کوفہ شہر بے وفا

 بے وفا شهر كوفہ


کوفہ کا مکمل نقشہ امام حسینؑ کے زمانہ میں چند شخصیات و مقامات کے تعارف کے ساتھ جن لوگوں کا اس وقت اثر و رسوخ کتنا زیادہ رہا اسی کو اس تصویر میں دکھایا ہے۔



کوفه، شهرِ بی وفا


کوفہ؛ ایک شہر ہے ہزار رنگوں اور ہزار شکل میں ایسا شہر جو بے وفائی میں شہرہ آفاق بھی رہا ہے، وہ شہر کوفہ جس کیلئے ائمہ معصومینؑ نے اس پر لعنت بھی بھیجی ہے، یہی شہر ہے جو ایرانی مال غنیمت کی طمع کی بنیاد پر تعمیر کیا گیا ہے اور ثروت کا وسوسہ اور ایران پر حکومت کرنے کا خناس کوفیوں کے وہم و خیال سے نہیں نکالا جا سکا، چنانچہ شہر رے کے گندم کی حرص و ہوس نے ہی واقعہ کربلا کو وجود میں لانے کا سبب قرار پایا، کوفہ تقریباً 100 سال کے زمانہ میں بسا ہے پھر یہی کوفہ دار الحکومت بنا، سیاسی حزب مخالف کا مرکز بنا اور واقعہ عاشورا کے بعد اچانک ہی کوفہ کی تاریخ میں زوال پیدا ہوا پس یہ شہر کوفہ تاریخ میں گم ہو گیا، کوفہ کا بنیادی کردار پہلے 3 اماموںؑ کی شہادت میں ادا کرتا رہا ہے اور پہلی صدی ہجری میں یہی شہر کوفہ جہان اسلام کے تمام حوادث کا مرکز تھا لیکن بیشک اہمترین کردار کوفہ کے شہر نے عاشورا کے حادثہ میں شامل رہ کر ادا کیا ہے، اسی شہر کوفہ کے لوگوں نے امام حسینؑ کو مدد و نصرت کا وعدہ کرتے ہوئے کوفہ آنے کی دعوت دی تھی لیکن جس وقت امامؑ ان  کوفیوں کے سب سے قریب کے شہر پہونچے تو کوفہ کے لوگوں نے آنحضرتؑ پر راستہ بند کر دیا، شمسیر میان سے نکال لیا نیز اپنے ہی مہمان کو بھوکا پیاسا مع احباب و انصار شہید کیا، ان کے اہل حرم کا مال و اسباب لوٹا گیا، پھر پشیمان ہوئے اور خود ہی خون حسینؑ کی مطالبہ میں تحریک چلائی! شہر کوفہ اجتماع ضِدَّین کا مجموعہ تھا لیکن اس شہر کا فقط ایک ہی نقشہ اب تک موجود ہے جسے فرانسیسی مستشرق (Louis Massignon (1883-1963 لوئی ماسنیون نے نقشہ کشی کے ذریعہ اس دور کے شہر کوفہ کو اجاگر کیا ہے اور فی الحال ایک کتاب سے دوسری کتابوں میں وہی نقشہ منتقل ہو رہا ہے، اس تصویر میں جو نقشہ نظر آرہا ہے اکثر تاریخی کتب میں جو اسناد و مدارک پائے جاتے ہیں انہی کی بنیاد پر بنایا گیا ہے کہ لوئی ماسینون کے نقشہ سے بھی زیادہ معتبر و تکمیل کے مراحل سے گذرا ہے، پھر بھی طبیعی طور پر شک و شبہہ سے بالا تر ہرگز نہیں ہے۔ یعنی کسی نہ کسی حد تک اس دور کی سیاسی عروج و زوال اور حالات کو سمجھنے میں معاون تو ثابت ہو سکے گا مطلب یہ کہ سو فیصدی درست تو نہ ہو گا مگر حالات کو سمجھنے کی خاطر کافی و شافی ہے۔


امام علیؑ كا مكان


امام علیؑ 50 مہینے تک کوفہ میں رہے اور اسی شہر کو اپنا دار الخلافت قرار دیا، آنحضرتؑ حکومت کے محل میں نہیں گئےاور اس بات کو ترجیح دی کہ آپ اپنی بہن ام ہانی (فاختہ بنت ابیطالب بن عبد المطلب) کے مکان میں قیام فرمایا جس کی دیوار سے مسجد کوفہ کی دیوار متصل ہے، یہ مکان اب بھی کوفہ میں موجود ہے، جس میں امام حسنؑ اور امام حسینؑ کے حجرے بھی ملاحظہ بھی کر سکتے ہیں اور اسی گھر میں وہ کنواں بھی ہے جس کے پانی سے امام علیؑ کو بعد شہادت غسل دیا گیا تھا، نیز ایک قول کے مطابق اسی کنویں سے امیر المومنینؑ اہل کوفہ کی شکوہ و شکایت کرتے تھے۔


كوفہ كي مسجد


مسجد کوفہ میں مسافر کیلئے نماز قصر نہیں ہے جیسے مسجد الحرام، مسجد النبی اور مسجد الاقصی میں جو مسافر کی نماز کا حکم ہے اسی بنا پر مسجد کوفہ اہمیت بیان کرتی ہے، کہتے ہیں شہر کی تعمیر کے انتخاب کے بعد ایک طاقتور تیر انداز کو بیچ شہر میں کھڑا کر کے تیر پھینکا گیا تو اس کی چاروں طرف کی مسجد کی حدود کو متعین کیا نیز مسجد کے چاروں طرف کی فضا کو خالی رکھا گیا تا کہ کوئی بهي قبیلہ مسجد سے اپنے مکان کو متصل نہ کر سکے اور اسے اپنی فضیلت میں اسے شمار نہ کر سکے، ابو ہیاج اسدی جو معماری میں استاد تھا، جس نے سب سے پہلی مسجد کو بنایا جسے 116 میٹر طویل اور 110 میٹر عریض تھی اور 40 ہزار مصلین کی گنجائش رکھی گئی تھی، پھر اسے زیاد بن ابیہ کے زمانہ میں توسیع کی گئی، اس کی دیواریں اور ستونوں کو 30 میٹر بلند تعمیر کیا اور مسجد کے فرش کو ریت ڈالی گئی تا کہ گرد و غبار پیدا نہ ہو، محراب، منبر و قاضی کا چبوترہ بھی موجود ہے، لیکن گلدستہ اذان اور مینار نہیں رکھا تھا نیز موذن مسجد کی چھت پر جا کر اذان دیتا تھا، جناب مسلم، ہانی اور مختار کی قبریں بھی مسجد ہی کے جنوب مشرقی حصہ میں موجود ہے، زائران عتبات عالیات جانتے ہیں کہ اس مسجد کو اس قدر ارفع و اعلی مقام و تقدس حاصل ہے کہ اس مسجد میں بجا لانے والے اعمال کو انجام دینے میں صبح سے شام تک کا وقت لگ جاتا ہے۔ 


شہرِِ کوفہ کا

دار الامارة یا قصر حکومتِِ


کوفہ میں مشہور و عظیم عمارت زیاد ابن ابیہ کی حکمرانی کے زمانے میں دار الامارہ کی عمارت ہے جسے خورنق محل کے باقی ماندہ آثار پر بنایا دار الامارہ کی عمارت ایک مربع شکل پر تعمیر کی ہے جو 110 میٹر (ابعاد) پہلو اور 17 میٹر بلند دیواروں (جو آج کل کے اعتبار سے ایک 6 منزلہ عمارت کی بلندی کے برابر ہوتی ہے) 6 عدد برج یا میناروں نیز ایک صدر دروازہ اور متعدد مخفی راہوں کے ساتھ تعمیر کیا ہے اسی کے میناروں کی بلندی سے جناب مسلم ابن عقیل کو اور چند دیگر افراد جیسے قیس ابن مسہر صیداوی اسدی کو بھی اسی دار الامارہ سے زمین پر پھینکا گیا ہے جس کے نتیجہ میں محبان اہلیبیت زمین پر گر کر شہید ہو گئے اسی دار الامارہ کے تہہ خانہ میں ایک قید خانہ بھی موجود ہے لیکین شہر کا اصلی قید خانہ محلہ کناسہ میں موجود ہے دار الامارہ پہلی صدی کی اسلامی تعمیر کی ایک شاندار و شاہکار عمارت تھی لیکن اسی صدی میں عبد الملک بن مروان کے حکم سے حجاج ابن یوسف ثقفی نے اسی مسمار کر دیا تاریخ میں یہ درج ہے کہ جس حاکم نے بھی کوفہ کے دار الامارہ پر قبضہ کیا اور مفتوح حاکم کو قتل کیا اور اسکا سر اپنے تخت حکومت کے سامنے طشت میں رکھا گیا تو اس قاتل حاکم کا بھی سر کسی دوسرے فاتح حاکم کے سامنے بھی رکھا گیا جیسے حجاج ابن یوسف کے سامنے مصعب ابن زبیر کا سر، مصعب ابن زبیر کے سامنے مختار ثقفی کا سر، مختار ثقفی کے سامنے عبید اللہ ابن زیاد کا سر، عبید اللہ ابن زیاد کے سامنے امام حسین کا سر طشت میں رکھا گیا۔ چونکہ یہ واقعہ سن کر حاکم وقت اور حجاج کو خوف پیدا ہوا کہ کہیں تاریخ اپنے آپ کو پھر سے نہ دوہرائے لہذا اس دار الامارہ کو منہدم کرنے کا حکم صادر کر دیا جس کی بنا پر اس دار الامارہ کو توڑ کر زمین کے برابر کر دیا گیا۔ 


قبائل کوفہ کا مختصر تعارف


ایران کے فاتح قبائل کوفہ کے اولین ساکنین تھے، جو قبائل یمن اور عربستان سے یہاں پر مقیم ہوئے تھے تو ان قبائل کے رہنے کے مقامات کو سعد بن ابی وقاص نے معین کیا نیز اسی تقسیم بندی کو امام علیؑ، زیاد بن ابیہ اور حجاج بن یوسف ثقفی نے کچھ حد تک تبدیل کیا، بعد میں اس شہر کی آبادی میں اضافہ ہوا لیکن اسباع (ہفتگانہ) کی تقسیم بندی ہمیشہ سے محفوظ رہی ہے، جبکہ اس سے قبل قبیلہ کی تقسیم بندی ارباع یا اعشار یا اسباع کی بنیاد پر کبھی منسوخ ہوئی تو کبھی عمل درآمد ہوا مگر بالآخر اسباع کا ہی طریقہ کار جاری ہو ساری رہا غالبا اب بھی یہی طریقہ رائج بھی ہو سکتا ہے۔


اس تصویر میں جو قبائل اہلبیتؑ کے محبان ہیں انہیں سبز رنگ اور جو مخالفین ہیں انہیں سرخ رنگ سے مشخص و معين کیا ہے۔


۱- قبیله بنی اسد


🚩قبائل عرب کی صحرا نوردی اور بیابان کی خاک چھاننے والی ایک قوم ہے جو جنگ قادسیہ کے بعد عراق آئی اور شمال مغربی کوفہ و اپنا مسکن قرار دیا، سرزمین کربلا کی اراضی انہی کی ملکیت کا حصہ تھی اسی لئے شہدائے کربلا کوان ہی لوگوں نے دفن کیا، پس حبیب، مسلم بن عوسجہؑ، قیس بن مسہر صیداویؑ اسدی یہاں تک کہ حرملہ بھی ان سب کا ہی جا تعلق قبیلہ بنی اسد سے ہی ہوتا ہے، عاشورا کے روز اسی قبیلہ کے افراد جو قریہ غاضریہ میں مقیم یا منزل کئے ہوئے تھے حبیبؑ بن مظاہر مدد و نصرت کی خاطر گئے تو ۹۰ لوگ مدد کیلئے آمادہ ہوگئے لیکن ابن زیاد کی فوج کو جب معلوم ہوا تو ان پر حملہ کر دیا نتیجہ میں انہیں  پسپائی حاصل ہوئی اور بغیر نصرت و مدد کے حبیبؑ واپس کربلا آئے۔


۲- قبیلہ ہَمدَان


🚩 یہ یمنی قبیلہ ہے جو اہلبیتؑ کا شیدائی تھا جن کے بارے میں امام علیؑ نے یہ فرمایا ہے: اگر میں بہشت کا دربان ہوتا تو قبیلہ ہمدان سے کہتا کہ سب کے سب وارد بہشت ہو جاؤ۔ اسی قبیلہ کی خواتین کوفہ پر ابن سعد کی حکمرانی میں سد راہ بنی تھیں۔ اس قبیلہ کا اہلبیتؑ سے صمیم قلب سے تعلق کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ کربلا کے شہدا میں ۱۸ افراد ہمدانی شہدا کے نام نظر آتے ہیں جو بنی ہاشم کے شہدا کی تعداد کے بعد سب سے بڑا گروہ شمار کیا جاتا ہے۔ 


۳- قبیله بنی تمیم


🚩 یہ قبیلہ بھی قریش کی ایک شاخ اور  بیابان نشین تھے نیز قبیلہ کے نام کے معنی سر سخت ہوتا ہے یہی ان خاصیت کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ قبیلہ بنی طی کےمحلہ کے ہمسایہ تھے، عام طور سے حکمران کی ہمنوائی کرتے رہتے تھے ابن زیاد نے جس فروہ کو سب سے پہلے کربلا بھیجا وہ اسی قبیلہ کے ہی افراد تھے، بھلے ہی ان کا سردار حر بن یزید ریاحی امامؑ سے ملحق ہو گئے نیز بنی تمیم اکثر قبیلہ ازد سے رقابت میں رہتے رہے۔


۴- قبیله بنی ثقیف


🚩 عرب کے سب سے چالاک قبیلہ شمار ہوتا تھا لہذا اس کے نام کے معنی بھی چالاک ہوتا ہے۔ مختار کے علاوہ کوفہ کے ۳ موثر ترین حکمران  حجاج، مغیرہ اور یوسف بن عمر کا تعلق بھی اسی قبیلہ سے تھا، ان کی اکثریت شیعوں کی مخالف ہوا کرتی تھی جبکہ ان میں اہلبیتؑ کے شیعہ بھی بہت زیادہ وفادار ہوتے تھے، ان میں کی دو شاخیں مکہ کے جنوب میں شہر طائف میں رہتے تھے جو بہت مشکل سے مسلمان ہوئے اور انہی لوگوں کے بت کا نام "لات" مشہور ہے۔


۵- قبیله بنی طی


🚩 یہی اکیلا قبیلہ ہے کہ جو کوفہ اور قدیم شہر حیرہ کے منطقہ کا رہنے والا تھا، یہی عرب کا سب سے پہلا قبیلہ تھا جو ایرانیوں سے آشنا ہوا، ایران کے لوگ انہیں طی زی کے نام سے پکارا کرتے تھے یعنی کہ جو شخص طی قبیلہ میں زندگی بسر کرتا ہے، بعد میں یہی نام تازی لفظ میں تبدیل ہو گیا جو فارسی زبان میں عربی لفظ کا مترادف ہے، حاتم طائی کہ جس کی سخاوت بہت مشہور ہے وہ بھی اسی قبیلہ سے متعلق ہے۔


۶- قبیله بنی کِندَہ


 🚩 یہ قبیلہ ابتدا میں مشرقی عرب کا رہنے والا تھا اس قبیلہ کی معروف ترین شخصیت اشعث بن قیس کندی ہے نیز اسی کی بیٹی جعدہ اور بیٹا محمد نے شیعوں کے ۳ اماموں کی شہادت میں مرکزی کردار ادا کیا ہے، ابن ملجم مرادی کا بھی تعلق اسی قبیلہ سے تھا پھر حجر بن عدی جو امام علیؑ کے صحابی بھی اسی قبیلہ کی فرد تھے، اس قبیلہ کا بہت ہی گہرا رابطہ قبیلہ ازد سے رکھتے تھے مگر بنی تمیم سے روابط بدتر تھے۔


۷- قبیله بنی مِذحَج


🚩 یمن کے قبائل میں سے ایک قبیلہ جو پیغمبر اسلام (ص) کے زمانہ میں امام علیؑ کا میزبان ہوا کرتا تھا نیز آنحضرتؑ کے محبین میں شمار ہوتا تھا جس کی بہترین دلیل یہ ہے کہ امام علیؑ کے کوفہ منقتل ہوتے وقت یہی قبیلہ موجود تھا جس کی ایک شاخ بنی نخع مالک اشتر اور ان کے بیٹے ابراہیم کی بنا پر مشہور ہے، جناب ہانی بن عروہ جنہوں نے جناب مسلمؑ کو اپنے گھر میں پناہ دے رکھی تھی اسی قبیلہ کی فرد تھے، کربلا میں لشکر یزید کے دائیں حصہ کی فوج کا سردار عمرو بن حجاج زبیدی بھی اسی قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا۔




★ كوفہ کی تاریخ ساز شخصیات:


واقعہ کربلا میں کوفہ کے تاریخ ساز چہروں کا بھی اثر و رسوخ کم نہیں تھاچونکہ یہی قائل کے سردار ہی تھے کہ امامؑ کو کوفہ آنے کی دعوت دی اور بعد میں آنحضرتؑ کو تنہا چھوڑا یہاں تک کہ انہیں اور ان کے اصحاب و انصار کو قتل کرنے کی خاطر کربلا گئے، ایسے حالات میں بھی سنہ 60 ہجری کا زمانہ جس میں واقعہ عاشورا رونما ہوا اسی کے چند نمایاں و منتخب ناموں کا تذکرہ تاریخ میں اکثر آیا ہے۔


  • مسلم بن عقیل بن ابیطالب


امامؑ کے سفیر و قاصد، آنحضرتؑ کے چچازاد بھائی ورقیہ بنت علی بن ابیطالبؑ کے شوہر نیز بہنوئی تھے، مختار ثقفی اور ہانی بن عروہ میزبان ہوئے، 18 ہزار افراد نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی لیکن ابن زیاد کے کوفہ میں وارد ہوتے ہی حالات کے اوراق پلٹے اور تنہا ہوئے، محمد بن اشعث کی کنیز کے گھر میں پناہ لی مگر مخبری کے باعث حکومت نے گرفتاری کیلئے لشکر بھیجا اور ایک مختصر سی جنگ کے بعد قید ہوئے اور ابن زیاد کے دستور سے انہیں قتل کیا۔


  • هانی بن عروه مرادی


یہ قبیلہ مِذحَج کے سردار نیز امام علیؑ کے اصحاب میں شمار ہوتا ہے، امامؑ کو دعوت نامہ بھیجا تھا، جناب مسلم کو اپنے ہی گھر میں پناہ دی مگر مخبری کی بنا پر انہیں گرفتار کیا، شہادت مسلم کے چند گھنٹوں کے بعد ان کی بھی کوفہ کے بازار میں گردن اڑا دی۔ 

  

  • سُلَیمان بن صُرَد خُزاعی


سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں امامؑ کو خط لکھا، جناب مسلم کو اپنے گھر میں پناہ دی لیکن ہانی و مسلم کے قتل کے ساتھ ہی سخت دبائو میں پڑے لہذا انہیں کربلا جانے سے روکنے کیلئے قید کیا، عاشورا کے بعد نادم ہوئے اور تحریک توابین کی شروع کی مگر شکست کھائے اور قتل ہوئے۔


  • مختار بن ابو عبيده ثقفی


امامؑ کو خط بھیجا اور مسلم کو اپنے ہی گھر میں مہمان بنایا لیکن مخبری کے باعث انہیں گرفتاری کے بعد قید خانہ میں بند كر دیا، عاشورا کے روز بھی قید رہے تھے 5 سال کے بعد شہدائے کربلا کے انتقام کی خاطر تحریک چلائی نیز 16 مہینے کوفہ پر تسلط اور حکومت برقرار رہی آل زبیر کا کوفہ پر حملہ کے ساتھ ہی قتل ہوئے اور ان کی حکومت و زندگی کا باب ختم ہوا۔


  • عبید الله بن زیاد بن ابیہ


اپنے باپ زیاد بن سمیہ کی موت کے بعد معاویہ نے 25 سال کی عمر میں اسے خراسان کا حاکم مقرر کیا لیکن اس نے اپنا اصلی کردار یزید کی حکومت کے زمانہ میں ادا کیا ہے، اسی نے کوفہ میں ایسا کام انجام دیا کہ بقولے عاشورا کے روز کوئی ایک فرد بھی لشکر اشقیا میں شام کا نہ رہے، 6 سال کے بعد ابراہیم بن مالک اشتر نے اسے قتل کیا۔


  • عمر بن سعد بن ابی وقاص


سعد بن ابی وقاص کا بیٹا نیز امام حسینؑ کے بچپن میں ساتھ رہتا تھا، یہ طے پایا کہ عمر بن سعد رے صوبہ کی حکومت کی باگ دور سنبھالنے کیلئے جائے لیکن ابن زیاد نے اسے کربلا کے ساتھ مشروط کیا، عاشورا کے بعد کوفہ آیا عبید اللہ نے اسے روکے رکھا یہاں تک کہ بالآخر مختار نے اسے قتل کیا۔


  • شِمر بن ذِی الجَوشن کِلَابِی


اس کے نام کا صحیح تلفظ شَمِر ہے نیز اس کے باپ کا اصلی نام شرحبیل تھا، کہا جاتا ہے کہ یہ کوفہ میں قرآن پڑھایا کرتا تھا، ۹ محرم کو ۴ ہزار لشکر کے ساتھ کربلا پہونچا نیز لشکر کوفہ کی بائیں حصہ کی سرداری اسے کے سپرد تھی، عاشورا کے بعد اسیران اہل حرمؑ کو شام تک لے گیا، جناب مختار کی تحریک کے بعد کلتائیہ خوزستان جان بچا کر بھاگا لیکن اسے تلاش کر کے قتل کیا۔


  • شبث بن ربعی


(ہزار چہرے والا شخص) یہی شخص رسولخداﷺ کے زمانہ میں جھوٹا نبوت کا دعوا کرنے والی قبیلہ بنی تمیم کی سَجَاح بنت حارث بن سوَید بن عفقان کا موذن مقرر تھا، (مسیلمہ کذاب کی زوجہ) اس نے بھی پہلے امام کو خط لکھا لیکن عاشورا کے روز کوفہ کی پیدل فوج کا کمانڈر تھا، اس نے بھی شہادت امامؑ کے بعد بطور شکرانہ ایک مسجد کی بنیاد رکھی، مختار کے زمانہ میں کوفہ کی پلیس کا سربراہ اور یہی ان کا قاتل بھی تھا، بالآخر 93 سال کی عمر میں اپنی طبعی موت کو پہونچا۔


  • عمرو بن حجاج زبیدی


اس نے بھی امامؑ کو خط لکھا تھا، یہ کوفہ کی فوج کے دائیں حصہ کا سردار تھا، ابن زیاد نے بہت بڑی رقم کے ذریعہ اسے خریدا، اس نے بھی اپنے قبیلہ والوں کو قانع کیاکہ امامؑ کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے جائیں، اسی کی وجہ سے ہانی بن عروہ کی شہادت ہوئی، مختار کے زمانہ میں بصرہ بھاگا لیکن اس کا قتل جنگ حرورا میں ہوا۔


اشعث كِندي كا خاندان


  • اشعث بن قیس کِندی
  • (باپ)


قبیلہ کِندَہ کا سردار جنگ صفین میں امام علیؑ کے داہنے لشکر کا کمانڈر تھا، نیزوں پر قرآن اٹھانے کے واقعہ میں اس نے امامؑ پر تلوار اٹھائی، ابن ملجم کو اسی نے پناہ دیا تا کہ وہ امامؑ کو قتل کر سکے اس کی وفات سنہ 43 ہجری کے دوران شہر کوفہ میں ہوئی۔


  • جعدہ بنت اشعث کِندی

  • (بیٹی)


امامؑ نے اشعث کی دلجوئی کی خاطر اس کا عقد امام حسنؑ سے کر دیا پھر اس نے بھی معاویہ کے زہر اور یزید کے ساتھ شادی کےوعدہ کی بنا پر امام حسنؑ کو شہید کیا بعد میں معاویہ بھی اپنے وعدہ سے مکر گیا۔


  • محمد بن اشعث کِندی

  • (بیٹا)


اس نے بھی امام حسینؑ کو خط لکھ کر کے بلایا، لیکن کوفہ کے لشکر کا سردار بنا تھا، امامؑ نے اسی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: شائد تم نے مجھے نہیں بلایا؟ تب اس نے صاف انکار کر دیا۔ تو امامؑ نے اس پر لعنت فرمائی نیز جنگ حرورا میں جنگ کرتا ہوا مارا گیا۔


كوفه شهر بي وفا



$}{@J@r



DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی