علم اور علمداری دور جاہلیت سے عاشورا تک-3

via pinterest




علم اور علمداری از جاہلیت تا عاشورا-٣

ترجمہ : جون رضا مباركپوری

(امام جمعه مسجد ام البنین شهر مئو)

مبائل نمبر: 8081797479


فہرست مطالب


ملتوں اور قوموں میں علمداری کا پس منظر (پہلی قسط)

عربوں میں علم اور علمدار کی اھمیت

اسلام میں علمداری

مسلمانوں کا سب سے پہلا عَلَم اور علمدار

عَلَم باندھنے کی تقریب اور مراسم (دوسری قسط)

عَلَم کی خصوصیات

صدر اسلام کے عظیم علمداران

امیر المؤمنینؑ کے عَلَمداران (تیسری قسط)

معاويه کے علمداران

امام حسینؑ کے علمداران اور صاحب لواء (آخری قسط)


√√√√√√√√√√√√√√√√√√√√√√√√


امیر المؤمنینؑ کے عَلَمداران


۱۔ محمد بن حنفیه:

جب امیر المؤمنینؑ اور جناب عائشہ کے درمیان جنگ جمل رونما ہوئی تو امام علیؑ نے اپنے لشکر میں متعدد علم قرار دیا، لیکن انہوں نے ایک سب سے بڑا سفید رنگ کا علم (صدر یا مرکزی علم) بنایا تھا جسے اپنے بیٹے محمد حنفیہ کے سپرد کیا جو علم ایک بڑے نیزہ کے سرے پر باندھ رکھا تھا۔ (الجمل، محمد بن محمد بن النعمان العکبری البغدادی الشیخ المفید، نجف، مطبعة الحیدریۃ، بی تا، بی نا، ص 183.)

    امام نے اپنے لشکر کی صفوں کو منظم کیا اور جس وقت تمام فوجی اپنے اپنے مقام پر متمکن ہو گئے تو آنحضرت نے محمد حنفیہ کو اپنے پاس بلایا اور علم کو دعا کرتے یا پڑھتے ہوئے نیز علمدار کی روحانیت و نفسیات کی تقویت کیلئے نیک تمناؤں اور خیر کی آرزواؤں کی دعاؤں کے ساتھ سپرد کیا، اس وقت تو جنگ جمل میں محمد حنفیہ کی عمر شریف ۱۹ سال سے زائد نہیں ہوئی تھی۔

    پھر امیر المؤمنینؑ نے اس علمدار سے فرمایا:

وَأَمَّا هٰذِهِ الرَّأیَةُ إِنِّی وَاضِعُهَا الْیَومَ فِی أَهْلِهَا  

    اس علم کے سلسلہ میں یہی کہنا چاہوں گا کہ میں نے آج کے دن اس علم کی علمداری کا اہل اور لائق و فائق سمجھتے ہوئے تمہارے سپرد کر رہا ہوں۔ (الجمل، ص 174)

    اس کے بعد امام حسن کو اپنی فوج کے میمنہ کے حصہ (داہنی سمت کے لشکر) کا علمدار مقرر فرمايا اور پھر امام حسین کو اپنی فوج کے مَیْسرہ کے حصہ (بائیں سمت کے لشکر) کا علمدار معین فرمايا۔ (الجمل، ص 170) 

    پھر محمد بن حنفیہ نے امام نے فرمایا:

تَقَدَّمْ بِالرّأیَةِ وَإعْلَمْ أَنَّ الرَّأیَةَ أَمَامَ أَصْحابِکَ فَکُنْ مُتَقَدِّماً یَلْحَقَکَ مِنْ خَلْفِکَ 

    علم کے ساتھ ہی پیشروی کرتے یعنی آگے بڑھتے ہی رہو اور یہ جان لو کہ علم بھی تمہارے پیشروی کرنے والے فوجی ساتھیوں کے پاس ہی ہونا چاہئے تا کہ تمہارے پیچھے رہ جانے والے سپاہی تم سے ملحق ہو جائیں۔ (الجمل، ص 175.) 


۲۔ حُصَین بن مُنذِر:

جنگ صفین میں ان موصوف کی عمر شریف صرف ۱۹ سال ہی ہوئی اور امیر المومنینؑ نے اپنے لشکر کی علمداری کے عہدہ پر معین فرمایا اور امام نے سرخ رنگ کا علم ان کے حوالہ کیا اور اپنے دوش پر قرار دیا۔

    امیر المومنینؑ نے ان ہی کی توصیف اور علم کے بارے میں یہ شعر کہا ہے: 

لِمَنْ رأیَةٌ حَمْراءُ یَخْفِقُ ظِلُّهَا

إِذَا قِیلَ قَدِّمْهَا حُصَیْنُ تَقَدَّمَا …

(وقعة صفین، نصر بن مزاحم المِنقری، قم، منشورات آیة الله المرعشی النجفی، چاپ دوم، 1404 ق، ص 289.) 

    جب سرخ علم لہراتے ہوئے اس کا سایہ نمودار ہوا، وہ کون ہوگا جو یہ کہے گا اسے لے کر آگے بڑھو لہٰذا (اے) حُصَین اس علم کو لے کر آگے بڑھو۔

    امامؑ نے جس وقت اس علم کو ان کے حوالہ کیا تو فرمایا: مد مقابل کے دشمن کی صف پر (زوردار) حملہ کرو اور انہیں اس کی مہلت مت دو۔ (کہ دشمن تم پر حملہ ور ہوں) انہوں نے علم کو اپنے دوش پر اٹھایا اور یہ نعرہ یا رجز اپنی زبان پر جاری کرتے ہوئے آگے بڑھے: (میدان جنگ میں) موت (کا آنا جنگ کے میدان سے) فرار کرنے سے بہتر ہے۔ (الفتوح، ابن اعثم کوفی، قم، نشر دار الہدی، 1379 ش، ص 145.)

    خود امیر المومنینؑ نے بھی علم سپرد کرتے ہوئے یہ فرمایا:

سِر عَلیٰ إسْمِ الله یَا حُصَیْنُ وَ إعْلَمْ إِنَّهُ لَا یَخْفِقُ عَلیٰ رَأْسِکَ رَأیَةٌ أَبَداً مِثْلُهَا إِنَّهَا رَأیَةُ رَسُولِ الله (ص).

    اے حُصَین! خدا کے نام پر ہی آگے بڑھتے رہو اور یہ جان لو کہ یہ (عظیم) علم تمہارے سر پراسی طرح سے لہراتا رہے کیونکہ یہ وہی علم ہے جو رسولخداؐ کے ہاتھ میں بھی رہا ہے۔  (وقعۃ صفین، ص 300.)

    مورخین نے اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے: اس جنگ میں امیر المومنینؑ کے لشکر میں بہت سے سیاہ رنگ کے علم موجود تھے نیز سیاہ رنگ کے علاوہ سرخ، ہلکا سیاہ، مُعَفر (یعنی سرخ مائل بزرد) و سخت سیاہ رنگوں کے متعدد علم موجود تھے اور امام کے سپاہیوں نے اونی سفید کپڑے کا بھی علم اپنے سروں اور دوش پر لگا رکھے تھے۔ (وقعة صفین، ص 332.)


معاویہ کے علمداران:

امیر شام کی فوج میں بھی بہت سے علمداران موجود تھے جن میں سے ہم چند کا تذکرہ بطور مثال یہاں پر رقم کر رہے ہیں:

۱۔ بُسر بن ارطاۃ قرشي، 

۲۔ عبید الله بن عمر بن خطاب عدوي، 

۳۔ عبد الرحمن بن خالد بن ولید مخزومي، 

۴۔ محمد بن ابو سفیان اموي،

۵۔ عتبه بن ابو سفیان اموي

وغیرہم کے نام کتابوں میں ملتے ہیں۔

 معاویہ نے بھی اپنی خاندانی وقار و عزت میں اضافہ کی خاطر زیادہ تر اپنے ہی خاندان کے افراد کو علمدار مقرر کرتا رہتا تھا۔ (وقعۃ صفین، ص 424.)

کیونکہ کفار قریش فتح مکہ کے موقع پر اسلام لائے اور طلقاء کے طبقات میں سے یہی لوگ تیسرے یعنی ادنی طبقہ کے طلقاء میں شمار ہوتے تھے اور انہیں طلقاء کے لقب سے یاد کر کے ان کی توہین کیا کرتے تھے۔

تفصیلات کیلئے ہمارا مضمون "طلقاء کون لوگ ہیں نیز اب کی تعداد اور مشاہیر کون ہیں اور ان کتنی قسمیں ہیں" کا مطالعہ کیجئے۔

جس کا لنک ہم ذیل میں درج کر رہے ہیں: click


    جنگ صفین میں عمرو بن عاص سهمي نے بھی ایک ۴ کونے والا سیاہ کپڑے کا (چوکور) ٹکڑا نیزہ پر باندھا تھا اور یہ افواہ اڑا کر مشہور کر دیا تھا کہ یہ وہی علم یا پرچم ہے کہ جسے رسولخداؐ نے باندھا تھا۔ جب یہ خبر امیر المومنینؑ تک پہونچی تو امام نے وضاحت کرتے ہوئے تمام احوال اس طرح بیان فرمایا: کیا تم لوگ اس پرچم یا علم کے واقعہ کا علم رکھتے ہو کہ کیا ماجرا ہے؟ پیغمبر خداؐ نے اس علم کے کپڑے کو دشمن خدا، عمر بن عاص اور دوسروں کو دکھاتے ہوئے ارشاد فرمایا: کون ہے جو اس (علم کو) ایک شرط کے ساتھ قبول کرے گا؟ تو عمرو عاص اٹھا اور کہنے لگا: وہ شرط کیا ہے؟ رسولخداؐ نے فرمایا: اس کی شرط یہی ہے کہ کسی بھی مسلمان کے ساتھ جنگ نہیں کرو گے اور کسی ایک کافر کو بھی آسودہ خاطر نہیں رہنے دو گے۔ تب عمرو عاص نے بھی مذکورہ شرط کے ساتھ اس علم کو لیا اور خدا کے نام پر قسم کھائی، یہ وہی شخص ہے جس نے اس وقت مشرکین کو آسودہ خاطر کیا اور آج ہی کے روز مسلمانوں کے ساتھ جنگ کیلئے اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ (وقعۃ صفین، ص 215.)


۳۔ خَالِد بن مُعَمَّر سدوسی: 

موصوف بصریوں اور کوفیوں کی فوج کی علمداری کا شرف حاصل تھا، جنگ جمل اور صفین میں بھی شریک تھے، یہ خاندان ربیعہ کے ایک متقی و پرہیزگار جوان تھے کہ جو بہت زیادہ شوق و شغف رکھتے تھے کہ لشکر کی علمداری کا منصب ان کے سپرد کیا جائے۔ (وقعۃ صفین، ص 286.)

    انہوں نے جب لشکر کا علم لے کر علمداری کے عہدہ پر فائز ہونے پر سب سے پہلا کا یہی کیا چونکہ موصوف اپنے قبیلہ کے سرادر بھی تھے لہٰذا اپنے قبیلہ بنی بکر بن وائل کی طرف رخ کر کے یہ کہا: اے کروہ ربیعہ! بیشک خدا اعلی و ارفع مرتبہ والا ہے، جس نے تم سب لوگوں اپنی پیدائش کے مقام سے اس جگہ پر جمع کر دیا ہے اور ہم اب تک اس طرح ایک ساتھ جمع بھی نہیں ہوئے تھے، اگر سچ میں جنگ کرنے کا موقع پڑ جائے اور اس جنگ سے رو گردانی کروگے تو خداوند عالم تم لوگوں سے راضی و خوشنود نہ ہوگا اور عقلمندوں کی زبان کے طعن و تشنیع کے زخم سے بھی محفوظ نہیں رہو گے، کہیں ایسا نہ ہو کہ آج کے دیگر مسلمان تمہیں منحوس سمجھیں!، پس ہمت سے بھی کہیں بڑا قدم اٹھاؤ اور آگے بڑھو اور جان کی بازی لگا دو... کہ خداوند متعال اس شخص کے اجر کو جو اپنا نیک کردار نبھاتے رہیں گے تو ان کے اجر و ثواب کو ضائع و بربادہرگز نہیں کرے گا۔ (وقعۃ صفین، ص 287.)

    انہی کے مذکورہ بالا خطبہ کی بنا پر امامؑ کے لشکریوں کو معاویہ کے خلاف جنگ کیلئے تشویق و تحریص کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔


۴۔ هَاشِم بن عُتَیبَه بن ابي وقاص زهري:

موصوف ایک بہادر و دلیر مرد تھے کہ فوج کے علم کو اپنے دوش پر رکھا اور پیش قدمی کرتے رہے، معاویہ کی فوج کا ایک سپاہی دوران جنگ امیر المومنینؑ پر سبّ و شتم کر رہا تھا، ہاشم نے اس شاتم (گالی بکنے والے) سے کہا: خدا سے ڈرو کہ اس جنگ کے بعد تمہارا حساب و کتاب ہونے والا ہے! اور اسے راہ راست کی طرف راہنمائی فرمائی تو وہ جوان اپنے کئے ہوئے پر پشیمان ہوپھر توبہ کر لیا؛ لیکن معاویہ کے فوجیوں کی زبانیں طنز میں اس شخص سے یہ کہنے لگے کہ اس مرد عراقی نے تمہیں فریب و دھوکا دیا ہے اور اس سپاہی نے ہاشم کی طرف حملہ کر کے انہیں مجروح کر دیا۔

    جب امیر المومنینؑ نے دیکھا کہ ہاشم کا علم نشیب میں ہے تو آنحضرت نے دستور فرمایا کہ ان کے علم کو بلندتر کرو، لیکن جب امام کی نظر ہاشم کے بدن پر پڑی تو دیکھا کہ ان کا شکم پھاڑ دیا گیا ہے۔

    پھر ہاشم کی جگہ پر بکر بن وائل نامی شخص نے ان کے علم کو بلند کیا اور اسی کے مقام پر قرار دیا لیکن یہ علمدار بھی درجہ شہادت پر فائز ہو گئے۔

اس کے بعد عبد الله بن ہاشم بن عتیبه اسی علم کو اٹھایا اور اپنے والد کی شہادت کے سوگ میں یہ فریاد بلند کرنے لگے: اے لوگو! ہاشم خدا کے بندوں میں سے ایک بندہ تھا کہ جس نے اپنے خدا کی نافرمانی نہیں کی اور خالق کی دعوت پر لبیک کہا اور رسولخدا کے چچا کے فرزند (چچا زاد بھائی علیؑ) کی فرمان برداری کی راہ میں اپنی جان کو قربان کر دیا.... (وقعۃ صفین، ص 347.)


۵۔صِفِّین کے دیگر علمداران:

    اگر چہ جنگ صفین میں لشکر امامؑ میں عدم اتحاد و اتفاق سبب قرار پایا کہ حکمیت کا مسئلہ پیدا ہو گیا تھا، لیکن امامؑ کے حقیقی چاہنے والوں کا بھی ایک گروہ موجود تھا، جن میں خاص طور پر یگانگی و ہمدلی واضح نظر آتی تھی، انہوں نے اس جنگ میں ایک مخصوص قسم کی دستار یا عمامہ اپنے سروں پر عقال کے مثل باندھ رکھا تھا جو ان کے اندر امامؑ کی پیروی کرنے کے جذبات میں اتفاق و اتحاد کی علامت و نشانی کا مظہر تھا۔ (تاریخ طبری، محمد بن جریر الطبری، بیروت، مؤسسہ عز الدین، چاپ سوم، 1413 ھ،  4/ 596.) 

    امامؑ نے اپنی فوج کے علمداروں سے فرمایا: اپنے علموں کو نیچا نہ کرو گے اور معرکہ کار زار سے باہر نہیں جاؤ گے اور علم کو سوائے دلآوروں کے کسی اور کو بھی اس کی نگہبانی کا شرف نہ ہی حاصل ہو نیز غیر شجاع افراد کے سپرد بھی نہیں کرو گے.... (تاریخ طبری، محمد بن جریر الطبری، بیروت، مؤسسہ عز الدین، چاپ سوم، 1413 ھ،  5/ 11.)


    امیر المومنینؑ کے لشکر میں علمداری کے عہدہ پر عظیم اصحاب فائز تھے لہٰذا ان نامور علمداروں کے چند نام درج ذیل ہیں:

۱۔ هاشم بن عتبه بن ابی وقاص زهري معروف بمرقال (علمدار كل لشكر)، 

۲۔ عمار بن یاسر  عَنْسِيّ‎

۳۔ حجر بن عدیّ کندی، 

۴۔ عمر بن حَمِق خزاعی، 

۵۔ نُعَیم بن هُبَیرة شيبانيّ

۶۔ رفاعة بن شداد بجلي

۷۔ عبد الله بن عباس هاشمى

و غیرهم۔ (وقعۃ صفین، ص 205.)


۶۔اَبُو اَیُّوب اَنصَارِی خزرجي: 

موصوف کو رسولخداؐ کی میزبانی کا شرف بھی حاصل رہاہے، یہ جنگ نہروان کے موقع پر لشکر امیر المومنینؑ کے علمدار کے عہدہ پر فائز تھےکہ اسی جنگ کے آخری لمحات میں جبکہ حَکَمِیَّت کے واقعہ کے بعد امامؑ اور خوارج کے درمیان معرکہ کارزار گرم تھا جس میں خوارج امیر المومنینؑ کو مقصر خیال کرتے ہوئے امامؑ کو قتل کرنا اپنے خیال خام میں خود پرواجب تصور کر رہے تھے اور امامؑ بھی یہ نہیں چاہتے تھے کہ خوارج کی بدترین تبلیغات کی بنا پر سادہ لوح افراد کو غافل گیر کر سکے تھے جو اس جنگ میں قتل ہو جائیں تو امامؑ نے ابو ایوب انصاری سے ارشاد فرمایا تا کہ وہ علم لے کر آگے بڑھیں اور خوارج کے لشکر کی نگاہوں کے سامنے رکھیں یہاں تک کہ جو شخص بھی اس علم کے نیچے پناہ لینا چاہے تو اس پرچم تلے جمع ہو جائے گا تو اسے معاف کر دیا جائے گا اور امان بھی دی جائے گی۔ لہٰذا ابو ایوب انصاری اپنے علم کو لے کر آگے بڑھے اور کہا: جو کوئی بھی اس علم کے سایہ میں آجائے گا اسے ہی امان نصیب ہوگی۔ بالآخر اس کے نتیجہ میں تقریا ۸ ؍ ہزار افراد لشکر خوارج سے نکل کر امامؑ کی پناہ میں آگئے یہ وہی علم یا پرچم تھا جسے ابو ایوب انصاری اٹھائے ہوئے تھے۔ (الفتن الکبریٰ، طالب السّنجری، بیروت، مجمع البحوث الاسلامیة، چاپ اوّل، 1417 ھ، ص 255.)

    لشکر خوارج کے سردار "عبد الله بن وهب راسبي" نے حملہ کا حکم دیتے ہوئے بلند آوز سے یہ نعرہ لگایا: بہشت کی طرف چلو! اور جنگ کے نتیجہ میں تقریباً اکثریت متفقہ طور پر قتل ہو گئے۔  (الکامل فی التاریخ، عز الدین علی بن اثیر، تہران، نشر اساطیر، چاپ دوم، 1376 ھـ. ش، 5/ 1943.)


پرچم و پرچمداری از جاهلیت تا عاشورا

}i{ مترجم : ابو دانیال اعظمی بریر }i{


بقیہ آئندہ چوتھی (آخری) قسط میں ملاحظہ کیجئے!

ان شاء اللہ المستعان العلی العظیم



DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی