امام حسن عسکریؑ نے اسحاق کندی کے ذہنی خبط کو دور کیا
محمد رضا (ایلیاؔ)
مبارکپور ، اعظم گڑھ ، انڈیا
موبائل نمبر: 9369521135
امام حسن عسکریؑ جنہیں بالواسطہ اور بلا واسطہ خلفائے عباسیہ کے ظالموں کے دست استبداد سے متاثر ہونا پڑا۔ کبھی آپ کے والد ماجد کو قید کیا گیا، کبھی آپ کے گھر کی تلاشی لی گئی، کبھی آپ کو قید ظلم میں بند کیا گیا، کبھی نظر بندی کی زندگی بسر کر نے پر مجبور کیا گیا۔ غرض کہ آپ کا کوئی لمحہ حیات پر سکون نہیں گزرا۔ آپ نے صرف 28 برس کی عمر مبارک پائی تھی۔ انہیں وجوہات سے آپ کے کمالات علمیہ کا کما حقہ اظہار و انکشاف نہیں ہو سکا۔ مگر آپ دنیا میں اتنے دنوں بقید حیات رہے ہی نہیں کہ آپ کے فضائل و مناقب اور علوم حکم لوگوں پر ظاہر ہو سکیں۔ مگر ان حالات میں بھی آپ نے اپنے علم لدنی، اپنے والد محترم سے حاصل کردہ علم کے سہارے تبحر علمی کے ساتھ بڑے بڑے علمی کارناموں سے لوگوں کو حیران کر دیا۔ آپ نے مخالفین اسلام اور عظیم لو گوں سے اہم مناظرے کیے اور علم و حکم کے دریا بہائے ہیں۔ آپ کے علمی کارناموں میں ایک اہم کارنامہ قرآن مجید کی تفسیر ہے جو ’’تفسیر امام حسن عسکریؑ‘‘ کے نام سے بہت مشہور ہے۔ تفسیر قرآن کا ایک مکمل اور تفصیلی متن امام حسن عسکریؑ (تفسیر امام حسن عسکریؑ) سے منسوب ہے کہ جو امامیہ کے قدیمی آثار میں شمار ہوتا ہے۔
علم حدیث میں آپ کو فقیہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اپنے اصحاب کے درمیان اس لقب سے خصوصی طور پر پہچانے جاتے تھے۔ اسی بنیاد پر فقہ کے بعض ابواب میں آپ سے احادیث منقول ہیں۔ البتہ امامیہ مذہب کی فقہ کا بیشترین حصہ حضرت امام جعفر صادقؑ سے ترتیب شدہ ہے اور اس کے بعد فقہ نے اپنے تکمیلی مراحل طے کئے ہیں لہذا امام حسن عسکریؑ کی زیادہ تر احادیث ان فروعی مسائل کے بارے میں ہیں جو اس دور میں نئے پیدا ہوئے تھے یا ان مسائل کے بارے میں ہیں جو ان کے زمانے میں چیلنج کے طور پر پیش ہوئے۔ مثال کے طور پر ماہ رمضان کے آغاز کا مسئلہ اور خمس کی بحث وغیرہ ہیں۔
آل محمد جو تدبر قرآنی اور عروج فکر میں خاص مقام رکھتے ہیں ان میں سے ایک بلند مقام بزرگ حضرت امام حسن عسکریؑ ہیں، علمائے فریقین نے لکھا ہے کہ ایک دن آپ ایک ایسی جگہ کھڑے رہے جس جگہ کچھ بچے کھیل میں مصروف تھے اتفاقاً ادھر سے عارف آل محمد جناب بہلول دانا گزرے، انہوں نے یہ دیکھ کر کہ سب بچے کھیل رہے ہیں اور ایک خوبصورت بچہ کھڑا رو رہا ہے ادھر متوجہ ہوئے اور کہا کہ اے نونہال مجھے بڑا افسوس ہے کہ تم اس لیے رو رہے ہو کہ تمہارے پاس وہ کھلونے نہیں ہیں جوان بچوں کے پاس ہیں سنو! میں ابھی ابھی تمہارے لیے کھلونے لے کر آتا ہوں یہ کہنا تھا کہ اس کمسنی کے باوجود بولے، ہم کھیلنے کیلئے نہیں پیدا کئے گئے ہم علم و عبادت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں انہوں نے پوچھا کہ تمہیں یہ کیوں کر معلوم ہوا کہ غرض خلقت علم و عبادت ہے، آپ نے فرمایا کہ اس کی طرف قرآن مجید رہبری کرتا ہے، کیا تم نے نہیں پڑھا کہ خدا فرماتا ہے: ”أَفَحَسِبْتُمْ أَنَّمَا خَلَقْنَاكُمْ عَبَثًا“ (سورہ مومنون آیت 115)
کیا تم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ہم نے تم کو عبث (کھیل کود) کیلئے پیدا کیا ہے؟ اور کیا تم ہماری طرف پلٹ کر نہ آؤ گے یہ سن کر بہلول حیران رہ گئے اور کہنے پر مجبور ہوگئے کہ اے فرزند تمہیں کیا ہو گیا تھا کہ تم رو رہے تھے گناہ کا تصور تو ہو نہیں سکتا کیونکہ تم بہت کم سن ہو، آپ نے فرمایا کہ کمسنی سے کیا ہوتا ہے میں نے اپنی والدہ کو دیکھا ہے کہ بڑی لکڑیوں کو جلانے کیلئے چھوٹی لکڑیاں استعمال کرتی ہیں میں ڈرتا ہوں کہ کہیں جہنم کے بڑے ایندھن کیلئے ہم چھوٹے اور کمسن لوگ استعمال نہ کئے جائیں (تذکرۃ المعصومین ص 230)۔
امام حسن عسکری علیہ السلام کے زمانے میں ایک عظیم فلسفی اسحاق کندی کو یہ خبط سوار ہوا کہ قرآن مجید میں تنا قص ثابت کرے۔ اس نے اپنے ہی مقصد کے تحت ایک کتاب ’’تناقص القرآن‘‘ لکھنا شروع کیا۔ جب امام علیہ السلام کو معلوم ہو ا تو آپ نے اس کے خبط کو دور کرنے کیلئے اپنے ایک شاگرد کو بھیجا اور کہا کہ اس فلسفی اسحاق کندی سے کہنا: ’’اگر اس کتاب یعنی قرآن کا مالک تمہارے پاس اسے لائے تو کیا ہو سکتا ہے کہ اس کلام سے جو مطلب اس کا ہو، وہ تمہارے سمجھے ہوئے معانی و مطالب کے خلاف ہو۔ اس کتاب کو لکھنے سے کیا فائدہ کیونکہ تم اس کے جو معنی سمجھ کر اس پر اعتراض کر رہے ہو، ہو سکتا ہے کہ وہ مقصود خدا کے خلاف ہو ایسی صورت میں تمہاری محنت برباد ہوجائے گی۔ امامؑ کے شاگرد نے جب یہ سوال کیا تو اسحاق کندی تھوڑی دیر تک حیران ہو گیا اور سوال کیا کہ یہ اعتراض کس نے کیا ہے۔؟ شاگرد نے کہا میرے شفیق استاد امام حسن عسکری علیہ السلام نے۔ اس کے بعد اسحاق کندی نے کہا کہ بیشک ایسی باتیں خاندان رسالت ہی سے بر آمد ہو سکتی ہیں۔ پھر اس نے آگ منگوائی اور کتاب کا سارا مسودہ نذر آتش کر دیا۔ امام حسن عسکری علیہ السلام اپنے آباء و اجداد کی طرح تمام زبانوں سے واقف تھے۔ آپ ترکی، رومی وغیرہ وغیرہ ہر زبان میں تکلم کیا کر تے تھے۔ خدا نے آپ کو ہر زبان سے بہرہ ور فرمایا تھا ۔ آپ علم رجال، علم انساب، علم حوادث میں کمال رکھتے تھے۔
امام اہلسنت علامہ جامی رقطراز ہیں کہ ایک دن حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں ایک خوبصورت یمنی شخص آیا اور اس نے ایک سنگ پارہ یعنی پتھر کا ٹکڑا پیش کر کے خواہش ظاہر کی کہ آپ اس پر اپنی امامت کی تصدیق میں مہر لگا دیں۔ حضرت نے مہر نکالی اور اس پر لگا دی۔ آپ کا اسم گرامی اسی طرح کندہ ہو گیا جس طرح موم پر لگانے سے کندہ ہوتا ہے ۔مجمع بن صلت یہ وہی سنگ پارہ لایا تھا جس پر اس کے خاندان کی ایک خاتون ام خانم نے تمام ائمہ طاہرین علیہم السلام سے مہر لگوا رکھی تھی۔ اس کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی امامت کا دعویٰ کرتا تھا تو وہ اسے لے کر اس کے پاس چلی جاتی تھی۔ اگر اس مدعی نے پتھر پر مہر لگا دی تو اس نے سمجھ لیا کہ یہ امام زمانہ ہیں اور اگر وہ اس عمل سے عاجز رہتا تو وہ اس سے نظر انداز کر دیتی تھی۔ چونکہ اس نے اسی سنگ پارہ پر کئی اماموں کی مہر لگوائی تھی۔ اس لیے اس کا لقب (صاحبة الحصاۃ) ہو گیا تھا۔
علامہ جامی لکھتے ہیں کہ جب مجمع بن صلت نے مہر لگوائی تو اس سے پوچھا گیا کہ تم حضرت عسکری علیہ السلام کو پہلے سے پہنچانتے تھے۔ اس نے کہا نہیں۔ واقعہ یہ ہوا کہ میں ان کا انتظار کر رہا تھا کہ آپ تشریف لائیں لیکن میں چونکہ پہچانتا نہیں تھا اس لیے خاموش بیٹھا رہا۔ اتنے میں ایک ناشناس نوجوان نے میری نظروں کے سامنے آن کر کہا کہ یہی حسن بن علی علیہ السلام ہیں۔ راوی ابو ہاشم بیان کرتے ہیں کہ جب وہ جوان آپ کے دربار میں آیا تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کاش مجھے معلوم ہوتا کہ یہ کون ہے؟ دل میں اس خیال کا آنا تھا کہ امام علیہ السلام نے فرمایا کہ مہر لگوانے کیلئے وہ سنگ پارہ لایا ہے، جس پر میرے باپ دادا کی مہریں لگی ہوئی ہیں۔ الغرض اس نے پیش کیا اور آپ نے مہر لگا دی۔ وہ شخص ’’ذریة بعضھا من بعض‘‘ پڑھتا ہوا چلا گیا ۔
٭٭٭٭٭
ایک تبصرہ شائع کریں