کوفہ کی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر - گفتار دوم


 کوفہ  کے لوگوں کو  پہچانئے!!!



"مردم کوفه را بشناسید"


نویسنده : نعمت الله صفری فروشانی


مترجم : ابو دانیال اعظمی بریر


مقدمہ:

شائد کہہ سکتے ہیں کہ عاشورا کا دردناک و عظیم واقعہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جو شیعوں کے درمیان سب سے زیادہ حصہ قرون متمادی کیلئے طے کیا ہے بلکہ مسلمانوں کے درمیان بھی مخصوص توجہ کا حامل رہا ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں تالیفات، آثار و تصنیفات میں بہت کم حصہ عام طور پر واقعہ کربلا کے زمانہ میں جو اسلامی دنیا کی سماجی حالات تھے اس تحقیق و جستجو میں مشغول ہوئے ہیں، خصوصی طور پر شہر کوفہ کے بارے میں کم ہی لکھا جاتا رہا ہے، جبکہ ہمیں اس جستجو و تحقیق کے ذریعہ امام حسینؑ کی تحریک اور علل و وجوہات کو بہت زیادہ سمجھا جا سکتا ہے اور ظاہری طور پر کامیاب نہ ہونے کے دلائل حاصل کرنے میں بھی مددگار ہو سکتے ہیں۔

مذکورہ تحریر ادنیٰ سی کوشش و سعی ہے جو کوفہ کی عوام کو پہچاننے کی طرف جس کو ہم ۳ گفتار کے تحت بیان کریں گے۔

إن شاء الله المستعان


گفتار دوم : کوفہ کا معاشرتی نظام


۱- والی و حاکم (گورنر)
۲- رؤسائے أرباع
۳- ریاست عرفاء
۴- قیادت مناکب

امام حسینؑ کی تحریک کے ابتدائی زمانہ میں کوفہ پرحاکم تمام عناصر کی تحقیق پہلے کریں گے نیز ہر ایک جگہ پر سعی و کوشش ہوئی ہے کہ تحریک پر اثر انداز ہونے والے، تحریک کو ترقی عطا کرنے والے، متوقف کرنے والے عناصر اور پھر مسئلہ کی طرف اشارہ کریں گے۔

اس امید پر کہ شہیدؑ اعظم کی ملکوتی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کر سکے۔  

السعی منی و الإتمام علیٰ الله


گفتار دوم:

کوفہ کا  معاشرتی نظم و ضبط



    ان ایام میں کوفہ کا معاشرتی طور ہرمتحرک و فعال رکھنے والےاہم ترین عناصرتھےان کو آئندہ تحریر کریں گے، اس گفتار میں ہر ایک عناصر کے سلسلہ میں اجمالی طور پرہی تحقیق بھی کریں گے۔ 


۱- والی و حکمران (گورنر)


کوفہ میں اہمترین منصب اور عہدہ والی یا گورنر کا تھا جسے مرکزی حکومت کا سربراہ مقرر کرتا رہتا تھا نیز کوفہ اور اسکے ما تحت علاقوں کو اپنے قبضہ میں لے کر حکومت کرتا تھا، کوفہ کے ماتحت علاقوں سے مراد ایران کے بڑے شہر تھے جو کوفہ کے ہی لشکر کے توسط سے فتح ہوئے تھے اور اس پر حکومت کرنے کا بھی حق کوفہ کے امیر کیلئے ہی مخصوص تھا اور ان شہروں کی سرکاری آمدنی کا زیادہ تر حصہ بھی شہر کوفہ پر ہی خرچ ہوا کرتا تھا۔

ان شہروں میں سے بعض شہر مندرجہ ذیل ہیں: قزوین، زنجان، طبرستان، آذربائیجان، ری، کابل، سیستان اور انبار وغیرہم تھے۔ (تاریخ العراق فی عصور الخلافة العربیة الاسلامیة؛ فاروق عمر فوزی، چاپ اول، مکتبة النہضة، بغداد، 1988 م: 21 والحیاۃ الاجتماعیة و الاقتصادیة؛ 221)

   کوفہ کے حکام ہی مذکورہ شہروں کے امیر معین کیا کرتے تھے، جیسا کہ ہمیں تاریخ میں نظیر ملتی ہے کہ عبید اللہ بن زیاد نے عمر بن سعد کو شہر ری کا والی مقرر کیا تھا اور اس کی قیمت امام حسینؑ کے خلاف جنگ میں شرکت کرنا قرار دی تھی۔ (تاریخ الکوفة؛ سید حسین بن احمد براقی نجفی، تحقیق: سید محمد صادق بحر العلوم، چاپ چہارم، دار الاضواء، بیروت، 1407 ق: 242)

کلی طور پر شہر کوفہ کے اندر امیروں (حکمرانوں) کی ذمہ داری اور اختیارات و حدود مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ سپہ سالار کا عہدہ دار ہوتا تھا نیز فتوحات کیلئے داخلی و خارجی افواج کا نظم و نسق برقرا رکھنا۔

۲۔ خراج و زکات جمع کرنا۔

۳۔ قضاوت یا قاضی کو معین کرنا البتہ عمر کی حکومت کے زمانہ میں خود خلیفہ ہی قاضی کو منتخب کرتا تھا۔ 

۴۔ امور حج کی نگرانی و انتظام کرنا۔

جو ولات و امراء (حکام) ۲۰ سال کے عرصہ یعنی از سنہ ۳۱ تا ۶۱ ہجری میں کوفہ کے عہدہ پر بنی امیہ کے طرف سے منتخب ہوئے تھے وہ مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ مغیرہ بن شعبہ: سنہ ۴۱ سے ۵۰ ہجری میں اس دنیا سے جانے تک۔

۲۔ زیاد بن ابیہ:  سنہ ۵۰ سے ۵۳ ہجری میں اس دنیا سے جانے تک۔

۳۔ عبد اللہ بن خالد بن اسید:  سنہ ۵۳ سے ۵۶ تک۔

۴۔ ضحاک بن قیس فہری:  سنہ ۵۶ سے ۵۸ ہجری تک۔

۵۔ عبد الرحمٰن بن ام حکم؛ معاویہ کی بہن کا بیٹا (یعنی بھانجا): جسے سنہ ۵۱ ہجری میں معاویہ نے کوفہ کا حاکم منتخب کیا مختصر مدت کے بعد بد سلوکی کی بنا پر اہل کوفہ نے اسے کوفہ سے باہر نکال دیا۔

۶۔ نعمان بن بشیر انصاری: سنہ ۴۹ ہجری میں۔

۷۔ عبید اللہ بن زیاد: سنہ ۶۰ ہجری سے یزید کی موت کے بعد سنہ ۶۴ ہجری تک کوفہ کی حکومت  پر تھا۔ (تاریخ طبری؛ جلد نمبر: 4 میں مذکورہ سالوں کے حوادث کے ذیل میں متن و عبارت ملاحطہ کیجئے۔)

ان حکام کے درمیان جن کے سلسلہ میں بحث کرنا مقصود ہے وہ مغیرہ بن شعبہ، نعمان بن بشیر، زیاد بن ابیہ اور اس کا بیٹا عبید اللہ ہیں۔


★ مغیرہ بن شعبہ اور نعمان بن بشیر:


دونوں ہی پیغمبر اسلامؐ کے اصحاب شمار کئے جاتے تھے اور مسلمانوں کے درمیان معروف شخصیت کے حامل تھے، حقیقت میں تو یہ معاویہ ہی تھا جو ان دونوں کی شخصیت کے ذریعہ کوفہ پر قبضہ قائم کرنے کیلئے استعمال کرتا رہتا تھا اسی وجہ سے ان دونوں ہی افراد نے تقریباً مستقل طور پر عمل کرتے ہوئے تھے اور کم از کم شیعوں کے قتل عام سے بھی پرہیز کرتے رہتے تھے بہتر الفاظ میں تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ہی افراد معاویہ کی دنیا کیلئے مزید اپنی آخرت کو جو کچھ بھی تھی خراب کرنا نہیں چاہتے تھے اسکے علاوہ بھی دونوں بوڑھے ہوگئے تھے اور بوڑھاپے میں ہر چیز سے زیادہ آرام طلب اور عیش پسند ہوگئے تھے۔ اسکے بر خلاف زیاد بن سمیہ اور اس کا بیٹا عبید اللہ یہ دونوں ہی افراد جنگجو، ماجرا پسند اور جاہ طلب بھی تھے اور یہاں تک کہ خاندان اور شخصیت کی حیثیت بھی مفقود تھی، تحقیر نے انہیں رنجیدہ کر رکھا تھا اور انکی کوشش ہوتی تھی کہ اس کا متبادل حاصل کرتے رہنا چاہتے تھے۔


★ زیاد بن سمیہ یا ابیہ:


امیر المومنین حضرت علیؑ کی حکومت میں زیاد پہلے تو ابن عباس کا کاتب و منشی تھا پھر آنحضرت کی طرف سے فارس کی ولایت کے عہدہ پر فائز ہوا، امام حسنؑ کی صلح کے بعد آنحضرت کے اصحاب معاویہ کے طرفدار ہوگئے، زیاد پھر بھی معاویہ کے مقابلہ میں اپنے موقف پر قائم رہا اور معاویہ جو نفسیات پر مہارت رکھتا تھا تو مکر و فریب کے ذریعہ اسے اپنی طرف راغب کر سکا۔

معاویہ کا سب سے اہم کام تو یہ تھا کہ زیاد کو جس کا کوئی حسب و نسب نہیں تھا اسے زیاد بن ابی سفیان کے نام سے پہچنوایا، کیونکہ زیاد سمیہ کا بیٹا اور معاویہ زمانہ جاہلیت کی پیداوار تھے اور پھر اسے بصرہ کا حاکم مقرر کر دیا گیا اور مغیرہ کی موت کے بعد کوفہ کو بھی اسی کی حکومت میں ضم کر دیا گیا۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 128)

 کوفہ میں والی کا عہدہ اجرائی تھا کہ جو مرکزی حکومت کے ہاتھوں منصوب ہوا کرتا تھا اور کوفہ اور اس کے اطراف کی حکومت کو چلانے کیلئے اپنے قبضہ میں ہی رکھتا تھا۔

زیاد بھی اسکے بدلہ میں بہترین کار کردگی اور کوفہ میں علیؑ کے شیعوں کے قلع و قمع کرنے میں مشغول ہو گیا، یہاں تک کہ کوئی بھی اسکے اظہار کی جرات ہرگز نہیں کر سکتا تھا، اس زمانہ میں کوفہ و بصرہ پر حکومت کرنا حقیقت میں پورے ایران، بحرین، عمان اور افغانستان کے بعض علاقے پر تسلط کے مترادف ہوا کرتا تھا کیونکہ یہ تمام علاقے ان دو شہروں بصرہ و کوفہ کے رہنے والوں کے ہاتھوں ہی فتح ہوئے تھے۔ (تخطیط مدینۃ الکوفة؛ 62)

زیاد حسن کار کردگی میں اس مقام تک پہونچ گیا تھا کہ معاویہ کو خط لکھا اور تحریر کیا کہ میں عراق (بصرہ و کوفہ) کو اپنے بائیں ہاتھ سے تیرے لئے قبضہ میں کیا ہوا ہے اور میرا داہنا ہاتھ بیکار و معطل ہے لہذا اسے بھی حجار (مکہ و مدینہ وغیرہ) کی حکومت میں مشغول کر دے۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 215)


عبید اللہ بن زیاد بن ابیہ:


یزید کا حکومت کو اپنے ہاتھوں میں لینے کے بعد جب کہ عبید اللہ کے ساتھ اچھے تعلقات تو نہیں تھے اور ارادہ یہی تھا کہ اس کو بصرہ کی حکومت سے معزول کر دے۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 258)

لیکن کوفہ میں جناب مسلم کی تحریک کے شروع ہونے کے بعد اور نعمان بن بشیر کی حکومتی پکڑ کی کمزوری کو دیکھتے ہوئے اپنے عیسائی مشیر سرجون کی تجویز کے مطابق بصرہ کی حکومت کے ساتھ ساتھ کوفہ کی بھی حکومت اسی کے حوالے کر دی گئی۔

عبید اللہ نے بھی اس مہربانی کے بدلے میں ناقابل تصور بہترین کار کردگی کی ابتدا کر دی اور کوفہ کے شیعوں کے قلع و قمع میں مشغول ہو گیا، اس حد تک مشغول ہوا کہ کتابوں میں ملتا ہے کہ تقریباً ۱۲ ہزار شیعہ افراد کو کوفہ میں قید کر دیا۔ (حیاۃ الحسینؑ؛ 2/ 416)

بالآخر کوفہ کی تحریک کو کچلنے میں کامیاب ہوا بلکہ امام حسینؑ کے ساتھ جنگ کیلئے کوفہ کا لشکر روانہ بھی کیا اور وہ کربلا میں خاندانؑ عصمت و طہارت پر ظلم و ستم کا مرتکب ہوا۔


۲- ارباع کے سردار


کوفہ کی بنیاد رکھنے سے پہلے مختلف قبائل فتوحات میں شرکت کرتے تھے، جنگ میں اعشار نظام کے ما تحت فوج کا کام کاج ہوتا رہتا تھا۔

اس طریقہ سے کہ سعد بن وقاص نے لشکر کو  اعشار (دس) حصوں میں تقسیم کیا اور ہر ایک حصہ کی سربراہی کیلئے سردار کا انتخاب کرتا رہتا تھا، ہر ایک حصہ کو عُشرہ کہا جاتا تھا، دو یا متعدد یا چند مختلف قبائل کی شاخیں فعال ہوتی رہتی تھیں۔

سعد کے فوجیوں کے شہر نشینی کے بعد عمر بن خطاب کے حکم سےکوفہ میں اسباع کے نظام کو اعشار کے نظام کی جگہ قرار دیا گیا۔

اس طریقہ سے کہ عرب کے شجرہ شناس افراد کو دعوت دی گئی تا کہ قبائل و شعوب جو ایک دوسرے سے قریبتر تھے ایک ہی گروہ میں قرار دیں اور کوفہ کی تمام عرب آبادی کو سات حصوں میں تقسیم کیا اور ہر ایک حصہ کو اسباع کے نام سے پکارا گیا اور ہر سُبُع کیلئے ایک سردار معین ہوتا رہتا تھا۔

اسباع کے رؤساء صلح کے زمانہ میں اپنے ماتحت قبائل یا شعوب کو چلانے کی ذمہ داری ہوتی تھی۔ 

اس طریقہ سے کہ قبائل کے عطاء  اور مالی حقوق کو والی و امیر سے لیتے تھے اور انکے درمیان تقسیم کرتے تھے اور افراد کے درمیان اختلاف کی صورت میں معاملہ کے مسئلہ کے حل و فصل کرنے کیلئے اقدام کرتے تھے اور افراد کی تمامتر سیاسی فعالیت کا حکومت کے سامنے اسی کے ذمہ داری ہوا کرتی تھی، اسی لئے وہ کوشش کرتا تھا کہ حتیٰ الامکان اپنے ماتحت دائرہ اختیار کے اندر امن و امان برقرار کرے تاکہ حکومت اس سے ناراض نہ ہو اور معزول ہونے کا امکان نہ پیدا ہو سکے۔

جنگ کے زمانہ میں بھی ان قبائل و شعوب کی ذمہ داری رؤسائے اسباع کیلئے رہتی بهي تھی جیسا کہ جنگ صفین میں مؤرخین نے اسکا تذکرہ بھی کیا ہے۔ 

حضرت علیؑ نے اپنی حکومت کے زمانہ میں اسی  اسباع کے نظام کی تائید بھی کی اور اسی نظام کے ما تحت کوفہ کو چلانے لگے اور صرف ان کے پہلے والے سرداروں کو معزول کر کے نئے سرداروں کو منصوب کرنے کا اقدام کیا۔

لیکن سنہ ۵۰ ہجری میں زیاد نے کوفہ پر حاکم ہونے کے بعد شہر پر بہتر طریقہ سے تسلط قائم کرنے کیلئے اسباع  کے نظام کو ختم کر دیا اور نیا ارباع کا نظام اسکی جگہ قرار دیدیا اور یہی نظام بنی امیہ کے تمام زمانوں میں ہی جاری و ساری رہا۔

(مزید معلومات کیلئے مندرجہ ذیل کتب کی طرف رجوع کیجئے!)

الف: تاریخ طبری؛ 3/ 151؛ 

ب: الحیاۃ الاجتماعیة و الاقتصادیة فی الکوفة؛ 48؛

ج: کوفہ؛ پیدائش شہر اسلامی؛ ہشام جعیط، ترجمہ: ابو الحسن سروقد مقدم، چاپ اول، بنیاد پژوہشہای اسلامی آستان قدس رضوی، مشہد، 1372: 262)

اسی طرح بصرہ میں اخماس  کے نظام کی جگہ  اسباع کے نظام کو قرار دیا۔ (تنظیمات جیش العربی الاسلامی فی العصر الاموی؛ خلد جاسم الجنابی، دار شؤون الثقافة العامة، بغداد: 223)

کوفہ کے تمام قبائل کو ارباع کے نظام کے ما تحت 4 حصوں میں تقسیم کرتے تھے:

جیسے رُبع اہل مدینہ، رُبع تمیم و ہمدان، رُبع ربیعہ و کِندہ اور رُبع مِذحَج و اسد کا تذکرہ ملتا ہے اور زیاد کے ان ارباع کے سرداروں کا انتخاب بترتیب بالا یوں بیان کیا جاتا ہے:

۱۔ عمرو بن حریث: سردار ربع اہل مدینہ

۲۔ خالد بن عرفطہ: سردار ربع تمیم و ہمدان

۳۔ قیس بن ولید: سردار ربع ربیعہ و کندہ

۴۔ ابو برده بن ابو موسیٰ اشعری: سردار ربع مذحج و اسد۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 199)

مسلم بن عقیل نے بھی اپنی تحریک کے وقت اسی فوجی نظام سے فائدہ اٹھایا اور ہر رُبع کو اسی ربع میں قرار دے کر منظم کیا اور خود کو ان سب کا سردار قرار دیا جو مرکزی حکومت کی طرف سے ربع کے منتخب کردہ سرداروں کے علاوہ اپنے افراد کو معین کیا۔

کوفہ میں جناب مسلم کی مسلح تحریک میں جناب ہانی کی گرفتاری اور قصر دار الامارہ کے محاصرہ کے بعد انکے منصوب کردہ ارباع کے رؤساء کے بجائے مندرجہ ذیل افراد کو اپنی طرف سے متعین کیا تھا:

۱۔ ربع مذحج و اسد کی سرداری مسلم بن عوسجه اسدی

۲۔ ربع کندہ و ربیعہ کی سرداری عبید اللہ بن عزیز کندی

۳۔ ربع اہل مدینہ کی سرداری عباس بن جعدہ جدلی

۴۔ ربع تمیم و همدان کی سرداری ابو ثمامه صائدی۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 275)

ہانی بن عروہ کو حکومت کی طرف سے ربع کندہ و ربیعہ کی سرداری سپرد تو نہیں کی تھی لیکن اس ربع میں بہت ہی زیادہ اثر و رسوخ کے مالک تھے جو کوفہ کے ربع میں سب سے بڑی آبادی کا تناسب رکھتی تھی نیز آپ کے احترام کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ مدد کے مطالبہ کے وقت ۳۰ ہزار شمشیریں فریاد رسی کیلئے آمادہ ہوسکتی تھیں۔ (تاریخ الکوفة؛ 297)

البتہ ابن زیاد نے اپنی سیاست نیز ہانی کے رقیب عمرو زبیدی کے ذریعہ اس اثر و رسوخ کو کم سے کم کر سکا اور بالآخر انہیں شہید کر دیا بغیر كس فتنہ و فساد کے ربع میں کوئی خلفشار ظاہر ہو۔

کربلا میں لشکر عمر بن سعد نے بھی اسی ارباع کے نظام کی ہی پیروی کرتے تھے، اس موقع پر نظام ربع کے سردار مندرجہ ذیل افراد کے سپرد کی گئی تھی:

۱۔ سردار ربع اہل مدینہ: عبد اللہ بن زہیر بن سلیم ازدی

۲۔ سردار ربع مذحج و اسد: عبد الرحمٰن بن ابی سبرہ حنفی

۳۔ سردار ربع ربیعه و کنده: قیس بن اشعث کندی

۴۔ سردار ربع تمیم و ہمدان: حر بن یزید ریاحی 

سوائے حر کے تمام ہی لوگ امام حسینؑ کے خلاف جنگ میں ملوث ہوگئے۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 285)


۳- عرفاء


لفظ عَرِیف کی جمع عُرفَاء ہے اور قبیلہ میں اسکا عہدہ دار قبیلہ کے کچھ افراد کی سرداری اور انکے امور کی سرپرستی کو ہی عریف کے نام سے منصب دار ہوا کرتا ہے نیز ان افراد کے اعمال و رفتار کا حکومت کے سامنے جوابدہ ہوا کرتا ہے، جو ذمہ داری عریف انجام دیتا تھا اور جن لوگوں پر اپنی نظر رکھتا تھا تو اسے عَرَافَت کہا جاتا ہے۔  (لسان العرب؛ ابن منظور، تعلیق: شیری، چاپ اول، دار احیاء التراث العربی، بیروت، 1408 ق: 9/ 154)

یہ عہدہ عرب کے قبائل میں دور جاہلیت میں بھی موجود تھا اور دفتری (آفشیل) لحاظ سے قبیلہ کی سرداری سے ایک یا دو درجہ کمتر ہوتا تھا۔ (تاریخ التمدن الاسلامی؛ 1/ 176)

لیکن نظام اسباع کی بنیاد رکھنے کے بعد سنہ ۱۷ ہجری میں نظام عرفاء کسی دوسرے ہی انداز میں عہدہ کو برقرار رکھا گیا اس ترتیب سے کہ ہر عریف کی سرپرستی میں جن افراد کی تعداد کو انکے ماتحت رکھتے تھے کہ انکے وظائف وصول کرنا نیز انکی ازواج و فرزندان کیلئے تنخواہ ایک لاکھ درہم تک ہوا کرتی تھی۔ (تاریخ طبری؛ 3/ 152)

یہاں پر یہ بات قابل غور ہے کہ عرافت کے افراد کی تعداد مختلف ہوا کرتی تھی کیونکہ عمر بن خطاب نے جس نظام کو مقاتلین کے وظائف (عطاء) کیلئے مرتب کیا تھا وہ مساوات ہر قائم نہیں تھی بلکہ افراد کی فضیلت و خصوصیت پر منحصر تھی: جیسے؛ صحابی ہونا، پیغمبر اسلام کے ساتھ جنگوں شرکت کرنا، فتوحات میں شرکت کرنا اور دوسرے متفرق شرائط بھی مقرر کر رکھے تھے۔ (تاریخ طبری؛ 3/ 108 پر مزید معلومات کیلئے عمر کے نظام عطاء کی خصوصیات کی طرف رجوع کیجئے۔)

اسی ترتیب سے مختلف عرافت ۲۰ یا ۶۰ مقاتل کو اپنے میں شامل رکھتے تھے نیز انکی اولاد و ازواج بھی اس رقم میں شمولیت رکتھے تھے پھر اس طرح سے بڑھ جایا کرتے تھے۔

عرفاء کی پہلی ذمہ داری اس زمانہ میں یہ تھی اپنے ماتحتوں کے وظائف و تنخواہ امراء اسباع سے وصول کرتے تھے اور ماتحتوں کو پہونچاتے تھے اور جنگ کے زمانہ میں اپنے افراد کو تیار کرتے تھے اور اگر کوئی جنگ کی خلاف ورزی کرتا تھا تو اسکا نام والی یا امراء اسباع تک پہونچاتے تھے۔

جب عرب کے جنگجو شہری زندگی بسر کرنے لگے تو کوفہ ہی کو اپنا ٹھکانا قرار دیا تب عرفاء کی اہمیت مزید بڑھ گئی کیونکہ اپنی سابقہ ذمہ داریوں کے علاوہ اپنی نظارت کے حدود میں مکمل امن و امان برقرار رکھنے کی بھی ذمہ داری سونپ دیا گیا۔

اس زمانہ میں ایک رجسٹر بھی ہوا کرتا تھا جس میں مقاتلین انکے ازواج اور فرزندوں اور موالی کے نام درج ہوتے تھے اور نئے متولدین کے نام سال کے اعتبار سے ضبط تحریر میں رکھتے تھے اسی طرح جو لوگ اس دنیا سے کوچ کر جاتے تھے تو انکا نام خارج کر دیا جاتا تھا نیز اسی ترتیب سے اپنے افراد کی مکمل شناخت رکھتے تھے، ایسا لگتا ہے کہ عرفاء ہی اپنے والی کے سامنے اس زمانہ میں ذمہ دار تھے۔ (تنظیمات الجیش العربی الاسلامی  223؛ الحیاۃ الاجتماعیة و الاقتصادیۃ فی الکوفة؛ 49)

انکو منصوب و معزول کرنا بھی والی کے توسط سے ہی ہوتا رہتا تھا نہ کہ امراء اسباع یا ارباع کے ذمہ۔

شہر میں کشیدگی و خلفشار کی صورت میں عرفاء کی اہمیت و حیثیت کئی گنا بڑھ جایا کرتی تھی کیونکہ اپنی عرافت میں نظم و نسق برقرار رکھنا ان ہی کی دوش پر ہوا کرتی تھی اور طبعی طور پر اگر مرکزی حکومت طاقتور ہوتی تھی تو ان لوگون سے درخواست کرتے تھے کہ تحریک چلانے والے افراد کی پہچان کروائیں۔ (تنظیمات الجیش العربی الاسلامی؛  223؛ الحیاۃ الاجتماعیة و الاقتصادیة فی الکوفة؛ 49)

کوفہ کے والیوں کے درمیان زیاد اور اس کا بیٹا عبید اللہ نے ہی اس نظام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھایا ہے، جس کی بنا پر شیعوں کی تحریک، خوارج اور دیگر مخالفین کو کچلنے کیلئے نظم و نسق برقرار رکھنے کے نام پر انجام دیا گیا مثلاً مؤرخین نے تحریر کیا ہے کہ عبید اللہ بن زیاد کوفہ میں وارد ہوتے ہی سب سے پہلا اقدام کرنے کے بارے میں ذکر کرتے ہیں: عبید اللہ نے عرفاء اور عوام کو اپنے پاس بلایا اور ان سے مخاطب ہوتے ہوئے سختی کے ساتھ یہ کہا: "تم لوگ اجنبیوں، امیر المومنین یزید کے موافقین، مخالفین کے ناموں کو مجھے لکھ جر دو، جو شخص بھی ایسا کرے گا ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے لیکن عرفاء میں سے جس شخص نے ایسا قدم نہیں اٹھایا تو اس سے عرافت کا عہدہ چھین لیا جائے گا مگر اس طرح سے کہ کوئی بھی مخالفت اور بغاوت اسکی عرافت میں ہمارے لئے نہیں ہونی چاہئے اور اگر ایسا نہیں ہوا تو اسکا خون و مال ہمارے لئے حلال ہوگا اور اگر کسی عرافت میں کوئی شخص امیر المومنین (یزید) کا مخالف پایا جاتا ہے نیز عریف نے اسکا نام بھی ہمیں لکھ کر نہیں دیا ہوگا تو اس عریف کو اسی کے گھر کے دورازہ پر مصلوب کر دیں گے اور اس عرافت کو عطاء اور حقوق سے محروم کر دیں گے۔ (تاریخ طبری؛ 4/ 267)

عبید اللہ کے اسی اقدام نے عرفاء سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا اور بہت مؤثر بھی رہا تھا اور یہی اقدام جناب مسلم کی تحریک کی شکست کا موجب بھی بنا تھا۔ 

  

۴- مناکب


لفظ مَنکَب کی جمع مَنَاکِب ہے اور قبائل کے درمیان ایک منصب و عہدہ ہوا کرتا ہے، بعض تحریروں سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ منصب عریف سے بلندتر ہوا کرتا تھا اور ۵ عریف پر اسی عہدہ دار کو نظارت کا ذمہ دیا کرتے ہیں۔ (تاریخ التمدن الاسلامی؛ 1/ 176)

یہ وہ منصب تھا کہ جو جاہلیت کے زمانہ میں قبائل کے درمیان موجود تھا لیکن بعض دیگر لوگوں نے بھی تحریر کیا ہے کہ اس منصب کی ایجاد زیاد بن ابیہ نے عرفاء کے امور پر مزید نظارت و تسلط کیلئے منسوب کیا جاتا ہے۔ (تنظیمات الجیش العربی الاسلامی 223؛ منقول الاوائل ابی ہلال عسکری)

بعض کا یہ نظریہ ہے کہ اگر چہ یہ عہدہ عبید اللہ کے زمانہ میں ایجاد ہوا ہے لیکن عریف سے کمتر عہدہ ہوا کرتا ہے اور اسکا معاون شمار ہوتا رہتا ہے۔ (الحیاۃ الاجتماعیة والاقتصادیة فی الکوفة 54؛ منقول العقد الفرید 5/ 8)

بہر حال مذکورہ بالا ہر نظریے کو قبول کر لیتے ہیں جو کچھ مسلم ہے یہی ہے کہ یہ عہدہ سنہ ۶۰ ہجری میں جناب مسلم بن عقیل کی تحریک کے زمانہ میں وجود بخشا گیا ہے لیکن تاریخی متون میں یہ عبارت دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی سال اس لفظ کا استعمال کیا گیا اور اسکے کردار کو بھی بیان کیا گیا ہے۔


اب گفتار سوم ملاحظہ کیجئے


DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی