خاندان کا خزانه
مؤلف : سید محسن حجازی زادہ
مترجم : منہال رضا خیرآبادی
مختصر فهرست مطالب كتاب
★ فصل اول : انفرادي و اجتماعي آداب
فصل دوم: انفرادی و اجتماعي حقوق
فصل سوم: فضائل و مناقب
فصل چهارم: اوصاف و خصوصيات
فصل پنجم: حيوانوں كے نصيحت آميز صفات
حرف تقدیم
بارگاہ خاتم الاوصیاء، قائم بامر الله، صاحب دعوۃ نبوی، صولت حیدری، عصمت فاطمی، حلم حسنی، شجاعت حسینی، عبادت سجادی، مآثر باقری، آثار جعفری، علوم کاظمی، حجج رضوی، جود تقوی، نقاوت نقوی، هیبت عسکری، غیبت الٰہی، بقیة الله فی الارضین حجة الله علی العالمین، طاؤس اهل جنت، مہدی امت، حجة بن الحسن المہدی العسکری (عج) میں هدیه ناچیز۔
برگ سبز است تحفه درویش
حرف انتساب
یہ ترجمہ اپنے دادا مرحوم، دادی مرحومہ اور والدہ مرحومہ کے نام سے معنون کرتا ہوں جن کی دینی آغوش نے شاہراہ اسلام پر گامزن بنایا۔
خاندان کا خزانہ
(آداب، حقوق، فضائل، اوصاف و نصائح)
مؤلف:
سید محسن حجازی زادہ
ترجمہ:
منهال رضا خیرآبادی
مقدمہ
عرصہ دراز سے تربیت اور آداب انسانی سے مزین ہونا بیدار مغز افراد کی توجہ کا مرکز رہا ہےطول تاریخ کا کوئی زمانہ اس اہم حقیقت کی اہمیت سے غافل نہیں رہا ہے۔
دقت نظر اور باریک بینی کے حامل افراد معتقد ہیں کہ زیور تربیت سے آراستہ ہوئے بغیر انسان ایک درندہ ہے جس سے ضرر و نقصان کی توقع کی جاتی ہے تمام آسمانی کتب میں یہ بات بیان ہوئی ہے کہ انسان کیلئے تربیت کی مثال روح جیسی ہے جس طرح جسم انسانی بغیر روح بے سود ہے اسی طرح انسان بغیر تربیت۔
حقائق سے باخبر افراد تربیتی مسائل، آداب و سنن سے خالی شاہراہ حیات کو تاریک جادہ اور ظلمات سے گھرے ہوئے صحرا سے تعبیر کرتے ہیں، جس پر چلنے والا ذلت و شقاوت سے دوچار ہوتا ہے کیونکہ ذلت و رسوائی سے بھر پور ہوتا ہے۔
مصلح افراد کہتے ہیں انسان کا سب سے قیمتی سرمایہ ادب ہے جس کے بغیر انسان کی کوئی اہمیت نہیں ہے، تربیت کے بغیر انسانی حیات وحشی جانوروں جیسی ہوتی ہے اور صفحہ حیات پر ظلم و ستم، جبر و استبداد جیسے آثار نمایاں ہوتے ہیں، تربیت اساس حیات، بنیاد فضائل و کمال، چراغ راہ ہے اور زندگی کے تمام شعبہ جات میں سعادت کا راہنما ہے۔
بیدار دل دانشور سب زیادہ تربیت کے سلسلہ میں فکرمند نظر آتے ہیں، حق و انصاف یہ ہے کہ بشری حیات میں تربیت سے زیادہ کوئی چیز اہمیت کی حامل نہیں ہے اگر یہ کہا جائے کہ تربیت حیات بشر کا ضروری ترین اور بنیادی مسئلہ ہے توبے جا نہ ہوگا۔
یہ بات سب کو پتہ ہے کہ عرصہ حیات میں ہر انسان کے کچھ حقوق ہیں مثلاً حق حیات، حق عقل، حق تعلیم و تعلم، حق آزادی، بقدر ضرورت طبیعت کے دسترخوان سے استفادہ کرنا اور حق کار و کسب یا اس جیسے دوسرے حقوق جو طول تاریخ میں بشر کیلئے بیان ہوتے رہے ہیں۔
یہ امر طے شدہ ہے کہ ہر انسان کے حقوق کی رعایت بھی ضروری ہے اگر کوئی کسی کے حق پر ڈاکہ ڈالتا ہے تو یہ ظلم و جرم شمار ہو گا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا نور تربیت سے اپنے وجود خاکی کو منور کئے بغیر ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت ممکن ہے؟
تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں، ہر صنف و طبقہ کے افراد نے، ایک دوسرے کے حقوق کی رعایت سے انحراف کرتے ہوئے ظلم و جور پیشہ بن کر زندگی گذارتے رہے ہیں۔
ماضی میں ہونے والے مظالم اور موجودہ دور میں صاحبان طاقت (سپر پاور) کے ذریعہ مظلوم اقوام و ملل پر ہر روز نت نئے مظالم تربیت سے عاری ہونے کا نتیجہ نہیں ہیں؟
سچ ہے اگر کاروان بشریت کی ہر فرد نور تربیت سے منور ہوتی تو عالم امکان میں ظلم وجور کی جگہ عدل و انصاف، خود غرضی و خود پسندی کی جگہ کرامت و ایثار، عفو و در گذر، باہمی الفت و محبت کا دور دورہ ہوتا۔
ہم نےاب تک دوسروں پہ کتنے مظالم ڈھائے ہیں یا ہم پر دوسروں نے کتنے مظالم ڈھائے ہیں آپ کی نظر میں اگر ہمارے دل و جان نور ربانی سے منور ہوتے تو ہم کبھی ظلم و ستم کرتے؟
دوسرے کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے؟
ہم پر ظلم و اسبتداد ہوتے؟
مسئلہ تربیت کی اہمیت و عظمت کے پیش نظر یہ خیال خام ہےکہ سماج میں زندگی گذارنے والا کوئی شخص اس سے بے خبر ہو اور اسکی افادیت سے نابلد ہو۔
حیات انسانی کےابتدائی ادوار سے دلسوز افراد تربیت سے آراستہ کرنے انسانی حقائق و فضائل اخلاقی سے آراستہ بنانے کی فکر کرتے رہے ہیں اور زندگی کے مختلف موڑ پر عملی اقدام بھی کرتے رہے ہیں لیکن انسانی راہبروں کے درمیان انبیاءؑ و ائمہ معصومینؑ نیز آسمانی کتابوں کا اپنا علاحدہ مقام و مرتبہ رہا ہے، حکماء و عرفاء کے مثبت اقوال و فرمودات سے قطع نظر نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن چونکہ انکی عقل و دانش محدود ہے لہٰذا اس پر مکمل بھروسہ و اعتماد نہیں کیا جاسکتا ہے، ہاں جو اقوال و نصائح قرآن و سنت کے مطابق ہوں انہیں تسلیم کرتے ہوئے بقیہ سے صرف نظر کر لینا چاہئے، انبیاء و ائمہ معصومین کی تہذیب و ثقافت کا منبع چونکہ قرآن ہے لہٰذا ہر ہر لمحہ حیات انکا ہمارے لئے نمونہ ہے، تربیتی، اجتماعی، سیاسی، اقتصادی و خانوادگی قوانین کا مجموعہ وحی اپنی جامعیت و کمال کے باعث دیگر قانونی مجموعہ جات سے قابل مقائسہ نہیں ہے کیونکہ وحی اس خالق کی جانب سے ہوتی جو انسانی وجود کے مادی و معنوی ضروریات کو بدرجہ اتم جانتا اور پہچانتا ہے اسلئے جو کچھ بیان کرتا ہے وہ عقل و فطرت انسانیت خیر دنیا و آخرت کاملاً ہمآہنگ ہوتا ہے، یہی راز ہے کہ دنیا کے کسی بھی مکتبۂ فکر میں انبیاء و ائمہ جیسے کاملترین نمونہ عمل نہیں پائے جاتے ہیں ۔
مکتب انبیاء و ائمہ میں چونکہ انسان خدا اور روز قیامت کا معتقد ہوتا ہے لہٰذا اسکے اعلیٰ ترین اصول تربیت سے اپنے وجود کو منور کرنے کی حتٰی المقدور سعی کرتا ہے اسکی ذات سے کسی جاندار کو ضرر و نقصان نہیں پہونچتا ہے، اسکی حیات تمام انسانوں کیلئے منبع خیر و سعادت مایۂ برکت و مکرمت قرار پاتی ہے۔
پیغمبرانہ مکتب تربیت کے زیر سایہ پروان چڑھنے والا انسان عالم بصیر و دانشمند بینا بنتا ہے، اسکا وجود نفع بخش ،موجود خیر، بے نظیر مشکلکشا، سچا انسان، باوفا، جوانمرد، صفا پیشہ، با مروت، عادل، حکیم وارستہ، آگاہ پیراستہ، زندہ کامل، خلیفہ واقعی ربانی ہو جاتا ہے۔
تربیت کے مستحکم اصول و قوانین نور قلب حلال مشکلات فروغ جان صفائے روان، منبع برکت ظرف حقیقت اور ریشہ شرافت ہے، تربیت انسانی وقار بشریت کا سرمایہ، مایہ حیات، باعث آسائش زندگی، سبب پایندگی، راہ بندگی، دارین کی سعادت ہے۔
تربیت انسان و حیوان کی بلند ترین فصل ممیز ہے، کامیابیوں کی علت، کامرانی کی دلیل، شعار حریت، پرچم افتخار، عزت معاشرہ اور قرب خدا کا بہترین راستہ ہے۔
پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا: دنیا و آخرت میں بشر کی سعادت قرآن پر عمل اور اہلبیتؑ عصمت و طہارت کی اطاعت میں مضمر ہے۔
آخر کلام میں چند ضروری نکات کا تذکرہ ضروری ہے:
۱۔ کتاب کے تمام مطالب قرآن و احادیث اہلبیتؑ اور بعض بزرگوں کے کلمات سے ماخوذ ہیں۔
۲۔ تمام امور یا مستحب ہیں یا مکروہ، جہاں کہیں واجب یا حرام کا تذکرہ ہوا ہے اسکی نشاندہی کر دی گئی ہے۔
۳۔ اختصار اور مطالب کو آسان و عام فہم بنانے کی غرض سے عربی متون کو حذف کر دیا گیا ہے اور ترجمہ پر اکتفا کی گئی ہے۔
۴۔ مستحبی امور میں کچھ خاصیتیں اور فضیلتیں ہیں اور اسی طرح سے ہر مکروہ کے کچھ نقصان ہیں لہٰذا حتی الامکان انسان کو مستحب پر عمل اور مکروہات سے اجتناب کرتے رہنا چاہئے۔
۵۔ قارئین کرام سے گذارش ہے تعمیری تنقید نیز کمی و کاستی سے دریغ نہ کرتے ہوئے اصلاحات کی نشاندہی فرمائیں اور ہماری نیک توفیقات کیلئے بارگاہ رب الارباب میں دعا کرتے رہیں، اللہ ہم سب کو آداب اسلامی سے مزین ہونے کی توفیق کرامت فرمائے ۔
والسلام
سید محسن حجازی زادہ
فصل اول
انفرادی و اجتماعی آداب
زیارت بیت اللہ کے آداب
۱۔ اخلاص نیت، صرف حکم خدا کی انجام دہی کی نیت کرے. ۲۔ گناہوں سے توبہ کرے اور لوگوں کے حقوق کو ادا کرے. ۳۔ خمس و زکات ادا کر کے اپنے مال کو پاک و پاکیزہ کر لے اور یہ تصور ذہن میں رہے کہ اس سفر سے واپس نہیں لوٹے گا. ۴۔ جب اس سفر کا ارادہ کرے تو عظمت الٰہی کو مد نظر رکھے اور یہ فکر دماغ میں رہے کہ یہ سفر دوسرے سفر جیسا نہیں ہے۔ ۵۔ دل کو ہر اس چیز سے پاک صاف کر لے تو مقصد کی راہ میں حائل ہو سکتی ہے، افکار کو مضطرب کر سکتی ہے مثلاً خرید و فروخت، امور تجارت وغیرہ۔ ۶۔ زاد راہ، رفت و برگشت کے اخراجات کو حلال ذریعہ سے مہیا کرے۔ ۷۔ اثنائے سفر مالی نقصان و جسمانی ایذاء پر شادماں رہے کہ یہ قبولیت حج کی علامت ہے۔ ۸۔ رفقائے سفر کے ساتھ خوش اخلاقی و کشادہ روئی سے پیش آئے اور شیرین کلامی کو فراموش نہ کرے. ۹۔ گرد آلود رہے اور باعث افتخار اسباب سے اجتناب کرے. ۱۰۔ اگر ممکن ہو تو مشاعر معظمہ میں پیدل چلے۔ ۱۱۔ رفقائے سفر کی خدمت کرے۔ ۱۲۔ قضاء و قدر الٰہی پر سر تسلیم خم کئے رہے۔ ۱۳۔ بندگان خدا کے حقوق ادا کر دے اور بار قرض سے سبکدوش کر لے۔ ۱۴۔ عبادات اور اسکے مقررہ اوقات کی رعایت کرے نیز سنت پیغمبرؐ کی رعایت کرتا رہے۔ ۱۵۔ ہر حال میں ادب کا خیال رکھے، نامناسب امور کو برداشت کرتا رہے۔ ۱۶۔ توبہ کے آب زلال سے گناہوں کی کثافت کو دھولے۔ ۱۷۔ جامہ صدق و صفا، پیراہن خشوع و خضوع کو زیب تن کر لے. ۱۸۔ جامہ احرام پہنتے وقت ہر اس چیز کو اپنے اوپر حرام قرار دے لے جو ذکر خدا سے اور بارگاہ الٰہی سے دور کر دینے والی ہوں۔ ۱۹۔ مطاف میں جب تمام مسلمانوں کے ساتھ خانہ خدا کا طواف کر رہا ہو تو دل کو صف ملائکہ کے ساتھ عرش و بارگاہ الٰہی کے طواف میں مشغول رکھے. ۲۰۔ جب مکہ سے سرزمین آرزو مِنَیٰ کی طرف کوچ کرے تو خطا و لغزشوں سے پاک ہو تا کہ آرزوؤں اور تمناؤں کے مقام پر کوئی غلط آرزو و تمنا پیدا نہ ہو سکے۔ ۲۱۔ مزدلفہ و مشعر الحرام کی مقدس سرزمین پر قدم رکھتے وقت گناہوں سے پرہیز کرے اور ہر اس چیز سے اجتناب کرے جو نامناسب ہیں۔ ۲۲۔ جبل رحمت پر پہونچے تو عالم رحمت اور مغفرت کے عظیم مقام میں خود کو تصور کرے۔ ۲۳۔ جب قربانی کے جانور کی شہہ رگ حیات کو کاٹ رہا ہو اس وقت حرص و آز کی گردن کو بھی کاٹ دے اور شہوت و فساد سے دست برداری کا اعلان کرے. ۲۴۔ رمی جمرات کے ذریعہ جیسے شیطان سے بیزاری کا اعلان کرتا ہے ویسے ہی ہر قسم کی برائی، شہوت، رذالت کو دور کرے اور روح کو اخلاقی آلودگیوں سے پاک و پاکیزہ کر لے۔ ۲۵۔ جب سر کے بالوں کو تراش کر گندگیوں کو خود سے جدا کر رہا ہو تو اپنے عیوب کی بھی اصلاح کرے عیوب کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکے.۲۶۔ حرم الٰہی میں داخل ہو کر امن و امان، الطاف الٰہی کے زیر سایہ تصور کرے موہومات و باطل ارادہ سے منصرف ہوجائے۔ ۲۷۔ خانہ کعبہ میں داخل ہوتے وقت جلالت عظمت الٰہی پیش نظر رکھے اسکی معرفت کے مدارج کو نگاہ میں رکھے۔ ۲۸۔ حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت یہ تصور رہے کہ بوسہ دینا رضا و خوشنودی خدا، قضائےالٰہی پر راضی ہونے کی علامت اور خضوع و اطاعت ربانی کی نشانی ہے لہٰذا امر الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کر دے۔ ۲۹۔ طواف کعبہ کے وقت غیر خدا سے خود کو دور کر لے. ۳۰۔ کوہ صفا پر پہونچ کر روز قیامت جمال الٰہی کے دیدار کیلئے اپنی روح کو پاک و پاکیزہ کر لے۔ ۳۱۔ کوہ مروہ پر پہونچ کر خود کو پیش نظر خدا تصور کرتے ہوئے ہر ناپسندیدہ شئے سے پرہیز کرے۔ ۳۲۔ حج کے ذریعہ کئے گئے عہد و پیمان پر ثابت قدم رہے، گناہ و نافرمانی سے اسکو توڑنہ دے۔ ۳۳۔جان لو کہ اللہ نے حج کی طرح کسی اطاعت کی نسبت اپنی طرف نہیں دی ہے اور پیغمبر اکرمؐ نے بھی کسی عبادت کا اس طرح حکم نہیں دیا ہے مگر صرف اسلئے کہ اسکے اعمال و ارکان میں کچھ اشارے اور تذکرات ہیں صاحبان عقل وخرد کیلئے اہل بصیرت کیلئے پند و نصائح ہیں جن کی طرف توجہ سے عالم مرگ قبر و حساب اہل بہشت و دوزخ کے حالات کی نشاندہی ہوتی ہے اور اس حقیقت کو صرف صاحبان عقل و بصیرت در ک کر پاتے ہیں۔
آداب زیارت
۱۔ با وضو اور غسل کر کے صلوات کے ذریعہ اپنے دہن کو معطر کریں۔ ۲۔ پاک و پاکیزہ لباس، خشبو لگا کر، حرم میں داخل ہوں۔ ۳۔ حرم جاتے ہوئے خضوع و خشوع وقار و اطمینان کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم سے حرکت کرے اور ذکر کرتا رہے۔ ۴۔ لغو کلام اور بیہودہ گفتگو سے پرہیز کرے۔ ۵۔ اذن دخول پڑھ کر در حرم کو بوسہ دے اور با احترام وارد ہو ۔ ۶۔ اگر ضریح سے قریب ہونا چاہتے ہوں کو اس طرح سے ضریح کے قریب جائے کہ کسی کو اذیت نہ ہو۔ ۷۔ حتی الامکان کھڑے ہوکر زیارت پڑھیں. ۸۔ تلاوت قرآن اور پھر ارواح کو ہدیہ کرنے سے دریغ نہ کرے۔ ۹۔ زیارت سے فارغ ہو کر جب حرم سے نکل رہا ہو تو شوق دیدار شعلہ ور رہے۔ ۱۰۔ داہنے پیر سے داخل ہو اور باہیں پیر کو پہلے خارج کرے۔ ۱۱۔ چہرہ ضریح کی طرف ہو اور پشت قبلہ کی طرف ہو۔ ۱۲۔ صاحب قبر کو شافع قرار دے۔ ۱۳۔ زیارت کے بعد دو رکعت نماز زیارت پڑھے۔ ۱۴۔دعائے وداع بھی پڑھے۔ ۱۵۔ تلاوت قرآن کرے اور صاحب قبر کو ہدیہ کریں۔ ۱۶۔ حرم سے باہر نکلتے وقت چہرہ ضریح کی طرف ہو اور پشت کی طرف سے باہر نکلے۔ ۱۷۔ مجنب و حائضہ کا حرم ائمہ اطہارؑ میں داخل ہونا حرام ہے لیکن امامزادوں کے حرم یا حسینیہ جات میں داخل ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ ۱۸۔ جیسے قبہ مبارکہ کو دیکھے اَللهُ أَکْبَر کہے۔ ۱۹۔ دو رکعت نماز زیارت پڑھے جس کا طریقہ یہ ہے: پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ یٰس اور دوسری رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ رحمٰن پڑھے۔ ۲۰۔ زیارت پڑھتے وقت مردہ و زندہ افراد کو پیش نظر رکھے. ۲۱۔ ضریح کی طرف پشت کر کے نماز نہ پڑھے۔
نماز پڑھنے کے آداب
۱۔ عقیق کی انگوٹھی پہنے۔ ۲۔ پاک و پاکیزہ، صاف ستھرا لباس پہنے۔ ۳۔ بالوں کو کنگھی کرنا۔ ۴۔ نماز سے پہلے مسواک کرنا۔ ۵۔ خوشبو لگانا۔ ۶۔ اول وقت نماز پڑھنا۔ ۷۔ خضوع و خشوع کے ساتھ نماز پڑھے۔۸۔ با جماعت نماز پڑھے۔ ۹۔ اذان و اقامت کہے۔ ۱۰۔ سر پر عمامہ باندھ کر نماز پڑھے۔ ۱۱۔ سفید لباس اور عبا پہنے۔ ۱۲۔ مسجد میں نماز ادا کرنا۔ ۱۳۔ نماز سے پہلے بآواز بلند اَعُوْذُ بِالله کہے۔ ۱۴۔ بسم الله بلند آواز سے پڑھے۔ ۱۵۔ نماز کے بعد تسبیحات حضرت زہرا پڑھے۔ ۱۶۔ نماز کو اس طرح پڑھے گویا آخری نماز ہے۔ ۱۷۔ تدبر و معرفت کے ساتھ نماز پڑھے۔ ۱۸۔ داہنے اور بائیں چہرہ نہ پھرے۔ ۱۹۔ آنکھ بند کرکے نماز نہ پڑھےکہ یہ عمل کراہیت رکھتا ہے۔ ۲۰۔ داڑھی سے نہ کھیلے۔ ۲۱۔ کسالت کے عالم میں اور خواب آلود کیفیت میں نماز نہ پڑھے۔۲۲۔ تنگ موزہ کا استعمال نہ کرے۔ ۲۳۔ نقش و نگار بنے کپڑوں کا استعمال نہ کرے۔ ۲۴۔ اپنے لباس کا بٹن بند رکھے۔ ۲۵۔ ان مقامات پر نماز نہ پڑھے: حمام، شورہ زار زمین جادہ وسڑک، آگ کے روبرو، قبرستان، کوڑا پھینکنے کی جگہ، مجسمہ و تصویر کے سامنے، جانور ذبح کرنے کی جگہ پر، جس کمرہ میں مجنب ہو۔ ۲۶۔ گندے (میلے) کپڑوں میں نماز نہ پڑھے۔ ۲۷۔ مہمان کو نماز پڑھنے کی وجہ سے معطل نہ کرو۔ ۲۸۔ بیٹھتے وقت اور سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے ہاتھوں کو زمین پر ٹیکے۔
آداب نماز شب
نماز شب کیلئے پہلے مسواک کرے پھر عطر لگائے، اس نماز کا وقت نصف شب سے شروع ہو کر طلوع فجر صادق تک ہے، فجر صادق سے جتنا قریب ہو بہتر ہے۔ نماز شب کی فضیلت کیلئے یہی کافی ہے کہ کہا گیا ہے کہ اگر چار رکعت پڑھ لیا ہے اور فجر صادق طلوع کر جائے تو نماز شب کو جاری رکھے خواہ صبح طلوع ہو جائے۔
نماز شب پڑھنے کا طریقہ
۱۔ نماز شب گیارہ رکعت ہے جس میں دس رکعت دو، دو رکعت کر کے پڑھی جائے گی اور ایک رکعت جداگانہ پڑھی جائے گی۔ ۲۔ اس میں سے آٹھ رکعت نماز شب کی نیت سے پڑھی جائے گی اور پھر دو رکعت نماز شفع اور ایک رکعت نماز وتر کی نیت سے ادا ہوگی. ۳۔ نماز شفع و نماز وتر کی فضیلت ان آٹھ رکعت سے زیادہ ہے جو نماز شب کی نیت سے ادا ہوتی ہے۔ ۴۔ صرف نماز شفع و نماز وتر پر اکتفاء کر سکتے ہیں اور نماز شب کو ترک کرسکتے ہیں۔ ۵۔ اگر نماز شب کا وقت تنگ ہو جائےتو صرف نماز وتر پر اکتفا کر سکتا ہے۔ ۶۔ یوں تو نماز شب اول شب سے صبح صادق کے طلوع ہونے تک پڑھ سکتے ہیں لیکن افضل یہ ہے کہ سحر کے وقت پڑھےاور سحر کا اطلاق رات کے آخری ثُلث کا حصہ ہےنماز صبح سے جتنا قریب ہو بہتر ہے۔ ۷۔ جو انسان نصف شب کے بعد نماز شب پڑھنے سےکسی وجہ سے معذور ہو تو نصف شب سے پہلے بھی ادا کر سکتا ہے۔ ۸۔ وہ جوان جس کو خوف ہے کہ بیدار نہیں ہو پائے گا وہ نصف شب سے پہلے بھی نماز شب ادا کر سکتا ہے۔ ۹۔ اگر کسی کی نماز شب فوت ہو جائے نیند کے سبب یا کسی اور عذر کی وجہ سے تو اسکی قضا دوسرے روز بجا لا سکتا ہے۔ ۱۰۔ نماز وتر میں سورہ حمد کے بعد قنوت کیلئے ہاتھوں کو بلند کرے اور پہلے 40 مومنین کی مغفرت طلب کرے: أَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِفلان وَفلان کہہ کر 40 مومنین میں اعزا و احباب کے مردوں کا نام یکے بعد دیگرے ذکر کرے بہتر ہے اسماء کاغذ پر لکھ لے اور دیکھ کر پڑھے اور.پھر 79 بار: أَسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّی وَ أَتُوْبُ إِلَیْه کہے، اسکے بعد سات مرتبہ ھذَاْ مَقَاْمُ الْعَاْئِذِ بِکَ مِنَ النَّاْر زبان پر جاری کرے، پھر تین سو مرتبہ أَلْعَفْو أَلْعَفْو کہے اور پھر کہے: رَبِّ اغْفِرْ لِی إِرْحَمْنِیْ وَ تُبْ عَلَیِّ إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّاْبُ الرَّحِیْم۔
یہ نماز شب کا تفصیلی طریقہ ہے لیکن ہمیں اختیار ہے کہ حتی المقدور اعمال انجام دیں اور اگر صرف أَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَاْت پر ہی اکتفا کر لے تب بھی کوئی حرج نہیں ہے۔
عورتوں کی نماز کے آداب
۱۔ خود کو زیورات سے آراستہ کرے۔ ۲۔ خضاب لگائے۔ ۳۔ ہلکی آواز میں پڑھے۔ ۴۔قیام کی حالت میں دونوں پیر کو ملا کر کھڑی ہوں۔ ۵۔ حالت رکوع میں دونوں ہاتھ ران پر رکھے۔ ۶۔ سجدہ میں جانے سے پہلے بیٹھے۔ ۷۔ چار زانوں ہوکر بیٹھے۔ ۸۔ تشہد پڑھتے وقت دونوں ران کو ملا کر بیٹھے۔ ۹۔ سیاہ لباس و نقاب، تنگ و گندے کپڑے میں نماز نہ پڑھے۔ ۱۰۔ سفید لباس میں نماز پڑھے۔ ۱۱۔ بیٹھتے وقت اور سجدہ میں جاتے وقت پہلے زمین پر پیروں ٹکائے۔
دعا کےآداب
۱۔ معرفت خدا۔ ۲۔ عمل صالح۔ ۳۔ حلال روزی۔ ۴۔ حضور قلب۔ ۵۔ ممکن و حلال امر کیلئے دعا کرے۔ ۶۔ بِسْمِ الله سے شروعات کرے۔ ۷۔ حمد و ثنائے الہی۔ ۸۔ پیغمبرؐ و آل محمدؑ کو یاد کرے۔ ۹۔ اہلبیتؑ کو واسطہ قرار دے۔ ۱۰۔ تضرع و گریہ جبکہ دل بھی شکستہ ہو۔ ۱۱۔ پوشیدہ طریقہ سے دعا کرے۔ ۱۲۔ دو رکعت نماز پڑھے۔ ۱۳۔ کامل توجہ اور بلند ہمت ہو۔ ۱۴۔ دوسروں کیلئے دعا کرے۔ ۱۵۔ اجتماعی دعا۔ ۱۶۔ استجابت الہی کا عقیدہ رکھتا ہو۔ ۱۷۔ بلند نظری و اعلی ہمتی کا مظاہرہ کرے۔ ۱۸۔ تکرار و اصرار ہو۔ ۱۹۔ حاجتوں کو بیان کرے۔ ۲۰۔ حاجتوں کو پوری ہونے میں جلد بازی نہ دکھائے۔ ۲۱۔ خدا سے لو لگائے اور غیر خدا سے منقطع ہو جائے۔ ۲۲۔ گناہ سے پرہیز بالخصوص مال و آبرو لوٹنے سے اجتناب کرے۔ ۲۳۔ گریہ و زاری کرے۔ ۲۴۔ اسمائے خدا کو یاد کرے۔ ۲۵۔ گناہوں کو بیان کرے۔ ۲۶۔ صدقہ دینا۔ ۲۷۔ دونوں ہاتھوں کو اٹھا کر دعا کرے۔ ۲۸۔ اوقات مخصوصہ کا انتخاب کرے مثلاً شب و روز جمعہ۔
آداب تلاوت قرآن
۱۔ با طہارت ہو کر تلاوت کرے۔۲۔ "أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطَاْنِ الرَّجِیْم" کہے۔ ۳۔ ترتیل یعنی ٹھہر ٹھہر کرآرام سے تلاوت کرے۔ ۴۔ آیات الٰہیہ میں غورو فکر کرے۔ ۵۔ تلاوت کے وقت خاشع رہے۔ ۶۔ اچھی آواز سے تلاوت کرے۔ ۷۔ پاک صاف لباس پہنے۔ ۸۔ عطر لگائے۔ ۹۔ دہن پاک و صاف ہو۔ ۱۰۔ دقت (غور و فکر) کرے آیات میں۔ ۱۱۔ گریہ کرے۔ ۱۲۔ ختم قرآن کی دعا پڑھے۔ ۱۳۔ غمزدہ حالت میں قرآن پڑھے۔ ۱۴۔ جو کچھ پڑھے اس پر عمل کرے۔ ۱۵۔ معنی و مفہوم قرآن میں غور و فکر کرے۔ ۱۶۔ بغیر وضو کے قرآن کے حروف پر ہاتھ رکھنا حرام ہے۔
سلام کرنے کےآداب
۱۔ ہر کلام سے پہلے سلام کرے۔ ۲۔ چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ ۳۔ تنہا شخص ان دو افراد پر سلام کرے جو ایک ساتھ ہیں. ۴۔ کم تعداد افراد زیادہ تعداد والے گروہ کو سلام کرے. ۵۔ سوار پیدل چلنے والے کو سلام کرے۔ ۶۔ راستہ چلنے والا کھڑے یا بیٹھے ہوئے کو سلام کرے۔ ۷۔ بآواز بلند سلام کرے۔ ۸۔ سلام کرنا مستحب ہے لیکن جواب سلام واجب ہے۔ ۹۔ کامل و صحیح طریقہ سے سلام کرے۔
مندرجہ ذیل افراد کو سلام نہ کرو:
۱۔ بت تراش۔ ۲۔ مست انسان۔ ۳۔ جوا کھیلنے والا۔ ۴۔ مشرک۔ ۵۔ فحش انجام دینے والا۔ ۶۔ صاحب تہمت۔ ۷۔ جو نماز پڑھ رہا ہو۔ ۸۔ جو بیت الخلاء میں مصروف ہو۔ ۹۔ جو حمام میں ہو۔ ۱۰۔ فاسق۔ ۱۱۔ مرد کا جوان عورتوں کو سلام کرنا منع ہے۔
ماہ محرم و صفر کے آداب
۱۔ عزادار کی حالت بنائے رہے اور رونے کی صورت بنائے۔ ۲۔ لذات دنیوی کو ترک کر دے۔ ۳۔ زیارت عاشورا پڑھے ۴۔ مجالس و عزاداری میں شرکت کرے۔ ۵۔ مجالس و عزاداری اپنے گھر پر منعقد کرے۔ ۶۔ ان ایام کے متعلق ماثورہ دعائیں پڑھے۔ ۷۔ سجنے سنورنے سے نیز نیا لباس پہننے سے پرہیز کرے۔ ۸۔ کربلا کی زیارت کیلئے جائے۔ ۹۔ عقد و ازدواج نیز خوشی کے مراسم سے پرہیز کرے۔ ۱۰۔ زیادہ سے زیادہ صدقہ ادا کرے خاص طور پر ماہ صفر میں۔۱۱۔ روز اربعین (۲۰ صفر) کو زیارت اربعین پڑھے کہ یہ مومن کی علامت ہے۔ ۲۔ حتی الامکان سفر سے پرہیز کرے خاص طور پر ماہ صفر میں۔ ۱۳۔ اگر ممکن ہو امام زمانہ کی سلامتی کیلئے جانور ذبح کر کے اسکا گوشت فقرا میں تقسیم کر دے۔ ۱۴۔ اگر کربلا جانا نصیب ہو جائے تو لذیذ غذا سے پرہیز کرے اور پا برہنہ سفر کے گرد و غبار کے ساتھ حرم میں داخل ہو۔ (بشرطیکہ نجاست کا احتما ل نہ ہو)۔ ۱۵۔ محرم و صفر میں مہندی کا خضاب استعمال نہ کرے۔
آداب روز عید غدیر
۱۔ روزہ رکھے کہ اس دن کا روزہ پوری عمر دنیا کے برابر روزہ رکھنے کے مساوی ہے، سو حج و عمرہ کا ثواب رکھتا ہے۔ ۲۔ نیا لباس پہننا۔ ۳۔ عطر و خوشبو لگانا۔ ۴۔ سادات کے دیدار کیلئے جانا۔ ۵۔ اعمال روز غدیر بجا لائے۔ ۶۔ کثرت سے صلوات پڑھے۔ ۷۔ ایک دوسرے سے ملاقات کرنے جانا اور گلے ملتے وقت ایک دوسرے کے کان میں کہے: «اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ جَعَلَنَاْ مِنَ الْمُتَمَسِّکِیْنَ بِوِلَاْیَة أَمِیْرِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْأَئَمَّة الْمَعْصُوْمِیْن (عَلیهم السلام.» ۸۔ افطار کرانا۔ ۹۔ زیارت امام حسینؑ کیلئے جانا۔ ۱۰۔ جشن و محافل کا انعقاد کرنا۔ ۱۱۔ مراسم عقد و ازدواج منعقد کرنا۔ ۱۲۔ ہدیہ دینا، جن سے تعلقات ختم ہیں ان سے تعلقات بحال کرنا۔ ۱۳۔ اس دن دعا مستجاب ہوتی ہے۔ ۱۴۔ نعمت الٰہی کا شکر ادا کرنا۔ ۱۵۔ لباس سیاہ اتار دے۔ ۱۶۔ عقد اخوت برقرار کرنا اپنے دینی بھائیوں سے۔
آداب ماہ مبارک رمضان
۱۔ کثرت سے درود پڑھنا۔ ۲۔ زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن مجید کرنا۔ ۳۔ اپنی بھوک و پیاس کے ذریعہ روز قیامت کو یاد کرتے رہنا۔۴۔فقرا و تہیدست افراد پر رحم کرنا۔ ۵۔ بزرگوں کا احترام اور انکی تعظیم کرنا۔ ۶۔ زبان کو ان چیزوں سے محفوظ رکھنا جن سے روکا گیا ہے۔ ۷۔ محرمات سے آنکھوں کی حفاظت کرنا۔ ۸۔ ناجائز چیزوں کے سننے سے کان کو محفوظ رکھنا۔ ۹۔ گذشتہ گناہوں سے توبہ کرنا۔ ۱۰۔ اموات اور بیماروں کو یاد کرنا۔ ۱۱۔ اپنے اور اپنے جیسے افراد کیلئے دعا کرنا۔ ۱۲۔ طولانی سجدے انجام دینا۔ ۱۳۔ افطار کرانے کے ذریعہ آتش جہنم سے نجات کی راہ تلاش کرنا۔ ۱۴۔ اخلاق سنوارنا۔ ۱۵۔ صلہ رحم کرنا۔ ۱۶۔ مال کو پاک کرنا۔ ۱۷۔ شبہائے قدر میں بیدار رہنا و عبادت کرنا۔ ۱۸۔ شبہائے قدر میں توسل کرنا۔ ۱۹۔ مستحبی نماز کو کثرت سے ادا کرنا۔ ۲۰۔ پہلے نماز مغربین ادا کرے پھر افطار کرے۔ ۲۱۔ زیادہ سے زیادہ صدقہ دے۔ ۲۲۔ آنکھ میں دوا ڈالنا، سرمہ لگانا، خون نکلوانا، معطر و خوشبو دار گھانس سونگھنا، دانت نکلوانا، مسواک کرنا، ملاعبہ (اپنی زوجہ سے کھیلنا)، بیہودہ گفتگو، مسافرت کرنا، روزہ دار کا یہ امور مکروہ ہیں نيز پرہیز بہتر ہے۔
آداب زوجیت
اپنے شوہر سے کامیاب روابط کی خواہاں خواتین کیلئے چند اہمترین نکات:
۱۔ شوہر کو ایک مرد تصور کرے اور اسکی دنیا کو بہتر طریقہ سے سمجھنے کیلئے اپنی معلومات میں اضافہ کرے۔ ۲۔ شوہر کی شخصیت کا احترام کریں اور اسے ایک غیر ذمہ دار فرد تصور نہ کریں۔ ۳۔ شوہر کے ان خصوصیات و امتیازات کو مد نظر رکھیں اور تعریف و تمجید کریں جن کے باعث وہ دوسرے مردوں سے جدا اور ممتاز ہوتا ہے۔ ۴۔ اگر عورتیں یہ چاہتی ہیں کہ شوہر بے وفا و دغا باز نہ ہو تو اسکے افکار و احساسات کو اہمیت دیں، کوئی بات خلاف مزاج ہو جائے تو غیر معمولی رویہ اختیار نہ کریں کہ اسکے سبب بے اعتمادی کو بڑھاوا ملتا ہے۔ ۵۔ درد دل اور اسرار جو وہ بیان کرتا ہے اسکو قبول کرے اور کبھی یہ سمجھانے کی کوشش نہ کریں کہ تمہارے اسرار و خیالات غیر مناسب اور ظالمانہ ہیں۔ ۶۔ ہمیشہ تنقید نہ کریں کیونکہ مسلسل تنقید کے نتیجہ میں شوہر دوری بنانا شروع کر دے گا۔ ۷۔ اس پر لا ابالی اور غیر مخلص ہونے کا اتہام نہ لگائیں کیونکہ صمیمیت اور حساس کو مردانہ انداز میں اظہار کرتا ہے۔ ۸۔ واقعی ضروریات کو سمجھیں اور یہ کام اس وقت تک امکان پذیر نہیں ہے جب تک کہ خودبیان نہ کرے، مناسب مواقع پر مناسب لب و لہجہ میں اسکے ضروریات کے متعلق سوال کرے، زندگی اور اپنے حوالہ سے اسکی واقعی رائے کو جاننے کی کوشش کریں اور جو جواب شوہر دے اسکو خندہ پیشانی سے قبول کریں. ۹۔ جب آپ کا شوہر آپ سے محو گفتگو ہو تو غور سے اسکی بات سنیں کیونکہ اسکی گفتگو پر توجہ نہ کرنا اس سے محبت نہ ہونے کی علامت قرار پائے گی۔ ۱۰۔ اگر شوہر زوجہ کی محبتوں کو جلب (جذب) کرنے کیلئے کچھ امور انجام دے تو زوجہ کو تنقید سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ وہ اپنے انداز سے اظہار محبت کر رہا ہے۔ ۱۱۔ اپنے طرز پر زوجہ اظہار محبت نہ کرے بلکہ اسکی اہمیت و خواہشات کا خیال رکھے مثلاً اگر اسکی ولادت کے روز کوئی ہدیہ دینا چاہے تو پہلے سے تحفہ و ہدیہ کے حوالہ سے اسکی پسند جاننے کی کوشش کرے۔ ۱۲۔ شوہر سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ تمہارے تمام امور کی موافقت کرے بلکہ حق بین ہونا چاہئے اور اسکی رائے خواہ آپ کی پسند کے مطابق نہ ہو تو سامنے آنا چاہئے۔ ۱۳۔ زوجہ کی محبت جلب کرنے کیلئے بہت زیادہ مصر نہ ہو خاص طور پر جب وہ غصہ کے عالم میں ہو تو زیادہ رعایت کرے کیونکہ بسا اوقات اسکی حالت اظہار محبت کیلئے غیر مناسب ہوتی ہے ایسی صورت میں اصرار مخالفت کو بڑھاوا دے گا۔ ۱۴۔ عورت خود کو بہت زیادہ حساس بنا کر نہ پیش کرے کیونکہ شوہر ایک ضعیف و ناتواں عورت خیال کرے گا اور اسکی گفتگو تمہارے لئے تکلیف دہ ہوگی جس کے نتیجہ میں آپس میں گفتگو کم ہو جائے گی اور یہ تکلیف دہ ہے۔ ۱۵۔ شوہر سے روابط کے تئیں اپنی نسوانی ہویت کا تحفظ کریں کیونکہ عورت کا روابط میں نسوانی ہویت کو کھو دینا ہے آپسی روابط کو نقصان پہونچاتا ہے ایسی صورت میں عورت خود کو زیادہ معاف کرنے اور محبت کرنے والی تصور کرتی ہے اور شوہر کو خود خواہ سمجھنے لگتی ہے ۔۱۶۔ اگر محسوس ہو کہ شوہر سے روابط عزت نفس کے مراحل سے کمتر درجہ میں ہیں اور یہ چاہتی ہیں کہ اس سلسلے میں شوہر کو آمادہ کریں تا کہ روابط بہتر ہو سکیں تو یہ بہت بڑی غلطی ہے کیونکہ مشکل عورت کی طرف سے ہے اگر ضرورت محسوس ہو رہی ہے تو کسی ماہر نفسیات کی طرف مراجعہ کریں۔ ۱۷۔ اگر شوہر غصہ کی تکلیف میں مبتلا ہے تو احساساتی طور سے اس سے قربت کی تمنا نہ کریں کیونکہ اس سے اسکی تکلیف و رنج میں اضافہ ہوگا اسکو اسی حال میں اس وقت تک چھوڑ دیں جب تک کہ غصہ ٹھنڈانہ ہو جائے۔ ۱۸۔ ازدواجی زندگی میں خوش بختی کا ذمہ دار خود کو قرار دے کیونکہ وہ عورت جو ازدواجی زندگی کی خوش بختی کا ذمہ دار صرف شوہر کو ٹھہراتی ہے وہ ایک آزردہ اور افسردہ زوجہ قرار پاتی ہے۔ ۱۹۔ شوہر کو زوجہ بیزار ہونے محبت نہ کرنے والا نہ بتائیں کیونکہ وہ اپنی شریکہ حیات سے محبت کرتا ہے اور اس سے بیزار نہیں ہے لیکن زوجہ کا یہ تصور کدورتوں کو جنم دیتا ہے۔ ۲۰۔ اگر تم کو پتہ چل جائے کہ زندگی میں مشکلات پیدا ہونے کی کچھ ذمہ دار ہیں اور اسکا اقرار شوہر کے سامنے محبت آمیز انداز میں کر لیں تو زندگی میں عشق و محبت کے شگوفہ کھل اٹھیں گے کیونکہ تمہارے اقرار کے بعد شوہر بھی اپنی ذمہ داری کا اقرار کرے گا اور پھر دونوں ایک دوسرے کی مدد سے ان مشکلات کو برطرف کرنے کی راہیں تلاش کریں گے۔
آداب ازدواج
۱۔ ہم مرتبہ کا انتخاب کیا جائے (کفو)۔ ۲۔شوہر و زوجہ کا انتخاب مرد و زن خود کریں، والدین کی رضایت (رضامندی) کا مکمل خیال رکھیں۔ ۳۔ اپنے شریک حیات کو طرفین دیکھ سکتے ہیں مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ:
الف: بغیر لذت کے نظر کرے۔ ب: شادی دیکھنے پر موقوف ہو۔ ج: شادی کیلئے موانع نہ ہوں۔
۴۔ منگنی اور عقد سے پہلے شرعی حدود میں رہ کر ایک دوسرے بات سے چیت کر سکتے ہیں۔ ۵۔ گلی کوچوں میں پھرنے والے لڑکے لڑکیوں سے شادی نہ کی جائے یا ٹیلی فون پر بھی شادی کرنے سے پرہیز کریں۔ ۶۔ شادی قبل ضروری چھان بین اور تحقیق ضرور کی جائے خواہ وہ آشناہی کیوں نہ ہو۔ ۷۔ دلسوزی یا کسی اور وجہ سے کبھی بھی شادی نہ کی جائے کہ ایسی شادیاں پائیدار نہیں ہوتی ہیں۔ ۸۔ باکرہ لڑکی کا انتخاب کیا جائے کہ حافظہ اچھا، محبت پائیدار، دہن خوشبوتر، رحم خشکتر اور شیردان پر از شیر ہوتا ہے۔ ۹۔ لڑکی کے انتخاب میں ان صفات کا خیال رکھا جائے: گندم گون، فراخ چشم، آنکھیں سیاہ، سر بزرگ، میانہ بلند، گردن خوشبو دار، تلوے گوشت سے بھرے ہوں اور بال بڑے اور لمبے ہوں۔ ۱۰۔ خوبصورتی ہونی چاہئے لیکن خوبصورتی کو بنیاد نہیں قرار دینا چاہئے بلکہ تقویٰ کو بنیاد قرار دے۔ ۱۱۔ شوہر کے خاندان اور رشتہ دار کو مدنظر رکھے۔ ۱۲۔ عقیم (بانجھ) گندگی، لجاجت پسنداور بد دہن عورتوں سے ازدواج سے پرہیز کرے۔ ۱۳۔ اپنے شریک سفر کے مال و دولت پر نظر نہ رکھے کہ یہ سعادت و نیک بختی کے سبب نہیں ہیں۔ ۱۴۔ مہر عورت کا حق ہے، مہر کم سے کم قرار دی جائے۔ ۱۵۔ جب شادی کا ارادہ ہو تو دو رکعت نماز پڑھے اور خدا سے امداد طلب کرے کیونکہ عورت ایک قلادہ ہے۔ ۱۶۔ اجنبی نگاہوں سے ہمسر کا تحفظ ضروری ہے۔ ۱۷۔ ازدواج کے بعد زاد و ولد میں تاخیر نہ کرے تا کہ محبت و الفت میں زاد و ولد کے ذریعہ مزید استحکام پیدا ہو سکے۔ ۱۸۔ اپنے ہمسر کے اہل خانہ کی جسمانی سلامتی کا خیال رکھے۔ ۱۹۔ زوجہ تین سال یا زیادہ سے زیادہ سات سال عمر کے اعتبار سے چھوٹی ہو۔ ۲۰۔ زوجہ کے دین و ایمان کو مد نظر رکھے. ۲۱۔ شادی کے وقت زندگی کے اخراجات کا خوف نہ پیدا ہو۔ ۲۲۔ شادی سے روزی میں اضافہ اور زندگی شاداب ہوتی ہے۔۲۳۔ منگنی کیلئے جمعہ کا دن بہتر ین ہے۔۲۴۔ خوش اخلاق فرد سے شادی کرو۔ ۲۵۔ روح ربانی کی انسان کو اتنی ہی ضرورت ہوتی ہے جتنی اولاد کو ماں کی، جسم انسانی کو زندہ رہنے کیلئے آب و ہوا کی ضرورت ہوتی ہے، روح انسانی الٰہی ہدایت کی محتاج و ضرورتمند ہے، سکون دل وہ زرخیز زمین ہے جس میں تمناؤں اور آرزوؤں کے بیج پودہ کی شکل اختیار کرتے ہیں، ذکر الٰہی کی زمین پر اپنے احتیاجات کی بذر پاشی کرو تا کہ نیکیاں نمودار ہوں، اللہ اس بندہ کے ساتھ ہے جو اسکے ذکر اور یاد کو اپنے ہمراہ رکھتا ہے، اللہ پر توکل کرو، جتنا خدا سے رابطہ مستحکم ہوگا سکون و اطمینان زندگی میں بڑھتا جائے گا اور جتنا خدا سے رابطہ کمزور ہو گا خوف و اضطراب کی تاریکیاں تمہیں گھیر لیں گی، یاد خدا ہونا یعنی خود اپنی نصرت کرنا ہے۔ ۲۶۔ جب تمہارے احساسات مجروح ہو رہے ہوں تو حلم و بردباری کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑو کیونکہ ہر فرد صرف اس بات پر نظر گڑائے ہوتی ہے کہ دوسرا کیا کر رہا ہے؟۲۷۔ خاندانی اختلافات میں انصاف پسند ہونا چاہئے کوئی بھی ازدواجی زندگی اختلافات سے پاک نہیں ہوتی ہے اور اختلافات مشکل ساز بھی نہیں ہوتے ہیں، طرفین کا انداز آپسی اختلافات سبب ہوتا ہے، لڑائی جھگڑے سے بچنے کیلئے مناسب ہے ہفتہ میں ایک معین وقت میں زن و شوہر بیٹھ کر خوشگوار ماحول میں آزادانہ بحث و مباحثہ کریں اور اتفاق رائے سے اپنے لئے خوشگواری کی راہیں تلاش کریں۔ ۲۸۔ ایک دوسرے کی باتوں کو غور سے سنیں اور ایک دوسرے کو آزادانہ اپنی بات بیان کرنے کا موقع دیں پھر جو کچھ بیان کیا جائے اسکو بغیر کسی قسم کے اظہار نظرکے بیان کرے کہ تمہارے کہنا کا مطلب میں نے یہ سمجھا ہے کیونکہ افراد عمومی طور پر اس بات کے متمنی نہیں ہوتے ہیں کہ ہماری موافقت کی جائے بلکہ انکی تمنا یہ ہوتی ہے کہ میری بات مقابل خوب اچھی طرح سے سمجھ لے۔ ۲۹۔ واقع بین (حقیقت پسند) بنو کہ یہ خاندان میں صلح و صفا کو پروان چڑھاتی ہے، ماضی کو بھلا کر مستقبل کے لمحات کو خوشگوار بنانے کیلئے پر امید ہو کر جد و جہد کریں اور مردہ حیات میں تازہ روح پھونکنے کی حتی المقدور کوشش کریں، شوہر ہمیشہ اسکی بات کی توقع نہ رکھے ، زوجہ اپنی اصلاح خود کرے اور اپنے اندر تبدیلی پیدا کرے بلکہ خود بھی اقدام کریں اور زوجہ کو موقع اور فرصت مہیا کرائے۔ ۳۰۔ بیہودہ مسائل و اختلاف کی بنیاد پر طلاق کا اقدام نہ کریں کہ خدا کے نزدیک طلاق بدترین عمل ہے اور اس سے کسی مشکل کا حل ممکن نہیں ہے۔ ۳۱۔ فقر یاکسی دوسری وجہ سے سقط جنین کا اقدام نہ کرے کہ یہ عظیم ترین گناہ ہے ساقط شدہ بچے روز قیامت تمہارے دامنگیر ہوں گے کہ ہمیں کس جرم میں قتل کیا گیا ہے۔ ۳۲۔ شادی سے قبل غور و فکر، تحقیق و جستجو، جانکاری حاصل کر لو، دید و بازدید (میل جول اور ملاقات) انجام دی جائے اور استخارہ بھی کر لیا جائے۔ ۳۳۔ جسمانی و روحانی اعتبار سے صحیح و سالم ہو۔ ۳۴۔ لڑکے لڑکی کے حوالہ سے مشورہ کرنے میں خدا کو نظر میں رکھ کر تمام اچھائیوں اور برائیوں کو بیان کر دیا جائے تاکہ عند اللہ باز پرس نہ ہو۔۳۵۔ اگر شادی سے پہلے صیغہ محرمیت پڑھنا چاہتا ہے تو اسکی مدت کو طولانی نہ کرے کہ یہ عمل حد درجہ خطرناک ہے۔ ۳۶۔ زوجہ کی محبت و الفت والدین سے دوری اور بے توجہی نیز انکی بے احترامی کا سبب نہ قرار پائےنہ اپنی زوجہ کو والدین پر اور نہ ہی والدین کو زوجہ پر قربان کر دیا جائے۔
آداب شب زفاف
۱۔ دو رکعت نماز طرفَین ادا کریں۔ ۲۔ حمد خدا و محمدؐ و آل محمدؑ پر درود پڑھیں۔ ۳۔ زَوجَین (مرد و عورت) دعا کریں اور مہمان آمین کہیں۔ ۴۔ شوہر دلہن کے بال پکڑ کر رو بقبلہ یہ دعا پڑھے: أَللّٰهُمَّ بِأَمَاْنَتِکَ أَخَذْتُهَاْ وَ بِکَلِمَاْتِکَ إسْتَحْلَلْتُهَاْ فَإِنْ قَضَیْتَ لِیْ مِنْهَاْ وَلَداً فَإجْعَلْهُ مُبَاْرَکاً تَقِیّاً مِنْ شِیْعَةِ آلِ مُحَمَّدٍ وَ لَاْ تَجْعَلْ لِلشَّیْطَاْنِ فِیْه شَرِیْکاً وَ لَاْ نَصِیْباً۔ ۵۔ تزویج رات کو عمل میں آئے۔ ۶۔ تحت الشعاع میں نہ ہو۔ ۷۔ قمر در عقرب میں نہ ہو۔۸۔ دلہن کا پیر دھویا جائے اور اس پانی کو گھر کے گوشہ و کنار میں چھڑکا جائے۔ ۹۔ سورہ حمد و یٰس پڑھے۔ ۱۰۔ شادی کے بعد پہلے ہفتہ میں دلہن کھٹا سیب اور لہسن کا استعمال نہ کرے۔ ۱۱۔ نماز کو ترک نہ کریں۔ ۱۲۔ شادی کی رات کو لہو و لعب سے آراستہ نہ کریں بلکہ ذکر خدا و اہلبیتؑ اور جائز رسم و رواج میں گزاریں۔ ۱۳۔ دوسروں کیلئے بھی دعا کریں کہ اس رات تمہاری دعا مستجاب ہے۔
آداب ہمبستری
۱۔ تحت الشعاع میں نہ ہو۔ ۲۔ قمر در عقرب میں نہ ہو۔ ۳۔ گرم فضا میں نہ ہو۔ ۴۔ وقت جماع گفتگو نہ کریں۔ ۵۔ عورت کی شرمگاہ پر نظر نہ کریں۔ ۶۔ اگر مرد جلدی فارغ ہو جائے تو زوجہ کی فراغت تک انتظار کرے۔ ۷۔ ایسی جگہ جماع انجام نہ پائے جہاں کوئی دیکھ رہا ہو یا آواز سن سکتا ہے۔ ۸۔ رو بقبلہ اور پشت بقبلہ انجام نہ دیں۔ ۹۔ حالت جنابت میں انجام نہ دے۔ ۱۰۔ حالت حیض میں نہ ہو۔ ۱۱۔ جب معدہ پُر ہو تو جماع نہ کرے۔ ۱۲۔ گھر کی چھت پر نہ ہو۔ ۱۳۔ کھڑے ہو کر انجام نہ دے۔ ۱۴۔ زیر آفتاب انجام نہ دیں۔ ۱۵۔ پھلدار درخت کے نیچے جماع نہ کرے۔ ۱۶۔ حاملہ عورت سے بغیر وضو کے جماع نہ کرے۔ ۱۷۔ طلوع و غروب آفتاب کے وقت انجام نہ دیں۔ ۱۸۔ شب عید فطر و عید قربان جماع نہ کریں۔ ۱۹۔ نیمہ شعبان کی شب میں انجام نہ دیں۔ ۲۰۔ اذان و اقامت کے درمیان انجام نہ دیں۔ ۲۱۔ جماع کرتے ہوئے کسی کا خیال ذہن میں نہ آئے۔ ۲۲۔ مہینہ کے آخری دن انجام نہ دیں۔ ۲۳۔ ابتدائے شب میں جماع سے پرہیز کریں۔ ۲۴۔ اس رات جس کی صبح میں سفر پر جانا ہو جماع سے اجتناب کریں۔ ۲۵۔ مہینہ کی پہلی، درمیانی اور آخری شبوں میں پرہیز کرے۔ ۲۶۔ پرندوں کی طرح جماع سے پرہیز کرے۔ ۲۷۔ ظہر کے وقت بھی اجتناب کرے۔ ۲۸۔ دو شنبہ، سہ شنبہ، پنجشنبہ اور جمعہ کی راتوں میں بہتر ہے۔ ۲۹۔ زلزلہ، چاند گہن اور سورج گہن کے وقت جماع سے پرہیز کرے۔ ۳۰۔ اگر خضاب لگائے ہو تو بھی جماع سے پرہیز کرے۔ ۳۱۔ کشتی اور راستہ میں نہ کریں۔ ۳۲۔ چار مہینہ میں کم از کم ایک بار جماع ضرور کرے۔ ۳۳۔ دُبر (پچھلی شرمگاہ) میں جماع نہ کرے۔۳۴۔ ایک رومال سے دونوں (زوجہ و شوہر) استفادہ نہ کریں۔ ۳۵۔ اگر کسی دوسری عورت کی وجہ سے شہوت شعلہ ور ہوئی ہو تو اپنی زوجہ سے جماع نہ کرے۔ ۳۶۔ رجحان و رغبت کے ہمراہ ہو۔ ۳۷۔ انزال کے بعد پیشاب کرے۔ ۳۸۔ جماع سے قبل بِسْمِ الله وَ أَعُوْذُ بِالله پڑھے اور وقت جماع یہ دعا پڑھے: «أَللّٰهمَّ أرْزُقْنِیْ وَلَداً وَإجْعَلْه تَقِیّاً زَکِیّاً لَیْسَ فِیْ خَلْقِه زِیَاْدَۃً وَ لَاْ نُقْصَانَ وَ إجْعَلْ عَاْقِبَتِه إِلٰی خَیْراً.» (خدایا مجھے متقی و ذہین اولاد عطا فرما، جس میں تخلیق کے اعتبار سے کوئی کمی و زیادتی نہ ہو اور اسکی عاقبت بخیر ہو.) انزال کے بعد پڑھے: «أَللّٰهمِّ لَاْ تَجْعَلْ لِلشَّیْطَاْنِ فِیْمَاْ رَزَقَنِیْ نَصِیْباً.» (خدایا! جو کچھ مجھے عطا کرنے والا ہے اس میں شیطان کو شریک قرار نہ دے.)
مندرجہ بالا امور کی رعایت اولاد کی سلامتی کا باعث ہے اسلئے ان امور کی تاکید کی گئی ہے۔
اگر جماع بر وقت و مناسب موقع پر انجام پائے تو مندرجہ ذیل فوائد کی حامل ہوگی:
۱۔ بدن ہلکا ہو جائے گا۔ ۲۔ فکری نشو و نما کیلئے بدن آمادہ ہو گا۔ ۳۔ برائیوں کا خاتمہ ہوگا۔ ۴۔ سخت ترین غصہ ٹھنڈا ہو جائے گا۔ ۵۔ دیوانگی و جنون ختم ہو جائے گی۔ ۶۔ سودا کی بہت سی بیماریاں دور ہوں گی۔ ۷۔ دردِ کلیہ (گردہ) میں فائدہ ہوگا۔ ۸۔ بلغمی امراض کیلئے مفید ہے۔ ۹۔ شہوت کو ختم کردے گی۔ ۱۰۔ اشتہاء بڑھتی ہے۔
اگر مزاج مقتضی ہے لیکن جماع ترک کر دے مندرجہ ذیل نقصان سے دوچار ہو سکتا ہے:
۱۔ جسم سرد ہوجاتا ہے. ۲۔ اخلاقی انحراف. ۳۔ اشتہاء کی کمی. ۴۔ معدہ کا نظام مختل ہوجائے گا۔
ولادت سے قبل کےآداب
۱۔ مسلسل قرآن کی تلاوت کرے خاص طور پر سورہ مریم اور سورہ اسراء (بنی اسرائیل)۔ ۲۔ ہر روز 50 مرتبہ سورہ توحید کی قرائت کرے۔ ٣۔ روزانہ 140 مرتبہ صلوات پڑھے۔ ۴۔ استغفار کی مداومت (مستقل) کرے۔ ۵۔ ساتویں مہینہ کے بعد 5 سوروں کی تلاوت کرے جو تسبیح سے شروع ہوتے ہیں۔ ۶۔ سورہ یٰس ہر ماہ و ہر دن پڑھے۔ ۷۔ سورہ یوسف ہر مہینہ کے ایام میں تلاوت کرے۔ ۸۔ حرام و مشتبہ غذا سے پرہیز کرے۔ ۹۔ فکر گناہ سے بھی اجتناب کرے کیونکہ والدین کے اعمال حسنہ و سیئہ کے اثرات اولاد پر مترتب و اثر انداز ہوتے ہیں۔
پہلا مہینہ: ہر روز صبح ناشتہ میں چند دانہ کھجور کا استعمال کرے اور سورہ قدر کی تلاوت کرے۔
دوسرا مہینہ: روزانہ صبح ناشتہ میں عناب (ایک قسم کا پھل) کا استعمال کرے اور سورہ توحید کی تلاوت کرے۔
تیسرا مہینہ: ہر روز ایک سیب صبح ناشتہ میں استعمال کرے اور آیت الکرسی پڑھے۔
چوتھا مہینہ: روزانہ انجیر صبح ناشتہ میں کھائے اور سورہ تین پڑھے۔
پانچواں مہینہ: ہر روز صبح ناشتہ میں انڈا کھائے اور سورہ حمد کی تلاوت کرے۔
چھٹا مہینہ: صبح ناشتہ میں روزانہ انار کا استعمال کرے اور سورہ فتح پرھے۔
ساتواں مہینہ: بہی یا بہہ (ایک قسم کا پھل ہے جو ناشپاتی کے مثل ہوتا ہے) کا روزانہ ناشتہ میں استعمال کرے اور سورہ یاسین پڑھے۔
آٹھواں مہینہ: روزانہ صبح ناشتہ میں کباب زعفران کے ساتھ دودھ، منقیٰ، کھجور، بادام، دیگر میوہ جات و سبزیوں کا استعمال کرے اور سورہ نصر اور سورہ انعام پڑھے۔
نواں مہینہ: ہر روز کھجور اور دودھ ناشتہ میں استعمال کرے اور سورہ دہر کی تلاوت کرے۔
بعد ولادت کےآداب
۱۔ ولادت کے وقت عورت کی شرمگاہ پر نظر نہ کرے۔ ۲۔ نو مولود کو خاک کربلا اور فرات کا پانی چٹائے۔ ۳۔ سات روز تک بچہ ہے تو محمد اور بچی ہے تو فاطمہ نام سے پکارا جائے۔ ۴۔ ولادت کے بعد بچہ کے داہنے کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہے۔ ۵۔ مولود کے لڑکا یا لڑکی ہونے کے سلسلہ میں باز پرس نہ کرے۔ ۶۔ وضع حمل کے بعد عورت کو سات یا نو دانہ کھجور کھلائے۔ ۷۔ سفید یا زرد کپڑے میں بچہ کو لپیٹ دیا جائے۔ ۸۔ دو سال مکمل دودھ پلائے۔ ۹۔ دونوں شیردان (پستان) سے دودھ پلائے کہ ایک بچہ کیلئے پانی ہے تو دوسرے میں بچہ کی غذا ہے۔ ۱۰۔ رضاعت کے زمانہ میں حتی الامکان با وضو رہے۔ ۱۱۔ اگر دایہ کا انتخاب کیا جا رہا ہےتو پاک و پاکیزہ، با ایمان اور اخلاق نیک کی حامل عورت تلاش کیا جائے۔ ۱۲۔ دودھ پلانے سے پہلے بسم اللہ کہے۔ ۱۳۔ غصہ کے عالم میں بچہ کو دودھ نہ پلائے۔ ۱۴۔ ماں کا دودھ حرام غذا سے تیار نہ ہوا ہو۔ ۱۵۔ ساتویں روز عقیقہ کرے۔ ۱۶۔ سات روز کے بعد اسکے سر کو مونڈ کر بالوں کے برابر سونا یا چاندی صدقہ دے۔ ۱۷۔ ساتویں دن بچی کے کان میں سوراخ کرایا جائے۔ ۱۸۔ اگر ضرر کا خوف نہ ہو تو نوزاد کو ولادت کے بعد دھویا جائے۔ ۱۹۔ احمق اور بد نظر عورت کو دودھ پلانے کیلئے منتخب نہ کرے۔ ۲۰۔ دودھ پلانے کیلئے حسین و جمیل عورت کا انتخاب کیا جائے۔ ۲۱۔ اگر دایہ کا انتخاب ہو رہا ہے تو اثنا عشری، عاقل و با فراست عورت تلاش کرے۔
آداب حجامت
۱۔ پشت، سر، کاندھے، پنڈلیوں کی حجامت. ۲۔ شنبہ، یکشنبہ، دوشنبہ، سہ شنبہ اور پنجشنبہ کا دن مناسب ہے۔ ۳۔ حجامت کا بہترین وقت دن کا دوسرا اور تیسرا حصہ ہے۔ ۴۔ بارہويں سے پندرہويں، سترہويں، انیسويں اور اکیسواں روز ہر مہینہ کا۔ ۵۔ بہار کا موسم بہترین موسم ہے حجامت کا۔ ۶۔ حجامت کے بعد میوہ جات (پھل) کا استعمال کرے خاص طور پر انار، شہد وغیرہ۔ ۷۔ خالی پیٹ حجامت نہ کرائے۔ ۸۔ حجامت کے بعد پہلا خون جو باہر آئے اسکو دیکھے۔ ۹۔ حجامت سے پہلے آیت الکرسی پڑھے۔ ۱۰۔ بدھ اور جمعہ کے دن حجامت نہ کرائے۔ ۱۱۔ سر کی حجامت ہر درد کیلئے شفا ہے۔ ۱۲۔ حجامت سے پہلے صدقہ دے۔ ۱۳۔ حجامت سے قبل و بعد 24 گھنٹے جماع سے پرہیز کرے۔ ۱۴۔ تيرہویں ستائیسویں تک کے ایام ہر مہینہ کے بہتر ہیں۔ ۱۵۔ جمعہ کے دن برا ہے حجامت کرانا۔ ۱۶۔ عورت مہینہ کے ایام حیض میں حجامت نہ کرائے. ۱۷۔ حجامت کے بعد نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے غسل کی ضرورت نہیں ہے۔ ۱۸۔ حجامت کے کچھ گھنٹے بعد اپنے بدن کو ٹھنڈے پانی سے دھوئے اور یہ دعا پڑھے: بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ أَعُوْذُ بِالله الْکَرِیْمِ مِنْ حَجَاْمَتِیْ مِنْ الْعَیْنِ فِی الدَّمِّ وَ مِنْ کُلِّ سُوْءٍ وَ الْأَغْلَاْلِ وَ الْأَسْقَاْمِ وَ الْأَوْجَاعِ وَ الْأَمْرَاْضِ وَ أَسْئَلُکَ الْعَاْفِیَّة وَ الْمُعَاْفَاْۃَ وَ الشِّفَآءَ مِنْ کُلِّ دَاْءٍ.
مسجد کےآداب
۱۔ مسجد میں داخل ہوتے ہوئے داہنا پیر پہلے داخل کرے اور خارج ہوتے ہوئے بایاں پیر پہلے باہر رکھے۔ ۲۔ خوشبو لگا کر جائے۔ ۳۔ پاک صاف لباس پہن کر جائے۔ ۴۔ مسجد میں سونا درست نہیں ہے۔ ۵۔ مسجد میں دنیاوی امور پر گفتگو نہ کرے۔ ۶۔ مسجد پر وقف کیا ہوا مال مسجد سے باہر لے جانا حرام ہے۔ ۷۔ مسجد کو صاف ستھری رکھے۔ ۸۔ سونے یا تصویر سے مزین نہ کرے۔ ۹۔ مسجد میں داخل ہونے کے بعد دو رکعت نماز تحیت ادا کرے۔ ۱۰۔ پیاز لہسن کھا کر مسجد نہ جائے۔ ۱۱۔ سب سے پہلے مسجد میں جائے اور سب سے آخر میں مسجد سے باہر نکلے۔ ۱۲۔ متفرق امور کے ذریعہ عبادت گزاروں کی عبادت میں رخنہ نہ ڈالیں۔ ۱۳۔ مسجد میں میت دفن نہ کریں۔ ۱۴۔ نماز میت مسجد میں ادا نہ کی جائے۔ ۱۵۔ گمشدہ چیز کا اعلان مسجد میں نہ کرے۔ ۱۶۔ مسجد میں بلند آوازمیں اور بیہودہ گفتگو نہ کریں۔ ۱۷۔ مسجد میں روشنی کا انتظام کرے۔ ۱۸۔ مسجد پیدل چل کر جائے۔ ۱۹۔ اطمینان و متانت سے مسجد جائے۔ ۲۰۔ مسجد میں داخل ہوتے وقت دعا پڑھے: أَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ ذُنُوْبِیْ وَ افْتَحْ لِیْ أَبْوَاْبَ رَحْمَتِک (پروردگارا! میرے گناہوں کی مغفرت فرما اور میرے لئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ ۲۱۔ مسجد سے باہر نکلتے وقت بھی دعا پڑھے: أَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لِیْ ذُنُوْبِیْ وَ افْتَحْ لِیْ أَبْوَاْبَ فَضْلِک (پروردگارا! میرے گناہوں کی مغفرت فرما اور میرے لئے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔) خواہ صلوات ہی کیوں نہ پڑھے۔ ۲۲۔ بے مقصد مسجد میں رکنا درست نہیں ہے۔ ۲۳۔ مسجد میں جہاں جگہ مل جائے بیٹھ جائے۔ ۲۴۔ کسی کی جگہ کو غصب نہ کرے خاص طور پر اگر کسی نے نماز کی جگہ اپنے لئے مختص کر لی ہے اور اسکو ہٹا کر نماز پڑھے تو ایسی صورت میں نماز درست نہیں ہوتی۔ ۲۵۔ مسجد میں بیٹھے ہوئے افراد کو سلام کرو لیکن اگر نماز پڑھ رہے ہوں تب سلام سے پرہیز کرے۔ ۲۶۔ مسجد کو گذرگاہ نہ بناؤ۔ ۲۷۔ بیہودہ اشعار مسجد میں پڑھنے سے گریز کریں۔ ۲۸۔ مست افراد کو مسجد میں داخل نہ ہونے دو۔ ۲۹۔ مسجد کے پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کی جائے۔ ۳۰۔ مسجد کی تعمیر میں حلال مال کا استعمال کیا جائے۔۳۱۔ مسجد کیلئے موقوفات متعین کریں۔ ۳۲۔ تعمیر مسجد میں سادگی کی رعایت کریں۔ ۳۳۔ مسجد کی دیوار پر قرآنی آیات کندہ کرائیں۔ ۳۴۔ مجنب اور حائض مسجد میں نہ جائے کہ حرام ہے۔ ۳۵۔ مسجد میں قبلہ رخ بیٹھو۔ ۳۶۔ مسجد میں لین دین کے معاملات انجام نہ دیئے جائیں۔ ۳۷۔ مسجد میں آواز بلند نہ کریں۔ ۳۸۔ مسجد کے در و دیوار پر نقش و نگار بنوانے سے پرہیز کریں۔
روزِ جُمُعَہ کے آداب
۱۔ روز جمعہ نماز صبح کی پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ جمعہ اور دوسری رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ توحید پڑھے۔ ۲۔ نماز فجر کے بعد تعقیبات و ادعیہ ماثورہ پڑھیں۔ ۳۔ نماز صبح کے بعد سورہ رحمٰن پڑھے۔ ۴۔ سو مرتبہ محمدؐ و آل محمدؑ پر درود پڑھے۔ ۵۔ سو مرتبہ استغفار کرے۔ ۶۔ سورہ هود، کہف، نساء، صافات، رحمٰن، احقاف و مومنون پڑھے۔ ۷۔ طلوع آفتاب سے پہلے دس مرتبہ سورہ کافرون پڑھ کر دعا کرے، ان شاء اللہ مستجاب ہوگی. ۸۔ آیت الکرسی اور سورہ قدر پڑھے۔ ۹۔ غسل روز جمعہ کی بہت تاکید کی گئی ہے۔ ۱۰۔ خطمی نامی مٹی سے سر کو دھوئے۔ ۱۱۔ ناخن کاٹنا۔ ۱۲۔ عطر و خوشبو لگانا۔ ۱۳۔ اہل خانہ کیلئے اچھی چیزیں خریدنا۔ ۱۴۔ انار کھانا۔ ۱۵۔ دنیاوی امور سے قطع نظر عبادت میں مشغول رہنا۔ ۱۶۔ زیارت قبور کیلئے جانا۔ ۱۷۔ دعائے ندبہ پڑھنا۔ ۱۸۔ والدین کی قبر پر جانا۔ ۱۹۔ سورہ رحمٰن پڑھتے وقت جب آیت: فَبِأَیِّ آلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبَان کی تلاوت کے بعد کہے: لَاْ بِشَیْءٍ مِّنْ آلَآئِکَ رَبِّ أُکَذِّب
آداب شب جمعہ
۱۔ سُبْحَاْنَ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلہِ وَ لَاْ إِلٰہّ إِلَّا اللہ وَ اللہُ أَکْبَر کہنا۔ ۲۔ زیادہ سے زیادہ درود پڑھنا کہ جس کی کمترین عدد سو ہے۔ ۳۔ سورہ کہف، بنی اسرائیل، یس، حمد، احقاف، واقعہ، سجدہ، دخان، طور و جمعہ کا پڑھنا کہ ان میں سے ہر سورہ کے مخصوص فضائل ہیں۔ ۴۔ ماثورہ نمازیں پڑھنا خاص طور پر نماز امیر المومنینؑ جو دو رکعت ہے، ہر رکعت میں سورہ حمد کے بعد پندرہ مرتبہ سورہ اذا زلزلت پڑھے۔ ۵۔ اشعار پڑھنے سے اجتناب کرے۔ ۶۔ مومنین کیلئے دعا کرے۔ ۷۔ اموات بالاخص والدین کیلئے خیرات و حسنات کا ایصال کرنا کہ وہ انتظار میں ہوتے ہیں۔ ۸۔ دعائے کمیل و دیگر ادعیہ ماثورہ پڑھنا۔. ۹۔ رات میں انار کھانا۔
آداب مدیریت
۱۔ چاپلوسی اور خود سرائی سے پرہیز کرے۔ ۲۔ بے جا افتخار اور بڑائی سے اجتناب کرے۔ ۳۔ حقوق الٰہی کو ادا کرے۔ ۴۔ واجبات کی پابندی کرے۔ ۵۔ خود غرضی سے پرہیز کرے۔ ۶۔ لوگوں کی باتوں کو سننا۔ ۷۔ حق بیانی میں دلیری کا مظاہرہ کرنا۔ ۸۔ حق کو تسلیم کرنا۔ ۹۔ لوگوں کو حق بیانی کا موقع دینا۔ ۱۰۔ عدالت۔ ۱۱۔ بندگی و عبدیت خدا کا پاس و لحاظ رکھے۔ ۱۲۔ سنت الٰہیہ کا اجراء۔ ۱۳۔ نفاذ عدالت۔ ۱۴۔ دشمنوں کو مایوس کر دے۔ ۱۵۔ فرامین الٰہی و قوانین حکومتی کے اجراء میں قاطعیت رکھتا ہو۔ ۱۶۔ مجرمین کے ساتھ سخت رویہ اپنائے۔ ۱۷۔ لوگوں کا خادم بن کر رہے۔ ۱۸۔ مجرموں کو سزا دے۔ ۱۹۔ معاشرہ کی سلامتی و رفاہی امور کی فکر کرنا۔ ۲۰۔ لوگوں کے ساتھ متواضع و کشادہ روئی سے ملاقات کرے۔ ۲۱۔ قاطعانہ تدبر و تصمیم۔ ۲۲۔ مشورہ سے استفادہ کرے۔ ۲۳۔ دقیق و مفید برنامہ و پالیسیاں بنائے۔ ۲۴۔ انگیزہ و ہماہنگی ایجاد کرنا۔ ۲۵۔ ناگہانی آفات سے نپٹنے کیلئے چارہ جوئی کرے۔ ۲۶۔ فتح و شکست کے اسباب و عوامل کی تحقیق کرنا۔ ۲۷۔ معلومات، اعداد و شمار کو جمع کرنا۔ ۲۸۔ برمحل تشویق و توبیخ کرے۔ ۲۹۔ خدا، رسولؐ و امامؑ کا صحیح عقیدہ و معرفت رکھتا ہو۔ ۳۰۔ پاکدامنی، حلم و بردباری رکھتا ہو، غصہ سے پرہیز کرے، عذر کو قبول کرتا ہو۔ ۳۱۔ رعایا کیلئے مہربان اور طاقتور کیلئے سخت گیر نہ ہو۔
آداب قضاوت (فیصلہ)
۱۔ سب سے زیادہ علم و فضل کا حامل ہو۔ ۲۔ امور کی وجہ سے خستہ نہ ہو اور محاکمہ کی کاروائی فرسودہ نہ کر دے۔ ۳۔ لغزشوں اور خطاوں پر قائم نہ رہے جیسے ہی حق سمجھ میں آ جائے فوراً خندہ پیشانی سے قبول کر لے۔ ۴۔ حرص و آز سے پرہیز کرے۔ ۵۔ ظواہر پر اکتفا نہ کرے بلکہ قضیہ و مسئلہ کی تہہ تک پہونچنے کی کوشش کرے۔ ۶- مشتبہ مقامات پر مدارات سے کام لے اور دلائل پر زیادہ بھروسہ کرے۔ ۷۔ فریقین کے بار بار مراجعہ کرنے سے خستہ نہ ہو بلکہ حقائق تک پہونچنے میں صبر و شکیبائی سے کام لے۔ ۸۔ جب فیصلہ حکم واضح ہو جائے تو بیان کرکے اجرابھی کرے۔ ۹۔چاپلوشی سے متاثر ہوکر حق سے منحرف نہ ہو۔۱۰۔ یہ جان لو کہ قاضی جنت و جہنم کے درمیان ہوتا ہے۔
٭مریض کےآداب
۱۔خدا کا شکر ادا کرے اور صبر کرے۔ ۲۔ بیماری کی شکایت نہ کرے۔ ۳۔ تین دن تک بیماری کو چھپائے رہے۔۴۔توبہ کرتا رہے۔ ۵۔ دوسروں کو ملنے کی اجازت دے۔۶۔ ڈاکٹر کے پاس جانے اور علاج میں جلدی کرے۔ ۷۔ شفاء کی غرض سے صدقہ دے۔ ۸۔ وصیت تحریر کرے، اصول و فروع دین کا اقرار کرے۔ ۹۔ یہ یقین رکھے کہ بیماری اسکے گناہوں کا کفارہ ہے یا بلندی درجات و فضائل کا ذریعہ ہے۔
بیٹھنے کے آداب
۱۔قبلہ رخ بیٹھے۔ ۲۔ صدر مجلس میں بیٹھنے سے پرہیز کرے۔ ۳۔ دوسروں کی زحمت کا سبب نہ بنے۔ ۴۔ دوسروں کے سامنے اپنا پیر نہ پھیلائے۔ ۵۔ کسی سے کانا پھونسی نہ کرے۔ ۶۔ دوسروں کے راز فاش نہ کرے۔ ۷۔ بندگان خدا کے ساتھ بیٹھے۔۸۔ مالدار و سرکش کی ہمنشینی سے پرہیز کرے۔ ۹۔ گنہگار افراد کے ساتھ نشست و برخاست نہ کرے۔ ۱۰۔ جس نشست میں گناہ و معصیت کا خوف ہو وہاں جانے سے پرہیز کرے۔ ۱۱۔ جس نشست میں جانے کی وجہ سے اتہام کا خدشہ ہو وہاں جانے سے پرہیز کرے۔
گفتگو کے آداب
۱۔ علم و آگہی کے ساتھ گفتگو کرے۔ ۲۔ نرمی و ملائمت کے ساتھ گفتگو کرے۔ ۳۔ رفتار و گفتار میں یکسوئی بر قرار رکھے۔ ۴۔ منصفانہ گفتگو کرے۔ ۵۔ مدلل گفتگو کرے۔ ۶۔ سادہ و عام فہم گفتگو کرے۔ ۷۔ فصاحت و بلاغت کی رعایت کرتے ہوئے گفتگو کرے۔ ۸۔ اچھے انداز میں گفتگو کرے۔ ۹۔ شائستہ طریقہ پر کلام کرے۔ ۱۰۔ گفتگو میں متانت کو باقی رکھے۔ ۱۱۔ پاکیزہ و دلنشین گفتگو کرے۔ ۱۲۔ اپنی گفتگو کے ذریعہ لوگوں کو اللہ کی طرف دعوت دے۔
تقریر کے آداب
۱۔جرائت، خود اعتمادی کو پروان چڑھائے اور خوف و ہر اس پیدا نہ ہونے دے۔ ۲۔ پختہ عزائم اور شدید رجحان کے ساتھ تقریر کرے۔ ۳۔ موضوع سخن مکمل طور پر معین و مشخص کرے۔ ۴۔ مشق زیادہ کرے۔ ۵۔ اپنی نوٹ بک کا برابر مطالعہ کرتا رہے تاکہ ذہن میں محفوظ ہوجائے۔ ۶۔ اہم کلمات کو تاکیدی انداز میں بیان کرے۔ ۷۔ گفتگوکےدرمیان ٹھہراؤ کا خیال رکھے۔ ۸۔ سامعین کو اپنی طرف جذب کرے۔ ۹۔ بقدر ضرورت سامعین کی پسند کی رعایت کرے۔ ۱۰۔ اپنی ظاہری وضع قطع (موشن) کی حفاظت کرے۔ ۱۱۔ ابتداء کلام میں مزاحیہ گفتگو نہ کرے۔ ۱۲۔ مثال و واقعات کے سہارے اپنی گفتگو پیش کرے۔ ۱۳۔ فنی اصطلاحوں کے بیان سے گریز کرے۔ ۱۴۔ گفتگو اتنی واضح ہو کہ ہر طبقہ کے سامعین بآسانی سمجھ سکیں۔ ۱۵۔ آخر کلام میں خلاصہ اور نتیجہ گفتگو بیان کرے۔ ۱۶۔ سامعین کا صمیم قلب سے شکریہ ادا کرے۔ ۱۷۔ پورے مجمع پر یکساں نظر کرے۔ ۱۸۔ احساسات کو بر انگیختہ کرے۔ ۱۹۔ سامعین کو سمیٹ کر گفتگو میں اختصار ملحوظ رکھے۔۲۰۔ گفتگو میں صداقت ہو۔ ۲۱۔ نیک و پسندیدہ باتیں بیان کرے۔ ۲۲۔ مخرب گفتگو سے پرہیز کرے۔ ۲۳۔ جو کچھ بیان کرے اس پر خود بھی عمل کرے۔ ۲۴۔ صرف خدا سے خوف رکھے۔ ۲۵۔ خدا کی طرف دعوت دے اور اللہ سے شرح صدر کی دعا کرے۔ ۲۶۔ گفتگو جامع و متنوع ہو۔ ۲۷۔ سامعین کی فکری سطح کی رعایت کرے۔ ۲۸۔ نمونہ لوگوں کے سامنے بیان کرے۔ ۲۹۔ جس چیز کا علم نہ ہو اسکو بیان کرنے سے پرہیز کرے۔ ۳۰۔ غرور، تکبر و خود نمائی سے پرہیز کرے۔ ۳۱۔ تقریر سے پہلے محمدؐ و آل محمدؑ کی مدح و ثنا کرے۔ ۳۲۔ تقریر کا اختتام دعا پر ہو۔
مُقَرِّر کے آداب
۱۔ اللہ سے مدد کا طالب ہو۔ ۲۔ اپنے امور اللہ پر واگذار (سپرد) کر دے۔ ۳۔ قضاء و قدر الٰہی پر راضی رہے۔ ۴۔ سامعین کی اہمیت کو پیش نظر رکھے۔ ۵۔ لوگوں سے اظہار محبت و مدارات کرے۔ ۶۔ مختصر و مفید گفتگو کرے۔ ۷۔ دوسرے مُقَرِّرِین کا احترام و اکرام کرے۔
طلاب علوم کے آداب
۱۔ خواہشات نفسانی و جسمانی سے اجتناب کرے۔ ۲۔ تقرب خدا اور عالم انسانیت میں درجہ سعادت پر فائز ہونے کی کوشش کرے۔ ۳۔ جو کچھ سیکھا ہے اس پر عمل کرے اور دوسروں کو سکھائے۔ ۴۔ استاد کے حقوق کو پہچانے اور اسکے احترام کا لحاظ کرے۔ ۵۔ اخلاق رذیلہ سے اپنے نفس کو پاک کرے۔۶۔ جس حسنات کا شریعت نے حکم دیا ہے ان سے خود کو آراستہ کرے۔ ۷۔ بلند ہمت ہو۔ ۸۔ استاد کو حقیقی و معنوی باپ تصور کرے۔ ۹۔ استاد سے پہلے کلاس روم میں پہونچ جائے۔ ۱۰۔ اپنی فہم کے مطابق مطالعہ کرے۔ ۱۱۔ آئندہ کے درس کا مطالعہ کرے۔ ۱۲۔ معلم کے انتخاب میں خوب دقت (غور و فکر) کرے۔ ۱۳۔ نہ جاننے کی صورت میں سوال کرے۔ ۱۴۔ بے فائدہ علم کے سیکھنے سے پرہیز کرے۔ ۱۵۔ فروتنی اور تواضع کو اپنا شعار بنا لے۔ ۱۶۔ علم میں زیادتی کی خدا سے دعا کرتا رہے۔ ۱۷۔ تحصیل علم سے خستہ نہ ہو۔ ۱۸۔ اپنے علم پر غرور نہ کرے اور نہ ہی دوسروں پر مباہات کرے۔ ۱۹۔ استاد کی آواز پر اپنی آواز بلند نہ کرے۔ ۲۰۔ استاد گفتگو کرے تو اسکی گفتگو میں دخل اندازی نہ کرے۔ ۲۱۔ استاد کی عظمت مدنظر رہے۔ ۲۲۔ تعلیم کو بہترین عبادت تصور کرے۔ ۲۳۔ اپنی فہم کے مطابق درس پڑھے۔ ۲۴۔ اسباق کی مسلسل تکرار کرتا رہے۔ ۲۵۔ ان چیزوں سے شروعات کرے جن کا سمجھنا آسان ہو۔ ۲۶۔ جو چیز سمجھ میں نہ آئے اسکو لکھنے سے پرہیز کرے۔ ۲۷۔ علم کے حصول کیلئے خدا سے مدد طلب کرے، دروس کے ادراک اور سمجھنے کی صلاحیت کیلئے بارگاہ خدا میں گریہ و زاری کرے۔ ۲۸۔ درس کا مباحثہ کرے اور اس میں غور و فکر کرے۔ ۲۹۔ تفّکر، تامّل اور دقّت نظر سے کام لے۔
تعلیم کےآداب
۱۔ استاد قصد قربت رکھتا ہو۔ ۲۔ شاگردوں پر شفیق و مہربان ہو اور انکا خیر خواہ ہو۔ ۳۔ اگر طالب علم انعام کا مستحق ہو تو ضرور انعام دے۔ ۴۔ جو کچھ کہے اس پر خود بھی عمل پیرا رہے۔ ۵۔ حقیقت کے بر خلاف گفتگو نہ کرے۔ ۶۔ تدریس میں کوتاہی نہ کرے۔ ۷۔ بار بار شاگردوں کے سوال کرنے سے تھکن محسوس نہ کرے۔ ۸۔ بلند ہمت ہو۔ ۹۔ شعائر اسلامی اور احکام اسلامی کی مکمل رعایت کرے۔ ۱۰۔ جب تک خود کو تدریس کا اہل نہ پائے اقدام سے پرہیز کرے۔ ۱۱۔ شاگردوں کو علوم و معارف حاصل کرنے کا شوق دلائے۔ ۱۲۔ شاگردوں کے سامنے غرور آمیز انداز سے اجتناب کرے۔ ۱۳۔ شاگردوں کے درمیان بے جا تفریق سے پرہیز کرے۔ ۱۴۔ کلاس میں داخل ہو تو سلام کرے۔ ۱۵۔ تدریس کے وقت اگر ممکن ہو تو رو بقبلہ رہو۔ ۱۶۔ درس سے پہلے چند آیات کی تلاوت کرے۔ ۱۷۔ درس کے اختتام پر دعا کرے. ۱۸۔ جو کچھ اپنے لئے پسند کرتا ہے شاگردوں کیلئے بھی پسند کرے۔
معاشرت کے آداب
۱۔ چھ قسم کے افراد کی ہمنشینی اختیار کرو: ۱- علماء، ۲- عقلاء، ۳- کریم، ۴- فقراء، ۵- صلحاء اور ۶- باخبر و ماہر افراد۔ ۲۔ ان افراد کی ہمنشینی سے پرہیز کرو: ۱- کنجوس، ۲- جھوٹا، ۳- فاسق، ۴- احمق، ۵- قاطع رحم، ۶- پست افراد، ۷- متہم افراد، ۸- بچوں، ۹- غلام و کنیز، ۱۰- چاپلوس، ۱۱- اہل بدعت اور ۱۲- خائن. ۳۔ ارباب عقل و صاحبان دیانت سے مشورہ کرو۔ ۴۔ مشورہ میں خیانت نہ کرو۔ ۵۔ لوگوں سے محبت آمیز رویہ اختیار کرو۔ ۶۔ لوگوں سے ہشاش بشاش چہرہ کے ساتھ ملاقات کرو۔ ۷۔ دوسروں کو سلام کرو خاص طور پر بچوں اور نوجوانوں کو۔ ۸۔ فقراء و بدترین مالداروں کو سلام نہ کرو۔ ۹۔ جب ملاقات کرو تو مصافحہ کرو۔ ۱۰۔ دوسروں کے گھروں میں بغیر اجازت داخل نہ ہو۔ ۱۱۔ ریش سفید اور سن رسیدہ افراد کا احترام کرے۔ ۱۲۔ خورد سال افراد پر رحم کرو۔ ۱۳۔ صاحبان تقویٰ کا احترام کرو۔ ۱۴۔ اگر کوئی اکرام کرے تو اسکو رد نہ کرو۔۱۵۔ زیادہ نہ ہنسو۔ ۱۶۔ مذاق و شوخی زیادہ نہ کرو۔ ۱۷۔ کسی سے ملو تو اسکے نام، حسب و نسب، حالات سے باخبر ہونے کی کوشش کرو لیکن اگر وہ ناپسند کرتا ہے تو گریز کرو۔ ۱۸۔ ایک نشست میں اپنی توجہات کسی ایک فرد پر مرکوز نہ رکھیں بلکہ تمام افراد کو یکساں مورد توجہ قرار دیں۔ ۱۹۔ صداقت و کشادہ روئی کو اپنائے۔ ۲۰۔ عہد وپیمان کو وفا کرے۔ ۲۱۔ غیرت دینی، حیا و عفت کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ ۲۲۔ عفو و درگذر کرنا سرنامہ زندگی قرار دو۔ ۲۳۔ برائی کے بدلے اچھائی کرو۔ ۲۴۔ غیظ و غضب کو پی جائیں۔ ۲۵۔ حسد سے پرہیز کریں۔ ۲۶۔ جو کچھ اپنے لئے پسند کرو وہی دوسروں کیلئے بھی پسند کرو اور جو چیز اپنے لئے نا پسند سمجھو وہی دوسروں کیلئے بھی ناپسند سمجھو۔ ۲۷۔ خیر خواہی کو اپناؤ۔ ۲۸۔ تشییع جنازہ میں شرکت کریں۔ ۲۹۔ لوگوں سے دوروئی سے پیش نہ آئیں اور نہ ہی زبان دو قسم کی ہو۔ ۳۰۔ صلح و دوستی میں پہل کرو۔ ۳۱۔ نیکی میں ایک دوسرے پر سبقت کی کوشش کریں۔ ۳۲۔ مومنین کی توہین نہ کرو۔ ۳۳۔ قطع رحم سے پرہیز کرو۔ ۳۴۔ غیبت اور لوگوں کی سرزنش سے اجتناب کرو۔ ۳۵۔ طنز، تشنیع اور بدگمانی سے پرہیز کریں۔ ۳۶۔ مومنین کو ستانے والے کی مدد سے پرہیز کریں۔ ۳۷۔ چغلخوری و چاپلوسی سے دوری اختیار کریں۔ ۳۸۔ دنیا اور موجودات میں غور و فکر کرتے رہیں۔ ۳۹۔ خدا پر توکل و بھروسہ کریں۔ ۴۰۔ خواہشات، غضب اور شیطان کی اطاعت سے پرہیز کریں۔ ۴۱۔ رحمت و مغفرت الٰہی سے مایوس نہ ہوں۔ ۴۲۔ کثرت سے ذکر خدا کریں۔ ۴۳۔ بلاء و مصائب پر صبر کریں۔ ۴۴۔ تقسیم و مقدرات الٰہیہ پر راضی رہنا چاہئے۔ ۴۵۔ مخلوقات سے متکبرانہ رویہ اختیار نہ کریں۔ ۴۶۔ خوف خدا اور فضل و کرم خدا کے امیدوار بنے رہئے۔ ۴۷۔ یہ یقین رہے کہ رزق، نفع، نقصان، طول عمر، مرض و شفاء ذات باری کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ ۴۸۔ جو کہو اس پر عمل کرو۔ ۴۹۔ خودستائی سے بچو۔ ۵۰۔ ہر عمل میں اخلاص و خلوص رکھو۔ ۵۱۔ بات کرنے میں عدالت کی رعایت کرے۔ ۵۲۔ دوسروں کے امور کی ٹوہ میں نہ رہے۔ ۵۳۔ اچھے دوست کا انتخاب کرو کہ اچھا دوست اس سے زیادہ نزدیک ہے اسکے والدین و خانوادہ سے۔ ۵۴۔ مستقبل میں کیا ہوگا اسکی فکر نہ کرے اور گذرے ہوئے زمانہ کے امور کی بھی فکر نہ کرے، حال کو اہمیت دے۔ ۵۵۔ تفکر و فکر کرتا رہے اور بہت زیادہ بولنے سے پرہیز کرے۔ ۵۶۔ اپنے امور میں کامیاب ہونے کیلئے منظم پلاننگ کرے۔ ۵۷۔ لمحات کو بھی دوست رکھو اور مہربان بنو۔
تشییع جنازہ کےآداب
۱۔ مومنین کو اطلاع دی جائے تاکہ تشییع میں شریک ہو سکیں۔ ۲۔ دفن کرنے تک میت کے ساتھ رہیں۔ (نماز جنازہ کے بعد واپس لوٹ نہ جائیں)۔ ۳۔ تابوت کے گرد یا پھر پیچھے چلیں آگے چلنے سے پرہیز کریں۔ ۴۔ چالیس افراد اسکے نیک اور مومن ہونے کی گواہی دیں۔ (شہادت نامہ پر 40 آدمی کے اسماء لکھوائے جاتے ہیں.)۔ ۵۔ میت کو قبر کی پہلی رات تنہا نہ چھوڑیں۔ (شمع روشن کریں، نماز وحشت اور تلاوت قرآن وغیرہ)۔ ۶۔ قبر میں اتارنے سے پہلے میت کو منزل دیں یعنی تین مقام پر میت کو رکھے پھر قبر میں اتارے۔ ۷۔ جنازہ کو تیزی سے لے کر چلیں۔ ۸۔ ننگے پاؤں اور سر برہنہ تشییع میں شریک ہوں۔ ۹۔ تشییع جنازہ میں ہنسنے اور بیہودہ گفتگو سے پرہیز کرے۔ ۱۰۔ تابوت کے چاروں گوشوں کو ہاتھوں سے پکڑے۔ ۱۱۔دفن کے بعد قبر پر پانی کا چھڑکاؤ کرے اور قبر کو چار انگلی سے زیادہ اونچی نہ بنائیں۔ ۱۲۔ نماز وحشت قبر پڑھے۔ ۱۳۔ سر و صورت پیٹنا درست نہیں ہے۔ ۱۴۔مصائب اہلبیتؑ کو یاد کر کے گریہ کرے۔ ۱۵۔ میت کے ورثاء پا برہنہ اس طرح چلیں کہ پتہ چلے کہ عزادار ہیں۔۱۶۔ ورثائے میت کو تسلیت پیش کرے اور یہ آیت؛ إِنَّاْ لِلّٰهِ وَ إِنَّاْ إِلَیْهِ رَاْجِعُوْن یاد دلائے۔ ۱۷۔ قبر پر علامت بنائے۔ ۱۸۔ تین روز تک ورثائے میت کیلئے غذا پہونچائے۔ ۱۹۔ قبر کو مستحکم بنائے۔ ۲۰۔ اہل خانہ کے پہلو میں دفن کرے۔ ۲۱۔ مسجد میں جنازہ نہ رکھیں لیکن مسجد الحرام میں رکھ سکتے ہیں۔ ۲۲۔ قبر کی گہرائی گردن تک یا قد آدم کے برابر ہو۔ ۲۳۔ لحد بھی قبر میں بنائی جائے۔ ۲۴۔ مرد کی میت ہو تو پہلے سر کو وارد قبر کریں اور اگر میت عورت کی ہے تو پہلو کے ساتھ داخل قبر کریں۔ ۲۵۔ قبر کے اندر کفن کی گرہوں کو کھول دے، چہرہ کو خاک پر رکھے اور تلقین پڑھے۔ ۲۶۔ لحد کو پتھر یا کسی ایسی چیز سے بند کریں کہ مٹی میت پر نہ پڑے۔ ۲۷۔ میت کے ساتھ جو شخص قبر میں اترے وہ طاہر اور سر برہنہ ہو۔ ۲۸۔ اگر میت عورت کی ہو تو قبر میں شوہر یا کوئی مَحرَم اترے۔ ۲۹۔ دو تر و تازہ لکڑیاں میت کے ساتھ دفن کریں۔ ۳۰۔ تربت امام حسینؑ کی خاک کفن یا قبر میں رکھنا۔ ۳۱۔بہتر ہے پشت دست سے قبر میں مٹی ڈالی جائے اور جب مٹی ڈال رہا ہو تو آیت: انا للہ و انا الیه راجعون کی تلاوت کرے۔
جانکنی کے آداب
۱۔ وصیت نامہ لکھنا کہ اسکی بہت تاکید کی گئی ہے۔ ۲۔ کفن آمادہ کرنا۔ ۳۔ اپنے اہل خانہ، احباب و اعزہ سے معافی مانگنا۔ ۴۔ حالت جانکنی میں جو شخص ہے اسکے پاؤں کو رو بقبلہ کر دے۔ ۵۔ اسکے سامنے شہادتین اور ہر ایک ائمہؑ کی امامت کا اقرار اس طرح کرے کہ وہ سن سکے۔ ۶۔ مجنب اور حائض کو اس سے دور کردیں اگر ضرورت نہ ہو۔ ۷۔ روح نکلنے کے بعد آنکھیں بند کر دی جائیں۔ ۸۔ ہاتھوں کو سیدھا پھیلا دیں۔ ۹۔ منھ کو باندھ دیں۔ ۱۰۔ پیروں کو سیدھا پھیلا دیا جائے۔ ۱۱۔ غسل، کفن و دفن میں جلدی کرے مگر یہ کہ دیر میں مصلحت ہو۔ ۱۲۔ اگر موت رات میں واقع ہوئی ہے تو چراغ جلائے رکھے۔ ۱۳۔ میت کے پاس گریہ و زاری نہ کرے۔ ۱۴۔ بیہودہ گفتگو سے پرہیز کرے۔ ۱۵۔ میت کو اس مقام پر رکھے جہاں گھر میں نماز پڑھتا تھا۔۱۶۔ اسکے سرہانے سورہ یاسین، صافات، احزاب، آیت الکرسی، سورہ اعراف کی ۵۴ نمبر کی آیت، سورہ بقرہ کی آخری آیتوں کی تلاوت کرے اور دعائے عدیلہ پڑھے۔ ۱۷۔ میت کو تنہا نہ چھوڑیں۔ ۱۸۔ صرف عورتیں نہ ہوں اس شخص کے پاس جو جانکنی کے عالم میں ہے۔ ۱۹۔ سفید چادر اڑھائی جائے۔
مہمانی کے آداب
۱۔ بغیر دعوت کے کسی کے یہاں نہ جاؤ۔ ۲۔ بغیر اجازت کسی کے گھر میں داخل نہ ہو اور جب داخل ہو تو سلام کرو۔ ۳۔ وقت سے پہلے جا کر کھانے کا انتظار نہ کرو۔ ۴۔ اگر گھر میں کوئی نہ ہو تو گھر کے اندر نہ جاؤ۔ ۵۔ اگر صاحب خانہ معذرت کرے تو قبول کرو۔ ۶۔ کھانے کے بعد بیٹھ کر بحث و مباحثہ نہ کرو۔ ۷۔ دوسروں کیلئے جگہ خالی کر دو اور انکا احترام کرو۔ ۸۔ معمول کے مطابق کھانا کھاؤ۔ ۹۔ جب تک دعوت نہ ہو کسی دوسرے کو لے کر نہ جاؤ۔ ۱۰۔ والدین، بھائی، چچا، پھوپھی، ماموں و خالہ، دوست کے گھر اور جس گھر کی چابی تمہارے پاس ہے بغیر اجازت کے کھانا کھا سکتے ہیں۔
آداب عیادت مریض
۱۔ اگر بیمار و مریض کی وضعیت (حالت) مشخص نہ ہو تو ۳ روز تک عیادت کیلئے نہ جاؤ۔ ۲۔ خالی ہاتھ نہ جائے بلکہ تحفہ و ہدیہ لے کر جائے۔ ۳۔ ضیافت کی توقع لے کر نہ جائے۔ ۴۔ غیر مناسب گفتگو، پراکندہ و خستہ کرنے والے مطالب کے بیان سے پرہیز کرے۔ ۵۔ اسکو تسلی دے اور مایوس کر دینے والی باتوں سے پرہیز کرے۔ ۶۔ ہر روز عیادت کیلئے نہ جائے کہ مشکلات پیدا ہوں گی۔ ۷۔ تھوڑی دیر اسکے پاس بیٹھے، دیر تک نہ بیٹھے۔ ۸۔ اسکی شفاء و صحت کیلئے دعا کرے۔ ۹۔ 7 مرتبہ یا 40 مرتبہ یا 70 بار سورہ حمد اسکے پاس بیٹھ کر پڑھے۔ ۱۰۔ جس کام سے اسکو اذیت ہو وہ انجام نہ دے۔ ۱۱۔ صحت و شفاء کیلئے سورہ یاسین پڑھے۔ ۱۲۔ التماس دعا کرے مریض سے۔
مسافرت کےآداب
۱۔ ہفتہ کے نیک ایام میں سفر پر جائے مثلاً شنبہ کے روز اور مہینہ کی دوسری، چھٹی، دسویں، گیارہوں، چودہویں، اٹھارہویں، انیسویں، بائیسویں، تئیسویں، چھبیسویں اور انتیسویں تاریخ کو سفر پر نکلے۔ ۲۔ سفر تنہا نہ کرے۔ ۳۔ عقیق کی انگوٹھی یا خاک شفاء اپنے ساتھ رکھے۔ ۴۔ سفر سے پہلے وصیت کرے۔ ۵۔ ضروریات کو ساتھ لے جائے۔ ۶۔ غسل کرے۔ ۷۔ صدقہ دے۔ ۸۔ عصا ساتھ میں رکھے۔ ۹۔ اخراجات میں اسراف نہ کرے۔ ۱۰۔ رفقائے سفر سے خندہ پیشانی سے پیش آئے اور ان پر خرچ کرے۔ ۱۱۔ عام طور پر خاموش رہے اور ذکر خدا کرتا رہے۔ ۱۲۔ گھر سے نکلتے وقت دو رکعت نماز اور ادعیہ ماثورہ پڑھے۔ ۱۳۔ سورہ حمد، مُعَوذَتَین (سورہ ناس اور فلق) اور آیت الکرسی پڑھے۔ ۱۴۔ جب سفر پر نکلے تو سورہ قدر پڑھتا رہے اور جو اسکو چھوڑنے کیلئے جا رہے ہیں وہ بآواز بلند اذان کریں اور جب سواری پر سوار ہونے لگے تو اسکے داہنے و بائیں کان میں قرآن کے سورہ قصص کی آیت نمبر ۸۵: إِنَّ الَّذِیْنَ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ الْرَاْدُّکَ إِلٰی مَعَاْدٍ فَاللہُ خَیْرٌ حَاْفِظاً وَ ھُوَ أَرْحَمُ الرَّاْحِمِیْن کی تلاوت کرے۔ ۱۵۔ جس مقصد کیلئے سفر کر رہا ہے اسکو پورا کر کے واپس لوٹے۔ ۱۶۔ کسی کے پاس اچانک نہ پہونچے پہلے سے باخبر کر دے۔ ۱۷۔ دوستوں کیلئے تحفہ لائے۔ ۱۸۔ سفر میں ہمسفر سے جدا نہ ہو۔ ۹۔ ہمسفر کے اسرار کو محفوظ رکھے۔ ۲۰۔ اپنے امور میں ہمسفر سے مشورہ کرے۔ ۲۱۔ متواضع افراد کو ہمسفر بنائے۔ ۲۲۔ سفر سے پہلے ایک دوست کا انتخاب کرے۔ ۲۳۔ ہمسفر سے حد سے زیادہ مذاق نہ کرے۔ ۲۴۔ جسم و روح سالم ہو تو سفر کرے۔ ۲۵۔ اپنے ہم مرتبہ افراد کے ساتھ سفر کرے۔ ۲۶۔ سات سے کم افراد ہمسفر ہوں۔ ۲۷۔ سفر سے واپسی کیلئے جلدی کرے۔ ۲۸۔ چہار شنبہ (بدھ) کے روز سفر نہ کرے۔ ۲۹۔ سفر سے پہلے غسل کر کے دو رکعت نماز پڑھے؛ پہلی رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ توحید اور دوسری رکعت میں سورہ حمد کے بعد سورہ قدر پڑھے۔ ۳۰۔ سفر میں جب نشیب کی طرف جاؤ تو سُبْحَاْنَ اللہ اور جب بلندی کی طرف جاؤ تو اَللہُ أَکْبَر کہے۔
آداب خانہ (گھر)
۱۔ گھر کا وسیع ہونا مرد کی سعادت ہے۔ ۲۔ دینی بھائیوں پر اسکے سبب فخر و مباہات نہ کرے۔ ۳۔ آٹھ ذراع سے زیادہ اونچی دیوار نہ اٹھائے۔ ۴۔ نقش و نگار نہ بنوائے۔ ۵۔ گھر کا فرش اچھا بنوائے۔ ۶۔ نماز و عبادت کیلئے علاحدہ جگہ معین کرے۔ ۷۔ تلاوت قرآن زیادہ کرے۔ ۸۔ گھر میں کبوتر، پرندہ، مرغ سفید اور دو تاج والا، یاہو نامی کبوتر جو گران قیمت ہوتا ہے رکھے۔ ۹۔ فاختہ، ابابیل گھروں میں نہ رکھو۔ ۱۰۔ گھر میں کتا نہ رکھو کہ یہ نجس ہے اور ملائکہ کو دور کرتا ہے۔ ۱۱۔ آلات شطرنج و شراب وغیرہ گھر میں رکھنے سے پرہیز کریں۔ ۱۲۔ چھت کے چاروں طرف دیوار کھنچوا دے۔ ۱۳۔ گھر کے دروازہ اور صحن میں جھاڑو دے کہ یہ عمل فقر کو ختم کرتا ہے۔ ۱۴۔ اگر ضرورت نہ ہو تو تعمیرات انجام نہ دے۔ ۱۵۔غروب سے قبل گھر میں چراغ روشن کردے۔ ۱۶۔ گھر خریدنے کے بعد ولیمہ کرے۔ ۱۷۔ سوتے وقت چراغ بجھا کر سوئے۔ ۱۸۔ کاسنی نامی گھاس گھر میں لگائے۔ ۱۹۔ گھر میں تنہا نہ سوئے۔ ۲۰۔ گھر میں داخل ہو تو سلام کرے۔ ۲۱۔ پڑوسی کے گھر میں نہ دیکھے۔ ۲۲۔ گھر میں سرکہ کا چھڑکاؤ ناراحتی کو دور کرتا ہے۔ ۲۳۔ گھر سے بغیر کچھ کھائے نہ نکلے۔ ۲۴۔ مسجد سے قریب گھر بنوائے۔ ۲۵۔ عورتیں آرائش کے ساتھ گھر سے باہر نہ جائیں۔ ۲۶۔ گھر میں اذان کہو، گھر میں داخل ہونے اور نکلنے کی جو دعائیں وارد ہوئی ہیں پڑھے۔ ۲۷۔ گھر میں اندھیرا نہ چھوڑو۔ ۲۸۔ حتی الامکان گھر کو سفید رنگ سے رنگوایا جائے۔ ۲۹۔ گھر میں ہمیشہ اسپند جلایا کرو کہ نظر بد، جن و انس کے شرور کو رفع کرتا ہے۔ ۳۰۔ مکڑی کے جالوں سے گھر کو صاف رکھو کہ یہ فقر و فاقہ کا سبب ہوتا ہے۔ ۳۱۔ کھانے کا برتن گندا نہ رکھو کہ فقیری لاتا ہے۔ ۳۲۔ فاختہ کو گھر سے دور کرو کہ یہ لوگوں پر نفرین کرتا ہے۔
آداب استخارہ
۱۔ باوضو ہو کر استخارہ کرے۔ ۲۔ حمد خدا، مدح و ثنائے اہلبیتؑ کرے۔ ۳۔ کم از کم تین مرتبہ اور زیادہ سے زیادہ نو مرتبہ صلوات پڑھے۔ ۴۔ آیت الکرسی پڑھے۔ ۵۔ رو بقبلہ ہو۔ ۶۔ سورہ حمد و توحید پڑھے۔ ۷۔ أَسْتَخِیْرُ الله بِرَحْمَتِهِ خِیَرَۃً فِیْ عَاْفِیَة اور دوسری دعائیں پڑھے۔ ۸۔ معنی و مفہوم قرآن سے آشنائی ہو۔
اوقات استخارہ
روز شنبہ: دن میں زوال سے عصر تک نیک ہے۔
یکشنبہ: ظہر تک، عصر سے مغرب تک نیک ہے۔
دو شنبہ: طلوع آفتاب تک، دن نکلنے کے بعد ظہر تک اور پھر عصر سے عشاء تک نیک ہے۔
سہ شنبہ: دن نکلنے سے ظہر تک پھر عصر سے عشاء کے آخر تک نیک ہے۔
چہار شنبہ:ظہر تک پھر عصر سے عشاء کے آخر تک نیک ہے۔
پنجشنبہ: طلوع آفتاب تک، پھر ظہر سے عشاء کے اختتام تک نیک ہے۔
جمعہ: طلوع آفتاب تک پھر زوال سے عصر تک نیک ہے۔
مندرجہ ذیل دعاء پڑھے:
«إِنْ کَاْنَ فِیْ قَضَاْئِکَ وَ قَدْرِکَ أَنْ تَمُنَّ عَلٰی شِیْعَةِ آلِ مُحَمَّدٍ بِفَرَجِ وَلِیِّکَ وَ حُجَّتِکَ عَلٰی خَلْقِکَ فَأَخَرُجْ إِلَیْنَاْ آیَةً مِنْ کِتَاْبِکَ نَسْتَدِلُّ بِهَاْ عَلٰی ذٰلِکَ»
اور پھر قرآن مجید کھول کر 6 ورق پلٹ کر ساتویں ورق کی ساتویں سطر یا قرآن کو کھول کر داہنے صفحہ کی پہلی آیت پڑھے اور اسکے مطابق عمل کرے۔
آداب تربیت
۱۔ مَثَل بیان کرے۔ ۲۔ دقت نظر سے کام لے۔ ۳۔ سفر علمی ہو۔ ۴۔ تجربہ و مشاہدہ ہو۔ ۵۔ قصہ بیان کرے۔ ۶۔ مناظرہ، بحث اور استدلال کرے۔ ۷۔ فکر کرنے کیلئے آمادہ کرے۔ ۸۔ موازنہ کرنے کی تلقین کرے۔ ۹۔ تشویق و تنبیہ کرے۔ ۱۰۔ نمونوں کا تعارف کرائے۔ ۱۱۔ عمل و کردار سے تربیت کرے۔ ۱۲۔ گفتار سے تربیت کرے۔ ۱۳۔ لطف و مہربانی سے پیش آئے۔
آداب ذبح
۱۔ جب جانور کو ذبح کر رہا ہو تو دونوں ہاتھ اور ایک پیر باندھ دے اور دوسرے پیر کو آزاد چھوڑ دے۔ ۲۔ ذبح سے پہلے جانور کو پانی پلائے۔ ۳۔ حیوان کو اذیت نہ پہونچائے یعنی چاقو اور چھری کی دھار تیز ہو تا کہ جلدی سے رگوں کو کاٹ سکے۔ ۴۔ ذبح سے پہلے چھری کو چھپائے رہے۔ ۵۔ ذبح کے وقت دوسرا جانور دیکھ نہ رہا ہو۔ ۶۔ روز جمعہ ظہر سے پہلے ذبح نہ کرے۔ ۷۔ پالتوجانورکو خود ذبح نہ کرے۔ ۸۔ جسم ٹھنڈا ہونے سے پہلے کھال نہ کھینچے۔ ۹۔ رات کو جانور ذبح نہ کرے۔ ۱۰۔ ذبح کرنے سے پہلے اسکے ساتھ مدارات کرے۔ ۱۱۔ دودھ دینے والے جانور کو ذبح نہ کرے۔ ۱۲۔ ذبح کرتے وقت اذیت نہ دے۔ ۱۳۔ ذبح کرنے والا مسلمان ہونا ضروری ہے خواہ مرد ہو یا عورت۔ ۱۴۔ سر و تن کو آہنی آلہ سے جدا کرے۔ ۱۵۔ حیوان کا رو بقبلہ ہونا واجب ہے۔ ۱۶۔ سر قلم کرتے وقت «بِسْمِ اللہِ وَ بِاللہِ وَ اللہُ أَکْبَر» کہنا واجب ہے۔ ۱۷۔ جس حیوان کو ذبح کر رہا ہے وہ زندہ ہو اور رگ کٹنے کی وجہ سے جان نکلے۔۱۸۔ مخصوص مقام سے سر کو کاٹے۔
اگر تمام واجبات کی ذبح میں رعایت نہیں کی جائے گی تو جانور حرام ہو جائے گا۔
آداب صدقہ
۱۔ بہترین مال سے انتخاب کرے۔ ۲۔ فقرا کی ضرورت کو مد نظر رکھ کر صدقہ دے۔ ۳۔ جو زیادہ ضرورتمند ہوں انکو عطا کرے۔ ۴۔ پوشیدہ طور پر صدقہ دے۔ ۵۔ مِنت کا اظہار نہ ہو۔ ۶۔ اخلاص کے ساتھ ادا کرے۔ ۷۔ پسندیدہ اموال سے صدقہ دے۔ ۸۔ خود کو حقیقی مالک تصور نہ کرے۔ ۹۔ انفاق کو ناچیز تصور کرے۔ ۱۰۔ دوسروں پر سبقت کرنے کی کوشش کرے۔ ۱۱۔ حلال مال سے انفاق کرے۔ ۱۲۔ صدقہ دینے کے بعد اپنے ہاتھوں کو سونگھے کہ صدقہ دست خدا سے ہوتا ہوا مستحق تک جاتا ہے۔
آداب تجارت
۱۔ حرام چیزوں کی تجارت سے پرہیز کرے۔ ۲۔ جھوٹی یا سچی قسم نہ کھائے۔ ۳۔ جنس کے عیوب نہ چھپائے۔ ۴۔ بیچی جانے والی چیز کی تعریف نہ کرے۔ ۵۔ جس چیز کو خریدنا چاہتا ہے اسکی مذمت نہ کرے۔ ۶۔ جھوٹ سے پرہیز کرے۔ ۷۔ تمام معاملات میں استخارہ کرے۔ ۸۔ اگر خریدار نادم و پشیمان ہو جائے تو چیز واپس لے لے۔ ۹۔ سامنے والے پر احسان نہ جتائے۔ ۱۰۔ کم نہ بیچے۔ ۱۱۔ تول میں کمی نہ کرے۔ ۱۲۔ جن سے ناراض ہے یا اہل نہیں ہیں ان سے خرید و فروخت نہ کرے۔ ۱۳۔ لوگوں کو دھوکہ نہ دے۔ ۱۴۔ اندھیرے میں معاملہ انجام نہ دے۔ ۱۵۔ لکھنا اور حساب و کتاب سیکھ کر تجارت کرے۔ ۱۶۔ معاملات میں تمام امور کو لکھے۔ ۱۷۔ ضرورت سے زیادہ مومنین سے نفع نہ لے۔ ۱۸۔ احتکار نہ کرے۔ (احتکار: اس غرض سے مال روکنا کہ جب بازار میں کمیاب ہوجائے تو زیادہ سے زیادہ قیمت پر فروخت کرے)۔ ۱۹۔ اچھی چیز کی خریدو فروخت کرے۔ ۲۰۔ بازار میں داخل ہوتے ہوئے اور بازار سے نکلتے ہوئے ادعیہ ماثورہ پڑھے۔ ۲۱۔ کساد بازاری کا شکوہ نہ کرے۔ ۲۲۔ تجارت کے احکام شرعی کو جاننے کے بعد تجارت کرے۔ ۲۳۔ خریداروں کے درمیان امتیاز و تفریق نہ کرے۔ ۲۴۔ خرید نے والا خریدنے کے بعد 3 بار اَللہُ أَکْبَر کہے۔ ۲۵۔ کھانے پینے کی چیزوں میں زیادہ فائدہ نہ لے۔ ۲۶۔ بازار جلدی نہ جائے اور سب سے دیر میں بازار سے نہ نکلے۔ ۲۷۔ جن کی تجارت میں برکت نہیں ہے ان سے معاملہ نہ کرے۔ ۲۸۔ جن کے اموال مشتبہہ ہیں ان سے معاملہ نہ کرے۔ ۲۹۔ کافر ذمی اور ظالمو ں سے معاملہ نہ کرے۔ ۳۰۔ طلوع فجر سے طلوع آفتاب کے درمیان تجارت نہ کرے۔ ۳۱۔ ان تجار سے معاملہ کرے جو نیک و خیرات کرنے والے اور فقراء کی امداد کرنے والے ہیں۔ ۳۲۔ تجارت میں کاہلی، سستی، اور لالچ سے پرہیز کرے۔ ۳۳۔ بیچنے والا اشیاء کی تعریف اور خریدنے والا مذمت نہ کرے۔ ۳۴۔ بغیر ضرورت مومنین سے منافع نہ لے۔ ۳۵۔ طلوع آفتاب سے پہلے گھر سے نکلے کہ یہی وقت پروردگار نے تقسیم رزق کیلئے معین فرمایا ہے۔ ۳۶۔ جب گھر سے نکلے تو چاروں قل، آیت الکرسی اور سورہ قلم کی آیت نمبر؛ ۵۱ و ۵۲پڑھے۔ إِنْ یَّکَاْدُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیُزْلِقُوْنَکَ بِأَنْصَاْرِھمْ لَمَّاْ سَمِعُوْا الذِّکْرَ وَ یَقُوْلُوْنَ إِنَّهُ لَمَجْنُوْنٌ وَ مَاْ هُوَ إِلَّاْ ذِکْرٌ لِلْعَاْلَمِیْنَ. ۳۷۔ معاملہ میں دقت و سختی کرے۔ ۳۸۔ دو مرد یا چار عورتوں کو گواہ بنائے۔ ۳۹۔ سود دینے سے بچو کہ یہ عظیم گناہ اور آخر کار زندگی کو تباہ اور تجارت کو برباد کردیتا ہے۔ ۴۰۔ جاہلوں اور نابالغ افراد سے تجارت نہ کرے۔ ۴۱۔ گھر سے نکلتے وقت دعائے رزق پڑھے: أَللّٰهُمَّ إِنْ کَاْنَ رِزْقِیْ فِیْ السَّمَآءِ فَأَنْزِلْهُ وَ إِنْ کَاْنَ فِیْ الْأَرْضِ فَأَظْہِرْہُ وَ إِنْ کَاْنَ بَعِیْداً فَقَرِّبْهُ وَ إِنْ کَاْنَ قَرِیْباً فَیَسِّرْہُ وَ إِنْ کَاْنَ قَلِیْلاً فَکَثِّرْہُ أَللّٰهُمَّ بَاْرِکْ لِیْ فِیْهِ. ترجمہ: (پروردگارا! اگر میرا رزق آسمان میں ہے پس تو اسے نازل فرما، اگر زمین میں ہے پس اسے ظاہر فرما، اگر دور ہے پس اسے قریب کر دے، اگر قریب ہے پس میسر فرما، اگر قلیل ہے پس اسے کثیر فرما اور پروردگارا! اسی میں میرے لئے برکت عطا فرما.)
کھیتی و زراعت کے آداب
۱۔ غصبی زمین میں کھیتی نہ کرے۔ ۲۔ زمین کو تیار کرے۔ ۳۔ زمین میں زراعت کے وقت دعائیں پڑھے۔ ۴۔ شرعی ضرورت کے بغیر پھلدار درخت نہ کاٹے۔ ۵۔ درخت لگاتے وقت پہلے پانی ڈالے پھر مٹی ڈالے۔ ۶۔ جب پھل تیار ہوجائے تو فقراء کو محروم نہ کرے۔ ۷۔ رات میں میوہ و پھل نہ چنے۔ ۸۔پڑوسی کو بھی درخت کا پھل دو۔ ۹۔ اسکی زکات و دیگر شرعی حقوق ادا کیا جائے۔
قبرستان کے آداب
۱۔ قبرستان میں داخل اور اس سے نکلتے وقت زیارت اہل قبور پڑھے۔۲۔ یہ دعا پڑھے: لَاْ إِلٰهَ إِلَّاْ اللہُ وَحْدَہُ لَاْ شَرِیْکَ لَهُ، لَهُ الْمُلْکُ وَ لَهُ الْحَمْدُ وَ هُوَ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر. ۳۔ با وضو داخل ہو۔ ۴۔ بغیر سلام و دعا کے کسی قبرستان سے نہ گذرے۔ ۵۔ قبروں کے اوپر سے عبور نہ کرے۔ ۶۔ قبرستان میں پیشاب نہ کرے۔ ۷۔ قبروں کی تختی نہ پڑھے۔ ۸۔ قبرستان میں دنیاوی گفتگو نہ کرے۔ ۹۔ قبرستان میں ہنسنے سے پرہیز کرے نیز عبرت حاصل کرے۔ ۱۰۔ قبرستان میں داخل ہونے کے بعد پہلے اپنے والدین کی قبر پر فاتحہ پڑھے۔ ۱۱۔ فاتحہ پڑھتے وقت رو بقبلہ ہو اور ایک ہاتھ قبر پر رکھے۔ ۱۲۔ قبر کا طواف نہ کرے لیکن قبور ائمہؑ و امامزادہ کا طواف کر سکتا ہے۔ ۱۳۔ حتی المقدور اموات کیلئے صدقہ و خیرات کرے۔ ۱۴۔ جس مقام اور علاقہ سے گذرو اس علاقہ کے مردوں کیلئے سورہ فاتحہ پڑھو۔ ۱۵۔ والدین کی قبروں پر اللہ سے دعا کرو کہ مستجاب ہوتی ہے۔ ۱۶۔ قبروں پر قبہ بنانے سے پرہیز کرے لیکن انبیاءؑ، اوصیاء اور بزرگان دین کی قبور پر قبہ بنانا صحیح ہے۔ ۱۷۔ مومنین کی قبروں پر 7 بار إِنَّاْ أَنْزَلْنَاْہ پڑھے۔ ۱۸۔ اہل قبر کی زیارت سے عبرت حاصل کرو اور آخرت کو یاد کرو۔ ۱۹۔ قبرستان میں سورہ یٰس و صافات پڑھو۔
انگوٹھی پہننے کے آداب
۱۔ سونے، رانگہ کي انگوٹھی نہ پہنے۔ ۲۔ انگلی کے آخری حصہ میں قرار دے۔ ۳۔ دائرہ دار نگینہ کی انگوٹھی پہنے۔ ۴۔ داہنے ہاتھ میں انگوٹھی پہنے۔ ۵۔ جس ہاتھ میں انگوٹھی ہو اس سے طہارت نہ کرے۔ ۶۔ چھوٹی والی انگلی میں انگوٹھی پہنے۔ ۷۔ اگر نگینہ پر قرآنی آیات، اسمائے خدا، رسولؐ و ائمہؑ لکھا ہو تو بغیر وضو کے اسکو مس نہ کرے کہ آیات قرآنی کو بغیر وضو چھونا حرام ہے۔
آداب عقیقہ
۱۔ جانور ذبح کرتے ہوئے دعا پڑھے: بِسْمِ اللہِ وَ بِاللہِ أَللّٰهُمَّ هٰذَا / هٰذِہٖ عَقِیْقَة عَنْ فلان بن فلان / فلانة بنت فلان (جس کا عقیقہ ہے اسکا نام ذکر کرے) لَحْمُهَاْ بِلَحْمِهِ / بِلَحْمِهَاْ وَ دَمُهاْ بِدَمِهِ / بِدَمِهَاْ وَ عَظْمُهاْ بِعَظْمِه / بِعَظْمِهاْ أَللّٰهمَّ اجْعَلْهاْ وِقَآءًا لِآلِ مُحَمَّدٍ عَلَیْه و عَلَیْهمُ السَّلَاْم۔ (نوٹ: پہلے الفاظ لڑکے کیلئے/ دوسرے الفاظ لڑکی کیلئے ہے.)۔ ۲۔ بہتر ہے کہ ولادت کے ساتویں دن عقیقہ ہو۔ ۳۔ عقیقہ پیغمبر اکرمؐ و اہلبیتؑ کی سنت ہے اور ہر بچہ عقیقہ کی محافظت میں ہوتا ہے۔ ۴۔ اگر انسان نہ کر سکتا ہو تو جب ممکن ہو عقیقہ کرے۔ ۵۔ اگر بھیڑ دستیاب نہ ہو تو اسکی قیمت صدقہ دے۔ ۶۔ ران اور ہاتھ جانور کا اس دایہ کو دے جس نے ولادت میں مدد کیا ہے۔ ۷۔ کم از کم دس فقراء میں گوشت تقسیم کرے۔ ۸۔ والدین اس گوشت کو استعمال نہ کریں۔ ۹۔ اگر جانور بھیڑ ہے تو چھ یا سات ماہ کا کم از کم ہو۔ ۱۰۔ بھیڑ چاق و چوبند ہو، عیب دار نہ ہو۔ ۱۱۔ لڑکے کے عقیقہ کیلئے نر اور لڑکی کے عقیقہ کیلئے مادہ بہتر ہے۔ ۱۲۔ عقیقہ کا گوشت فقراء میں تقسیم کرے اسکی فضیلت زیادہ ہے۔ ۱۳۔ ہڈیوں کو نہ توڑے بلکہ اسکو دفن کر دے۔
مسواک کرنے کے آداب
۱۔ حمام میں مسواک کرنا دانتوں کو گرا دیتا ہے۔ ۲۔ بیت الخلاء میں نہ کرے کہ دہن (منہ) میں عفونت گھر کر لیتی ہے۔ ۳۔ کھانا کھانے کے فوراً بعد نہ ہو کہ درد دل کا سبب ہے۔ ۴۔ وضو سے پہلے ہو۔ ۵۔ نماز سے پہلے ہو کہ ستر نماز کا ثواب رکھتا ہے۔ ۶۔ سحر کے وقت ہو۔ ۷۔ لکڑی سے مسواک کرے۔ ۸۔ تین دن سے کم نہ ہو۔ ۹۔ ایک ہی مسواک سے چند افراد استفادہ نہ کریں۔ ۱۰۔ سونے سے پہلے ہو۔
ناخن کاٹنے کے آداب
۱۔ دانت سے ناخن نہ کاٹے۔ ۲۔ جمعہ کے دن کاٹے۔ ۳۔ داہنے ہاتھ کی چھوٹی والی انگلی سے شروع کرے اور بائیں ہاتھ کی چھوٹی والی انگلی پر ختم کرے۔ ۴۔ جب شروع کرے تو یہ دعا پڑھے: بِسْمِ اللہِ وَ بِاللہِ وَ عَلیٰ سُنَّةِ مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ۔ ۵۔ بالوں کی طرح ناخن کو بھی دفن کرے کہ بیان کیا گیا ہے کہ سات چیزیں جب اپنے سے جدا کرو تو دفن کر دو: (۱- بال، ۲- ناخن، ۳- خون حیض، ۴- ناف، ۵- دانت، ۶- خون، ۷- نطفہ: جو خون کا لوتھڑا بن چکا ہے)۔
عطر و خوشبو لگانے کے آداب
۱۔ صبح استعمال کرے۔ ۲۔ نماز کیلئے عطر لگائے۔ ۳۔ وضو کے بعد استعمال کرے۔ ۴۔ مسجد میں جانے کیلئے۔ ۵۔ مرد گھر سے نکلتے وقت استعمال کریں۔ ۶۔ مرد ایسی خوشبو استعمال کریں جس کا رنگ مخفی ہو اور عورتیں اسکے بر عکس۔ ۷۔ خوشبو کو ٹھکراؤ نہیں۔ ۸۔ اگر کوئی تمہیں پھول دے تو سونگھو آنکھوں سے لگا کر صلوات پڑھو۔ ۹۔ زن و شوہر ایک دوسرے کیلئے خوشبو کا استعمال کریں۔
کپڑے پہننے کے آداب
۱۔ کپڑا روئی یا کتان کا ہو۔ ۲۔ سفید، زرد یا سبز رنگ کا ہو۔ ۳۔ عورتوں کا لباس لمبا ہو۔ ۴۔ متکبرانہ انداز میں زمین پر کپڑے کھینچ کر نہ چلیں۔ ۵۔ پاک لباس پہنے۔ ۶۔ ایسے لباس نہ پہنیں جس پر انگلی اٹھے۔ ۷۔ تکبر و تحقیر آمیز لباس سے پرہیز کرے۔ ۸۔ عورتوں کا لباس مرد اور مردوں کا لباس عورتیں نہ پہنیں۔ ۹۔جوان، بزرگوں سے مخصوص لباس اور بزرگ، جوانوں سے مختص لباس پہننے سے پرہیز کریں۔ ۱۰۔ لباس پہنتے اور اتارتے وقت بِسْمِ اللہ کہے۔ ۱۱۔ لباس داہنی طرف سے پہنے۔ ۱۲۔ جلدی جلدی لباس بدلنا چاہئے۔ ۱۳۔ ہاتھ اور چہرہ کو لباس سے نہیں پوچھنا چاہئے۔ ۱۴۔ کھڑے ہو کر لباس نہ پہنے۔ ۱۵۔ لباس کی وجہ سے لوگوں پر افتخار نہ کرے۔
بیت الخلاء کے آداب
۱۔ رو بقبلہ یا پشت بقبلہ حرام ہے۔ ۲۔ سر ڈھک کر جائے۔ ۳۔ داخل ہوتے وقت پہلے بایاں پیر اندر رکھے اور نکلتے وقت پہلے داہنا پیر باہر رکھے۔ ۴۔ جب بیٹھے تو بائیں پیر پر تکیہ کر کے بیٹھے۔ ۵۔ کھڑے ہو کر پیشاب نہ کرے۔ ۶۔ ضرورت سے زیادہ نہ بیٹھے۔ ۷۔ رات کو بغیر چراغ کے نہ جائے۔ ۸۔ میوہ دار (پھلدار) درخت کے نیچے نہ ہو۔ ۹۔ اگر اذان کی آواز سن رہا ہو تو دہرائے۔ ۱۰۔ نعمات الٰہیہ کو یاد کرے۔ ۱۱۔ دوسرے کی زمین و ملکیت میں نہ کرے۔ ۱۲۔ بہتے پانی میں پیشاب نہ کرے۔ ۱۳۔ نہاتے وقت پیشاب نہ کرے۔
راستہ چلنے کے آداب
۱۔ تکبر و غرور کے ساتھ راستہ نہ چلے۔ ۲۔ عورتیں سڑک کے کنارے سے چلیں۔ ۳۔ تیز و جلدی جلدی نہ چلیں۔ ۴۔ عصا کے ساتھ راستہ چلنا فضیلت رکھتا ہے۔ ۵۔ متواضع انداز میں راستہ چلے۔ ۶۔راہ چلتے وقت فکر اور ذکر کرتے رہیں۔ ۷۔ والدین، بزرگوں، اساتیذ اور سادات کے آگے آگے نہ چلیں۔
حمام میں جانے کے آداب
۱۔ ستر عَورتَین کرے خواہ مرد ہو یا عورت۔ ۲۔ دوسروں کی شرمگاہ پر نظر نہ کرے کہ حرام ہے۔ ۳۔ لنگی پہن کر جائے خواہ حمام خصوصی ہو۔ ۴۔ حمام میں ٹھندا پانی نہ پیئے۔ ۵۔ ٹھیکرے سے بدن نہ رگڑے۔ ۶۔ لنگی چہرہ پر نہ ملے۔ ۷۔ مصری مٹی سے سر دھوئے۔ ۸۔ حمام میں کنگھی نہ کرے۔ ۹۔ حمام کی دیوار پر ٹیک نہ لگائے۔ ۱۰۔ خالی پیٹ حمام میں نہ جائے۔ ۱۱۔ شکم سیری کے عالم میں حمام میں نہ جائیں۔ ۱۲۔ باپ، بیٹا ایک ساتھ حمام نہ جائیں۔ ۱۳۔ حمام میں مسواک نہ کریں۔ ۱۴۔ حمام سے نکلنے کے بعد ٹھنڈے پانی سے پیر دھوئے۔ ۱۵۔ حمام میں نماز نہ پڑھے لیکن جو جگہ نماز کیلئے مخصوص ہو وہاں پڑھ سکتا ہے۔ ۱۶۔ جب حمام سے باہر نکلے تو سر ڈھانک کر نکلے۔ ۱۷۔ حمام کے اندر نہاتے وقت پیشاب نہ کرے۔ ۱۸۔ خطمی نامی مٹی سے سر دھلے۔ ۱۹۔ مشترکہ تولیہ سے استفادہ نہ کرے۔ ۲۰۔ حمام میں پشت کے بل نہ سوئے۔ ۲۱۔ حمام میں غسل توبہ ہمیشہ کرے۔ ۲۲۔ حمام سے واپسی پر دو رکعت نماز پڑھے۔
(قارئین کرام! جس حمام کا تذکرہ ہے وہ مروجہ حمام نہیں ہے بلکہ ماضی قریب تک ایران و عراق میں ایک مخصوص جگہ ہوتی تھی جہاں لوگوں کے نہانے کی ہر قسم کی سہولیات رہتی تھیں جس میں چھوٹے چھوٹے غسل خانہ بنے ہوتے تھے ایک وقت میں متعدد افراد اس سے استفادہ کرتے تھے.)
کھانا کھانے کےآداب
۱۔ خدام و کمزور افراد کے ساتھ کھانا کھاؤ۔ ۲۔ کریم شخص کی غذا کھاؤ کہ اس میں دوا ہے۔ ۳۔ بخیل کا کھانا نہ کھاؤ کہ اس میں درد ہے۔ ۴۔ اپنے کھانے کے برتن کو خوب صاف کر دو۔ ۵۔ حد سے زیادہ نہ کھاؤ۔ ۶۔ کھانے کا برتن سونے چاندی کا نہ ہو۔ ۷۔ جس دستر خوان پر شراب پی جاتی ہو، اس پر کھانا نہ کھاؤ۔ ۸۔ دوسرے کا کھانا اسکے ساتھ کھاؤ۔ ۹۔ نجس چیز کے کھانے سے بچو۔ ۱۰۔ کھانے سے پہلے ہاتھوں کو دھلے۔ ۱۱۔ کھانا شروع کرتے وقت «بسم الله» کہے۔ ۱۲۔ کھانا ختم کرتے ہوئے «الحمد لله» کہے۔ ۱۳۔ اگر سیر ہو تو نہ کھاؤ۔ ۱۴۔ سیر ہونے سے پہلے ہی کھانے سے دستبردار ہو جاؤ۔ ۱۵۔ خوب چبا کر کھانا کھاؤ۔ ۱۶۔ کھانے کھاتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھو۔ ۱۷۔ گرم کھانا نہ کھاؤ۔ ۱۸۔ پھونک کر کھانا نہ کھاؤ۔ ۱۹۔ روٹی چاقو سے کاٹ کر نہ کھاؤ۔ ۲۰۔ روٹی کو برتن نہ بناؤ لیکن گوشت کیلئے بنا سکتے ہیں۔ ۲۱۔ ہڈیوں کو بالکل صاف کردو کہ کراہیت رکھتا ہے۔ ۲۲۔ کم از کم تین انگلی سے کھانا کھاؤ۔ ۲۳۔ اپنے سامنے کی غذا کھاؤ۔ ۲۴۔ حالت جنابت میں کھانا نہ کھاؤ۔ ۲۵۔ دو زانو بیٹھ کر کھانا کھائے۔ ۲۶۔ چلتے پھرتے کھانا نہ کھائے۔ ۲۷۔ ٹیک لگا کر کھانا نہ کھائے۔ ۲۸۔ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد میں نمک چکھے۔ ۲۹۔ تنہا کھانا نہ کھائے۔ ۳۰۔ دیر تک کھائے۔ (یعنی آرام آرام، خوب چبا کر کھائےگا تو قہری طور پر وقت زیادہ صرف ہوگا)۔ ۳۱۔ کھانے کے درمیان میں گفتگو نہ کرے، ہاں «أَلْحَمْدُ لِلّٰهِ» کہہ سکتا ہے۔ ۳۲۔ کھانا کھانے کے بعد ہاتھوں کو دھوئے۔ ۳۳۔ کھانے کے بعد خلال کرے۔ ۳۴۔ بچا ہوا کھانا اور ہڈیاں جانوروں کو دیدے کہ یہ صدقہ شمار ہوتا ہے۔ ۳۵۔ کھانے کے درمیان پانی نہ پیئے۔ ۳۶۔ دو پہر کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر داہنے پیر کو بائیں پیر پر رکھ کر سوئے۔ ۳۷۔ رات کے کھانے کے بعد تھوڑی دیر چہل قدمی کرے تا کہ کھانا ہضم ہو جائے اور اطمینان سے نیند پوری ہو۔ ۳۸۔ باوضو ہو کر کھانا کھائے۔ ۳۹۔ دسترخوان پر دعا کرے۔ ۴۰۔ ہاتھ اور منھ کو روٹیوں سے صاف نہ کرے۔ ۴۱۔ داہنے ہاتھ سے کھانا کھائے۔ ۴۲۔ کھانے کی برائی نہ کرے۔
پانی پینے کے آداب
۱۔ رات میں بیٹھ کر اور دن میں کھڑے ہو کر پانی پیئے۔ ۲۔ کم سے کم تین سانس میں پانی پیئے۔ ۳۔ ہر مرتبہ شروع میں «بسم الله» اور آخر میں «الحمد لله» کہے۔ ۴۔ چوسنے کے انداز میں پانی پیئے۔ ۵۔ ٹوٹے ہوئے برتن میں نہ پیئے۔ ۶۔ شامی برتن اور مصری کوزہ میں پانی نہ پیئے۔ ۷۔ سفال کے برتن میں نہ پیئے۔ ۸۔ پانی کے برتن کا دہانہ کھلا نہ رکھیں خاص طور پر رات میں۔ ۹۔ پانی پینے کے بعد قاتلان امام حسینؑ پر لعنت اور امام حسینؑ پر درودو سلام بھیجے۔ ۱۰۔ داہنے ہاتھ میں پانی کا برتن لے۔ ۱۱۔ منھ پانی پر رکھ کر پانی نہ پیئے بلکہ دونوں ہونٹ کے درمیان سے پیئے۔ ۱۲۔ میوہ (پھل) کھانے کے بعد پانی نہ پیئے کہ بہت نقصان دہ ہے۔
٭سونے کے آداب
۱۔ زیادہ نہ سوئے۔ ۲۔ بین الطلوعین و غروب سے پہلے نہ سوئے۔ ۳۔ عصر کے وقت نہ سوئے۔ ۴۔ مغرب کے بعد عشاء سے پہلے نہ سوئے۔ ۵۔ ظہر سے پہلے اور ظہر کے بعد سوئے۔ ۶۔ با ہو کر وضو سوئے۔ ۷۔ مسجدوں میں نہ سوئے۔ ۸۔ اکیلا نہ سوئے۔ ۹۔ ایسی چھت جس کے چاروں طرف دیوار نہ ہو، نہیں سونا چاہئے۔ ۱۰۔ راستہ پر نہ سوئے۔ ۱۱۔ جس کمرہ میں سونا ہے اسکا دروازہ بند کر دے یا اس پر پردہ ڈال دے۔ ۱۲۔ اس حال میں نہ سوئے کہ ہاتھوں میں کھانا لگا ہوا ہو۔ ۱۳۔ سونے سے پہلے بیت الخلاء جائے۔ ۱۴۔ منھ کے بل یا بائیں کروٹ نہ سوئے، چت یا داہنی کروٹ سوئے۔ ۱۵۔ رو بقبلہ سوئے۔ ۱۶۔ سوتے وقت: «بِسْمِ اللہِ وَ الْحَمْدُ لِلّٰه» پڑھےیا اور دوسری بہت سی دعائیں وارد ہوئی ہیں انہیں پڑھے کہ مستحب ہے۔ ۱۷۔ سونے سے پہلے تین بار سورہ توحید اور چار بار سورہ کافرون پڑھے کہ ایک ختم قرآن کا ثواب ہے۔ ۱۸۔ حالت جنابت میں نہ سوئے۔ ۱۹۔ دو مرد یا دو عورتیں یا دو فرزند ایک ساتھ نہ سوئیں۔
نورہ لگانے کے آداب
ایک تبصرہ شائع کریں