علم اور علمداری از جاهلیت تا عاشورا-۴
ترجمه : جون رضا مباركپوری
(امام جمعه مسجد ام البنین شهر مئو)
مبائل نمبر: 8081797479
فہرست مطالب
★ ملتوں اور قوموں میں علمداری کا پس منظر (پہلی قسط)
★ عربوں میں علم اور علمدار کی اھمیت
★ اسلام میں علمداری
★ مسلمانوں کا سب سے پہلا عَلَم اور علمدار
★ عَلَم باندھنے کی تقریب اور مراسم (دوسری قسط)
★ عَلَم کی خصوصیات
★ صدر اسلام کے عظیم علمداران
★ امیر المؤمنینؑ کے عَلَمداران (تیسری قسط)
★ معاويه كے علمداران
★ امام حسینؑ کے علمداران اور صاحب لواء (آخری قسط)
★ امام حسینؑ کا عَلَمدار
عاشورا کے روز صبح میں امامؑ نے اپنے احباب و انصار کو دو حصوں میں منقسم کیا جن میں ۳۰ ؍ سوار اور ۴۰ ؍ پیادہ فوجیوں کی ایک مختصر سی تعداد موجود تھی: امام نے اپنے لشکر کے دائیں سمت (ميمنه) کے لشکر کا علمدار زہیر بن قین بجلیؑ کو قرار دیا اور لشکر کے بائیں سمت (ميسره) کے لشکر کا علمدار حبیب بن مظاہر اسدیؑ کو مقرر کیا اور خود کے سب سے زیادہ شجاع و دلیر بھائی ابو الفضل العباسؑ کو اپنے لشکر کي علمداری کا عہدہ عطا فرمایا تھا۔ (تاریخ الطبری، 5/ 213؛ مقتل الحسینؑ، موفق بن احمد الخوارزمی، قم، منشورات مکتبة المفید، بی تا، 2/ 4.)
(امام حسینؑ کے لشکر کی مجموعی تعداد میں اختلاف پایا جاتا ہے: بعض نے ۸۲ ؍ سپاہی، کچھ مورخين نے ۱۱۴ ؍ فوجی، تو چند تاريخدان نے ۱۴۵ ؍ اعزہ و انصار اور کچھ كتب مقاتل نے ۱۷۱ ؍ نفوس، پھر بعض مقابل كي كتابوں نے ۱۵۴ ؍ افراد کی مجموعی تعداد تحریر کیا ہے۔ مترجم)
(بعض مورخین نے امام حسینؑ کے لشکر کی ترکیب و تنظیم کے سلسلہ میں لکھا ہے: امام نے اپنے مختصر سی فوج کو ۳ حصوں میں تقسیم کیا:
۱۔ میمنہ یعنی دائیں لشکرکی کمان میں ۲۰ ؍ افراد کو زہیر بن قینؑ کی علمداری کے ماتحت فرمایا تھا۔
۲۔ میسرہ یعنی بائیں لشکرکی کمان میں ۲۰ ؍ افراد کو حبیب بن مظاہرؑ کی علمداری میں قرار دیاتھا۔
۳۔ بقیہ تمام افراد کو امامؑ نے قلب لشکر (مرکزی فوج کی کمان) میں عباس بن علیؑ کی ماتحتی میں مقرر کیا نیز اپنے لشکر کا مرکزی علم بھی ابو الفضل العباسؑ کو عطا کر کے "صاحب لواء" متعین فرمایا تھا۔ مترجم)
امام حسینؑ نے جناب عباسؑ کے حساس کردار کی بنا پر جو انہیں دشمنوں کے رو برو ہونے پر جنگ اور جہاد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی؛ کیونکہ ان کی شہادت علمدار ہونے کے کردار کے اعتبار سے خود ان کے ہی سپاہیوں کے نفسیات پر ناقابل تلافی کاری ضر ب لگ سکتی تھی لہٰذا جناب عباسؑ علمدار نے دیکھا کہ امامؑ تنہا و اکیلے ہو گئے ہیں اور امامؑ کے سارے احباب و انصار شہید ہو چکے ہیں تو جب علمدار لشکر حسینی نے جنگ کی اجازت طلب کی تبھی امامؑ نے مذکورہ کلمات ارشاد فرمایا ہے:
"یَا أَخِی! أَنْتَ صَاحِبُ لِوَائی وَ إِذَا مَضَیْتَ تَفَرَّقَ عَسْکَرِی"
اے میرے بھائی! تم ہی تو میرے لشکر کے علمدار ہو اور جب تم ہی چلے جاؤ گے تو میرا لشکر ہی پراکندہ و متفرق ہو جائے گا۔ (بحار الانوار، مجلسی، بیروت، مؤسسة الرسالة، 1403 ھ. ق، 45/ 41.)
بعض مورخیں نے تحریر کیا ہے:جب اسیران اہلبیتؑ کا قافلہ شام کے شہر دمشق میں پہونچا تو شہیدان کربلا کے لوٹے ہوئے مال و اسباب کے ساتھ ایک علم بھی موجود تھا جس پر شمشیر و نیزہ کی ضربات کے نشانات واضح طور پر دیکھے جا سکتے تھے جب ان لوٹے ہوئے مال و اسباب کو یزید کے سامنے حاضر کیا گیا تو یزید نے بھی مذکورہ علم کو اٹھایا اور دقت نظر سے اسے دیکھنے لگا اور پوچھا: یہ علم کس کے ہاتھوں میں رہا ہے؟ لوگوں نے جواب میں کہا: عباس بن علیؑ کے ہاتھوں میں تھا۔ تب وہ تعجب و حیرت سے کھڑا ہو گیا اور دربار میں موجود لوگوں سے کہنے لگا: اس علم کو خوب غور سے دیکھ لو، یہی دیکھو کہ اس علم کی لکڑی پر کوئی ایک جگہ بھی جنگ کے (تير و تبر، شمشير، تلوار و خنجر) حملوں کے نشانات سے محفوظ نہیں رہی ہے لیکن عباسؑ علمدار نے اپنے ہاتھوں سے جہاں پر پکڑ رکھا تھا وہ جگہ اب بھی صحیح و سلامت برقرار ہے۔ (اس مقام پر ایک کھرونچ کا نشان بھی نظر نہیں آئے گا بلکہ ایک بال کے برابر بھی نشان موجود نہیں ہے۔)
یزید کی یہ باتیں ایک طرح سے کنایہ تھیں کہ عباسؑ علمدار نے اپنے ہی ہاتھ پر تیغ و تبر نيز خنجر و تلوار کے زخموں کو برداشت کر لیا مگر اپنے لشکر کے علم کو ہرگز سرنگوں اور نیچا ہونے نہیں دیا۔ (سوگنامه آل محمدؐ، محمد محمدی اشتہاردی، قم، انتشارات ناصر، چاپ ششم، 1373. ش، ص 299.)
امام حسینؑ کے احباب و انصار کے درمیان حضرت عباسؑ کے مقام و منزلت کی حیثیت سے ایک خصوصی و منفرد بافضیلت شخصیت ہونا ثابت تھی جس وقت مدینہ میں امامؑ کے اقربا اور خواص میں سے ہر ایک آنحضرتؑ کو تحریک و قیام سے باز رکھ رہے تھے اور امامؑ کو خیر خواہی کے ساتھ ہی نصیحت بھی کر رہے تھے مزید یہ کہ امامؑ کو اس تحریک سے ہوشیار اور خبردار بھی کر رہے تھے لہٰذا حضرت عباسؑ ایسے حساس اور بحرانی حالات میں بغیر کسی مصلحت اندیشی کے امام حسینؑ کی مدد و نصرت کرنے میں سب سے آگے آگے رہے ہیں۔
دوسری طرف تحریک و قیام کے دوران بھی ہمیشہ و مستقل حضرت عباسؑ ہر موڑ پر پیش پیش رہتے ہیں، جب امام حسینؑ شب عاشورا کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ امامؑ نے اپنی بیعت اٹھا لی ہے اور اپنے احباب و انصار کو کس ایک فرد کو اپنے ساتھ لی جانے کا حکم فرما دیا، اشقیا فقط امام حسینؑ کو ہی قتل کرنا چاہتے ہیں اور دیگر لوگوں سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ سب لوگ اپنی جان بچائیں اور امامؑ کو تنہا و بے یار و مددگار چھوڑ کر چلے جائیں اور امامؑ نے ہر ایک کو کربلا سے وطن لوٹنے کی اجازت بھی دیدی تھی تو سب سے پہلے عباسؑ علمدار کھڑے ہو کر یہ فریاد کرتے ہیں:
لَمْ نَفْعَلْ ذٰلِکَ! لِنَبْقِیَ بَعْدَکَ؟ لَا أَرَانَا اللهُ ذٰلِکَ أَبَداً.
ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے! کیا آپ کے بعد ہم زندگی بسر کر سکیں گے؟ تو خداوند عالم ہمیں ایسی زندگی ہرگز عطا نہ کرے۔ (شیخ عباس قمی، نفس المهموم، تہران، کتاب فروشی اسلامیه، 1368، ق، ص 13؛ ابو مخنف الازدی، مقتل الحسینؑ، ص ۱۰۷ و ۱۷۷؛ تاریخ طبری ۴/ ۳۱۸؛ الارشاد شیخ مفید ۲/ ۹۱.)
جس وقت امامؑ دشمن کے لشکر کے شور و غل کی آواز سنتے ہیں کہ ایسا لگتا ہے کہ فوج اشقیا شب خون مارنے پر آمادہ نظر آتے ہیں تبھی حضرت عباسؑ کو ۲۰ ؍ سواروں کے ساتھ لشکر یزید کی طرف روانہ کرتے ہیں تا کہ وہ دیکھیں کہ وہ اشقيا لوگ کیا چاہتے ہیں؟ اور امامؑ اپنے عباسؑ علمدار سے یہ ارشاد فرماتے ہیں:
یَا عَبّاسُ اِرْکَبْ بِنَفْسی اَنْتَ یا اَخی! حَتَّی تَلْقاهُمْ وَ تَقُولَ: لَهُمْ ما لَکُمْ وَ ما بَدالَکُمْ وَ تَسْأَلْهُمْ عَمّا جاءَ بِهِمْ؟
اے عباسؑ تم خود بنفسِ نفیس (گھوڑے پر) سوار ہو کر جاؤ. اے میرے بھائی! یہاں تک کہ تم ان لوگوں سے ملاقات کرو اور ان اشقیاء سے تم یہ کہو: تمہیں کیا ہو ا ہے اور تم لوگ کیا چاہتے ہو اور ان سے سوال کرو کہ تم لوگوں کا یہاں پر آنے کا سبب کیا ہے؟ (محمد بن محمد بن النعمان، شیخ مفید، الارشاد، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، 1378. ش، 2/ 132.)
پھر جناب عباسؑ ان کوفی لشکر کے پاس گئے اور یہی خبر لائے کہ یہ لوگ جنگ کے مقصد کیلئے آئے ہیں۔ پس امام حسینؑ نے فرمایا:
إِرْجِعْ إِلَیْهِمْ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تُؤَخِّرَهُمْ إِلٰی الْغُدْوَةِ وَ تَدْفَعَهُمْ عَنَّا الْعَشِیَّةَ لَعَلَّنا نُصَلیّ لِرَبِّنَا اللَّیْلَةَ وَ نَدْعُوهُ وَ نَسْتَغْفِرُهُ فَهُوَ یَعْلَمُ أَنِّی قَدْ کُنْتُ أُحِبُّ الصَّلٰوةَ لَهُ وَ تِلَاوَةَ کِتَابِهِ وَ الدُّعَاءَ وَ الإِسْتِغْفَارَ
تم ان لوگوں کی طرف پلٹ جاؤ اگر ہو سکے تو صبح تک کی مہلت ان سے لے لو اور آج کی رات ان لوگوں پلٹا دو، شائد ہم آج ہی کی رات اپنے پروردگار عالم کیلئے نماز پڑھیں گے اور اس سے مناجات اور مغفرت طلب کریں گے پس وہی خداوند عالم ہی جانتا ہے کہ مجھے اس کیلئے نماز پڑھنے، کتاب خداکی تلاوت کرنے اور اس کی بارگاہ میں دعا کرنے اور اس سے مغفرت طلب کرنا بہت محبوب ہے۔ (الإرشاد، تهران، دفتر نشر فرهنگ اسلامی، 1378. ش، 2/133.)
پس عباسؑ علمدار نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ویسا ہی کیا جیسا امامؑ نے دستور فرمایا۔
عاشورا کے روز بھی اسی علمدار حسینی نے خیموں کے دفاع کے علاوہ جب بھی اپنے لشکریوں میں سے کوئی ایک یا چند افراد دشمن سے مقابلہ یا جھڑپ یا محاصرہ میں قرار پاتے تھےاور ان میں دشمن سے مقابلہ نہیں کر سکتے تھے تبھی تو یہ عظیم و زندہ جاوید علمداران کی مدد و نصرت کیلئے جلد از جلد آگے بڑھتے تھے اور دشمن کے حلقہ محاصرہ کو توڑتے تھے، بطور مثال انصار امامؑ کے درج ذیل افراد کا میدان کارزار دشمن سے مقابلہ ہوا جیسے:
عمر بن خالد صیداویؑ، جابر بن حارث سلمانیؑ اور سعدؑ (عمر بن خالد صیداوی کے غلام)
جب میدان جنگ میں دشمن سے چند گھڑی مقابلہ کرنے کے بعد محاصرہ میں پھنس گئے تو حضرت عباسؑ علمدار نے ہی اپنے انہی ساتھیوں کے دفاع کی خاطر ایک زبردست حملہ کیا اور انہیں دشمن کے محاصرہ و چنگل سے نجات دلائی تھی۔ (تاریخ الطبری، 5/ 216)
اسی علمدار حسینی کی ایک افتخار آمیز عمل یہ بھی رہا ہے جو عباسؑ علمدار نے کربلا کے میدان میں انجام دیا ہے، اپنے بھائیوں کی فدا کاری و جانب نثاري کی طرف سے اطمینان کیلئے عبد اللہؑ، جعفرؑ اور عثمانؑ سے امام کی حیات میں اپنی قربانی دینے کی خاطر آمادہ کیا نیز اپنے ہی بھائیوں سے یہی کہہ رہے تھے:
تَقَدَّمُوا بِنَفْسی أَنْتُمْ! فَحامُوا عَنْ سَیِّدِکُمْ حَتّی تَمُوتُوا دُونَهُ
(اے میرے عزیز بھائیو) آگے بڑھو میں تم پر فدا ہو جاؤں! پس اپنے سردار و امامؑ کی حمایت و نصرت کرو یہاں تک کہ اپنے امامؑ ہی کے سامنے اپنی جانوں کی قربانی پیش کر دو۔ (الارشاد، 2/ ص162.)
پھر وہی ۳ ؍ بھائیوں کو میدان جنگ میں بھیجا پس ام البنین کے ۳ ؍ بیٹوں نے میدان وغا میں پہونچ کر داد شجاعت کے جوہر کا بھر پور مظاہرہ کیا اور جام شہادت نوش کیا اور اعزہ و اقربا کے بعد سب سے آخر میں لشکر حسینی کے علمدار کی باری آتی ہے مگر عباسؑ علمدار جسے امیر المومنینؑ نے کربلا کیلئے تعلیم و تربیت فرمایا تھا انہیں بھی امامؑ وقت نے جنگ کی اجازت ہرگز نہیں دی بلکہ اہل حرم کیلئے پانی کی سبیل کا ہی حکم امامؑ نے دیا تھا لہٰذا امامؑ وقت کے دستور کے مطابق سر تسلیم خم کر کے جنگ تو نہیں کی مگر میدان وغا میں اہلبیت کا دفاع کرنے کی بنا پر دونوں شانے قلم ہونے کے باوجود اپنے لشکر کے علم کو سر بلند رکھا بالآخر حسینی لشکر کا علمدار و سقائے سکینہ سر پر ایک گرز آہنی کی ضرب کی بنا پر گھوڑے سے سر زمین کربلا کی طرف چلا اور سر کے بل زمین کربلا پر سقوط کر گیا۔
اہلسنت کے مشہور مورخ ابو حنیفہ دینوری نے عباسؑ علمدار کی شہادت کے سلسلہ میں تحریر کیا ہے:
وَ بَقِیَ الْعَبَّاسُ بْنُ عَلِیٍّؑ قَائِماً لِإِمَامِ الحُسَینِؑ یُقَاتِلُ دُونَهُ وَ یَمیلُ مَعَهُ حَیْثُ مَالَ حَتّٰی قُتِلَ رَحْمَةُ الله ِ عَلَیْهِ
امام حسین بن علیؑ کے احباب و انصار میں سے جس وقت صرف عباس بن علیؑ باقی رہ گئے تو علمدار لشکر امام کی حفاظت ویسے ہی کر رہے تھے جیسے شمع اور پروانہ کہ علمدار حسینی امامؑ وقت کے ارد گرد ایسے ہی حفاظت کر رہے تھے جس طرح پروانہ شمع کے چاروں طرف چکر لگاتا رہتا ہے، عباسؑ علمدار اپنے لئے جنگ نہیں کر رہے تھے بلکہ اپنے امامؑ وقت کی خاطر جنگ کر رہے تھے تا کہ کسی بھی صورت میں امامؑ کی جان بچ جائے، آپ شمع امامت کے وہ پروانہ تھے کہ بہر حال شمع امامت بجھنے نہ پائے لیکن عباسؑ علمدا ر کی شہادت کے بعد امام حسینؑ کو بھی یزیدی ملعونوں نے شہید کر دیا اس شہید علمدار پر اللہ تعالی اپنی رحمت نازل فرمائے۔ (ابو حنیفه احمد بن داؤد الدینوری، اخبار الطِّوال، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ اول، 1421. ق، ص 380.)
عباسؑ علمدار کی شہادت کے ساتھ ہی علمداری کا باب امامؑ زمانہ کے ظہور تک بند ہو گیا اور جنگوں میں تاریخ کے صفحات پر آخری عباسؑ علمدار کی حیثیت سے حضور ائمہ طاہرینؑ کے زمانوں میں اسی ذات والا صفات کے نام سے ثبت ہوا ہے۔
خاتم المحدثین شیخ عباس قمی اپنی کتاب مشہور و معروف کتاب "مفاتیح الجنان" میں جناب عباسؑ علمدار کی فضیلت کے سلسلہ میں رقم کرتے ہیں جیسا کہ تحریر ہے:
مولف کہتا ہے کہ روایت ہوئی ہے حدیث میں سید سجادؑ سے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فرمایا: خدایا رحمت کرے عباسؑ پر کہ انہوں نے اپنے بھائی پر ایثار کیا اور اپنی جان ان کیلئے قربان کردی یہاں تک کہ ان کی نصرت میں دونوں شانے قلم ہوگئے اور خدا نے دونوں ہاتھوں کے بدلے میں دو پر عنایت فرمائے ہیں جن سے وہ فرشتوں کے ساتھ جنت میں پرواز کرتے ہیں جیسے جناب جعفر طیار بن ابیطالبؑ اور جناب عباسؑ کیلئے خدا کے نزدیک روز قیامت ایسا درجہ ہے کہ تمام شہداء ان پر رشک و غبطہ کریں گے اور ان کے مقام کی آرزو کریں گے اور منقول ہے کہ حضرت عباسؑ کی عمر شریف روز شہادت ۳۴ ؍ سال تھی ۔
ام البنین مادر حضرت عباسؑ علمدار اور ان کے بھائیوں کے غم میں مدینہ کے باہر جنت البقیع میں جاتی تھیں اور ان کے غم میں اس طرح نالہ و فریاد کرتی تھیں کہ جو بھی وہاں سے گزرتا تھا رونے لگتا تھا، دوستوں کا گریہ کرنا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، مروان بن حکم جو خاندان نبوتؑ کا بہت بڑا دشمن تھا جب وہ ام البنین کے پاس سے گذرتا تھا تو ان کے گریہ سے متاثر ہو کر رونے لگتا تھا۔
ام البنین کے درج ذیل اشعار جناب عباسؑ اور ان کے بھائیوں کے مرثیہ کے طور پر منقول ہیں؛ ملاحظہ کیجئے:
یَا مَن رَأیَ العَبَّاسَ کَرَّ عَلَیٰ جَمَاہِیرِ النَّقَدِ
دیکھا ہے جس نے حملہ عباس نامور
وَ وَرَاہُ مِن أَبنَآءِ حَیدَرَ کُلُّ لَیثٍ ذِی لَبَدٍ
تھے جس کے ساتھ اور بھی کرار کے پسر
أُنبِئتُ أَنَّ إبنِی أُصِیبَ بِرَأسِہِ مَقطُوعَ یَدٍ
سنتی ہوں ہاتھ کٹنے پہ زخمی ہوا تھا سر
وَیلِی عَلَیٰ شِبلِی أَمَال بِرَأسِہِ ضَربُ العَمَدِ
یارب گرا تھا لال مرا کیسے خاک پر
لَو کَانَ سَیفُکَ فِی یَدِیکَ لَمَادَنَیٰ مِنہُ أَحَدٌ
ہوتی جو تیغ پاس نہ آتا کوئی نظر
وَ لَہَا أَیضاً
ام البنین کا یہ مرثیہ بھی منقول ہے
لَا تَدعُوِنِّی وَیکِ أُمُّ البَنِینَ
ام البنین کہہ کے پکارے نہ اب کوئی
تُذَکِّرِینِی بِلِیُوثِ العَرِینِ
آتے ہیں یاد مجھ کو وہ شیران حیدری
کَانَت بَنُونَ لِی أُدعَی بِہِم
جب تک تھے میرے لال میں ام البنین تھی
وَ الیَومَ أَصبَحتُ وَ لَا مِن بَنِینَ
اجڑی ہے ایسی کوکھ کہ اب کچھ نہیں رہی
أَربَعَۃٌ مِثلُ نُسُورِ الرُّبَی
وہ میرے چار شیر نیستان مرتضی
قَد وَاصَلُوا المَوتَ بِقَطعِ الوَتِینِ
سر دے کے سو گئے جو سر خاک کربلا
تَنَازَعَ الِخرصَانُ أَشلَائَہُم
میداں میں جو ھی آگیا ان سب کے رو برو
فَکُلُّہُم أَمسَیٰ صَرِیعاً طَعِینَ
وہ جنگ کی زمیں پہ برسنے لگا لہو
یَا لَیتَ شِعرِی أَ کَمَا أَخبَرُوا
اے کاش کوئی آ کے مجھے دیتا یہ خبر
بِأَنَّ عَبَّاساً قَطِیعُ الیَمِینِ
کیا واقعی تھا دست بریدہ مرا پسر
(مفاتیح الجنان_مترجمہ خیرآبادی: از ۷۹۸ تا ٨٠٠)
شاعر : سید رضا مؤید
عباس لوای همت افراشته است
عباسؑ نے ہمت کے لواء (مرکزی علم) کو لہرایا ہے
وین راز به خون خویش بنگاشته است
اور اس راز کو اپنے ہی خون سے لکھا ہے
او پرچم انقلاب عاشورا را
انہوں نے عاشورا کے انقلاب کا علم
با دست بریده اش به پا داشته است
اپنے ہی بریدہ ہاتھ سے اسے سر بلند کیا ہے
ز تاج شهیدان همه عالمی
دست علی ماه بنی هاشمی
ساری دنیا کے شہیدوں کا تاج ہے
قمر بنی ہاشم تو علیؑ کا ہاتھ ہے
چار امامی که تو را دیده اند
دست علم گیر تو بوسیده اند
چار اماموں نے تجھے دیکھا ہے
انہوں نے علم اٹھانے والے آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیا ہے.
مترجم: ابو دانیال بریر اعظمی
$}{@J@r
★ پرچم و پرچم داری از جاهلیت تا عاشورا
}i{ مترجم : ابو دانیال اعظمی بریر }i{
★ یہ تمت بالخير به نستعين و هو خير الناصر و المعين
ان شاء اللہ المستعان العلی العظیم
ایک تبصرہ شائع کریں