زیارت اربعین اور عالمی طاقتیں


 زیارت اربعین اور عالمی طاقتیں 


تحریر: مولانا محمد رضا ایلیا 

مبارکپور، اعظم گڑھ 


چہلم شہدائے کربلا ایک عظیم الشان معجز نما جلسہ ہے جس میں شرکت کرنے والے خوش قسمت الٰہی نور کی وادی میں داخل ہوتے ہیں۔ اسی نورانی اور ملکوتی ماحول میں ان لوگوں کی معنوی تربیت ہوتی ہے۔ ان میں ایثار و قربانی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ ان کی روح اور بدن میں معنوی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ان میں جو ایمانی کمزوریاں ہوتی ہیں وہ ختم ہوتی ہیں۔ انہیں دنیوی خواہشات کی اسیری سے نجات حاصل کرنے کا علاج ملتا ہے۔ انہیں اخروی زندگی کے کامیاب کرنے کا جذبہ ملتا ہے۔ وہ عالی و متعالی راہوں کے راہی بن جاتے ہیں۔ فضیلت و عزت سے مالا مال ہوتے ہیں۔ ہم نے مختلف مصادر میں دیکھا ہے کہ اس وقت کی عالمی طاقتوں کی کروڑوں لوگوں کے اس اجتماع پرنظر ہے۔ وہ تجز یہ تحقیق میں ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ اگر اس وقت دنیا میں کوئی مضبوط اور محفوظ ادارہ ہے تو وہ صرف زیارت اربعین کا اجتماع ہے۔ یہ وہ ادارہ ہے کہ جس میں نفس بشری کی ہر طرح سے تربیت ہوتی ہے۔ اس میں قربانی، عطا اور فدا ہونے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جس میں لوگ بغیر کسی دعوت کے خود بخود جمع ہو جاتے ہیں۔ وہاں پہنچنے کیلئے اخراجات کا مطالبہ نہیں کرتے بلکہ وہ اس راستے میں خرچ کرنے کو سعادت جانتے ہیں۔ جی ہاں! اگر کوئی حکومت لوگوں کو اپنے پاس جمع کرنا چاہے اور اس کیلئے اربوں ڈالر خرچ کر ڈالے پھر بھی مذکورہ اجتماع کا عشر عشیر بھی جمع نہیں کر سکتی، چاہئے ترغیب و ترہیب کا ماحول کیوں پیدا نہ کرے۔ زیارت اربعین کیلیے کروڑوں عزاداروں کا ازدحام ہے جسے اقوام کو سبق لینا چاہئے یہ جم غفیر کبھی بھی ناپیدا نہیں ہو سکتا۔ 

آج اس دنیا کی تمام بڑی طاقتیں زیارت اربعین کے روحانی و معنوی اجتماع سے سخت خوف زدہ ہیں کیونکہ یہ اجتماع ایک خالص عبادی اور روحانی اجتماع ہے۔ ایسا اجتماع پیدا کرنا کسی  طاقت کے بس میں نہیں ہے۔ اگر دنیا کی تمام حکومتیں یا اسلامی حکومتیں چاہیں بھی کہ ایسا جم غفیر نمودار کریں تو یہ ان کیلئے ممکن نہیں ہے۔ بلکہ عالم اسلام کے دیگر افراد بھی ایسا اجتماع پیدا نہیں کر سکتے۔ ایسا اجتماع صرف ایک ذات پیدا کر سکتی ہے کہ جس کا نام حضرت امام حسینؑ ہے۔ یہ دنیا کی واحد طاقت ہے کہ جو اپنے دامن میں وہ مقناطیسیت رکھتی ہے کہ دنیا کے تمام شرفا کو آپ کے پاس جمع کر لیتی ہے۔ اس اجتماع کے لئے نہ کوئی اعلان کیا جاتا ہے نہ ہی کسی کو دعوت دی جاتی ہے نہ رغبت دلائی جاتی ہے اور نہ کسی کو اس اجتماع میں شرکت کے لئے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ اس اجتماع میں شرکت کیلئے شرکاہی جانی و مالی اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ وہ اپنا وطن چھوڑتے ہیں، رقم خرچ کرتے ہیں اور گھروں کو چھوڑ چھاڑ کر چلے جاتے ہیں۔ بعض صاحبان نظر دوستوں نے بیان کیا ہے کہ اس اجتماع کو مغربی ممالک کے ادارے کوریج دیتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر بھی اس اجتماع اور اس کے اثرات کو پیش کیا جاتا ہے۔

جب زیارت اربعین کا موسم آتا ہے اور یہ ملکوتی اجتماع ملک عراق میں نمودار ہوتا ہے تو اس اجتماع کو پوری دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اسے براہ راست دنیا دیکھ رہی ہوتی ہے اور اپنی آرا قائم کر رہی ہوتی ہے۔ چند ماقبل جب علاقائی ریاست کے ذمہ داروں سے اللہ کے دشمن کیلئے اس حسینی آتشفشاں اجماع کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اس بارے میں کوئی جواب نہ دیا۔ انہوں نے خاموشی کو ہی غنیمت سمجھا پھر بعد میں جواب دیا کہ یہ حسینی ازدحام اب کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔ یہ روز بروز بڑھے گا ختم نہیں ہوگا۔ ان لوگوں نے اپنے علاقوں میں کوشش کی کہ اس اجتماع کو منتشر کر دیا جائے اور اس کا خاتمہ کر دیا جائے لیکن یہ ان کے بس میں نہیں ہے۔ ارشاد خداوندی ہے: ’’یہ لو گ چاہتے ہیں کہ اپنے منہ (کی پھونکھوں) سے اللہ کے نور کو بجھا دیں اور اللہ اپنے نور کو پورا کر کے رہے گا خواہ کفار برا مانیں۔‘‘ (سورہ الصف)

اب عالمی اور علاقائی حکومتوں نے سمجھ لیا ہے کہ وہ اس حسینی طاقت کے سامنے بند نہیں باندھ سکتے۔ اگر وہ اپنی تمام توانائیاں خرچ کر ڈالیں پھر بھی اس ادارے کو وہ نہ توڑ سکتے ہیں اور نہ اس کے مقابلے میں کوئی اور ادارہ بنا سکتے ہیں۔ملک عراق مشرق وسطی کے قلب میں ہے اور وہ براعظم ایشیا اور بر اعظم افریقہ کے سنگم پر ہے۔ علاوہ ازیں وہ مختلف تہذیبوں اور ادیان کے مرکزپر ہے۔ اس کے اردگرد مختلف تہذیبیں ہیں اور ادیان موجود ہیں۔ وہ ایک دھڑکتا دل ہے اور سید الشہدا حضرت امام حسینؑ اس کے دل کے رابطے ہیں۔ حضرت امام حسینؑ کے پاس تمام طاقتیں موجود ہیں۔

اس وقت ہر جگہ مواصلاتی باوثوق ذرایع موجود ہیں۔ اس مقام پر ہم اپنی بات کو ثابت کرنا چاہتے ہیں تاکہ پھر دوبارہ یہ بات نہ کرنا پڑے اربعین کے موسم میں دسیوں لاکھ نفوس دنیا بھر سے کربلا میں جمع ہوتے ہیں اور جب وہ کربلا کی طرف رواں دواں ہوتے ہیں تو وہ ہر لحاظ سے محفوظ ہوتے ہیں۔ ایک کوئی ایک مثال دنیا بھر کے ترقی یافتہ متمدن ممالک میں دکھائی جائے کہ جہاں اس قدر لوگ جمع ہوں اور حکومتیں پریشان نہ ہوں اور لوگ پر امن رہیں۔ لوگوں کی حفاظت بھی ہو رہی ہو اور ان کی غذا و خوراک کا انتظام بھی ہو، ایسا ایک نمونہ دنیا میں دکھا دو کہیں نظر نہیں آئے گا۔ ہم دعوی کرتے ہیں کہ اس طرح کا محفوظ اور پر امن اجتماع کہیں نہیں ہو سکتا اور اگر ہو سکتا ہے تو وہ صرف اربعین کے موقعے پر ہی ہوسکتا ہے۔ کروڑوں کا یہ اجتماع ایک خطے ایک منطقی و خطے میں ہوتا ہے۔ دنیا بھر سے لوگ آتے ہیں اور ان سب کا سفر کربلا میں اختتام پذیر ہوتا ہے۔ جو چند ہفتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایسے اجتماعات حکومتیں حکمت عملی اپناتی ہیں، تمام بلدیاتی نظاموں کو سامنے رکھا جاتا ہے۔ ہمارا دعوی ہے کہ جس قدر بھی حکومیں منظم ہو کر انتظام کریں پھر بھی ان کا انتظام ناقص رہے گا۔ آپ کے سامنے حج بیت اللہ کا سالانہ اجتماع ہے وہ زیادہ سے زیادہ تیس لاکھ تک ہوتا ہے جو چند دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ حکومت کا بھر پور انتظام ہوتا ہے۔ انتظامات بھی مکمل ہوتے ہیں۔ عالیشان بلڈنگوں میں رہائش ہوتی ہے۔ لیکن پھر بھی حجاج شکایات کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اربعین کی طرف دیکھیں لوگ سینکڑوں کلو میٹر فاصلہ طے کر رہے ہوتے ہیں۔ انتظامی گورنمنٹ ہوتی ہے اور نہ کوئی جماعت، صرف مومنین ہوتے ہیں جو اس پروگرام کو سنبھالے ہوتے ہیں۔ ہر چیز کی فراوانی ہوتی ہے۔ امن و امان ہوتا ہے، سکھ اور چین ہوتا ہے، سکون و اطمینان ہوتا ہے۔ کسی کو کوئی پریشانی نہیں ہوتی۔ ہر طرف جذبہ ایثار کار فرما ہوتا ہے۔ مشرق وسطی میں امریکہ کی طرف سے تعینات فوج کے اعلیٰ کمانڈر نے اربعین کے اجتماع کو دیکھ کر کہا تھا: میں اس امر کا اعتراف کرتا ہوں کہ اے شیعوں! تمہارا کوئی جواب نہیں جس قدر مہذب اور متمدن ہو اس طرح دنیا بھر میں کوئی بھی نہیں ہے۔ تمہاری تہذیب و ثقافت کا مقابلہ نیویارک اور پیرس بھی نہیں کر سکتے، جی ہاں یہ حقیقت ہے۔ یہ تعجب کا مقام نہیں ہے۔ دنیا بھر میں کہیں کوئی اجتماع ہو اس میں اتنے مسائل اور حوادث جنم لیتے ہیں کہ الامان الحفیظ۔

با وثوق ذرائع سے بارہا سنا ہے کہ مغرب کے متمدن ممالک میں جب چند ساعات کیلئے بجلی غائب ہوئی تو انہیں ساعات میں ہزاروں حوادث ہوئے۔ لوگوں نے قانون امن کی دھجیاں اڑا دیں۔ لیکن زیارت اربعین کے موقع پر اس قسم کا کوئی حادثہ پیش نہیں آیا۔ یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ اعجاز ہے۔ یہ اعجاز و معجزہ ہے جو اہلبیت اطہارؑ کی تعلیمات سے متعلق ہے۔ اہلبیت رسولؐ نے دنیا کو تہذیب و تمدن و حفاظت کا وہ درس دیا جس کا اظہار اربعین کے موقع پر دنیا کے سامنے نظر آتا ہے۔


DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS


٭٭٭٭٭٭




Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی