خاندان کا خزانه
مؤلف : سید محسن حجازی زادہ
مترجم : منہال رضا خیرآبادی
مختصر فهرست مطالب كتاب
فصل اول: انفرادي و اجتماعي آداب
فصل دوم: انفرادی و اجتماعي حقوق
فصل سوم: فضائل و مناقب
فصل چهارم : اوصاف و خصوصيات
★ فصل پنجم: حيوانوں كے نصيحت آميز صفات
حرف تقدیم
بارگاہ خاتم الاوصیاء، قائم بامر الله، صاحب دعوۃ نبوی، صولت حیدری، عصمت فاطمی، حلم حسنی، شجاعت حسینی، عبادت سجادی، مآثر باقری، آثار جعفری، علوم کاظمی، حجج رضوی، جود تقوی، نقاوت نقوی، هیبت عسکری، غیبت الٰہی، بقیة الله فی الارضین حجة الله علی العالمین، طاؤس اهل جنت، مہدی امت، حجة بن الحسن المہدی العسکری میں هدیه ناچیز۔
برگ سبز است تحفه درویش
حرف انتساب
یہ ترجمہ اپنے دادا مرحوم، دادی مرحومہ اور والدہ مرحومہ کے نام سے معنون کرتا ہوں جن کی دینی آغوش نے شاہراہ اسلام پر گامزن بنایا۔
خاندان کا خزانہ
(آداب، حقوق، فضائل، اوصاف و نصائح)
مؤلف : سید محسن حجازی زادہ
ترجمہ : منهال رضا خیرآبادی
مقدمہ
عرصہ دراز سے تربیت اور آداب انسانی سے مزین ہونا بیدار مغز افراد کی توجہ کا مرکز رہا ہےطول تاریخ کا کوئی زمانہ اس اہم حقیقت کی اہمیت سے غافل نہیں رہا ہے۔
دقت نظر اور باریک بینی کے حامل افراد معتقد ہیں کہ زیور تربیت سے آراستہ ہوئے بغیر انسان ایک درندہ ہے جس سے ضرر و نقصان کی توقع کی جاتی ہے تمام آسمانی کتب میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ انسان کیلئے تربیت کی مثال روح جیسی ہے جس طرح جسم انسانی بغیر روح بے سود ہے اسی طرح انسان بغیر تربیت۔
حقائق سے باخبر افراد تربیتی مسائل، آداب و سنن سے خالی شاہراہ حیات کو تاریک جادہ اور ظلمات سے گھرے ہوئے صحرا سے تعبیر کرتے ہیں، جس پر چلنے والا ذلت و شقاوت سے دوچار ہوتا ہے کیونکہ ذلت و رسوائی سے بھر پور ہوتا ہے۔
مصلح افراد کہتے ہیں انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ادب ہے جس کے بغیر انسان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، تربیت کے بغیر انسانی حیات وحشی جانوروں جیسی ہوتی ہے اور صفحہ حیات پر ظلم و ستم، جبر و استبداد جیسے آثار نمایاں ہوتے ہیں، تربیت اساس حیات، بنیاد فضائل و کمال، چراغ راہ ہے اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں سعادت کا راہنما ہے۔
بیدار دل دانشور سب زیادہ تربیت کے سلسلہ میں فکرمند نظر آتے ہیں، حق و انصاف یہ ہے کہ بشری حیات میں تربیت سے زیادہ کوئی چیز اہمیت کی حامل نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ تربیت حیات بشر کا ضروری ترین اور بنیادی مسئلہ ہے توبے جا نہ ہوگا۔
یہ بات سب کو پتہ ہے کہ عرصہ حیات میں ہر انسان کے کچھ حقوق ہیں مثلاً حق حیات، حق عقل، حق تعلیم و تعلم، حق آزادی، بقدر ضرورت طبیعت کے دسترخوان سے استفادہ کرنا اور حق کار و کسب یا اس جیسے دوسرے حقوق جو طول تاریخ میں بشر کیلئے بیان ہوتے رہے ہیں۔
یہ امر طے شدہ ہے کہ ہر انسان کے حقوق کی رعایت بھی ضروری ہے اگر کوئی کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالتا ہے تو یہ ظلم و جرم شمار ہو گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نور تربیت سے اپنے وجود خاکی کو منور کئے بغیر ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت ممکن ہے؟
تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں، ہر صنف و طبقہ کے افراد نے، ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت سے انحراف کرتے ہوئے ظلم و جور پیشہ بن کر زندگی گذارتے رہے ہیں۔
ماضی میں ہونے والے مظالم اور موجودہ دور میں صاحبان طاقت (سپر پاور) کے ذریعہ مظلوم اقوام و ملل پر ہر روز نت نئے مظالم تربیت سے عاری ہونے کا نتیجہ نہیں ہیں؟
سچ ہے اگر کاروان بشریت کی ہر فرد نور تربیت سے منور ہوتی تو عالم امکان میں ظلم وجور کی جگہ عدل و انصاف، خود غرضی و خود پسندی کی جگہ کرامت و ایثار، عفو و در گذر، باہمی الفت و محبت کا دور دورہ ہوتا۔
ہم نےاب تک دوسروں پہ کتنے مظالم ڈھائے ہیں یا ہم پر دوسروں نے کتنے مظالم ڈھائے ہیں آپ کی نظر میں اگر ہمارے دل و جان نور ربانی سے منور ہوتے تو ہم کبھی ظلم و ستم کرتے؟
دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے؟
ہم پر ظلم و اسبتداد ہوتے؟
مسئلہ تربیت کی اہمیت و عظمت کے پیش نظر یہ خیال خام ہےکہ سماج میں زندگی گذارنے والا کوئی شخص اس سے بے خبر ہو اور اسکی افادیت سے نابلد ہو۔
حیات انسانی کےابتدائی ادوار سے دلسوز افراد تربیت سے آراستہ کرنے انسانی حقائق و فضائل اخلاقی سے آراستہ بنانے کی فکر کرتے رہے ہیں اور زندگی کے مختلف موڑ پر عملی اقدام بھی کرتے رہے ہیں لیکن انسانی راہبروں کے درمیان انبیاءؑ و ائمہ معصومینؑ نیز آسمانی کتابوں کا اپنا علاحدہ مقام و مرتبہ رہا ہے، حکماء و عرفاء کے مثبت اقوال و فرمودات سے قطع نظر نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ انکی عقل و دانش محدود ہے لہٰذا اس پر مکمل بھروسہ و اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے، ہاں جو اقوال و نصائح قرآن و سنت کے مطابق ہوں انہیں تسلیم کرتے ہوئے بقیہ سے صرف نظر کر لینا چاہئے، انبیاء و ائمہ معصومین کی تہذیب و ثقافت کا منبع چونکہ قرآن ہے لہٰذا ہر ہر لمحہ حیات انکا ہمارے لئے نمونہ ہے، تربیتی، اجتماعی، سیاسی، اقتصادی و خانوادگی قوانین کا مجموعہ وحی اپنی جامعیت و کمال کے باعث دیگر قانونی مجموعہ جات سے قابل مقائسہ نہیں ہے کیونکہ وحی اس خالق کی جانب سے ہوتی جو انسانی وجود کے مادی و معنوی ضروریات کو بدرجہ اتم جانتا اور پہچانتا ہے اسلئے جو کچھ بیان کرتا ہے وہ عقل و فطرت انسانیت خیر دنیا و آخرت کاملاً ہمآہنگ ہوتا ہے، یہی راز ہے کہ دنیا کے کسی بھی مکتبۂ فکر میں انبیاء و ائمہ جیسے کاملترین نمونہ عمل نہیں پائے جاتے ہیں ۔
مکتب انبیاء و ائمہ میں چونکہ انسان خدا اور روز قیامت کا معتقد ہوتا ہے لہٰذا اسکے اعلیٰ ترین اصول تربیت سے اپنے وجود کو منور کرنے کی حتٰی المقدور سعی کرتا ہے اسکی ذات سے کسی جاندار کو ضرر و نقصان نہیں پہونچتا ہے، اسکی حیات تمام انسانوں کیلئے منبع خیر و سعادت مایۂ برکت و مکرمت قرار پاتی ہے۔
پیغمبرانہ مکتب تربیت کے زیر سایہ پروان چڑھنے والا انسان عالم بصیر و دانشمند بینا بنتا ہے، اسکا وجود نفع بخش ،موجود خیر، بے نظیر مشکلکشا، سچا انسان، باوفا، جوانمرد، صفا پیشہ، با مروت، عادل، حکیم وارستہ، آگاہ پیراستہ، زندہ کامل، خلیفہ واقعی ربانی ہو جاتا ہے۔
تربیت کے مستحکم اصول و قوانین نور قلب حلال مشکلات فروغ جان صفائے روان، منبع برکت ظرف حقیقت اور ریشہ شرافت ہے، تربیت انسانی وقار بشریت کا سرمایہ، مایہ حیات، باعث آسائش زندگی، سبب پایندگی، راہ بندگی، دارین کی سعادت ہے۔
تربیت انسان و حیوان کی بلند ترین فصل ممیز ہے، کامیابیوں کی علت، کامرانی کی دلیل، شعار حریت، پرچم افتخار، عزت معاشرہ اور قرب خدا کا بہترین راستہ ہے۔
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: دنیا و آخرت میں بشر کی سعادت قرآن پر عمل اور اہلبیتؑ عصمت و طہارت کی اطاعت میں مضمر ہے۔
آخر کلام میں چند ضروری نکات کا تذکرہ ضروری ہے:
۱۔ کتاب کے تمام مطالب قرآن و احادیث اہلبیتؑ اور بعض بزرگوں کے کلمات سے ماخوذ ہیں۔
۲۔ تمام امور یا مستحب ہیں یا مکروہ، جہاں کہیں واجب یا حرام کا تذکرہ ہوا ہے اسکی نشاندہی کر دی گئی ہے۔
۳۔ اختصار اور مطالب کو آسان و عام فہم بنانے کی غرض سے عربی متون کو حذف کر دیا گیا ہے اور ترجمہ پر اکتفا کی گئی ہے۔
۴۔ مستحبی امور میں کچھ خاصیتیں اور فضیلتیں ہیں اور اسی طرح سے ہر مکروہ کے کچھ نقصان ہیں لہٰذا حتی الامکان انسان کو مستحب پر عمل اور مکروہات سے اجتناب کرتے رہنا چاہئے۔
۵۔ قارئین کرام سے گذارش ہے تعمیری تنقید نیز کمی و کاستی سے دریغ نہ کرتے ہوئے اصلاحات کی نشاندہی فرمائیں اور ہماری نیک توفیقات کیلئے بارگاہ رب الارباب میں دعا کرتے رہیں، اللہ ہم سب کو آداب اسلامی سے مزین ہونے کی توفیق کرامت فرمائے ۔
والسلام
سید محسن حجازی زادہ
فصل پنجم
حیوانوں کے نصیحت آمیز صفات
شیر کے صفات
۱۔ شجاع ترین حیوان ہے۔ ۲۔ اسکے تین سو سے زائد القاب و اسماء ہیں۔ ۳۔ پانی کم پیتا ہے۔ ۴۔ جس میں کتے نے پیشاب کیا ہو اس پانی کو منہ سے نہیں لگاتا ہے۔ ۵۔ آگ سے ڈرتا ہے۔ ۶۔ بھوک و پیاس برداشت کرنے کی طاقت دوسرے جانوروں سے زیادہ ہے۔ ۷۔ ہیبت و صولت بے پناہ رکھتا ہے۔ ۸۔ بلند ہمت ہوتا ہے۔ ۹۔ بھوک سے مر سکتا ہے مگر دوسروں کی بچی ہوئی غذا استعمال نہیں کرتا ہے۔ ۱۰۔ سخی ہوتا ہے بچی ہوئی غذا دوسروں کو دیدیتا ہے۔ ۱۱۔ اگر عورت حائضہ ہو تو بھوک کی شدت کے باوجود اسکے قریب نہیں جاتا ہے۔ ۱۲۔ نجابت و حیا دار ہوتا ہے۔ ۱۳۔ سوتا کم ہے۔ ۱۴۔ شراب کو منہ نہیں لگاتا۔ ۱۵۔ سادات و اولاد زہراؑ کو اذیت نہیں دیتا ہے۔
چیتا کے صفات
۱۔ دہن خوشبو دار ہوتا ہے۔ ۲۔ شراب پینے کو پسند کرتا ہے۔ ۳۔ جس کو بھی دیکھتا ہے اس پر حملہ آور ہو جاتا ہے۔ ۴۔ سوتا خوب ہے، غذا کے بعد تین شب و روز سوتا ہے۔ ۵۔ غرور و تکبر سے بھرا ہوتا ہے، جب آسمان میں چاند کو چمکتے دیکھتا ہے تو بلندی پر جا کر کوشش کرتا ہے کہ اس پر حملہ کر دے کہ کیوں میرے اوپر ہے۔ ۶۔ خود شکار کرتا ہے، کسی کا شکار نہیں کھاتا ہے۔
کتے کے صفات
۱۔ رات کو جاگتا ہے اور دن سوتا ہے۔ ۲۔ سوتے وقت دونوں پلکوں کو بند نہیں کرتا ہے۔ ۳۔ کہیں بھی جاتا ہے تو خالی ہاتھ جاتا ہے۔ ۴۔ اگر مالک کا دسترخوان بچھ جاتا ہے وہاں سے ہٹتا نہیں ہے۔ ۵۔ اگر اسکو مارتے اور بھگاتے ہیں تو ناراض نہیں ہوتا ہے، معمولی اظہار محبت سے واپس آجاتا ہے۔ ۶۔ اپنے مالک کا وفادار ہوتا ہے۔ ۷۔ مالک کو مرض، فقر و غنا کے عالم میں چھوڑتا نہیں ہے۔ ۸۔ مالک کی موجودگی اور عدم موجودگی میں اسکے سامان کی حفاظت کرتا ہے۔ ۹۔ کسی سے اور کسی جگہ خوف نہیں کھاتا ہے۔ ۱۰۔ معمولی سی چیز پر قناعت کر لیتا ہے۔ ۱۱۔ اسکا کوئی گھر نہیں ہوتا ہے۔ ۱۲۔ ہمیشہ بھوکا رہتا ہے کبھی سیر نہیں ہوتا ہے۔ ۱۳۔ ایک کوئی مسلمان کا قتل ہوجائے تو اسکا خون پینے سے گریز کرتا ہے۔ ۱۴۔ اپنے مالک کے سامنے حقیر و ناتواں بن کر رہتا ہے۔ ۱۵۔ شکر گزار رہتا ہے اور اسکی علامت دم کو ہلانا ہے۔ ۱۶۔ اگر کوئی اسکے مالک کو ستاتا ہے تو اسکو وہ بھی ستاتا ہے اس سے نفرت کرتا ہے۔ ۱۷۔ سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے اور سیکھتا بھی ہے۔ ۱۸۔ اپنے مالک کے مرنے کے بعد بھی حفاظت کرتا ہے۔ ۱۹۔ کھانا نہ کھانے سے اسکی جسمانی قوت کم نہیں ہوتی ہے۔ ۲۰۔ نجس حیوان ہے۔ ۲۱۔ بے انتہا خسیس و بخیل ہے، اپنی غذا سے اپنے ہم جنس کو دینا بھی گوارا نہیں کرتا ہے۔ ۲۲۔ مردار کھاتا ہے اسکو تازہ گوشت سے زیادہ پسند کرتا ہے، مردار کھا کر قے کرتا ہے اور پھر اسکو کھاتا ہے۔ ۲۳۔ دوسروں سے غصہ ہوتا ہے اور انسانوں پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔ ۲۴۔ صبح کے وقت سوجاتا ہے۔ ۲۵۔ دہن بد بو دار ہوتا ہے۔
بلی کے خصوصیات
۱۔ صاف ستھرا جانور ہے وہ اپنے فضلہ کو بھی چھپاتا ہے۔ ۲۔ چاپلوس ہے۔ ۳۔ مادہ کے انتخاب کرنے میں بہت ہی خوش سلیقہ ہے۔ ۴۔ نہایت ہی بخیل و خسیس ہے۔ ۵۔ چور ہے۔ ۶۔ منافقت پائی جاتی ہے، ابن الوقت ہے، سالہا سال کی خدمت کرو لیکن جب مالک مرجاتا ہے تو اسکے کان اور دماغ کو کھانے کیلئے آمادہ رہتی ہے۔ ۷۔ موذی اور بد جنس (بد معاش) جانور ہے۔ ۸۔ شکم پرست ہے، شکم سیر ہوگی تب بھی کھانے سے گریز نہیں کرے گی۔
بھیڑیئے کے صفات
۱۔ گرسنگی کے عالم میں قوت صبر زیادہ ہوتی ہے۔ ۲۔ ایک آنکھ ہمیشہ کھلی رکھتا ہے۔ ۳۔ عموماً لوگوں پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ۴۔ خطرہ کے وقت دوسرے بھیڑیوں کو اپنی چیخ سے جمع کر کے اجتماعی طور پر حملہ آور ہوتا ہے۔ ۵۔ تربیت سے رام نہیں ہوتا ہے اور نہ ہی انسانوں سے مانوس ہوتا ہے۔ ۶۔ بھیڑیئے ایک دوسرے پر اعتماد نہیں کرتے ہیں۔ ۷۔ اگر کوئی زخمی ہو جاتا ہے تو دوسرے اسکو کھا جاتے ہیں۔ ۸۔ مردہ بھیڑیئے کا گوشت نہیں کھاتے ہیں۔ ۹۔ ایک فرسخ کی دوری سے گوسفند کی بو محسوس کر کے تین تین روز تک اسکے تعاقب میں رہتا ہے۔ ۱۰۔ حسد و کینہ سے بھرا ہوا جانور ہے۔
اونٹ کے صفات
۱۔ بہت ہی قناعت پسند ہے۔ ۲۔ اپنے مالک کا فرمان بردارہوتا ہے۔ ۳۔ بھوک و پیاس میں صبر کرتا ہے۔ ۴۔ قوی جانور ہے۔ ۵۔ بہت ہی با ذوق و با شعور ہے۔ ۶۔ دور بین ہوتا ہے۔ ۷۔ قوت سامعہ و حافظہ زیادہ قوی ہوتی ہے۔ ۸۔ کینہ رکھنے والا ہے۔ ۹۔ زیادہ بوجھ اٹھانے کی طاقت رکھتا ہے۔
گھوڑے کے خصوصیات
۱۔ با عزت و با شرف حیوان ہے۔ ۲۔ بلند ہمت ہوتا ہے۔ ۳۔ سیکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ۴۔ بہت ہی نجیب ہے، اپنے محارم سے رابطہ برقرار نہیں کرتا ہے۔ ۵۔ اپنے مالک کے رو برو نہایت با ادب ہے، جب مالک اسکی پشت پر سوار ہوتا ہے تو یہ بول و براز سے پرہیز کرتا ہے۔ ۶۔ مالک کی عظمت کو پیش نظر رکھتا ہے۔ ۷۔ بصارت بہت ہی تیز ہوتی ہے۔ ۸۔ متکبر و مغرور ہوتا ہے۔ ۹۔ شہوات سے پر ہوتا ہے۔ ۱۰۔ بے وفا ہوتا ہے اگر مالک جنگ میں زخمی ہوکر گر جائے تو دوسرے کو اپنی پشت پر سورا ہونے کی اجازت دیدیتا ہے۔ لیکن وہ گھوڑے جو پیغمبرانؑ الٰہی اور حضرات ائمہ معصومینؑ کے تصرف میں تھے اس سے مستثنیٰ تھے۔
گائے کے صفات
۱۔ مالک کی اطاعت گذار و فرمان بردار ہوتی ہے۔ ۲۔ نہایت ہی با وقار جانور ہے جس کا اندازہ اسکے راستہ چلنے سے لگتا ہے۔ ۳۔ بڑے چھوٹوں کی سخت نگہبانی کرتے ہیں۔ ۴۔ متحد رہتے ہیں اور ایک ساتھ دشمن پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ۵۔ موسم کے سرد و گرم سے عاجز ہیں۔ ۶۔ بہت ہی حیا دار ہوتی ہے۔ ۷۔ اپنے بچوں کو اپنے دودھ سے بھرپور سیراب کرتی ہے۔
مسخ شدہ جانور
حضرت علیؑ نے فرمایا: میں نے پیغمبر اکرمؐ سے سوال کیا کہ مسخ شدہ حیوانات کون کون سے ہیں؟ آنحضرت نے فرمایا: 13 ہیں: ہاتھی، خرس (بھالو)، بندر، مارماہی (سانپ جیسی مچھلی)، کاکروچ، چمگاردڑ، کرم سیاہ آبی (جونک)، عقرب (بچھو)، مکڑی، خرگوش، سہیل (ایک قسم کا دریائی جانور)، زہرہ (ایک قسم کا دریائی جانور)۔
حضرت علیؑ نے رسولخداؐ سے انکے مسخ ہونے کی علت و سبب دریافت کیا تو آنحضرت نے ارشاد فرمایا:
۱۔ ہاتھی: وہ مرد جو لواطہ (اغلام بازی) کا عادی تھا۔ ۲۔ خرس (بھالو): وہ مرد مابون جو مردوں کو اپنے پاس بلاتا تھا۔ ۳۔ سور: نصرانی گروہ جس نے خدا سے آسمانی مائدہ کا مطالبہ کیا اور وہ مطالبہ پورا ہوا پھر بھی ایمان نہ لائے اور کافر ہی رہے۔ ۴۔ بندر: وہ افراد جو اپنے دین کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شنبہ کے روز مچھلی کا شکار کرتے تھے۔ ۵۔ مار ماہی (سانپ کے مثل ایک مچھلی ہوتی ہے): وہ دیوث شخص جو اپنی زوجہ کو دوسروں کے اختیار میں دیتا تھا۔ ۶۔ کاکروچ: وہ بادیہ نشین جو حجاج کے قافلہ کو لٹنے کیلئے سر راہ کھڑے ہوتے تھے۔ ۷۔ چمگادڑ: وہ چور جو لوگوں کے درختوں سے خرمے چرایا کرتا تھا ۔ ۸۔ کرم سیاہ (جونک): ایسا چغلخور جو لوگوں اور احباب کے درمیان جدائی پیدا کرتا تھا۔ ۹۔ عقرب (بچھو): وہ شخص تھا جس کےزبان سے کوئی محفوظ نہیں تھا۔۱۰۔ مکڑی: وہ عورت جو اپنے شوہر سے خیانت کرتی تھی۔ ۱۱۔ خرگوش: ایسی عورت تھی جو غسل حیض وغیرہ نہیں کرتی تھی۔ ۱۲۔ سہیل (ایک قسم کا سمندری حیوان): یمن میں ایک گمرگچی (باجگیر) تھا۔ ۱۳۔ زہرہ (ایک قسم کا سمندری حیوان): ایک نصرانی عورت تھی جس نے ہاروت و ماروت کو فریفتہ کر لیا تھا (ناہید)۔
حیوانات کی تسبیح
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمٰوَاْتُ السَّبْعُ وَ الْأَرْضُ وَ مَنْ فِیْھِنَّ وَ إِنْ مِّنْ شَیْءٍ إِلَّاْ یُسَبِّحُ بِحَمْدِہِ وَلٰکِنْ لَاْتَفْقَھُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ إِنَّهُ کَاْنَ حَلِیْماً غَفُوْراً۔ (سورہ اسراء یا بنی اسرائیل: ۴۴)
ساتوں آسمان و زمین اور جو کچھ انکے درمیان ہیں وہ سب اللہ کی تسبیح کرتے ہیں، کوئی شئے ایسی نہیں ہے جو تسبیح و حمد الٰہی میں مصروف نہ ہو لیکن ہم ان کی تسبیح کو سمجھ نہیں پاتے ہیں اور بیشک خدا حلیم و غفور ہے۔
۱۔ مور: مَولَایَ إِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ وَ أَغْنَزْتُ بِزَیْنِیْ فَإغْفِرْلِیْ۔
۲۔ مرغ: سُبُّوْحٌ قُدُوّسٌ رَبُّ الْمَلَاْئِکَةِ وَ الرُّوْحِ أُذْکُرِ اللہَ یَاْ غَاْفِلُوْنَ۔
۳۔ پرندہ: یَاْ إِلٰهَ الْحَقِّ أَنْتَ الْحَقِّ وَقَوْلُکَ الْحَقِّ یَاْ اللہُ یَاْ حَقُّ۔
۴۔ گرگ (بھیڑیا): أَللّٰهُمَّ إحْفِظْنِیْ مِنْ عَدُوِّیْ۔
۵۔ شاہین: یَاْ کَاْشِفَ الْبَلِیَّاْتِ وَ یَاْ عَاْلِمَ الْخَفِیَّاْتِ۔
۶۔ ہدہد: أَلْمُلْکُ لِلہِ الْوَاْحِدِ الْقَهَؔاْرِ مَا أَشْقیٰ مَنْ عَصیٰ اللہ۔
۷۔ بطخ: غُفْرَاْنَکَ یَاْ رَبِّ۔
۸۔ طوطا: مَنْ ذَکَرَ رَبَّهُ غَفَرَ ذَنْبُهُ۔
۹۔ گوریا: أنْتَ اللہُ لَاْ إِلٰهَ إِلَّاْ أَنْتَ یَاْ اَللہُ لِحَفَظَنِیْ مِنْ شَرِّ السَّنَاْنِیْرِ الْجِیْرَاْنَ وَ الفنی ولو الصبیان یَاْ حَنَّاْنُ یَاْ مَنَّاْنُ۔
۱۰۔ پرستو: سورہ حمد کی تلاوت کرتی ہے۔
۱۱۔ اونٹ: یَاْ مُذِلَّ الْجَبَّاْرِیْنَ۔
۱۲۔ کبک (تیتر): بِالشُّکْرِ یَدُوْمُ النِّعَم وَ بِالْکُفْرِ یُجِیْرُ النِّقَم وَأشْکُرُوْا النِّعْمَةَ رَبُّکُمْ وَ لَاْ تَظُنُّوْا بِاللہِ ظَنَّ السُّوْءَ۔
۱۳۔ بلبل: سُبْحَاْنَ اللہِ کَمْ تَلْعَبُوْنَ سُبْحَاْنَ اللہِ کَمْ تَضْحَکُوْنَ أَلَیْسَ لِلْمَوْتِ تُوْلِدُوْنَ أَلَیْسَ لِلْخَرَاْبِ تَبْنَوْنَ أِلَیْسَ لِلْفَنَآءِ تَجْمَعُوْنَ أَلَیْسَ غَداً تَمُوْتُوْنَ وَ فِی التُّرَاْبِ تَدْفِنُوْنَ کَلَّاْ سَوْفَ تَعْلَمُوْنَ۔
۱۴۔ زراف (زرّافہ): سُبْحَاْنَ یَاْ فَاْلِقَ الْأَصْبَاْح وَالْأَنْوَاْرِ وَمُرْسِلَ الرِّیَاْحِ فِیْ الْأَقْطَاْرِ وَمُنْشِیءَ السَّحَاْبِ ذُوْ الْأَمْطَاْرِ وَمَجْرِیَ السُّیُوْلِ فِیْ الْأَنْهَاْرِ وَمَنْبَتِ الْعَشَبِ مَعَ الْأَشْجَاْرِ وَمَخْرَجَ الْحبُوْبِ وَالثِّمَاْرِ فَاسْتَبْشِرُوا یَاْ مَعْشِرَ الْأَطْیَاْرِ بِسَعَةِ الرِّزْقِ مِنَ الْکَرِیْمِ الْغَفَّاْرِ سُبْحَاْنَ خَاْلِق السَّمٰوَاْتِ وَالْأَفْلَاْکِ الْمُدَبِّرَاْتِ، سُبْحَاْنَ خَاْلِق الْأَرْضِیْنَ الْمَدْحُوْرَاْتِ، سُبْحَاْنَ الْبُرُوْج الطَّاْلِعَاْتِ وَالْکَوَاْکِبِ السَّیَّاْرَاْتِ، سُبْحَاْنَ مُرْسِلُ الرِّیَاْح الْمُسَخَّرَاْتِ وَالسَّحَاْبِ الْمُمْطِرَاْتِ سُبْحَاْنَ رَبّ الْبِحَاْرِ الزَّاْخِرَاْتِ سُبْحَاْنَ رَبّ الْجِبَاْلِ الشَّاْمِخَاْتِ، سُبْحَاْنَ مُنْشِیءُ الْحَیْوَاْنِ وَالنَّبَاْتِ سُبْحَاْنَ خَاْلِقُ النُّوْرِ وَالظُّلَمَاْتِ سُبْحَاْنَ مَنْ یُحْیِیَ الْعِظَاْمَ بَعْدَ مَمَاْتِ۔
۱۵۔ چیتا: سُبْحَاْنَ الَّذِیْ یَعْلَمُ عَجِیْجَ الْوُحُوْشِ فِیْ الْفَلَوَاْتِ وَالتَّلَاْفِ الْحَیِّتَاْنِ۔
۱۶۔ اونٹ: کَفیٰ بِالْمَوْتِ وَاْعِظٌ۔
۱۷۔ شیر: أَللّٰهُمَّ لَاْ تُسَلِّطُنِیْ عَلیٰ أَحدٍ مِنْ أَهلِ الْمَعْرُوْفِ۔
۱۸۔ کتا: کَفیٰ بِالْمَعَاْصِیْ ذُلّاً۔
۱۹۔ ہاتھی: لَاْ یُغْنِیُ عَنِ الْمَوْتِ حِیْلَةٌ وَ لَاْ قُوَّۃٌ۔
۲۰۔ خرگوش: أَلْوَیْلُ الْمُذْنِبُ الْمُصِرُّ۔
۲۱۔ لومڑی: أَلدُّنْیَاْ دَاْرُ الْغُرُوْرِ۔
۲۲۔ ہرن: حَسْبِیَ اللہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلِ۔
۲۳۔ فاختہ: فَقَدْتُکُمْ فَقَدْتُکُمْ "یہ لوگوں پر نفرین کرتا ہے"۔
۲۴۔ عقاب: فِی الْبُعْدِ مِنَ النَّاْسِ رَوْحَةٌ۔
۲۵۔ ابابیل: قَدْ مُوْجِزاً تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللہِ
۲۶۔ گھوڑا: سُبْحَاْنَ الْمَلِکِ الْقُدُّوْسِ۔
۲۷۔ مینڈک: یَاْ مُسَبِّحاً بِکُلِّ لِسَاْنٍ وَ مَذْکُوْرٍ بِکُلِّ مَکَاْنٍ۔
حیوانات کی عمریں
۱۔ خرگوش: 7 سال۔ ۲۔ بلی: 13 سال۔ ۳۔ گوسفند: 12 سال۔ ۴۔ بکری: 15 سال۔ ۵۔ کتا: 15 سال۔ ۶۔ گائے: 25 سال۔ ۷۔ سور: 25 سال۔ ۸۔ گھوڑا: 30 سال۔ ۹۔ شیر: 40 سال۔ ۱۰۔ اونٹ: 40 سال۔ ۱۱۔ ہاتھی: 100 سال۔ ۱۲۔ نہنگ (وہیل مچھلی): 100 سال۔ ۱۳۔ کاکروچ: 300 سال۔ ۱۴۔ کچھوا: 350 سال۔ ۱۵۔ مرغ: 14 سال۔ ۱۶۔ کبک (تیتر): 15 سال۔ ۱۷۔ سہرہ: 15 سال۔ ۱۸۔ قرقاول: 16 سال۔ ۱۹۔ چکاوک: 18 سال۔ ۲۰۔ بلبل: 18 سال۔ ۲۱۔ کبوتر: 20 سال۔ ۲۲۔ قناری: 24 سال۔ ۲۳۔ مور: 24 سال۔ ۲۴۔ غاز: 4 سال۔ ۲۵۔ مرغ سقا: 5 سال۔ ۲۶۔ طوطا: 60 سال۔ ۲۷۔ مرغ ماهی خوار: 6 سال۔ ۲۸۔ کوا: 100 سال۔ ۲۹۔ عقاب: 100 سال۔
منابع و مصادر
۱۔ رساله حقوق = امام سجادؑ۔
۲۔ کشکول = علامه شیخ بهائیؒ۔
۳۔ حلیه المتقین = علامه مجلسیؒ۔
۴۔ کامل الزیارات = ابن قولویه قمیؒ۔
۵۔ سنن النبیؐ = علامه طباطبائیؒ
۶۔آداب معنوی = روح اللہ ابر قوی۔
۷۔ شب نورانی = سید محمد طباطبائیؐ۔
۸۔ یٰس قلب قرآن = سید محمد طباطبائیؒ۔
۹۔ کشکول = زفره ای۔
۱۰۔ طب النبیؐ = دہ سرخی۔
۱۱۔ بهشت خانواده = سید جواد مصطفویؒ
۱۲۔ زاد المعاد = علامه مجلسیؒ
۱۳۔ بحار الانوار = علامه مجلسیؒ
۱۴۔ یکصد و پنجاہ موضوع از قرآن = اکبر دهقان
۱۵۔ مفاتیح الجنان = شیخ عباس ؒقمي
تمت بالخیر به نستعین و هو خیر ناصر و معین
ایک تبصرہ شائع کریں