خاندان کا خزانہ - فصل چهارم: اوصاف

via pinterest


خاندان کا خزانه


مؤلف : سید محسن حجازی زادہ


مترجم : منہال رضا خیرآبادی


مختصر فهرست مطالب كتاب


فصل اول: انفرادي و اجتماعي آداب

فصل دوم: انفرادی و اجتماعي حقوق

فصل سوم : فضائل و مناقب

چهارم: اوصاف و خصوصيات

فصل پنجم: حيوانوں كے نصيحت آميز صفات 

حرف تقدیم

    بارگاہ خاتم الاوصیاء، قائم بامر الله، صاحب دعوۃ نبوی، صولت حیدری، عصمت فاطمی، حلم حسنی، شجاعت حسینی، عبادت سجادی، مآثر باقری، آثار جعفری، علوم کاظمی، حجج رضوی، جود تقوی، نقاوت نقوی، هیبت عسکری، غیبت الٰہی، بقیة الله فی الارضین حجة الله علی العالمین، طاؤس اهل جنت، مہدی امت، حجة بن الحسن المہدی العسکری میں هدیه ناچیز۔

برگ سبز است تحفه درویش


حرف انتساب

    یہ ترجمہ اپنے دادا مرحوم، دادی مرحومہ اور والدہ مرحومہ کے نام سے معنون کرتا ہوں جن کی دینی آغوش نے شاہراہ اسلام پر گامزن بنایا۔






خاندان کا خزانہ


(آداب، حقوق، فضائل، اوصاف و نصائح)


مؤلف : سید محسن حجازی زادہ


ترجمہ : منهال رضا خیرآبادی




مقدمہ

    عرصہ دراز سے تربیت اور آداب انسانی سے مزین ہونا بیدار مغز افراد کی توجہ کا مرکز رہا ہےطول تاریخ کا کوئی زمانہ اس اہم حقیقت کی اہمیت سے غافل نہیں رہا ہے۔

    دقت نظر اور باریک بینی کے حامل افراد معتقد ہیں کہ زیور تربیت سے آراستہ ہوئے بغیر انسان ایک درندہ ہے جس سے ضرر و نقصان کی توقع کی جاتی ہے تمام آسمانی کتب میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ انسان کیلئے تربیت کی مثال روح جیسی ہے جس طرح جسم انسانی بغیر روح بے سود ہے اسی طرح انسان بغیر تربیت۔

    حقائق سے باخبر افراد تربیتی مسائل، آداب و سنن سے خالی شاہراہ حیات کو تاریک جادہ اور ظلمات سے گھرے ہوئے صحرا سے تعبیر کرتے ہیں، جس پر چلنے والا ذلت و شقاوت سے دوچار ہوتا ہے کیونکہ ذلت و رسوائی سے بھر پور ہوتا ہے۔

    مصلح افراد کہتے ہیں انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ادب ہے جس کے بغیر انسان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، تربیت کے بغیر انسانی حیات وحشی جانوروں جیسی ہوتی ہے اور صفحہ حیات پر ظلم و ستم، جبر و استبداد جیسے آثار نمایاں ہوتے ہیں، تربیت اساس حیات، بنیاد فضائل و کمال، چراغ راہ ہے اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں سعادت کا راہنما ہے۔

    بیدار دل دانشور سب زیادہ تربیت کے سلسلہ میں فکرمند نظر آتے ہیں، حق و انصاف یہ ہے کہ بشری حیات میں تربیت سے زیادہ کوئی چیز اہمیت کی حامل نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ تربیت حیات بشر کا ضروری ترین اور بنیادی مسئلہ ہے توبے جا نہ ہوگا۔

    یہ بات سب کو پتہ ہے کہ عرصہ حیات میں ہر انسان کے کچھ حقوق ہیں مثلاً حق حیات، حق  عقل، حق تعلیم و تعلم، حق آزادی، بقدر ضرورت طبیعت کے دسترخوان سے استفادہ کرنا اور حق کار و کسب یا اس جیسے دوسرے حقوق جو طول تاریخ میں بشر کیلئے بیان ہوتے رہے ہیں۔

    یہ امر طے شدہ ہے کہ ہر انسان کے حقوق کی رعایت بھی ضروری ہے اگر کوئی کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالتا ہے تو یہ ظلم و جرم شمار ہو گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نور تربیت سے اپنے وجود خاکی کو منور کئے بغیر ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت ممکن ہے؟

    تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں، ہر صنف و طبقہ کے افراد نے، ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت سے انحراف کرتے ہوئے ظلم و جور پیشہ بن کر زندگی گذارتے رہے ہیں۔

    ماضی میں ہونے والے مظالم اور موجودہ دور میں صاحبان طاقت (سپر پاور) کے ذریعہ مظلوم اقوام و ملل پر ہر روز نت نئے مظالم تربیت سے عاری ہونے کا نتیجہ نہیں ہیں؟

    سچ ہے اگر کاروان بشریت کی ہر فرد نور تربیت سے منور ہوتی تو عالم امکان میں ظلم وجور کی جگہ عدل و انصاف، خود غرضی و خود پسندی کی جگہ کرامت و ایثار، عفو و در گذر، باہمی الفت و محبت کا دور دورہ ہوتا۔

    ہم نےاب تک دوسروں پہ کتنے مظالم ڈھائے ہیں یا ہم پر دوسروں نے کتنے مظالم ڈھائے ہیں آپ کی نظر میں اگر ہمارے دل و جان نور ربانی سے منور ہوتے تو ہم کبھی ظلم و ستم کرتے؟

    دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے؟

ہم پر ظلم و اسبتداد ہوتے؟

    مسئلہ تربیت کی اہمیت و عظمت کے پیش نظر یہ خیال خام ہےکہ سماج میں زندگی گذارنے والا کوئی شخص اس سے بے خبر ہو اور اسکی افادیت سے نابلد ہو۔

    حیات انسانی کےابتدائی ادوار سے دلسوز افراد تربیت سے آراستہ کرنے انسانی حقائق و فضائل اخلاقی سے آراستہ بنانے کی فکر کرتے رہے ہیں اور زندگی کے مختلف موڑ پر عملی اقدام بھی کرتے رہے ہیں لیکن انسانی راہبروں کے درمیان انبیاءؑ و ائمہ معصومینؑ نیز آسمانی کتابوں کا اپنا علاحدہ مقام و مرتبہ رہا ہے، حکماء و عرفاء کے مثبت اقوال و فرمودات سے قطع نظر نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ انکی عقل و دانش محدود ہے لہٰذا اس پر مکمل بھروسہ و اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے، ہاں جو اقوال و نصائح قرآن و سنت کے مطابق ہوں انہیں تسلیم کرتے ہوئے بقیہ سے صرف نظر کر لینا چاہئے، انبیاء و ائمہ معصومین کی تہذیب و ثقافت کا منبع چونکہ قرآن ہے لہٰذا ہر ہر لمحہ حیات انکا ہمارے لئے نمونہ ہے، تربیتی، اجتماعی، سیاسی، اقتصادی و خانوادگی قوانین کا مجموعہ وحی اپنی جامعیت و کمال کے باعث دیگر قانونی مجموعہ جات سے قابل مقائسہ نہیں ہے کیونکہ وحی اس خالق کی جانب سے ہوتی جو انسانی وجود کے مادی و معنوی ضروریات کو بدرجہ اتم جانتا اور پہچانتا ہے اسلئے جو کچھ بیان کرتا ہے وہ عقل و فطرت انسانیت خیر دنیا و آخرت کاملاً ہمآہنگ ہوتا ہے، یہی راز ہے کہ دنیا کے کسی بھی مکتبۂ فکر میں انبیاء و ائمہ جیسے کاملترین نمونہ عمل نہیں پائے جاتے ہیں ۔

    مکتب انبیاء و ائمہ میں چونکہ انسان خدا اور روز قیامت کا معتقد ہوتا ہے لہٰذا اسکے اعلیٰ ترین اصول تربیت سے اپنے وجود کو منور کرنے کی حتٰی المقدور سعی کرتا ہے اسکی ذات سے کسی جاندار کو ضرر و نقصان نہیں پہونچتا ہے، اسکی حیات تمام انسانوں کیلئے منبع خیر و سعادت مایۂ برکت و مکرمت قرار پاتی ہے۔

    پیغمبرانہ مکتب تربیت کے زیر سایہ پروان چڑھنے والا انسان عالم بصیر و دانشمند بینا بنتا ہے، اسکا وجود نفع بخش ،موجود خیر، بے نظیر مشکلکشا، سچا انسان، باوفا، جوانمرد، صفا پیشہ، با مروت، عادل، حکیم وارستہ، آگاہ پیراستہ، زندہ کامل، خلیفہ واقعی ربانی ہو جاتا ہے۔

    تربیت کے مستحکم اصول و قوانین نور قلب حلال مشکلات فروغ جان صفائے روان، منبع برکت ظرف حقیقت اور ریشہ شرافت ہے، تربیت انسانی وقار بشریت کا سرمایہ، مایہ حیات، باعث آسائش زندگی، سبب پایندگی، راہ بندگی، دارین کی سعادت ہے۔

    تربیت انسان و حیوان کی بلند ترین فصل ممیز ہے، کامیابیوں کی علت، کامرانی کی دلیل، شعار حریت، پرچم افتخار، عزت معاشرہ اور قرب خدا کا بہترین راستہ ہے۔

    پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: دنیا و آخرت میں بشر کی سعادت قرآن پر عمل اور اہلبیتؑ عصمت و طہارت کی اطاعت میں مضمر ہے۔

    آخر کلام میں چند ضروری نکات کا تذکرہ ضروری ہے:

    ۱۔ کتاب کے تمام مطالب قرآن و احادیث اہلبیتؑ اور بعض بزرگوں کے کلمات سے ماخوذ ہیں۔

    ۲۔ تمام امور یا مستحب ہیں یا مکروہ، جہاں کہیں واجب یا حرام کا تذکرہ ہوا ہے اسکی نشاندہی کر دی گئی ہے۔

    ۳۔ اختصار اور مطالب کو آسان و عام فہم بنانے کی غرض سے عربی متون کو حذف کر دیا گیا ہے اور ترجمہ پر اکتفا کی گئی ہے۔

    ۴۔ مستحبی امور میں کچھ خاصیتیں اور فضیلتیں ہیں اور اسی طرح سے ہر مکروہ کے کچھ نقصان ہیں لہٰذا حتی الامکان انسان کو مستحب پر عمل اور مکروہات سے اجتناب کرتے رہنا چاہئے۔

    ۵۔ قارئین کرام سے گذارش ہے تعمیری تنقید نیز کمی و کاستی سے دریغ نہ کرتے ہوئے اصلاحات کی نشاندہی فرمائیں اور ہماری نیک توفیقات کیلئے بارگاہ رب الارباب میں دعا کرتے رہیں، اللہ ہم سب کو آداب اسلامی سے مزین ہونے کی توفیق کرامت فرمائے ۔

والسلام

سید محسن حجازی زادہ



فصل چهارم


اوصاف و خصوصیات















  • صفات خدا

    ۱۔ بے مثل و بے نظیر ہے۔ ۲۔ غنی مطلق ہے وہ کسی کا محتاج نہیں ہے سب اسکے محتاج ہیں۔ ۳۔ ظاہری آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا۔ ۴۔ ہر چیز سے با خبر ہے۔ ۵۔ ہر چیز پر قادر ہے۔ ۶۔ ہر جگہ موجود ہے۔ ۷۔ ذہنوں سے بھی با خبر ہے۔ ۸۔ انسان کی شہہ رگ حیات سے زیادہ قریب ہے۔ ۹۔ وہ اپنی ذات سے موجود ہے۔    ۱۰۔ نہ سوتا ہے اور نہ اونگھتا ہے۔ ۱۱۔ تمام موجودات کا خالق ہے۔ ۱۲۔ موجودات کی تربیت و پرورش اسکے ہاتھ میں ہے۔ ۱۳۔ موت و حیات کا مالک ہے۔ ۱۴۔ زمین و آسمان کا نور ہے۔ ۱۵۔ پوری کائنات اس کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہے۔ ۱۶۔ عزت و ذلت، داد و دہش اسکے قبضہ میں ہے۔ ۱۷۔ تمام موجودات کا رازق ہے۔ ۱۸۔ نہ کسی نے اسکو پیدا کیا اور نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے۔

  • اسکے علاوہ بھی صفات ہیں جس کو اختصار کے مدنظر درج نہیں کیا گیا ہے۔

  • معلومات قرآن کریم

    ۱۔ قرآن مجید میں ایک سو چودہ سورہ، چھ ہزار دوسو چھتّیس آیات، ستہتّر ہزار نو سو چونتیس کلمات، تین لاکھ تئیس ہزار چھ سو ستّر حروف، دس لاکھ پندرہ ہزار تیس نقطہ ہیں۔ ۲۔ چھیاسی سورہ مکی اور آٹھائیس سورہ مدنی ہیں، جو سورہ مدینہ میں نازل ہوئیں اسلئے مدنی کہا جاتا ہے نیز جو سورہ مکہ میں نازل ہوئیں اسلئے مکی کہا جاتا ہے۔ ۳۔ سورہ توبہ کے علاوہ ہر سورہ "بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم" سے شروع ہوتی ہے۔ ۴۔ چھ سورہ انبیا کے نام سے موسوم ہیں: "یونس، ہود، یوسف، ابراہیم، محمد، نوح"۔ ۵۔ سورہ توحید میں اگر "بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم" سے قطع کر لیں تو صرف ایک مرتبہ زیر کی حرکت آئی ہے۔ ۶۔ لفظ "اللہ" قرآن میں دو ہزار سات سو ستاون مرتبہ آیا ہے، نو سو اسّی مرتبہ "پیش" کی حرکت، پانچ سو بانوے بار "زبر" اور ایک ہزار ایک سو پینتیس مرتبہ "زیر" کی حرکت استعمال ہوئی ہے۔ ۷۔ کلمہ "وَلْیَتَلَطَّفْ" جو سورہ کہف کی انیسویں آیت میں ہے اسکا حرف "ت" قرآن کے بیچ واقع ہے۔ ۸۔ قرآن کی پانچ سورہ کلمہ "اَلْحَمْدُ لِلہِ" سے شروع ہوتے ہیں "حمد، انعام، کہف، سباء، فاطر"۔ ۹۔ تین سورہ کلمہ "یَآ أَیُّہَاْ الْنَّبِیُّ" سے شروع ہوتے ہیں، "أحزاب، طلاق، تحریم"۔ ۱۰۔ مائدہ، حجرات، ممتحنۃ کلمہ "یَآ أَیُّہَاْ الَّذِیْنَ آمَنُوْا" سے شروع ہوتے ہیں۔ ۱۱۔ پانچ سورہ "جن، کافرون، توحید، فلق، ناس" لفظ "قُلْ" سے شروع ہوتے ہیں۔ ۱۲۔ دو سورہ "نسآء، حج" کلمہ "یَاْ أَیُّہَاْ النَّاْسُ" سے شروع ہوتے ہیں۔ ۱۳۔ چار سورہ لفظ "إِنَّاْ" سے شروع ہوتے ہیں۔ "فتح، نوح، قدر،کوثر"۔ ۱۴۔ بیس سورہ قسم سے شروع ہوتے ہیں "عصر، عادیات، تین، ضحیٰ، شمس، بلد، فجر، طارق، بروج، نازعات، مرسلات، قیامت، نجم، طور، ذاریات، صافات، ن، ص، ق،  لیل"۔ ۱۵۔ قرآن میں کل پندرہ سجدے والی آیتیں ہیں جن میں سے چار آیت پر"سورہ سجدہ: ۱۵، سورہ فصلت: ۳۷، سورہ نجم: ۶۲، سورہ علق: ۱۹ سجدہ واجب ہےاور دس آیتوں کی تلاوت پر سجدہ مستحب ہے۔ (ایک آیت پر مذہب شافعی کے نزدیک سجدہ مستحب ہے۔)


  • اوصاف قرآن کریم

     ۱۔ قرآن میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں ہے۔ ۲۔ صاحبان تقویٰ کیلئے ہدایت ہے۔ ۳۔ ہر چیز کا بیان کرنے والا ہے۔ ۴۔ نا قابل شکست ہے۔ ۵۔ حق و باطل کو جدا کرنے والا ہے۔ ۶۔ بہترین کلام ہے۔ ۷۔ لوگوں کیلئے ہدایت ہے۔ ۸۔ ڈرانے والا ہے۔ ۹۔ بشارت دینے والا ہے۔ ۱۰۔ پیغمبر اکرمؐ کا عظیم ترین معجزہ ہے۔ ۱۱۔ شفا و رحمت ہے۔ ۱۲۔ با برکت کتاب ہے۔ ۱۳۔ نور، واضح، خیرعظیم، مجید و کریم ہے۔ ۱۴۔ درد کی شفا ہے۔ ۱۵۔ دلوں کی بہار ہے۔ ۱۶۔ علم و دانش کا سر چشمہ ہے۔ ۱۷۔ معرفت کا منبع ہے۔ ۱۸۔ تفکر و تعقل کی اساس ہے۔ ۱۹۔ فہم و فراست کا مرجع اور کرامت کی سند ہے۔ ۲۰۔ خدائی نور ہے۔ ۲۱۔ خوبیوں کا مالک ہے۔ ۲۲۔ الٰہی برکتوں کا مظہر ہے۔ ۲۳۔ قرآن آفاقی رسالت کا حامل ہے۔ ۲۴۔ حق کا مظہر ہے۔ ۲۵۔ خالق و مخلوق کے درمیان کا رابطہ ہے۔


  • اوصاف اہلبیتؑ

    ۱۔ الہی نعمت ہیں۔ ۲۔ صراط مستقیم ہیں۔    ۳۔ مخلوقات پر گواہ ہیں۔ ۴۔ خدا تک پہونچنے کا ذریعہ ہیں۔ ۵۔ کشتی نجات ہیں۔ ۶۔ نیکیوں میںسب سے مقدم ہیں۔ ۷۔ میزان الٰہی ہیں۔ ۸۔ ستارہ ہدایت ہیں۔ ۹۔ معاشرہ کے سب سے سچے افراد ہیں۔ ۱۰۔ افلاک کی تخلیق کا سبب ہیں۔ ۱۱۔ راسخون فی العلم۔ (نور علم سے منور ہیں)۔ ۱۲۔ عالم کتاب خدا اور قرآن ناطق ہیں۔ ۱۳۔ شجرہ طیبہ ہیں۔ ۱۴۔ وارث زمین ہیں۔ ۱۵۔ اعمال کی میزان ہیں۔ ۱۶۔ رحمت الہی ہیں۔ ۱۷۔ محبوب خدا۔ ۱۸۔ صدیقین و شہدا۔ ۱۹۔ نزول ملائکہ کا مقام ہیں۔ ۲۰۔ معدن رحمت۔ ۲۱۔ خزانہ علم۔ ۲۲۔ مقام حلم کے مالک اور صفات کریمہ کے حامل ہیں۔ ۲۳۔ نعمتوں کے ولی و سرپرست۔ ۲۴۔ باب ایمان۔    ۲۵۔ اسرار الہی کے امین۔ ۲۶۔ مخلوق کی پناہگاہ۔ ۲۷۔ وارث انبیا۔ ۲۸۔ دنیا و آخرت کے لوگوں پر الہی حجت ہیں۔ ۲۹۔ محل معرفت الہی۔ ۳۰۔ معصوم۔ ۳۱۔ شافع روز جزا ہیں۔


  • صفات امامؑ

    ۱۔ اعلم ترین فرد ہیں۔ ۲۔ ہر چیز کی حقیقت کو سب سے زیادہ جاننے والے۔ ۳۔ لوگوں میں سب سے زیادہ حکیم۔ ۴۔ پرہیزگار ترین فرد۔ ۵۔ سب سے زیادہ سخی۔ ۶۔ بردباری میں سب سے افضل ہوتا ہے۔ ۷۔ سب سے زیادہ شجاع ہوتا ہے۔ ۸۔ عبادتوں میں سب سے بڑا عابد۔ ۹۔ مختون متولد ہوتا ہے۔ ۱۰۔ گناہوں سے پاک و منزہ ہوتا ہے۔ ۱۱۔ پشت کی چیزوں کو بھی ویسے ہی دیکھتا ہے جیسے سامنے کی چیزوں کو دیکھتا ہے۔ ۱۲۔ جسم کا سایہ نہیں ہوتا۔ ۱۳۔ وقت ولادت ہاتھوں کو زمین پر رکھ کر بآواز بلند کلمہ شہادتَین زبان پر جاری کرتا ہے۔ ۱۴۔ احتلام کی نجاست سے بھی پاک و پاکیزہ ہوتا ہے۔ ۱۵۔ آنکھیں سوتی ہیں، دل بیدار رہتے ہیں۔ ۱۶۔ فرشتہ اس سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ ۱۷۔ رسولخداؐ کی زرہ انکے جسم پر ہوتی ہے۔ ۱۸۔ انکا فضلہ دکھائی نہیں دیتا ہے۔ ۱۹۔ مشک و عنبر سے بہتر خوشبو سے معطر ہوتے ہیں۔ ۲۰۔ لوگوں پر حکمرانی کیلئے سب سے زیادہ مناسب ہوتا ہے۔ ۲۱۔ بارگاہ خدا میں متواضع اور جو کچھ حکم دیتے ہیں اس پر سب سے بہتر عمل کرتے ہیں۔ ۲۲۔ دعائیں انکی مستجاب ہوتی ہیں اگر دعا کر دیں تو پتھر دو حصہ میں تقسیم ہو جائے گا۔ ۲۳۔ انکے پاس ایک کتاب ہوتی ہے جس میں صبح قیامت تک آنے والے شیعوں کے اسما درج ہیں۔ ۲۴۔ ایک ایسی بھی کتاب ہوتی ہے جس میں قیامت تک کے دشمنوں کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ ۲۵۔ مصحف حضرت فاطمہؑ زہراء امام ؑکے پاس ہوتا ہے۔


  • صفات حضرت مہدی (عج)

    ۱۔ پیشانی کشادہ و نورانی ہے۔ ۲۔ چہرہ مثل چاند چمک رہا ہے۔ ۳۔ گندمی رنگ ہے۔ ۴۔ بلند قد و راست قامت ہیں۔ ۵۔ ظریف و حَسِین دانت۔ ۶۔ محاسن مبارک پُر (بھری ہوئی) ہیں۔ ۷۔ شانے چوڑے ہیں۔ ۸۔ داہنے رخسار پر ایک جذاب تل ہے۔ ۹۔ نور کا ہالہ ہے جو آپ کو گھیرے ہوئے ہے۔ ۱۰۔ روح مطمئن اور با وقار کے حامل ہیں۔ ۱۱۔ حلال و حرام الٰہی کے عالم اور لوگوں سے بے نیاز ہیں۔ ۱۲۔ لوگوں میں سب سے افضل، زاہد، متقی، حکیم و عالم، سخی و عابد نیز صبر کرنے والے ہیں۔ ۱۳۔ فرشتہ آپ سے گفتگو کرتے ہیں۔ ۱۴۔ جس طرح پیغمبر اکرمؐ کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی اسی طرح آنحضرتؑ کے دونوں شانوں کے درمیان بھی مہر ہے۔ ۱۵۔ وہ قرآن جو حضرت علیؑ نے جمع کیا تھا آپ کے پاس موجود ہے۔ ۱۶۔ سفید بادل سر مبارک پر سایہ فگن رہتا ہے۔ ۱۷۔ پیغمبر اکرمؐ کی زرہ آپ کے جسم اطہر پر ہے۔


  • حکومت امام عصر (عج) کے صفات

    ۱۔ انسانوں اور حیوانوں کے دل سے خوف و ہراس، نفرت و عداوت ختم ہو جائے گی۔ ۲۔ بارش، درخت، میوہ جات (پھل) و دوسری نعمتیں مستزاد ہوں گی۔ ۳۔ آنحضرت اور انکے دوستوں کی عمریں طولانی ہوں گی۔ ۴۔ علوم کی مختلف اقسام ظاہر ہو جائیں گی۔ ۵۔ جناب عیسیؑ نازل ہو کر امامؑ کی امامت میں نماز پڑھیں گے۔ ۶۔ قرآن کی حکمرانی ہوگی۔ ۷۔ عدالت، امن و امان پوری دنیا پر حاکم ہوگا۔ ۸۔ مریض شفا یاب ہوں گے۔ ۹۔ انسان غنی و تونگر ہو جائیں گے۔ ۱۰۔ زمین اپنے خزانہ امامؑ کے قدموں میں ڈال دے گی۔  ۱۱۔ ہر شخص پیغمبر اکرمؐ کے خاتم الانبیا ہونے کی شہادت دے گا۔ ۱۲۔ عقلیں درجہ کمال پر ہوں گی۔ ۱۳۔ باطل کا خاتمہ ہوگا۔ ۱۴۔ بلائیں دور ہوجائیں گی۔ ۱۵۔ عالمی حکومت ہوگی۔ ۱۶۔ ظالم و جابر سے زمین پاک ہوگی۔ ۱۷۔ کوفہ پایتخت ہوگا اور مسجد سہلہ مسکن ہوگا۔


  • انصار امام مہدیؑ کے صفات

    ۱۔ عمر طولانی ہوگی۔ ۲۔ جذبہ شہادت طلبی رکھتے ہوں گے۔ ۳۔ انکی تعداد تین و تیرہ ہوگی۔ ۴۔ عاشق الہی ہوں گے۔ ۵۔ حقیقی مخلص ہوں گے۔ ۶۔ سچے شیعہ ہوں گے۔ ۷۔ حق کی طرف بطور آشکار دعوت دینے والے ہوں گے۔ ۸۔ مومنین کے رو برو فروتنی اور تواضع پیشہ ہوں گے۔ ۹۔ دس طاقتور مرد کی قوت ہر ایک کے پاس ہوگی۔ ۱۰۔ ثابت قدم ہوں گے۔ ۱۱۔ خدا کا عرفان کامل رکھتے ہوں گے اور انکے قلوب محکم ہوں گے۔ ۱۲۔ جذبہ جان نثاری سے لبریز ہوں گے۔ ۱۳۔ راتوں کو جاگنے والے ہوں گے۔ ۱۴۔ دل نور سے بھرے ہوں گے۔


  • آخری زمانہ کے اوصاف

    ۱۔ مسجد کوفہ کی دیواریں خراب (منہدم) ہو جائیں گی۔ ۲۔ شط فرات سے ایک نہر جاری ہو گی جو کوفہ کی گلیوں میں پہونچے گی۔ ۳۔ شہر کوفہ اجڑنے کے بعد پھر آباد ہوگا۔ ۴۔ نجف کی نہر میں پانی بہنے لگے گا۔ ۵۔ ستارہ جدی کے پاس دُمدار ستارہ ظاہر ہوگا۔ ۶۔ اکثر شہروں میں شدید زلزلہ و طاعون کی وبا پھیلے گی۔ ۷۔ شدید قحط پڑے گا۔ ۸۔ مسجد براثا منہدم ہو جائے گی۔ ۹۔ زمین کے مشرقی سمت میں ایک آگ ظاہر ہوگی جو تین سے سات روز تک زمین و آسمان میں شعلہ ور رہے گی۔ ۱۰۔ شدید قسم کی سرخی ظاہر ہوگی جو اطراف آسمان کو گھیرے گی۔ ۱۱۔ قتل و خون کوفہ میں کثرت سے ہوگا۔۱۲۔ ایک طائفہ بندر اور سور کی شکل میں مسخ ہو جائے گا۔ ۱۳۔ خراسان کی طرف سے سیاہ پرچم حرکت میں آجائیں گے۔ ۱۴۔ جمادی الثانیہ کے مہینہ میں شدید بارش ہوگی۔ ۱۵۔ مشرق سے ایک ستارہ نکلے گا جس کی روشنی چاند کی مانند ہوگی۔ ۱۶۔ دنیا میں تاریکی، کفر و فساد کا دور دورہ ہوگا۔ ۱۷۔ ناگہانی اموات، ربا، زنا، رشوت، والدین کی بے احترامی، تجارت میں کساد بازاری، مسجد یں آراستہ مگر نمازیوں سے خالی ہوں گی۔    ۱۸۔ نماز کو اہمیت نہیں دی جائے گی۔ ۱۹۔ لوگ علما سے بھاگیں گے۔ ۲۰۔ صاحبان حق امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے عاجز ہوں گے۔ ۲۱۔ لہو و لعب کی آوازیں لوگوں کیلئے مانوس اور قرآن کی آواز، ذکر خدا کی آوازیں غیر مانوس ہوں گی۔ ۲۲۔ جوان مردوں کا فقدان ہوگا۔ ۲۳۔ فقرا کو حقیر سمجھا جائے گا۔ ۲۴۔ مرد عورتوں سے اور عورتیں مردوں کے مشابہہ ہوں گے۔ ۲۵۔ سلاطین جائر حکمران ہوں گے۔ ۲۶۔ مرد مردوں اور عورت عورتوں پر اکتفا کریں گے (شائد مراد ہمجنس بازی ہے۔) ۲۷۔ مرد سونے کے زیورات سے زینت کریں گے۔ ۲۸۔ طلاق کی شرح میں اضافہ ہوگا۔ ۲۹۔ حدود الہی کا اجرا نہیں ہوگا۔ ۳۰۔ ہتک حرمت عام ہوگی۔ ۳۱۔ برے افراد نیک لوگوں پر مسلط ہوں گے۔ ۳۲۔ درہم و دینار دین و ایمان بن جائیں گے۔ ۳۳۔ عورتیں مردوں کا قبلہ قرار پائیں گی۔ ۳۴۔ درہم و دینار کی وجہ سے لوگوں کا احترام ہوگا۔ ۳۵۔ مرد و زن کی مخلوط مجالس ہوں گی۔ ۳۶۔ مسجد میں دنیاوی گفتگو کیلئے اکٹھا ہوں گے۔ ۳۷۔ فقہا کی تعداد کم ہوجائے گی۔ ۳۸۔ مومنین لوگوں کے درمیان بے آبرو ہوں گے۔ ۳۹۔ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا۔ ۴۰۔ گناہ و معصیت کی اکثریت عام ہوگی۔ ۴۱۔ امانتدار خائن ہوگا۔ ۴۲۔ سچوں کی تکذیب کی جائے گی اور جھوٹوں کی تصدیق۔ ۴۳۔ قرآن مزین ہوگا مگر عمل نہیں ہوگا۔ ۴۴۔ دین میں تبدیلیاں پیدا کی جائیں گی۔ ۴۵۔ مومنین کی باتیں ٹھکرا دی جائیں گی۔ ۴۶۔ چھوٹے بڑوں سے مسخرہ بازی کریں گے۔ ۴۷۔ اپنے برے اعمال پر فخر کریں گے۔ ۴۸۔ دوسروں کی مدح و ثنا زیادہ ہوگی۔ ۴۹۔ اپنا مال راہ خدا کے علاوہ میں خرچ کیا جائے گا۔ ۵۰۔ پڑوسیوں کو ستایا جائے گا۔ ۵۱۔ مختلف النوع شراب علنی (علیٰ الاعلان) پی جائے گی۔ ۵۲۔ جو کچھ کہیں گے اس پر عمل نہیں کریں گے۔ ۵۳۔ مومن محزون ہوگا۔   ۵۴۔ جھوٹی گواہی کی بنیاد پر ظلم و ستم کیا جائے گا۔    ۵۵۔ حلال خدا کو حرام اور حرام خدا کو حلال سمجھا جائے گا۔ ۵۶۔ ذاتی رائے کی بنا پر دینی امور پر عمل ہوگا۔ ۵۷۔ قرآن و احکام قرآنی تعطل کا شکار ہوں گے۔ ۵۸۔ ارباب حکومت نیک لوگوں کو خود سے دور کر دیں گے۔ ۵۹۔ رشوت کی بنیاد پر فیصلہ ہوگا۔ ۶۰۔ تہمت و سوئے ظن کی بنیاد پر انسانوں کو قتل ہوگا۔ ۶۱۔ جھوٹی قسم عام ہوگی۔ ۶۲۔ جوا عام ہوگا۔ ۶۳۔ کم فروشی کا چلن ہوگا۔ ۶۴۔ انسانوں کا خون بہانا غیر معمولی بات ہوگی۔ ۶۵۔ لوگوں کے پاس ثروت زیادہ ہوگی مگر شرعی رقوم ادا نہیں کی جائیں گی۔ ۶۶۔ اختلال کی کثرت ہوگی۔ ۶۷۔ انسان کے دل سخت ہو جائیں گے۔ ۶۸۔ حلال کا مطالبہ باعث مذمت اور حرام کا مطالبہ قابل مدح ہوگا۔ ۶۹۔ ثروتمندوں کی پیروی کی جائے گی۔ ۷۰۔ مریض کے معالجہ میں شراب تجویز کی جائے گی۔ ۷۱۔ یتیم کا مال کھا کر بھی اپنے کو صالح و نیک ظاہر کریں گے۔ ۷۲۔ لوگوں کی تمامتر ہم و غم کا مرکز شکم و شرمگاہ ہوگی۔ ۷۲۔ عورتیں اپنے سروں پر کوہان کے مثل بنائیں گی۔

  • اسکے علاوہ بھی سیکڑوں نشانیاں ہیں، جس کو خوف طوالت سے ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ 


  • صفات انسان

  • صفات مدح

    ۱۔ انسان مکرم اور با عظمت ہے۔ ۲۔ روئے زمین پر خدا کا خلیفہ ہے۔ ۳۔ مسجود ملائکہ ہے۔ ۴۔ امین خدا ہے۔ ۵۔ معلم ملائک ہے۔ ۶۔ بہترین مرکبات سے تخلیق ہوئی ہے۔ ۷۔ کائنات اس کیلئے مسخر کر دی گئی ہے۔


  • صفات مذمت

۱۔ ظالم ہے۔ ۲۔ جلد باز و عجلت پسند ہے۔ ۳۔ متکبر ہے۔ ۴۔ خونریزی کرنے والا ہے۔ ۵۔ بخیل ہے۔ ۶۔ نادان ہے۔ ۷۔ حریص و لالچی ہے۔ ۸۔ گناہوں کی طرف مائل رہتا ہے۔   ۹۔ طغیان پیشہ و سرکش ہے۔ ۱۰۔ شکر گزار نہیں ہے۔ ۱۱۔ اسکی ملامت کی گئی ہے۔ ۱۲۔ یہ تمام صفات انسانوں میں پائے جاتے ہیں، اب انسان کی پسند ہے نیک صفات کے اپنے وجود کو منور کرے یا برے صفات اپنا کر بد بخت ہوجائے۔


  • فرشتوں کے صفات

    ۱۔ وہ عظیم مخلوق ہے جس سے کبھی گناہ سرزد نہیں ہوتا ہے۔ ۲۔ ہر ایک کا مرتبہ و مقام معلوم و مشخص ہے۔ ۳۔ خدا کی جانب سے اہمترین ذمہ داریوں کے حامل ہیں۔ ۴۔ کچھ حاملین عرش ہیں۔ ۵۔ کچھ تدبیر امور پر مامور ہیں۔ ۶۔ کچھ انسانی اعمال کی نظارت پر مامور ہیں۔ ۷۔ کچھ قبض روح پر مامور ہیں۔ ۸۔ ایک گروہ خطرات و حوادث سے لوگوں کی حفاظت پر مامور ہے۔ ۹۔ ایک گروہ جنگوں میں مومنین کی امداد کرنے پر متعین ہے۔ ۱۰۔ ایک گروہ عذاب پر مامور ہے۔ ۱۱۔ ایک گروہ اہل زمین کیلئے استغفار میں مصروف ہے۔ ۱۲۔ کچھ مومنین کے شفیع قرار دیئے گئے ہیں۔ ۱۳۔ کچھ فرشتوں کو متعین کیا گیا ہے کہ وہ مومنین کو جانکنی کے عالم میں جنت کی بشارت دیں۔ ۱۴۔ ایک گروہ مجرموں کو عالم احتضار میں طمانچہ مارنے پر معین کیا گیا ہے۔ ۱۵۔ ایک گروہ جنت میں مومنین پر درود و سلام بھیجنے پر مامور ہیں۔ ۱۶۔ دوزخ کے ذمہ دار انیس فرشتہ ہیں۔


  • صفاتِ شیطان

    ۱۔ طائفہ جن سے تعلق رکھتا ہے۔ ۲۔ آگ سے خلق کیا گیا ہے۔ ۳۔ رحمت الٰہی سے محروم اور لعنت الٰہی کا مستحق قراردیا گیا ہے۔ ۴۔ اسکے حیلہ و مکر ضعیف ہیں۔ ۵۔ حکم خدا کی نافرمانی کرنے والا ہے۔ ۶۔ اسکے اور اسکے فرمان برداروں کیلئے راہ نجات مسدود ہے۔ ۷۔ اسکی اولاد و ہمسر (بیوی) ہیں۔ ۸۔ برائیوں کی طرف دعوت دیتا ہے۔ ۹۔ خوف و وحشت پیدا کرتا ہے۔ ۱۰۔ وسوسہ ایجاد کرتا ہے۔ ۱۱۔ بُرے امور کو حَسِین بنا کر پیش کرتا ہے۔ ۱۲۔ کینہ پروری اور دشمنی پیدا کرنا اسکا شیوہ ہے۔ ۱۳۔ فقر و تنگدستی سے ڈراتا ہے۔ ۱۴۔ یاد خدا سے دور کرتا ہے۔ ۱۵۔ اسراف پر انسانوں کو مجبور کرتا ہے۔ ۱۶۔ انسانوں کا سخت ترین دشمن ہے۔ ۱۷۔ آخری دور میں شیطان ایک پیر مرد یا ضعیفہ کی شکل میں ظاہر ہوگا اور لوگوں کے امور میں دخالت (مداخلت) کرے گا،  خاص طور پر شادی کے معاملات میں۔


  • جِن کے صفات

    ۱۔ آگ سے بنایا گیا ہے۔ ۲۔ علم، قوت ادراک و تشخیص انکے پاس ہوتی ہے۔ ۳۔ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ۴۔ کچھ ان میں اچھے اور نیک اور کچھ برے ہیں۔ ۵۔ حشر و نشر کا تعلق ان سے بھی ہے۔ ۶۔ آسمانوں میں نفوذ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ ۷۔ نر و مادہ دونوں قسم پائی جاتی ہے۔ ۸۔ کچھ ایسے بھی ہیں جو غیر معمولی طاقت کے مالک ہوتے ہیں۔ ۹۔ مختلف شکل و روپ میں ڈھل سکتے ہیں۔ ۱۰۔ انسانوں سے قبل انکی تخلیق ہوئی ہے ۔۱۱۔ بعض ان میں جہنمی ہیں۔ ۱۲۔ جیسے انسان موت سے ہم آغوش ہوتے ہیں اور کچھ دوسرے پیدا ہوتے ہیں ویسے ہی جنات بھی ہیں۔ ۱۳۔ قوت شہوانیہ انکے اندر پائی جاتی ہے۔ ۱۴۔ کھنڈرات میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ۱۵۔ انسانوں کی بچی ہوئی غذا کھاتے ہیں۔


  • جنت کے صفات

    ۱۔ جنت اور اہل جنت لغویات سے منزہ ہوں گے۔    ۲۔ جنت و اہل بہشت عالی مرتبہ ہیں۔ ۳۔ ہر قسم کے میوہ جات پائے جاتے ہیں۔ ۴۔ جس قسم کے میوہ (پھل) کی خواہش ہو پسند کر سکتے ہیں۔ ۵۔ آسانی سے دستیاب ہوں گے۔ ۶۔ تمام میوہ جات کی دو مختلف قسم ہوگی۔ ۷۔ غذائیں ہمیشہ ملنے والی ہیں۔ ۸۔ ہر قسم کے گوشت خاص طور پر پرندوں کے دستیاب ہیں۔ ۹۔ جنت کی نہر کا پانی تبدیل نہیں ہوگا۔ ۱۰۔ دودھ کی نہروں کا مزہ بھی تبدیل نہیں ہوگا۔ ۱۱۔ جنتی مشروب کی نہریں ہیں۔ ۱۲۔ جنت کی ہوا معتدل ہے نہ تمازت آفتاب ہے اور نہ ہی ٹھنڈک۔ ۱۳۔ حسین و جمیل قصر ہیں۔ ۱۴۔ خوبصورت ظرف پائے جاتے ہیں۔ ۱۵۔ جنتی لباس باریک اور موٹے ریشم کا اور سبز رنگ ہوگا۔ ۱۶۔ ہاتھ سونے کے کڑوں سے مزین ہوگا۔ ۱۷۔ اونچے اونچے تخت پر جنتی تکیہ سجے ہوں گے۔ ۱۸۔ نہایت ہی حسین و خوبصورت فرش ہوں گے۔ ۱۹۔ پاک و پاکیزہ ہمسر (بیوی یا شوہر) مہیا ہوں گے۔ ۲۰۔ کچھ خاص افراد ضیافت پر مامور ہوں گے۔ ۲۱۔ جنت کے آٹھ دروازے ہیں۔ ۲۲۔ محبان حضرت علی ؑکی ابدی آرامگاہ ہے۔

 

  • جہنم کی صفتیں

    ۱۔ سات دروازے ہیں۔ ۲۔ شور و غل زیادہ ہوتا ہے۔ ۳۔ کفار پر مسلط ہے۔ ۴۔ انیس نگہبان ہیں۔ ۵۔ جتنا کچھ بھی اس میں ڈالا جاتا ہے وہ سیراب اور بھرتی نہیں ہے۔ ۶۔ اہل دوزخ طوق و زنجیر میں جکڑے ہوں گے۔ ۷۔ آگ بھڑک رہی ہوگی۔ ۸۔ اس میں ابال جیسی کیفیت پائی جاتی ہے۔ ۹۔ کبھی بجھتی نہیں ہے۔ ۱۰۔ ظاہری حصہ کی طرح باطنی حصہ کو بھی جلا دیتی ہے۔ ۱۱۔ اس میں موت مفقود ہے۔ ۱۲۔ اسکا عذاب دردناک ہے۔ ۱۳۔ جہنمیوں کے چہرے اترے اور مرجھائے ہوئے ہوں گے۔ ۱۴۔ یہاں آگ کا لباس ہوگا۔ ۱۵۔ اہل دوزخ کی غذا پگھلے ہوئے لوہے کی مانند شکم میں جوش مارتی ہوگی۔ ۱۶۔ اسکے سایہ میں نہ خنکی ہے اور نہ ہی فائدہ۔ ۱۷۔ دشمنان حضرت علیؑ کی دائمی آرامگاہ ہے۔


  • دنیا کے صفات

    ۱۔ آخرت کی کھیتی ہے۔ ۲۔ پائیدار نہیں ہے۔ ۳۔ غرور و فریب کا ذریعہ ہے۔ ۴۔ دنیا بازیچہ (کھیل کود کے اسباب)  ہے۔ ۵۔ تفاخر و ذخیرہ اندوزی پر فخر کرنے کی جگہ ہے۔ ۶۔ دنیا مومن کیلئے قید خانہ ہے۔ ۷۔ دنیا کی پونجی کم ہے۔ ۸۔ دنیا خیر و برکت کا وسیلہ ہے۔ ۹۔ مادی منافع سے بہرہ مند ہونے کا مقام ہے۔ ۱۰۔ دنیا کی نعمتیں رحمت ہیں۔


  • آخرت کے صفات

    ۱۔ الٰہی حکمرانی کے ظہور کا دن ہے۔ ۲۔ منکرین معاد کیلئے خوفناک دن ہے۔ ۳۔ گناہگاروں کے جہنم میں داخلہ کا دن ہے۔ ۴۔ اس روز کسی کے بدلے کوئی دوسرا سزا نہیں پائے گا۔ ۵۔ انسان ایک دوسرے کی مالکیت سے خارج ہوں گے۔ ۶۔ اعمال کی جزا دیکھنے کا دن ہے۔ ۷۔ رابطوں کے ٹوٹ جانے کا دن ہے۔  ۸۔ مال و اولاد کام نہیں آئیں گی۔ ۹۔ مجرموں اور گناہگاروں کی مایوسی کا دن ہے۔ ۱۰۔ حسرت و افسوس کرنے کا دن ہے۔ ۱۱۔ طولانی دن ہے۔ (پچاس ہزار سال کے برابر)۔ ۱۲۔ تلخ ترین دن ہے۔ ۱۳۔ اس روز پردے اٹھا دیئے جائیں گے۔ ۱۴۔ پوشیدہ چیزیں آشکار ہو جائیں گی۔ ۱۵۔ بچے بوڑھے ہو جائیں گے۔ ۱۶۔ سخت ترین دن ہے۔ ۱۷۔ سنگین دن۔ ۱۸۔ دردناک دن ہے۔ ۱۹۔ پشیمانی کا روز ہے۔ ۲۰۔ وہ دن جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ۲۱۔ روز حساب ہے۔ ۲۲۔ دوبارہ اٹھائے جانے والا دن ہے۔ ۲۳۔ حق و باطل میں جدائی کا دن ہے۔ ۲۴۔ روز جزا ہے۔ ۲۵۔ گفتار کو چھپایا نہیں جا سکتا ہے۔ ۲۶۔ اعمال و عقائد پر پردہ نہیں ڈالا جا سکے گا۔ ۲۷۔ دفاع کا امکان بھی نہیں ہوگا۔ ۲۸۔ عذر خواہی بے سود ہوگی۔ ۲۹۔ عذاب سے فرار ممکن نہ ہوگا۔ ۳۰۔ اپنے امور کو دوسروں پر ٹالا نہیں جا سکتا ہے۔ ۳۱۔ کسی کی پناہ نہ ملے گی۔ ۳۲۔ ہر شخص اپنے اعمال کا گروی ہوگا۔ ۳۳۔ خدا کا عذاب دائمی ہے۔ ۳۴۔ اس میں کسی قسم کی چھوٹ نہیں ہوگی۔ ۳۵۔ دنیا میں یہ ممکن تھا۔ ۳۶۔ دروغگو کی جزا کا دن ہے۔ ۳۷۔ شیطان صفت افراد کیلئے جزا کا دن ہے۔ ۳۸۔ اسباب وعلائق ٹوٹ جائیں گے۔ ۳۹۔ زمین و آسمان متغیر ہو جائیں گے۔ ۴۰۔ حیلہ گر کی رسوائی کا دن ہے۔ ۴۱۔ پہاڑ متحرک ہو جائیں گے۔ ۴۲۔ فرشتوں کے نظارہ کا دن ہے۔ ۴۳۔ آسمان کھل جائے گا۔ ۴۴۔ اہل دوزخ فریاد کرتے ہوں گے۔ ۴۵۔ آنکھیں خیرہ ہوں گی۔ ۴۶۔ پناہ گاہ تلاش کرنے کا دن ہے۔ ۴۷۔ خلائق تہیدست (محتاج) ہوں گے۔ ۴۸۔ خدا کی بادشاہی ہوگی۔ ۴۹۔ کافروں کی شماتت کا دن ہے۔ ۵۰۔ مشرکین سے سوال کا دن ہے۔ ۵۱۔ اس روز ہاتھ خالی ہوں گے۔ ۵۲۔ مجال گفتگو مسدود ہوگی۔ ۵۳۔ پیغمبروں کا دن ہے ۔۵۴۔ خوف و ہراس کا دن ہے۔ ۵۵۔ ظالمین ذلیل و رسوا ہوں گے۔ ۵۶۔ اولاد سے غافل ہوں گے۔ ۵۷۔ طومار (نامہ اعمال) لپیٹ دیا جائے گا۔ ۵۸۔ اختلافات کا فیصلہ ہوگا۔ ۵۹۔ اعضا و جوارح گواہی دیں گے۔ ۶۰۔ ظالم نادم ہوگا۔ ۶۱۔ منکرین کی بازداشت ہوگی۔ ۶۲۔ ابدی سکونت ہے۔ ۶۳۔ مجرموں کیلئے غم و اندوہ کا دن ہے۔ ۶۴۔ عذر قبول نہیں ہوگا۔ ۶۵۔ بد کاروں کی صورتیں تبدیل ہو جائیں گی۔ ۶۶۔ گمراہوں کے اعتراف کا دن ہے۔ ۶۷۔ دوسروں کے گناہوں کا بوجھ کوئی نہیں اٹھائے گا۔ ۶۸۔ سرعت سے حساب ہوگا۔ ۶۹۔ ظالم راہ فرار ڈھونڈھتا ہوگا۔ ۷۰۔ قہر و غضب خدا کا دن ہے۔ ۷۱۔ صالح و نیک بندوں کا دن ہے۔ ۷۲۔ روز انتقام ہے۔ ۷۳۔ اس دن مخلوقات زمین گیر ہوجائیں گی۔ ۷۴۔ زمین شگافتہ ہوگی۔ ۷۵۔ مومنین کے نور کا دن ہے۔ ۷۶۔ مومنین کے افتخار کا دن ہے۔ ۷۷۔ پہاڑ کانپ اٹھیں گے۔ ۷۸۔ اہلبیتؑ اپنے محبوں کی شفاعت کریں گے اور اپنے دشمنوں سے انتقام لیں گے۔ 


  • ائمہ معصومینؑ کی انگشتری کےنقوش 

    ۱۔ حضرت محمدؐ مصطفیٰ: (لَاْ إِلٰہَ إِلَّاْ اللہُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اللہِ)۔ ۲۔ حضرت علیؑ: (أَلمُلْکُ لِلہِ الْوَاْحِدِ الْقَہَّاْرِ)۔ ۳۔ امام حسنؑ مجتبیٰ:  (أَلْعِزَّۃُ لِلہِ)۔ ۴۔ امام حسینؑ: (إِنَّ اللہَ بَاْلِغٌ أَمْرِہٖ)۔ ۵۔ امام سجادؑ: (لِکّلِّ ھَمٍّ حَسْبِیَ اللہُ)۔ ۶۔ امام محمد باقرؑ: (أَلْعِزَّۃُ لِلہِ جَمِیْعاً)۔ بروایت دیگر: (إِنَّ اللہَ بَاْلِغُ أَمْرِہٖ)۔ ۷۔ امام جعفر صادق ؑ: (اَللہُ خَاْلِقٌ کُلِّ شَیْءٍ)۔ ۸۔ امام مُوسیٰ کاظم ؑ: (حَسْبِیَ اللہُ) بروایت دیگر: (أَلْمُلْکُ لِلہِ وَحْدَہُ)۔ ۹۔ امام علی رضاؑ: (مَاْ شَآءَ اللہُ وَ لَاْ قُوَّۃَ إِلَّاْ بِاللہِ) بروایت دیگر: (حَسْبِیَ اللہُ)۔ ۱۰۔ امام محمد تقی ؑ: (نِعْمَ الْقَاْدِر اللہُ)۔ ۱۱۔ امام علی نقیؑ: (حِفْظُ الْعُھُوْدِ مِنْ أَخْلَاْقِ اللہِ) یا بقولے: (اَللہُ رَبِّیْ وَھُوَ عِصْمَتِیْ مِنْ خَلْقِہٖ)۔ ۱۲۔ امام حسن عسکری ؑ: (أَنَاْ لِلہِ شَہِیْدٌ)۔ یا بقولے:  (سبُحْاَنَ مَنْ لَہٗ مَقَاْلِیْدُ السَّمٰوَاْتِ وَالْأَرْضِ)۔ ۱۳۔ حضرت حجت: (أَنَاْ حُجَّۃُ اللہِ وَ خَاْلِصَتُہٗ


  • مومنین کے صفات

    ۱۔ نماز میں خضوع وخشوع رکھتے ہیں۔ ۲۔ نیکیوں کا حکم اور برائیوں سے روکنے والے ہوتے ہیں۔ ۳۔ راہ خدا میں خرچ کرتے ہیں۔ ۴۔ جہاد کا خندہ پیشانی سے استقبال کرتے ہیں۔ ۵۔ اچھائیوں میں سبقت کرتے ہیں۔ ۶۔ خدا پر توکل کرتے ہیں۔ ۷۔ بلند مرتبہ پر فائز ہوتے ہیں۔ ۸۔ لغو و بیہودہ گوئی سے اجتناب کرتے ہیں۔ ۹۔ ایک دوسرے کی مدد و اعانت کرتے ہیں۔ ۱۰۔ زکات ادا کرتے ہیں۔ ۱۱۔ اجتماعی عفت و پاکدامنی کا خیال کرتے ہیں۔ ۱۲۔ حمد و تسبیح پروردگار کرتے ہیں۔ ۱۳۔ متواضع ہوتے ہیں۔ ۱۴۔ راتیں تہجد و مناجات میں بسر کرتے ہیں۔ ۱۵۔ یتیموں کے سر پر دست شفقت پھیرتے ہیں۔ ۱۶۔ شکر گزار ہوتے ہیں۔ ۱۷۔ سجدہ گزار ہوتے ہیں۔ ۱۸۔ نماز جماعت میں حاضر ہوتے ہیں۔ ۱۹۔ زکات کی ادائیگی میں سرعت کرتے ہیں۔ ۲۰۔ تہیدست افراد کو کھانا کھلاتے ہیں۔ ۲۱۔ توبہ کرتے رہتے ہیں۔ ۲۲۔ انکے لباس پاک و پاکیزہ ہوتے ہیں۔ ۲۳۔ اگر کوئی خبر دیں گے تو جھوٹ کی آمیزش نہیں ہوگی۔ ۲۴۔ وعدہ خلافی نہیں کرتے ہیں۔ ۲۵۔ امانت میں خیانت نہیں کرتے ہیں۔ ۲۶۔ سچ بولتے ہیں۔ ۲۷۔ راتیں عبادت میں گزارتے ہیں۔ ۲۸۔ دن میں مثل شیر ہوتے ہیں۔ ۲۹۔ دن روزہ میں گذارتا ہے۔ ۳۰۔ راتوں کو عبادت کیلئے بیدار ہوتے ہیں۔ ۳۱۔ پڑوسیوں کو اذیت نہیں دیتے ہیں۔ ۳۲۔ زمین پر آرام و اطمینان سے چلتے ہیں۔ ۳۳۔ بیواؤں کی امداد کرتے ہیں۔ ۳۴۔ تشییع جنازہ میں شرکت کرتے ہیں۔ ۳۵۔ تقویٰ پیشہ ہوتے ہیں۔   


  • صفاتِ کفار

    ۱۔ راہ خدا میں خرچ کو نقصان سمجھتے ہیں۔ ۲۔ جہاد سے بھاگتے ہیں۔ ۳۔ ظلم و گناہ کے انجام دینے میں جلد باز ہوتے ہیں۔ ۴۔ دنیا سے دل لگائے ہوتے ہیں۔ ۵۔ دنیا و آخرت میں پست لوگ ہیں۔ ۶۔ بظاہر آراستہ ہوتے ہیں۔ ۷۔ جھوٹ انکا پیشہ ہوتا ہے۔ ۸۔ بد زبان ہوتے ہیں۔ ۹۔ فرصت طلبی اور فریب کاری انکا وطیرہ ہے۔ ۱۰۔ اہل ایمان کا مسخرہ کرتے ہیں۔ ۱۱۔ انکے قلوب بیمار ہوتے ہیں۔ 


  • صفات قلب مومن

    ۱۔ سالم ہے۔ ۲۔ متقی ہوتا ہے۔ ۳۔ پرہیزگار ہے۔ ۴۔ پاک و طاہر ہے۔ ۵۔ مہربان دل رکھتے ہیں۔ ۶۔ آرام و مطمئن ہے۔ ۷۔ کھلے دل ہوتے ہیں۔ ۸۔ متواضع ہوتے ہیں۔ ۹۔ الفت و اتحاد ہوتا ہے۔۱۰۔ ذکر الہی میں مشغول رہتا ہے۔ ۱۱۔ بینائی و بصارت والا ہے۔ 


  • صفات قلب منافق

    ۱۔ مریض ہے۔ ۲۔ گناہگار ہے۔ ۳۔ گندگیوں سے لبریز ہوتا ہے۔ ۴۔ سخت دل۔ ۵۔ مضطرب و خوفزدہ۔ ۶۔ متکبر۔ ۷۔ تفرقہ و اختلاف سے بھرے ہوتے ہیں۔ ۸۔ غافل ہوتا ہے۔ ۹۔ اندھا و کور دل ہے۔


  • دوستان خدا کے صفات

    ۱۔ عدالت پیشہ ہوتے ہیں۔ ۲۔ توکل کرنے والے ہوتے ہیں۔ ۳۔ متقی و پرہیزگار ہوتے ہیں۔ ۴۔ توبہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ ۵۔ صابر ہوتے ہیں۔ ۶۔ محسن ہوتے ہیں۔ ۷۔ مجاہد راہ خدا ہوتے ہیں۔


  • دشمنان خدا کے صفات

    ۱۔ اسراف کرنے والے ہوتے ہیں۔ ۲۔ خائن۔ ۳۔ ظالم۔ ۴۔ کافر۔ ۵۔ حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔ ۶۔ مستکبر۔ ۷۔ متکبر و فخر فروش۔ ۸۔ دروغگو۔


  • بہترین افراد کے صفات

    پیغمبر اکرمؐ نے حضرت علیؑ سے فرمایا: اے علیؑ! جو لوگوں کی خطاؤں کو در گذر نہیں کرتا ہے وہ بدترین فرد ہے اور اس سے بدتر وہ ہے جس کے شر سے خود انسان محفوظ نہ سمجھتا ہو اور اس کے خیر کا امیدوار نہ ہو۔

    بحار الانوار میں کتاب "اکمال الدین" سے منقول ہے کہ حضرت علیؑ نے بہترین افراد کے سلسلہ میں پیغمبر اکرمؐ نے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ۱۔ واجبات و فرائض کا ادا کرنے والا سب سے بڑا عابد ہے۔ ۲۔ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی دوسروں کیلئے پسند کرنے والا عادل ترین فرد ہے۔ ۳۔ اپنے مال کی زکات (اور دیگر واجبات جو مال پر عائد ہوتے ہیں) ادا کرنے والا سب سے سخی انسان ہے۔ ۴۔ حق گوئی خواہ اس کیلئے مضر ہو یہ سب سے زیادہ تقویٰ ہونے کی علامت ہے نیز بے جا بحث و جدال سے پرہیز کرنا۔ ۵۔ محرمات سے پرہیز کرنا سب سے زیادہ زاہد ہونے کی علامت ہے۔ ۶۔ زمانہ کے تغیر و تبدیلی سے عبرت حاصل نہ کرنے والا سب سے زیادہ غافل انسان ہے۔ ۷۔ موت کو یاد کرتے رہنا یہ ہوشیار ترین فرد ہونے کی علامت ہے۔ ۸۔ دوسروں کے علوم سے فیض حاصل کرنے والا سب سے بڑا عقلمند ہے۔ ۹۔ سب سے زیادہ حرص وآز رکھنے والا سب سے بڑا فقیر ہے۔ ۱۰۔ دوسروں سے زیادہ علم رکھنے والا دوسروں سے زیادہ بافضل ہے۔ ۱۱۔ جس کا اخلاق سب سے بلند ہو وہ سب سے زیادہ با ایمان فرد ہے۔ ۱۲۔ اپنے خواہشات نفس پر غلبہ حاصل کرنے والا سب سے بڑا بہادر و شجاع ہے۔     ۱۳۔ واجبات و فرائض کی ادائیگی میں بخل سے کام لینے والا سب سے بڑا بخیل ہے۔


  • خوبصورت ترین کے صفات

    ۱۔ سب سے خوبصورت معشوق اللہ ہے۔ ۲۔ سب سے حَسِین کلام لَاْ إِلٰہَ إِلَّاْ اللہ ہے۔  ۳۔ خوبصورت ترین گھر خانہ کعبہ ہے۔ ۴۔ حَسِین ترین سلسلہ انبیاء ہیں۔ ۵۔ سب سے اچھا دین اسلام ہے۔ ۶۔ سب سے حَسِین ستون نماز ہے۔ ۷۔ حَسِین ترین بانگ تکبیر اَللہُ أکْبَر ہے۔ ۸۔ خوبصورت ترین آواز اذان ہے۔ ۹۔ خوبصورت ترین انسان پیغمبر اکرمؐ ہیں۔ ۱۰۔ سب سے زیادہ متقی و پارسا حضرت علیؑ ہیں۔ ۱۱۔ حَسِین ترین ماں حضرت زہرا (س) ہیں۔ ۱۲۔ کائنات کی تنہا حَسِین ترین فرد امام حَسَن ؑہیں۔ ۱۳۔ حَسِین ترین شہید امام حُسَینؑ ہیں۔ ۱۴۔ خوبصورت ترین استاد امام جعفر صادقؑ ہیں۔ ۱۵۔ خوبصورت ترین قیدی امام موسیٰ کاظمؑ ہیں۔ ۱۶۔ خوبصورت ترین کریمہ حضرت معصومہؑ قم ہیں۔ ۱۷۔ حَسِین ترین انتقام لینے والے حضرت مہدی (عج) ہیں۔ ۱۸۔ حَسِین ترین تعمیر کرنے والے جناب ابراہیمؑ ہیں۔ ۱۹۔ بہترین چچا جناب عباسؑ ہیں۔ ۲۰۔ بہترین کلام کرنے والی جناب زینب ہیں۔ ۲۱۔ خوبصورت ترین صابر جناب ایوبؑ ہیں۔    ۲۲۔ خوبصورت ترین علمدار جناب عباس ؑ ہیں۔ ۲۳۔ خوبصورت ترین غنچہ حضرت علیؑ اصغر ہیں۔ ۲۴۔ خوبصورت ترین قربانی جناب اسماعیل ؑ ہیں۔ ۲۵۔ بہترین ہجرت کرنے والی جناب ہاجرہ ہیں۔ ۲۶۔ حَسِین ترین پیر مرد جناب حَبِیب بن مظاہرؑ ہیں۔ ۲۷۔ حَسِین ترین نماز روز عاشورا نماز ظہر ہے۔ ۲۸۔ حَسِین ترین تحریک شہادت ہے۔ ۲۹۔ حَسِین ترین جُمُعَہ وہ ہے جس روز حضرت مہدیؑ ظہور فرمائیں گے۔ ۳۰۔ حَسِین ترین قیام حضرت مہدیؑ کا قیام ہے۔ ۳۱۔ بہترین کوشش راہ خدا میں جد و جہد کرنا ہے۔    ۳۲۔ بہترین عمل عدالت ہے۔ ۳۳۔ بہترین آوارہ (مہاجر) جناب سلمان ہیں کہ آخر کار مسلمان ہوگئے۔ ۳۴۔ بہترین نمونہ و علامت حج ہے۔ ۳۵۔ بہترین لباس احرام ہے۔ ۳۶۔ بہترین پتھر حجر اسود ہے۔ ۳۷۔ بہترین چشمہ زمزم ہے۔ ۳۸۔ بہترین ندا فطرت ہے۔ ۳۹۔ بہترین رات شب قدر ہے۔ ۴۰۔ بہترین دن جُمُعَہ ہے۔ ۴۱۔ بہترین نیکی والدَین کے ساتھ نیکی کرنا ہے۔ ۴۲۔ بہترین آغوش ماں ہے۔ ۴۳۔ بہترین دوست کتاب ہے۔ ۴۴۔ بہترین رحمت بارش ہے۔ ۴۵۔ بہترین عہد وفا ہے۔ ۴۶۔ بہترین سرمایہ وقت ہے۔ ۴۷۔ بہترین بات حق بات ہے۔ ۴۸۔ بہترین زینت ادب ہے۔ ۴۹۔ بہترین کلمہ محبت ہے۔ ۵۰۔ بہترین نالہ و فریا دعا ہے۔ ۵۱۔ بہترین زمین کربلا ہے۔ ۵۲۔ بہترین بیابان عرفات ہے۔ ۵۳۔ بہترین لمحہ کامیابی ہے۔ ۵۴۔ بہترین جنگ نفس سے جنگ کرنا ہے۔  ۵۵۔ بہترین ابزار (ہتھیار) قلم ہے۔ ۵۶۔ بہترین وعدہ گاہ معاد ہے۔ ۵۷۔ بہترین گروہ شیعہ ہے۔ ۵۸۔ بہترین سورہ حمد ہے۔ ۵۹۔ بہترین مسجد مسجد نبی ہے۔ ۶۰۔ بہترین نعرہ صلوات ہے۔


  • عورتوں کے حسن کے صفات

  • سیاہی: دونوں آنکھوں، ابرو، پلک اور سر کے بالوں کی۔

  • سفیدی: دانت، جسم، فرق سر اور آنکھوں کی۔

  • سرخ: زبان، دونوں ہونٹ اور دونوں رخسار ہوں۔

  • گرد ہونا (دائرہ نما ہونا): صورت، سر، زانو اور ہاتھوں کی ہتھیلیاں۔

  • طویل: بلندی قامت، ابرو اور سر کے بالوں کا لمبا ہونا۔

  • خوشبو دار: منہ، ناک اور بغل کی بدبو سے پاک ہونا۔

  • پیشانی، سینہ اور دونوں آنکھوں کا کشادہ ہونا۔

  • دونوں کان، ناک اور ناف وغیرہ کا تنگ ہونا۔

  • دونوں ہتھیلی، دہن، دونوں قدم اور پستان کا چھوٹا ہونا۔

  • گندمی رخسار، بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، سر بڑا، میانہ قد، خوشبو دار گردن، پیڈلیاں گوشت سے بھری ہوں۔

  • بڑے اور حَسِین بال عورتوں کی خوبصورتی کے خصوصیات شمار ہوتے ہیں۔ 


  • انسانی زینت کے صفات

    حضرت امیر المومنینؑ نے فرمایا: ایک اعرابی رسولخداؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور دریافت کیا: اے خدا کے رسولؐ! زندگی میں انسان کی زینت کیا ہے؟ آنحضرتؐ نے فرمایا: مال، اولاد اور ہمسر (زوجہ یا شوہر)۔ اعرابی: آخرت کی زینت کیا ہے؟ رسولخداؐ: علم، صداقت اور تقویٰ۔ اعرابی: بدن کی زینت کیا ہے؟ رسولخداؐ: کم کھانا، کم سونا اور کم بولنا۔ اعرابی: قلب کی زینت کیا ہے؟ رسولخداؐ: خدا کی تعظیم کرنا، امور میں غور و فکر کرنا اور الٰہی مقدرات پر راضی رہنا۔ اعرابی: عقل کی زینت کیا ہے؟ رسولخداؐ: علم، حلم اور شکر۔ اعرابی: الٰہی کی زینت کون کونسی ہے؟ رسولخداؐ: دیکھنا، عبرت حاصل کرنا اور گریہ کرنا۔ اعرابی: ہاتھوں کی زینت کیا ہے؟ رسولخداؐ: مہربانی، مدد کرنا اور مومن کیلئے سخی ہونا۔ اعرابی: پیروں کی زینت کیا ہے؟ رسولخداؐ: نماز میں طولانی قیام، نیک کاموں میں جلدی کرنا اور علم حاصل کرنے کیلئے جانا۔


  • اچھے ذمہ دار (مدیر) کے صفات

    ۱۔ توکل۔ ۲۔ صبر۔ ۳۔ استقامت۔ ۴۔ شکیبائی۔ ۵۔ پا مرد ہونا۔ ۶۔ در گذر کرنے والا۔ ۷۔ ہمت و نظر بلند ہو۔ ۸۔ اختراع۔ ۹۔ نظم و انضباط۔۱۰۔ پشتکار (محنتی)۔ ۱۱۔ انتقاد (تنقید) کو قبول کرنے والا ہو۔ ۱۲۔ محبت و صمیمیت۔ ۱۳۔ مستقبل پر نظر رکھے۔ ۱۴۔ راز دار ہو۔ ۱۵۔ متواضع ہو۔ ۱۶۔ مشورہ کرنے والا اور دوسروں کے افکار و نظریات کا احترام کرنے والا ہو۔ ۱۷۔ لوگوں کا مرکز ہو۔ ۱۸۔ اصول و قوانین پر پابند ہو۔ ۱۹۔ مومن و متقی ہو۔ ۲۰۔ اہداف کا اعتقاد رکھتا ہو۔ ۲۱۔ سلیقہ حَسِین رکھتا ہو۔ ۲۲۔ دلسوز ہو۔ ۲۳۔ با تجربہ ہو۔ ۲۴۔ عادل ہو۔ ۲۵۔ پاکدامن اور صابر ہو۔ ۲۶۔ غصہ ور نہ ہو۔ ۲۷۔ کمزوروں پر سختی نہ کرے۔ ۲۸۔ بد زبان نہ ہو۔ ۲۹۔ عذر کو قبول کرنے والا ہو۔

  • نالائق مدیر کے صفات

    ۱۔ اپنے ما تحت افراد کے درمیان بلا سبب تبعیض (امیتاز) کرنا۔ ۲۔ غیر مناسب افراد کے حوالہ امور کرنا۔ ۳۔ جاہ طلب ہو۔ ۴۔ مدح و ثنا کا خواہاں ہو۔ ۵۔ چاپلوس افراد کو اپنے پاس جگہ دے۔ ۶۔ حریص اور ذخیرہ اندوز ہو۔ ۷۔ تنگ نظر اور بخیل ہو۔ ۸۔ اپنے ہمکاروں (شرکائے کار) کے بنسبت حسد رکھتا ہو۔ ۹۔ افواہوں پر دھیان دے اور انکے بنسبت اقدام کرے۔ ۱۰۔ اسراف پیشہ ہو۔ ۱۱۔ شک و تردید، فقدان شہامت (استقامت) و دلیری یا خوف و بزدلی کے باعث فرصتوں سے استفادہ نہ کرے۔ ۱۲۔ چھوٹے چھوٹے مسائل یا کینہ پروری و لجاجت کے باعث اپنی قوت کو خراب کرے۔ ۱۳۔ کمزور پہلو پر توجہ مرکوز کر دے اور قوی نقاط و پہلو سے بے اعتنائی برتے۔ ۱۴۔ ہوا و ہوس پرستی شیوہ ہو۔ ۱۵۔ جذبہ انتقام و کینہ رکھتا ہو۔ ۱۶۔ خود رائی کا جذبہ رکھتا ہو۔ ۱۷۔ عجلت پسند ہو اور تحقیق سے گریزاں ہو۔ ۱۸۔ سوئے ظن۔ ۱۹۔ حد سے زیادہ خوش بین ہو۔ ۲۰۔ غرور و غفلت کا شکار ہو۔ ۲۱۔ غصہ و خشونت۔ ۲۲۔ حد سے زیادہ مہربانی اور منحرف افراد سے ساز باز رکھتا ہو۔ ۲۳۔ اپنے ہمکار افراد پر اعتماد نہ کرتا ہو۔ ۲۴۔ انحصار طلبی کا جذبہ ہو اور سارے امور خود اپنے قبضہ قدرت میں رکھے۔ ۲۵۔ کمزور افراد کو انکی پیروی کی وجہ سے ترجیح دینا۔ ۲۶۔ غلطیوں پر لجاجت پسند ہو اور غفلت پر اکڑتا ہو۔ ۲۷۔ گفتگو میں بیہودگی ہو۔ ۲۸۔ آداب کی مراعات نہ کرتا ہو۔ ۲۹۔ نفاق پسند ہو۔ ۳۰۔ اجرائی امور میں بے جا مداخلت کرتا ہو۔

 

  • اچھے مبلغ کے صفات

    ۱۔ اخلاص۔ ۲۔ استقامت و پائیداری۔ ۳۔ قصہ گوئی اور مثالوں کے ذریعہ بات کو سمجھانا۔ ۴۔ شرح صدر۔ ۵۔ علم و عمل سے آراستہ ہو۔ ۶۔ سادہ زندگی بسر کرتا ہو۔ ۷۔ بے تکلف ہو۔ ۸۔ ماضی اچھا رہا ہو۔ ۹۔ تواضع و فروتنی رکھتا ہو۔ ۱۰۔ صاف ستھرا ہو۔ ۱۱۔ دلسوز (ہمدرد) ہو۔ ۱۲۔ یقین محکم رکھتا ہو۔ ۱۳۔ نیک کاموں میں آگے آگے رہے۔ ۱۴۔ گفتگو میں قصہ و داستان سے استفادہ کرے۔ ۱۵۔ مختلف نمونوں کو پیش کرے۔ ۱۶۔ نعمتوں کو یاد دلائے۔


  • زن و مرد کے جسمانی صفات

    ۱۔ مردوں کی خوراک عورتوں سے نسبتاً زیادہ ہوتی ہے، لیکن حرص و آز عورتوں میں زیادہ ہوتی ہے۔ ۲۔ عورتوں میں ہر اسکوائر ملی میٹر خون میں سرخ ذرات (سرخ خونی خلیہ) مردوں کے بنسبت کم ہوتے ہیں۔ ۳۔ پندرہ سال سے پچاس سال تک عورتوں میں ہر منٹ میں تنفس کی تعداد مردوں سے زیادہ ہے لیکن شدت تنفس مردوں میں زیادہ ہے۔ ۴۔ مردوں میں فشار خون (بلڈ پریشر) عورتوں سے زیادہ ہے لیکن عورتوں کی تعداد نبض مردوں سے زیادہ ہے۔ ۵۔ عورتوں کی تمام ہڈیوں کا وزن مرد کی تمام ہڈیوں سے کم ہے لیکن مردوں کی ہڈیوں میں حیوانی مادہ عورتوں سے زیادہ پایا جاتا ہے۔ ۶۔ مرد جب حرکت کرتا ہے تو پہلے داہنا ہاتھ بلند کرتا ہے جبکہ عورتیں بایاں ہاتھ پیر ہلاتی ہیں۔ ۷۔ مردوں کا قد عمومی طور پر بارہ سے تیرہ سینٹی میٹرعورتوں سے زیادہ ہوتا ہے اس بنیاد پر مرد کا وزن پانچ کیلو زیادہ ہوتا ہے۔ ۸۔ عورتوں کی آواز مردوں سے زیادہ ظریف اور بلند ہوتی ہے۔ ۹۔ مردوں کی مچھلیوں (مسلز) میں عورتوں سے زیادہ پیچیدگی ہوتی ہے۔ ۱۰۔ مردوں کا کاسہ سر (جمجمہ) عورتوں سے بڑا ہوتا ہے۔ ۱۱۔ مردوں کے مغز (دماغ) کا وزن عورتوں سے زیادہ ہوتا ہے عموماً مردوں کا مغز (دماغ) ایک ہزار تین سو تئیس گرام جبکہ عورتوں کا ایک ہزار دو سو دس گرام ہوتا ہے۔ ۱۲۔ عورتوں کا دل مردوں سے چھوٹا ہوتا ہے عموماً ایک مرد کا دل تین سو گرام اور عورت کا دو سو چالیس گرام کا ہوتا ہے۔ (عام طور پر ہر شخص کا دل اسکی بند مٹھی کے برابر ہوتا ہے۔) ۱۳۔ ہیموگلوبن (خون میں سرخ ذرات) ہر لیٹر میں مرد کے ایک سو تیس سے دو سو گرام جبکہ عورتوں کے خون میں ایک سو دس سے ایک سو اسی گرام تک ہی ہوتا ہے۔ ۱۴۔ بچپن کی نشو و نما میں لڑکے اور لڑکیوں میں زیادہ فرق نہیں ہوتا ہے لیکن لڑکیاں ہر جگہ لڑکوں سے جلدی بالغ ہو جاتی ہیں، لڑکیوں میں دس سال سے پندرہ سال کی عمر تک نشو و نما میں تیزی آجاتی ہے جبکہ لڑکوں میں یہ تیزی سترہ سال کی عمر میں پیدا ہوتی ہے، لڑکوں کی نشو و نما پچیس سال تک ہوتی رہتی ہے لیکن لڑکیوں میں عموماً اٹھارہ سال تک ہی ہوتی ہے۔ (بلوغت کا سن دنیا کے مختلف خطوں میں جداگانہ ہے۔) ۱۵۔ مرد کا بدن عموماً چار سو گرام عورتوں سے زیادہ وزنی ہوتا ہے۔ ۱۶۔ مرد کا اوسطاً دل عورت کے دل سے پچاس گرام زیادہ ہوتا ہے۔ ۱۷۔ مردوں کے پھیپھڑے عورتوں سے تین سو گرام زیادہ ہوتے ہیں۔ ۱۸۔ عورتوں کا مغز (بھیجا) ایک سو ساٹھ گرام مردوں سے ہلکا ہوتا ہے اور ایک قول کی بنیاد پر مرد کا مغز (بھیجا) اوسطاً عورتوں سے سو گرام زیادہ ہوتا ہے۔ ۱۹۔ عورتوں کے تنفس کی رفتار مردوں سے تیز ہے اور علم کیمیا کے مطابق یہ ایک قسم کا نقص ہے۔ ۲۰۔ مرد چونکہ ہر گھنٹہ گیارہ گرام کاربن جلا دیتا ہے لہٰذا آکسیجن سے زیادہ استفادہ کرتا ہے اسکے مقابل عورت ہر گھنٹہ سات گرام ہی کاربن جلا پاتی ہے۔ ۲۱۔ عورتوں کی نبض کی سرعت ہر منٹ میں مرد کے مقابل دس سے بارہ زیادہ ہوتی ہے جو اسکے ضعف قویٰ کی روشن دلیل ہے۔ ۲۲۔ قوت ہاضمہ عورتوں میں مردوں کے بنسبت ضعیف ہوتی ہے اسی وجہ سے کھانا کم کھاتی ہیں اور جلدی بھی پھر غذا کی خواہش سر اٹھانے لگتی ہے اور جلدی بھوک کا احساس ہوتا ہے۔ ۲۳۔ عورتوں کا قد مردوں سے بارہ سینٹی میٹر کم ہوتا ہے جو پیدائش کے بعد سے ہی قابل احساس ہوتا ہے۔ ۲۴۔ عورتوں کے عضلات مردوں سے ایک تہائی حجم کے اعتبار سے کم ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ عورتوں کا جسم لاغر اور حرکات سست ہوتی ہیں۔ ۲۵۔ مرد و زن کے حواس پنجگانہ میں واضح فرق پایا جاتا ہے۔ ۲۶۔ عورتوں کے رگ و ریشہ میں دوڑنے والا خون رنگ و ترکیب نیز وزن کے اعتبار سے مردوں کی رگوں میں دوڑنے والے خون سے مختلف ہوتا ہے۔ ۲۷۔ عورتوں کا خون کم رنگ، بلکا ہوتا ہے، مردوں سے اسی وجہ سے خون کے سفید ذرات (سفید خونی خلیہ) کم ہوتے ہیں۔

  • زن و مرد کے ان تخلیقی امتیازات جو علمی تحقیق کی بنیاد پر پائے جاتے ہیں اسکے بعد بھی کوئی صاحب عقل یہ کہہ سکتا ہے کہ عورت زندگی کے ہر مرحلہ میں مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے؟ یہاں پر یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ مرد و زن کے درمیان تخلیقی امتیازات عورت کی پستی کی دلیل نہیں ہے بلکہ یہ اختلاف ان دو قسم کی ذمہ داریوں کے بنیاد پر ہے جو مرد و زن کے دوش پر ہے۔

  • ذمہ داری روحانی و جسمانی قوت کے تناسب سے اچھی ہوتی ہے خواہ مرد پر عائد ہو یا عورت پر ورنہ مقصد فوت ہو جائے گا اور زندگی کی گاڑی فیل ہو جائے گی۔ اسلام نے بتایا کہ خلقت کا یہ امتیاز اس وجہ سے ہے کہ مرد و عورت کے حقوق و وطائف کو علاحدہ کیا جا سکے اور اسکی تقسیم ممکن ہو جائے، عورت و مرد کے درمیان کا اختلاف اعضاء و جوارح کے اختلاف سے مشابہت رکھتا ہے۔

  • اگر خالق نے ہر عضو کو ایک خاص شکل و صورت پر بنایا ہے تو اسکا واحد مقصد یہ تھا کہ اعضا و جوارح کے وظائف و فرائض مختلف النوع تھے اسلئے ہر عضو کو اسکی ذمہ داری کے تناسب سے خلق کیا، ایسا نہیں کہ خالق نے امتیازی رویہ اور تبعیض (امتیاز) اختیار کیا ہے۔


  • روحانی اعتبار سے:

    ۱۔ عورتیں اکثر خودستائی، خود پسندی، خود بینی، خود فروشی اور خود آرائی میں مردوں سے کئی قدم آگے ہوتی ہیں، ماہرین نفسیات (علم نفسیات کے ماہرین) کے مطابق یہ تمام صفات متکبر، مغرور اور تند خو، روح و احساس کے اعتبار سے کمزور افراد کے ہوتے ہیں یہی وجویات ہیں کہ عورتیں اپنے سے کمزور کے مقابلہ زیادہ زور گو اور سخت و وحشیانہ انداز کا مظاہرہ کرتی ہیں لیکن اپنے سے قوی و طاقتور کے مقابلہ میں خود کو ناتوان و عاجز ظاہر کرتی ہیں، عموماً ناراضگی و گریہ کا سہارا لیتی ہیں۔ مرد خود شناس، خود خواہ، خود دار، خود گذشت، خود پرست، خود کام اور خود سری میں عورتوں سے آگے نظر آتے ہیں۔ البتہ یہ بات ذہن نشین رہے کہ ان تمام صفات میں استثنائی صورت ممکن ہے۔ ۲۔ عورتیں دستکاری، دباو کو برداشت کرنے نیز مسلسل کام کرنے میں مردوں پر برتری رکھتی ہیں لیکن عام طور پر انکی استدلالی صلاحیت مردوں کی بنسبت کمزور ہوتی ہے۔ ۳۔ موہومات و خرافات نیز مردہ پرستی کا عقیدہ مردوں سے زیادہ عورتوں میں پایا جاتا ہے، ان عقائد سے دستبرداری ان کیلئے بے حد سخت ہوتی ہے، ماہرین نفسیات کے بقول یہ صفات خوف کے غلبہ اور جسمانی و روحانی کمزوری کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔ ۴۔ خاندانی افتخار و مباہات اور انکی شہرت پر ناز کرنے میں مردوں سے آگے ہوتی ہیں اور اگر مناسب مواقع حاصل ہوجائیں تو فوراً خود ستائی شروع کر دیتی ہیں، ماہرین نفسیات کے مطابق اعتماد کے فقدان سے یہ صفت پیدا ہوتی ہے۔ ۵۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے سترہ سال کی عمر سے رشد و نمو عورتوں میں ختم ہو جاتا ہے اسی باعث انکے ہوش و حواس میں پختگی نہیں ہوتی ہے۔ ۶۔ اولاد کی تربیت، بیماروں کی دیکھ بھال، رنج و غم، تنگدستی کو برداشت کرنے، راہ دین و ملک میں جان نثاری کا جذبہ مردوں سے زیادہ رکھتی ہیں، قناعت، حلم و بردباری اور انگیزہ عورتوں میں زیادہ ہے، حادثہ سے قبل خوفزدہ ہو جاتی ہیں لیکن حادثہ رونما ہونے کے بعد مردوں سے زیادہ صبر و شکیبائی (تحمل) کا مظاہرہ کرتی ہیں، اپنے رقیب کو ٹھکانے لگانے یا اپنی منفعت کیلئے کسی کو نیست و نابود کرنے میں عورتیں مردوں سے آگے نظر آتی ہیں۔

  • المختصر عورتیں مکر و فریب، دلربائی، دوسروں کی توجہات جلب (جذب) کرنے، بات زیادہ کرنے، بھاگنے، ہنسنے، تقلید اور مارڈن بننے میں مردوں سے آگے ہوتی ہیں، یہی وجوہات ہیں کہ زندگی سستیوں کا جماؤڑا ہو جاتا ہے، اس بات کا امکان بھی پایا جاتا ہے کہ زندگی کا روشن چراغ ہی گل ہو جائے اور بے گناہ اولاد عورت کی خود سری کی بھینٹ چڑھ کر فنا کے گھاٹ لگ جائے۔


  • احساساتی اعتبار سے:

    ۱۔ مرد اسیر شہوات ہے اور عورت مردوں کی محبت میں گرفتار ہے۔ ۲۔ مرد اس عورت سے محبت کرتا ہے جو اسکو پسند کرے اور عورت اس مرد کو دوست رکھتی ہے جو اسکو اہمیت دے اور اپنی دوستی کا پتہ عورت کو دیدے۔ ۳۔ مرد عورت کی ذات کا تعاقب کرتا ہے اور اسکے حاصل کرنے کے فراق میں رہتا ہے جبکہ عورت دل پر قبضہ کر کے غلبہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ ۴۔ مرد عورتوں کے سر پر تسلط چاہتا ہے، عورت مرد کے دل پر قبضہ کی خواہشمند ہوتی ہے۔ ۵۔ عورتیں مردوں کو شجاع و بہادر دیکھنا پسند کرتی ہیں جبکہ مرد عورتوں سے حُسن و دلبری کا تقاضا کرتا ہے۔ ۶۔ عورت مرد کی حمایت کو اپنے لئے سب سے قیمتی شئے سمجھتی ہے۔ ۷۔ عورتیں مردوں سے زیادہ خواہشات پر تسلط اور کنٹرول رکھتی ہیں جبکہ مرد ابتدائی اور تہاجمی (حملہ ورانہ) ہے عورتوں کے خواہشات انفعالی و تحریکی ہیں۔


  • روح کے اعتبار سے:

    ۱۔ مرد کیلئے ہمیشہ اس عورت کے پاس رہنا جس سے وہ محبت کرتا ہے خستگی کا سبب ہے جبکہ عورت کیلئے اس سے زیادہ پسندیدہ کوئی چیز نہیں ہے کہ اسکا ہمسر (شوہر) ہمیشہ اسکے پاس رہے۔ ۲۔ مرد اپنی پرانی حالت پر باقی رہنا پسند کرتا ہے جبکہ عورت ہر صبح ایک نئے چہرہ کے ساتھ بستر سے اٹھنا پسند کرتی ہے۔ ۳۔ سماج و معاشرہ میں مقام و مرتبہ کا حاصل کرنا ایک مرد کی خوش بختی ہے جبکہ عورت ایک مرد کا دل حاصل کر کے اسکو پوری زندگی محفوظ رکھنا اپنی خوش بختی سمجھتی ہے۔ ۴۔ ایک مرد کی ہمیشہ یہ آرزو ہوتی ہے کہ وہ اپنی محبوب عورت کو اپنے دین و ملت میں داخل کر لے جبکہ عورت کیلئے جیسے شادی کے بعد فیملی (خاندانی) نام کی تبدیلی آسان ہے ویسے ہی اپنے شوہر کی خوشی کیلئے دین و قوم کو بدل لینا بھی آسان ہے۔


  • نفسیاتی اعتبار سے:

    ۱۔ ورزش، شکار اور ایسے امور جس میں حرکت و جنبش ہو کی طرف مرد کا رجحان عورتوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ ۲۔ مرد کے نفسیات میں جنگ و جدال ہے جبکہ عورتوں کے نفسیات صلح پسند ہوتے ہیں۔ ۳۔ مرد شور وغل کرنے والا ہوتا ہے جبکہ عورتوں میں آرام و سکون حاکم ہوتا ہے۔ ۴۔ اپنے یا دوسروں کے سلسلہ میں عورتیں خشونت (شدت و سختی) کو پسند نہیں کرتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ عورتوں میں خودکشی کی شرح مردوں سے کم ہے، خودکشی میں بھی مرد مہلک ہتھیار استعمال کرتا ہے جبکہ عورتیں دواؤں پر بھروسہ کرتی ہیں۔ ۵۔ عورتوں کے نفسیات زیادہ پر جوش ہوتے ہیں اور اپنے پسندیدہ امور میں جلدی متاثر ہوجاتی ہیں۔ ۶۔ مرد مزاجاً مرد ہوتا ہے۔ ۷۔ عورتوں کے نفسیات میں استحکام کم ہوتا ہے۔ ۸۔ عورتیں مردوں سے زیادہ محتاط، مذہبی، خوفزدہ ہونے والی اور تکلفات کرنے والی نیز زیادہ بات کرنے والی ہوتی ہیں۔ ۹۔ عورتوں کی نظر میں گھر اور خاندان کی اہمیت زیادہ ہوتی ہے۔ ۱۰۔ استدلالی علوم (معقولات) اور خشک مسائل میں مردوں کی برابری عورتیں نہیں کر سکتی ہیں لیکن ادبی، آرٹ وغیرہ میں مردوں سے پیچھے بھی نہیں رہتی ہیں۔ ۱۱۔ راز چھپانے کی قوت مردوں میں عورتوں سے زیادہ ہوتی ہے، رنجیدہ کرنے والے راز بھی مرد چھپائے رہتا ہے۔ ۱۲۔ عورتیں نرم دل ہوتی ہیں، گریہ و زاری اور ملاوٹ (بناوٹ) سے گریز نہیں کرتی ہیں، عورتیں مردوں سے زیادہ بات کرنے والی ہوتی ہیں کیونکہ عورتوں کے الفاظ کا خزانہ تئیس ہزار کلمات پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ مرد اسکے نصف پر قناعت کرتا ہے۔


  • جنین کے صفات

سینٹی میٹر کے حساب سے درج کیا جا رہا ہے۔

  • پہلے تین مہینہ میں: ۹ سینٹی میٹر۔

  • چوتھے مہینہ میں:۲۰ سینٹی میٹر۔

  • پانچویں مہینہ میں: ۲۵ سینٹی میٹر۔

  • چھٹے مہینہ میں: ۳۶ سینٹی میٹر۔

  • ساتویں مہینہ میں: ۴۱ سینٹی میٹر۔

  • آٹھویں مہینہ میں: ۴۴ سینٹی میٹر۔

  • نویں مہینہ میں: ۵۰ سینٹی میٹر۔

  • عمومی طور پر پیدائش کے وقت بچہ تین کلو گرام کا ہوتا ہے لیکن جو بچے وقت سے پہلے متولد ہو جاتے ہیں وہ ڈھائی کلو گرام کے ہوتے ہیں لیکن انکی طبعی نشو و نما مندرجہ ذیل ہے۔

  • پہلے مہینہ میں ہر روز: ۳۰ گرام۔

  • تیسرے مہینہ میں ہر روز: ۲۵ گرام۔

  • چوتھے سے چھٹے مہینہ میں ہر روز: ۲۰ گرام۔

  • چھٹے سے بارہویں مہینہ میں روزانہ: ۵۰۰ گرام۔

  • بارہویں سے اٹھارویں مہینہ میں روزانہ: ۱۸۰ گرام۔

  • اٹھارویں سے چوبیسویں مہینہ میں روزانہ: ۱۵۰ گرام


  • اسقاط جنین کی دیت

    اسقاط حمل گناہ کبیرہ ہے جس پر دردناک عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے اسقاط شدہ بچے روز قیامت اپنے والدین کے مقابلہ میں کھڑے ہوں گے۔

  • پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا: میں اپنی امت کی زیادتی و کثرت پر فخر و مباہات کرتا ہوں خواہ سقط شدہ ہی کیوں نہ ہو، لہٰذا اسقاط سے پرہیز کرنا ضروری ہے اوراگر اس گناہ کے مرتکب ہوئے تو مندرجہ صورتیں دیہ (دیت) کی واجب ہوں گی۔

    ۱۔ نطفہ بیس دن کا ہو: بیس مثقال (سونا) طلائے شرعی۔ ۲۔ جما ہوا خون  چالیس روز کا ہو: چالیس مثقال (سونا) طلائے شرعی۔ ۳۔ گوشت کا لوتھڑا ساٹھ روز کا ہو: ساٹھ مثقال (سونا) طلائے شرعی۔ ۴۔ ہڈیاں اسّی روز کا ہو اسّی مثقال (سونا) طلائے شرعی۔ ۵۔ ہڈیوں پر گوشت چڑھ چکا ہو سو روز کا ہو: سو مثقال (سونا) طلائے شرعی۔ ۶۔ روح چھونکی جا چکی ہو:

  • الف: لڑکا ہو    ایک ہزار مثقال۔

  • ب: لڑکی ہو     پانچ سو مثقال۔

  • متذکرہ موارد میں ایک مثقال (سونے) کے عوض دس چاندی کے درہم دینا بھی کافی ہے۔  سقط جنین کی دیت شارع مقدس ورثا کے درمیان تقسیم کرے گا۔

  • ہر مثقال شرعی (سونا): چنے کے اٹھارہ دانے کے برابر ہے جو تقریباً  ۴۵۶ .۳گرام ہوتا ہے۔


  • سال کے مہینوں کے صفات

    ۱۔ آذار (فروردین):

یہ زمانہ کی روح ہے کہ اسی ماہ میں تمام چیزیں نشو و نما پاتی ہیں، ان ایام میں دن و رات خوش مزہ (لذت انگیز) ہوتے ہیں، زمین نرم، بلغم جسم سے دور ہوتا ہے، خون میں ہیجان پیدا ہو جاتا ہے، اس مہینہ میں لطیف غذا، گوشت، انڈا وغیرہ کا استعمال کیا جائے، پینے والی چیزوں کو معتدل کر کے پیا جائے، نہ بہت ٹھنڈی اور نہ بہت گرم، کھٹائی، پیاز و لہسن کے استعمال سے پرہیز کیا جائے، حجامت فائدہ مند ہے نیز 31 دن کا ہوتا ہے۔ 

    ۲۔ نیسان (اردیبہشت):

دن طولانی ہوتے ہیں، موسم کا مزاج قوی ہو جاتا ہے، خون کا دوران بڑھ جاتا ہے، پُروائی ہوا بہتی ہے، تلی ہوئی چیزوں کو سرکہ کے ساتھ استعمال کیا جائے، شکار کئے ہوئے گوشت مفید ہیں، جماع زیادہ کرنا چاہئے، بدن کی تیل سے مالش کرنا چاہئے، خالی پیٹ پانی نہ پیئے، خوشبو کا استعمال کیا جائے نیز 30 دن کا ہوتا ہے۔

    ۳۔ ایاز (خرداد):

ہوا صاف ہوتی ہے اور کسی قسم کا نقصان نہیں پہونچاتی ہے، موسم بہار کا آخری مہینہ ہے، اس مہینہ میں نمکین اور شورہ (نمک) والی اشیاء کا استعمال منع کیا گیا ہے، اسی طرح ثقیل گوشت مثلاً سر و پیر، گائے کا گوشت، دودھ وغیرہ بھی منع کیا گیا ہے، دن کے پہلے حصہ میں نہانا مفید ہے، کھانے سے پہلے نہانا مشقت کا سبب ہے، نیز 31 روز پر مشتمل ہوتا ہے۔

    ۴۔ خیزران (تیر): 

بلغم و خون خارج ہوتے ہیں، صفراء کا زمانہ کہلاتا ہے، زحمت اٹھانا، چربی دار گوشت کا زیادہ استعمال، مشک و عنبر کا استعمال ممنوع ہے، ان سبزیجات کا استعمال کیا جائے جن کی تاثیر ٹھنڈی ہے مثلاً کھیرا، تر و تازہ میوہ جات (پھل) وغیرہ، کھٹی غذائیں، بچھڑے کا گوشت، بھیڑ کا بچہ جو سات آٹھ ماہ کا ہو اسکا گوشت، چکور وغیرہ کا گشت، دودھ اور مچھلی بہت مفید ہے، نیز 30 دنوں پر مشتمل ہے۔  

    ۵۔ تموز (مرداد):

گرمی شدید ہوتی ہے اور پانی کی سطح نیچے چلی جاتی ہے، نہار منہہ ٹھنڈاپانی پینا چاہئے، سرد اور تر چیزیں استعمال کرنا چاہئے، زود ہضم چیزیں کھانی چاہئے، شربت نیلوفر و بنفشہ استعمال کرنا چاہئے، اس مہینہ میں پھول اورخوشبو کا استعمال کرتے رہنا چاہئے، نیز 31 دن کا یہ مہینہ ہے۔ 

    ۶۔ آب (شہریور):

ہوا شدید گرم رہتی ہے اور رات کو زکام ہونے کا خطرہ بنا رہتا ہے، باد شمال چلتی ہے لہذا مزاج کی ٹھنڈک سے اصلاح کرنا چاہئے، چھاچھ، دہی استعمال مفید ہے، جماع اور مسہل چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے، محنت کم کرنا چاہئے، خوشبو کا استعمال کرنا چاہئے، نیز 31 دن اس مہینہ میں ہوتے ہیں۔ 

    ۷۔ ایلول (مہر):

ہوا صاف ستھری رہتی ہے، سودا کی حکمرانی ہوتی ہے کیونکہ سودا خشک و سرد ہے مزاج کے اعتبار سے ہوا بھی اس مہینہ خشک اور ٹھنڈی ہوتی ہے، اسی وجہ سے سوداوی امراض زیادہ حملہ آور ہوتے ہیں، مسہل شربت کا استعمال فائدہ مند ہے، شیرینی کا استعمال، معتدل قسم کے گوشت مفید ہیں مثلاً بچھڑا وغیرہ، گائے کے گوشت اور تلی ہوئی چیزوں سے پرہیز کرنا چاہئے، حمام جانے سے پرہیز کرے، عطریات کا استعمال کرے، خربوزہ اور کھیرا کھانے سے پرہیز کرے، نیز 30 دن اس مہینہ میں ہوتے ہیں۔

    ۸۔ تشرین اول (آبان):

اس میں مختلف النوع ہوائیں چلتی ہیں، باد صبا بھی چلتی ہے، دواؤں کے پینے سے پرہیز کرے، جماع مفید ہے، چربی دار گوشت، میٹھے انار اور میوے جات (پھل) کھانے کے بعد استعمال کرنا مفید ہے، گوشت، دال کے ساتھ کھایا جائے، پانی کم پیا جائے اور محنت و مشقت کیا جائے، نیز 31 روز کا مہینہ ہے۔

    ۹۔ تشرین دوم (آذر):

فصل بہار کی بارش منقطع ہوجاتی ہے، رات میں پانی پینے کو منع کیا گیاہے، جماع اور حمام کم کردیا جائے، روزانہ صبح میں تھوڑا گرم پانی استعمال کیا جائے، پودینہ وغیرہ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے، نیز اس مہینہ میں 30 دن ہوتے ہیں۔

    ۱۰۔ کانون اول (دَی):

تند و تیز ہوائیں چلتی ہیں، شدید ٹھنڈک ہوتی ہے، نویں مہینہ میں جو کچھ ذکر ہوا ہے وہ اس میں مفید ہے، ٹھنڈی غذاؤں سے پرہیز کرے، حجامت سے پرہیز کرے، گرم غذاؤں کا استعمال کرے، نیز 31 روز پر مشتمل ہے۔

    ۱۱۔ کانون دوم (بہمن):

بلغم کا غلبہ ہوتا ہے، مناسب ہے کہ اس مہینہ میں نہار منہ تھوڑا سا گرم پانی کا استعمال کیا جائے، جماع مفید ہے، اس ماہ میں کرفس (اجوائن)، شاہی (اسکے بیج کو اسپندان کہتے ہیں) اور ترہ (ہری پیاز کے پتے یا اس سے مشابہہ سبزی کو کہتے ہیں) نامی سبزی جات کا استعمال مفید ہے، صبح سویرے حمام جانا مفید ہے، روغن شب بو سے بدن پر مالش کریں، شیرینی، مچھلی، دودھ کھانے سے پرہیز کریں، نیز 31 دنوں کا یہ مہینہ ہوتا ہے۔

     ۱۲۔ شباط (اسفند):

مختلف اقسام کی ہوائیں چلتی ہیں، بارش زیادہ ہوتی ہے، گھانس اگ جاتی ہے، درختوں میں پانی چلایا جاتا ہے، پرندوں کا گوشت، شکار کا گوشت اور خشک میوہ جات مفید ہیں، اس مہینہ میں شیرینی کا استعمال کم کریں، جماع اور زیادہ محنت و مشقت کی مدح کی گئی ہے، نیز 28 / 29 دنوں کا یہ مہینہ ہوتا ہے۔


  • مہینہ کے دنوں کے صفات

    پہلا دن: مہینہ کے پہلے دن جناب آدمؑ کی تخلیق ہوئی، طلب حاجت، کام کرنے، ازدواج، سفر، خرید و فروخت کیلئے مبارک دن ہے، مہینہ کے پہلے دن پیدا ہونے والا بچہ برکتوں والا ہوتا ہے اور اسکا رزق وسیع ہوتا ہے۔

    دوسرا دن: اسی روز جناب حواؑ کی تخلیق ہوئی ہے، ازدواج اور تعمیر مکان، سفر اور حاجات طلب کرنے کیلئے بہترین دن ہے، اس روز پیدا ہونے والے بچے کی تربیت اچھی ہوتی ہے۔

    تیسرا دن: نحس ہے، اسی روز جناب آدم و حوا بہشت سے جنتی لباس چھوڑ کر نکلے، اس دن گھر کے امور میں مصروف رہنا چاہئے، گھر سے حتیٰ الامکان نہیں نکلنا چاہئے، خرید و فروخت سے پرہیز کرے۔

    چوتھا دن: شکار، تعمیر کیلئے اچھا دن ہے لیکن سفر سے بچنا چاہئے کیونکہ قتل یا چوری کا امکان یا کسی دوسری بلا میں گرفتار ہو جانے کا خدشہ بنا رہتا ہے، اس روز پیدا ہونے والا بچہ پوری عمر صاحب برکت ہوتا ہے۔

    پانچواں دن: نحس ہے، اسی روز قابیل پیدا ہوا، اسی روز جناب ہابیل کو قتل کیا، کسی کام کو انجام نہ دیاجائے، پیداہونے والا بچہ نیک ہوگا۔

    چھٹا دن: ازدواج و شادی کیلئے اچھا ہے، اس روز سفر کرنے والا سلامتی کے ساتھ لوٹے گا، بچہ پیدا ہوگا تو آفات سے محفوظ رہے گا۔

    ساتواں دن: کام کیلئے اچھا دن ہے، درخت لگانے اور عمارت بنوانے کا انجام اچھا ہوگا، نو مولود کا رزق وسیع ہوگا۔

    آٹھواں دن: ہر کام کیلئے اچھا دن ہے، پیدا ہونے والا بچہ بھی اچھا ہوگا۔

    نواں دن: سبک ہے اور ہر قسم کے امور کے انجام دینے کی توفیق ہر حال میں حاصل ہوگی۔

    دسواں دن: جناب نوح اسی روز پیدا ہوئے، اس روز پیدا ہونے والا بچہ طولانی عمر پائے گا، خرید و فروخت اور سفر کیلئے اچھا ہے۔

    گیارہواں دن: کام شروع کرنے یا کسی معاملہ کو انجام دینے کیلئے اچھا ہے، سفر کیلئے بھی اچھا ہے، اس روز پیدا ہونے والے بچے کی زندگی اچھی ہوگی۔

    بارہواں دن: شادی کیلئے اچھا دن ہے، دکان کھولنے، دریا کا سفر کیلئے بھی اچھا ہے، پیدا ہونے والا بچہ بھی اچھا ہوگا۔

    تیرہواں دن: نحس ہے، انجام امور میں احتیاط سے کام لے۔

    چودہواں دن: ہر کام کیلئے اچھا ہے، اس روز پیدا ہونے والا بچہ سادگی پسند ہوگا، معاملات، سفر، دریا کا سفر اچھا ہے۔

    پندرہواں دن: ہر کام خواہ سفر ہو یا اسکے علاوہ کیلئے بہتر ہے، جو حاجت ہو اس کیلئے اقدام کرو کہ آگے بڑھو گے۔

    سولہواں دن: نحس ہے، کسی کام کیلئے اقدام نہ کرو اور سفر سے بھی پرہیز کرو۔

    سترہواں دن: ہر کام کیلئے اچھا دن ہے، عمارت، درخت لگانے وغیرہ کیلئے۔

    اٹھارہواں دن: مبارک دن ہے، اس روز پیدا ہونے والا بچہ بھی اچھا ہوگا، فقیری اسکے پاس نہیں آئے گی اور توبہ کی حالت میں دنیا سے اٹھے گا۔ 

    انیسواں دن: ہر کام کیلئے سُبُک ہے، اچھائیاں شامل حال رہیں گی، ایک روایت میں اسکے بر عکس بھی بیان ہوا ہے۔

    بیسواں دن: طلب حاجت کیلئے اچھا دن ہے، اس روز پیدا ہونے والا بچہ زحمتوں میں رہے گا اور کمزور ہوگا۔

    اکیسواں دن: نحس ہے، کام کرنے سے پرہیز کرو، صدقہ زیادہ دو۔

    بائیسواں دن: ہر کام کیلئے اچھا دن ہے، اس دن پیدا ہونے والا بچہ اچھی زندگی کا مالک ہوگا۔

    تیئسواں دن: اچھا دن ہے اسی روز جناب یوسفؑ پیدا ہوئے، ہر کام کیلئے اچھا ہے، صلہ رحم، تجارت کیلئے خاص طور پر، اس روز پیدا ہونے والا بچہ نیک اور لوگوں کی نگاہ میں محبوب ہوگا۔

    چوبیسواں دن: نحس ہے اسی روز فرعون پیدا ہوا تھا، سخت ترین دن ہے اس روز کام سے پرہیز کیا جائے، ہر کام کیلئے یہ نحس دن ہے۔

    پچیسواں دن: نحس ہے، کام کرنے سے پرہیز کرے، بلاؤں کا دن ہے، اس روز پیدا ہونے والا بچہ بادشاہ و نجیب ہوگا اور وسعت رزق کا مالک ہوگا۔

    چھبیسواں دن: مبارک ہے، ہر کام کیلئے علاوہ شادی کے۔

    ستائیسواں دن: طلب حاجت، امور اور خریدنے کیلئے مبارک دن ہے، اس روز پیدا ہونے والا بچہ نیک صورت، طویل عمر، رزق وسیع کا مالک ہوگا اور لوگوں کے نزدیک محبوب ہوگا۔

    اٹھائیسواں دن: سعد و مبارک ہے، جناب یعقوب اسی روز متولد ہوئے، سفر اور دیگر امور کیلئے اچھا دن ہے۔

    انتیسواں دن: ہر کام کیلئے اچھا دن ہے اس دن سفر مال میں زیادتی کا سبب ہے لیکن کاتب کیلئے اس دن سفر مکروہ ہے، اس روز پیدا ہونے والا بچہ نیک اوردانا ہوگا۔

    تیسواں دن: مبارک دن ہے، اس روز پیدا ہونے والا بچہ مبارک اور حلیم ہوگا۔


  • ایام ہفتہ کے صفات

    شنبہ: منسوب بحضرت رسولخداؐ؛ 100 مرتبہ "یَاْ رَبَّ الْعَاْلَمِیْنَ" پڑھے۔

    یکشنبہ: منسوب بحضرت علیؑ (و جناب فاطمہؑ)؛ 100 مرتبہ "یَاْ ذَا الْجَلَاْلِ وَ الْإِکْرَاْم" پڑھے۔

    دوشنبہ: منسوب بحضرات حسنینؑ (امام حسنؑ و امام حسینؑ)؛ 100 مرتبہ "یَاْ قَاْضِیَ الْحَاْجَاْتِ" پڑھے۔

    سہ شنبہ: منسوب بحضرات امام سجادؑ، امام باقرؑ، امام صادقؑ؛ 100 مرتبہ "یَاْ أَرْحَمَ الرَّاْحِمِیْنَ" پڑھے۔

    چہار شنبہ: منسوب بحضرات امام موسیٰ کاظمؑ، امام رضاؑ، امام محمد تقیؑ، امام علی نقیؑ؛ 100 مرتبہ "یَاْ حَیُّ یَاْ قَیُّوْمُ" پڑھے۔

    پنجشنبہ: منسوب بحضرت امام حسن عسکریؑ؛ "لَاْ إِلٰہَ إِلَّاْ اللہُ الْمَلِکُ الْحَقُّ الْمُبِیْن"پڑھے۔

    جمعہ: منسوب بحضرت امام عصر (عج)؛  100 مرتبہ "أَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ وَ عَجِّل فَرَجَہُم" پڑھے۔


  • سید و سردار

    ۱۔ سید بشر: حضرت آدمؑ۔ ۲۔ اولاد آدم کے سید و سردار: حضرت رسولخداؐ۔ ۳۔ کائنات کی عورتوں کی سردار: حضرت فاطمہ زہراؑ۔ ۴۔ سردار اوصیاء: حضرت علیؑ۔ ۵۔ سردار شہداء: حضرت امام حسینؑ۔ ۶۔ سردار حبش: جناب بلال حبشی۔ ۷۔ سردار فارس:  جناب سلمان فارسی۔ ۸۔ سردار ملائکہ: جبرئیل، میکائیل، اسرافیل، عزرائیل۔ ۹۔ مہینوں کا سردار: ماہ مبارک رمضان۔ ۱۰۔ دنوں کا سردار: روز جمعہ۔ ۱۱۔ کتابوں کا سردار: قرآن مجید۔ ۱۲۔ سوروں کا سردار: سورہ بقرہ۔ ۱۳۔ زبانوں کا سردار: عربی (اہل جنت کی زبان ہے)۔ ۱۴۔ شہروں کا سردار: مکہ معظمہ۔ ۱۵۔ پانیوں کا سردار: آب فرات۔ ۱۶۔ ستاروں کا سردار: سورج۔ ۱۷۔ آسمانوں اور فلک کا سردار: فلک اطلس۔ ۱۸۔ درختوں کا سردار: کھجور کا درخت۔


  • احکام کی توصیف   

    ۱۔ وضو، غسل اور تیمم کا فلسفہ: ظاہری و باطنی پاکیزگی۔ ۲۔ فلسفہ نماز: برائیوں سے دوری۔ ۳۔ روزہ کا فلسفہ: تقویٰ و پرہیزگاری۔ ۴۔ خمس و زکات کا فلسفہ: جان و مال کی طہارت۔ ۵۔ فلسفہ حج: مادی و معنوی منفعت حاصل کرنا۔ ۶۔ فلسفہ جہاد: شرک و فتنہ کو ختم کرنا، دشمنان اسلام کو نابود کرنا، عبادت گاہوں کا تحفظ کرنا۔ ۷۔ جوا اور شراب کی حرمت کا فلسفہ: لوگوں کے درمیان عداوت۔ ۸۔ جنگ میں نماز خوف کا فلسفہ: دشمن کے حملہ سے غافل نہ ہوں۔ ۹۔ مریض و مسافر کی تنبیہ کا فلسفہ: راحت و آسانی، خدا کی کبریائی کو تسلیم کرنا اور شکر خدا کرنا۔ ۱۰۔ حجاب کا فلسفہ: لوگ پہچان نہ پائیں اور مزاحمت ایجاد نہ کریں۔ ۱۱۔ قصاص کا فلسفہ: معاشرہ کی حیات کا تحفظ۔ ۱۲۔ غنائم جنگی کی تعلیم کا فلسفہ: سرمایہ داروں کی ملکیت میں دولت نہ جانے پائے۔


  • شاهدان (گواہان) قیامت کے صفات

    ۱۔ مکان۔ ۲۔ زمان۔ ۳۔ زبان۔ ۴۔ اعضاء و جوارح۔ ۵۔ کاتبین اعمال فرشتہ۔ ۶۔ نامہ اعمال۔ ۷۔ پیامبران الٰہی و ائمه معصومینؑ۔ ۸۔ خدا۔

  • (یہ روز قیامت ہمارے اعمال نیک و بد کے بارے میں گواہی دیں گے۔)


  • بارہ ہولناک مقامات

۱۔ جان کنی۔ ۲۔ عالم جان کنی میں شیطان کا آنا۔ ۳۔ وحشت قبر۔ ۴۔ فشار قبر۔ ۵۔ منکر و نکیر کا سوال۔ ۶۔ برزخ۔ ۷۔ قیامت و میدان محشر۔ ۸۔ قبروں سے اٹھایا جانا۔ ۹۔ میزان اعمال۔ ۱۰۔ نامہ اعمال۔ ۱۱۔ پل صراط۔ ۱۲۔ بہشت یا جہنم۔


  • چہار شنبہ (بدھ) کے صفات

  • روایت ہے کہ امام علی رضاؑ ایک مقام پر تشریف فرما تھے، ایک شخص نے سوال کیا: اے فرزند رسول! مجھے اس چہار شنبہ کے بارے میں خبر دیں جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اچھا نہیں ہے اور فال بد ہے وہ کونسا چہار شنبہ ہے۔؟ حضرت ؑنے فرمایا: ہر مہینہ کا وہ آخری چہار شنبہ جس روز چاند نظر نہ آئے۔

۱۔ اسی چہار شنبہ کو قابیل نے جناب ہابیل کو قتل کیا تھا۔ ۲۔ جناب ابراہیمؑ کو منجنیق کے ذریعہ آتش نمرود میں ڈالا گیا تھا۔ ۳۔ فرعون غرق ہوا تھا۔ ۴۔ قوم لوط کے قریہ اور گاؤں کو خدا نے الٹ پلٹ کیا تھا۔ ۵۔ قوم عاد پر عذاب کی ہوائیں چلی تھیں۔ ۶۔ نمرود پر مچھر کو مسلط کیا تھا۔ ۷۔ فرعون نے جناب موسیؑ کو قتل کرنے کیلئے حاضر کیا تھا۔ ۸۔ بیت المقدس منہدم کیا تھا۔ ۹۔ مسجد حضرت سلیمانؑ کو نذر آتش کیا گیا۔ ۱۰۔ جناب یحییٰ ؑقتل ہوئےاور قارون زمین دھنسایا گیا۔ ۱۰۔ جناب یوسفؑ اسیر کر کے قید خانہ میں ڈالے گئے۔ ۱۱۔ قوم ثمود زمین سمیت پلٹ دی گئی۔ ۱۲۔ ناقہ صالح ؑکو قتل کیا گیا و آسمان سے ان پر پتھر برسائے گئے۔ ۱۳۔ اسی روز پیغمبر اکرمؐ کے دندان مبارک شہید ہوئے۔


Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی