فصل دوم : مزارات مقدسہ = عراق و ایران





ارمغان سالک راہ مودت


یعنی


آدابِ زیارت



via pinterest


مرتبہ 

منھال رضا خیرآبادی


mubarakpur-Azamgarh

احوال واقعی

زیارت: انوار الٰہیہ سے معنوی مستحکم

رابطہ ہے، مذہب حقہ جعفریہ کے نزدیک حضرات ائمہ معصومین ؑ کی قبروں کی زیارت پروردگار عالم سے قربت کا بہترین ذریعہ ہے جس کی احادیث میں بے حد فضیلت وارد ہوئی ہے، گر چہ اسلامی دنیا کا ایک بڑا گروہ اپنی کج فکری کے باعث، قرآن وحدیث کی صحیح تعلیمات سے دوری کے سبب اس کی حرمت اور اس عمل کے مشرکانہ بتانے کی ہر ممکن سعی کرتا ہے۔

    زیارت ان انوار مقدسہ سے معنوی مستحکم رابطہ کا نام ہے، جس کی افادیت و اہمیت کو دشمنان اسلام بخوبی درک کررہے ہیں ،پیہم زیارتی قافلہ جات کا آنا جانا، عاشقوں کا ہجوم دشمن کی نیند حرام کر دیتا ہے۔

    زیارت ایک قلبی رابطہ ہے، جو انسانی نیتوں کے محور پر گردش کرتا ہے جتنا سطح معرفت بلند ہوگا زیارت اتنی ہی موثر ہوگی۔

    شیخ ابو علی سیناؒ فرماتے ہیں: زائر اپنے مادی و روحانی وجود کے ساتھ اس مقام پر پہونچتا ہے جس کی زیارت کرنا چاہتاہے، اور اس سے استعانت چاہتا ہے تا کہ کسی نیکی کو حاصل کر سکے اور نقصان کا دفعیہ کر سکے ۔۔۔۔۔۔ چونکہ زائر اپنے جسم و جان کے ساتھ اس بارگاہ میں حاضر ہوتا ہے لہذا مادی و روحانی فوائد سے بہرہ مند ہوتا ہے

    زیارت کرنے والا اللہ کی جانب سفر کرنے والا ہوتا ہے جس کا مقصد لقاء الٰہی اور قرب خداوندی ہوتا ہے، جسکا آغاز امام کی ہمراہی میں ہوتا ہے اور اختتام زیر عنایت معصوم ہوتا ہے۔

    زیارت چونکہ خدا کی طرف اک معنوی وروحانی سفر ہے لہذا انسان کو غور کرنا چاہئے، اس سفر کی عظمت وافادیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنے آپ کو آمادہ کرنا چاہئے۔

    بحمد اللہ ادھر کچھ عرصہ سے ہندوستان سے زائرین کی معتد بہ تعداد مختلف قافلوں کے ہمراہ اس مقدس سفر پر جانے لگی ہے جس کی وجہ سے اکثر ایسے افراد سے ملاقات ہوتی رہتی ہے جو زیارت کے آداب، لوازمات اور مقامات زیارت سے بے خبر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے زیارت میں وہ کیف حاصل نہیں کر پاتے ہیں اور زیارت کے لا متناہی ثواب سے محروم رہ جاتے ہیں، بعض احباب نے کبھی کبھی اشارہ و کنایہ میں اس احساس کا تذکرہ بھی کیا کئی مرتبہ ہمت بھی کیا کہ کوئی ایسا کتابچہ ترتیب دیا جائے مگر زندگی کے مصروفیات، تبلیغی مشغولیات اجازت نہیں دے رہے تھے اور یہ تمنا دل ہی میں رہ جاتی۔

    ادھر کچھ عرصہ سے قدرے آسودگی و فرصت کے لمحات حاصل ہوئے تو ترتیب کا عمل شروع کیا اور بطفیل محمد و آلہؐ کتاب مرتب ہوگئی، عجلت کے باعث ممکن ہے بہت سی ضروری چیزیں درج نہ ہو سکی ہوں یا ترتیب میں تقدم وتأخر ہو گیا ہو جس کی طرف احباب و قارئین متوجہ فرما کر ممنون ومشکور فرمائیں گے۔

    خدایا ہمیں توفیق زیارات عتبات عالیات نصیب فرما اور جب سفر زیارت پر جائیں تو ایسے جائیں جیسے ہمارے معصومینؑ چاہتے ہیں اور ان صفات کو حاصل کر سکیں جو زائرین کے احادیث میں بیان ہوئے ہیں۔


والسلام علیٰ من اتبع الهدیٰ


منھال رضا خیرآبادی

جامعه حیدریه مدینة العلوم 

خیرآباد مئو یوپی الہند


فصل دوم




مزارات مقدسہ














فہرست زیارت گاہ:


الف: عراق:


1۔ نجف اشرف:

مساجد: مسجد طوسیؒ، مسجد شیخ انصاریؒ، مسجد جندی، مسجد خضراء، مسجد جواہری، مسجد صافی الصفاء۔

مدارس دینی: مدرسہ مقداد سیوری، مدرسہ صدر، مدرسہ معتمد، مدرسہ شیخ مہدی، مدرسہ قوام، مدرسہ سلیمیہ، مدرسہ ایروانی، مدرسہ قزوینی، مدرسہ بادکوب، مدرسہ شربیانی، مدرسہ خلیلی، مدرسہ آخوند، مدرسہ ہندی، مدرسہ بخاری، مدرسہ سید محمد کاظم دشتی، مدرسہ مجدد شیرازی، مدرسہ بروجردی، مدرسہ عبد العزیز بغدادی، مدرسہ دارالحکمۃ، جامعۃ النجف الدینیہ، مدرسہ لبنانیہ، مدرسہ ازریہ، مدرسہ دار العلم۔

کتابخانہ (لائبریری): کتابخانہ حسینیہ، کتابخانہ شیخ محمد رضا آل فرج، کتابخانہ عمومی آل حنوس، کتابخانہ عمومی نجف، کتابخانہ امیر المومنینؑ، کتابخانہ عمومی حکیم، کتابخانہ العلمین، کتابخانہ حیدریہ۔

شخصیات مدفون نجف: قبور جناب آدمؑ، جناب نوحؑ، جناب ھودؑ، جناب صالحؑ۔

اصحاب و علماء: جناب خباب ابن ارت، سہل ابن حنیف، خریم ابن اخرم، سمرہ ابن جنادہ، ہانی ابن عروہ، میثم تمار، عبد اللہ ابن یقطر، زید ابن ارقم، عدی ابن حاتم طائی، جابر ابن سمرہ، کمیل ابن زیاد نخعی، عبد اللہ اوفی، شیخ طوسی، سید رضی الدین علی ابن طاؤس، جمال الدین ابن طاؤس، علامہ حلی، مقدس اردبیلی، شیخ فخر الدین طریحی، شیخ احمد جزائری، سید مہدی بحر العلوم، سید عبد اللہ شبر، شیخ احمد نراقی، شیخ مرتضیٰ انصاری، شیخ راضی ابن شیخ محمد نجفی، سید مہدی قزوینی، سید محمد حسن شیرازی، حاج حسین خلیلی، سید محمد سعید حبوبی، علامہ سید علی داماد، سید محمد رضا استرآبادی، علامہ محمد جواد بلاغی، شیخ نائینی، شیخ ضیاء الدین عراقی، سید ابو الحسن اصفہانی، سید محمد کاظم یزدی، شیخ محمد حسین کاشف الغطاء، سید محسن الحکیم، سید ابو القاسم خوئی، سید عبد العلی سبزواری اعلیٰ اللہ مقامہم۔

مدفن اصحاب خاص حضرت علیؑ:

مسجد حنانہ کے پاس الثویہ نامی قریہ میں مندرجہ ذیل اصحاب دفن ہیں: خباب ابن ارت، احنف ابن قیس، جویریہ ابن مسہر عبدی، سہل ابن حنیف، کمیل ابن زیاد نخعی، عبد اللہ ابن اوفی، رشید ہجری۔

زیارتگاہوں کا تعارف:

1۔ حرم مطہر امام علیؑ: قبر مطہر حضرت علیؑ کے علاوہ مندرجہ ذیل قبور ہیں:

وزراء وسلاطین (عضد الدولۃ، شرف الدولۃ، بدر ابن حسنویہ۔ زیر گنبد: شاہ عباس اول، سلطان محمد قاچار، ملک آراء، سلطان محمد حسن خان، ملک حسین قلی خان، فخر الملک، ابو القاسم حسین ابن علی، یعقوب ابن داؤد، انوشیروان ابن خالد، امیر عماد الدین وزیر معز الدین، مظفر الدین، بدرالدین، تیمور لنگ)

علمائے کرام: (علامہ حلی، مقدس اردبیلی، سید محمد کاظم یزدی، شیخ انصاری، میرزا نائینی، آخوند خراسانی، میرزا حبیب اللہ رشتی، سید ابو الحسن اصفہانی، آقای بہبہانی، سید محمد سعید حبوبی، شربیانی، شیخ محمد حسن آشتیانی، ابو القاسم خوئی، سید محمد شاہرودی، آقا حسین قمی، شیخ الشریعۃ اصفہانی، سید عبد الحسین شرف الدین، آقا ضیاء عراقی، شیخ محمد حسین غروی اصفہانی، محمد حسین امین الضرب  اس کے علاوہ بھی بہت سے اعاظم علماء مدفون ہیں.)

2۔ مقام امام زین العابدینؑ: یہ مقام حرم مطہر حضرت علیؑ کے قبلہ سمت میں واقع ہے کہا جاتا ہے کہ اسی مقام پر امام سجادؑ اپنے اونٹ باندھ کر پا پیادہ جد بزرگوار کی قبر کی زیارت کیلئے جاتے تھے اور لوٹ کر اسی مقام پر ٹھہرتے تھے۔

3۔ مقام حضرت مہدی عج: شہر کے مغربی علاقہ میں وادی السلام  کے ابتدائی حصہ میں یہ واقع ہے جس کی تشخیص سید محمد مہدی بحر العلوم نے فرمایا تھا، یہیں پر مقام امام صادقؑ نام سے بھی ایک حصہ منسوب ہے اس مقام کے سلسلے میں یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ امام صادقؑ نے اسی مقام پر نزول فرمایا اور اپنی سواریوں کو باندھ کر دورکعت نمازادا کیا تھوڑا آگے بڑھے اور دو رکعت نماز ادا کیا پھر تھوڑا آگے بڑھے اور دو رکعت نماز ادا کیا جب وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا پہلی جگہ قبر امیر المومنینؑ، دوسری جگہ مقام راس الحسینؑ اور تیسری جگہ مقام منبر امام زمانہ عج ہے۔

4۔ مرقد جناب ہودؑ و جناب صالحؑ: قبرستان وادی السلام میں دونوں نبیوں کا مرقد شریف واقع ہے۔

5۔ مرقد جناب آدمؑ و جناب نوحؑ: زیارت امام علیؑ کے جملات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کی قبر کے پاس دو نبی جناب آدمؑ و جناب نوحؑ دفن ہیں۔

6۔ مسجد حنّانہ: نجف سے کوفہ جانے والے راستے میں یہ مسجد واقع ہے اس کو حنّانہ کیوں کہتے ہیں اس سلسلے میں تین قول بیان ہوتے ہیں۔

۱- جب حضرت علیؑ کا جنازہ نجف کی طرف جا رہا تھا تو اس مقام سے گزر ہوا تو یہ تھوڑا جھک گیا تھا اسی وجہ سے اس کو حنانہ کہتے ہیں

۲- ابن زیاد نے 61 ہجری میں اسیران اہل حرم کے قافلہ کو اسی مقام پر روکا تھا تا کہ کوفہ کی آرائش ہوس کے تو زمین نے اس مصیبت پر نوحہ و گریہ کیا تھا اسی وجہ سے کہتے ہیں.

۳- اسی مقام پر اہلبیت حرمؑ نے سرہائے شہداء دیکھ کر نوحہ و زاری شروع کیا تھا اسلئے حنانہ کہا جاتا ہے۔

7۔ مرقد کمیل ابن زیاد نخعی: نجف اور کوفہ کے درمیان یہ مرقد واقع ہے، اس مقام پر سیخ وائلی کا مزار بھی موجود ہے جو عالم تشیع کی عظیم عربی زبان کے خطیب تھے اس خاندان میں بہت سے جید علما گزرے ہیں۔

8۔ مسجد عمران ابن شاہین۔

9۔ مسجد خضراء۔

10۔ مسجد شیخ طوسیؒ اور اسی کے پاس مرقد محمد مہدی بحر العلوم۔

11۔ مسجد بالا سر یا مسجد الرأس، قبر کے سرہانے جانب یہ مسجد واقع ہے۔

12۔ وادی السلام: اس قبرستان میں سلاطین، وزراء، امراء، علماء و دانشور دفن ہیں جناب ہودؑ و جناب صالح ؑ کی قبر یہیں پر ہے۔


2۔ دارالسلطنت اسلامیہ کوفہ:

★ مسجد کوفہ: اس مسجد کے بے شمار فضائل ہیں جو احادیث و روایات میں وارد ہوئے ہیں۔

★ بیت امام علیؑ ٭ حرم جناب مسلم ابن عقیلؑ ٭ مرقد مختار ثقفی ٭ مرقد جناب میثم تمار ٭ مسجد سہلہ اس مسجد کے بے شمار کرامات و فضائل بیان ہوئے ہیں۔ ٭ مسجد صعصعہ ابن صوحان ٭ مسجد زید ابن صوحان ٭ مرقد جناب خدیجہ بنت حضرت علیؑ ٭ مرقد اولاد الحسنؑ ٭ مرقد سید ابراہیم عمر ٭ قصر دار الامارۃ ٭ مسجد و مقام یونسؑ: اس مسجد کے سلسلہ میں اختلاف ہے بعض اہلسنت اسی مسجد کو مدفن جناب یونس نبیؑ بتاتے ہیں جبکہ بعض روایات میں اس مسجد کی مذمت بھی وارد ہوئی ہے کیونکہ پہلے یہ مسجد الحمراء کے نام سے جانی جاتی تھی جس کے بارے میں مذمت بیان ہوئی ہے۔ ٭ شہر کفل یہ مقام مدفن نبی خدا جناب ذی الکفلؑ ہے اسی شہر میں رشید ہجری کی آرامگاہ ہے اسی شہر میں وہ مقام ہے جہاں زید ابن علیؑ کو شہید کیا گیا تھا۔


3۔ شہر شہادت کربلاء:

★ مرقد مطہر حضرت امام حسینؑ ٭ روضہ حضرت ابو الفضل العباسؑ ٭ مرقد سید ابراہیم مجاب ٭ مرقد حبیب ابن مظاہرؑ ٭ گنج شہیداں ٭ مرقد جناب قاسم ابن حسنؑ ٭ نخل مریم ٭ مقام حر ابن یزید ریاحی ٭ خیمہ گاہ (مخیّم) ٭ مقام حضرت مہدی عج ٭ تلَّۂ زینبیہ ٭ مقام بازوئے سقائے حرم (داہنا اور بایاں بازو) ٭ مقام امام جعفر صادقؑ ٭ مقام عون و محمد ابن عبد اللہؑ ٭ مقام ابن فہد حلی ٭ مقام فضہ ٭ مقام امام علیؑ ٭ مقام موسی ابن جعفرؑ ٭مقام علی اکبرؑ ٭ مقام راس الحسینؑ ٭ مقام ام البنین ٭ مقام اخرس ابن کاظم ٭ مقام ابن حمزہ۔

مدارس علمیہ: مدرسہ محسنیہ، مدرسہ جعفریہ، مدرسہ احمدیہ، مدرسہ فیصلیہ، مدرسہ رضویہ، مدرسہ امام باقرؑ، مدرسہ مجاہد، مدرسہ بادکوبہ، مدرسہ صدر اعظم، مدرسہ حاج عبد الکریم، مدرسہ بقعہ، مدرسہ سلیمیہ، مدرسہ ہندیہ کبریٰ، مدرسہ ھندیہ صغریٰ، مدرسہ ابن فہد حلی، مدرسہ زینبیہ، مدرسہ مہدیہ، مدرسہ بروجردی، مدرسہ شریف العلماء، مدرسہ خطیب، مدرسہ امام صادقؑ، مدرسہ حسینیہ، مدرسہ سردار حسن خان۔

کتب خانہ: کتابخانہ جعفریہ، کتابخانہ سید الشہداء، کتابخانہ ابو الفضل العباس، کتابخانہ روضہ حسینیہ، کتابخانہ سید علی اکبر حائری، کتابخانہ مولیٰ عبد الحمید فراہانی، کتابخانہ رسول اعظم، کتابخانہ نہضت اسلامی، کتابخانہ حضرت زینب کبریٰ، کتابخانہ قرآن کریم، کتابخانہ حرم امام حسینؑ، کتابخانہ سید نصر اللہ حائری، کتابخانہ شیخ عبد الحسین تہرانی، کتابخانہ سید عبد الحسین کلیدارآل طعمہ، کتابخانہ سید حسین قزوینی، کتابخانہ سید محمد باقر۔

قبور علماء: شیخ محمد باقر وحید بہبہانی، سید علی طباطبائی، شیخ یوسف آل عصفور بحرانی، سید کاظم رشتی، سید احمد ابن کاظم رشتی، حاج جواد، شیخ جعفر ابن صادق، سید عبد اللہ بحرانی، سید محسن ابن سید عبد اللہ بحرانی، سید محمد ابن سید محسن بحرانی، سید محمد زینی حسینی، سید محمد مہدی موسوی شہرستانی، سید محمد حسین، سید محمد حسین مرعشی حسینی، مرزا محمد علی ابن محمد حسن مرعشی، سوید عبد الحسین حجت طباطبائی، سید حسن استرآبادی۔ یہ تمام علماء کرام ضریح کے اردگرد رواق میں مدفون ہیں، مرزا محمد تقی شیرازی۔


4۔ بغداد:

★ مرقد مطہر کاظمین (حضرات امام موسی کاظمؑ وامام محمد تقیؑ)۔ 

حرم میں مندرجہ ذیل علماء مدفون ہیں: ابو منصور محمد ابن محمد مبارک کرخی، ابن اثیر ابو الفتوح نصر اللہ ابن محمد، مؤید الدین ابو الحسن محمد ابن محمد قمی، خواجہ نصیر الدین طوسی، امیر عضد الدولۃ آل بویہ، یحییٰ ابن محمد نقیب علویین بصرہ.

★ مسجد براثا: جنگ نہروان سے واپسی پر حضرت علیؑ نے اسی مقام پر نماز ادا کیا تھا ٭ مسجد عتیقہ: کاظمین میں واقع ہے ٭ مرقد شیخ مفیدؒ، مرقد ابن قولویہ، مرقد امامزادہ موسی ابن ابراہیم، مرقد سید رضی و سید مرتضیٰ، مرقد ابو یوسف قاضی، مرقد نواب اربعہ، مرقد شیخ کلینی، مرقد ادریس حسنی، مرقد بُشر حافی، مرقد بہلول، قبر سید سلطان علی، قبر قنبر علی خادم امام دہمؑ، قبر ابو حنیفہ، قبر عبد القادر جیلانی، قبر شیخ معروف کرخی، قبر احمد ابن حنبل۔


5۔ سامراء:

★ مرقد مطہر حضرات امام علی نقیؑ  و امام حسن عسکریؑ ٭ مرقد مطہر نرجس خاتون مادر گرامی امام عصر عج۔ یہ قبر ضریح امام حسن عسکریؑ کے پشت پر واقع ہے. ٭ مرقد حکیمہ خاتون دختر امام محمد تقیؑ ٭ قبر مطہر حسین ابن علی الھادیؑ ٭ سرداب غیبت امام زمانہ ٭ مرقد سید محمد ٭ قبر امامزادہ محمد دری۔


6۔ حلہ:

مرقد امامزادہ حمزہ، مرقد امامزادہ قاسم، مرقد ابراہیم احمر العینین، آرامگاہ ابو دمیعہ، مسجد رد الشمس، مرقد حسن الاسمر، تپہ حراقہ، مرقد محمد الادر، مرقد اسماء بنت عمیس، مرقد اسماعیل طباطبا، مرقد حجرت ایوب، مرقد بکر ابن علی، مرقد عبد اللہ المحض، قبر عبد اللہ ابن زید، قبر عمران ابن علی، قبر عون ابن علی، مرقد قاسم ابن موسی کاظمؑ، قبر محمد الدیباج، قبر ابن ادریس حلی، قبر ابن حماد واسطی، قبر ابن سعید حلی، قبر محقق حلی۔


7۔ بصرہ:

مسجد جامع بصرہ یا مسجد علیؑ، قبر زید ابن صوحان، قبر ملا صدرا، قبر زبیر ابن عوام، قبر حسن بصری۔


8۔ دیگر زیارتی و سیاحتی مقامات:

مرقد سلمان فارسی مدائن، مرقد حذیفہ یمانی مدائن، مرقد ابراہیم ابن اشتر، مرقد طفلان مسلمؑ بمقام مسیب، مسجد جامع سامراء (المتوکل) دجلہ کے کنارے مغربی شمال بغداد میں واقع ہے۔

★ شہر ادر: دنیا کا سب سے پرانا شہر کہا جاتا ہے اس دور میں (فی الحال) "الورقاء" کے نام سے جانا جاتا تھا۔

★ شہر حیرہ: کوفہ سے چند کیلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔

★ برج نمرود: اسی بلندی سے نمرود نے جناب ابراہیمؑ کو آگ میں پھینکا تھا۔


ب: شام:

1۔ دمشق:

حرم مطہر جناب زینب بنت علیؑ، حرم سکینہ بنت الحسینؑ، مقام سر مطہر امام حسینؑ، محراب امام زین العابدینؑ، قبرستان باب الصغیر اس قبرستان میں متعد امامزادہ و اصحاب پیغمبر اسلامؐ کی قبریں ہیں، مقام ام کلثوم بنت حضرت علیؑ، مقام عبد اللہ ابن امام زین العابدینؑ جو عبد اللہ باہر کے نام سے مشہور تھے، مقام عبد اللہ ابن امام جعفر صادقؑ، مقام حمیدہ بنت مسلم ابن عقیل، مقام میمونہ بنت امام حسنؑ، مقام اسماء بنت عمیس، مقام فاطمہ صغریٰ بنت امام حسینؑ، مقام فضہ کنیز جناب فاطمہؑ، مؤذن رسول بلال حبشی، مقام عبد اللہ ابن جعفر طیار، مقام ام حبیبہ وام سلمیٰ زوجہ حضرت رسولخداؐ، قبر عبد اللہ ابن مکتوم، قبر صحابی رسول اوس ابن اوس، قبور اصحاب رسول من جملہ واثلہ ابن اسف، فضالہ ابن عبید، ابو الدرداء، سہل ابن ربیع انصاری، مقام سرہای مطہر شہدائے کربلا، قبور خدیجہ بنت امام سجادؑ، محسن ابن جعفر ابن امام ہادیؑ، عبد ابن محمد ابن اطرف، ابو الحسن ابن علی و حسن ابن عبد اللہ، عبد اللہ ابن امام محمد باقرؑ،محمد ابن ابو حذیفہ عتبہ ابن ربیعہ ابن عبد الشمس والی مصر منجانب حضرت علیؑ، عبد الرحمن ابن عباس ابن عبد المطلبؑ،عبد المطلب ابن ربیعہ ابن حارث ابن عبد المطلب، راس محمد ابن ابی بکر وغیرہ۔ مقام یحییٰ پیغمبر، مسجد قصب میں حجر اور ان کے ساتھیوں کے سروں کو جہاں رکھا گیا تھا، غار ہابیل و قابیل، غار اربعین، غار اصحاب کہف۔


سیاحتی مقامات:

مسجد اموی۔ اسی مسجد کے اندر جناب یحییٰؑ اور جناب ہودؑ کی قبر ہے بعض مورخین کے بیان کے مطابق۔ ایک مقام حضرت خضرؑ سے منسوب ہے جس کے سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ اس مقام پر جناب خضرؑ نے بارہا نماز ادا کیا تھا۔ قلعہ دمشق، کتابخانہ ظاہریہ۔


2۔ شہر حلب:

قبر جناب زکریاؑ مسجد اموی کے اندر، اس کو مسجد زکریاؑ بھی کہتے ہیں، قبر محسن ابن حسینؑ، مسجد النقطۃ مارت مروثا نامی معبد کے بغل میں واقع ہے اسی مقام پر وہ پتھر ہے جس پر سر امام حسینؑ رکھ کر دیر راہب میں رکھا گیا تھا۔ مرقد معروف ابن جمر آپ اسماعیل ابن امام جعفر صادقؑ کی اولاد میں تھے۔


3۔ دیگر زیارتی مقامات:

مقام حجر ابن عدی عذرا نامی قریہ میں، مقام عمار یاسرؑ و اویس قرنیؑ رقہ شہر، مقام حضرت زین العابدینؑ شہر حماۃ، مرقد محمد ابن حسنؑ، قبر جناب ہابیل زبدانی میں، مرقد حزقیلؑ نبی قریہ داریا میں، قبر حضرت موسیؑ بن عمران نیرب کے مقام پر، ربوہ کے مقام پر جناب موسیٰؑ و عیسٰیؑ کا مکان مقدس، البرزہ میں مقام حضرت ابراہیمؑ، مقام محمد ابن ابی حزیفہ صحابی امام علیؑ درعا کے عالقین نامی قریہ میں واقع ہے، مرقد فرزندان جعفر طیارؑ شہر حمص، مرقد مقداد ابن اسود شہر بیلا، مرقد دحیہ کلبی قریہ مزۃ الکلب میں، مرقد تمیم الداری دیر مران نامی قریہ میں واقع ہے۔


ج: ایران:

1۔ تہران:

شاہ عبد العظیم حسنی شہر ری، امامزادہ صالح تجریش، امامزادہ قاسم شمیران، امامزادہ عبد اللہ شہر ری، امامزادہ زید بازار مرکزی تہران، امامزادہ سید اسحاق ناصر نامی سڑک پر واقع ہے، امامزادہ اسماعیل کلہر نامی سڑک پر واقع ہے، مرقد امام خمینیؒ، امامزادہ پنجتن لویزان، امامزادہ حسن جنوب مغربی تہران، بی بی شہر بانو شہر ری، امامزادہ طاہر و امامزادہ حمزہ شہر ری نزدیک شاہ عبد العظیم۔


2۔ شہر مقدس قم:

حرم معصومہ قم، امامزادہ احمد ابن اسحاق، امامزادہ باورہ، پانچ امامزادہ قریہ گرگابی، چہل اختران اس مقام پر قبر موسی مبرقع ہے، قبر زید، امامزادہ حلمہ خاتون، امامزادہ سلیمان، شاہزادہ ابراہیم، امامزادہ شاہ ابراہیم، امامزادہ شاہ احمد قاسم، امامزادہ شاہ حمزہ، امامزادہ جعفر غریب، امامزادہ شاہ جمال، امامزادہ شاہزادہ زکریا، چھ امامزادہ قریہ قمرود میں واقع ہیں، امامزادہ شاہزادہ جعفر، امامزادہ عبد اللہ، امامزادہ علی ابن جعفر، امامزادہ معصومہ (زینب خاتون) امامزادہ ناصر، امامزادہ ہادی۔

مدارس علمیہ: مدرسہ فیضیہ، مدرسہ غیاثیہ، مدرسہ جہانگیر خان، مدرسہ رضویہ، مدرسہ ستیہ اسی مقام پر معصومہ قم نے سکونت اختیار فرمایا تھا، مدرسہ حجتیہ، مدرسہ امام خمینی، مدرسی مومنیہ، مدرسہ مرعشیہ، مدرسہ شہابیہ، مدرسہ امام مہدی، مدرسہ الہادی وغیرہم اور بھی متعدد مدارس ہیں۔

مساجد: مسجد مقدس جمکران، مسجد امام حسن مجتبیٰ، مسجد جامع، مسجد امام حسن عسکری، مسجد اعظم، مسجد فاطمیہ، مسجد پنجہ علی، مسجد حرم۔

بیت امام خمینی، بیت النور، کوہ خضر، مقابر علمائے عظام و مراجع کرام۔


3۔ مشہد مقدس:

حرم مطہر امام علی رضاؑ، مسجد گوہر شاد، مسجد ہفتاد و دو تن، مصلیٰ طوق، مرقد امامزادہ یحییٰ، مقبرہ خواجہ ربیع، مقبرہ خواجہ مراد، بقعہ نور اللہ، مرقد امامزادہ سید عبد العزیز، مرقد خواجہ ابا صلت، مقبرہ امامزادہ یاسر و ناصر، تخت امام و چشمہ امام، سقا خانہ اسماعیل طلائی حرم مطہر، آرامگاہ امامزادہ ہاشم و محتشم، مقبرہ امامزادہ سید محمد علوی، گنبد خشتی، بی بی حسینہ شہر تربت حیدریہ۔

نیشا پور مشہد: امامزادہ محمد محروق، مسجد جامع نیشاپور، تکیہ ابو الفضلی، مہدیہ نیشاپور، امامزادہ ابراہیم، فضل ابن شاذان، بی بی شطیطہ، بانو پسندیدہ، حیات مرزا، امامزادہ محمد و عبد اللہ، گنبد سبز، سعید ابن سلام مغربی، امامزادہ عبد اللہ، قدم گاہ امام رضاؑ۔

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی