تکفیری تحریک اور قتل مسلمین کا فتویٰ
تالیف
سید محمد یزدانی
برائے عالمی سمینار بعنوان
"پر تشدد تکفیری تحریک علمائے اسلام کی نظر میں" قم۵۹۳۱ ہجری شمسی
ترجمہ
منھال رضا خیرآبادی
جامعه حیدریه مدینة العلوم خیرآباد ضلع مئو (يو.پي)
WE ARE AGAINST THE GLOBAL TERRORISM
دیباچہ
يَٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱدْخُلُواْ فِى ٱلسِّلْمِ كَآفَّةً وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٰتِ ٱلشَّيْطَٰنِ ۚ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ (سوره بقرہ ۲۰۸)
تاریخ اسلام میں مسلمانوں کے ما بین بہت سی جنگیں رونما ہوئی ہیں لیکن خوارج اور ادھر ماضی قریب میں تکفیری تحریک کے علاوہ کم ہی مسلمانوں کو کافر گردانا گیا ہے اور تکفیر کی بنیاد پر اہل قبلہ کی جان و مال، عزت و ناموس کو حلال جانا گیا ہے۔
گذشتہ ادوار میں تکفیر کے علمبردار خوارج تھے لیکن آخری تین صدیوں میں وہابیوں نے ان سے زیادہ پرتشدد انداز میں تکفیر کا پرچم بلند کر رکھا ہے اور توحید کی طرف دعوت کے بہانہ سے بہت سے مسلمانوں کو تہہ تیغ کیا اور بے شمار ان اسلامی آثار و عمارتوں کو جو مسلمانوں کی تمدن، ثقافت و قداست کی علامت تھیں منہدم و مسمار کر دیا۔ تکفیر سے مقابلہ کی علمائے اسلام نے بے پناہ کوششیں کیا ہے لیکن عصر حاضر میں عالم اسلام میں بڑی تیزی سے پھیلتی ہوئی تکفیری تحریک نے ظلم وستم،جبروجنایت کاوہ ننگاناچ دکھایا ہے جس کا نمونہ تاریخ اسلام میں کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ سر قلم کرنا، نذرآتش کر دینا، مُثلہ کرنا، عصمت کی تاراجی، اموال کی تباہی، مقدس مقامات کی تخریب یہ وہ مظالم ہیں جو بنام اسلام ڈھائے جا رہے ہیں۔
بزرگ علماء کو قتل کرنا، اماکن مقدسہ کی تخریب، بدترین و فجیع ترین اعمال کا ارتکاب بنام اسلام مثلا جہاد نکاح.... یہ وہ ناقابل جبران و تلافی ضربات ہیں جو پیکر اسلام پر پڑتے رہے ہیں۔
اسلامی ممالک کے جغرافیہ کا معمولی علم رکھنے والا کم و بیش ہر ملک میں اس گروہ کے نقش قدم کو محسوس کر رہا ہے، ایشیا میں جبہة النصرۃ، داعش، القاعدة، جند العدل و حزب التحریر نامی گروہ اور افریقہ میں بوکو حرام، الشباب، انصار السنة و انصار الشریعة نامی گروہ سرگرم عمل ہیں انکے علاوہ بھی مختلف قسم کے گروہ ہیں جو عالم اسلام میں بحران پیدا کرنے میں منہمک ہیں۔
یہ حالات کیوں پیدا ہوئے؟ اس کے اسباب کیا ہیں؟ ایک طولانی بحث ہے جس کی طرف اس مقالہ میں اشارہ کیا گیا ہے، مگر بالاختصار مغرب کی اسلام ہراسی (Islamophobia) (یعنی اسلام کا خوف) اور اسلام ستیزی (Anti-Islam) (یعنی ضد اسلام) سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی ہے۔ مغرب میں تیزی سے پھیلتے ہوئے اسلام سے گھبرا کر اسلام کے خلاف اسلام کےذریعہ تباہ کرنے کا پروجیکٹ شروع کر دیا، افراطی گروہ کی حمایت کے ذریعہ مذہبی اختلافات پیدا کر کے مسلمانوں کو کمزور کیا اور مسلمانوں کا خوفناک چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا۔
توحید و شرک، ایمان و کفر، بدعت اور اس جیسے مفاہیم کی بے بنیاد تشریحات کے ذریعہ مسلمانوں کو تکفیری گرداب میں ڈھکیل دیا ۔
ان حالات کے پیش نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ تکفیری تحریک کی جنایت (جرائم) و تخریب کاری اس قدر وسیع ہوگئی ہے کہ نفرت و مخالفت کی متلاطم موجیں عالم اسلام کو مضطرب کر رہی ہیں۔ اس تحریک کے علمی و فکری مقابلہ کیلئے علماء و دانشوران قوم پر ضروری ہے کہ اس سے نجات کی راہیں تلاش کریں اسی وجہ سے عالمی سمینار بعنوان "پر تشدد تکفیری تحریک علمائے اسلام کی نظر میں" مرجع عالی قدر تشیع حضرت آیت اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی مد ظلہ کی حمایت و عنایت سے منعقد کیا گیا ہے تا کہ علمی توانائی بھر عالم اسلام سے تکفیریوں کے مقابلہ میں استفادہ کیا جا سکے اس کام کی تکمیل کیلئے چار مندرجہ ذیل علمی کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں:
۱۔ تکفیری تحریک کی جڑیں کہاں ہیں.؟
۲۔ تکفیری تحریک کے عقائد کی اصل و اساس (بنیاد و جڑ)۔
۳۔ تکفیری تحریک اور سیاست۔
۴۔ تکفیری تحریک سے نجات اور مقابلہ کی راہیں۔
محور اول: میں تکفیری تحریک کی جڑوں کو تلاش کیا جائے گا، مصادیق تکفیر کے سلسلے میں تاریخی لحاظ سے گفتگو ہوگی۔
محور دوم: اعتقادی انحراف، اسلام ناب کے عقائد کی تکفیری تشریحات کی حلاجی ہوگی، اس کمیٹی میں اس گروہ و تنظیم کے اعتقادی مبانی و اصول نیز اسلامی افکار سے انحراف کی نقد و بررسی (تنقید و تحقیق) ہوگی۔
محور سوم: تکفیری تحریک کے ارتقاء کے سیاسی عوامل اور ان سے وابستہ دیگر مباحث، انکے اہداف کی تحقیق کی جائے گی۔
محور چہارم: اس تحریک سے نجات پانےکی سیاسی، سماجی، ثقافتی و مذہبی راہیں تلاش کی جائیں گی۔
اس مجموعہ میں جن مقالات کو متذکرہ عناوین پر جمع کیا گیا ہے وہ عالم اسلام کے علماء و دانشمندوں کے آراء و نظریات کا ماحصل ہیں۔
مزید علمی ثروت مندی و بے نیازی کی خاطر سمینار نے دانشوروں کے ذریعہ سے مستقل و جداگانہ تحقیقات بھی جمع کیا ہے جو بالاختصار درج ذیل ہیں:
۱۔ تکفیر عالم اسلام کی نظر میں:
اسلامی مذاہب و فرقہ جات کے بزرگ علماء کے اقوال نفی تکفیر کے حوالہ سے جمع کئے گئے ہیں، کوشش یہ رہی ہے ابتدائی ادوار سے دور حاضر تک کے علماء و دانشوروں کے اقوال کو اہل قبلہ کی تکفیر کی حرمت پر جمع کردیئے جائیں۔
۲۔ عربی ممالک میں اسلامی زیارتگاہوں کی تخریب:
اماکن مقدسہ اور عالم اسلام کی ثقافتی نشانیوں کے انہدام کے حوالہ سے تکفیری تحریک کے سیاہ کارناموں کو بیان کیا گیا ہے، کوشش کی گئی ہے کہ زیارتگاہوں کی تخریب سے قبل و بعد کی تصاویر بھی منسلک ہو جائے۔
۳۔ قتل مسلمین کے جواز پر تکفیری تحریک کے فتوے:
اپنی کج فہمی کے باعث تکفیری تحریک بسا اوقات ایسے فتوے صادر کرتی ہے جو کسی فقہی قاعدہ پر منطبق نہیں ہوتے ہیں اورواسلامی تعلیمات سے کوسوں دور ہوتے ہیں اس میں ان فتووں کو جمع کیا گیا ہے۔
۴۔ کتاب شناسی تکفیر:
تکفیر کے حوالہ سے متعدد کتابیں لکھی گئی ہیں بہت سے علمی آثار دیکھنے میں آتے ہیں اس تحقیق میں ان آثار و کتب کا تعارف پیش کیا گیا ہے جو تکفیری و نفی تکفیر کے حوالہ سے لکھی گئی ہیں۔
۵۔ پر تشدد وہابیت پر تنقید کا انسائیکلوپیڈیا:
وہابی افکار کے زیر سایہ ایسی تحریکات پائی جاتی ہیں جو مسلمانوں کو کافر گردانتی ہیں یہ (دائرۃ المعارف) انسائیکلوپیڈیا اس تحریک کے ظہور میں آنے کے زمانہ سے آج تک علمائے اسلام نے جوان کے عقائد کی نقد و بررسی (تنقید و تحقیق) کی ہے اسکا مجموعہ ہے۔
بلا شبہ جس چیز نے اس سمینار کو زیادہ سے زیادہ علمی استغناء بخشا ہے وہ حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ جعفر سبحانی دام ظلہ کی علمی راہنمائی ہے، مشکل کشا راہنمائیوں نے ہمہ وقت سمینار کی علمی کمیٹی کی معاونت کیا ہے۔
حجۃ الاسلام و المسلمین ڈاکٹر فرمانیان جنہوں نے مقالات کی تنظیم و ترتیب میں بے پناہ زحمت برداشت کیا قابل شکریہ ہیں، ساتھ ہی ساتھ علمی کمیٹی کے ممبران حجج الاسلام آقایان قزوینی، میر احمدی، ڈاکٹر امینی بھی شکریہ کے مستحق ہیں۔
امید ہے کہ مراجع کرام و علمائے اسلام کی مجاہدانہ تحقیقات کے زیر سایہ عالم اسلام کی یکجہتی اور فتنہ تکفیر کی نیست و نابودی کا منظر نگاہوں سے دیکھیں گے۔
سید مہدی علی زادہ موسوی
رئیس و قائم مقام دبیر علمی
بین الاقوامی سمینار
"پر تشدد تکفیری تحریک علمائے اسلام کی نظر میں"
۲۲؍ ۶؍ ۱۳۹۳ ہجری شمسی
مقدمہ
دور حاضر کا وہ عظیم خطرہ جو ایک طرف اسلامی معاشرہ کی امنیت (امن و امان) اور دوسری طرف اسلام و مسلمین کی عزت و آبرو کو متزلزل کرنے کے فراق میں ہے وہ تکفیری افکار اور بعض عالم نما مفتیوں کے ذریعہ صادر ہونے والے تکفیری فتوے ہیں۔
اسلامی ممالک میں بڑھتی ہوئی بد امنی، بے گناہوں کا قتل و خون، القاعدہ، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جند اللہ، طالبان، جیش العدل، جبہۃ النصرۃ و داعش جیسے دہشت گرد گروہوں کا ظہور جن کے مقاصد میں سر فہرست ٹریریزم، دہشت گردی ہے ان تکفیری فتووں کے کچھ اثرات ہیں جو ان مفتیوں کے ذریعہ صادر ہوئے ہیں، بد ترین نتیجہ تو یہ ہے کہ اسلام و مسلمین کے ساکھ خراب ہو رہی ہے اور پوری دنیا میں دین خدا کو نفرت کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے۔
اس دور میں جب باطل و منسوخ ادیان کے پیرو کار ماڈرن دنیا کے طرز حیات سے بیزار ہو کر دین اسلام کی حیات بخش تعلیمات کی طرف متوجہ ہوئے ہیں بعض مسلمان نما افراد نے تکفیری فتوی صادر کر کے جس کے نتیجہ میں بم بلاسٹ، بے رحمانہ قتل و غارت انجام پا رہی ہے اسلام کے مہر و محبت سے بھر پور چہرہ کو مسخ کرنے کی مذموم کوشش کر رہے ہیں، اسلام کو خوفناکترین فرقہ کے روپ میں پیش کر رہے ہیں اور عملی طور پر دشمنان اسلام کے اسلام ہراسی (اسلاموفوبیا) کی پالیسی کو عملی جامہ پہناتے نظر آرہے ہیں۔
جب دنیا کے افراد دیکھیں گے کہ بعض مسلمان نعرہ تکبیر بلند کر کے بچوں، عورتوں، جوان و پیر کو دردناک طریقہ سے قتل کر کے دل و جگر نکال کر چبا رہے ہیں تو طبیعی طور پر ان وحشی انسانوں سے جود امن اسلام میں بظاہر تربیت پائے ہیں اور اپنے دین کے آئین کے مطابق زندگی بسر کرتے ہوئے ایسے وحشیانہ حرکات و اعمال انجام دے رہے ہیں تو نفرت پیدا ہوگی۔
پر تشدد مفتیوں کا ایک گروہ جو بزعم خود سلف صالح کی پیروی کا مدعی ہے مسند افتاء پر بیٹھ کر حقائق سے چشم پوشی کرتے ہوئے بڑی عجلت میں کتاب و سنت، سیرت صحابہ و عقل کے بر خلاف دوسرے اسلامی مذاہب کی تکفیر کرتے نظر آتا ہے اور اسکی پیروی کرنے والوں کو واجب القتل گردانتا ہے۔
حرمت تکفیر کے چند نمونے:
طول تاریخ میں ہمیشہ علمائے اسلام نے قرآن و سنت (روایات) صحیحہ کے ذریعہ تکفیری خطرات سے آگاہ فرمایا ہے اور اس کا مقابلہ بھی کیا ہے ہم اس مقام پر صرف چند علماء کے بیانات درج کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔
★ ابو حامد غزالی:
اہلسنت کے عظیم القدر عالم ہیں جنھوں نے مسلمانوں کی تکفیر کے خطرات کو یوں بیان کیا ہے:
١- والذی ینبغی أن یمیل المحصل الیه الإحتراز من التکفیر ما وجد إلیه سبیلاََ فان إستباحة الدماء والأموال من المصلین إلی القبلة المصرحین بقول لا إلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ خطأ والخطأ فی ترك ألف کافر فی الحیاۃ أھون من الخطأ فی سفك محجمة من دم مسلم وقد قال أمرت أن أقاتل الناس حتّٰی یقولوا لا إلٰه إلا اللہ محمد رسول اللہ فإذا قالوا فقد عصموا من دمائهم وأموالهم إلّا بحقها۔
ایک محصل کیلئے مناسب ہے کہ تکفیر کرنے سے پرہیز کرے کیونکہ جو لوگ رو بقبلہ نماز پڑھتے ہیں اور بالصراحت شہادتین کہتے ہیں ایسے افراد کے مال و خون کو حلال قرار دینا غلط ہے ہزار کافر کے قتل سے دستبردار ہونے میں غلطی کرنا آسانتر ہے ایک مسلمان کا خون بہانے سے کیونکہ رسولخداؐ نے فرمایا ہے میں نے تمہیں حکم دیا ہے کہ لوگوں سےاس وقت تک جنگ کرو جب تک شہادتین زبان پر جاری نہ کر دیں اور جب شہادتین زبان پر جاری ہو جائے تو ان کی جان و مال محفوظ ہے۔ ہاں حکم شرع سے قتل کرنا مال کو بطور غنیمت لے لینا درست ہے۔ (الاقتصاد فی الاعتقاد، ۱/ ۲۷۰)
★ ابن عساکر دمشقی:
حرمت تکفیر کے سلسلے میں متعدد روایات نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہے:
٢- فھٰذہ الأخبار تمنع من تکفیر المسلمین فمن أقدم علی التکفیر فقد عصیٰ سید المرسلین.
یہ روایات مسلمین کی تکفیر کو منع کرتی ہیں پس جو تکفیر کا اقدام کرے گا وہ در حقیقت حکم سید المرسلینؐ سے سر پیچی کرنے والا ہوگا۔ (تبیین کذب المفتری ۱/ ۴۰۵)
★ ابن حزم اندلسی:
حرمت تکفیر پر علماء اہلسنت اور صحابہ کا اجماع ہے ملاحظہ فرمائیں یہ عبارت:
٣- وذھبت طائفة الی أنه لایکفر ولایفسق مسلم بقول قاله فی إعتقاد وفتیا وان کل من إجتھد فی شیء من ذٰلك فدان بما رأی أنّه الحق فانه مأجور علی کل حال إن أصاب الحق فأجران وإن أخطأ فأجر واحد وھٰذا قول إبن أبی لیلی وأبی حنیفة والشافعی وسفیان الثوری وداؤد إبن علی رضی اللہ عن جمیعهم وھو قول کل من عرفنا له قولا فی ھٰذہ المسألة من الصحابة رضیٰ اللہ عنهم لانعلم منھم فی ذٰلك خلافا أصلا.
ایک گروہ کا نظریہ ہے کہ کسی بھی مسلمان کو کسی اعتقادی مسئلہ میں اظہار رائے کی بنیاد پر یا فتوی کے سبب تکفیر و تفسیق نہ کی جائے، جس مسئلہ میں جس نے اجتھاد کے ذریعہ جو حاصل کیا ہے اور اسکا معتقد ہے حق ہے اور ہر حال میں اجر و پاداش کا مستحق ہوگا اگر مطابق حق ہوا تو دو اجر اور خطا ہوئی تو ایک اجر، یہی قول ہے ابو لیلیٰ، ابو حنیفہ، شافعی، سفیان ثوری، داؤدابن علی کا۔ تمام اصحاب کا نظریہ بھی یہی ہے اس سلسلے میں کوئی مخالف نظر نہیں آتا ہے۔ (ابن حزم ظاھری، الفصل فی الملل والنحل، ۳/ ۱۳۸)
★ محمد رشید رضا:
سلفی مسلک ہوتے ہوئے بھی تکفیر مسلمین کے مخالف ہیں، جو اپنی کتاب تفسیر المنار میں تحریر کرتے ہیں:
٤- إن من أعظم ما بلیت به الفرق الإسلامیة رمی بعضھم بعضا بالفسق والکفر
اسلامی فرقہ جات جس عظیم مصیبت میں گرفتار ہے وہ فسق و کفر کی تہمت ایک دوسرے پر لگانا ہے۔ (تفسیر المنار ۷/ ۴۴)
★ اکثر علماء اسلام نے مسلمانوں کی تکفیر سے منع کیا ہے لیکن ایک گروہ کو مسلمانوں کے بہتے ہوئے خون سے لطف حاصل ہوتا ہے اور عالم ہست و بود میں اسلام سے بڑھتی ہوئی نفرت سے خوشی حاصل ہوتی ہے۔
تکفیری تحریک کا سرسری جائزہ:
تاریخ اسلام میں بہت سی تکفیری تحریکوں نے سر اٹھایا اور دم توڑ دیا پہلی تکفیری تحریک خوارج کی صورت میں رونما ہوئی جس نے اپنے مخالفین کو کافر بتایاز انکی جان و مال کو مباح جانا، یہ فرقہ پہلی صدی کی تیسری دہائی کے بعد جنگ صفین میں عمرو عاص کے مکر و فریب کے سبب کچھ افراد لشکر علیؑ سے جدا ہوگئے اور نیا فرقہ تشکیل پایا، مرور ایام کے ساتھ یہ فرقہ بھی متعدد گروہوں میں تقسیم ہوتا رہا لیکن ان تمام گروہوں میں مندرجہ ذیل عقائد مشترکہ طور پر پائے جاتے تھے:
★ تکفیر حضرت امیر المومنین علی ابن ابیطالبؑ، عثمان بن عفان، دونوں حکم، جملہ اصحاب جمل، جو شخص حکمین کی حکمیت کوتسلیم کرے وہ تمام افراد جو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے. (کتاب المواقف ۳/ ۵۴۸۔ الفرق بین الفرق و بیان الفرقة الناجیة ۱/ ۵۵)
خوارج کے بعد بھی کچھ گروہ ایسے نظر آتے ہیں جو خلق قرآن، تشبیہ وغیرہ کی آڑ میں اپنے مخالفین کو کافر کہتے رہے لیکن گذشتہ سات صدیوں میں سب سے زیادہ جس شخصیت نے پرتشدد تکفیری تحریکوں کو متاثر کیا ہے وہ ابن تیمیہ حرانی ہے۔ اس نے توسل، تبرک، شفاعت، زیارت قبور وغیرہ جیسے مسائل کو بہانہ بنا کر پہلی مرتبہ مسلمانوں کو نہ تنہا کافر بتایا بلکہ بعض مقامات پر ان سے جہاد کو واجب قرار دیا ۔ان شاء اللہ المستعان اس کتاب میں وہ تمام شواہد و مستندات درج ہوں گے۔
ابن تیمیہ کے بعد اس کے شاگرد ابن قیم جوزی نے اسی راستے پر چلتے ہوئے استاد کے فراموش شدہ فتوے و مطالب کا دوبارہ احیاء کیا۔
سبکی شافعی، ابن حجر ہیثمی اور ان جیسے دیگر علماء و دانشمندوں کی انتھک کاوشوں نیز دندان شکن جوابات کے باعث ابن تیمیہ کے نظریات کا بطلان واضح ہوتا رہا اور بالآخرہ اسکے تمام افکار و نظریات اسکی کتابوں کے صفحات میں دفن ہو کر رہ گئے لیکن بارہویں صدی میں محمد ابن عبد الوہاب و محمد ابن سعود کے ما بین ۷۵۱۱ میں مقام درعیہ (جو عرب کا ایک حصہ ہے) میں ایک عہد و پیمان کے تحت پھران افکار کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش شروع ہوئی اور وہ افکار زندہ ہو گئیں۔
محمد ابن عبد الوہاب نے بڑی آسانی سے مشرک، کافر، حلال المال والدم جیسے الفاظ کو مسلمانوں کے بارے میں استعمال کیا اور محمد ابن سعود جو سپہ سالار لشکر اور اس کے فتوے کے نفاذ کا ذمہ دار تھا نے نجد، مکہ، مدینہ اور دیگر اسلامی ممالک کے مسلمانوں کا وحشیانہ قتل عام شروع کر دیا۔ ریاض، مکہ، کربلا کا قتل عام، مسلمانوں کی ناموس کو اسیر کرنا، اموال کو غارت کرنا محمد ابن عبد الوہاب کے تکفیری فتوے کا نتیجہ تھا جو آل سعودکے حکام کے ذریعہ انجام پایا۔ (عنوان المجد فی تاریخ نجد، ج ۱)
محمد ابن عبد الوہاب کے دور سے دور حاضر تک تقریبا تین صدی کا طویل عرصہ میں وہابیت کی تحریک میں بے حد اتار چڑھاؤ نظر آتا ہے۔۳۳۲۱ھ میں جب مصر کے عثمانی حاکم محمد علی پاشا کے بیٹے ابراہیم پاشا کے ہاتھوں عبد اللہ ابن سعود گرفتار ہوا اور استانبول کے بایزید نامی میدان میں محمود خان عثمانی کے دور میں عبد اللہ کی گردن زنی کے بعد مکمل طور پر ختم ہوگئی لیکن۶۳۲۱ھ میں ترکی ابن عبد اللہ نے درعیہ کے علاقہ جات کو حاصل کیا اور وہابی حکومت قائم کیا، مگر داخلی چپقلش و ٹکراؤ کی وجہ سے٣٦٢١ھ میں آل رشید کے ذریعہ دوبارہ سرنگون ہوگئی لیکن ٩١٣١ھ میں عبد العزیز ابن عبد الرحمن نے برطانوی حکومت کی بلا واسطہ حمایت سے پھر حکومت قائم کیا اور زمینی ذخیروں، تیل و گیس کے ذخائر سے آج تک حکومت قائم رکھنے پر قادر ہیں۔
ان آخری دہائیوں میں عرب کے تیل کے ذخائر اور مغربی ممالک کی فکری، مواصلاتی و اسٹریٹیجکل حمایت کی بدولت بہت تیزی سے تکفیری تحریکیں ترقی کر رہی ہیں اور پھل پھول رہی ہیں، القاعدہ، طالبان، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، جبہۃ النصرۃ وغیرہم اور دور حاضر میں داعش تکفیری گروہ کا واضح نمونہ شمار ہوتے ہیں جو وہابیوں کے متشدد (آل شیخ) مفتیوں کی فکری اور آل سعود کی مالی معاونت سے سرگرم عمل ہیں۔
پیروان محمد ابن عبد الوہاب کی تمام تحریکوں کو تکفیری تحریک سے موسوم نہیں کیا جا سکتا ہے کیونکہ محمد ابن عبد الوہاب کی پیروی کرنے والے بہت سے مفتی جادہ اعتدال پر گامزن ہیں پھر بھی متشدد وہابیوں کی پر تشدد تحریکیں تاریخ اسلام میں اہمترین تکفیری تحریک کے زمرہ میں آتی ہیں، نہایت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ یہ مغرب کی اسلام ستیزی کی پالیسی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں اور اپنے عمل سے اسلام کو قتل و تشدد، بے رحمی، بم بلاسٹ اور غارتگری کا حامی متعارف کرانے میں معاون و مددگار ہو رہے ہیں۔
تکفیری فتوے کی تدوین کا مقصد:
اسلامی سماج و معاشرہ میں امنیت (امن و امان) بحال کرنا ہر فرد مسلم کا فریضہ ہے اور اسلام کےبشر دوستانہ آئین و اصول کا تعارف بھی تمام مسلمانوں کا بالعموم اور اسلامی دنیا کے دانشوروں کا بالخصوص فریضہ ہے جس کو حقیقی علماء کسی حد تک انجام بھی دے رہے ہیں۔
ان دو حیات بخش اہداف تک رسائی حاصل کرنے کیلئے متشدد مفتی کی شناخت ضروری ہے جنھوں نے اسلام کی غلط تفسیر کے ذریعہ اسلام و مسلمانوں کی آبرو کو داؤ پر لگا دیا اور مہر و محبت سے لبریز دین اسلام کو تیغ و شمشیر، قتل و غارتگری کا دین بنا دیا۔
مقام تعجب یہ ہے کہ کوئی ایک تکفیری تحریک تکفیری ہونے کے اتہام کو قبول نہیں کرتی ہے بلکہ بعض متشدد مفتی نہایت ہی زیرکی اور تحریف کے ذریعہ خود کو بشر دوست متعارف کراتے تھکتے نہیں ہیں اور تکفیری فتوے کے صدور کی نفی بھی کرتے نظر آتے ہیں۔
جو کچھ اس کتاب میں قارئین کرام کی نظر سے گذرے گا وہ ایک فہرست و لسٹ ہے تکفیری تحریک کے چھوٹے بڑے فتووں کی جو ابن تیمیہ کے دور سے آج تک صادر ہوتے رہے ہیں اور انکے پیرو کار انھیں فتووں پر عمل کرتے ہوئے مسلمانوں کے قتل و خون میں ڈوبے ہوئے ہیں اور انکی ناموس کی عزت تار تار کرتے نظر آتے ہیں۔
ان فتاوی کے جمع آوری کا اصلی مقصد تکفیری مفتیوں کا واقعی چہرہ عالم انسانیت کے سامنے واضح کرنا ہے تا کہ یہ بات ذہن نشین ہو جائے کہ آج اگر اسلامی ممالک میں مہر و محبت، امن و امان کی جگہ وحشت و تشدد، قتل و کشتار سایہ فگن ہے تو اسکا واحد سبب مسلمان نما مفتیوں کے بے بنیاد بیانات و فتوے ہیں جس کا اس اسلام واقعی سے دور دور کا رشتہ نہیں ہے جو صلح و آشتی کا پیغامبر ہے۔
چونکہ ایسے فتوے بے شمار ہیں اور اس مختصر سی کتاب میں تمام مطالب کو نقل کرنے کی گنجائش نہیں ہے لہذا اختصار کے مد نظر ہم نے تین فصل قرار دیا ہے:
★ فصل اول:
تکفیریوں کی کتابوں سے وہ مدارک و مستندات جن کی بنیاد پر مسلمانوں کو کافر یا مشرک بتایا جاتا رہا ہے۔
★ فصل دوم:
تکفیری کتب سے ان مدارک و مستندات کو نقل کیا جائے گا جن کی بنیاد پر مسلمانوں سے جہاد کا حکم دیا گیا اور انھیں مہدور الدم اور مال کو مباح قرار دیا گیا۔
★ فصل سوم:
اہلسنت کے بزرگ علماء کی تائید و تصدیق کہ سلف صالح کہے جانے والے گروہ میں تکفیری فکر پائی جاتی ہے۔
ایک تبصرہ شائع کریں