کربلا میں امام حسینؑ کی تاریخ عاشورا - 1

 

کربلا میں امام حسینؑ کی تاریخ عاشورا

(مساوات و برادری)


مترجم: ابو دانیال اعظمی بریر


معاشرہ اور سماج کی بہترین خصلتوں میں سے ایک خوبصورت خصل «مواسات» ہے؛ یعنی غم خواری، ہمدردی اور دوسروں کو اپنے ہي جیسا سمجھنا۔ اسکا مادہ «أسوه» ہے یعنی «دوسروں کو مال و جان میں اپنے ہی جیسا دیکھنا اور جاننا یا تسلیم یا دوسروں کو اپنے اوپر مقدم کرنا، دوستوں اور دینی برادران کی ہر قسم کی مدد کرنا، مالی امداد و جانی تعاون پہونچانا، اپنے مال سے کسی دوسرے کی غم خواری کرنا، اپنے ہی برادر مومن کو مساوی کرنا؛ ... اپنے ہی کفاف رزق و معیشت میں دوسرے (مومن) کو شریک کرنا؛... معین (برادر مومن) شخص کی منفعت و دوسروں کے مقابل میں نقصان کو دور کرنا اس طرح سے کہ غیر ہو کر بھی غیر نہیں ہے بلکہ خود اپنے ہی جیسا سمجھیں۔ اور «إیثار» یہ ہے کہ آدمی دوسروں کو مندرجہ بالا دو امور میں اپنے سے مقدم رکھتا ہو.»

(مذکورہ بالا عبارت یا معنی لغت نامہ دهخدا سے ماخوذ ہے، جس کو انہوں نے ناظم الاطبا، منتہی الارب، التعریفات جرجانی نامی لغات سے نقل کیا ہے۔)

    لغات سے مثالیں نقل ہوئیں ہیں تو اب اجمالی طور پر اس خصلت کے مفہوم کو روشن کرتے ہیں۔ انسان میں «مواسی» وہی شخص ہے کہ جو دوسروں کے ساتھ ہمدردی اور ہمدلی رکھتا ہو اور خود کو دوسروں کے رنج و غم میں شریک جانتا ہو اور خود ہی ان لوگوں کا جان و مال کے ذریعہ دفاع کرتا ہے نیز اپنے اور دوسروں کے درمیان کوئی بھی فرق نہیں قرار دیتا ہے۔

یہ نیک صفت، بہت سے اسلام کی روایات میں قابل تعریف سمجھا ہے اور اول وقت نماز سے قریب اہمیت کی حامل ہے اور پیغمبر اکرمؐ نے فرمایا:

«مُوَاسَاةُ الأَخِ فِی اللهِ عَزَّ وَ جَلَّ»

تین اعمال میں سے ایک بہترین عمل ہے شمار ہوا ہے. (سفینة البحار، 1/ 23) 

یعنی دینی برادر کے ساتھ خدا کی خاطر مواسات کرنا ہے. (فقط اللہ ہی کیلئے ہوتے ہیں.)

کربلا میں امام حسینؑ کی تاریخ عاشورا

ایک حدیث میں امام صادقؑ نے فرمایا ہے:

«تَقَرَّبُوا إِلَیٰ اللهِ تَعَالَیٰ بِمُوَاسَاةِ إِخوَانِکُم» (حوالہ سابق)

اشخاص کے شیعہ ہونے کو آزمائش کے معیاروں میں سے ایک امتحان اپنے برادران دینی کے ساتھ مواسات کے ذریعہ خدا سے تقرب حاصل کرنا ہے۔  

امیر المومنین امام علیؑ نے بھی برادران دینی کے ساتھ مواسات کرنا رزق و روزی میں اضافہ کا سبب شمار کیا ہے۔ 

امام صادقؑ نے فرمایا: اہل مواسات انسان کی دعا کو مستجاب کرتا ہے۔ (بحار الانوار 71/ 395، حدیث: 22)

دوسری حدیث میں مومن کی دل کی پسندیدگی اور راحت کیلئے جان دینے موقع پر فرماتے ہیں: یہ خصوصیت انہی لوگوں میں ہوتی ہے کہ جو اپنے برادران دینی کی نسبت «مُوَاسِی» ہوتے ہیں۔  (حوالہ سابق؛ ص: 396، حدیث: 23.)

عاشورا کو کربلا کے حماسہ آفرین لوگوں میں یہ خصلت زبردست طور پر ایکدم ہی واضح دیکھی جاتی ہے اور اس سے بھی برتر و بالا مرحلہ میں جذبہ «ایثار» تک پہونچ گئے، امام حسینؑ کے احباب و انصار ایک دوسرے کی نسبت امام حسینؑ اور اصحاب ایک ہی حالت رکھتے تھے اور کسی بھی چیز کو بخش دینے میں مضائقہ نہیں رکھتے تھے اور اسی «مواسات» پر افتخار بھی کرتے تھے۔

راہ کربلا میں جب امام حسینؑ سے حر کے سپاہی ملے اور تفصیلی گفتگو ہوئی تو کسی شاعر کا کلام اپنی زبان مبارک پر جاری فرمایا جس کا مضمون اس طرح ہے:

«سَامضی وَ مَا بِالمَوتِ عَار عَلَیٰ الفَتَیٰ...»

«میں اپنی راہ پر چل رہا ہوں۔ موت، جوان مردی کیلئے ہو تو خیر کی نیت کریں اور جہاد کریں اور صالح مردوں کے ساتھ مواسات بھی جان کے ذریعہ ہی رکھا گیا ہے تو کوئی عار و ذلت نہیں ہے.» (حوالہ سابق؛ ص: 398، حدیث: 30.)

عاشورا کی رات میں سے ایک شب بھی امام حسینؑ نے اپنے اصحاب و انصار کے مجمع کے درمیان ایک خطبہ کے ضمن میں ارشاد فرمایا: جو کوئی بھی واپس پلٹنا چاہتا ہے وہ رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا سکتا ہے۔

آنحضرت نے مزید فرمایا:

«مَن وَاسَانَا بِنَفسِهِ کَانَ مَعَنَا غَداً فِی الجِنَانِ نَحبِیاً مِن غَضَبِ الرَّحمٰنِ.» (بحار الانوار 45/ 238)

    جو کوئی بھی جاتا ہے تو جائے، لیکن جو ہمارے ساتھ اپنی جان کے ذریعہ مواسات رکھنا چاہتا ہے تو کل قیامت کے روز ہمارے ساتھ بہشت میں ہوگا اور غضب الہی سے محفوظ ہوگا۔

حر نے بھی جب عاشورا کے روز توبہ کیا اور امام حسینؑ کے پاس آئے، اس حالت میں کہ اپنی ہی جان کو کربلا میں مواسات کی بنا پر امام حسینؑ پہ فدا کیا:

«مُوَاسِیاً لَکَ بِنَفسِی» (موسوعة کلمات الامام ‌الحسینؑ؛ ص: 399) 

    اور ایسا ہی کیا بھی، جس وقت امام حسینؑ حر کے سرہانے پہونچے اور انکا سر اپنے زانوں پر قرار دیا اور انکی حریت و آزادی کی تعریف فرمائی، مقام مواسات کے اظہار کیلئے بطور مثال ایک شعر کے ذریعہ اپنی زبان پر یہ کلام جاری فرمایا: 

«وَنِعمَ الحُرُّ إِذ وَاسِی حُسَینَا ~ وَ فَازَ بِالهدَایَة وَ الفَلَاحِ»

«وَنَعمَ الحُرُّ إِذ نَادی حُسَینَا ~ جَادَ بِنَفسِهِ عِندَ الصَّبَاحِ»

     اور حر قابل تعریف ہے کہ جب امام حسینؑ کے ساتھ مواسات کیا اور ہدایت و فلاح کے درجہ پر فائز ہوئے اور بذات خود صبح عاشورا کو سویرے سویرے امام حسینؑ کی خدمت میں پہونچے۔ (حوالہ سابق؛ ص: 438)

جس وقت کوفہ میں ہانی بن عروہ نے مسلم بن عقیل سے چاہا کی ان کے گھر میں چھپے رہیں گے تو حکومت وقت کی تحویل میں دیدیں گے تو انہوں نے کہا: «خدا کی قسم اگر اکیلا و تنہا بھی رہ جاؤں اور کوئی ایک بھی میری مدد کرنے والا بھی نہ ہو گا تب بھی میں انہیں تمہارے حوالے ہرگز نہیں کروں گا یہاں تک کہ اسی راہ میں میرا خون بھی بہہ جائے۔!»  (حوالہ سابق؛ ص: 440)

جناب مسلم بن عقیل جس وقت گرفتار ہوتے ہیں اور دار الامارہ میں ان کے ساتھ برا سلوک بھی کیا گیا اور انہوں نے مکمل ارادہ کر لیا کہ ان کو قتل کر دیں تو جناب مسلم گریہ کرنے لگتے ہیں اور جب ان کے رونے پر مذمت کی جاتی ہے تو آپ نے رونے کا سبب بیان کرتے ہوئے کہا: میں اپنے لئے نہیں روتا بلکہ میرا گریہ امام حسینؑ بن علیؑ اور ان کے خاندان والوں کی خاطر ہے کہ جو اسی شہر کوفہ کی طرف آنے والے ہیں۔ (وقعۃ الطف؛ ص: 119)

جس وقت  نافع بن ہلال کربلا میں پانی تک دسترسی کر لیتے ہیں تو امام حسینؑ اور انکے اصحاب و انصار کی تشنگی کی خاطر ایک قطرہ آب بھی نہیں پیتے ہیں۔ (حوالہ سابق؛ ص: 135.)

تعاون، غمخواری اور سچی و دینی بھائی چارگی کی روح ہی تو عاشورا کے تمام شہدائے کربلا کا پیغام ہے اور یہی خصلت سبب ہوتی ہے کہ اس مذہب کے ماننے والے دنیا کے تمام مسلمانوں میں ہر نسل، قوم و زبان کے ساتھ بھائی چارگی کا احساس و جذبات اجاگر کریں نیز غموں و تکلیفوں میں ہمدردی کا اظہار کریں، اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد میں جلدی کریں یہاں تک کہ مسلمان جنگجو جنہیں صہیونیت، استکباریت اور کفر سے وابستہ دنیا کے سپر پاور سے محاذ پر جنگ کر رہے ہیں وہ لوگ احساس تنہائی نہ کر سکیں۔

    مواسات کے جملوں میں سے ایک خوبصورت ترین بلکہ ایثار گری کا منظر کربلا یہ بھی ہے کہ جو بنی ہاشم و دیگر اصحاب امام حسینؑ میں کے پیش نظر ہوتا ہے اور ہر ایک گروہ اصحاب و اعزہ میں سے ہر کوئی روز عاشورا دوسرے سے پہلے قربان ہونا چاہتا ہے۔ زینبؑ علیا مقام سے منقول ہے: امام حسینؑ بنی ہاشم کے خیموں میں سے کسی ایک خیمہ میں گفتگو کر رہے تھے، آخر میں حاضرین سے پوچھا: انے والے کل میں تم لوگ کیا کرو گے؟ تمام اعزہ نے یک زبان مل کر کہا: جو کچھ آپ حکم فرمائیں گے۔ (ہم سب اسی حکم کو بجا لائیں گے۔)

عباس علمدار  نے کہا: یہ لوگ یعنی دیگر اصحاب امام حسینؑ غیر ہیں، لٰہذا اس سنگین بار کو امام حسینؑ کے اہل کو اٹھانا ہی چاہئے۔ نیز فرمایا: آنے والی صبح عاشورا میں تم ہی سب سے پہلے افراد میدان جنگ میں جانے والے بننا، ہم ان (اصحاب) سے پہلے موت کے استقبال کیلئے جائیں گے تا کہ (کل کو) لوگ یہ نہ کہیں کہ (بنی ہاشم) نے اصحاب کو عاشورا کے دن سب سے پہلے کربلا کے میدان جنگ میں بھیج دیا، جب اصحاب میں کوئی نہ بچا تو خود (اعزہ) تلوار لے کر کربلا کے میدان جنگ میں کود پڑے...۔

بنی ہاشم کے جوانان اٹھے تلواروں کو نیام سے کھینچا نیز لہراتے ہوئے اور عباس غازی کے ساتھ سب نے مل کر کہا: «ہم سب آپ کی بات سے متفق و موافق ہیں۔»

جناب زینبؑ بیان فرماتی ہیں: جیسے ہی میں نے اس مجمع کے مصمم ارادہ کو دیکھا تو میرے دل کو قرار و اطمینان حاصل ہوگیا، لیکن میری آنکھوں سے اشک رواں ہوگئے۔

میں نے چاہا کہ اپنے بھائی امام حسینؑ کے خیمہ میں تشریف لے جاؤں اور سارا ماجرا اپنے بھائی امام حسینؑ کو بتا دوں کہ حبیب بن مظاہر کے خیمہ سے کچھ صداؤں کو میں نے سنا، میں آگے بڑھی اور خیمہ کی پشت کی طرف سے کان لگا کر میں نے سنتے ہوئے دیکھا کہ اصحاب امام حسینؑ بھی بنی ہاشم کے مثل ہی حبیب کے اطراف میں حلقہ کئے ہوئے جمع ہیں۔

حبیب بن مظاہر ان لوگوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: «اے دوستو! تم سب لوگ یہاں کربلا میں کس (مقصد) کیلئے آئے ہوئے ہو؟ اپنی باتوں کو بالکل واضح و روشن کر کے بیان کرو۔»

تمام اصحاب نے (مل کر) یک زبان ہو کر کہا: «ہم سب اسلئے آئے ہیں تا کہ غریب فاطمہؑ امام حسینؑ کی کربلا کے میدان میں مدد و نصرت کریں.»

(جناب حبیب) نے پھر سوال کیا: «تم لوگوں نے اپنی بیویوں کو طلاق کیوں دیا ہے؟» (پھر سے تمام) اصحاب نے مل کر کہا: پہلے سوال کے جواب میں جو دلیل بیان کی ہے اسی کی تکرار کیا.

پھر حبیب اسدی نے پوچھا: «جب صبح ہوگی تو تم لوگ کیا کرو گے؟»

سب ہی انصار امام حسینؑ (ایک آواز میں) کہنے لگے: «آپ کی کہی ہوئی بات کے علاوہ کسی اور بات پر ہم عمل نہیں کریں گے۔

پھر حبیب بن مظاہر نے کہا: «جب صبح ہوگی تو تم لوگ ہی سب سے پہلے افراد ہونا اور کربلا کے میدان (جنگ) میں جانے والے پہلے افراد بنو گے، ہمیں سب سے جلدی میدان جنگ میں داد شجاعت دشمن کو دکھانا ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ بنی ہاشم میں سے کوئی ایک فرد بھی ہم سے پہلے خون میں غلطاں ہو جائے اس حالت میں کہ ہمارے بدن میں جان اور رگوں میں خون دوڑ رہا ہو! تا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ ہم نے اپنے سرداروں کے رشتہ داروں کو تو جنگ میں بھیج دیا اور خود اپنی جان فدا کرنے سے مضائقہ کرتے رہے۔ «تمام اصحاب (امام حسینؑ) اپنی تلواروں کو میان سے نکالتے ہیں اور لہراتے ہوئے کہنے لگے: «ہم آپ کے فیصلہ سے متفق اور اسی کے مطابق عمل بھی کریں گے۔»

جناب زینبؑ کبریٰ پھر دوبارہ اصحاب کا امام حسینؑ کی مدد و نصرت کے مصمم ارادہ پر خوش ہوئیں، لیکن ثانی زہرا کی آنکھوں میں اشکوں نے اپنا حلقہ بنا دیا۔... (حوالہ سابق؛ ص: 191)

اس سے قبل کے واقعہ کو جاری رکھتے ہوئے نقل ہوا ہے، چونکہ امام حسینؑ نے خود ہی اپنے بنی اسد کے اصحاب سے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ میرے اہل حرم پابند سلاسل کر کے قیدی بنائے جائیں گے۔ لہٰذا تم لوگ اپنی عورتوں کو انکے قبیلے میں ہی پہونچا دو، جب ان میں سے کسی ایک نے بھی چاہا کہ اپنی بیوی کو لے جائے لیکن اسکی بیوی راضی نہیں ہوئی اور اپنے ہی شوہر سے کہنے لگی: «تم نے ہمارے سلسلہ میں ہرگز انصاف نہیں کیا! کیا رسولخداؐ کی بیٹیاں تو اسیر ہوں اور میں آرام میں رہوں اور کوئی خطرہ بھی ہمیں نہ رہے؟ اگر اہلبیت کے مردوں کے ساتھ  تم لوگ مواسات کی ذمہ داری انجام دے رہے ہو تو ہم خواتین بھی مخدرات عصمت و طہار ت کے ساتھ کربلا میں مواسات کی ذمہ داری کو پورا کرنا چاہیں گی، وہ صحابی گریہ و زاری کرتا ہوا امام کی خدمت میں حاضر ہوا اور آنحضرت سے عرض کیا کہ میری زوجہ بھی مواسات کے اظہار کیلئے کربلا میں ہی اہل حرم کے ساتھ رہنا چاہتی ہے، امامؑ حسین نے اس کیلئے دعائے خیر کیا۔»

اس طریقہ سے اصحاب امامؑ نے آنحضرتؑ کے ساتھ حقیقی «مواسی» ہونے کا عملی اظہار و ثبوت دنیا والوں کے سامنے پیش کیا تھا۔

جب اکثر اصحاب امامؑ حسین کی شہادت کے بعد قبیلہ بنی غفار کے دو جوانوں نے جب دیکھا کہ اب امامؑ حسین کا دفاع کرنے والا کوئی بھی نہیں ہے اور آنحضرتؑ کو قتل ہونے سے بچانے والا بھی کوئی نہیں ہے تو وہی دونوں غفاری جوان امامؑ کی خدمت میں اذن جہاد کیلئے آئے تا کہ اپنے امامؑ سے پہلے ہی میدان جنگ میں جا کر خود اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے شہادت کے درجہ پر فائز ہو جائیں۔

تب امام نے ان دونوں سے فرمایا: «خداوند عالم تمہیں اس نیکی کا بہترین اجر و جزا عطا فرمائے کہ اس طریقہ سے تم میری مدد و نصرت اور مواسات کیلئے حاضر ہوئے ہو اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے پر آمادہ پیکار ہو۔ (موسوعة کلمات الامام الحسینؑ؛ ص: 409، نقل از معالی السبطین)

زُہَیر بن قَین جب امامؑ کی جماعت کے ساتھ ملحق ہوئے، تو انکے موقف میں تبدیلی کی بنسبت پوچھا گیا: انہوں نے کہا: میں نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ امام حسینؑ کے گروہ اور جماعت کے ساتھ ہی رہوں گا اور اپنی جان بھی ان پر ہی قربان کروں گا تا کہ میں خدا و رسول کے حق کا پاسدار بن جاؤں چونکہ تم لوگوں نے انکے کچھ حقوق کو تباہ و برباد کر دیا ہے۔ (بحار الانوار 45/ 29)

عابس بن ابی شبیب جب کربلا میں سید الشہداءؑ کی خدمت میں حاجر ہو کر عرض کیا: اگر میرے پاس خون اور جان سے بھی زیادہ عزیز کوئی چیز ہو سکتی تو میں اسی کے ذریعہ آپ کا دفاع کرتا رہتا یہاں تک کہ آنحضرت قتل نہ ہوسکیں تب بھی میں یہی عمل کرتا ہی رہتا۔ (وقعة الطف؛ ص: 195)

جب امام مجروح ہو کر زمین کربلا پر گرے تھے اور دشمن کے سپاہی انہیں چاروں طرف سے گھیرے ہوئے تھے تو عبد الله بن امام حسنؑ اپنے چچا کو خیمہ کے پاس سے یہ منظر دیکھ رہے تھے، ابجر بن کعب تلوار کی ضرب سے امام کو قتل کرنا ہی چاہتا تھا کہ عبد اللہ نے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں کو درمیان میں تلوار کو روکنا چاہا لیکن ان کا ہاتھ کٹ گیا پھر اپنے چچا امام حسینؑ کی آغوش ہی میں تھے کہ حرملہ نے ایک تیر سے انہیں امام کی آغوش میں ہی قتل کر دیا۔  (وقعة الطف؛ ص: 237.)

یہ سب کے سب جان کے ذریعہ مواسات کے واضح و روشن نمونے ہیں جو عاشورا کے منظر نامہ اور تحریک کربلا میں دیکھ سکتے ہیں جس میں دینی اخوت اور برادری کے حقوق کی ادائیگی کو بہتر طریقہ سے بام عروج پر پہونچاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

عبد اللہ بن جعفر طیار، جو جناب زینبؑ کے شوہر ہیں اگرچہ بعض دلائل کی بنا پر خود تو میدان کربلا میں حاضر نہیں ہوسکے تھے لیکن اپنے دو فرزندوں کو اپنی زوجہ کے ساتھ بھیجا اور دونوں ہی نے اپنی جان کو امام پر فدا کر دی۔

بعد میں خود عبد اللہ بن جعفر اس واقعہ کو اس طرح یاد کرتے تھے: چاہے میں نے خود اپنے ہی ہاتھوں سے امام حسینؑ کے سلسلہ میں حق مواسات کو انجام نہیں دیا لیکن میرے دونوں فرزندوں نے مواسات کا حق ادا کیا ہے، ان دونوں ہی میرے بھائی اور میرے چچا کے فرزند کی راہ میں قتل ہوگئے اس حالت میں کہ آنحضرت کی بنسبت مواسات اور انکی حمایت میں صبر و استقامت کے ساتھ حق ادا کیا۔ (بحار الانوار 45/ 53)

کوفہ میں جب امام سجادؑ نے ابن زیاد کے ظلم و ستم کے خلاف پر جوش خطبہ ارشاد فرمایا: عبید اللہ بن زیاد نے حکم دیا کہ انہیں قتل کر دیا جائے، یہی وہ مقام تھا کہ امام کی پھوپھی زینبؑ کبریٰ نے اپنی جان کو سپر قرار دیا اور جلاد کو خداوند عالم کی قسم دیے کر ارشاد فرمایا: «اگر تو انہیں قتل کرنا چاہتا ہے تو ان سے پہلے مجھے قتل کر۔!» (وقعۃ الطف؛ ص: 274)

اس طرح کی تاریخی مثالیں «ایثار» کی بحث کے زمرہ میں دیکھی جا سکتی ہیں، اس تحریک و حماسہ کے تمام مناظر میں اس قسم کے ایثار اور مواسات کو ملاحظہ کرتے ہیں۔

عاشورا کے حماسہ آفرین افراد میں اس برجستہ خصلت کو بطور واضح و روشن دیکھتے ہیں اور «ایثار» کو بلند ترین مرحلہ تک پہونچاتے ہیں، اصحاب امام حسینؑ اپنے امام کی بنسبت اور خود اصحاب بھی ایک دوسرے کی بنسبت ایسی ہی صورت حال میں ہی رہے اور کسی بھی چیز کی بذل و بخشش سے دریغ و مضائقہ نہیں کیا اور اسی مواسات پر فخر و مباہات بھی کرتے رہے۔

جناب ابو الفضل العباس نے اسی مواسات کے عروج کا خود ہی اظہار و عمل کر کے بتایا: تشنہ لب ہی فرات میں وارد ہوئے اور بغیر پانی پیئے تشنہ لب ہی باہر بھی نکل آئے، امام کے بچوں اور تشنگان اہل حرم کو سیراب کرنے کیلئے بھی نہر فرات پر گئے اور اسی راہ میں درجہ شہادت کو بھی پہونچے اور ایک بھائی تھا کہ جس نے اپنے ہی بھائی پر خود کی جان فدا کر دی۔

اسی عظیم خصلت اور شجاعت کو جناب عباس علمدار کی زیارت میں ہم تذکرہ کرتے ہوئے یوں پڑھتے ہیں:

«فَلَنِعمَ الأَخُ "المُواسی".» (حوالہ سابق؛ ص: 263.)

«السلامُ عَلیکَ أیها العَبدُ الصالحُ و الصدیقُ "المُواسی"، أَشهدُ أَنّکَ آمَنتَ بِاللهِ و نَصَرتَ إبنَ رسولِ اللهِ و دَعَوتَ إلی سَبیلِ اللهِ و "واسَیتَ" بِنَفسِکَ.» (مفاتیح‌ الجنان؛ زیارت حضرت عباسؑ، ص: 436) 

اس زیارت نامہ میں «برادرِ مواسی» کے ساتھ ساتھ «صدیقِ مواسی» سے بھی تعبیر کرتے ہوئے امام معصوم نے یاد فرمایا ہے اور آنحضرت کے ایمان، نصرت، راہ خدا کی طرف بلانے والے اور اپنی جان کے ذریعہ مواسات کی گواہی کا ذکر ملتا ہے۔ (حوالہ سابق؛ زیارت امام حسینؑ در عید فطر و قربان، ص: 448)

یہی تعاون، غمخواری اور حقیقی اخوت و برادری ہی عاشورا کے تمام ہی شہدائے کربلا کا پیغام ہے اور یہی خصلت سبب بنتی ہے کہ اس نظریہ کے ماننے والے دنیا کے تمام مسلمانوں کے ساتھ چاہے کسی بھی نسل و قوم اور زبان کے ہوں جذبہ و احساس برادری و اخوت کا اظہار کرتے ہیں اور انکے غموں اور مصیبت و بلاء کی گرفتاریوں میں ان سے ہمدردی و غمگساری کو ظاہر کرتے ہیں اور اپنی طاقت و قوت کی استطاعت کے مطابق ان مسلمان کی مدد و نصرت کیلئے دوڑتے بھی ہیں تا کہ مسلمان استکبار، صہیونیت اور جہان کفر و نفاق سے وابستہ بڑی طاقتوں کے مقابلہ میں احساس تنہائی نہ کر سکیں۔

دینی مواسات راہ خدا میں مجاہدین کے دلوں کو حرارت اور قوت بخشنے کی ضمانت ہے تا کہ کفر، ظلم و ستم کے خلاف جہاد کے محاذ پر احساس تنہائی نہ کر سکیں۔

  • کربلا میں اصحاب امام حسین (ع) کے درمیان همدردي كے جذبات

  • حس مواسات در کربلا

ماخوذ : پيامهاي عاشورا، جواد محدثي


DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA (AS)
TheSpiritualGuides

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی