کربلا میں امام حسینؑ کی تاریخ عاشورا - 3



کربلا میں امام حسینؑ کی تاریخ عاشورا

(شجاعت کے کردار)


مترجم: ابو دانیال اعظمی بریر


شجاعت یہ ہے کہ انسان سختیوں اور خطروں کے مقابلہ میں اپنے دل کو مضبوط و مستحکم رکھتا ہے۔ (مجمع ‌البحرین، لفظ «شجع»)

اس لفظ کا زیادہ تر استعمال جہاد، مبارزہ، جنگ کے مسائل اور لڑائی کے میدان میں اپنے حریف و مقابل کے ساتھ سلوک کرنا کہ اس سے نہ ڈرنا اور جنگوں میں دشمن سے آمنا سامنا ہونے پر خوف نہ کھانا ہے۔

یہ ایک قلبی طاقت، صلابت ارادہ اور روح کی قوت کے سبب ہی ہوتا ہے کہ انسان بھی ظالموں کے مقابل میں حق بات کہنے سے ڈرتا نہیں ہے، مقابلہ کی ضرورت کے وقت بھی جنگ کرتا رہتا ہے، فداکاری و جانبازی سے بھی ڈرتا نہیں ہے، جس مقام پر اکثر لوگ ڈرتے ہیں تو یہی شجاعت ہی ہے کہ انسان خوف و ہراس کے باوجود ڈرتا نہیں ہے اور اپنی ذات کو ہارتا بھی نہیں ہے اور مشکلات پر غلبہ کے ساتھ ہی حق و درست مصمم ارادہ بھی رکھتا ہے۔

عاشورا والوں شجاعت کی جڑیں انہی کے اعتقاد میں ہی پنہاں ہے کہ کربلا کے یہ لوگ شہادت کے عشق سے سرشار ہو کر جنگ کرتے ہیں نیز یہ لوگ موت سے بھی خوف نہیں رکھتے یہاں تک کہ دشمن کے مقابلہ میں بھی کمزور نہیں پڑتے، اسی لئے ان لوگوں کا دشمن کے لشکروں کے رو برو ہونے پر دشمن کے سامنے سے راہ فرار اختیار نہیں کرتے، چونکہ ان شجاعان کے ساتھ فردی جنگ کرنے کی ہمت دشمن میں نہیں پائی جاتی ہے، ایک ہی فرد پر عمومی حملہ کیا کرتے تھے یا پھر دور سے ہی امام حسینؑ کے اصحاب پر سنگباری کیا کرتے تھے۔

تمام رشادتیں اور میدان جہاد کے حماسہ آفرینی، جنگ میں شجاعتوں کی دلیری کے مرہون منت ہی رہی ہے اور تمام طاغوتوں و جابر قوتوں کی سر بلندی کو توڑنے کی خاطر نیز افراد کی شجاعت میں انکے مقابلہ کرنے میں مصمم طریقہ سے پوشیدہ ہے، موت سے نہ ڈرنا، شجاعت کو آشکار کرنے کا ایک مظہر بھی ہے اور یہی عامل ہے کہ جس نے امام حسینؑ اور انکے اصحاب کو عاشورا کی جنگ میں کھینچ لایا تا کہ ہمیشہ رہنے والا حماسہ برپا کر دیں۔

جب امام حسینؑ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوتے ہیں اور راستے کی مسافت میں جو لوگ بھی ان سے ملاقات کرتے تھے اور عراق کے خراب حالات اور ابن زیاد کا لوگوں پر تسلط کرنے کے بارے میں انہیں سفر کے عواقب کے بارے میں ڈراتے رہے ہیں، امام حسینؑ کی بے باکی و شجاعت موت سے ہی تھی کہ اس سفر میں جسے یقینی سمجھتے تھے۔

حر کے لشکر سے آمنا سامنا ہونے پر امام حسینؑ نے فرمایا:

«لَیْسَ شَأْنِیْ ‌شَأنُ مَنْ یَخَافُ الْمَوْتَ»

میری شان و منزلت، ایسی نہیں ہے کہ کوئی بھی مجھے موت سے ڈراتا ہی رہے۔ (احقاق الحق 11/ 601)

دوسری حدیث پر امام حسینؑ نے فرمایا:

«لا و اللهِ لا أُعطیهم بیدی إعطاءَ الذلیل و لا أُقِرُّ إقرارَ (و لا أفر فرار) العبيد»

میں انہیں اپنا ذلت کا ہاتھ نہیں دوں گا اور نہ ہی غلاموں کے مثل فرار ایا اقرار کروں گا۔ (‌‌‌‌مقتل خوارزمی 1/ 253 و بحار الانوار 45/ 6 و موسوعة کلمات الامام الحسینؑ، ص 421)

امام حسینؑ کا قول اور دیگر قافلہ حسینی کے افراد نے مختلف مواقع پر فرمایا:

«أَ بِالمَوتِ تُخوّفُنی»

کیا تم مجھے موت سے ڈرا رہے ہو؟ قافلہ امام حسینؑ کا یہی قول بتاتا ہے کہ اس خاندان کو موت سے بے خوف رہنے کی عادت جو ٹھہری ہے۔ خاندان پیغمبر و بنی ہاشم میں شجاعت و بہادری زبان زد عام تھی، امام سجادؑ نے بھی اپنی ولولہ انگیز خطابت جو دربار یزید میں فرمائی کہ ہمیں 6 چیزیں خداوند متعال نے عطا فرمائی ہے اور دوسروں پر ہمیں 7 چیزوں کے ساتھ فضیلت عطا کی ہے اور شجاعت کو اسی زمرہ میں شمار بھی کرایا ہے۔

«أُعطینا ستاً و فضلنا بسبع: أُعطینا العِلمَ والحِلمَ والسَّماحَةَ والفصاحة والشَّجاعَةَ والمحبة فی قلوب المومنین و فضلنا بأن منا النبی المختار و منا الصدیق و منا الطیار و منا أسد اللہ و أسد رسوله و منا سیدۃ النساء و منا سبطاً هٰذہ الأُمة و منا مهدی هٰذہ الأُمة»

خداوند عالم نے ہمیں 6 چیزیں عطا کی ہیں اور 7 فضل عنایت فرمایا ہے: علم، حلم، سخاوت، فصاحت، شجاعت، مومنین کے دلوں میں (ہماری) محبت (مودت) عطا کی ہے اور ہماری فضیلت یہ ہے کہ نبیؐ مختار ہم ہی میں سے ہے، ہم ہی میں سے (علیؑ) صدیق (اکبر) بھی ہے، ہم ہی میں سے (جعفرؑ) طیار بھی ہے، ہم ہی میں سے اسد اللہ بھی ہے اور ضیغم رسولخدا (حمزہؑ) بھی ہم میں سے ہے، ہم ہی میں سے (فاطمہؑ) جنت کی عورتوں کی سردار بھی ہے، ہم ہی میں سے اس امت کا سبط رسول ثقلین (حسنؑ و حسینؑ) بھی ہیں اور ہم ہی میں سے اس امت کا مہدیؑ (آخر الزمان) بھی ہيں۔ (مقتل خوارزمی 2/ 69)

ان میں تمام سے بالا تر وہ شجاعت ہے کہ امام حسینؑ، انکے اہلبیتؑ اور اصحاب و انصار نے عاشورا کے مختلف مناظر كو كربلا كے ميدان میں ظاہر کیا ہے کہ جو خود ایک مفصل کتاب کا متقاضی ہے۔ جیسے مسلم بن عقیل کی کوفہ میں اپنی رشادت کو کوفہ میں جنگ کے وقت ظاہر کیا یا شجاعت و جنگجویانہ صلاحیت کو امام حسینؑ کے اصحاب نے میدان کربلا میں اس طرح اظہار فرمایا تھا کہ تمام دشمنوں کو "الأمان و الحفیظ" کی صدا بلند کرنے پر مجبور کر دیا اور لشکر کوفہ کے ایک سردار نے سپاہیوں کو خطاب کرتے ہوئے بلند آواز سے کہا: اے بے عقل احمقو! تم جانتے ہو کہ کن لوگوں سے جنگ کر رہے ہو؟ یہ لوگ (تیز و تند غصہ آور) بپھرے ہوئے شیروں کے ساتھ ایک گروہ ہے کہ جو مرگ آفرین ہیں، تم میں سے کوئی ایک بھی میدان میں انکے مقابل میں نہ جائے کہ تم ہی مارے جاؤ گے۔! (وقعة الطف؛ ص: 224)

رسول الله (ص) كے صحابي عبد اللہ بن عفیف ازدی نے ابن زیاد کے مقابل میں اور پھر حملہ آور فوج کا انکے گھر پر چھڑپ ہونا جبکہ وہ نابینا بھی تھے اور اس طرح دلیریوں و شجاعتوں کے سیکڑوں نمونے مل جائیں گے۔

امام حسینؑ اور انکے بہادر اصحاب کے بارے میں دشمنوں نے اس طرح توصیف کرتے ہوئے بیان کیا ہے: جو لوگ ہم پر پل پڑے انکے پنجے شمشیروں کے قبضوں پر ہی تھے، غراتے ہوئے شیروں کے مثل ہمارے سواروں پر جھپٹ پڑے اور انہوں نے دائیں اور بائیں فوج کو تاراج کرتے ہوئے حملہ کیا اور اپنے آپ کو موت کے منہ میں جھونک دیا تھا…۔ (عنصر شجاعت 1/ 20)

عاشورا والوں کی شجاعت کی جڑیں انہی کے عقائد و عقیدہ میں موجود تھی، وہ لوگ شہادت سے عشق کی بنا پر جنگ کرتے تھے، موت سے ہرگز ڈرتے نہیں تھے یہاں تک کہ دشمن کے مقابلہ میں سست ہو جائیں، اسی وجہ سے دشمن کے لشکر والے برابر اور مستقل انکے سامنے سے راہ فرار اختیار کرتے رہتے تھے چونکہ ان دشمنوں کے پاس اتنی ہمت و دلیری تھی ہی نہیں کہ انفرادی جنگ میں امام حسینؑ کے اصحاب و انصار سے مقابلہ کر سکیں، ایک ہی فرد پر عمومی حملے کیا کرتے تھے یا پھر دور سے ہی امام حسینؑ کے اصحاب کی طرف سنگبارانی کیا کرتے تھے۔

حادثات کربلا کے راویوں میں سے ایک راوی جس کا نام حمید بن مسلم امام حسینؑ کی قلبی قوت و طاقت کے بارے میں کہتا ہے: خدا کی قسم! میں لوگوں کے درمیان میں کسی بھی محاصرہ ہونے والے کو نہیں دیکھا کہ فرزندوں، خاندان اور اپنے اصحاب کے ساتھ قتل کیا گیا ہو اور حسین بن علیؑ جیسا قوی، مستحکم اور شجاعت کا دل رکھتا ہو، دشمن کے مردوں نے ان کا محاصرہ کیا ہوا تھا اور وہ شمشیر کے ذریعہ ان دشمنوں پر حملہ آور ہو رہے تھے اور سارے دشمن دائیں اور بائیں فرار کر رہے تھے، جب شمر نے ایسا دیکھا تو اپنی گھڑ سواروں کی فوج کو حکم دیا تا کہ انکی پشت پناہی کرتے ہوئے پیادہ فوج کو طاقتور بنائیں اور امام حسینؑ کو ہر طرف سے تیروں کی بارش نے گھیر لیا۔   

«وَاللهِ مَا رَأَیتُ مَکثُوراً قَد قُتِلَ وُلدَهُ و أَهلَ بَیتِهٖ و أَصحَابَهُ أَربطُ جَاشاً و لا أَمضی جَناناً مِنهُ علیه‌السلام...».(ارشاد شیخ مفید 2/ 111)

ہم متعدد زیارت ناموں میں حضرت سیدؑ الشہداء امام حسینؑ اور امام حسینؑ کے اصحاب کی شجاعت و بہادری کی توصیف کے سلسلہ میں ان الفاظ سے تذکرہ کیا جاتا ہے: جیسے

«السَّلامُ عَلَيْكُمْ يَا لُيُوثَ [عَلَى لُيُوثِ] الْغَابَاتِ»

(مفاتیح‌ الجنان؛ زیارت امام حسینؑ ‌در نیمہ رجب، ص: 441 و 446)

مزید الفاظ بھی ہمیں زیارت ناموں میں ملتے ہیں:

«يا أبطال الصفا و يا فرسان الهيجاء، بَطَلَ المُسلِمِین، فُرسانُ الهَیجَاء، لُیُوثُ الغَابَات»

امام حسینؑ كے اصحاب و انصار کو «امتِ مسلمہ کے دلیروں، میدانِ کار زار کے سواروں، نیستانِ شجاعت کے شیروں» جیسے الفاظ سے متعارف کرایا گیا ہے۔  

تحریک عاشورا نے مجاہدین کو قوت شجاعت الہام میں بخشا ہے اور محرم بھی ہمیشہ شہامت و قوت ارادی کی روح اور لوگوں پر ظلم و ستم ڈھانے والوں کے خلاف روحانی طاقت فراہم کرتی رہتی ہے۔

امام خمینیؒ کے قول کے مطابق: «ماہ محرم؛ حماسہ، شجاعت و فداکاری کے مہینہ کی ابتدا ہوتی ہے، وہ مہینہ کہ جس میں خون نے شمشیر پر فتح و کامیابی پائی ہے، جس مہینہ میں حقانیت کی طاقت نے باطل کو ابد تک محکوم اور باطل ہونے کا داغ ظالمین کی پیشانیوں اور شیطانی حکومتوں پر مہر ثبت کر دیا ہے. اس مہینہ میں نسلوں کو طول تاریخ میں نیزے کی انیوں پر کامیابی و کامرانی کے راستے تعلیم کر دیا ہے۔...» (صحیفه نور 3/ 225)

اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ اس شجاعت و دلیری کا موجب قیام عاشورا کی عبارت میں اور شہدائے کربلا کے عمل و گفتار میں موجزن کرتی رہتی ہے، مناسب ہے کہ یہ مضمون و موضوع لوگوں کو خاص طور پر جوانوں کیلئے اکثر تشریح کیا جائے، تا کہ شہدائے کربلا کی مظلومیت اور امام حسین بن علیؑ پر اشک بہانے کے علاوہ بھی انکی شجاعت سے بھی درس حاصل کرے، حضرت زینبؑ کی روحانی شجاعت کو یاد کرے کہ جب انہوں نے مشکلات کو اپنے سامنے پایا اور اسکے باوجود کوفہ و دمشق میں ولولہ انگیز خطبہ جس میں تمام داغ اور شہادت کو زمانہ کے جباروں کے مقابل میں انجام دیا اس سے ہماری خواتین کو بھی شجاعت و دلیری کا درس و سبق حاصل ہوتا ہے۔


  • کربلا میں شجاعت کے نقوش

  • نقش شجاعت در کربلا



ماخوذ : پيامهاي عاشورا،

جواد محدثي.



DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA (AS)

TheSpiritualGuides

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی