شمر کا قبیلہ بنی کلب تھا یا قبیلہ بنی کلاب



  کیا حقیقت میں حضرت عباس سے رشتہ میں شمر ماموں لگتا تھا.؟

برائے مہربانی دقیق سند کے ساتھ واضح کیجئے. 


بعض مغرض قسم کے جاہل لوگ بالآخر شمر بن ذی الجوشن جو امام حسینؑ کا قاتل اور امیر المومنینؑ کی دوسری زوجہ ام البنین حضرت ابو الفضل العباس کی مادر گرامی کی طرف سے یہ جھوٹا پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ خاندانی رشتہ داری قائم رہی ہے.

اس افترا کا منشا وہ کلمات ہیں جو مورخین نے شمر کے بقول شب عاشورا نقل کیا جاتا ہے کہ اسی رات میں امان نامہ کے ساتھ جناب عباس کے خیمہ کے پاس آیا تھا اور اس طرح سے آواز دی تھی:

«اے میری بہن کی اولاد! میں نے تمہیں امان دیا ہے اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور امیر یزید کی اطاعت کو مضبوطی سے تھام لو.». [سید بن طاؤس اللهوف ص ۸۷- علامه مجلسی جلاء العیون ص ۵۷۰.]

اگر شمر بن ذی الجوشن، عباس بن امیر المومنینؑ کا رشتہ میں ماموں لگتا تھا تو ہمیں ام البنین کو ان اس کی بہن تصور کریں گے جبکہ ایسا ہرگز نہیں ہے.

ام البنین کے والد:

حزام بن خالد بن ربیعة ہیں.

شمر کا باپ:

جوشن بن شرحبیل بن اعور ہے.

یہ بات درست ہے کہ ام البنین اور شمر دونوں ہی قبیلہ بنی کلاب سے تعلق رکھتے ہیں.

لیکن سگے بہن اور بھائی کا رشتہ ہرگز نہیں رکھتے تھا.

جس وقت شمر امان نامہ کو بہانہ بنا کر ایک ہی قبیلہ کے ہونے کی دہائی دے کر اس نے کہا تھا کہ بھانجے کہاں ہیں.!!!

ام البنین اور شمر دونوں ہی «بنی کلاب» کے قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور دونوں کا ہی شجرہ چند واسطوں سے «کلاب» تک پہونچتا ہے.

«کلاب» کے ۱۱ بیٹے تھے.

جن ۱۱ بیٹوں میں سے ایک کا نام «کعب بن کلاب»

دوسرے کا نام «ضِباب بن کلاب» ہے

جناب ام البنین «کعب بن کلاب» کی نسل سے ہیں.

شمر «ضِباب بن کلاب» کی نسل سے ہے.


★ أم البنین کا شجرہ:

أم البنين بنت حزام بن خالد بن ربیعة بن الوحيد بن کعب بن کلاب.

★ شمر کا شجرہ:

شمر بن ذی‌ الجوشن (جُميل) بن الأعور (عمرو) بن ضِباب (معاوية) بن کلاب.


حضرت عباس کلاب کی طرف سے ان کی بیٹی ام البنین کے فرزند ہیں اور شمر کلاب کے بیٹے کی طرف سے اولاد کی نسبت ہے.[مقتل الحسین، ص ۲۰۹، سید عبد الرزق موسوی مقرم، قم، منشورات دار الثقافة و النشر، نقل از جمهرة أنساب العرب، ۲۷۰، ۲۶۵ ـ ۲۶۱.]

شمر نے جب ابن سعد کو قتال پر آمادہ دیکھا تو لشکر امام کے قریب آن کر آواز دیتا ہے کہ میری بہن کے بیٹے عبد اللہ، جعفر، عثمان اور عباس کہاں ہیں؟

چونکہ ان چاروں بھائیوں کی والدہ ام البنین بنت حزام بھی بنی کلاب کے ہی قبیلہ سے تھیں.

یعنی (کلابیہ) کلابی، (عامریہ) عامری و (ہوازنیہ) ہوازنی کہلائے.

نیز شمر اسی قبیلہ کلاب جو بنی ہوازن کی ہی ایک شاخ سے تعلق رکھتا تھا.

 یعنی ضبابی، کلابی، عامری، ہوازنی کہلایا.

قبیلہ بنی ہوازن کا شجرہ:

کِلاب بن ربیعة بن عامر بن صَعصعة بن معاویة بن بَکر بن هَوازن بن منصور

امام حسینؑ نے جب اس کی آواز کو سنا تو ام البنین کی اولاد یعنی اپنے بھائیوں سے فرمایا: اس کا جواب دو بھلے ہی وہ فاسق ہے لیکن كيونكہ وہ تمہارے ساتھ قرابت اور رشتہ داری بھی رکھتا ہے.

پھر ان سعادتمند بھائیوں نے اس شقی سے کہا: تمہارا کام کیا ہے؟ تب اس ملعون نے کہا: اے میری بہن کے بیٹو! تم سب بھائی امان میں ہو اپنے بھائی حسینؑ کے ساتھ جنگ میں شرکت مت کرو بلکہ اپنے بھائی سے جدا ہو جاؤ اور اپنا سر امیر یزید (ملعون) کے سامنے اطاعت کیلئے جھکا دو.

جناب عباس بن امیر المومنینؑ نے بلند آواز سے جواب میں فرمایا: تیرا ہاتھ ٹوٹے! اور تیری امان پر لعنت ہے کہ جو تو ہمارے لئے لایا ہے. اے دشمن خدا! تو ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے بھائی اور مولا حسینؑ بن فاطمہ (س) سے دست بردار ہو جائیں اور ملعون بن ملعون کی اطاعت میں سر تسلیم خم کر دیں. کیا صرف ہمیں ہی امان دے رہے ہو اور رسولخدا (ص) کے فرزند کیلئے کوئی امان نامہ نہیں ہے؟

شمر ان کلمات کو سن کر سخت غضبناک ہوا اور اپنے لشکر میں واپس پلٹ گیا.


نتیجه:


حضرت امّ البنین کا شمر بن ذی الجوش سے کوئی قریبی رشتہ داری ہرگز نہیں تھی بلکہ قدیم قبیلہ کی رسم و رواج کے مطابق دور کی بھی رشتہ داری کا پاس و لحاظ ظاہر داری کے طور پر کیا کرتے تھے اور یہ فریبکارانہ باتیں کر کے شمر یہی چاہتا تھا کہ امام حسینؑ کی حمایت کرنے والے اہمترین ستون اما البنین کی اولاد ہی تھے تا کہ ان برادران کی حمایت کو بنی امیہ کی طرف موڑ سکے لیکن  حضرت عبّاس نے بھی دندان شکن جواب دیتے ہوئے فرمایا: «تیرے دونوں ہاتھ شل ہو جائیں نیز ٹوٹ جائیں اور تیری امان پر خداوند عالم کی لعنت ہے. اے دشمن خدا! تو ہمیں حکم دے گا کہ اس بات پر کہ اپنے بھائی اور سردار امام حسینؑ کو ہم بے یار و مددگار تنہا چھوڑ دیں اور پھر ہم ملاعین بن ملاعین کی اطاعت میں سر تسلیم خم کرتے ہوئے داخل ہو جائیں … ». [سید بن طاؤس اللهوف ص ۸۷- علامه مجلسی جلاء العیون ص ۵۷۰.]


آیا واقعا شمر بن ذی الجوشن، دایی حضرت عباس (ع) بوده است؟

+

اسناد دقیق



 ★ سوال: لفظ کلب كا معنی کتا کے ہیں تو قبیلہ بنی کلاب کو اس نام سے کیوں پکارا جاتا ہے؟


جواب: قبیلہ بنی کلاب عرب کے ایک بہت بڑے اور اہمترین قبائل میں سے ایک بہادر و شجاع قبیلہ ہے کہ جن کی شجاعت و بہادری نیز جنگجو و لڑاکو افراد جنگوں میں شجاعت کے جوہر دکھانے میں شہرت رکھتے تھے اسی لئے جس وقت جناب امیر المومنینؑ (ع) نے اپنے بھائی "عقیل" جو کہ علم نسب شناسی اور قبائل عرب کی تاریخی حیثیت کی بھی شناخت اور پہچان رکھتے تھے اسی میں ماہر بھی تھے.

امیر المومنینؑ نے فرمایا: میں اپنے لئے ایک ایسی زوجہ چاہتا ہوں جس سے ایک ایسا فرزند متولد ہو جو شجاعت و بہادر ہو.

اسی وجہ سے جناب عقیل نے قبیلہ کلاب کے سردار حزام کہ دختر جناب فاطمہ کلابیہ کا نام تجویز کیا جنہیں بعد میں ام البنین کے لقب سے لوگ پکارنے لگے. نیز اس معظمہ کے بطن سے ۴ فرزند بہت ہی شجاع و بہادر متولد ہوئے جن میں سب سے زیادہ حضرت عباس علمدار کو شہرت حاصل ہے. (یہاں تک کہ ثانی حیدر کے لقب سے بھی لوگ صدا دیتے ہیں.) (ابن عنبة، أحمد، عمدة الطالب فی انساب آل ابیطالب، انصاریان، 1385ش، قم، 1/ 356.)

اسی طرح سے قریش کے شجرہ اور پیغمبر اسلام کے آبا و اجداد کے درمیان بھی "کلاب" کا نام پایا جاتا ہے اور "قصی بن کلاب بن مرہ" کو بھی پیغمبر اکرم (ص) کے اجداد اور قریش میں شمار کیا جاتا ہے. (یعقوبی، تاریخ، ترجمه ابراهیم آیتی، انتشارات علمی فرهنگی، 1371ش، تهران، 1/ 304 ترجمه.)

پھر "کلاب اور بنی کلاب" کے کیا معنی ہوتے ہیں؟

لغت کی کتابوں میں "کلاب" کیلئے مختلف معانی بیان ہوئے ہیں.


بعض کہتے ہیں کہ "بنی کلاب" عرب کے ایک بڑے قبیلہ کا نام ہے. (ابن درید ازدی، اشتقاق، مکتبة الخانجی، 1378ق، قاهره، ص 20.)

بعض کا یہ نظریہ ہے کہ "کلاب" سر زمین یمامہ اور بصرہ کے درمیان ایک پانی نہر یا ندی کا نام رکھا ہے اور دو اہمترین واقعات بھی اسی مقام پر رونما ہوئے ہیں کہ جنہیں کلاب اول اور کلاب دوم کا نام دیا ہے. (یاقوت حموی، معجم البلدان، دارصادر، 1995ق، بیروت، 4/ 472.)

بعض کا کہنا ہے کہ "کلاب" لفظ کلب (کتا) کی جمع ہے. (فرهنگ نفیسی، علی اکبر نفیسی، ناظم الاطبا، خیام، بی تاريخ، تهران، ص 236.)




DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS


Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی