کوفہ کے لوگوں کو پہچانئے!!!
"مردم کوفه را بشناسید"
نویسنده : نعمت الله صفری فروشانی
مترجم : ابو دانیال اعظمی بریر
مقدمہ:
شائد کہہ سکتے ہیں کہ عاشورا کا دردناک و عظیم واقعہ ایک ایسا موضوع ہے کہ جو شیعوں کے درمیان سب سے زیادہ حصہ قرون متمادی کیلئے طے کیا ہے بلکہ مسلمانوں کے درمیان بھی مخصوص توجہ کا حامل رہا ہے۔ لیکن اس سلسلہ میں تالیفات، آثار و تصنیفات میں بہت کم حصہ عام طور پر واقعہ کربلا کے زمانہ میں جو اسلامی دنیا کی سماجی حالات تھے اس تحقیق و جستجو میں مشغول ہوئے ہیں، خصوصی طور پر شہر کوفہ کے بارے میں کم ہی لکھا جاتا رہا ہے، جبکہ ہمیں اس جستجو و تحقیق کے ذریعہ امام حسینؑ کی تحریک اور علل و وجوہات کو بہت زیادہ سمجھا جا سکتا ہے اور ظاہری طور پر کامیاب نہ ہونے کے دلائل حاصل کرنے میں بھی مددگار ہو سکتے ہیں۔
مذکورہ تحریر ادنیٰ سی کوشش و سعی ہے جو کوفہ کی عوام کو پہچاننے میں کی طرف جس کو ہم ۳ گفتار کے تحت بیان کریں گے۔
إن شاء الله المستعان
گفتار سوم : کوفہ کا اقتصادی نظام
۱- کوفہ کی حکومت کے مالی ذرائع
۲- خراج
۳- جزیہ
۴- جنگی غنائم
۵- کسٹمز
۶- عوام کے مالی وسائل
۷- صنعت، حرفت، زراعت و تجارت وغیرہ
۸- عطاء (بطور نقدی)
۹- ارتزاق (بصورت غیر نقدی)
امام حسینؑ کی تحریک کے ابتدائی زمانہ میں کوفہ پرحاکم تمام عناصر کی تحقیق پہلے کریں گے نیز ہر ایک جگہ پر سعی و کوشش ہوئی ہے کہ تحریک پر اثر انداز ہونے والے، تحریک کو ترقی عطا کرنے والے، متوقف کرنے والے عناصر اور پھر مسئلہ کی طرف اشارہ کریں گے۔
اس امید پر کہ شہیدؑ اعظم کی ملکوتی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل کر سکے۔
السعی منی و الإتمام علیٰ الله
گفتار سوم:
کوفہ کا اقتصادی و معاشي نظام
اس گفتار کو دو حصوں میں تحقیق و جستجو کریں گے:
★ حکومت کوفہ کے آمدنی کے مالی ذرائع
★★ عوام کی معیشت کے وسائل
۱- حکومت کوفہ کے آمدنی کے مالی ذرائع
کوفہ کی حکومت کے مالی آمدنی کے ذرائع اس زمانہ میں مندرجہ ذیل کو زیر بحث قرار دیں گے۔:
(الف) خراج و لگان عائد کرنا
جنگ کے ذریعہ سرزمین حاصل ہونے پر اولین حکم یہ ہوا کرتا ہے کہ سپاہ اسلام مقاتلین اور جنگجوؤں کے درمیان تقسیم کر دیتے تھے لیکن عمر نے اس سرمایہ کو آئندہ کیلئے حفاظت اور مقاتلین کے درمیان جنگی جذبات کی محافظ کی خاطر صحابہ من جملہ حضرت علیؑ کے مشورہ سے اس سر زمین کی تقسیم نہیں کرتے تھے بلکہ یہ مصمم قصد کیا کہ انکے اہل و عیال کے ہاتھوں میں باقی رہ جائے اور اسکے بدلہ میں ہر سال کچھ مقدار میں خراج ادا کریں اور یہ خراج بھی مفتوحہ شہر کی طرف سے فاتح شہر کو بھیجا جاتا تھا۔ (تنظیمات الجیش العربی الاسلامی؛ 86)
اس طریقہ سے کہ ہر سال شہروں کا خراج کوفہ کی طرف منتقل کرتے تھے جیسے: آذربائیجان، گرگان، کابل، سیستان، انبار وغیرہ جو کوفیوں کے ہاتھوں فتح ہوئے تھے اور مخصوص مقام پر جسے کوفہ کا بیت المال نام دیا گیا تھا منتقل کرتے رہتے تھے اور حاکم کوفہ شہر کے اخراجات کو نکالتے اور پھر لوگوں کے درمیان تقسیم کرنے کے بعد جو کچھ بچتا تھا اسے مرکزی حکومت کے پاس بھیج دیا کرتے تھے۔ (الحیاۃ الاجتماعیة و الاقتصادیة فی الکوفة؛ 219)
حضرت علیؑ نے خلیفہ بننے کے بعد عمر کے اس فیصلہ کی تائید فرمائی نیز خراج کے نظام اور مفتوحہ سر زمین کی عدم تقسیم کو جاری رکھا۔
یہ نکتہ قابل ذکر ہے کہ حکومت کی زیادہ تر آمدنی اسی ذریعہ سے ہی ہوتی رہتی تھے۔
(ب) غیر مسلمین سے جزیہ لینا
جزیہ وہ مال ہوتا تھا کہ غیر مسلم افراد اسلامی شہروں میں رہنے والے مجوسی، یہودی اور عیسائی لوگ سالانہ طور پر فی کس کے اعتبار سے حکومت کو دیتے رہتے تھے نیز اس زمانہ میں معمول کے مطابق دولتمند طبقہ 48 درہم، متوسط طبقہ کے افراد 24 درہم اور آخری طبقہ کے لوگ 12 درہم سالانہ ادا کرنے کے پابند تھے۔ (الحیاۃ الاجتماعیةو الاقتصادیةفی الکوفة؛ 219)
اہل ذمہ کے مسلمان ہونے کے ساتھ ہی حکومت کی آمدنی میں اس مد سے کمی واقع ہو رہی تھی لیکن معاوی نے اس کمی کو پورا کرنے کیلئے اپنی حکومت کے دوران حکم جاری کیا تھا یہاں تک کہ عراق میں مقیم ایرانی عوام اسلام سے قبل کے مطابق ہر سال اول بہار اور اول پائیز (پتجھڑ) میں عید نو روز اور مہرگان کے موقع پر حکومت کو تحائف ادا کرتے رہیں گے اور اس طریقہ سے ہر سال 1 کروڑ درہم عراق کے بیت المال میں جمع ہوتا تھا۔ (الحیاۃ الاجتماعیةو الاقتصادیة فی الکوفة؛ 222)
(ج) جنگی غنائم حاصل ہونا
اندرون ایران اور اسکے پڑوسی ملکوں میں فتوحات کے ذریعہ مال غنیمت حاصل کرتے رہتے ہیں اور اس طریقہ سے غنائم کا خمس بھی بیت المال میں ہی منتقل ہوتا تھا اسکے سوا بھی بادشاہوں کے مخصوص اموال اور دشمن امراء کے اموال جو صوافی کے نام سے مشہور تھا، یہ سب ہی حکومت کے خزانہ میں منتقل رہتا تھا کہ عراق کے صوافی اموال کی آمدنی معاویہ کے دور میں سنہ ۵۰ ہجری میں 5 کروڑ درہم تک پہونچ گئی تھی۔ (الحیاۃ الاجتماعیة و الاقتصادیة فی الکوفة؛ 222)
(د) تجارتی نیز واردات و صادرات کا ٹیکس نافذ کرنا
تجارتی مال کوفہ میں درآمد كرنے پر ٹيكس يا چنگی يا کسٹم کو نافذ کیا تھا یہ تجارتی ٹیکس عمر کی حکومت کے زمانہ میں شروع کیا جاتا ہے۔
اسي طریقہ سے غیر ذمی کفار سے دسواں (۱/ ۱۰) نيز ذمی کفار سے بھی دسواں (۱/ ۱۰) اور مسلمانوں سے بھی دسواں (۱/ ۱۰) مال التجارہ سے ٹیکس و کسٹم کے نام پر لیا جاتا تھا نیز اس ٹیکس کو اصطلاح میں مکوس کہا جاتا تھا۔ (الحیاۃ الاجتماعیة و الاقتصادیة فی الکوفة؛ 222)
یہاں تک تو یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ کوفہ کی حکومت مالی اعتبار سے بہت مضبوط تھی خاص طور پر اس صورت میں کہ کوفہ و بصرہ کی گورنری ایک ہی شخص کے توسط سے چل رہی تھی اور اسکی قوت کئی گنا بڑھ بهي گئی تھی کیونکہ والی ایسی صورت میں بیت المال کو اپنے اختیار ہی میں رکھتا تھا نیز ہر طرح کی قوت مجریہ کی قابلیت و صلاحیت بھی حاصل تھی جیسا کہ زیاد اور اسکے بیٹے عیبد اللہ کی حکومت کے زمانے میں اسي طریقہ سے عراق کا خراج حاصل کرتے رہتے تھے کہ فقط عبید اللہ کی حکمرانی میں مبلغ 13 کروڑ 50 لاکھ درہم خراج وصول ہونا کتابوں میں ذكر کیا جاتا ہے۔ (بررسی وضع مالی و مالیه مسلمین از آغاز تا پایان دوران اموی؛ ابو القاسم اجتہادی، چاپ اول، انتشارات سروش، تہران، 1363، 137)
دوسری طرف عبید اللہ نے بھی عطیہ کو زیادہ کر کے نیز بزرگان و رؤسائے کوفہ کو رشوت دے کر انہیں امام حسینؑ کے ساتھ جنگ کرنے کیلئے ترغیب و تشویق کر سکا، جيسے کہ اہل کوفہ میں مجمع بن عبد اللہ عائدی نامی شخص جب کربلا میں امامؑ سے ملحق ہوتے ہيں تو یوں جواب میں کہتے ہیں: اشراف و بزرگان کوفہ کو بڑی بڑی رقمیں بطور رشوت ادا کی گئیں ہیں اور حکومت نے انکے انبار خانے کو بھر دیا ہے تا کہ انکی الفت کو اپنی طرف جذب کریں پس وہ لوگ بھی اجماع و متحد ہو کر آپ کے خلاف جنگ کریں گے۔ (تاریخ طبری 4/ 306)
۲- عوام کے مالی وسائل
کلی لحاظ سے عوام کی معیشت کو ہم دو حصوں میں معیشتی وسائل اور حکومت کوفہ سے مالی امداد عطیہ لینا نیز حکومت سے غير نقدي کی صورت میں امداد يعني ارتزاق کے نام پر تقسیم کرتے ہیں۔
(الف) عوام كي معيشت كے وسائل
اس زمانہ میں عوام کے مالی وسائل معمولاً زراعت، صنعت، تجارت اور حکومت کی ملازمت جیسے سپاہی کی ملازمت کرتے تھے۔
یہ بھی دیکھا جا رہا ہے کہ لوگوں کی شدید وابستگی حکومتی بخشش اور تنخواہ سے تھی کوفہ کے عرب بہت کم معیشت کی طرف راغب ہوتے تھے اس طرح سے کہا گیا ہے: اکثر صنعت و حرفت موالی کے ذمہ ہی ہوا کرتی تھی اور اصولاً عرب حرفت و صنعت کو شغل کے طور پر اختیار کرنے کو اپنے لائق شمار نہیں کرتے تھے۔ (الحیاۃ الاجتماعیة و الاقتصادیة فی الکوفة 82)
(ب) حکومت کا مالی تعاون اشیاء یا غير نقدي کسی صورت ميں
١- عطاء
یعنی حکومت کی طرف سے مالی امداد نقد کی صورت میں والي کوفہ سے سال میں ایک بار یا کئی بار اس شہر کے مقاتلین کو ادا کرتا تھا۔
۲- ارتزاق
یعنی حکومت کی طرف سے کھانے پینے کی عير نقدي اشیاء کی صورت میں امداد ہوتی تھی جیسے خرما، گیہوں، جو اور تیل وغیرہ بغیر معاوضہ کے اس شہر کے مقاتلین کو دی جاتی تھی۔
عطاء کا نظام عمر بن خطاب کے توسط سے ہی ابتدا کی گئی اس طریقہ سے کہ عمر ہمیشہ ایک لشکر کو تیار رکھتے اور دوسرے مشاغل میں مصروف ہونے سے بچانے کیلئے اور انکی سالانہ تنخواہ بھی معین کی تھی کہ جو خصوصی معیار پر مبنی تھی جیسے صحابی ہونا، متعدد جنگوں میں شرکت کرنا وغیرہ کا لحاظ رکھا گیا تھا، یہ سالانہ تنخواہ عام طور پر فتوحات اور مفتوحہ سر زمین کے خراج کے ذریعہ پورا کیا جاتا تھا، افراد کے تناسب کی بنیاد پر سالانہ مبلغ 200 یا 300 درہم ہوا کرتی تھی۔ (تاریخ طبری 3/ 108؛ فتوح البلدان 438)
اسکی حد اکثر مقدار کو "شرف العطاء" کے لفظ سے پکارا جاتا تھا اور مخصوص افراد میں کچھ خاص صفات کی بنا پر ادا کیا جاتا تھا جیسے شجاعت و رشادت کا زائد ہونا تھا۔ (الحیاۃ الاجتماعیة و الاقتصادیة فی الکوفة 240؛ تنظیمات الجیش العربی؛ 98)
حضرت علیؑ اپنے ہاتھ میں خلافت لینے کے بعد سب سے پہلے اصل عطاء کے نظام کو تصویب تو کیا مگر عمر کے معیار و خصوصیات کی بنیاد پر متفاوت و متفرق عطاء کو ختم کر دیا اور عطاء میں مکمل لحاظ سے مساوات کی بیناد پر قرار دیا گیا کہ یہی عدل و انصاف کا عمل كوفيوں كي بہت سی ناراضگیوں کا سبب بھی بنا۔ (نہج البلاغة؛ فیض الاسلام، خطبہ: 126)
حضرت علیؑ کے زمانہ خلافت میں عطاء کے ادا کرنے کی دوسری حصوصیت یہ تھی کہ بیت المال میں دولت کے آتے ہی فوراً آنحضرت اسکی تقسیم کیلئے اقدام کرتے رہتے تھے اور بیت المال میں دولت جمع ہونے نہیں دیتے تھے.
★ جیسا کہ نقل کیا جاتا ہے کہ امیر المومنین نے ۳ بار عطاء کی تقسیم ہونے کے بعد جب اصفہان سے بہت زیادہ مال غنیمت پہونچا تو آنحضرت نے لوگوں کو اسباع کے رؤساء سے چاہا کی اپنے چوتھے عطاء کو حاصل کر لیں۔ (مروج الذہب 2/ 421)
حضرت علیؑ کے زمانہ خلافت میں اس عطاء کی تیسری خصوصیت یہ تھی کہ آنحضرت حتیٰ کہ اپنے مخالفین کو بھی یہی عطاء کا تحفہ ادا کیا کرتے تھے جیسے خوارج كو بھی کہ جب تک یہ حکومت اسلامی کے خلاف عملی اقدام نہیں کرتے تھے انہیں اس حق سے محروم نہیں کرتے تھے۔ (تاریخ طبری 4/ 53)
لیکن حکومت معاویہ کے زمانہ میں آنحضرت کے نافذ کردہ عدل و انصاف پر مبنی اس عطاء کے نظام کو کلی طور پر ختم کرد یا گیا تھا اور پھر وہی عمر کا معین کردہ طبقاتی نظام والا عطاء کا قانون مقرر کیا گیا تھا لیکن اس مرتبہ فضیلت اور اسلام میں سبقت نیز جنگوں میں شرکت کے معیار کا لحاظ نہیں رکھا گیا بلکہ اموی حکومت سے تقرب اور اپنے آپ کو حکومت کے سپرد کرنے کی مقدار کو معیار قرار دیا گیا تھا۔ (نظیمات الجیش العربی 92)
معاویہ کی حکومت میں تو موالی کے عطاء کو ختم ہی کر دیا گیا۔ (الحیاۃ الاجتماعیة و الاقتصادیة فی الکوفة 87)
لہٰذا موالی مجبوری کی صورت میں اپنے ارتزاق کیلئے حرفت و صنعت کی طرف راغب ہوئے۔
اس زمانہ میں عوام عطاء و ارتزاق سے شدید وابستگی رکھتے تھے اور حکومت وقت بھی اس کمزوری سے بخوبی واقف تھی لہٰذا اسی کو دستاویز نیز ہتھیار کے طور پر فائدہ بھی اٹھایا کرتی تھی۔
بنی امیہ کی حکومت کے مخالفین عموماً شیعہ ہی ہوا کرتے تھے تو انہیں بھی عطاء و ارتزاق کے منقطع کرنے کی دھمکی دیتے رہتے تھے جیسا کہ ہم نے پہلے نقل کیا ہے کہ عبید اللہ نے دھمکی آمیز الفاظ میں کہا: کسی بھی عرافت میں کوئی بھی حکومت کا مخالف موجود ہوگا تو اسے عطاء و ارتزاق سے محروم کر دیا جائے گا۔
جب مسلم بن عقیل اپنی سپاہ کے ساتھ عبید اللہ بن زیاد کے قصر کا محاصرہ کیا اور اسے شدید دباؤ میں مبتلا کیا تو اسی چال سے عبید اللہ کامیاب ہو سکا کہ لوگوں اور جناب مسلم کے حامیوں کو تشویق کیا گیا کہ اس عمل سے دستبردار ہونے پر انکے عطاء و ارتزاق میں اضافہ کیا جائے گا اور پھر دھمکی دیا کہ اس بغاوت کو جاری رکھنے کی صورت میں عطاء و ارتزاق کو منقطع کر دیا جائے گا اور یہی چالبازی کام کر گئی اور جناب مسلم کے اطراف سے لوگ فوراً ہی پراگندہ ہو گئے۔ (تاریخ طبری 4/ 277)
چنانچہ یہی طریقۂ کار یعنی عطاء میں اضافہ کرنا سبب بنا کہ کوفہ کی عوام سے ایک عظیم لشکر تیار ہو گیا کہ جن کے دل تو امام حسینؑ کے ساتھ تھے مگر انکی تلواریں آنحضرت کے خلاف تھیں نتیجہ میں امامؑ کے ساتھ جنگ کیلئے وارد عمل ہو گیا۔ (حیاۃ الامام الحسینؑ 2/ 453)
روز عاشورا جس وقت امام حسینؑ نے کوفیوں پر اتمام حجت کرنا چاہا وہ لوگ شور شرابہ کر رہے تھے تا کہ آنحضرت کے خطبہ کیلئے مانع ہو رہے تھے تو آخر کار آنحضرت نے رشتۂ کلام کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور اشاروں ہی اشاروں میں مسئلہ عطاء کو بیان بھی کر دیا کہ کوفیوں کی نافرمانی کی اصل وجہ بھی اسی عطا کو ہی شمار کیا جاتا ہے۔
آنحضرت کے کلام میں ہمیں ملتا ہے: تم سب کا میری نافرمانی کرنا اور میرے کلام کو غور سے نہ سننا (یہی سبب ہونا چاہئے کیونکہ) تمہیں حرام مال سے عطاء فراہم کیا گیا اور تمہارے شکم مال حرام سے بھر گئے ہیں پس یہی وجہ ہے کہ تمہارے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہے۔ (موسوعة کلمات الامام الحسینؑ 422)
شائد ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ کوفہ میں اگر جناب مسلم ۳ مہینے (سنہ ۶۰ ہجری میں ۱۵ ماہ رمضان سے ۸ ذو الحجہ تک) قیام کے دوران بیت المال کو اپنے قبضہ میں کر سکتے اور اسے ہی اپنے فائدہ کیلئے استعمال کرتے تو انکی کامیابی کی ضمانت ہو جاتی، جیسا کہ مختار نے سنہ 66 ہجری میں بیت المال پر قبضہ کر کے 90 لاکھ درہم اپنے موجودہ ساتھی سپاہیوں میں تقسیم کر کے کوفہ پر تسلط قائم کر لیا تھا۔ (تجارب الامم 2/ 138)
امام حسینؑ کا انقلاب ایک ایسی تحریک نہیں تھی کہ جو طاقت اور درہم و دینار کے بل بوتے پر کامیابی کے راستہ کو طے کرے کیونکہ جب لوگ درہم کے ساتھ ہی جمع ہوں گے تو انکے منافع اور دنیاوی مفاد کے خطرہ میں پڑنے سے وہ میدان چھوڑ کر فرار بھی ہو جائیں گے جیسا کہ مختار کے سلسلہ میں ہمیں تاریخ کے صفحات پر ملتا ہے: خود مختار کو انکے دشمن مصعب بن زبیر کے مقابلہ میں تنہا چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ قتل کر دیئے گئے اسی طرح سے مصعب بن زبیر کے ساتھ بھی ہوا، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کی تکرار کرتی ہی رہتی ہے۔
تمت بالخیر به نستعین و هو خیر المعین
-;{@ }i{ @};- $}{@j@r @};- }i{ -;{@
ایک تبصرہ شائع کریں