کوفہ کے لوگوں کو پہچانئے!!!
"مردم کوفه را بشناسید"
نویسنده : نعمت الله صفری فروشانی
مترجم : ابو دانیال اعظمی بریر
مقدمہ:
شائد کہہ سکتے ہیں کہ عاشورا کا دردناک و عظیم واقعہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جو شیعوں کے درمیان سب سے زیادہ حصہ قرون متمادی کیلئے طے کیا ہے بلکہ مسلمانوں کے درمیان بھی مخصوص توجہ کا حامل رہا ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں تالیفات، آثار و تصنیفات میں بہت کم حصہ عام طور پر واقعہ کربلا کے زمانہ میں جو اسلامی دنیا کی سماجی حالات تھے اس تحقیق و جستجو میں مشغول ہوئے ہیں، خصوصی طور پر شہر کوفہ کے بارے میں کم ہی لکھا جاتا رہا ہے، جبکہ ہمیں اس جستجو و تحقیق کے ذریعہ امام حسینؑ کی تحریک اور علل و وجوہات کو بہت زیادہ سمجھا جا سکتا ہے اور ظاہری طور پر کامیاب نہ ہونے کے دلائل حاصل کرنے میں بھی مددگار ہو سکتے ہیں۔
مذکورہ تحریر ادنیٰ سی کوشش و سعی ہے جو کوفہ کی عوام کو پہچاننے میں کی طرف جس کو ہم ۳ گفتار کے تحت بیان کریں گے۔
إن شاء الله المستعان
امام حسینؑ کی تحریک کے ابتدائی زمانہ میں کوفہ پرحاکم تمام عناصر کی تحقیق پہلے کریں گے نیز ہر ایک جگہ پر سعی و کوشش ہوئی ہے کہ تحریک پر اثر انداز ہونے والے، تحریک کو ترقی عطا کرنے والے، متوقف کرنے والے عناصر اور پھر مسئلہ کی طرف اشارہ کریں گے۔
اس امید پر کہ شہیدؑ اعظم کی ملکوتی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کر سکے۔
السعی منی و الإتمام علیٰ الله
گفتار اول : کوفہ کی آبادی اور شرائط حکمرانی
۱- تحریک امام کے دور میں کوفہ کی آبادی
۲- کوفہ کی آبادی کا تناسب
۳- آبادی میں نسلی تناسب
- عرب
- قحطاني و عدناني
- غير عرب
- موالي، سرياني، نبطي
- عجم
- ايراني، رومي، ترک
- مسلم
- شیعیان امیر المومنین
- رؤسائے شیعہ و عموم شیعہ
- حامیان بنی امیہ
- خوارج
- غیر جانبداران
- نظام حکومت کی عدم قبولیت
- دنیا کے طلبگار
- احساسات کے تابع ہونا
- دیگر خصوصیات
گفتار اول:
کوفہ کی آبادی اور حکمرانی كے شرائط
۱- تحریک امامؑ کے زمانہ میں کوفہ کی آبادی
شہر کوفہ کی سنگ بنیاد خلیفۂ دوم کے حکم اور سعد بن ابی وقاص کے ہاتھوں سنہ ۱۷ ہجری میں ایک فوجی چھاؤنی کے مقصد کے تحت رکھی گئی تا کہ ملک ایران میں جو فتوحات اسلامی چل رہے ہیں ان کی رسد و مدد پہونچانے میں فوری طور پر اقدام کر سکیں۔ (تاریخ طبری؛ محمد بن جریر طبری، مؤسسہ الاعلمی للمطبوعات، بیروت: 3/ 145)
عمر بن خطاب نے حکم دیا تھا کہ اس شہر کی مسجد کو اتنا وسیع و عریض بنایا جائے کہ جس میں تمام جنگجو و لشکری سما سکیں اور جو مسجد اس حکم کے مطابق بنائی گئی اسکی گنجائش ۴۰ ہزار نمازیوں کی تھی۔ (معجم البلدان؛ یاقوت حموی، دار احیاء التراث العربی، بیروت سنہ1399 ق، 4/ 491)
اس بنا پر ہم یہ نتیجہ حاصل کر سکتے ہیں کہ کوفہ کی بنیاد کے آغاز میں ہی تقریباً ۴۰ ہزار سپاہی موجود تھے، اس بات کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کہ ان فوجیوں کی اولاد اور ازواج بھی انکے ہمراہ قیام پذیر ہوا کرتے تھے تب ہم اسکی آبادی کو تقریباً ایک لاکھ افراد پر مشتمل تسلیم کریں گے، جب اسکی بنیاد رکھی گئی تو یہ معقول تعداد بھی مسلم لگتی ہے۔
طبری نے سنہ ۲۲ ہجری کے حوادث میں بیان کرتے ہوئے جو عمر سے منقولہ عبارت تحریر کی ہے اس میں بغیر معدود کے لفظ (ماۃ ألف یعنی سو ہزار) ایک لاکھ کی تعداد بیان کیا گیا ہے مگر بغیر معدود کے مذکورہ عدد لکھا ہوا ہے۔ (تاریخ طبری 3/ 243)
شہر کوفہ کی بنیاد رکھنے کے ابتدائی ایام میں ہی ایک لاکھ فوجیوں کی گنجائش کیلئے بسایا گیا تھا۔
اگر ہم اس قول کو تسلیم کر بھی لیتے ہیں تو کوفہ کی آبادی اس زمانہ میں ۲ لاکھ سے زائد ماننی پڑے گی جو عقلی طور پر بعید ہونے کے ساتھ ہی اس زمانہ کی مسجد کی وسعت کی گنجائش کے مطابق بھی نہیں ہے۔
پس صحیح ترین تعداد وہی ہے جو کلام عمر سے ثابت ہوتا ہے یعنی کہ افراد مراد ہیں، نہ کہ فوجی تا کہ تاریخی اعتبار سے بھی مطابقت و واقعیت رکھ سکے۔
چونکہ بہترین آب و ہوا کے لحاظ سے اور فرات کے قریب ہونے کی وجہ نیز ملک ایران سے نزدیکترین ہونے کی بنا پر اور اقتصادی حالات بہتر ہونے کی خاطر جو کہ غنائم کی صورت اور مفتوحہ سر زمین کے خراج موصول ہونے کے سبب کوفہ کی بنیاد رکھنے کے ساتھ ہی ایک نمایاں حیثیت حاصل کر لی تھی، لہٰذا وسیع و عریض مملکت اسلامی کے مسلمانوں اور مختلف گروہوں اور مہاجرین اقوام کو اپنے اندر جذب کرنے کی سر زمیں اس زمانہ میں کوفہ قرار پاتا ہے۔
یہ سنہ ۳۶ ہجری کے میں خصوصی طور پر جب امیر المومنینؑ اس شہر کو اپنی خلافت کے زمانہ میں دار الخلافہ قراد دیتے ہیں تو شدت کے ساتھ فوجیوں کویہ شہر اپنے اندر جذب کرلیتا ہے بلکہ آنحضرت نے جنگ صفین جو سنہ ۳۷ ہجری میں واقع ہوتی ہے تو آپ کے لشکر کی تعداد ۶۵ ہزار تک بیان کی جاتی ہے۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 49)
جبکہ ان فوجیوں کے خاندان اور وہ افراد جو جنگ میں شریک نہیں ہوئے تھے ان کو بھی گنتی میں شامل کر لیں تواطمینان سے ہمیں ایک لاکھ ۵۰ ہزار افراد کی بستی کا پتہ ملتا ہے۔
ایسے حالات میں مسعودی نے اپنی کتاب میں ۹۰ ہزار یا ۱ لاکھ ۲۰ ہزار سپاہیوں پر مبنی آنحضرتؑ کے لشکر کی تعداد کو نظر انداز کرتے ہیں۔ (مروج الذہب و معادن الجوہر؛ علی بن حسین مسعودی، تحقیق: محمد محی الدین عبد الحمید، دار المعرفۃ، بیروت 2/ 385)
صلح امام حسنؑ کے بعد سنہ ۴۰ ہجری میں جو امامؑ کے بعض اصحاب بطور اعتراض کے آواز بلند کی تھی ان سپاہیوں کی تعداد ۱ لاکھ اہل کوفہ کے افراد پر مستمل ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ (الامامة و السیاسة؛ عبد الله بن مسلم بن قتیبه دینوری، تحقیق: علی شیری، چاپ اول، منشورات شریف رضی، قم، 1371 خ: 1/ 185)
سنہ ۵۰ ہجری سے زیاد بن ابیہ جو معاویہ کی طرف سے کوفہ کا حکمران بنایا گیا تھا تو علیؑ کے شیعوں کی فراوانی کو مد نظر رکھتے ہوئے کوفہ کی ایک عظیم افرادی قوت کو کوفہ سے ملک شام و خراسان اور دیگر مختلف علاقوں کی طرف جبری طور پر منتقل یا جلا وطن کی گئی تھی اس میں کی ایک بڑی تعداد تو صرف ملک خراسان کی طرف ۵۰ ہزار کی بیان کی جاتی ہے، جو جبراً جلاوطن کئے گئے تھے۔ (حیاۃ الامام الحسینؑ بن علیؑ، باقر شریف القرشی، چاپ دوم، دار الکتب العلمیة، قم، 1397 خ 2/ 178 منقول از تاریخ الشعوب الاسلامیة؛ 1/ 147)
اس وقت کوفہ کی آبادی میں سے 1 لاکھ 40 ہزار افراد کی شدید قلت پیدا ہو گئی تھی کہ جو 60 ہزار سپاہیوں اور 80 ہزار خاندان پر مشتمل تھی۔ (فتوح البلدان؛ أبو الحسن بلاذری، تعلیق: رضوان محمد رضوان، دار الکتب العلمیة، بیروت، 1398 ق 345)
اس طرح سے کہ جب زیاد نے مسجد کوفہ کی توسیع کیلئے اقدام کیا تو اس کی گنجائش کو 60 ہزار کے اعتبار سے ہی وسعت دی گئی تھی۔ (معجم البلدان 4/ 491)
سنہ ۶۰ ہجری میں معاویہ کے انتقال کے بعد بعض کوفہ کے افراد نے جو امام حسینؑ کو جو خطوط لکھے تھے ان میں ایک لاکھ سپاہیوں کی تعداد امامؑ کی خدمت کیلئے آمادہ ہونے کا ذکر ملتا ہے۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 494 و بحار الانوار؛ محمد باقر مجلسی، تصحیح: محمد باقر بہبودی، المکتبة الاسلامیة، تہران: 44/ 337)
یہ قول گرچہ کوفیوں کی آمادگی کی بنسبت مبالغہ آمیز ہے، لیکن یہ تعداد امام حسینؑ کی تحریک کے زمانہ میں کوفہ کی آبادی کی نشاندہی ضرورت کرتی ہے۔
امامؑ کی تحریک کے زمانہ میں مذکورہ بالا مطالب سے ہمیں مندرجہ ذیل نتائج حاصل ہوتے ہیں: امام حسینؑ کو خطاب کرتے ہوئے جو خطوط لکھے گئے تھے ان کی تعداد 12 ہزار ذکر کی جاتی ہے۔ (بحار الانوار 44/ 334)
گرچہ یہ بہت بڑی تعداد نمایاں ہوتی ہے، لیکن کوفہ کی آبادی کے اعتبار سے % 50 سے بھی کمتر ہوتی ہے، چاہے ہم اس بات کو تسلیم کریں کہ بعض خطوط چند افراد یا کئی جماعت کی طرف سے لکھے گئے تھے، اسی بنا پر امامؑ نے اسی پر ہی اکتفا نہیں کیا اور کوفہ کی مزید معلومات کے حصول کیلئے جناب مسلم بن عقیلؑ کو روانہ کیا تھا۔ (بحار الانوار؛ 44/ 337)
جناب مسلمؑ کے ہاتھ پر بیعت کرنے والوں کی تعداد 12 سے 40 ہزار افراد تک کتابوں میں مذکور ہے، لیکن امام باقرؑ کی طرف منسوب حدیث و روایت میں 20 ہزار بیعت کرنے والوں کی تعداد کا بیان بهي ملتا ہے۔ (بحار الانوار 44/ 68)
اگر اس تعداد کو قبول بھی کر لیا جائے تو کوفہ کے فوجیوں یا سپاہیوں کی تعداد میں سے پانچواں حصہ ہی شمار ہوتا ہے یعنی 20 فیصدی فقط۔
تو اس نتیجہ پر پہونچ سکتے ہیں کہ اتنی تعداد پر جناب مسلمؑ کی طرف سے سنجیدہ اقدام نہ کرنے کی دلیل ہمیں مل سکتی ہے۔
البتہ اس سے یہ واضح ہوتا ہےکہ سنجیدہ اقدام اور تشکیل حکومت کی صورت میں بہت سے عناصر جیسے غیر جانبدار یہاں تک کہ مخالفین بھی اس نئی حکومت سے ملحق ہو جاتے۔
امام جعفرؑ کی ایک روایت میں عمر بن سعد کے لشکر کی تعداد 30 ہزار سپاہی کا بیان درج ملتا ہے۔ (بحار الانوار 4/ 45)
جو خاص طور پر ابن زیاد کے اعلان عام تھا کہ سب لوگ لشکر سے ملحق ہو جائیں تب یہ تعداد معقول نظر آتی ہے۔ البتہ یہ تعداد بھی مقاتل کوفہ کی آبادی کے لحاظ سے نصف پر بھی مشتمل نہیں ہے۔
یہاں پر مختار کے سپاہیوں کی کثرت بھی 60 ہزار کی ہی ذکر کی جاتی ہے۔ (الاخبار الطوال؛ ابو حنیفہ احمد بن داؤد دینوری، تحقیق: عبد المنعم عامر، چاپ اول، دار احیاء الکتب العربیة، قاہرہ، 1968 م:15/ 305)
اس مقام پر قابل توجہ بات یہ ہے کہ یہ لشکر ان افراد پر مشتمل تھا جو کربلا میں عمر بن سعد کے لشکر کے فوجی ہرگز نہیں تھے۔
۲-کوفہ کی آبادی میں تناسب
کوفہ کی آبادی کو دو نظریہ سے ایک نسلی اور دوسرے مذہبی اعتبار سے تحقیق کرتے ہیں:
(الف) کوفہ کی آبادی میں نسلی تناسب
کلی اعتبار پر کوفہ کی آبادی کو دو حصوں پر منقسم کر سکتے ہیں:
۱- عرب اور ۲- غیر عرب۔
کوفہ میں رہنے والے ایک حصہ کو عرب کے قبایل تشکیل دیتے ہیں کہ جو ملک ایران مین فتوحات اسلامی آغاز سے ہی جزیرہ عرب سے عراق کی جانب جنگ میں شرکت کے ساتھ ہی ہجرت کر لیا اور آخر کار فتوحات کے اختتام کے بعد کوفہ و بصرہ میں مستقل طور پر ساکن ہوگئے، یہی عرب ہیں جو کوفہ کی آبادی کی بنیادی بستی شمار کئے جاتے ہیں جو نسلی طور پر قحطانی اور عدنانی پر ہی مشتمل تھی کہ جنہیں اصطلاح میں یمانی اور نزاری بھی کہا جاتا تھا۔
کوفہ کی بنیاد رکھنے کے اوائل میں ۲۰ ہزار گھر بنائے گئے تھے جس میں ۱۲ ہزار گھر یمانی افراد کے اور ۸ ہزار گھر نزاری افراد کیلئے مخصوص تھے۔ (الحیاة الاجتماعیة و الاقتصادیة فی الکوفة فی القرن الاول الہجری؛ محمد حسین زیدی، جامعة بغداد، بغداد، 1970 م، ص 42)
ابتدا میں یمانی لوگ خاندان اہلبیتؑ سے بہت لگاؤ رکھتے تھے لہٰذا معاویہ نے ان لوگوں پر بہت زیادہ سرمایہ کاری کی تاکہ انہیں اپنے سے قریبتر کر لے۔ (تاریخ التمدن الاسلامی؛ زیدان جرجی، منشورات دار مکتبة الحیاة، بیروت: 4/ 338)
عربوں کا دوسرا حصہ دیگر قبائل جیسے بنی تغلب وغیرہ پر مشتمل تھا جو اسلام آنے سے پہلے ہی عراق میں سکونت پذیر تھے اور مستقل طور پر ایرانیوں سے جنگ کیا کرتے رہتے تھے، اسلامی فتوحات کے آغاز کے بعد یہ قبائل مسلمان ہو گئے اور انہوں نے فتوحات میں حصہ بھی لیا نیز مدد بھی کرتے رہے اور پھر ان میں سے کچھ لوگ نئے اسلامی شہروں کی بستی میں مقیم ہو گئے تھے۔ (الحیاۃ الاجتماعیة؛ ص 42)
کوفہ کے غیر عرب کے بڑے عناصر جیسے موالی، سریانی اور نبطی لوگوں پر مشتمل تھا۔ (حیاۃ الامام الحسینؑ بن علیؑ؛ 2/ 438)
موالی:
وہ لوگ تھے جو عرب کے مختلف قبائل کے ساتھ عہد و پیمان کے ما تحت تھے اور اصطلاح میں بطور موالی یا مولا اور حلیف قبول کیا گیا تھا اور حقوق کے اعتبار سے اسی ہم پیمان قبیلہ کے مثل شمار کئے جاتے تھے۔
یہ موالی ممکن ہے کہ مختلف نسلوں اور قبیلوں سے ہو سکتے ہیں جیسے ایرانی، رومی اور ترکی وغیرہ تھے کہ عرب ان تمام لوگوں کو عجم کے نام سے پکارا کرتے تھے۔
کوفہ کے موالی کا سب سے بڑا گروہ ایرانیوں پر مشتمل تھا جنہیں "حمراء دیلم" کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، لفظ حمراء اسم عام ہے جس کو عرب ایرانیوں کیلئے ہی استعمال کرتے تھے، اس ایک ہی گروہ کے پاس 40 ہزار افراد پر مشتمل فوج بھی تھی جس کا سردار دیلم نامی شخص تھا جو سعد بن ابی وقاص کے اسلامی لشکر کے ساتھ ہم پیمان ہوا نیز مدد و نصرت کیلئے ملحق بھی ہو گیا تھا۔ (فتوح البلدان؛ 279)
اس گروہ نے بعد میں کوفہ ہی کو اپنا مستقل مسکن بنا ڈالا اور اسی شہر کی بہت سی صنعت و حرفت کو بھی چلاتا تھا۔ (تخطیط مدینة الکوفة عن المصادر التاریخیة و الاثری؛ کاظم جنابی، مقدمہ: احمد فکری، چاپ اول، مجمع العلمی العراقیة، بغداد:1386 ق، ص: 42)
بعض کتابوں میں ان موالی کی تعداد مختار کے زمانہ یعنی سنہ ۶۶ ہجری میں تقریباً 20 ہزار افراد کا ذکر ملتا ہے۔ (الاخبار الطوال؛ 288)
کوفہ میں موالی کی آبادی عربوں کی آبادی سے کہیں زیادہ تھی، اس طرح سے کچھ برسوں کے بعد عرب اور موالی کی آبادی کے درمیان ایک عرب بمقابلہ پانچ موالی کا فاصلہ واقع ہو گیا۔ (تاریخ التمدن الاسلامی؛ 4/ 370)
موالی کی اس قدر بڑھتی ہوئی آبادی سے معاویہ خوفزدہ رہتا تھا اور اسی لئے اس نے زیاد بن ابیہ کو حکم دیا کہ ان لوگوں کو کوفہ سے منتقل کرنے کا حکم صادر کر دیا جائے اور زیاد بن سميه نے بھی بعض لوگوں کو ملک شام، تو كچھ کو شہر بصرہ اور بعض افراد کو ایران کی طرف جبراً منتقل کیا گیا یعنی جلا وطن کیا۔ (فتوح البلدان؛ 279)
لیکن ان حالات میں بھی مختار کے سپاہیوں میں موالی کی موجودگی سنہ ۶۶ ہجری بھی عربوں کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ پائی جاتی تھی، جو اس بات کی علامت ہے کہ امام حسینؑ کی تحریک کی ابتدا میں بھی کوفہ میں انکی تعداد کثرت سے رہی ہوگی۔ (تاریخ التمدن الاسلامی؛ 4/ 371)
سریانی:
اس قوم کو کہا جاتا ہے جو فتوحات سے پہلے حیرہ کے اطراف کے دیر میں زندگی بسر کیا کرتی تھی اور عیسائی مذہب کے پابند بھی تھے۔ (تخطیط مدینۃ الکوفة؛ 26)
نبطی:
انہیں بعض مؤرخین نے انہیں ایک طرح سے عرب ہی تسلیم کیا ہے، ان لوگوں کو اصطلاح میں کہا جاتا ہے جو فتوحات سے قبل عراق کے اطراف اور قرب و جوار نیز میدانی علاقوں میں زندگی بسر کرتے تھے اور کوفہ کی بنیاد پڑنے کے بعد اس نئے شہر کی طرف ہجرت کر لی اور زراعت کو اپنا مشغلہ قرار دیا۔ (تخطیط مدینة الکوفة؛ 43 و حیاۃ الامام الحسینؑ بن علیؑ؛ 2/ 438)
البتہ آخر کے دو گروہ کوفہ کی آبادی میں کم حصہ یعنی اقلیت شمار کیا جاتا تھا۔
(ب) کوفہ کے معاشرہ میں مذہبی تناسب
یہاں پر مذہب لفظ کو عام معنی کے لحاظ سے فرض کیا گیا ہے جو سیاسی خیالات کو بھی مذہب میں شامل کیا ہے، کوفہ کا سماج مذہب کے اعتبار سے اس زمانہ میں دو حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:
★ مسلم اور غیر مسلم
غیر مسلم:
شہر کوفہ میں غیر مسلم آبادی بنی تغلب کے عرب عیسائی، نجران کے عیسائی، نبطی عیسائی نیز جزیرۃ العرب سے نکالے گئے یہودیوں اور عمر کی حکومت کے زمانہ میں لائے گئے ایرانی مجوسیوں پر ہی مشتمل تھی۔ (حیاۃ الامام الحسینؑ بن علیؑ؛ 2/ 441)
یہ لوگ کوفہ کی کل آبادی کے مقابلہ میں اقلیت سے ہی تعلق رکھتے تھے۔
مسلم :
کوفہ کے مسلمانوں کو ہم شیعیان علیؑ، حامیان بنی امیہ، خوارج اور غیر جانبدار گروہوں میں منقسم کر سکتے ہیں۔
اسی طرح سے شیعوں کو بھی ۲ حصوں یعنی رؤسائے شیعہ اور عام شیعہ پر تقسیم کر سکتے ہیں۔
رؤسائے شیعہ:
شیعہ رؤسا میں سے سلیمان بن صرد خزاعی، مسیب بن نخبہ فزاری ، مسلم بن عوسجہ، حبیب بن مظاہر اسدی، ابو ثمامہ صائدی وغیرہم جیسے افراد کے نام لئے جا سکتے ہیں، یہ لوگ امیر المومنینؑ کے ساتھ جنگ صفین اور دیگر جنگوں میں آنحضرت کے یاور و مددگار بھی تھے۔
مذکورہ بالا افراد دل کی گہرائیوں سے نبوت کے خاندان اہلبیتؑ سے حقیقی محبت رکھتے تھے اور یہی لوگ تھے جنہوں نے معاویہ کی موت کے بعد امام حسینؑ سے نامہ نگاری کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 261)
کوفہ کی تحریک میں ایک تاریک پہلو بھی ہے کہ ان افراد نے 7 ذی الحجہ سنہ ۶۰ ہجری کی شام کے وقت جب عبید اللہ بن زیاد کے قصر کا جناب مسلمؑ محاصرہ کرتے ہیں تو شکست کھاتے ہیں اور آخر کار انہیں کوفہ کی گلیوں میں تنہا اور بے یار و مددگار سرگردان پھرتے رہے۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 294)
تو اسکی وجوہات مختلف رہی ہوں گی کہ مذکورہ بالا افراد کے غائب ہونے میں غالباً حسن ظن کے اعتبار سے یہی ہو سکتا ہے کہ خود جناب مسلمؑ کے حکم کے مطابق متفرق ہوگئے ہوں گے تا کہ اپنی جان کی حفاظت کر سکیں جب تک کہ امام حسینؑ سے ملحق نہ ہو جائیں۔
(مزید معلومات کیلئے مندرجہ ذیل کتب کی طرف رجوع کیجئے!
الف: الدوافع الذاتية لانصار الحسینؑ؛ محمد علی عابدین، چاپ دوم، دار الکتاب الاسلامی، قم 1982 م
ب: زندگانی سفیر حسینؑ مسلم بن عقیل؛ محمد علی عابدین، ترجمہ سید حسن اسلامی، چاپ اول، دفتر انتشارات اسلامی، قم، 1372)
لیکن یہ وجہ بھی ہو سکتی ہے کہ تحریک کے رہبر یعنی مسلم بن عقیلؑ نے جب حالات کو دیکھا ہو تو یہی مصلحت سمجھی کہ یہ افراد متفرق ہو جائیں جو قابل قبول دلیل بھی لگتی ہے۔
تاریکترین گوشہ تو بھی ہے کہ ان میں سے بعض افراد جیسے حبیب بن مظاہر، مسلم بن عوسجہ اور ابو ثمامہ صائدی وغیرہم کربلا میں تو نظر آتے ہیں اور دیگر بزرگان سلیمان بن صرد خزاعی، رفاعہ بن شداد بجلی اور مسیب بن نخبہ فزاری جیسے افراد ہمیں دور دور تک نظر نہیں آتے اور تاریخ سے بھی کوئی ہمیں ایسا ثبوت نہیں ملتا کہ انکا ارادہ امامؑ سے ملحق ہونے کا بھی رہا ہوگا يا نہیں۔
عام شیعہ:
کوفہ کے لوگوں میں قابل اعتبار تعداد ان ہی عام شیعہ افراد پر مشتمل تھی، گرچہ یہ لوگ اہلبیتؑ عصمت سے بے حد محبت کرتے تھے، لیکن زیاد بن ابیہ اور عبید اللہ بن زیاد جیسے حکمرانوں کا سلوک جو شیعیان علیؑ کو پوری طرح نیست و نابود کرنے کیلئے ہمیشہ سے اموی سیاست ایسی ہی رہی اور اسلامی معاشرہ میں علیؑ کا شیعہ ان لوگوں کو آنکھ میں خار کے مثل چبھتا رہتا تھا یہاں تک کہ شیعہ کسی بھی تحریک کی کامیابی کا گمان بھی ہرگز نہیں کر سکتے تھے لہٰذا کسی تحریک کیلئے نہیں اٹھے بلکہ کسی بھی طرح کا اقدام بھی نہیں کیا شائد نامہ نگاری کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے اور جناب مسلمؑ و مختار کی تحریک سے ملحق ہونا بھی رہا ہوگا اسی بنا پر تھا کہ ایسی صورت میں تحریک کی کامیابی کا بہت زیادہ احتمال سمجھا جاتا تھا لہٰذا جیسے ہی جناب مسلمؑ کی تحریک کی ناکامی کی بو انہیں محسوس ہوئی فوراً ہی منظر عام سے خارج و غائب ہوگئے، البتہ بعد میں بہت بڑی تعداد میں تحریک توابین اور انتقام مختار میں شرکت بھی کرتے ہیں، لیکن یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان افراد میں سے کتنے لوگ عمر بن سعد کے لشکر میں شامل ہوتے ہیں اور کربلا میں امام حسینؑ کے خلاف جنگ میں شرکت کرتے ہیں اور یہ بھی بعید ہے کہ انکی اکثریت کربلا میں حاضر رہی ہو، بلکہ کوفہ کے دیگر مسلمانوں کی طرح کربلا میں لشکری ستون رہا ہو۔
★ اس وضاحت کے ساتھ کہ امام کو خطوط لکھنے کا مطلب شیعہ ہونا ہرگز نہیں ہو سکتا ہے۔
حامیان بنی امیہ:
عمرو بن حجاج زبیدی، یزید بن حرث، عمرو بن حارث، عبد اللہ بن مسلم، عمارہ بن عقبہ، عمر بن سعد، مسلم بن عمرو باہلی جیسے افراد کے نام بنی امیہ کے حالی موالی کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔ (مقتل الحسینؑ؛ عبد الرزاق مقرم موسوی، چاپ پنجم، دار الکتاب الاسلامی، قم، 1399 ق: 149؛ حیاۃ الحسینؑ ؛3/ 441)
نیز کوفہ کی آبادی کے لوگوں میں سے قابل توجہ بڑی تعداد بنی امیہ کے حامیوں کی ہی تھی، خاص طور پر اس بات کی طرف توجہ رکھتے ہوئے کہ بنی امیہ کی حکومت کوفہ میں ۲۰ سال کا عرصہ حکومت کرتے ہوئے طے کر چکی تھی اور وہ لوگ ان ۲۰ سالوں میں کافی طاقتور بھی ہو چکے تھے۔
یہی وہ افراد تھے جب جناب مسلمؑ کی تحریک کو ترقی کرتے ہوئے دیکھا اور نعمان بن بشیر حاکم کوفہ کی کمزوری کے خطرہ کو محسوس کیا تو شام کے حاکم یزید کو خط لکھ کر حل و فصل کرنے کا مطالبہ کیا، اکثر قبائل کے رؤساء اور صاحبان نفوذ اسی گروہ سے تعلق رکھتے تھے اور یہی وجہ تھی کہ لوگوں کی بڑی تعداد کا رجحان اسی طرف رہتا تھا۔
خوارج:
جنگ نہروان میں شکست کھنے کے بعد معاویہ کے زمانہ میں اس کی غیر اسلامی سیاست کی بنا پر کوفہ کے بہت زیادہ افراد ناراض تھے انہوں نے سنہ 42 ہجری میں مغیرہ بن شعبہ کی حکمرانی کے دور میں زور پکڑا اور مستورد بن علقمہ کی رہبری میں مسلحانہ تحریک کیلئے اقدام بھی کیا مگر شکست سے روبرو ہوگئے۔
زیاد بن ابیہ نے بھی کوفہ کی حکمرانی کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد سنہ پچاس ہجری میں اس تحریک کو دبانے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا لیکن زیاد کی موت کے پانچ سال کے بعد سنہ ۵۷ ہجری میں انہیں لوگوں نے دوبارہ حیان بن ظبیان کی رہبری میں سر اٹھایا.
عبید اللہ بن زیاد نے بھی کوفہ کی عنان حکومت ہاتھ میں لینے کے بعد مذکورہ تحریک کو کچل دیا۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 132 تاریخ الادب العربی، العصر الاسلامی؛ ضیف شوقی، چاپ سوم، دار المعارف مصر قاہرہ، 1963م 2/ 186)
اسی لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ واقعہ کربلا میں اس گروہ کا کوئی بھی کردار ہرگز نہیں پائیں گے۔
شائد ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوفہ کی آبادی کی اکثریت لا پرواہ، لا ابالی، جذبات سے عاری اور ابن الوقت لوگوں کی ہی تھی کہ جن کا سب کچھ پیٹ بھرنے اور شہوت پرستی کے سوا کچھ بھی مقصد نہ تھا۔
ان لوگوں نے جب جناب مسلمؑ کے لشکر کی کامیابی کو قریب سے دیکھا تو اس سے ملحق ہوگئے اور اس تحریک کے حامیوں پر بھی انہی لوگوں نے بہت زیادہ نفسیاتی دباؤ بھی ڈالا تھا نیز انہی لوگوں نے جناب مسلمؑ کی تحریک کو شکست سے ہمکنار کرنے میں یقینی کردار نبھایا تھا۔ پھر ابن زیاد کے وعدہ و وعید کے چکر میں پڑ کر کوفہ کے لشکر سے ملحق ہو بیٹھے اور امام حسینؑ کے ساتھ جنگ میں کود پڑے اور آخر کار آنحضرتؑ کو شہید کر ڈالا، اگر جناب مسلمؑ کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوتی تو یہی افراد مسلمؑ کی نئی حکومت کی اکثریت طرفداری بھی کرتی، اور یہ وہی افراد تھے جن کیلئے فرزدق شاعر نے امام حسینؑ سے ملاقات کے وقت توصیف میں بیان کیا تھا: "قلوبهم معک و سیوفهم علیک"
انکے قلوب تو آپ کے ساتھ ہیں مگر انکی تلواریں آپ کے خلاف کھینچی ہوئی ہیں۔ (تجارب الامم؛ ابو علی مسکویہ رازی، تحقیق: ابو القاسم امامی، چاپ اول، دار سروش للطباعة و النشر، تہران، 1366 خ: 2/ 57)
۳- کوفہ کے معاشرہ کی نفسیات
کلی لحاظ سے امام حسینؑ کی ظاہری شکست کو کوفہ کے سماجی نفسیات کو بھی دخیل سمجھا جا سکتا ہے، جنہیں مندرجہ ذیل امور میں تقسیم کیا گیا ہے، انہیں ہم آئندہ تحریر کریں گے:
(الف) نظام حکومت کو قبول نہ کرنا
شہر کوفہ کی پہلی بنیاد و اصل آبادی صحرا نشین اور اعراب و بدو قبائل کے افراد پر مشتمل تھی جو مختلف اسباب کی بنا پر فتوحات اسلامی میں شرکت کرتے رہتے تھے اور پھر صحرا نشینی و خانہ بدوش کی زندگی کو خیرآباد کہہ کر شہر نشین ہو جاتے تھے لیکن شہر نشین ہونے کے باوجود بھی خانہ بدوش والی طبیعت اور خصلت کو ہرگز نہیں چھوڑ سکے تھے اور یہ صفات کسی نہ کسی حالت میں کم و بیش انکی طبیعت میں برقرار رہی، ان خانہ بدوش لوگوں کی ایک صفت تو یہی ہے کہ بغیر قید و شرط کے آزادی کے قائل تھے جو انہیں صحرا و بیابانوں میں ہی میسر تھی لہٰذا شروعاتی دور سے اپنے حکمرانوں سے گتھم گتھا ہو گئے اس حد تک اپنے حاکموں سے الجھ گئے کہ خلیفہ دوم جیسا سخت گیر شخص بھی ان سے عاجز ہوگئے تھے، یہاں تک کہ ان لوگوں کی شکایت ان الفاظ میں بیان کیا ہے: اس سے بڑی کیا مصیبت ہوسکتی ہے کہ جس شہر کی آبادی ایک لاکھ سے زائد ہو اور نہ ہی عوام اپنے حکمران سے خوش ہو اور نہ ہی حکمران اپنی عوام سے خوش ہے۔ (تاریخ طبری؛ 3/ 243)
لہٰذا ہم دیکھ سکتے ہیں کہ کوفہ کی تاریخ میں چاہے رحمدل اور عادل امیر و فرمانروا ہوں جیسے امیر المومنین حضرت علیؑ اور عمار یاسر ہوں یا ظالم و جابر حکمران ہوں جیسے زیاد بن ابیہ اور عبید اللہ بن زیاد ہر ایک حاکم کے ساتھ ایک جیسا ہی سلوک روا رکھا اور کبھی بھی ان کے ساتھ تال میل نہیں رکھ سکتے تھے۔
جی ہاں! کوفہ کی تاریخ میں سنہ ۶۱ ہجری تک فقط ایک ہی ایسا موقع ملتا ہے جس میں تمام کوفہ کے لوگوں نے اپنی رضامندی کا اظہار اپنے حاکم پر ظاہر کیا تھا، جس سے یہ لوگ راضی تھے وہ شخص عرب کا مشہور سیاستدان یعنی مغیرہ بن شعبہ ہی تھا، یہ کہنہ مشق سیاستمدار سنہ ۴۱ ہجری سے دمِ آخر تک کوفہ کا حکمران رہا یعنی سنہ ۵۰ ہجری میں معاویہ کی طرف سے کوفہ کا حاکم مقرر ہوتا ہے اور اسکی سعی و کوشش یہ ہوتی تھی کہ کم از کم عوام اور مختلف جماعتوں سے ٹکراؤ کی صورت پیدا ہو لہٰذا جب بھی کوئی اس سے یہ کہتا تھا کہ فلاں شخص شیعہ یا خارجی عقیدہ رکھتا ہےتو جواب میں یہی کہتا تھا: "خداوند عالم نے ایسا ہی فیصلہ کیا ہے کہ لوگ مختلف ہوں اور خود ہی اپنے بندوں کے درمیان حکمرانی کرے۔" (تجارب الامم؛ 2/ 15)
یہی اسکی حکومت کا طرز سلوک تھا کہ جس کی بنا پر عام لوگ بھی اس سے خوش رہتے تھے، البتہ اسکے زمانہ میں خوارج اسی کی پیروی بھی کرتے رہتے تھے اور مستورد بن علقمہ کے ہاتھ پر بیعت بھی کی اور بغاوت بھی کی تھی اور مغیرہ نے اس بغاوت سختی سے کو کچل بھی ڈالا تھا۔
نعمان بن بشیر جو سنہ ۵۹ ہجری میں کوفہ کی حکومت کا عہدہ دار نامزد ہوا تھا اور کوفیوں کیلئے پسندیدہ امیر بھی بننے کی کوشش کی تھی کہ اچانک معاویہ کی موت کے ساتھ کوفیوں کیلئے سخت شرائط و اسباب پیدا ہو جاتے ہیں جس کی بنا پر یہ امام حسینؑ کو اپنے یہاں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔
شائد ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قُرَّاء (قاریان و حافظان قرآن کی کثرت) اور صحابہ کی بڑی تعداد کی موجودگی کی بنا پر مذکورہ بالا خصلت و صفت کی زیادتی کے عوامل میں سے ایک یہ بھی تھا کیونکہ یہی لوگ خود ہی اپنے آپ کو حکومت کے مد مقابل مجتہد اور صاحب نظر شمار کرتے تھے لہٰذا ایسے حالات میں اپنی جان کی بھی پرواہ نہیں کرتے تھے، حکومت کے مقابل میں اپنا قد اونچا ہی رکھتے تھے جس کی واضح ترین مثال جنگ صفیں میں ہم مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
نہروان کے خوارج کی اکثریت خاص طور پر قُرَّاء و حافظان قرآن پر ہی مشتمل تھی۔ (مروج الذہب؛ 2/ 405)
ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں ایسے سماج و معاشرہ کو عادل اور روشن خیال امیر ہرگز راس نہیں آئے اور اس معاشرہ میں ایسے حاکم سے سوئے استفادہ بھی کیا گیا اور اختلاف کی صورت میں مقابلہ کیلئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس کی اطاعت نہیں کرتے۔ ایسی تمام مثالوں کو ہم امیر المومنینؑ کے ساتھ کوفیوں کے برتاؤ میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
تو ایسے سماج و معاشرہ کیلئے صرف زیاد بن سمیہ جیسے ہی حکمران مناسب ہو سکتا ہے کہ جو ظلم و ستم کے ذریعہ حکومت کی اطاعت پر مجبور کر ے۔
کوفہ کے سماج و معاشرہ کے برخلاف شام کا معاشرہ و سماج متمدن و تہذیب یافتہ اور غیر عرب لوگوں پر مشتمل تھا جو صدیوں سے حکومت کی فرمان برداری کے عادی ہو چکے تھے، اسی لئے معاویہ نے بڑے ہی آسانی سے ایسے معاشرہ کو قابو میں کر سکا۔ (جمہرۃ خطب العرب فی عصور العربیة الزاهر؛ صفوت احمد زکی، چاپ دوم مطبعة الحلبی، مصر، 1385 ق 1/ 420)
(ب) طالب دنیا ہونا
اگرچہ صدر اسلام میں اکثر مسلمان خالص اللہ کی رضا اور اسلام کی ترقی کی غرض سے فتوحات اسلام میں شرکت کرتے تھے لیکن ایسے افراد و قبائل بھی کم نہ تھے جو ان جنگوں میں شرکت کی غرض و غایت بس مال غنیمت سے ہی رکھتے تھے، یہ لوگ کوفہ میں بسنے کے بعد اس بات کیلئے آمادہ و تیار نہ تھے کہ اپنی دنیا کو ہاتھ سے چھوڑ دیں محض خطرہ کے احساس کی وجہ سے جو دنیا کی نسبت پیدا ہوتا تھا تو فوراً اس سے عقب نشینی کر لیتے تھے اور اس کے بر عکس جب خوشی و فائدہ کا احساس ہوتا تھا تو فوراً ہی اس میں داخل ہو جایا کرتے تھے۔
اس کا مصداق کلی ہم کو کوفیوں کی موجودگی دو جنگوں جمل و صفیں میں مشاہدہ کر سکتے ہیں۔
جب سنہ ۳۶ ہجری میں امیر المومنینؑ نے مدینہ سے عراق کی طرف بصرہ میں مقیم باغیوں سے مقابلہ کرنے کیلئے عراق كو نکلے تو کوفیوں سے مدد طلب کی، کوفیوں نے بھی دیکھا کہ امیر المومنینؑ کی حکومت ابھی نئی نئی ہے اور جنگ کے انجام سے خصوصیت کے ساتھ بصرہ کے فوج کی بڑی تعداد خوفزدہ تھي اور انکی کوشش بھی یہی تھی کہ مطالبہ کو ٹالا جائے اور آخر کار شدید ابلاغ و تشویق پر فقط ۱۲ ہزار افراد یعنی تقریباً ۱۰ فیصدی لوگ ہی کوفہ کی آبادی میں سے جنگ میں شرکت کرنے پر آمادہ ہوئی تھی۔ (تاریخ طبری؛ 3/ 513)
جنگ کے اختتام کے بعد سرداروں، خواص اور بزرگان کے اعتراضوں میں سے یہی ايک اعتراض تھا کہ آنحضرتؑ نے غنائم کی تقسیم نہیں کی تھی۔ (تاریخ طبری؛ 3/ 513)
لیکن جنگ صفین میں کوفیوں نے امام علیؑ کی حکومت کو مسلح دیکھا اور بہت زیادہ کامیابی کی امید بھی نظر آتی تھی تو جنگ میں شرکت کی طرف زیادہ رغبت کا اظہار کیا اس طرح سے کہ آنحضرت کے سپاہیوں کی تعداد اس جنگ میں ۶۵ ہزار افراد سے ۱ لاکھ ۲۰ ہزار سپاہیوں تک کا ذکر ملتا ہے۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 59 و مروج الذہب؛ 2/ 385)
ان میں بھی غیر کوفی افراد کی تعداد ناچیز ہی شمار کی جاتی تھی۔ جناب مسلمؑ سے بیعت کرنے والوں کی کثرت کو بھی اسی اصلی سبب کے تناظر میں تاویل کریں گے گرچہ لشکر میں مخلصین افراد کی تعداد اقلیت میں ہی ہمیں ملے گی۔
کوفہ کے لوگوں نے اس ہنگامہ میں معاویہ کی موت اور یزید کی حکومت جو شام کے مرکز میں ہونے کی وجہ سے کمزور ہوتا دیکھ رہے تھے اور دوسری طرف کوفہ کا حاکم نعمان بن بشیر کو بھی تحریک سے مقابلہ کی سنجیدگی کے ساتھ قادر نہیں سمجھتے تھے اسی بنا پر مخلص شیعوں کے بعض افراد نے سلیمان بن صرد خزاعی کی رہبری میں جلسہ کیا اور امام حسینؑ کو مدعو کرنے اور کوفہ میں بذریعہ آنحضرتؑ حکومت تشکیل دینے کیلئے تجویز رکھی گئی اور فوری طور پر ہی لوگوں نے اس کا استقبال بھی کیا کیونکہ کامیابی اور حکومت سازی کا قوی امکان پایا جاتا تھا۔
یہاں تک کہ عبید اللہ کے کوفہ میں وارد ہونے کے بعد بھی کامیابی کی امید ہاتھوں سے کھوئے نہیں تھے اور اسی بنا پر پھر بھی بہت بڑی تعداد جناب مسلمؑ کے ساتھ عبید اللہ کے قصر کے محاصرہ میں شریک تھے اور جب خطرہ کا احساس ہوا تو تیزی کے ساتھ تحریک سے کنارہ کش ہو گئے اور مسلم اور ہانی بن عروہ کو عبید اللہ بن زیاد کے سپرد کر دیا۔
اس خطرہ کا احساس اس وقت مزید بڑھ گیا جب شام کی فوج کے کوچ کرنے کی افواہ جو عبید اللہ کے حامیوں کی طرف سے لوگوں کے درمیان اڑائی گئی تھی جس کے خوف و ڈرطکو بھی دنیا کے طالب کوفہ والوں کا سبب شمار کر سکتے ہیں۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 277)
یہاں پر ہم امام حسینؑ کے حکمت آمیز کلام کو بیان کریں گے جو کربلا میں وارد ہونے کے وقت فرمایا تھا: "لوگ دنیا کے بندہ ہیں اور دین ان کی زبان پر چٹنی کے مثل ہے جب تک ان کی معیشت چل رہی ہے تو دین کے اوپر عمل کرنے والے ہیں لیکن جس وقت امتحان میں پڑتے ہیں تو دیندار بہت کم ہی نظر آئیں گے۔" (موسوعة کلمات الامام الحسینؑ؛ محمود شریفی و دیگر ہمکاران (معہد تحقیقات باقر العلوم متعلق بسازمان تبلیغات اسلامی) چاپ اول، دار المعروف، قم، 1415 ق: 373؛ بلاغة الحسینؑ اردو ترجمہ۔)
(ج) جذبات کے تابع ہونا
کوفہ کی زندگی کے مختلف حصوں کے مطالعہ کے ساتھ کر سکتے ہیں کہ ان خصوصیات کو انکا ہی خاصہ شمار کرنے کی سب سے بڑے سبب کو انکے دلوں میں ایمان کے عدم رسوخ کو مانا جا سکتا ہے، طبعی طور پر اسلام کی شان و شوکت کو دیکھنے کے ساتھ ہی قبائل اور افراد اس سے منسلک ہوگئے اپنی ہی دنیا کیلئے جنگ پر گئے پھر اسکے سوا ہم ان لوگوں سے توقع بھی کیا رکھ سکتے ہیں۔
شائد کوفیوں کا غداری، فریب کاری اور بے وفائی مشہور اس طرح سے ہوئے انہی کی بنیاد پر محاورے اور کہاوتیں وجود میں آگئیں جیسا کہ کوفی سے زیادہ غدار اور کوفی وفا نہیں کرتا مَثَلِیں بنیں نیز جذباتی ہونے کی خصوصیت بھی ابتدا ہی سے تھی جس کے مختلف اسباب ہیں۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ جس شخص نے کوفیوں کے جذبات کو کامیابی کے ساتھ بہتر طریقہ سے فائدہ اٹھایا ہے تو وہ جناب مختار ہی تھے۔ البتہ کوفیوں نے جیسے ہی محسوس کیا کہ ان کے خلاف حالات کے اوراق لکھے جا چکے ہیں تو ان لوگوں نے انہیں تنہا و بے یار و مددگار چھوڑ دیا یہاں تک کہ مصعب بن زبیر کے ہاتھوں قتل کر دیئے گئے۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 558)
(د) دیگر خصوصیات
بعض عصر حاضر کے بعض مؤرخین نے کوفہ کے معاشرہ کی مندرجہ ذیل خصوصیت کو بھی تحریر کیا ہے۔ (حیاہ الحسینؑ 2/ 420)
۱۔ عمل میں تناقض کا ہونا۔
۲۔ فریبکاری کرنا۔
۳۔ حکمران کی مخالفت کرنا۔
۴۔ مشکلات کے روبرو ہوتے ہی راہ فرار اختیار کرنا۔
۵۔ بد اخلاق ہونا۔
۶۔ لالچ اور حرص کرنا۔
۷۔ غلط تبلیغات کے اثر کو جلد قبول کرنا۔
ایسا لگتا ہے کہ جن خصاصیات کو ہم نے شمار کیا ہے بطور اصل انکی وجوہات و علل کو بیان کر سکتے ہیں۔
۴- اهل كوفه كا امامؑ کو مدعو كرنا نیز نامہ نگاری کی وجوہات
امام حسینؑ کو مدعو کرنا اور خطوط لکھنے کی ابتدا سنہ ۴۹ یا ۵۰ ہجری میں ہی ہوئی یعنی امام حسنؑ کی شہادت کے بعد جعدہ بن ہبیرہ بن ابی وہب کے ذریعہ شروع ہوا۔ (الاخبار الطوال؛ 221)
امام حسنؑ کے احترام میں جو آنحضرت نے معاویہ کے ساتھ صلح نامہ پر دستخط کئے تھے متوقف ہو گیا تھا جو امام حسینؑ کے جواب اور احترام برادر بزرگ کے سبب لہٰذا امام ؑنے تحریک کی ابتدا نہیں کی اور خاموش رہے۔ (بحار الانوار؛ 44/ 334)
پھر معاویہ کی موت کے بعد سنہ ۶۰ ہجری میں دوبارہ شروع ہو جاتا ہے، آنحضرت نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور مدینہ سے مکہ کی طرف روانگی کے بعد دوبارہ خطوط نویسی کا آغاز ہو گیا اور اسکے بعد مزید تیزی آگئی اس طرح سے کہ آنحضرت تک خطوط پہونچنے کا سلسلہ روزانہ ۶۰۰ خطوط تک پہونچی اور تمام خطوط کی تعداد ۱۲ ہزار تک پہونچنے کا تذکرہ کتابوں میں ملتا ہے۔ (تجارب الامم؛ 2/ 59)
البتہ ممکن ہے کہ ۱۲ ہزار خطوط کی تعداد درست و صحیح نظر آتی ہو کیونکہ ممکن ہے کہ ایک ہی خط چند افراد کے ناموں سے اندراج ہوا ہوگا اور امام حسینؑ نے بھی تمام یا بعض خطوط کو اپنے پاس ایک تھیلے میں رکھتے تھے اور کوفہ کی طرف سفر کے دوران انہیں اپنے ہمراہ بھی لے جاتے تھے۔
کلی طور پر خطوط نویسی کیلئے مندرجہ ذیل اسباب کا تذکرہ کر سکتے ہیں:
١- خطوط لکھنے والی ایک جماعت جو امیر المومنینؑ کے خاص شیعہ میں سے تھے اور آنحضرت کے عدل و انصاف کو دیکھ بھی چکے تھے جیسے سلیمان بن صرد خزاعی، رفاعہ بن شداد بجلی، مسیب بن نجبہ وغیرہم
نیز بنی امیہ کے دو سالہ ظلم و جور کے تسلط سے عاجز ہو گئے تھے اور معمولی سی فرصت اور وقفہ کی تلاش میں تھے تاکہ بنی امیہ کے خلاف تحریک شروع کریں اور امام حسینؑ کی معتبر شخصیت پھر آنحضرت کا یزید کی بیعت سے انکار کرنا بھی ان کیلئے بہتریں موقع و محل تھا۔
۲۔ حضرت علیؑ کے زمانہ میں کوفہ اسلامی خلافت کے شہروں میں سے اہمترین شہر شمار کیا جاتا تھا کیونکہ قانونی لحاظ سے حکومت وقت کا دار الخلافہ بھی تھا، اس دوران اس شہر کا رقیب شام بھی تھا جس کی حکومت معاویہ کے ہاتھ میں تھی لیکن اس حکومت غیر قانونی بھی تھی تو کوفہ اس رقابت میں کامیاب و کامران ہی تھا، یہ بدیہی ہے کہ اس شہر کو دار الخلافت کے علاوہ سیاسی اہمیت کے علاوہ معاشرتی و اقتصادی فوائد بھی حاصل تھے اسی بنا پر یہاں پر سکونت کا ارادہ رکھنے والوں کو اپنے میں جذب کرتا تھا۔ لیکن معاویہ کا مملکت اسلامی کے مقدرات پر تسلط کے بعد اور انکا کوفہ سے متنفر و متخاصم ہونے کے سبب یہ بھی معمولی شہر کی حیثیت سے بھی نیچے گر گیا تھا۔
اسی بنا پر معاویہ کی موت کے بعد لوگوں نے اس شہر کو دار الحکومت ہونے کے اچھے زمانہ کو یاد رکھے ہوئے تھے جو جبکہ موجودہ حالات میں اسکی قدر و منزلت نہیں جانتے تھے تو اسکی جد و جہد کیلئے کوشاں ہوئے کہ اپنی عظمت رفتہ کو پا سکے یہی فکر کار فرما بھی تھی۔
ان دلائل کو بہت سے خطوط سے حاصل کر سکتے ہیں نہ کہ تمام خطوط میں سے!
۳- خطوط نویسی کی ابتدا ہونے کے ساتھ ہی کوفہ میں بے انتہا ہیجان کا سبب بھی بنا اور بہت سے لوگوں نے بھی اسی حالات کے ما تحت خطوط لکھے تھے۔
۴- قبائل کے سرداروں اور صاحبان نفوذ میں سے بہت سے لوگ خاندان اہلبیتؑ سے قلبی طور پر خوش تو نہیں تھے اسی سبب خطوط لکھے کہ کہیں قافلہ سے بچھڑ نہ جائیں اور امام حسینؑ کی توسط سے حکومت تشکیل پائے تو اس میں اپنی سرداری و نفوذ کو محفوظ کر لیں جیسے شبث بن ربعی، حجار بن ابجر، یزید بن حارث، قرہ بن قیس، عمرو بن حجاج زبیدی اور محمد بن عمیر بن عطارد۔
(الأخبار الطوال؛ 229)
لہٰذا ان لوگوں نے جذبات و احساسات سے بھر پور خطوط امام کو لکھے اور آنحضرت کو کوفہ آنے کی دعوت بھی دی لیکن جیسے ہی حالات نے کروٹ بدلی تو ان لوگوں نے ایسے حساس موقع پر ہی سپاہ عمر بن سعد میں شمولیت اختیار کر لی۔
اس طرح سے کہ امام حسینؑ نے روز عاشورا لشکر کوفہ کے سامنے کھڑے ہو کر خطاب فرمایا ہے: "اے شبث بن ربعی، اے حجار بن ابجر، اے قیس بن اشعث اور اے یزید بن حارث! کیا تم ہی لوگوں نے مجھے خطوط تحریر نہیں کئے تھے کہ پھل پک چکے ہیں اور توڑنے کے قریب ہو گئے ہیں کھجور سبز اور زمین سر سبز و شاداب ہوگئی ہے اور فوج آپ کے انتظار میں آمادہ و تیار ہے، بس آپ چلے ہی آئے۔" (تاریخ طبری؛ 4/ 323)
گفتار دوم میں ملاحظہ کیجئے
ایک تبصرہ شائع کریں