حضرت امام علیؑ امیر المؤمنین کا طریقہ زندگی




حضرت امام علیؑ امیر المؤمنین کا طریقہ زندگی


نوٹ :

امیر المؤمنین امام علیؑ کی چہاردہ صد سالہ شہادت کی مناسبت سے اس مضمون "سبک زندگی امیر مؤمنان امام علیؑ" کا ترجمہ کیا گیا تھا تا کہ امام المتقین حضرت علیؑ کی حیات طیبہ پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے مطالعہ کر سکیں نیز یہ مضمون سمندر سے ایک کوزہ پانی لینے کے مترادف ہے ورنہ آنحضرت کے فضائل و مناقب اور کمالات کا احصاء کرنا ہی جن و انس کے بس کی بات نہیں ہے.

فقط والسلام علی من اتبع الهدیٰ 

(مترجم: ابو دانیال اعظمی بریر)


    ہر فرد چاہتا ہے کہ اس کی زندگی کا طریقہ قرآنی اسلامی ہوتا ہو، تو اسے چاہئے کہ امام علیؑ سے ہی زندگی بسر کرنا سیکھے۔

    امام علیؑ کی زندگی کا طریقہ وہی قرآنی و اسلامی ہی طرز ہے کہ اسے جاننا چاہئے اور اسی کی بنیاد پر زندگی بسر کریں؛ کیونکہ آنحضرت ہی پیغمبر اکرمؐ اور قرآن کے سایہ ہیں تربیت ہوئی تھی اور قرآن کے علمی و عملی کو بیان کرنے والے اور مفسرین میں سے ایک شمار کئے جاتے ہیں۔ 

    صاحب تحریر اس موضوع پر آنحضرت کی معرفت کے ضمن میں انکی زندگی کے طرز و طریقہ کی بعض خصوصیات کو بھی روایات کی بنیاد پر بیان کیا ہے۔


امیر المومنین علیؑ کون ہیں؟


    قرآن کی آیات کی بنیاد پر امام علیؑ پیغمبر اسلامؐ کے نفس اور جان ہیں۔ (سورہ آل‌ عمران آیت: 61)

    یہ صاحبان امر میں سے ایک ہیں جن کی اطاعت واجب ہے۔ (سورہ نساء آیت: 59)

    قرآن کی آیات میں حضرت علیؑ کو عالم اور تمام کتابوں کا علم رکھنے والے کے عنوان سے ذکر کیا ہے۔ (سورہ رعد آیت: 43 اور تفسیری روایات)

    یہ علم میں راسخون میں سے ہیں۔ (سورہ آل‌ عمران آیت: 7 اور تفسیری روایات)

    آپ اہل عصمت و طہارت میں سے ہیں۔ (سورہ احزاب آیت:  33 اور تفسیری روایات)

    آپ اہل ذکر ہیں۔ (سورہ انبیاء آیت: 7 اور تفسیری روایات)

    آپ ذو القربیٰ ہیں کہ جن کی مودت ہر مسلمان پر واجب ہے۔ (سورہ شوری آیت:  23)

    آپ ابرار و مقربین میں سے ہیں۔ (سوره انسان آیت: 5  و 9 اور تفسیری روایات)

    بہت سے اور بھی سیکڑوں فضائل و کمالات اور عنوانات کے ذریعہ آپ کی معرفت بیان کیا گیا ہے۔   

    یہاں تک کہ آنحضرتؑ جمع اضداد فضائل کے حامل تھے، فضائل کی فہرست کو خداوند عالم اور پیغمبر اسلامؐ نے آنحضرت کیلئے بیان کرتے ہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کی ذات تمام صفات و اسمائے الٰہی کی تجلی گاہ و ظہور بخشتی ہے۔

    پیغمبر اسلام نے اپنی بعض روایات میں آنحضرت کے بیان کئے ہیں:

    جو شخص بھی "آدمؑ" کو ان کے علم میں ،"نوحؑ" کو ان کے تقوا میں، "ابراہیمؑ" کو ان کے حلم میں، "موسیؑ" کو ان کی ہیبت میں اور "عیسیؑ کو ان کی عبادت میں دیکھنا چاہتا ہے تو وہ "علیؑ بن ابیطالب" کو دیکھے۔ (ارشاد القلوب ص: 217)

    آپ رسولخداؐ کے دامن کے پروردہ و تربیت یافتہ ہیں، چنانچہ آنحضرت خود ہی فرماتے ہیں: تم لوگ خود ہی رسولخدا کے ساتھ رشتہ داری اور تعلقات کو ہی دلیل اور میری خصوصی حیثیت کے سبب کو، میری قدر و منزلت کو پہچانتے ہو، انہوں نے مجھے اس وقت سے اپنے دامن میں بیٹھایا اور ان کے سینہ سے چسپاں کیا تھا اور ان کی عطر دلپذیر سے میں بہرہ مند ہوا، لقمہ کو چباتے تھے اور میرے منہ میں رکھتے تھے اور مجھ سے ہزگر غلط بیانی نہیں سنی اور پست اخلاقی نہیں دیکھا۔ (نهج‌ البلاغه ح: 192)

    علیؑ پیغمبرؐ کے محرم راز تھے اور پیغمبر اسلامؐ اپنے رازوں کو آپ کے درمیان رکھتے تھے، حضرت علیؑ نے اس بارہ میں فرمایا ہے: میں جو حیثیت میں پیغمبر اسلامؐ کی بزم میں رکھتا تھا وہ مقام و منزلت کسی دوسرے کو حاصل نہیں تھی، میں ہر روز سحر کے آنحضرت کے سامنے حاضر ہوتا تھا۔ (مسند احمد؛ 1/ 77 - 85)

    بُرَیدہ اسلمی کہتے ہیں: میں جب بھی پیغمبر اسلامؐ کے ساتھ سفر پر جاتا تھا تو علیؑ ہی آنحضرت کے سامان اور توشہ کے ذمہ دار ہوتے تھے اور انہیں اپنے سے جدا نہیں کرتے تھے اور جہاں کہیں بھی منزل کرتے تھے تو حضرت علیؑ ان کے سامان اور توشے کی نگہبانی فرماتے تھے اگر ترمیم کی ضرورت ہوتی اور اصلاح لازمی ہوتی تو اصلاح فرماتے تھے اور پیغمبر اسلامؐ کی نعلین وغیرہ کی حاجت یا تعمیر یا سلائی کی ضرورت ہوتی تو انجام دیتے تھے۔ (بحار الانوار؛ 37/ 303)

    حضرت علیؑ کی یہ انس، تعلقات اور الفت پیغمبر اسلامؐ کے ساتھ سبب ہوتی تھی تاکہ حضرت علیؑ مختلف فرصتوں میں بے پناہ علم و معرفت سے فائدہ اٹھایا اور پیغمبر اسلامؐ بھی اپنے نفس کو قرآن کی تعبیر کے مطابق عزیز و محترم سمجھتے تھے اور اپنی خصوصی توجہ کا مرکز بنایا، اس طریقہ سے ہے کہ بہت سی کہنے کے قابل باتیں اور اہمترین اسرار کو ان کے درمیان رکھتے تھے، البتہ یہ مقام و منزلت کسی دوسرے کیلئے ہرگز حاصل نہیں تھی اور یہی فضیلت تھی کہ بعض صحابہ میں سے منافقین کے حسد کو ابھارا۔ جو کچھ صفات حسنہ کا مجموعہ انہوں نے پیغمبر اسلامؐ سے حاصل کیا تھا اسے وحی کے خزانہ میں تبدیل کردیا، حضرت علیؑ جب پیغمبرؐ کے ساتھ تنہائی میں ہوتے تھے یا خود ہی پیغمبرؐ سے سوال کرتے تھے یا پھر پیغمبرؐ ہی اپنے علوم کو علیؑ کو منتقل کرتے تھے۔

    امیر المومنینؑ خود ہی اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: جب بھی میں پیغمبر خداؐ سے سوال کرتا تھا، تو میرے مطالبہ کا جواب دیتے تھے اور اگر میں سکوت کرتا تھا تو آنحضرت خود ہی اقدام کرتے تھے اور اپنے علم سے مجھے مستفید کرتے تھے۔ (المصنف 6/ 368، ح: 32061)

    آنحضرتؑ کیلئے جیسا کہ قرآن فرماتا ہے: علوم قرآنی میں راسخ اور اہل ذکر ہیں کہ انہی سے دین کو بھی حاصل کرنا چاہئے اور یاد بھی کریں اور متشابہات کو بھی انہی سے سمجھیں کیونکہ متشابہات کو محکمات کی طرف ہی پلٹاتے ہیں اور قرآن اور اس کے معارف سے مکمل طور پر آگاہ و آشنا ہیں نیز قرآن ناطق بھی ہیں۔ 

    حضرت علیؑ خود ہی فرماتے ہیں: خدا کی قسم قرآن کی کوئی بھی آیت نازل نہیں ہوئی ہے مگر یہ کہ میں جانتا ہوں کہ کس موضوع پر اور کہاں پر نازل ہوئی ہے کیونکہ میرے پروردگار نے مجھے غور و فکر کرنے والا۔ بلند سوچ رکھنے والا۔ دل عطا کیا ہے اور سوال کرنے والی زبان مرحمت کی ہے۔ (انساب الاشراف 2/ 98، ح: 27)


امام علیؑ کی  طریقہ زندگی سے لازمی طور پر فائدہ اٹھانا چاہئے:


    اس سے قبل کی آیات و روایات وغیرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے کہہ سکتے ہیں کہ ہر فرد اگر چاہے تو قرآنی اسلامی زندگی کے طرز و طریقہ کو امیر المومنینؑ کی زندگی کے طور و طریقہ کو سیکھے اور ان پر ہی عمل کرنا چاہئے،  پیغمبر اسلامؐ کی نظر میں جو بھی علیؑ کا شیعہ ہےتو انہی کے نقش قدم پر ہی اپنے قدم بھی رکھے گا تب ہی کامیاب و کامران ہوگا نیز بہشت میں بھی داخل ہوگا اس بنا پر ہر مسلمان پر واجب ولازم ہے کہ امام علیؑ کی زندگی کے طریقہ کی معرفت حاصل کرے اور اسی کے مطابق عمل بھی کرے۔ 

    ابن کہمس کہتے ہیں کہ میں نے حضرت امام صادقؑ سے عرض کیا: عبد اللہ بن یعفور نے آپ کو صلوات و سلام کہا ہے۔ آنحضرت (ع) نے فرمایا: تم پر ان پر بھی درود و سلام ہو، جب تم ان کے پاس جانا تو میرا سلام پہونچاؤ اور کہو: جعفر بن محمدؑ نے فرماتے ہیں: نیک فکر کرو ہر اس خصوصیات کے بارے میں جو امام علی کو اس مقام تک بلند کیا جو پیغمبر کے قریب کر دیا، خود کو اس خصلت کیلئے لازم قرار دو اور یقین رکھو کہ جو مقام و منزلت علی کی پیغمبر خدا (ص) کے نزدیک حاصل ہوئی تھی، صرف اور صرف سچائی و امانتداری کے سبب ہی حاصل ہوئی تھی۔ (اصول الکافی 2/ 104، ح: 5)

    اس روایت میں امام علیؑ کی زندگی کے طریقہ کی شناخت کے ضمن میں ایک واجب کے عنوان سے ہم اس کا تذکرہ ہوا ہے، بعض اخلاقی خصوصیات کی خاص تاکید اور سفارش کی طرف توجہ مبذول ہوا ہے، کیونکہ یہ اخلاقی فضائل دوسرے اخلاقی فضائل کی اصل بھی ہیں اور جو شخص بھی اپنے آپ کو ان اخلاق سے متصف کرے گا تو دوسرے فضائل و کمالات کیلئے اخلاق حسنہ بھی اسے ہی فراہم ہو جاتا ہے، قرآنی تعلیمات کے معیار کے مطابق انسانوں کی قدر و قیمت اور مسلمان ہونے کا میزان اصول و فضائل ہر مشتمل ہے کہ "صدق" و "امانتداری" جیسے صفات ہیں۔ 

    بہت سی روایات میں مذکور ہے کہ لوگوں کی نماز، رکوع و سجود پر نگاہ مت رکھو، بلکہ اس کی راست گوئی اور امانتدار پر نظر رکھو کہ کیسی ہے؟

    کیونکہ یہ امور ایسے ہیں کہ جس سے انسانی شرافت و کرامت کو نمایاں بناتی ہے اور جھوٹے و خائن انسان نے ہرگز انسانیت سے فائدہ نہیں اٹھایا اب چاہے اس سے فائدہ اٹھانے والا مسلمان ہی ہو اور اسے ایمان کے راستہ پر برقرار رکھا ہے۔ امام علیؑ کی زندگی کا طرز وہی قرآنی و اسلامی ہے۔

 امیر المومنینؑ کی طریقہ زندگی میں بعض خصوصیات


    یہاں پر ہم امیر المومنینؑ کی زندگی کے طریقہ کے بعض خصوصیات کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ 


۱۔ اطاعت خدا و رسول (ص) اور رزقِ حلال کے حامل تھے

 

    ایک مومن انسان کی اہمترین خصوصیات جو اسے غیر مومن سے ممتاز کرتی ہے یہی امور مذکورہ ہیں۔

    حضرت امام صادقؑ اس حدیث میں فرماتے ہیں: خدا کی قسم علی بن ابیطالبؑ جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو مال حرام ہرگز نہیں کھایا اور ایسے دو راہے پر کبھی نہیں پہونچے جہاں پر دونوں ہی راستے خدا کی خوشنودی کی طرف جاتے ہوں، مگر یہ کہ پر زحمت ترین راہ کا ہی انتخاب کیا اور جب بھی پیغمبر اسلامؐ کے سامنے اہم حادثہ پیش آتا تھا تو آنحضرتؐ جیسا علیؑ پر اعتماد رکھتے تھے اسی بنا پر ان سے ہی مدد حاصل کرتے تھے، اس امت کے درمیان کوئی ایک بھی علی کے مثل ہرگز نہیں ہو سکتا تھا جو پیغمبر اسلامؐ کے راستے کو بغیر کمی و بیشی کے طے کرتے تھے، ان تمام جدو جہد اور سعی کے ہمیشہ عمل کے سلسلہ میں خوفزدہ بھی رہتے تھے، آپ کی ایک آنکھ جنت پر تو دوسری آنکھ آتش جہنم پر رکھا کرتے تھے، پھر دوسری طرف جزا میں بہشت کے امیدوار اور دوسری طرف کیفر میں آتش جہنم کا خوف ہو تا تھا۔ (الارشاد ص: 255)

    ابن عباس بھی آنحضرت (ع) کی رضائے حق کے طالب ہونے کے سلسلہ میں کہتے ہیں: علیؑ اپنے تمام اعمال میں ہمیشہ رضائے الٰہی کو ہی مد نظر رکھا کرتے تھے اور اسی وجہ سے آپ کا لقب "مرتضیٰ" رکھا گیا۔ (المناقب 3/ 110)

    آنحضرتؑ مدینہ میں پیغمبر اسلامؐ کی جان کی حفاطت کیلئے خود ہی مسجد میں ہی منافقین کی سازشوں کے مقابلہ کیلئے آمادہ رہتے تھے، کیونکہ منافقین آنحضرتؐ کو نقصان پہونچانے کیلئے کوشش کرتے رہتے تھے اسی وجہ سے پیغمبرؐ کی جان کی حفاظت اور نگہبانی کو لازمی جانتے تھے اور امامؑ رسولخداؐ کے محافظ کی حیثیت سے مسجد النبی میں ایک "ستون محرس" نامی کے پاس ہی بیٹھا کرتے تھے اور حالات و ماحول پر نظر رکھتے تھے، وہ ستون مسجد النبی میں قبر رسولخداؐ کے پاس قابل شناخت بھی ہے اور اس کے اوپر یہ عبارت "أسطوانة الحرس" لکھی ہوئی ہے یعنی نگہبانی کا ستون۔


٢- حق كي حمايت و باطل سے عدم موافقت كرنے والے تھے


    آنحضرتؑ کی خصوصیات میں سے ایک خاص صفت ہے کہ حق و عدالت کے مخالفین کے ساتھ موافقت و سمجھوتا نہ کرنا اور ان کے ساتھ انقلابی انداز میں یقین محکم کے خلاف کاروائی کرنے کو ایک وظیفہ کی طرح انجام دیتے تھے۔

    آنحضرتؑ خود ہی فرماتے ہیں:  اپنی جان کی قسم! جنگ میں جو بھی حق کی مخالفت کرے اور گمراہی کے راستہ کو طے کرے، تو میں نہ ہی اس کے ساتھ سمجھوتا کرتا ہوں اور نہ ہی چاپلوسی کرتا ہوں، نہ ہی سستی۔ (نهج ‌البلاغۃ خطبات: 24)

    اور دیگر مقام پر آنحضرتؑ فرماتے ہیں: میری تمام زندگی میں ایک بھی سیاہ نقطہ ہی نہیں ہے تا کہ عیبجو افراد اور آنکھ کا اشارہ کرنے والے اپنی آنکھ یا ابرو سے اشارہ کریں اور میرے خلاف کلمات اپنی زبان سے کہیں، میرے نزدیک مستضعف افراد سب سے زیادہ محبوب و عزیز ہیں تا کہ ان کے حق کو انہیں سمجھاؤ اور میرے نزدیک سب سے زیادہ طاقتور وہی ہے جو دوسروں کے حقوق کو اس سے چھیننے سے باز رکھوں، ہم اپنے تمام وجود کے ساتھ اللہ کے فیصلہ پر خوشنود ہیں اور اسی کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ (نهج‌ البلاغه خطبات: 37)

    آنحضرتؑ نے جو کچھ فرمایا تھا اسی پر عمل بھی کیا تھا اور اسی وجہ سے یقین کے ساتھ ہی حق و عدالت کے اجرا نیز ظالم کے مقابلہ میں مظلومین کی حمایت کرنا بھی "حکومتِ علوی" کی خصوصیات میں ایک خاصیت یہ بھی تھی، چاہے مکمل طور پر عدالت الٰہی کے اجرا سے طالبين دنیا کیلئے خوشگوار نہیں ہوتا تھا اور بعض افراد آنحضرتؑ سے رنجیدہ بھی رہتے تھے، لیکن آنحضرتؑ کا دل اس بات پر ضرور خوش ہوتا تھا کہ خدا ان سے راضی ہے۔

    آنحضرتؑ فرماتے ہیں: حق و عدل کی باتیں کرنا تو بہت آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا بہت سخت و دشوار ہے۔ 


۳۔ "سیاست علوی" میں خدا کی رضامندی ہی اصول و بنیاد تھی: 


    امیر المؤمنینؑ سوائے خداوند متعال کی رضامندی کے کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا نیز اسی پر ہی قائم و دائم رہے اور "راضیة مرضیة" کی شان، نفس مطمئن کی حالت میں خداوند عالم سے ملاقات فرمائی۔ (سورہ فجر آیات 27 تا 30)

اس طرح سے ہے کہ دور جاہلیت اور اسلام میں ہرگز اس اصل کی طرف سے اپنی سیاستوں میں سے کسی بھی منزل پر بھی اس سے منحرف نہیں ہوئے۔  

    آنحضرتؑ اپنی اس عوامی سیاست کی بنیادی راہ پر چلنے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں: خدا کی قسم! میں ہمیشہ سابقین کے زمرہ میں ہی تھا یہاں تک کہ ایک روز دشمن کے محاذ کا نیست و نابود ہوا اور سماج کے میدان سے جاہلیت باہر بھاگ گئی، بغیر اس کے کہ میں کم سے کم کمزوری یا خوف رکھتا رہوں اور آج بھی میں اسی راستہ پر قدم بڑھا رہا ہوں اور میں ارداہ رکھتا ہوں کہ باطل کو چیر پھاڑ دوں تا کہ حق ہی اس کے پہلو سے باہر نکل آئے۔

 مجھے قریش سے کیا کام کہ جو گذشتہ کل تک کفر کے مقام پر تھے اور میں نے ان لوگوں کے ساتھ جنگ کیا اور آج بھی وہ لوگ فتنہ و فساد میں گرفتار ہوئے ہیں میں اس کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے اٹھوں گا، میں وہی ہوں گذشتہ کل ان کے ساتھ ٹکریا تھا اور میں آج بھی اسی حالت میں ہیں۔ (نهج ‌البلاغه خطبات: 33)

    اب كي یہی سیاست ہے کہ جس نے دوسروں کو ان کے دشمنوں میں تبدیل کر دیا ان ہی لوگوں نے اس بات کی اجازت نہیں دی کہ خلیفہ خدا و رسول کی حیثیت سے اپنے ولایت الٰہی کے منصب کو ظاہر میں قرار دیں اور انہیں ظاہری ولایت اور دنیا کی خلافت سے محروم کریں۔

    دوسروں کی نظر میں حقیقت یہ ہے کہ امامؑ کا فقط ایک ہی گناہ ہے کہ وہ ناقابل ساز باز اورآپ کی سیاست خدا کی رضامندی کے راستہ پر چل رہی ہے، یہی طلب رضائے خدا ہے اور غیر خدا پر عدم اعتماد و بھروسہ کا موجب ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ لوگ بے باک جنگجو میں تبدیل ہوگئے نیز مشرکین و منافقین سے تنزیل و تاویل کے زمانے میں بھی خوف و ڈر نہیں کیا ۔

    حضرت امیر المؤمنینؑ نے فرمایا: ... زمانہ پر بہت زیادہ تعجب ہے کہ شامیوں نے مجھے پیغام بھیجا ہے کہ میں خود کو نیزوں کی انی سے مقابلہ کیلئے آمادہ کروں اور شمشیر کی ضربوں کیلئے میں صبر کروں، ان کی مائیں گریہ کناں بیٹھیں! ابھی تک مجھے کسی نے بھی جنگ کی دعوت دیتے ہوئے دھمکایا نہیں ہے اور میں شمشیر اور نیزہ کے زخموں سے کوئی بھی خوف و ہراس نہیں رکھتا، کیونکہ مجھے کہ اپنے پروردگار پر یقین ہے اسی پر ہی توکل کرتا ہوں اور میں نے اپنے دین میں ایک لمحہ کیلئے بھی شک و شبہہ سے آلودہ نہیں کیا۔ (نهج‌ البلاغهْ خطبات: 22)


۴۔عدل و انصاف کے طلبگار و مرکز  عدالت‌:

 

    آنحضرتؑ کی دیگر سیاستوں میں سے ایک عدل و انصاف کے طلبگار اور مرکز عدالت ہے، امام علیؑ کی زندگی کے طور و طریقہ میں یہی عنصر ہے جس نے  بہت سے لوگوں کو ان سے اور آپ کی حکومت سے دور کر دیا تھا کیونکہ عدالت کو جاری کرنا اپنے اور اپنوں کے حق میں بہت دشوار و سخت ہے، یہ اس حالت میں ہے کہ تعلیمات اسلامی اس پر مؤکد بھی ہے کہ عدل و انصاف کو یہاں تک کہ دشمن کیلئے بھی اسی طرح اجرا کریں، کہ اس پر بھی ظلم نہیں کیا جائے گا۔

اور رشتہ دار حضرات اور دوست افراد کی خاطر عدل و انصاف سے منحرف نہیں ہو سکو گے۔ (سورہ مائده آیت 8 و سورہ انعام آیت: 152

    امیر المومنینؑ کی عدل و انصاف پر مبنی سیاست غیر متقین و غیر دیندار افراد پر بہت گراں گزرتی تھی کیونکہ قرآن کی نظر میں عدل و انصاف تقوئے  الٰہی سے بہت زیادہ قریب ہے۔ (سورہ مائده؛ آیت: 8؛ سورہ انعام؛ آیت: 152)

    روایت میں ملتا ہے کہ جب حضرت امیر المومنینؑ نے مساوات کی رعایت کی بنیاد پر بیت المال کی تقسیم پر عتاب کے مقام پر قرار دیا تو فرمایا: کیا تم مجھے حکم دیتے ہو اور اصرار کرتے ہو تا کہ کامیابی و کامرانی کو ظلم و ستم کی قیمت پر ان سرپرست و ذمہ دار کے دوش پر قرار دیا ہے اسے حاصل کروں؟ خدا کی قسم! جب تک یہ دن و رات کی گردش ہے اور آسمان میں ستارے مستقل حرکت کرتے ہیں، ایسا ناروا سلوک میں ہرگز نہیں کروں گا، اگرچہ یہ مال و ثروت میرا ذاتی ہوتا تب بھی میں اس کی تقسیم میں مساوات کی ہی رعایت کرتا رہوں گا، چہ جائے کہ یہ مال تو اللہ کا مال ہے۔ (نهج ‌البلاغهْ خطبہ: 124

    اسی لئے امام کو مجسمہ عدالت کہتے ہیں؛ جیسا کہ آنحضرت خود ہی فرماتے ہیں: خدا کی قسم! ساتوں زمین کی اقالیم اور جو کچھ آسمان کے سایہ میں ہے کو مجھے دیدیں تا کہ میں خدا کی نافرمانی کرتے ہوئے ایک چیونٹی کے منہ سے جو کا چھلکا چھین لوں تو مجھے یہ ہرگز گوارا نہیں ہو گا۔

    اسلئے کہ یہ دنیا میرے نزدیک ٹڈی کے آدھے چبائے ہوئے پتہ سے بھی کمترین درجہ رکھتی ہے۔ 

    علیؑ کو اس فانی نعمتوں، جلد ختم ہونے والی لذتوں اور غیر پائدار دنیا سے کیا کام!  (نهج ‌البلاغهْ؛ خطبہ نمبر: 222)   


۵۔ مستضعفین سے همدلی و همدردی کا اظہار کرتے تھے

 

    امیر المومنینؑ کی طرز حکومت، عوامی سیاست اور مظلومین و محرومین کی حمایت میں کلی اصول حکمرانی کے ہوا کرتے تھے۔ آپ لوگوں کے ساتھ ہمدلی اور ہمدردی کے ساتھ ہی اسی بنیاد پر ہی تھی کہ حق اور عدالت الٰہی کا اجرا کریں، کیونکہ ایسی سیاست کے ساتھ ہی عوام کو ان کی کرامت و شرافت کی منزل پر قرار دے سکیں، آنحضرتؑ لوگوں سے محبت کرتے تھے اور لوگ بھی آنحضرت سے محبت کرتے تھے۔

    پیامبر اسلامؐ بھی امام علیؑ کی اسی خصوصیت کو ہی الٰہی بخشش کےطور پر اشارہ کیا اور فرمایا ہے: اے علیؑ! خدائے متعال نے تمہیں ایسا قرار دیا ہے کہ محرومین سے محبت کرو اور انہیں تم اپنے پیروان کے عنوان سے پسند بھی کرو اور وہ لوگ بھی تمہیں اپنا پیشوا اور امام کے عنوان سے پسند کریں۔ (حلیۃ الاولیاء 1/ 71)


۶۔ لوگوں کے ساتھ همدردی و محرومین کے معاون و مددگار تھے

 

    عوام کی طرف جھکاؤ اور ان سے مہربانی والی روح رکھتے تھے جو کہ رہبران الٰہی کی خصوصیات میں سے ہے، قرآنی تعلیمات کی بنیاد پر مومن کو ہمدلی اور ہمدردی کی مہارت کو سیکھنا چاہئے اور دوسروں کی نسبت اجرا کرنا چاہئے، اب یہاں پر خداوند عالم اہل ایمان و نمازی کی خصوصیات میں سے ایک محروم لوگوں اور سائل کی مدد کرنا اسی دائرہ میں شمار کرتے ہیں۔ (سورہ ذاریات؛ آیات: 19 و 20؛ سورہ معارج؛ آیات: 24 و 25

    دوسرے لوگوں کی مدد، انفاق، اطعام اور احسان کو اسلام کا ایک اصول قرار دیا ہے جسے اسلام میں بہت زیادہ تاکید بھی ہے اور الٰہی رہنماؤں کو اسوہ حسنہ کے عنوان سے ان امور میں سبقت رکھنا ہی چاہئے جیسا کہ تھے اور ہیں۔

    مغیرہ ضبی کہتا ہے: حضرت علیؑ موالی یعنی غیر عرب اور آزاد کردہ غلاموں کی طرف بہت زہادہ تمایل رکھتے تھے اور انکی نسبت بہت زیادہ مہربان تھے، جبکہ صورت حال یہ تھی کہ دیگر خلفاء سختی کے ساتھ ان سے دوری رکھتے تھے اور پرہیز بھی کرتے تھے۔ (الغارات ص: 341

    آنحضرتؑ کا لوگوں کے ساتھ ہمدردی کو آنحضرت کے اس کلام سے بطور سند پیش کر سکتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ہیہات ہے کہ میں نے ہوا و ہوس پر قابو پا لیا ہےاور پیٹ بھرنے اور لذیز کھانوں کے انتخاب سے میں نے اپنے آپ کو باز رکھا ہے۔اس حالت میں کہ بسا اوقات یمامہ یا حجاز میں کتنے ہی ایسے افراد پائے جاتے ہیں کہ انہیں ایک روٹی بھی دستیاب ہونے کی امید نہیں ہے اور سیر ہونے کی خاطر کچھ بھی نہیں رکھتے اور ہرگز ایسا نہ ہو جاؤں کہ میں رات میں شکم سیر ہو کر سو جاؤں شائد اس حالت میں کہ میرے ارد گرد بہت سے شکم پیٹھ سے لگے ہوئے اور جگر سوختہ رہتے ہوں۔ (نهج ‌البلاغهْ؛ نامه: 45)

    معاشرہ کے عوام کے حالات سے بے خبری حکومت کے ذمہ داران کیلئے ناپسندیدہ عمل ہے، غیر عوامی حکومتوں میں حکمران اپنے ہی آرام و راحت و فلاح و بہبود کیلئے ہی سوچتے رہتے ہیں اور تمام وسائل کو خود کے اور اپنے متعلقین کے عیش و آرام کیلئے ہی فراہم کرتے ہیںاور محروم طبقات، بھکے، محروم اور رنجیدہ لوگوں کی ضرورتوں کی طرف بالکل ہی توجہ نہیں رکھتے۔

    حضرت علیؑ اس طرز عمل کو حکومت کی شان کے خلاف سمجھتے تھے اور دور دراز کے مناطق کے معاشرہ کے بھوکوں کو یاد کرتے ہیں۔ 


۷۔ عمل خیر میں سبقت رکھتے تھے:

 

    قرآن کریم نے مومنین کا نیک و خیر کے کاموں میں تیزی و سبقت کرنے کے بارہ میں بیان کیا ہےاور انہیں تشویق بھی کرتا رہا ہے۔

(سورہ بقره؛ آیه: 148؛ سورہ مائده؛ آیه: 48)

    ہمیشہ ایمان و عمل کا اسوہ اور نمونہ عمل رہے نیز ہر کار خیر و نیک میں سبقت رکھتے تھے اورہیں۔ 

    حضرت امیر المؤمنینؑ اس سلسلہ میں خود ہی فرماتے ہیں:

    "ای لوگو! خدا کی قسم میں نے ہرگز تمہیں کسی بھی اطاعت کی طرف دعوت نہیں دی مگر یہ کہ تم سے پہلے خود اس عمل کو انجام دوں، تم پر سبقت کروں اور کسی بھی گناہ سے باز نہیں رکھا مگر یہ کہ میں پہلے اس پر عمل کروں اور خود کو اس عمل سے باز رکھوں."  (نهج‌ البلاغهْ خ: 173)

    امیر المومنینؑ نے سوائے خداوند متعال کی رضامندی کیلئے کوئی بھی قدم نہیں اٹھایا۔


۸۔ موعظہ اور نصیحت‌ كرنا: 


    خداوند عالم قرآن میں دوسروں کو وعظ و نصیحت کرنا اور یہ کہ دوسرا انسان کو کار خیر و آخرت کو یاد دلاتا ہےاور دنیا سے دل سپردگی سے اپنے کو باز رکھنے کی تاکید کرتا ہے، تمام انسان ہمیشہ پند، نصیحت اور موعظہ کا محتاج ہوتے ہیں، اس معنی میں کہ کبھی کبھی لازمی ہے کہ عام مسائل خیر کی شکل اور اخلاقی طور پر گوش گذار کرے یا خاص شکل میں کسی شخص کے سلوک کے بارے میں خود اس کو یاد دہانی کرائی جائے، امام علیؑ مہربان دل کے ساتھ اس امر کیلئے اقدام کرتے تھے۔ 

    زاذان سے مروی ہیں: حضرت امیر المومنینؑ تنہا ہی بازار میں گشت لگاتے تھےاور گمشدہ کی راہنمائی فرماتے تھے اور کمزوروں کی مدد فرماتے تھے، عبور کرتے وقت دکانداروں اور تجار کے پاس جا کر ان کے سامنے قرآن کریم کھولتے تھے اور یہ آیت ان کیلئے تلاوت کیا کرتے تھے۔ 

    "ہم نے آخرت کا گھر- ابدی سعادت - کو ان لوگوں کیلئے قرار دیا کہ جوزمین میں سرکشی اور فساد نہ کرتے ہوں اور - نیک - عاقبت تو صرف پرہیزگاروں کیلئے ہی ہے۔ (المناقب 2/ 104)

    البتہ کبھی کبھی لازمی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی صورت میں اس فریضہ پر عمل کریں، کیونکہ اگر اس فریضہ کو ترک کریں گے تو ممکن ہے کہ اعلیٰ اقدار ادنیٰ اقدار کے ساتھ ایک دوسرے کی جگہ کو تبدیل کر لے جائیں اور ایک تہذیب کی شکل اختیار کر لے گی۔ اسی وجہ سے امام علیؑ معاشرہ کے حالات اور لوگوں اور اہل تجارت کے سلوک کی نسبت بی تفاوت نہیں تھے۔ 

    آنحضرت شخصی طور پر بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیا کرتے تھےاور "زبانی یاد دہانی"  کے ذریعہ خدا و قیامت کو یاد دلاتے تھے تا کہ اپنے وظیفہ پر عمل کریں۔


۹۔ دسترخوان و خوراک کیا تھا: 


    راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت امام صادقؑ سے سنا کہ انہوں نے فرمایا: حضرت امیر المومنینؑ کی غذا کی نوعیت پیغمبر اسلامؐ کی غذا سے سب زیادہ شباہت رکھتی تھی، وہ خود روٹی، سرکہ اور روغن زیتون کھایا کرتے تھے اور لوگوں میں سے اپنے مہمان کو گوشت اور روٹی کھلاتے تھے۔ (الکافی 6/ 328)


۱۰۔ مشغلہ اور سعی و کوشش کیا تھی: 


    آنحضرتؑ زندگی کے حالات کی طرف توجہ رکھتے ایسےکام انجام دیتے تھے کہ جس کی ضرورت معاشرہ کو ہوتی تھی اور اس کے امکانات ان کیلئے فراہم ہوتے تھے، آنحضرتؑ قرآنی حکم پر زمین کو سر سبز و شاداب اور آباد کرنے میں مشغول رہتے تھے۔ (سورہ هود؛ آیه: 61)

    اور اس کے کام کو بیہودہ نہیں جانتے تھے؛ چنانچہ قرآن فرماتا ہے: "أیحسب الإنسان أن یترک سدی"

    کیا انسان یہ گمان کرتا ہے کہ اسے ایسے ہی چھوڑ دیا گیا ہے؟ (سورہ قیامت؛ آیه: 36)

    روایت میں ہے کہ امام علیؑ زمین پر ہل چلاتے ہوئے اس آیت کی تلاوت فرمایا کرتے تھے۔ 

    حضرت امام صادقؑ آنحضرت کی محنت و مزدوری اور جد و جہد کے سلسلہ میں فرمایا ہے: کبھی کبھی امیر المومنینؑ صحرا کی طرف جاتے تھے اور آپ کے ہمراہ خرما کے گھٹلی کا بوجھ اپنے ساتھ لے جایا کرتے تھے، جب بھی سوال پوچھتا تھا کہ اس بوریہ میں آپ کے ہمراہ کیا لے جا رہے ہیں؟ تو آنحضرت فرماتے تھے:  ان میں سے ہر ایک بیج ایک مکمل نخل یعنی کھجور کا درخت ہے إن شاء اللہ اس وقت جاتے تھے.

 اور ان تمام بیجوں کو وہاں پر بو دیتے تھے اور اس میں سے ایک بھی خرما آپ کھاتے نہیں تھے۔ (الکافی؛ 5/ 75)

    آنحضرتؑ اپنی زندگی کے گزر بسر کرنے کیلئے محنت مزدوری کے ذریعہ ہی آمدنی ہوا کرتی تھی اور اپنے آپ کو بیت المال سے وابستہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ ایسا ہوتا تھا کہ دوسروں کیلئے بھی ان ہی کے توسط سے محنت مزدوری کرنے سے مستفید ہوا کرتے تھے۔

    آنحضرتؑ خود ہی فرماتے تھے: اے کوفہ کے لوگو! مجھے دیکھو؛ میں زندگی کے شخصی و ذاتی وسائل سے زیادہ اندوختہ، ایک سواری اور اپنے غلام کے ساتھ تمہارے درمیان سے واپس پلٹ رہا ہوں۔ تو جان لو کہ میں نے تمہارے ساتھ خیانت کیا تھا۔

    آنحضرت اپنی حکومت کی مدت میں بیت المال میں سے کچھ بھی خرچ بطور تنخواہ نہیں لیتے تھے اور اپنی زندگی کے مخارج کیلئے ینبع کے مقام پر آپ کی زرعی زمینوں سے جو آمدنی ہوا کرتی تھی۔ یہی آپ کی آمدنی کا بڑا ذریعہ تھا۔  (الغارات؛ ص: 44)


۱۱۔ زندگی میں سادگی رکھتے تھے: 


    آنحضرتؑ اس حالت میں کہ آپ کا ایک نخلستان بھی تھا نیز محنت و مزدوری، اپنی ہی زرعی زمینوں میں کام کر کے آمدنی اچھی خاصی ہوا کرتی تھی، لیکن ان تمام آمدنی کو راہ خدا میں انفاق کر دیا کرتے تھے اور اسے اپنی ذات کیلئے خرچ نہیں کرتے تھے، ۲۵ سالہ سیاست سے کنارہ کشی کے زمانہ میں اور اپنے حکومت کے قدرت کے عروج کے دور میں بھی آپ کی معیار زندگی ایک جیسی ہی تھی اور کسی بھی قسم کی تبدیلی آپ کی زندگی میں ظاہر نہیں ہوا تھا اور تجملات اور ہائی فائی کی زندگی کی طرف ہرگز نہیں گئے تھے۔ مسلمانوں کے حالات اس زمانہ میں بہتر تھے اور اقتصادی اعتبار سے خوشحال ہوا کرتے تھے۔ آنحضرت کمترین چیزوں پر قناعت کرتے تھے اور بہت ہی سادگی کے ساتھ زندگی گذارتے تھے۔

    خود ہی آنحضرت اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: خدا کی اپنے لباس پر میں نے کئی پیوند لگا رکھے تھے کہ پیوند کرنے والے سے پیوند لگانے سے مجھے شرم محسوس ہونے لگی تھی، مجھ سے ایک روز کہنے والے نے کہا: کیا اسے دور پھینکنے کا وقت نہیں آیا ہے؟ اور میں نے اس سے خطاب کیا: دور ہو جاؤ کہ سحر کے وقت، شب و روز لوگ سپاس گزاری کرتے رہیں گے۔ (یعنی میری اس زحمت کو آئندہ تعریف کے لائق سمجھا جائے گا.)

    امیر المومنینؑ نے پانچ سال حکومت کی اور اس طولانی مدت میں اینٹ کے اوپر اینٹ اور پتھر پر پتھر نہیں رکھا اور اپنے لئے کوئی بھی زمین کا ایک ٹکڑا مخصوص نہیں کیا اور سفید درہم اور سرخ دینار میراث میں ہرگز نہیں چھورا۔ (المناقب ابن شهر آشوب 2/ 95)


۱۲۔ طریقہ عبادت و بندگی کیا تھا


    امامؑ سورہ ذاریات کی آیت نمبر ۵۶ "و ما خلقت الجن و الإنس إلا لیعبدون" کے حکم کے مطابق انسان کی خلفت کو عبادت، عبودیت اور بندگی کا فلسفہ سمجھتے ہیں اور اسی راستے پر ہی گامزن رہے۔  

    حضرت امام صادق ؑنے فرمایا ہے: حضرت امیر المومنینؑ وضو کرتے وقت کسی اور کو بھی اجازت نہیں دیتے تھے کہ آپ کیلئے پانی بھی ڈالےاور آپ فرماتے تھے: میں پسند نہیں کرتا کہ میری نماز جو بارگاہ الٰہی میں بھیجوں تو کوئی اور بھی اس کے ثواب میں شریک قرار پائے۔ (علل ‌الشرایع 1/ 323

    آنحضرت کے نظریہ کے مطابق نماز امانت الٰہی ہے کہ بندوں کو بندگی کی طرف لے جاتی ہے اسی لئے آنحضرت اس کی خاطر خاص اہتمام کیا کرتے تھے۔

    تفسیر قشیری میں ذکر ہوا ہے: جب بھی نماز کے ادا کرنے کا وقت آجاتا تھا تو امیر المومنینؑ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو جایا کرتا تھا اور لرزنے لگتے تھے اور جب آنحضرت سے کہا جاتا تھا: یہ کیسی حالت ہے؟ تو آنحضرت فرماتے تھے: امانت ادا کرنے کا وقت آگیا ہے کہ جسے آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا گیا اور انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور انسان نے اس امانت کے بوجھ کو اٹھا لیا۔ (المناقب 2/ 124؛ سورہ الاحزاب؛ آیه: 72

    اسی لئے آنحضرت اپنے گھر میں ایک مقام مخصوص رکھتے تھے جہاں پر آپ نماز، عبادت اور بندگی کیا کرتے تھے۔   

    حضرت امام صادقؑ نےفرمایا: حضرت امیر المومنینؑ نے اپنے گھر میں ایک مخصوص کمرہ قرار دیا تھا جو نہ ہی چھوٹا تھا اور نہ ہی بڑا تھا، اپنی نماز و عبادت کیلئے مخصوص کر رکھا تھا اور ہر رات میں کسی ایک بچہ کو سلانے کیلئے اپنے ہمراہ لے جاتے تھے اور اسی کمرہ میں اپنی نماز ادا کرتے تھے۔ (المحاسن 2/ 425، ح: 2557

    اس روایت میں دو نکتہ قابل غور و فکر موجود ہے کہ دونوں ہی کا تعلق اسلامی آداب اور مستحبات سے ہے:

    ۱۔ گھر میں ہی ایک معین جگہ کو مخصوص کرنا نماز اور عبادت کیلئے۔

    ۲۔ ایک گھر میں تنہا سونا مکروہ ہے لہٰذا اس سے پرہیز کرنا ہے، ایک جگہ کو نماز و عبادت کیلئے مخصوص کرنا اسے مقدس بناتا ہے اور نماز گزار کیلئے حضور قلبی اور روحی تمرکز کی خاطر بہتر ماحول فراہم کرتا ہے۔


۱۳۔ آنحضرت کی انگشتر اور نگینہ پر نقوش: 


    آنحضرت کی انگوٹھی کے نگینہ پر نقوش ان کے بنیادی پیغامات دوسروں کو یاد دلاتے ہیں، اسی وجہ سے ان نقوش کو زندگی کے نعرہ اور شعار کے عنوان سے ہر مسلمان کیلئے بنیادی اہمیت کا حامل قرار ديا جا سكتا ہے۔

    عبد خیر کہتے ہیں: حضرت علیؑ کے ہاتھوں میں 4 عدد انگوٹھی ہوا کرتی تھی:


۱۔ یاقوت:

نجابت و بزرگی، فرزانگی کیلئے پہنا کرتے تھے۔

اس نگینہ کا نقش تھا:

"لَا اِلٰهَ اِلَّا اللهُ الْمَلِکُ الْحَقُّ الْمُبِین"۔

کوئی معبود نہیں ہے سوائے خدائے مالک حقیقی مبین کے.


۲۔ فیروزہ:

کامیابی وکامرانی کیلئے پہنا کرتے تھے۔

اس نگینہ کا نقش تھا:

"اَللهُ الْمَلِکُ الْحَقُّ"۔

الله ہی مالک حقیقی ہے.


۳۔ حدید چینی:

طاقت و قوت کیلئے پہنا کرتے تھے۔

اس نگینہ کا نقش تھا:

"اَلْعِزَّۃُ لِلهِ جَمِیْعاً"۔

تمام عزت اللہ ہی کیلئے ہے.


۴۔ عقیق:

اسے بھی حفاظت کیلئے پہنا کرتے تھے۔

اس نگینہ کا نقش ۳ سطروں میں تھا:

"مَاْ شَآءَ اللهُ،

جو کچھ اللہ نے چاہا.

لَا قُوَّۃَ إِلَّا بِاللهِ،

کوئی بھی طاقت و قوت نہیں ہے سوائے اللہ تعالی کے.

أَستَغفِرُ الله"۔

میں اللہ سے مغفرت طلب کرتا ہوں. 

(خصال الصدوق؛ ص: 199)


۱۴۔ فرشتوں سے ہر روز عھد و پیمان کرتے تھے: 


    حضرت امام صادقؑ نے فرمایا ہے: حضرت امیر المومنینؑ ہر روز صبح سویرے، اعمال لکھنے والے دو فرشتوں کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے تھے:

"مرحبا ہو اے تم دو بزرگوار فرشتو اور اعمال کو لکھنے والے - اللہ کی مرضی کے مطابق آج بھی - جو کچھ تم چاہتے ہو میں تم کو املا کراؤں گا اور اس عہد و پیمان کے فوراً بعد ہی "سُبحَانَ‌ اللهِ وَ لَا اِلٰهَ اِلَّا الله" کے ذکر میں مشغول ہو جاتے تھے یہاں تک کہ آفتاب طلوع ہو جاتا تھا  اور عصر کے وقت سے غروب تک بھی اسی ذکر میں مشغول رہتے تھے۔ (بحار الانوار 84/ 267، ح: 38)

۱۵۔ نیک اولاد؛ آنکھوں کی روشنی ہے: 

    امام علیؑ کی نظر سے دیکھیں تو نیک و صالح اولاد وہی حقیقت میں انسان کے آنکھوں کی روشنی ہے۔  

    آنحضرتؑ کے نطریہ کے مطابق صالح و دیندار اولاد اور معاشرہ کیلئے مفید، والدین کیلئے آنکھوں کا نور اور نیک ذخیرہ ہوتی ہے نیز ماں اور باپ کی موت کے بعد بھی ان کی اچھائیوں کے سبب لوگ ان کے خیر و نیکی کے سبب والدین کیلئے طلب رحمت کی دعا کریں گے، اولاد کی دینی تربیت والدین کے اہمترین وظائف میں سے ہے اور ادب ان کی بہترین میراث ہے۔

    آنحضرتؑ نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے: خدا کی قسم اپنے پروردگار سے قد و قامت اور خوبصورت اولاد نہیں چاہا ہے بلکہ خداوند عالم کی مطیع و فرمانبرادر اور خوف خدا رکھنے والا فرزند ہی چاہا ہے تا کہ جب بھی میں اپنی اولاد کو دیکھوں اور اسے اللہ کی اطاعت کی حالت میں ہی دیکھوں، تو میری آنکھیں روشن ہوں۔ (تفسیر الصافی 4/ 27)

    جو کچھ بیان ہوا وہ صرف ایک ہی گوشہ امام علیؑ کی زندگی گذارنے کے پہلوؤں میں سے ایک طرز عمل تھا اور یقینی طور پر تمام پہلوؤں کو بیان کرنے کیلئے ایک ضخیم کتاب ضرور بن جائے گی۔


}i{ مصدر و ماخذ : کیہان ایران }i{


ان کا بھی مطالعہ کیجئے:


  1. امام علیؑ کی ولادت با سعادت۔

  2. حضرت علیؑ کا وصيت نامہ۔

  3. امام علیؑ یتیموں کے مہربان والد۔

  4. امام علیؑ نے اپنی اولاد کے نام کیسے رکھے ہیں۔

  5. حضرت علیؑ کی آخری وصیت کیا تھی؟

  6. ۱۹ ماہ رمضان: حضرت علیؑ کو مسجد کوفہ میں ضربت ماری گئی۔

ان شاء اللہ المستعان العزیز


تمت بالخير به نستعين و هو خير المعين


$}{@J@r

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی