کربلا میں امام حسینؑ کی تاریخ عاشورا
(کرامت و جواں مردی)
مترجم: ابو دانیال اعظمی بریر
بہترین خصلتوں میں سے ایک صفت مردانگی اور جواں مردی ہے کہ جو انکے «انسانی اصول، شرافت، عہد و پیمان» اور درماندہ افراد کے حالات کی بھی رعایت کرنے کا پابند بناتی ہے، جو شخص بھی حق کا وفادار باقی رہتا ہے اور پستی و ستم سے گریزاں ہوتا ہے، جو مستضعفین کی حمایت کرتا ہے، خیانت اور نیرنگی سے دوری اختیار کرتا ہے اور ظلم، تحقیر، دنائت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتا، اہل عفو، ایثار و فداکار ہوتا ہے، اسی کو ہی تو «جواں مردی» کہا جاتا ہے۔ لفظ «فتیٰ» بھی جواں مرد کو ہی کہا جاتا ہے اور اسی سے ہی لفظ «فتوت» مشتق ہے، جو یہی لفظ «مردانگی» یعنی بہادری و شجاعت کے ہی معنی میں استعمال بھی ہوتا ہے۔
گذشتہ تہذیب و تمدن میں یہی لفظ «مردانگی» عیاری و مکاری کے معنی میں استعمال ہوتا تھا کہ جس کا سماجی پہلو ہوا کرتا تھا اور ایک گروہ عیاروں کا ہوا کرتا تھا کہ جو خنجر و اسلحہ سے مسلح رہتا تھا اور دوسروں کے مال کو جبراً چھینا کرتا تھا اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے تھے۔
در آن حالیکہ «مردانگی» کے پہلو اور بلند نظری کو برقرار رکھتے تھے اور کبھی کبھی شہر یا محلہ کے ایک حصہ کے دفاع کی ذمہ داری بھی انہی کے کندھوں پر ہوا کرتی تھی۔ یہ لوگ اہل شہر یا محلہ سے جھوٹ نہیں بولتے تھے، انکے ساتھ ظلم و ستم نہیں کرتے تھے، یہ لوگ ہرگز خیانت نہیں کرتے تھے اور ان میں چند صفات بخشش، حریت، شجاعت، مہمان نوازی، کرامت نفسی اور عہد و پیمان کو پورا کرنے جیسے صفات سے آراستہ ہوتے تھے۔ (لغت نامہ، دهخدا، لفظِ فتوت)
یہ لوگ اپنے لئے خاص آداب، رسوم و تہذیب و تمدن کے حامل ہوتے تھے۔
(«فتوت نامہ» ملا حسین واعظ کاشفی نے جواں مردی کے آداب و رسوم کے سلسلہ میں ایک کتاب بھی تحریر کی ہے.)
دین کی تہذیب و تمدن میں «فتوت» ایک طرح کی سخاوت، بخشش، دوسروں کے ساتھ نیکی کرنا، کشادہ روئی سے پیش آنا، عفت و پاکدامنی، صلہ رحم کرنا، دوسروں کو اذیت و تکلیف پہونچانے سے پرہیز کرنا، کمینگی و پستی سے دوسری خصلت اختیار کرنے کی تفسیر ہوتی ہے۔ (میزان الحکمة 7/ 398)
مولا علیؑ نے فرمایا ہے:
«نظام الفتوة إحتمال عثرات الإخوان و حسن تعهد الجیران»
«فتوت» جواں مردی کے نظام میں برادران کی لغزشوں کا متحمل ہونا پڑتا ہے اور پڑوسیوں کی مناسب خبر گیری بھی کرنا پڑتی ہے۔ (غرر الحکم)
قرآن کریم نے دقیانوس کی حکومت کے زمانہ میں جو توحید پرست جوانان اسکے ظلم و شرک سے بھاگے تھے اور ایک غار میں پناہ بھی حاصل کی تھی یعنی اصحاب کہف کو بھی «فتية» (جواں مرد) کے لفظ سے تذکره کرتا ہے۔ جواں مردی و فتوت کے سلسلہ میں بہترین نمونہ عمل امام حسینؑ کے اصحاب و انصار میں جلوہ افروز ہے کہ جو حماسہ عاشورا میں جس کا اظہار بھی کیا۔ چاہے حق کے ساتھ انہی کي حمایت کرنا یا امام حسینؑ کی رکاب میں جانبازی کے ساتھ جہاد کرنا یہاں تک کہ امام حسینؑ کی رکاب میں شہادت کے درجہ پر فائر ہونا یا پھر دوسرے انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہو یہاں تک کہ دشمنوں کے ساتھ بھی حسن اخلاق کا مظاہرہ کیا کرتے رہے۔
خود امام حسینؑ بھی اعلیٰ ترین صفت «فتوت» کے مظہر ہیں، انہوں نے اپنے اصحاب اور عاشورا کے روز آل محمدؑ کی جواں مردی کی بنا پر ہی درجہ شہادت تک پہونچے.
اسی وجہ سے انہیں مندرجہ ذیل لفظ کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے:
«ثم إنی قد سئمت الحیاة بعد قتل الأحبة و قتل هؤلآء الفتیة من آل محمد»
اور زندگی سے ان عزیزوں کی شہادت کے بعد خون ٹھہر گیا، تو میں دلتنگی کا احساس کرنے لگا ہوں اور وه سب جواں مردان قتل ہوئے آل محمد (ع) کے ساتھ۔ (موسوعة کلمات الامام الحسینؑ؛ ص: 482)
تواریخ میں منقول ہے یہاں تک کہ امام حسینؑ کا سر مطہر نیزہ پر بلند کیا تب بھی سورہ کہف کی آیات کی تلاوت کی اور ان جوان مردوں (فتیہ) کے ایمان كو یاد دلایا۔ (آیہ 13 سورہ کہف / مناقب، ابن شهر آشوب 4/ 61)
مسلم بن عقیل کا عمل، جناب ہانی بن عروہ کے گھر میں جب ابن زیاد کو قتل نہ کرنے کی دلیل بھی جناب مسلم کی جواں مردی ہی کو شمار کیا جائے۔
جناب ہانی نے بھی اپنے اعتبار سے جواں مرد تھے، جب انہی پر جناب مسلم کو چھپانے کا الزام لگنے پر انہیں گرفتار کر کے دار الاماره لے جایا گیا، ابن زیاد نے ان سے مطالبہ کیا كہ جناب مسلم کو ان کے حوالے کر دیں لیکن جناب ہانی اسی عمل یعنی حوالے کرنے کو غیر فتوت (نامردی) شمار کرتے تھے۔
اسکے جواب میں جناب ہانی نے کہا: «خدا کی قسم! میں انہیں ہرگز تیرے حوالے نہیں کروں گا، کیا میں اپنے ہی مہمان کو لے کر آؤں اور تیرے حوالے کر دوں تا کہ تم انہیں قتل کر دو؟ خدا کی قسم! اگر میں فقط تن تنہا اور بغیر ناصر و مددگار بھی ہو جاؤں تب بھی میں انہیں تمہارے حوالے نہیں کروں گا، یہاں تک میں اسی راہ میں قتل ہو جاؤں۔!» (وقعة الطف؛ ص: 119)
جس وقت امام حسینؑ کوفہ کے راستہ میں لشکر حر سے آمنا سامنا ہوا اور انہوں نے بھی کاروان حسینی کیلئے راستہ بند کر دیا تو زہیر بن قین نے امامؑ کے سامنے یہ تجویز رکھی کہ یہ گروہ ابھی مختصر ہے اور ہم انہیں فی الحال ختم کر سکتے ہیں اور ان لوگوں کے ساتھ جنگ کرنا بعد میں آنے والے گروہوں کے مقابلہ کرنے سے بہت آسان ہے۔ امامؑ نے فرمایا:
«ما کُنتُ لِابدأَهُم بالقتال›
میں جنگ کی ابتدا کرنے والا نہیں بننا چاہتا۔ (ارشاد مفید 2/ 82، چاپ کنگره شیخ مفید)
یہ بھی امام حسینؑ کی «فتوت» مرادنگی کا ایک گوشہ ہے، دوسرا منظر بھی ہے کہ حر کے پیاسے لشکر کو پانی پلا دینا بھی تھا کہ جو اچانک امامؑ کیلئے سد راہ بھی ہوا تھا۔
امام حسینؑ نے بھی حکم فرمایا کہ ان 1 ہزار افراد پر مشتمل حر كے لشکر کو پانی سے سیراب کیا جائے یہاں تک کہ انکے گھوڑوں کو بھی سیراب کریں! اسی لشکر میں سے ایک سپاہی بہت دیر سے پہونچا اور بھوکا پیاسا پھر تھکن سے چور تھا، امام حسینؑ نے خود ہی اپنے ہاتھوں سے اسے اور اسکے گھوڑے کو سیراب کیا۔ (حیاة الامام الحسینؑ 3/ 74)
عاشورا کے روز، اسی حر نے مصمم ارادہ کر لیا کہ امام حسینؑ کے قافلہ سے ملحق ہو جائیں، توبہ کرتے ہوئے امام حسینؑ کے قریب آئیں، انہیں تو امید ہی نہیں تھی کہ امام حسینؑ عفو و بخشش سے کام لیں گے، لیکن امام حسینؑ کی جواں مردی نے انکی معذرت کو قبول کیا اور انکی توبہ قبول ہوئی۔ (اعیان الشیعہ 1/ 603)
عاشورا كے روز كربلا ميں جناب ابو الفضل العباس کی وفاداری و جواں مردی بھی نہر علقمہ پر جلوہ گر ہوئی، جبکہ آپ تشنہ لب فرات کے پانی پر وارد ہوئے اور چاہا کہ پانی کو دہن مبارک سے قریب کریں، اپنے بھائی امام حسینؑ کے خیموں میں بچوں کی پیاس یاد آئی نیز پانی نہیں پیا اور تشنہ لب ہی فرات کے پانی سے باہر نکلے۔ (موسوعة کلمات الامام الحسین ص: 472)
امام حسینؑ کی زندگی، موت، جنگ اور شہادت سب ہی مردانہ و شجاعانہ ہی تھی نیز کرامت و بزرگواری کے سبب ہی ہم امام حسینؑ کی زیارت میں ان الفاظ میں انہیں یاد کرتے ہوئے خراج تحسین پیش کرتے رہتے ہیں:
«فَقَد قَاتَل کریماً وَ قتل مَظلُوماً»
بتحقیق امام حسینؑ نے کریمانہ جنگ کیا اور مظلومانہ شہادت کے درجہ پر فائز ہوئے۔ (مفاتیح الجنان؛ اعمال حرم مطهر امام الحسین، عمل: چهارم)
امام حسینؑ کے تمام ہی اصحاب کہ جو دفاع کے محاذ پر حجت خدا اور دین الٰہی کے بچانے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے تک میدان جنگ اور محاذ کو ہرگز چھوڑا ہی نہیں اور اپنے امام حسینؑ کو پشت نہیں دکھایا نیز اپنے عہد و پیمان پر قائم و دائم رہے «فتوت» ایک ایسي خصلت و صفت ہے کہ جو صرف جوان مردوں ہی میں پائی بھی جاتی تھی کہ جسے اہلبیتؑ کے در سے ہی سیکھتے بھی ہیں۔
كربلا كے ميدان ميں امام حسینؑ کے اصحاب نے حماسہ عاشورا میں «فتوت» جواں مردی کا خوبصورت ترین جلوہ کو اپنی ذات سے اجاگر کیا ہے، چاہے انہیں حق کی حمایت کرنا ہو، چاہے امام حسینؑ کی رکاب میں جان کی بازی لگانا ہو، یہاں تک کہ شہادت کے درجہ پر فائز ہونا بهي ہو، چاہئے دوسرے انسانوں سے رفتار و گفتار کے ذریعہ سلوک کرنا ہو یہاں تک کہ دشمنوں کے بھی ساتھ دھوکہ و پستی کا اظہار ہرگز نہیں کیا۔
جس وقت کربلا میں حضرت ابو الفضل العباس کیلئے شمر ملعون امان نامہ لایا تو لشکر حسینؑ کے علمدار اور انکے دیگر بھائیوں نے اس امان کو سختی کے ساتھ رد کر دیا اور شمر پر لعنت کرتے ہوئے فرمایا: تم ہمارے لئے تو امان نامہ لاتے ہو اس حالت میں کہ فرزند رسولخداؐ امام حسینؑ کی خاطر امان و تحفظ فراہم نہیں کرتے ہو۔؟! (وقعۃ الطف؛ ص: 190)
کربلا میں عاشورا والے انسانی اصول اور مظلوم کی حمایت اور ظلم و ستم کے مقابل میں بے تعلق نہیں رہنا نیز مظلومین و مستضعفین کی مدد و نصرت پہونچانے کے پابند بھی تھے، انکے روشن اور قائم و دائم رہنے والے چہروں سے ظاہر ہوتا رہا ہے کہ جو آئندہ آنے والی نسلوں کے دلیران و حریت پسندوں میں «فتوت» جواں مردی کی رسم کو انہیں تعلیم دینے والے بھی ہیں۔
كرامت و جوان مردی در کربلا
ماخوذ : پيامهاي عاشورا،
جواد محدثي.
ایک تبصرہ شائع کریں