علم اور علمداری دور جاہلیت سے عاشورا تک-2

 




علم اور علمداری از جاہلیت تا عاشورا-٢


ترجمه : جون رضا مباركپوری

(امام جمعه مسجد ام البنین شهر مئو، مشرقی یو. پی.)

مبائل نمبر: 8081797479


فہرست مطالب



ملتوں اور قوموں میں علمداری کا پس منظر (پہلی قسط)

عربوں میں علم اور علمدار کی اھمیت

اسلام میں علمداری

مسلمانوں کا سب سے پہلا عَلَم اور علمدار

عَلَم باندھنے کی تقریب اور مراسم (دوسری قسط)

عَلَم کی خصوصیات

صدر اسلام کے عظیم علمداران

امیر المؤمنینؑ کے عَلَمداران (تیسری قسط)

معاويه كے علمداران

امام حسینؑ کے علمداران اور صاحب لواء (آخری قسط)

√√√√√√√√√√√√√√√√



عَلَم باندھنے کی تقریب اور مراسم


علم باندھنا یا پرچم بندی کرنا یہ جنگ شروع ہونے کی علامت ہے اور اس مراسم کے وسیلہ سے جنگجوؤں کو جنگ و جہاد میں دشمن سے مقابلہ کرنے کیلئے شرکت کی دعوت دینا یا بلانا ہوتاہے، جاہلیت کے زمانہ میں ایک خاص تقریب منعقد ہوا کرتی تھی؛ یہ تقریب کچھ یوں انجام پذیر ہوا کرتی تھی کہ علم کو قبیلہ کے سردار کے ہاتھوں میں دیتے تھے تا کہ اسے ایک لکڑی یا نیزہ کے سرے پر باندھے جو علمدار یا پرچمدار کے ہاتھوں میں دیا جانا ہے۔ل

لشکراسلام میں بھی علم بندی یا پرچم باندھنے کے وقت پر دعا کرتے یا پڑھتے تھے اور علمدار یا علم بردار کو قلبی و روحانی یا نفسیاتی طور پر قوت و شوق دلاتے تھے اور اسے شجاعت و دلیری کیلئے جذبات کو ابھارا کرتے تھے۔ اسی عمل کو بنی عباس کے خلفا کے زمانے میں کسی دوسرے طریقہ سے انجام دیتے رہتے تھے اور اس حد تک کہ وہ علم باندھتے اس بات پر دقیق نظر رکھتے تھے کہ اس تقریب میں ستارہ شناسوں یعنی منجمین سے دقیق وقت پہلے سے ہی سعد و نحس متعین کرتے تھے یعنی سعد و نیک ساعت میں ہی اس تقریب پرچم بندی کو منعقد کرتے رہتے تھے اور اس مراسم و تقریب کی خاطر وہ لوگ بہت ہی زیادہ رقم مختص اور خرچ بھی کرتے تھے نیز اس کیلئے خاص بجٹ معین کرتے تھے۔

جیسا کہ مورخین اپنی کتابوں میں رقم کرتے ہیں: مصر کے فاطمی خلفاء نے اسی پرچم بندی کی تقریب کے انعقاد کیلئے ایک مخصوص ادارہ قائم کر رکھا تھا کہ جو ۱۰۰ سال تک اپنی فعالیت کو بغیر کسی تعطل کے مسلسل انجام دیتا رہا اور اس پر سالانہ اخراجات یا بجٹ ۸۰ ہزار دینار (یعنی سونے کے سکے) ہوا کرتے تھے یہی مذکورہ رقم اسی تقریب یا مراسم کیلئے مخصوص ہوا کرتی تھی۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 1/ 183 & 218.)


عَلَم و پرچم کی خصوصیات

زمانہ جاہلیت میں پرچموں یا علَموں کی صحیح شکل و صورت کیسی رہی یہ امر درست طریقہ سے مشخص نہیں ہوا ہے لیکن چاہے اسلام سے پہلے یا اس کے بعد عربوں میں معمول رہتا تھا کہ خود ان کا علم ایک نیزہ پر قرار دیتے تھے پھر بھی پرچموں کے بناوٹ یا رنگ یا نقش و نگار یا کیفیت کے اعتبار سے ایک دوسرے سے متفاوت ہوتے رہے ہیں، ایام جاہلیت میں قریش کا ایک مخصوص "سیاہ رنگ" کا علم بنام "عقاب" ہوا کرتا تھا کہ صدر اسلام میں کبھی کبھار اسی رنگ کے علم کا استعمال کرتے رہتے ہیں۔ خاص طور پر بنی عباس کی خلافت کے زمانہ میں اہلبیت کے خونخواہی یا انتقام و بنی ہاشم کے شہدا کی عزاداری کی علامت اور بنی امیہ کے ذریعہ ہاشمیوں کے قتل عام انجام دیا گیا ہے اسی کی نشانی کے طور پر سیاہ رنگ کے علم کا استعمال کرتے رہے ہیں جبکہ بنی امیہ کی حکومت کے دور میں سرخ رنگ کے پرچم کا استعمال ہوا کرتا تھا۔

    امام رضاؑ کی ولی عہدی کے زمانہ میں مامون کے دستور کے مطابق پرچم کے رنگ اور درباری لباس کو سیاہ کے بجائے سبز رنگ میں بدل دیا گیا۔ یہ تبدیلی امام رضاؑ کے ہاتھ پر بیعت مامون کی نشانی کے طور پر انجام دی گئی۔ لیکن آنحضرت کی شہادت کے بعد پھر اپنے سابقہ پرچم اور درباری لباس کا رنگ یعنی سیاہ کی طرف ہی پلٹ گئے۔

    اسی زمانہ میں افریقہ کے اسلامی شہروں کے بادشاہوں کے پرچم سونے کے تاروں سے مزین اور ریشم کے کپڑے سے تیار کرتے تھے.

    ترک سلاطین اپنے دور میں پرچم میں بالوں کا گچھا اور منگولہ یعنی گول گچھا نما کوئی چیز قرار دیتے تھے جسے وہ لوگ چتر یا سنجق کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ (تاریخ التمدن الاسلامی، 1/ 181.)


صدر اسلام کے عظیم علمداران


۱۔ حمزة بن عبد المطلبؑ:

جن کی اسلام میں سب سے پہلی علمداری کا واقعہ سابق کی تحریر میں بیان ہو چکا ہے۔

  

۲۔ امیر المؤمنین علیؑ:

آپ نے اکثر جنگوں میں شرکت فرمائی ہےاور جن جنگوں میں آنحضرت شرکت فرماتے تھے اس کے علمدار بھی ہوتے تھے، جنگ بدر میں لشکر اسلام کے ۳ علم تھے: پہلا "سفید رنگ" کا علم، دوسرا "سیاہ رنگ" کا علم اور تیسرا "مِرط عاشیه" سے علم بنایا ہوا تھا، مرط اون یا ریشم سے بنایا ہوا ایک قسم کا کپڑا ہوتا ہے جو لباس بنانے میں بھی استعمال ہوتا ہے لہٰذا یہی علم پیغمبر اکرم نے علی بن ابیطالبؑ کو مرحمت فرمایا۔

    غزوہ احد میں بھی مہاجرین کی علمداری حضرت علیؑ کے ہاتھوں میں ہی تھی اور یہاں تک تذکرہ ملتا ہے کہ کفار قریش کے تمام ہی علمداروں یا علم برداروں کو امیر المومنینؑ نے اپنے ہی ہاتھوں سے قتل کیا ہے اور ان کا علم سرنگوں ہو کر زمین بوس ہوا۔ اسی دوران کفار قریش کے لشکر میں سے ایک عورت بنام "عمرۃ بن علقمة حارثیة" ان عورتوں میں سے تھی کہ جو کفار قریش کے جنگجوؤں کی شجاعت و نفسیات اور اپنے مقتولین بدر کی انتقامی جذبات کی تقویت دینے اور ابھارنے کی خاطر ہی میدان جنگ میں آئیں تھیں لہٰذا مذکورہ عورت نے اپنے ہاتھوں میں کفار قریش کے جنگی پرچم کو اٹھا کر بلند کیا پھر اس علم کو ایک حبشی غلام بنام "صؤاب" نے جو ابو طلحہ کی اولاد کا غلام تھا کو دیدیا کہ یہ بھی مسلمانوں کے ہاتھوں ہلاک ہوا، جبکہ اس کے ہاتھ قطع ہو گئے تھے مگر پھر بھی اس علمدار نے اپنے بازو اور گردن کی مدد سے اپنے لشکر کے علم کو بلند کر رکھا تھا تب امیر المومنینؑ نے اس کی گردن تلوار سے مار کر اسے ہلاک کر دیا۔

    جس کی کیفیت کو حسان بن ثابت انصاری نے اپنے ایک شعر میں اس طرح تذکرہ کیا ہے:

فَلَوْلا لِواءُ الحارِثِیَّةِ أَصْبَحُوا

یُبَاعَونَ فِی الأَسْوَاقِ بَیْعَ الْجَلائِبِ

(السیرۃ النبویة، ابن هشام، 3/ 83. ) 

    ترجمہ: اگر ایک حارثیہ عورت کفار قریش کے پرچم کو ہاتھوں میں بلند نہ کرتی تو وہ لوگ اپنے ہی علم کو بردہ فروش کے بازاروں میں فروخت کر دیتے۔

     یہ ایک بہت بڑی فضیحت تھی کہ جس نے کفار قریش کے ناقابل شکست شمار ہونے والی فوج کو نقصان ایسا پہونچایا جس کا متبادل ممکن ہی نہیں کہ ایک حبشی غلام اور ایک عورت نے ہی کفار قریش کے علم کو بلند کر رکھا تھا۔ جس کی توصیف شاعر اسلام حسان ن ثابت انصاری خزرجی نے اپنے اشعار میں بیان بھی کیا ہے: 

فَلَوْلا لِواءُ الحارِثِیَّةِ أَصْبَحُوا

یباعون فی الأسواق بالثمن الکسرا

    ترجمہ : اگر ایک حارثیہ عورت کفار قریش کے پرچم کو ہاتھوں میں بلند نہ کرتی تو وہ لوگ اپنے ہی بیرق کو بازاروں میں کوڑیوں میں فروخت کر دیتے۔ (السیرۃ النبویة، ابن هشام، 3/ 84.)

    یثرب یعنی مدینہ کے قبیلہ اوس کے علم کا رنگ سبز اور قبیلہ خزرج کے علم کا رنگ سرخ ہوا کرتا تھا، لہٰذا پیغمبر اکرمؐ نے ان دو قبائل کی دیرینہ آپسی رنجش کے عدم اظہار کی خاطر اور ان کے درمیان کے اختلاف کو ختم کرنے کیلئے ان دونوں قبیلوں کو اجازت فرمائی کہ وہ لوگ اپنے ہی رنگوں کا استعمال کریں۔  (کتاب المغازی، 3/ 895.)

    جنگ خیبر میں امیر المومنینؑ کی قابل دید اور درخشاں علمداری کو تاریخ اسلام میں زندہ جاوید بنا دیا ہے، پیغمبر اسلام نے اسی جنگ میں سفید علم باندھا اور خیبر والوں سے جنگ کیلئے گئے جبکہ یہودیوں کے درمیان ایک تنومند اور قوی الجثہ يا قوي الہیکل پہلوان مرحب نامی بھی تھا کہ اسی نے تن بتن جنگ میں انفرادی طور پر لشکر اسلام کے چند پہلوانوں کو درجہ شہادت پر پہونچایا اور مسلمانوں کا یہودیوں سے جنگ کرنا ایک طرح سے متوقف یا سکون کی حالت میں پہونچ گئی۔ (السیرۃ الحلبیة، علی بن برهان الدین الحلبی، مصر، مطبعة مصطفی البابی، 1349ق، 2/ 15 & 156.)

    جب پیغمبر اکرمؐ نے خیبر کے قلعہ کی بلند و بالا دیواروں کو ناقابل تسخیر ہونے سے رو برو ہوئے تو آنحضرت نے  اپنے لشکر کا علم ابو بکر کو دیا تو انہوں نے بھی رات تک ہی جنگ کیا لیکن فتح کی کوئی بھی خوش خبری نہ دے سکے، پھر دوسرے روز عمر بن خطاب کو اپنا علم دیا اور لشکر کو بھی ان کے ساتھ روانہ کیا وہ بھی صبح سے رات تک جنگ کرتے رہے مگر پھر بھی کامیابی نہیں ملی۔

    پھر پیغمبر اسلام ؐنے بھی یہی فرمایا ہے: 

لَأَدْفَعَنَّ الرّأیَةَ غَداً إِلٰی رَجُلٍ یُحِبُّ اللهَ وَ رَسُولَهُ لَا یَنْصَرِفُ حَتّٰی یَفْتَحَ اللهُ عَلٰی یَدِهِ

    آنے والے کل کے روز میں اس مرد کو علم دوں گا کہ جو اللہ اور اسکے رسولؐ سے محبت کرتا ہوگا اور اس وقت تک نہیں پلٹے گا جب تک اس کے ہاتھوں اللہ فتح و ظفر قرار نہ دے گا۔

سارے کے سارے اصحاب منتظر تھے کہ آئندہ کل پیغمبر اکرمؐ اسلام کا علم کس کے ہاتھ میں دیتے ہیں؟ دوسرے دن صبح میں رسولخداؐ نے امام علی کے تعاقب مىں ایک شخص کو بھیجا کہ جو اپنے خیمہ میں آشوب چشم کے درد کی بنا پر کچھ بھی نہیں دیکھ پا رہے تھے۔ رسول اسلامؐ نے آنحضرت کی آنکھوں میں دم کیا اور امام علیؑ نے اپنی آنکھوں کو وا کیا یعنی کھولا، پھر رسول اکرمؐ نے علمِ اسلام آنحضرت کو عطا کیا۔ آنحضرت علم لے کر قلعہ خیبر کے دروازہ کے مقابل میں پہونچے، قوم یہودی کے لوگوں میں سے ایک کے بعد ایک فردا فردا قلعہ سے باہر آنے لگے اور امام علیؑ سے مقابلہ کرنے لگے اور ہلاک ہونے لگے، اسی دوران ان ہی میں سے ایک پہلوان قلعہ سے باہر آیا، [بعض مورخین کی صراحت کے مطابق اس کا نام مرحب تھا۔] (السیرۃ الحلبیة، علی بن برهان الدین الحلبی، مصر، مطبعة مصطفی البابی، 1349 ق، 2/ 161؛ تاریخ الیعقوبی، احمد بن ابی یعقوب، تہران، بنگاہ ترجمه و نشر کتاب، چاپ سوم، 1356 ش، 1/ 415.)

    مرحب کے ہاتھ میں ایک گرز آہنی تھا جسے امام کی کی ڈھال پر پوری طاقت سے مارا پس ڈھال ٹوٹ گئی اور حضرت علیؑ قلعہ کے دوازی کی طرف دوڑے پھر درِ خیبر کو اس کی جگہ سے اکھاڑ کر اپنی سپر بنا لی اور در خیبر ایک ایسا وزنی دروازہ تھا جسے ۸؍ افراد بھی جسے حرکت نہیں دے سکتے تھے۔ (سیرۃ رسول الله، رفیع الدین اسحاق بن محمد، تہران، نشر مرکز، 1373 ش، ص 418 & 419.)

    ہجرت کے آٹھویں سال فتح مکہ کے واقعہ میں بھی پیغمبر اسلامؐ نے ایک علم سعد بن عبادہ کے ہاتھ میں دیا تھا اور جب مکہ میں داخل ہوئے لشکر اسلام کے علمدار سعد بن عبادہ نے یہ نعرہ بلند کیا:

اَلیَومَ یَومُ المَلحَمَة،

اَلیَومَ تَستَحَلُّ الحُرمَة،

اَلیَومَ أَذَلَّ اللہُ قُرَیشاً

آج انتقام کا دن ہے، آج حرمت حلال ہونے کا دن ہے، آج اللہ نے قریش کو ذلیل کیا ہے۔

پھر پیغمبر رحمتؐ نے ان کے نا مناسب نعرہ کی بنا پر علم اور اسلام کی علمداری ان سے واپس لے کر امیر المومنینؑ کے سپرد کیا اور پیغمبر رحمتؐ نے فرمایا کہ اب یہی نعرہ لگایا جائے:

اَلیَومَ یَومُ المَرحَمَة،

اَلیَومَ أَعَزَّ اللہُ فِیة قُرَیشاً

آج رحم کرنے کا دن ہے، آج اللہ نے قریش کو عزت بخشی ہے۔

    پیغمبرؐ اسلام نے بھی اپنی ذاتی مجلس میں یہی فرمایا:

وَ لٰکِن یَوم یُعَظِّم الله فِیة الکَعبَة

و یَوم تکسی فِیة الکَعبَة

لیکن اس دن اللہ تعالی نے کعبہ کو عظمت بخشی ہے اور کعبہ پر چادر چڑھانے کا دن قرار دیا ہے۔

    بالآخر نتیجہ یہی نکلا کہ دین اسلام اور پیغمبر اسلامؐ کو اللہ کی مخلوقات کیلئے رحمت بنا کر بھیجا ہے:

یَومُ المَرحَمَة، لَا یَومُ المَلحَمَة

آج رحم کرنے کا دن ہے نہ کہ روز انتقام يا ضرب و قطعت كا دن ہے۔

    اس لئے کہ جس وقت رسول رحمتؐ کے لشکر نے مکہ کے اطراف کی پہاڑیوں کی بلندیوں سے نیچے اترنے لگے تو اس مضمون کی رجز خوانی کر رہے تھے: آج کا دن روز جنگ و کار زار ہے، آج کا دن ناموس و عزت کی کوئی وقعت نہیں رہی اور قریش کے افراد کو ذلیل و خوار کریں گے۔

    عمر بن خطاب نے جب اس طرح کی رجز خوانی کو سنا تو پیغمبر رحمتؐ کی طرف دوڑے ہوئے گئے اور جو کچھ انہوں نے سنا تھا نقل کر دیا، پیغمبر اسلامؐ مغموم ہوئے اور امیر المومنین کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے فرمایا: جاؤ اور سعد سے علم اور علمداری لے لو اور خود ہی علم اور علمداری کو اختیار کرو پھر مکہ کی طرف روانہ ہو جاؤ!، امیر المومنینؑ نے بھی علم اور علمداری کو اپنے ذمہ لیا۔ (سیرۃ رسول الله، رفیع الدین اسحاق بن محمد، تہران، نشر مرکز، 1373 ش، ص 446) 

  مکہ کی طرف روانگی اس حالت میں ہوئی تھی کہ متعدد علموں میں سے ایک علم خود بنفس نفیس رسول رحمتؐ کے بھی ہاتھوں میں موجود تھا۔ (السیرۃ الحلبیة، 2/ 207.)

 

۳۔ مُصعَب بن عُمَیر :

یہ موصوف بھی اسلام کے عظیم شیدائی ودلیر سپاہی اور نامور علمداروں میں شمار ہوتا تھا، یہ "مصعب الخیر" کے لقب سے مشہور تھے، جنگ احد میں پیغمبر اکرمؐ نے دو عدد زرہیں ایک کے اوپر ایک پہن رکھی تھیں اور اس جنگ میں تین علموں میں سے ایک علم انہی کو پیغمبر اسلامؐ نے دے کر مسلمانوں کے لشکر کا علمدار قرار دیا تھا۔ (السیرۃ الحلبیة، 2/ 15؛ سیرۃ رسول الله، ص 324؛ السیرۃ النبویة، 3/ 70.)

    مصعب کا تعلق عبد الدار کے خاندان سے تھا جیسا کہ ہم عبد الدار کے بارے میں پہلے تحریر کر چکے ہیں، جزیرۃ العرب میں خاندان عبد الدار کی اولاد کو ہی علمداری کا منصب حاصل تھا، پیغمبر رحمتؐ نے بھی اس خاندان کی عزت اور علمداری کے عہدہ کے احترام میں مصعب کو بھی ۳ علموں میں سے ایک مسلمانوں کا علم عطا کر کے علمداری کا عہدہ عنایت فرمایا۔ (السیرۃ الحلبیة، 2/ 15.)

    یہ بھی علمدار تھے اور پیغمبر خدؐا کی ذات گرامی کی حفاظت بھی کیا کرتے تھے، میدان کی چند جھڑپوں یا لڑائیوں کے بعد رسولخدؐا کے حضور کھڑے ہوئے تھے کہ کفار میں سے کسی نے انہیں درجہ شہادت کو پہونچایا، قریش کے سپاہیوں نے سمجھا کہ پیغمبرؐ کو کسی کافر نے قتل کیا ہے لہٰذا کفار قریش چلانے لگے: محمدؐ کو ہم نے قتل کر دیا۔ اس غلط افواہ کا مسلمانوں کی نفسیات اہمترین اثر ڈالا اور ایک طرح سے شکست جیسے حالات پیدا ہوئے، جس وقت مصعب شہادت کو پہونچے تو پیغمبرؐ اکرم نے ان کا علم امیر المومنینؑ کے سپرد فرمایا اور حضرت علیؑ کی عظمت و منزلت اور لشکر اسلام کی علمداری کے کردار کو تاریخ میں رنگوں سے بھر يا چار چاند لگا کر زندہ جاوید بنا دیا۔  (سیرۃ رسول الله، ص 331؛ السیرۃ النبویة، 3/ 77.)


    ۵- دیگر علم برداران:

جزیرۃ العرب میں عام طور پر تمام جنگیں جنہیں شرعی اصطلاح میں غزوات (اس کی واحد غزوہ ہے) نیز سرایا (جس کی واحد سریه ہے) کے نام سے جانا جاتا ہے؛ (غزوہ: ان جنگوں کو کہا جاتا ہے جن میں پیغمبر اسلامؐ بنفس نفیس حاضر رہے ہیں اور سریہ: ان جنگوں کو کہا جاتا ہے جس میں پیغمبر اکرمؐ حاضر نہیں رہے ہیں۔) 

    ان تمام جنگوں میں لشکر اسلام چند علم اپنے ساتھ حمل کرتے تھے، مذکورہ افراد سے بھی زائد علمدار کی تعداد موجود ہوا کرتی ہے، کیونکہ ہر قبیلہ اپنے خاص علم کا استعمال کرتے رہے ہیں اور گذشتہ قرائن کی موجودگی کے ساتھ ہم کہہ سکتے ہیں کہ شائد پیغمبر اسلامؐ نے بعض وجود خارجی کی دلیلوں کی بنیاد پر چاہے نسل و قومیت کا رجحان مسلمانوں میں گہرائی تک پیوست تھا لہٰذا آنحضرتؐ نے انہیں اجازت دی تھی کہ ہر قبیلہ اپنا اپنا علم پہچان و شناخت اور جنگجوؤں کو جنگوں میں شرکت کی خاطر استعمال کریں۔

ان میں سے چند عظیم ترین علمداروں کا ذکر درج ذیل ہیں: 

۱۔ زبیر بن عوام،

۲۔ سعد بن ابی وقاص،

۳۔ أبو نائله،

۴۔ قَتادہ بن نعمان،

۵۔ ابی بُردہ بن نیار،

۶۔ جبر بن عتیک،

۷۔ ابو لبابه بن عبد المنذر،

۸۔ أبو اُسَیّد ساعدی،

۹۔ عبد أسد بن زید،

۱۰۔ قطبة بن عامر بن حدیده،

۱۱۔ عماره بن حزم،

۱۲۔ سلیط بن قیس

وغیرہم کے ناموں کا ذکر کر سکتے ہیں۔ (کتاب المغازی، 2/ 900.)

پرچم و پرچمداری از جاهلیت تا عاشورا

}i{ مترجم : ابو دانیال اعظمی بریر }i{

بقیہ آئندہ تیسری قسط میں ملاحظہ کیجئے!

ان شاء اللہ المستعان العلی العظیم



DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی