Saudi Arabia will execute three major Sunni Islam scholars after Ramadan, according to reports. The orthodox Islamic kingdom had beheaded 37 people, mostly Shia Muslims
WAHHABISM IS A POISON IN ISLAM
WE ARE AGAINST THE GLOBAL TERRORISM
تکفیری تحریک اور قتل مسلمین کا فتویٰ
تالیف
سید محمد یزدانی
برائے
عالمی سمینار بعنوان "پر تشدد تکفیری تحریک علمائے اسلام کی نظر میں" قم ۵۹۳۱ ہجری شمسی
ترجمہ
منھال رضا خیرآبادی
جامعه حیدریه مدینة العلوم خیرآباد ضلع مئو (يو.پي)
Muhammad ibn Abd al-Wahhab
Founder of the Islamic doctrine and movement known as Wahhabism
مقدمہ
رئیس محترم سمینار حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ مکارم شیرازی مد ظلہ الوارف
دور حاضر مسلمانوں اور اسلام کیلئے دردناک، پیچیدہ حوادث اور خطرناک فتنوں کا دور ہے جس کا سر چشمہ دو چیزیں ہیں اسلام کے خارجی دشمنوں اور داخلی منافقین کا باہمی تعاون۔
بد ترین فتنوں میں سے ایک فتنہ تکفیری اور پر تشدد تحریک جو ماضی قریب میں داعش کے نام سے ظاہر ہوئی یا اس جیسی دوسری تنظیمیں جو آج کائنات میں پائی جا رہی ہیں۔
تکفیری فتنہ نے کہاں جنم لیا؟ کس کے ذریعہ پروان چڑھا؟ اسکی وسعت و گسترش میں کون سے عوامل دخیل تھے؟ اس تحریک کو ختم کرنے کی راہیں کیا ہیں؟ یہ وہ مطالب ہیں جو اپنی جگہ پر قابل غور و فکر، بحث و تحقیق کے قابل ہیں ۔یقینا سیاسی و عسکری نظام تنہا ان فتنوں کو ختم کرنے میں چندان مؤثر نہیں ہے گرچہ صادقانہ طور پر بروئے کار لایا جائے، ضرورت ہے کہ بزرگ علمائے اسلام اس بیہودہ فکر کی جڑوں کو ہی صحیح منطق کے طیشہ سے قطع کریں اور جوانوں کو ان فتنوں سے جڑ نےسے بچائیں۔
اسی وجہ سے عزم مصمم کیا گیا کہ بعض دلسوز و وبا خبر دانشمندوں کے تعاون سے ایک بین الاقوامی سمینار "پر تشدد تکفیری تحریک علمائے اسلام کی نظر میں" کے عنوان کے تحت تشکیل پائے جس میں تمام مذاہب و مکاتب فکر کے علماء اس موضوع کے حوالہ سے دقیق مطالعات کے نتائج کو تمام افراد کیلئے پیش کریں تا کہ ان سے با خبر ہونے کے بعد عامۃ المسلمین اس فتنہ کو دبا دینے میں کامیاب ہو سکے۔
جو کچھ اس کتاب میں آپ کے زیر مطالعہ آئے گا وہ ان مطالعات کا ہو کچھ حصہ ہے.
رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَ أَنْتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ (سوره اعراف آیه89)
ناصر مکارم شیرازی
حوزہ علمیہ قم
(جمہوری اسلامی ایران)
ذی الحجه ۵۳۴۱ ھ
﷽
مقدمہ
دبیر علمی حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ آقای جعفر سبحانی مد ظلہ العالی
تکفیری فکر کی جڑیں اور سمینار کا ہدف:
ایمان و کفر دو متضایف مفہوم ہیں کسی ایک کے بارے میں غور و فکر دوسرے کے بارے میں غور و فکر کا سبب ہوتا ہے اس صورت حال کو علم فلسفہ میں تضایف سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
لفظ ایمان تصدیق و یقین کرنے کے اور لفظ کفر پوشیدہ رکھنے اور کبھی کبھی انکار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، متکلمین کی اصطلاح میں ایمان سے مراد نبی عصرؐ کی نبوت و رسالت کی تصدیق ہے اور کفر سے مراد نبیؐ کی دعوت سے گریز اور انکار ہے۔
آسمانی داعیوں کی تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں پیغمبر بھیجے گئے جنھوں نے اپنی دعوت کو مدلل و مبرہن انداز میں پیش کیا اس وقت معاشرہ دو حصوں میں تقسیم ہو جاتا تھا مومن و کافر۔ جو پیغمبرؐ کی دعوت پر لبیک کہتا وہ مومن اور جو اس سے روگردانی اختیار کر لیتا کافر کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
اصول دین کی طرف دعوت کا نظام تمام پیغمبران الٰہی کا یکساں تھا کسی قسم کا اس میں اختلاف نہیں پایا جاتا تھا، گروہ مومنین جملہ انبیاء کی دعوت میں ان افراد پر مشتمل ہوتا تھا جو خدا کو خالق، مدبر و مدیر جانتے تھے اور اس کے علاوہ کسی کی عبادت کی فکر بھی ذہنوں میں نہیں پیدا ہوتی تھی اپنے ہم عصر پیغمبر کی رسالت کو تہہ دل سے قبول کر لیتے تھے۔
خاتم الانبیاء کی بعثت کے بعد رسولخداؐ لوگوں کے ایمان کو دو جملہ جوان کے باطنی یقین کی حکایت کرتے ہوتے تھے قبول کر لیتے تھے یعنی کوئی شخص یا گروہ "لا الٰه الا الله محمد رسول الله" کہتا تھا تو وہ خیمہ اسلام میں داخل ہو جاتا تھا اور کفر کے جرگہ سے خارج تسلیم کیا جاتا تھا۔
دوسری طرف کلمہ اخلاص کا اقرار "کلمہ اخلاص میں غیر خدا کی الوہیت کی نفی کی گئی ہے" تین قسم کی توحید کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا:
(۱). توحید خالقیت
(۲). تدبیر امور میں توحید
(۳). توحید عبادتی۔کیونکہ
یہ تینوں خصوصیات خداوند عالم سے مختص ہیں مخلوقات سے نہیں ۔
مزید بر آن ہر الٰہی دعوت کی اساس و بنیاد آخرت پر ایمان کا ہونا ہے جس کا واضح سا مطلب یہ ہے کہ توحید و رسالت کی مانند حیات اخروی کا اقرار ایمان کے عناصر میں سے ہے جو کلمہ اخلاص میں مضمر ہے۔
سیرت نبوی میں ایک موسم کا نام ’’عام الوفود‘‘ ہے جس میں دور و نزدیک سے اجتماعی و انفرادی طور پر ہزاروں افراد نے مدینہ پہونچ کر اسلام قبول کیا اور گذشتہ دو جملے جو باطنی یقین کی حکایت کرتے ہیں زبان پر جاری کر کے مسلمان ہو گئے اور "سورہ نصر" نازل ہوا جس میں ارشاد ہوا:
"اِذَا جَآءَ نَصر اللّٰه وَ الفَتح وَ رَأَیتَ النّٰاسَ یَدخُلونَ فِی دِینِ اللّٰه أَفوَاجًا"
اس گروہ کا اسلام قبول کرنا انہیں دو جملات کے ذریعہ تھا کلامی و فقہی مسائل زیر بحث نہیں آئے تھے یعنی ان سے خدا کی منزلت، رؤیت،رحدوث و قدیم ہونا یا ان جیسے دیگر سوالات مطرح نہیں کئے جاتے تھے بلکہ ان کا اجمالی ایمان ان سارے مسائل سے بے نیاز تھا اسی طرح سے انبیاء و اولیاء سے توسل کا جائز ہونا، قبور اولیاء و انبیاء کے پاس نماز پڑھنا، اولیاء اللہ کی قبروں کی زیارت وغیرہ جیسے مسائل بھی ذکر نہیں ہوتےرتھے۔
فتنہ تکفیر کا آغاز:
موجودہ زمانہ میں آئین محمدی کے اصول و مبادیات سے بے بہرہ ایک گروہ نے اسلام و ایمان کا احتکار کر لیا ہے اور مسلمانوں کی اتنی بڑی جماعت سے صرف معدودے چند افراد کو مومن اور باقی کو کافر و مہدور الدم تصور کرتا ہے اس تکفیری فکر کی جڑیں ابن تیمیہ (متوفی ۷۲۸ھ) اور اسکے بعدرپر تشدد وہابیوں کے درمیان پائی جاتی ہے، تشدد کی کیفیت فرد اول سے زیادہ بعد کے گروہ میں مستحکم ہوتی نظر آتی ہے کیونکہ ابن تیمیہ نے کلمہ بدعت سے استفادہ کیا تھا جبکہ وہابیوں نے بدعت کے بجائے کفر کی لفظ استعمال کیا اور تکفیر کا معیار اپنے افکار سے ہماہنگی نہ ہونے کو قرار دیا۔
قبور انبیاء و اولیاء کے تحفظ کی زبردست مخالفت کرتے ہوئے ان زیارت گاہوں کو مظہر بت پرستی سے تعبیر کیا جبکہ طول تاریخ اسلام میں فلسطین، اردن، شام و عراق میں موجود گذشتہ انبیاء کی قبریں ہمیشہ زیارت گاہ خلائق رہی ہیں مسلمان اجتماعی طور پر اس کی زیارت کے شرف سے بہرہ مند ہوتے رہے کسی نے اس عمل کو منافی توحید نہیں بتایا ہے۔ یہاں تک کہ جب عمر ابن خطاب کے ذریعہ بیت المقدس فتح ہوا تو انھوں نے ان مقامات کی تخریب کا حکم صادر نہیں کیا بلکہ گزشتہ طور طریقہ پر اسکے تحفظ و تزئین کا اہتمام کیا۔
وفات مرسل اعظمؐ کے بعد فرزندان توحید پیغمبر خداؐ سے توسل اختیار کرتے رہے تاکہ انکی شفاعت کے ذریعہ حاجت روائی ہو سکے لیکن اس گروہ نے اس توسل کو مشرکانہ عمل سے تعبیر کرتےزہوئے کہا کہ جیسے مشرکین بتوں سے توسل کرتے تھے ویسے ہی یہ بھی ہے جبکہ دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فاصلہ ہے۔
پر تشدد تکفیر:
اس گروہ کے اسلاف کا انداز تکفیر زبان و قلم تک محدود تھا لیکن تندرو (شدت پسند) وہابیوں کے دور میں تکفیر نے شدت اختیار کیا اور جارحانہ انداز میں مسلسل قریہ جات و قصبات اور نجد کے اطراف کی آبادیوں پر حملہ آور ہونے لگے اور غارتگری شروع کر دیا اور اپنی مالی توانائی میں اضافہ کرتے رہے۔
اس فرقہ کے مؤسس اور اس کے جانشینوں کے ظلم و ستم کی داستان کو وہابیوں کی دو معتبر کتابوں میں پڑھا جا سکتا ہے۔
(۱) تاریخ ابن غنام
(۲) تاریخ ابن بشر۔
یہ دونوں کتابیں عرصہ دراز سے زیور طبع سے آراستہ ہو کر علماء و ارباب دانش کی توجہات کا مرکز رہی ہیں ۔
اپنی گفتگو کو سمیٹتے ہوئے اس بیت پر گفتگو ختم کرنا چاہتا ہوں:
شرح این هجران و این خون جگر
این زمان بگذار تا وقت دگر
افغانستان پر سابق شوروی (روس) کے طاقت کے ذریعہ غلبہ و تسلط کے بعد یہ سازش کی گئی کہ اس سر زمین سے کفر کی قوت کو ختم کرنے کیلئے مسلمان جوانوں کے جذبہ جہاد سے استفادہ کیا جائے تاکہ اسلامی علاقہ جات کو دشمن سے خالی کرایا جاسکے یہ سازش و پلاننگ ایک جہت سے اچھی اور الٰہی نظام سے ہم آہنگ تھی لیکن با خبر و مخلص و زاہد راہبر کے فقدان نے جہاد کے الٰہی اصول و قوانین کو بالائے طاق رکھ دیا اور آخر کار ان لوگوں کی زحمتوں اور محنتوں کو دوسرے پیرایہ میں پیش کیا گیا بعض ان میں سے وہابیوں کی پر تشدد افکار سے متاثر هو کر پوری اسلامی حکومت اور ان اقوام و ملل کی تکفیر کرنے لگے جو ان جگہوں پر زندگی بسر کر رہے تھے، شومی قسمت سے ابتداء صہیونزم کے مقابلہ میں استوار ممالک پر حملہ سے ہوئی اور قدس کو آزاد کرانے کے بجائے شام و عراق کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے میں جٹ گئے۔ ان کا تشدد آمیز رویہ بچوں، عورتوں، پسماندہ افراد، غیر جانبدار افراد کے ساتھ کچھ ایسا تھا کہ اسلام کا چہرہ عالم ہست و بود میں تبدیل ہونے لگا اور مغربی دنیا میں بسنے والے افراد اسلام سے اظہار الفت کو ننگ وعار محسوس کرنے لگے، وحشیانہ طور طریقہ کہاں اور وحی الٰہی کہاں۔ ارشاد ہوتا ہے:
"فبما رحمة منا اللّٰه لنبتلیهم و لو کنت فظّا غلیظ القلب لأ نفضّوا من حولك" (سورہ آل عمران ۱۵۹)
پیغمبر رحمتؐ نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا:
"أن الرفق لا یکون فی شیء إلّا زانه و لا ینزع من شیء إلّا شأنه" (صحیح مسلم ۸/ ۲۲)
جس چیز کے ساتھ مہر و رأفت کی آمیزش ہو جائے گی وہ مزین ہو جائے گی اور جس سے رفق و مدارات چھین لی جائے گی وہ تباہ و برباد ہو جائے گی۔
اہداف سمینار:
اس پر خطر دور میں حوزہ علمیہ قم میں مرجعیت عالی مرتبت نے ایک بین الاقوامی سمینار بعنوان "پر تشدد افراطی و تکفیری تحریکیں علمائے اسلام کی نظر میں" منعقد کرنے کا عزم بالجزم کیا ہے تاکہ اس گروہ کے اعمال کے اثرات شوم سے لوگوں کو متعارف کرایا جا سکے۔ اس سلسلہ میں علمائے اسلام و محققین سے اس تکفیری تحریک کے جزور، جڑوں، ماہیئت و نوعیت، راہ حل کے سلسلہ میں تحقیق و جستجو کا مطالبہ کیا گیا اور بحمد اللہ ارباب علم و دانش نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کےنتیجہ میں دفتر سمینار میں نہایت ہی دقیق و اہم مطالب کےحامل آثار جمع ہو گئے اب ان آثار و مسودہ جات کو زیور طبع سے آراستہ کرنے کا ارادہ کیا گیا ہے تا کہ ارباب فکر و نظر، داخلی (ملكي) و خارجی (غير ملكي) مہمان جو مدعو ہیں کے زیر مطالعہ قرار پائے اور اس اجاڑ دینے والے سرطان کی نشر و اشاعت کی روک تھام اور دہشت زدہ کرنے والے وائرس (جرثومہ) سے تحفظ کیلئے اقدام کیا جا سکے۔
دفتر سمینار کے جملہ ممبران کی شبانہ روز کی کوششوں اور مساعی جمیلہ پر انکا شکر گذار ہوں اور انکی طاقت فرسا زحمات کی قدر کرتا ہوں۔ جس جس نے بھی اس روحانی و علمی فضا کو وجود میں لانے کیلئے زحمات برداشت کیا ہے ان سب کا شکر گذار ہوں اور ہدیہ تقدیر پیش کرتا ہوں۔
جعفر سبحانی
قم (جمہوری اسلامی ایران)
۸؍ ۶؍ ۱۳۹۳ ہجری شمسی
ایک تبصرہ شائع کریں