علم اور علمداری دور جاہلیت سے عاشورا تک-1


 



علم اور علمداری از جاهلیت تا عاشورا


ترجمہ : جون رضا مبارکپوری

(امام جمعہ شہر مئو)

مبائل نمبر : 8081797479


ملتوں اور قوموں میں علمداری کا پس منظر


    قبائل کے درمیان علم کا استعمال کرنا چاہے جنگ کا زمانہ ہو یا پھر صلح کا دور ہو بہر حال زمانہ قدیم کی طرف ہی باز گشت ہوتی ہے جیسا کہ تاریخی کتابوں سے معلوم ظاہر ہوتا ہے، مختلف تہذیب و تمدن میں عموما مصریوں، ایرانیوں، یونانیوں اور عربوں وغیرہم اس سے بہرہ مند ہوئے ہیں۔ بھلے ہی دقیق طور پر یہ مشخص یا معلوم نہیں ہے کہ پہلی بار کن لوگوں کے ذریعہ اور کس زمانہ میں اس کا استعمال ہوا ہے؛ لیکن مشہور یہی ہے کہ علم کو سب سے پہلی بار جناب ابراہیمؑ ؑکے توسط سے حضرت لوطؑ نبی کو اپنے زمانہ کے طاغوت کی قید خانہ سے آزاد کرانے کیلئے استعمال کیا ہے۔ (ماہ در فرات، ابو الفضل ہادی منش، قم، انتشارات مرکز پژوهشهای اسلامی صدا و سیما، چاپ اوّل، 1381ـ شمسی، ص 67.)

    ایرانیوں کے درمیان ایک علم کافی شہرت رکھتا ہے جسے درفش کاویانی (پرچم کاویانی یا کاویانی کا علم) کہا جاتا ہے اسے اس نام سے پکارنے کی  علت یہ تھی کہ سر زمین ایران اس زمانہ کے ضحاک بادشاہ کے خلاف کاوہ آهنگر (لوہار) کے ذریعہ اس علم کو بلند کیا۔ جو اس کا اپنا سرخ رنگ کا چرمی پیش بند (جسے اپنی گردن پہن یا کمر میں باندھ کر اپنے اگلے جسم کو آگ کی تپش سے بچاتا ہے بالکل ویسا ہی جسے انگریزی زبان میں ایپرن کہا جاتا ہے) تھا اسے ہی ایک لکڑی کے اوپری سرے پر قرار دیا اور حکومت وقت کے خلاف علم کو بلند کر کے اپنی بغاوت کا اعلان کیا اور اس کے بعد سے "درفش کاویانی" یعنی کاویانی کا علم کے نام سے اسے شہرت حاصل ہوئی، اسی درفش کاویانی کا نام ایران اور عرب کی جنگ میں بھی تذکرہ ملتا ہے۔ (ماہ در فرات، ص 67؛ تاریخ التمدن الاسلامی،  1/ 180 {حاشیہ})


عربوں میں علم اور علمدار کی اھمیت


    اعراب کے درمیان ایک اہمترین منصب علمداری یا علم برداری ہوا ہے کہ جس کے ذریعہ جنگوں میں فخر و مباہات کیا کرتے تھےکیونکہ علم عملی میدان میں ایک دوسرے سے تعلقات کی علامت اور اتحاد کے شعار کے طور پر ہوتی تھی اس طریقہ سے کہ جب بھی علمدار سے پرچم سرنگوں ہو جاتا تھا تو ایک طرح کی شکست اور لشکر کیلئے جدائی و تتر بتر یا منتشر ہونا شمار کیا جاتا تھا۔ جنگوں کے مواقع پر عربوں دور جاہلیت میں اسے اپنے لشکر کے کسی ایک سردار کے ہاتھ میں دیتے تھے۔

قبیلہ قریش کا علم جس کا نام "عقاب" رکھا اور اس کی علمداری کا منصب قریش کی ایک شاخ قبیلہ بنی عبد الدار کے سپرد کر رکھی تھی۔ (سابقہ حوالہ، ص 30.)

    مورخین نے تحریر کیا ہے کہ جس وقت پیغمبر اسلامؐ کے آباء و اجداد میں سے چوتھے جد جناب قصی بن کلاب نے سر زمین مکہ پر قدرت و تسلط حاصل کیا تو قریش کے تمام مناصب اور عہدوں کو انہیں ہی تفویض کیا پھر انہوں نے ان مناصب کو اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کیا اور علمداری کے منصب کو اپنے بیٹے جن کا نام عبد الدار تھا ان کے سپرد کرتے ہوئے فرمایا: آج کے بعد کوئی بھی کعبہ میں وارد نہیں ہوگا مگر جنہیں تم اجازت دو گے اور آج سے کوئی بھی علم باندھا نہیں جائے گا مگر یہ کہ تم ارادہ کرو تب ہی سے خانہ کعبہ کی پردہ داری اور علمداری بنی عبد الدار کے پاس ہی باقی رہی۔  (السیرۃ النبویۃ لابن کثیر، ابو الفداء، اسماعیل بن کثیر، بیروت، دار الرائد العربی، چاپ سوم، 1407 ھ، 1/ 100.)

    (بعض تاریخ اسلام کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تاریخ بشریت میں سب سے پہلے جو سفید رنگ کا علم مظلوم کی حمایت میں بلند کیا گیا تھا وہ ذات گرامی جناب شیثؑ ابن آدمؑ کی تھی۔مترجم)

    ایک طرح سے جنگ احد میں ابو سفیان نے اپنے چچازاد بھائیوں کے ساتھ ایک لفظی مشاجرہ میں کہا: تم لوگ علمداری کی لیاقت نہیں رکھتے، کیونکہ جنگ بدر کے روز تم نے اس کی کما حقہ پاسداری نہ کر سکے اور ہم اس جنگ میں شکست کھا گئے! اگر اب بھی تم اس کی لیاقت نہیں رکھتے تو پرچم کی علمداری ہمارے حوالہ کر دو۔


اسلام میں علمداری


    جیسا کہ اکثر مورخین نے کہا ہے: چونکہ پرچم و علم اتحاد کی نشانی اور جنگوں میں متمائز ہونا شمار کیا جاتا تھا لہٰذا بہت زیادہ اہمیت کا حامل رہا ہے پس ظہور اسلام کے بعد بھی خود علم کی ماہیت یا حیثیت ختم نہیں ہوئی بلکہ اس کی قدر و قیمت اور منزلت محفوظ رہی۔

    امیر المومنینؑ علم کی اہمیت کو مجاہدین اسلام کے ذریعہ محفوظ رکھنے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

وَ رَأیَتَکُمْ فَلاتُمیلُوها وَلاتُخِلُّوها، وَلاتَجْعَلُوها إِلاّ بِأَیْدِی شُجْعانِکُمْ وَالْمانِعینَ الذِّمارَ مِنْکُمْ فَإِنَّ الصّابرینَ عَلی نُزُولِ الْحَقائِقِ هُمُ الَّذینَ یَحُفُّونَ بِرأیاتِهِمْ وَیَکْتَنِفُونَها حَفافَیْها وَوَراءَها وَأَمامَها لا یَتَأَخَّرُونَ عَنْها فَیُسْلِمُوها وَلا یَتَقَدَّمُونَ عَلَیْها فَیُفْرِدُوها. 

    ہرگز اپنے علم و پرچم کو اس کی اپنی جگہ سے اِدھر اُدھرمت ہٹاؤ اور اس کے ادر گرد کی جگہ کو خالی مت چھوڑو اور اسے صرف اپنے شجاع و بہادر ہاتھوں کے سپرد کرو، وہ لوگ تمہاری جانوں کی بد قسمتی مقابل میں حمایت و حفاظت کرتے ہیں کیونکہ وہ لوگ سخت ترین حادثات میں شدید مستحکم ہوتے ہیں، لہٰذا یہی لوگ علم کی بہتر پاسداری کرتے ہیں اور ہر طرف، آگے پیچھے اور اطراف سے علم کے محافظ ہوں گے، نہ ہی عقب میں رہیں گے اسے تسلیم و سرنگوں کرنے والے ہوں گے اور نہ ہی اتنا آگے بڑھ جائیں گے کہ تنہا اور اکیلا چھوڑ دیں۔ (نہج البلاغہ، دشتی، خطبہ:  124.)

    یہاں پر یہ بات بالکل واضح ہے کہ علم ہی لشکر کے رابطہ و اتحاد کی علامت ہونے کی دلیل کی بنا یہی ہے کہ دشمن کےا ہداف میں سے ایک ہدف یہ بھی ہوتا ہے کہ علمدار کو ختم کردیا جائے اور علم کو سر نگوں کر تے ہوئے اسے زمین بوس کر دیں تا کہ مد مقابل کے جنگجوؤں کی نفسیات کو کمزور و ضعیف کر تے ہوئے انہیں شکست دیدیں۔  

اسی لئے امیر المومنین نے اس کی سب سے زیادہ حفاظت کی سفارش فرمائی ہے۔ ہادیان دین کی سیرت عملی سے ہمیں یہی سمجھ میں آتا ہے کہ علم اور علمداری کی بنسبت بہت زیادہ توجہ دلائی گئی ہے۔ 

    پیغمبر اسلامؐ نے غزوہ تبوک میں چند علموں میں سے ایک علم عُمارہ بن حَزم کو دیا، اسی وقت زید بن ثابت راستہ طے کر کے پہونچے تو پیغمبر خداؐ نے ان سے علم واپس لے کر زید کو دیدیا جو عمارہ کے غم و اندوہ کا باعث بنا، تب انہوں نے پیغمبر اکرم کی طرف توجہ کرتے ہوئے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! ایسا لگتا ہے کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں۔ (کہ علم مجھ سے لے کر زید بن ثابت کو دیدیا) تو رسولخداؐ نے جواب میں ارشاد فرمایا:

لا وَاللهِ! وَلکِنْ قَدِّمُوا الْقُرْانَ وَ کانَ اَکْثَرُ اَخْذاً لِلْقُرْآنِ مِنْکَ وَالْقُرْآنُ یُقَدِّمُ وَ اِنْ کانَ عَبْداً اَسْوَداً مُجَدَّعاً.

    خدا کی قسم! (میں ناراض نہیں ہوں) لیکن قرآن کو مقدم کو مقدم رکھو اور وہ تم سے زیادہ قرآن سے بہرہ مند ہوئے ہیں اور قرآن ہی مقدم رکھتا ہے یہاں تک کہ اگر ایک نکٹا (ناک کٹا ہوا) حبشی غلام بھی ہوگا تو قرآن کی بنا پر ہی اسے مقدم رکھا جائے گا، لہٰذا اسی وقت مدینہ کے دو قبائل اوس اور خزرج کو آنحضرتؐ نے دستور فرمایا تا کہ وہ اپنے علموں کو انہی افراد کے سپرد کریں جو لوگ قرآن کا زیادہ علم رکھتے ہیں۔  (کتاب المغازی، محمد بن عمر بن واقد، بیروت، مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات، چاپ سوم، 1989 ء.، 3/ 1003.)

    امیر المؤمنینؑ نے بھی اسی موضوع کو مد نظر رکھا اور علم کو انہی افراد کے حوالہ کیا جو آپ کے لشکر میں سب سے زیادہ ایمان رکھتا تھا۔

    مورخین نے یہ بھی تحریر کیا ہے: جنگ جمل میں اپنے لشکر کا علم امام علیؑ نے اپنے فرزند رشید محمد بن حنفیہ کو دیا اور انہیں یہ ہدایت بھی فرمائی:

تَزُولُ الْجِبالُ وَلا تَزُلْ! عَضَّ عَلَی ناجِذِکَ! اَعِرِاللهَ جُمْجُمَتَکَ! تِدْ فِی الأَرْضِ قَدَمَکَ! اِرْمِ بِبَصَرِکَ اَقْصَی الْقَوْمِ وَ غُضَّ بَصَرَکَ وَاعْلَمْ اَنَّ النَّصْرَ مِنْ عِنْدِاللهِ سُبْحانَهُ.

    اگر پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جائے مگر تم اپنے ہی مقام پر محکم طور پر جمے رہو! اپنے دانتوں کو دانتوں پر جما کر بھینچ لو! اپنے سر کو خداوند عالم کے سپرد کر دو! اپنے پیروں کو زمین پر مضبوطی سے مستحکم کر لو! (دشمن کے) لشکر کے آخری صف پر نظر رکھو اور (دشمن کی کثیر تعداد) کو نظر انداز کرو اور یہ کان لو کہ کامیابی و کامرانی قادر مطلق اللہ ہی کی طرف سے ہی ملتی ہے۔ (نہج البلاغۃ، دشتی، خطبہ:  11.)

    یہ ہدایات امام نے اسی لئے فرمائی ہیں کہ لشکر و فوج میں علمدار کا عہدہ ایک اہمترین اور کلیدی کردار رکھتا ہے، کیونکہ فوجی اعتبار سے علمداری کا عہدہ کامیابی اور شکست کیلئے شاہ رگ کی حیثیت شمار ہوتا ہے اور اعتقاد کے اعتبار سے بھی سپاہ اسلام کا علم اسی کے سپرد کرنا چاہئے جو سب سے زیادہ متقی و پرہیزگار ہو۔ (لہٰذا ایسا ہی علمدار شخص اس علم کی کما حقہ ذمہ داری ادا کر سکتا ہے۔) 

    جیسا کہ رسول اکرم نے بھی ضمنی طور پر علم اور علمداری کی اہمیت و کردار کو اسی معنی کی طرف اشارہ فرماتے ہیں اور علمدار کا نام، حسب و نسب بھی پوچھتے رہتے تھے۔

    جس طرح کا رسم و رواج مورخین نے اپنی کتابوں درج کیا ہے: رسولؐ اسلام کی رکاب میں جنگ حنین طفیل بن عمرو دوسی نے شرکت کی تو آنحضرتؐ نے انہیں اس امر پر مامور فرمایا کہ وہ ذی الکفّین نامی بت کو منہدم کر دیں۔

(طائف میں ذی الکفّین نام کا ایک بت تھا کہ جسے عمرو بن حملہ نے بنایا تھا اور یہی معروف بت تھا جس وہ لوگ پرستش کیا کرتے تھے۔) 

    جو مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ حملہ ور ہوئے کہ جن کی تعداد ۴۰ افراد تک پہونچتی ہے اور ذی الکفّین نامی بت کو منہدم کرنے کے بعد ہی واپس ہوئے تب پیغمبر اسلامؐ نے فتح کی مبارکبادی پیش کرتے ہوئے ان لوگوں سے سوال فرمایا: اس حملہ میں تمہارا علمدار کون تھا؟ طفیل بن عمرو نے جواب میں عرض کیا: وہی شخص (ہمارا) علمدار تھا جو اس سے پہلے بھی تھا، تب پیغمبر خداؐ نے فرمایا: جی ہاں! تم نے سچ کہا، وہ  "نعمان بن زرافہ لِہْبی" تھے۔ (کتاب المغازی، محمد بن عمربن واقد، 3/ 922.)

    اس مختصر سی گفتگو سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اللہ کے رسولؐ جنگوں میں علمدار کی بنسبت کتنے حساس اور دقیق نظریہ رکھتے ہیں۔


مسلمانوں کا سب سے پہلا عَلَم



    رسولخداؐ کا مکہ سے یثرب کی طرف ہجرت کے بعد ۷ مہینے گذرے ہی تھے کہ "سریہ حمزہؑ بن عبد المطلب" پیش آیا، (جناب حمزہ پیغمبرؐ اسلام کے چچا تھے۔) 

    مورخین نے رقم کیا ہے: یہی پہلا ہی موقع تھا کہ سب سے پہلی بار خود پیغمبر اکرمؐ نے بنفس نفیس اپنے ہی دست مبارک سے علم باندھ کر تیار کیا اوراسے سید الشہدا حضرت حمزہؑ کے حوالہ فرمایا تا کہ جنگ پر روانہ ہوں، اس جنگ میں لشکر اسلام کی کل تعداد صرف ۳۰ سواروں نے ہی شرکت کی تھی جن میں نصف تعداد مہاجرین اور نصف تعداد انصار کی تھی، اسی بنا پر ہم سید الشہدا جناب حمزہؑ کو ہی اسلام کا سب سے پہلا علمدار شمار کر سکتے ہیں۔ (السیرۃ النبویۃ، ابن ہشام، 1/ 9.)


پرچم و پرچم داری از جاهلیت تا عاشورا

}i{ مترجم : ابو دانیال اعظمی بریر }i{

بقیہ آئندہ دوسری قسط میں ملاحظہ کیجئے!

ان شاء اللہ المستعان العلی العظیم


DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی