرہاہے اور تمام مراکز دینی کو بند کردیا گیا ہے؟

    باپ: (نہایت ہی متین ومتقن انداز میں) اسلام مین علم کی اتنی اہمیت ہے کہ عابد کی ہزار رکعت نماز عالم کی ایک رکعت نماز کے برابر ہے،قرآن کریم میں "قلم" نامی سورہ موجود ہے، مسلمانوں کی مقدس کتاب کی نوعیت بھی پڑھنے کی سی ہے، کتب روائی وحدیثی کا پہلا باب "العقل" سے معنون ہے ،نبی کریمؐ کا ارشاد گرامی ہے علم حاصل کرو چاہے چین(دورترین خطہ ارض) جانا پڑے، یا ارشاد ہوتا ہے:

"اطلبوا العلم من المهد الیٰ اللحد ، طلب العلم فریضة علیٰ کل مسلم ومسلمة"

    دین اسلام نے صحت اور سلامتی کے اصول وقونین کی رعایت کرنے کی بے حد تاکید فرمایا ہے مثلاً ہاتھ دھلنا،وضو ،غسل وطہارت وغيره اور ائمہ معصومینؑ وہادیان برحق نے خود ان الہی قوانین پر عمل کیاہے،اسلام کے اہم ترین اصول وقوانین میں قانون "جسمانی ضرر کا دفع کرنا اور سلامتی کی رعایت" بھی بےحد اہمیت کا حامل ہے اسی لئے قرآن نے روزہ کو اگر ضرر ونقصان کا سبب ہو تو حرام قراردیا ہے لہذا اگر دینی مراکز سلامتی وصحت کی خاطر بند کردیئے گئے ہیں تو دین سے منافات نہیں رکھتاہے کیونکہ مراکز کا بند کرنا خود ایک دینی قانون ہے۔

    والد محترم مسلسل توضیح وتشریح کررہے تھے اور میں اپنے بھائی کے ہمراہ بہت غور سے ان باتوں کو سن رہی تھی دوران گفتگو اگر کوئی سوال ذہن میں سر اٹھاتا فوراً والد محترم کے روبرو پیش کردیتے اور والد صاحب اس اعتراض کو برطرف کردیتے،جب والد محترم گفتگو کررہے تھے تو بھائی صرف ہم دونوں کے سوال وجواب کو بغور سن رہا تھا ایک طولانی گفتگو کے بعد میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ موجودہ حالات پر والد محترم کی دل کی کیفیت کیا ہے معلوم کروں اس وائرس کی حقیقت کیاہے؟ اس سال تحویل سال کا جشن کیسے منایا جائےگا اور اس وائرس کے حوالہ سےہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟

    باپ: فقر وغنا،صحت ومرض کائنات کی حقیقت اور سنت الہی ہیں ایسے حالات میں اطمینان وسکون کی غرض سے ہمیں گھر میں رہ کر زندگی کی استوری کی خاطر توکل کا دامن مضبوطی سے تھام لینا چاہئے، دعا، استغفار، دین کا بیان کردہ آئین سلامتی خواہ انفرادی آئین یا اجتماعی آئین سب کی رعایت کرنا چاہئے۔

    صفحہ ذہن پر اس سال موسم بہار کے جشن کا خاکہ تیار کررہی تھی،کیسے گھر کی چہار دیواری میں رہ کر یہ ایام گذریں گے؟ موسم بہار کے دلفریب مناظر سے محروم رہ جائیں گے؟ دل تنگی کررہا تھا ،عجیب وغریب تصورات کا ایک لشکر تھا جو حملہ آور تھا اتنے میں فضا کے سکوت کو ایک آواز نے توڑا کوئی اور نہیں میرا بھائی تھا۔

    بھائی: کیوں خدا اور ائمہ ؑ ہمیں شفا نہیں دیدیتے؟ اور اس وباء سے نجات نہیں دلادیتے ہیں؟

    باپ: (کسی انہونی سے چونک گئے گویا اب اتنی طولانی گفتگو کے بعد اس سوال کا وہم وگمان بھی نہیں تھا) اس سوال کے جواب کيلئے مندرجہ ذیل نکات پر توجہ ضروری ہے:

  1. اصل عدم شفاء ظاہری ہے مگر یہ کہ کوئی دلیل پوشیدہ ہو اس میں جیسے ہدایت خلق۔ بعنوان مثال حضرت عیسیٰ (ع) نے اپنی پوری زندگی میں بر حسب بیان کتاب مقدس وروایات صرف دو آدمیوں کو شفا دیا تھا پوری مخلوق کو نہیں۔ اہلبیتؑ بیمار بھی پڑتے تھے اور بیماری میں دنیا سے رخصت بھی ہوجاتے تھے جیسے زہر کا اثر کرنا جس کے نتیجہ میں شہادت کا واقع ہونا۔

  2. اہلبیت کا کام خلق خدا کی ہدایت کرناہے عالم طبیعت کے قوانین کو ختم کرنا نہیں، وہی قوانین طبیعت الہی سنت کے نام سے یاد کئے گئے ہیں:

"فلن تجد لسنة اللہ تبدیلا ، ولن تجد لسنة اللہ تحويلا"

سنت خدا ہرگز تبدیل نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی اس میں کسی تغیر وتبدیلی کا اثر ہوسکتاہے۔

  1. آئین وقوانین حفظان صحت کی رعایت کرنے کی تاکید ،بیماری وموت کا تذکرہ قرآن وسنت ائمہ ہداۃؑ میں موجود ہے ،پاکیزگی وصفائی کے حوالہ سے ارشاد ہوا "نظافت (پاكيزگي و صفائي) جزء ایمان ہے" کائنات میں مرض کے وجود پر پروردگار عالم کا ارشاد ہے:

"ولنبلونکم بشيء من الخوف والجوع ونقص من الأموال والانفس والثمرات وبشر الصابرين"

(اور یقیناً ہم تمہیں خوف، بھوک، مال وجان کی کمی اور ثمرات کی کمی کے ذریعہ آزمائیں گے اور صبر کرنے والوں کو بشارت ہو) موت کے حوالہ سے ارشاد ہوتاہے:

"کل نفس ذائقة الموت"

(ہر ذی روح کو موت کا مزہ چکھنا ہے) یہ عالم طبیعت کے مقدرات ہیں اور تاریخ ہدایت میں کوئی نبی یا امام ان قوانین طبیعت کو ختم کرنے کے لئے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ عدل وانصاف کے قیام ورواج کے لئے بھیجا گیا ہے۔

  1. کسی مقام یا مکان،وقت اور فرد کا تقدس عالم ملکوت سے رابطہ کی بنیاد پر ہے،نور ہادایت الہی سے منور اور فیوض سے مستفید ہونے کی وجہ سے ہے خواہ کسی مریض کو شفا دے یا نہ دے،خود مریض، تنگدست ہو جیسے جناب ایوبؑ پیغمبر.... (بعض ایام میں حضرت امام سجادؑ)

  2. معجزہ وکرامت کا ظہور صرف لوگوں کی ہدایت کی غرض سے محدود زمانہ ومقام میں محدود افراد الہی سے ہوتاہے جس سے اس بات کی وضاحت مقصود ہوتی تھی کہ عالم طبیعت کے ماوراء کسی دوسری دنیا سے ان کا رابطہ مستحکم ہے اس دنیا کے قوانین بھی اس دنیا سے علاحدہ ہیں۔

    ہماری گفتگو عالمانہ ہوتی جا رہی تھی ان جوابات کو سن کر میں دل ہی دل میں سرور و انبساط کے دریا میں غوطہ ور ہوتی چلی گئی والد بزرگوار کی خوشی کا بھی ٹھکانہ نہیں تھا کیونکہ وہ مجھے قانع کرنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

    بہار کی لطیف ہوا درختوں سے ٹکرا رہی تھی،شاخہ ہای درخت نےنغمہ بہاری چھیڑ دیا تھا میں تیزی سے اٹھ کر اپنے کمرے کی طرف بڑھی تاکہ خود کو گھر میں کوارنٹائین (قرنطينه) کرکے کرونا کے خلاف جنگ میں اپنا معمولی یوگدان پیش کرسکوں۔


و ما علینا الا البلاغ المبين



Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی