کربلا میں خواتین کا کردار
مترجم: ابو دانیال اعظمی بریر
خواتین کی انسانی کرامت کی صفت، عفت کے زیر سایہ مہیا ہوتی ہے، اسی طرح حجاب و پردہ بھی ایک دینی حکم ہے کہ جو عورت کی پاکدامنی و حفاطت کی خاطر اور معاشرہ کی اخلاقی آلودگیوں کو محفوظ رکھنے کیلئے شریعت نے قانون بنایا ہے۔
یہ بات یاد رہے کہ اللہ کی راہ میں چلنے کیلئے "کربلا میں خواتین کی تعداد" کم و زیادہ ہونا اتنا اہم نہیں ہے جتنا خلوص و اخلاص اور للہیت کا کردار ہے.
کربلا میں عاشورا کی دینی تحریک سے اسلامی اقدار و قوانین کے زندہ کرنے کیلئے ہی تھی۔ جس کے سایہ میں مسلمان خواتین کو اس حجاب و عفت کے کردار کو بھی اپنا مقام و منزلت عطا کیا اور امام حسینؑ و جناب زینبؑ کبریٰ نیز خاندان رسالت و نبوت نے چاہے گفتار کے ذریعہ یا پھر خود ہی عمل کرتے ہوئے اس خالص گوہر و جوہر کو یاد دلایا ہے۔
خواتین کیلئے زینب کبریٰ اور امام حسینؑ کے اہل حرم ایک نمونہ عمل کردار حجاب و عفت کیلئے ہیں۔ اہلبیت کی خواتین نے اس عظیم حماسہ میں عین شرکت کرتے ہوئے اور معاشرہ میں حساس اور تبلیغ کی خطیر کردار کو ادا کرنا، کردار عفت و متانت کی رعایت کرتے ہوئے تمام مسلمان خواتین کیلئے نمونہ عمل بن گئی ہیں۔
حضرت امام حسینؑ بن علیؑ نے اہلبیت کی خواتین (بہن اور بیٹی) زینب علیا مقام و فاطمہ صغری کو وصیت فرمائی کہ اگر میں قتل ہو جاؤں تو تم اپنے گریبان چاک نہ کرنا، اپنے چہرہ پر خراش نہ لگانا اور اپنی زبان سے نازیبا کلمات اور بری بات ادا نہ کرنا۔ (موسوعة کلمات الامام الحسینؑ ص: 406)
اس طرح کے حالات امام حسینؑ کے خاندان عصمت و طہارت کی خواتین کے شایان شان تو نہیں تھے، خاص طور پر دشمن کی آنکھیں اس منظر کو دیکھ بھی رہی ہیں اور ان سے ظالمانہ سلوک بھی کر رہے تھے.
آخری لمحات میں جب امام حسینؑ نے اپنی خواتین کی گریہ و زاری کی آواز کو سنا تو اپنے بھائی عباسؑ علمدار اور اپنے ہمشکل پیمبر علیؑ اکبر کو بھیجا کہ خواتین کو صبر و تحمل کی سفارش و تلقین کریں۔ (وقعة الطف؛ ص: 206)
پاکدامنی کے ساتھ ہی شہدائے کربلا کی خواتین یعنی امام حسینؑ اور اصحاب و انصار کی بیویاں اور بیٹیوں کا حجاب کی رعایت کا سلوک کرنا ہے یعنی کہ خواتین کی پاکدامنی و عفت کا حجاب و پردہ سے چولی دامن جیسا ہی تعلق پایا جاتا ہے اور خواتین کیلئے نمونہ عمل حضرت زینب علیا مقام اسلام کی عظیم خاتون تھیں، امام سجادؑ بھی خواتین کی شان و شوکت اور کردار کی حفاظت پر بھی نظر رکھے ہوئے تھے.
★ کربلا میں خواتین کا کردار یا کربلا میں خواتین کی تعداد جو غیر مشہور ہیں کے سلسلہ میں مزید معلومات کیلئے ہمارے اس مضمون کا مطالعہ فرمائے.
کوفہ میں ابن زیاد نے کہا: مسلمان مرد اور ان خواتین کی پاکدامنی کے ہی ساتھ بھیجے، اگر تو اہل تقویٰ ہونے کا دعوا کرتا ہے تو اس کا ثبوت بھی عملی طور پر دے۔ (تاریخ طبری 4/ 350)
شیخ مفیدؒ نے نقل کیا: امام حسینؑ کی شہادت کے بعد جس وقت عمر بن سعد شہدائے کربلا کی خواتین کے قریب پہونچا تو ان خواتین نے اس کے قریب ہونے پر سخت احتجاج کیا اور گریہ و زاری کرتے ہوئے ان اشقیا سے مطالبہ کیا کہ جو کچھ مال و اسباب لوٹا گیا ہے اسے واپس پلٹا دیا جائے تا کہ ان ہی کے ذریعہ اپنے آپ کو پردہ پوش کر سکیں۔ (ارشاد، شیخ مفید، 2/ 113.)
سید بن طاؤس نے نقل کیا ہے: امام حسینؑ نے شب عاشورا اپنے خاندان کی خواتین کے ساتھ جب گفتگو کی تھی تو انہیں اپنی پاکدامنی نیز پردہ اور رشتہ داری کی رعایت کرنے کی وصیت فرمائی تھی۔ (الملهوف علی قتلی الطفوف ص: 142)
عاشورا کے روز جناب زینب کبریٰ نے جب کمزوری کا احساس کرتے ہوئے اپنے چہرہ پر (ہاتھ) مارا تب امامؑ چہارم نے ان سے فرمایا: اطمینان رکھئے! آپ کا شماتت کرنا (یعنی دشمن کے غم سے اشقیا کا خوش ہونا) اس گروہ کو ہماری بنسبت انہیں (زبان) دراز نہ بنائے۔ (الملهوف علی قتلی الطفوف؛ ص: 151)
دشمن کا خیموں کی طرف حملہ کرنے کا حادثہ رونما ہوا اور وہاں پر مال اور اسباب کو لوٹا تھا تو قبیلہ بنی بکر بن وائل کی خواتین میں سے ایک بہادر خاتون نے اہل حرم کا دفاع کرنے کی خاطر آگے بڑھتے ہوئے اس طرح سے خطاب کیا: اے بکر بن وائل کی آل اور اولاد! کیا پیغمبر کی خواتین کو بھی لوٹتے ہو اور ان خواتین چادریں بھی چھینی جا رہی ہیں اور تم لوگ (بس) تماشا دیکھ رہے ہو؟ (حوالہ سابق ص: 181)
امام کی خواتین (بیٹیاں اور بہنیں) اس بات کی طرف خاص طور پر اپنی ذمہ داری سمجھتی تھیں تا کہ پیغمبر کی اہلبیت کی پاکدامنی اور پردہ نشینی کی حرمت جہاں تک بھی ممکن ہو محفوظ رہے نیز اسکی رعایت بھی ہوتی رہے جیسا کہ ام کلثوم نے اسیروں کو لے جانے والے مامورین میں سے ایک شقی سے فرمایا: تم ہمیں جب دمشق شہر میں داخل کرنا تو ایسے دروازہ سے لے جانا جدھر دیکھنے والوں کا مجمع کمتر ہو اور اشقیا سے یہ بھی درخواست کیا کہ سرہائے شہدا کو اہلبیت کے اونٹوں کے درمیان سے کچھ فاصلہ پر رکھو تا کہ لوگوں کی نگاہیں انہیں ہی دیکھے اور اللہ کے رسول کے خواتین و اہل حرم کا تماشا نہ دیکھیں اور یہ بھی فرمایا: لوگوں نے بھی ہمیں اسی حالت میں اتنا دیکھا کہ ہم خوار و ذلیل ہوگئے۔! (حوالہ سابق ص: 142)
حضرت زینب نے بھی یزید کے سامنے شدید ترین اعتراضات میں بھی یہی کہا تھا: اے یزید! کیا یہ عدل و انصاف ہے کہ تم خود کی حرمسرا میں اپنی کنیزوں اور خواتین کو (لوگوں کی) نگاہوں سے پوشیدہ رکھو اور پیغمبرؐ کی خواتین اور نواسیوں کو اسیر کی حالت میں شہر بشہر گھماتے رہو، ان خواتین کی پردہ دار کی ہتک حرمت کرو، ان خواتین کے چہروں کو تمام لوگوں کی نظروں کے سامنے پیش کرو، کہ قریب و بعید کے افراد ان خواتین بنی ہاشم کی طرف نگاہیں لگائے رہتے تھے۔؟! (حوالہ سابق ص: 218.)
ان مثالوں اور مشاہدوں کو نقل کرنے کا ہدف و مقصد یہی نکتہ ہے کہ امام حسینؑ کے خاندان کی خواتین اپنے پردہ اور پاکدامنی کی بنسبت ذمہ داری بھی رکھے اور دشمن کا سلوک بھی اس سلسلہ میں کہ عترت پیغمبرؐ کی خواتین کی حرمت کو بھی مد نظر رکھے ہوئے انہیں تماش بینوں کے درمیان قرار دیا تھا تو لوگ اسی عمل پر اشقیا کی شدت کے ساتھ تنقید بھی کرتے رہتے تھے۔
کربلا کی خواتین اسکے باوجود کہ دشمن کے قبضہ میں تھیں اور غم کی ماری نیز مصیبت زدہ، جو منزل بمنزل، شہر بشہر، دربار بدربار انہیں پھرایا جاتا ہے، آخر کار دقت نظر کے ساتھ اپنی شان و شوکت کی حفاظت نیز پاکدامنی اور متعہد ہونے کی صورت میں خواتین ایک دوسرے کی محافظ و نگہبان بھی تھیں۔
ان حالات میں بھی افشاگرانہ خطابات، تحریک حسینی کی تبلیغ کی انجام دہی و اسکو بیان کرنا اور شہدا کی اس اجتماعی سیاسی تحریک کے اہداف و مقاصد کا دفاع کرتی تھیں۔
در عین حال کربلا کی خواتین حجاب و عفت کی رعایت کرتی تھیں اور شہدا کی اس اجتماعی، سیاسی عمل کا یہی درس ہر زمانے و مقام کی تمام خواتین کیلئے درس عبرت ہے چاہے کیسے بھی شرائط و حالات ہی کیوں نہ ہوں۔
مسلم خواتین کا اپنی عزت و ناموس اور پردہ کی حفاظت کرتے ہی رہنا چاہئے.
والسلام
کربلا میں عفت و حجاب
عفت و حجاب در کربلا
ماخوذ : پيامهاي عاشورا،
جواد محدثي.
ایک تبصرہ شائع کریں