اہلبیت کی اولاد کے ناموں میں تحریف

 


Via Pinterest


بسمه   سبحانه  تعالی

پایگاه تحقیقاتی السنة

http://alsonnat.blogfa.com/post/130

مذہب شیعہ کی حقانیت اہلسنت کی کتابوں سے ثابت ہے۔

ہم انٹر نیٹ کی ویب سائٹ سے اس کے اسناد اور ثبوت پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔

یہ کتابچہ ایک شبہہ اور مغالطہ کا جواب ہے جس میں پیروان مذہب اہلسنت و پرستاران مکتب سقیفہ پروپگنڈہ کرتے رہتے ہیں کہ اہلبیت کے خلفائے ثلاثہ اور ام المومنین عائشہ کے ساتھ اچھے روابط و تعلقات تھے اور اس حد تک آپس میں محبت کرتے تھے کہ اہلبیت نے اپنے بچوں کے نام بھی ان مذکورہ افراد کے ناموں پر رکھا تھا۔ منجمله:

١. أمير المؤمنينؑ حضرت علی نے اپنے بیٹوں کا نام "ابو بکر، عمر اکبر و عمر اصغر اور عثمان" رکھا تھا.

٢. امام حسنؑ نے اپنے فرزندوں کے نام "ابو بکر و عمر" رکھا تھا۔

٣. امام حسینؑ نے اپنے فرزندوں کے نام "ابو بکر و عمر" رکھا تھا۔

٤. امام زین العابدینؑ نے اپنی ایک بیٹی کا نام "عائشہ" اور ایک بیٹے کا نام "عمر" رکھا تھا۔

٥. امام موسیٰ کاظمؑ نے بھی اپنے ایک بیٹے کا نام "ابو بکر" اور دوسرے کا "عمر" نیز ایک بیٹی کا نام "عائشہ" رکھا تھا

٦. امامؑ رضا دونوں نے اپنی بیٹی کا نام "عائشہ" رکھا تھا۔ 

٧. امامؑ ہادی دونوں نے اپنی بیٹی کا نام "عائشہ" رکھا تھا۔ 


}!{ تنقید و تحقیق }!{


امیر المومنینؑ کی اولاد کے نام

یکم: یہ سب اسماء اس زمانے میں رائج اور مرسوم بھی تھے۔ جیسا کہ ابن حجر عسقلاني نے اپنی کتاب "إصابة فی تمییز الصحابة" میں 21 صحابه کا ذکر کیا ہے جن کے نام "عمر" تھے۔

عمر  بن حکم سلمی
عمر  بن حکم بہزی
عمر  بن سعد ابو کبشہ انماری
عمر  بن سعید بن مالک
عمر  بن سفيان بن عبد الأسد
عمر  بن أبي سلمہ بن عبد الأسد
عمر  بن عکرمہ بن ابو جہل
عمر  بن  عمر و لیثی 
عمر  بن عمیر  بن عدی 
عمر  بن عمیر غیر منسوب
عمر  بن عوف نخعی
عمر  بن لاحق
عمر  بن مالک
عمر  بن معاویه غاضری
عمر  بن وہب ثقفی
عمر  بن یزید کعبی
عمر  اسلمی
عمر  جمعی
عمر  خثعمی
عمر  یمانی
عمر  بن خطاب

(الإصابة في تمييز الصحابة، 4/ 587 تا 597، رقم: 5738 تا 5759)

http://islamport.com/d/1/trj/1/22/314.html

اور تو اور سنی کتابوں میں 26 صحابہ کے نام "عثمان" بھی مذکور ہیں!

عثمان بن ابو جهم اسلمی
عثمان بن حکیم بن ابو الأوقص
عثمان بن حمید بن زهیر بن حارث
عثمان بن حنیف بالمہملہ
عثمان بن ربیعہ بن اہبان
عثمان بن ربیعہ ثقفی
عثمان بن سعید بن احمر
عثمان بن شماس بن شرید
عثمان بن طلحہ بن ابو طلحہ
عثمان بن أبي العاص
عثمان بن عامر بن عمرو
عثمان بن عامر بن معتب
عثمان بن عبد غنم
عثمان بن عبید اللہ بن عثمان
عثمان بن عثمان بن شرید
عثمان بن عثمان ثقفی 
عثمان بن عمرو بن رفاعہ
عثمان بن عمرو انصاری
عثمان بن عمرو بن جموح
عثمان بن قیس بن أبي العاص
عثمان بن مظعون
عثمان بن معاذ بن عثمان
عثمان بن نوفل زعم
عثمان بن وہب مخزومی
عثمان جهنی
عثمان بن عفان

الإصابة في تمييز الصحابة، 4/ 448 تا 463، رقم: 5437 تا 5461

http://islamport.com/d/1/trj/1/22/312.html

 پس صحیح دلیل کے بغیر نہیں کہہ سکتے کہ امامؑ علی نے عمر بن خطاب اور عثمان بن عفان کی محبت میں اپنے بیٹوں کے نام رکھے تھے۔

دوم: ائمه کے بعض اصحاب و دوستوں کے نام بھی اسی زمانے کے رائج و مرسوم ناموں میں مشہور و معروف یہی تھے.

اصحاب امامین صادقینؑ یعنی امام باقرؑ اور امام صادقؑ کے نام:

ابو بکر حضرمی،

ابو بکر  بن ابو سمّاک،
ابو بکر  عیاش،
ابو بکر  بن محمد۔
اصحاب امام باقرؑ کے نام: 
عمر بن عبد اللہ ثقفی،
عمر بن قیس،
عمر بن معمر۔
اصحاب امام صادقؑ کے نام:
عمر بن ابان،
عمر بن ابان کلبی،
عمر بن أبو حفص،
عمر بن ابو شعبہ،
عمر بن اذینه،
عمر بن براء،
عمر بن حفص، عمر بن حنظلہ،
عمر بن سلمه و غیرهم۔
اصحاب امام باقرؑ کے نام:
عثمان اعمی بصری،
عثمان جبلہ،
عثمان بن  زیاد۔
اصحاب امام صادقؑ کے نام:
عثمان اصبہانی،
عثمان بن یزید،
عثمان نوا۔
اصحاب امام سجاد کا نام:
یزید بن حاتم۔ 
اصحاب امام باقرؑ کے نام:
يزيد بن عبد الملک،
يزيد صائغ،
یزید کناسی۔
اصحاب امام صادقؑ کے نام:
يزيد الشعر،
يزيد بن خلیفہ،
يزيد بن خلیل،
يزيد بن  عمر بن طلحہ،
يزيد بن  فرقد
يزيد مولی حکم۔ 
امام صادقؑ کے ایک صحابی کا نام
شمر بن یزید۔

تو کیا شمر بن ذی الجوشن کلابی کی محبت میں نام رکھا تھا؟؟؟

کیا ان لوگوں نے بھی ابو بکر، عمر بن خطاب، عثمان بن عفان اور يزيد بن معاويه کی خاطر اور محبت میں نام رکھا تھا؟؟؟

امامؑ سجاد کے فرزندوں میں سے ایک فرزند کا نام  عبد الرحمن اور دوسرے کا نام عبید الله بھی تھا۔

تو کیا انہوں نے "عبد الرحمن بن ملجم" اور "عبید الله بن زیاد" کی محبت میں نام رکھا تھا؟؟؟

نیز فرزندان صحابه میں سے بہت سے افراد کے نام  کفار  و مشرکین کے ہمنام بھی تھے جیسے "عمرو بن عثمان" کا نام تھا اور تو اور کربلا کے شہداء کے میں بھی مندرجہ ذیل اسمائے گرامی پائے جاتے ہیں۔

عمرو بن خالد الأزدي،
عمرو بن عبد الله همداني،
عمرو بن ضبيعہ،
عمرو بن قرظہ بن كعب الأنصاري
عمرو بن مطاع جعفی

جبکہ یہی "عمرو بن عبد وُدّ" اور "عمرو بن هشام" (ابو جهل) کا بھی نام تھا۔

اسی وجہ سے ابن تیمیہ کہتا ہے کہ کسی بھی شخص کا نام رکھنا اس کے ہم عقیدہ ہونے کی دلیل ہرگز نہیں ہو سکتا اور مزید کہتا ہے کہ کفار  کا نام رکھنے سے پیغمبر اور مومنین کو بھی برا اور خراب نہیں لگے گا۔ 

اسی دلیل کی بنیاد پر ہی شیعوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہتا ہے کہ شیعوں کی حماقتوں میں سے ایک حماقت یہ ہے کہ "ابو بکر، عمر اور عثمان" کے ناموں پر اپنے نام رکھنے کو ناپسند کرتے ہیں. 

نيز اضافه کرتے ہوئے لکھتا ہے: یہاں تک کہ یہ دنیا کے کافر ترین لوگ بھی ہوں تب بھی ان کے پاس مذکوره ناموں کے رکھنے کی کوئی شرعی دلیل بھی نہیں رکھتے!۔ (منهاج السنة، 1/ 41 تا 43) 

http://library.islamweb.net/newlibrary/display_book.php?flag=1&bk_no=108&ID=5

ضمنی بات یہ ہے کہ اگر "ابو بکر، عمر، عثمان اور عائشه" کے نام رکھا جائے گا تو کئی صورتیں حاصل ہوں گی۔ شیعوں کیلئے سخت ترین شرائط و حالات اور جان کی حفاظت کی خاطر بطور تقیہ مذکورہ ناموں کو  رکھا بھی جا سکتا ہے۔

سوم: شیعه اور سنی کی کتابوں میں کوئی ایک بھی صحیح حدیث موجود نہیں جس میں اهلبیت یا آل خلفاء نے یہ کہا ہو کہ امام علی نے خلفاء کی محبت میں ان کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھے تھے۔

چہارم: اگر نام رکھنا ہی اچھے  تعلقات کی علامت و نشانی ہے۔ تو خود خلفاء نے اپنے بچوں کے نام علي و حسنؑ اور حسينؑ کیوں نہیں رکھے؟؟؟!

چه خوش بی ‌مهربانی هر دو سر بی

که یکسر مهربانی درد سر بی

پنجم: پیروان مذہب سقیفه نے امیر المومنینؑ کے دو فرزندوں کیلئے "ابو بكر" کی من گھڑت اور بناؤٹی كنيت بھی قرار دی ہے۔ یعنی محمد اصغر و عبد الله یا عبید الله کیلئے نہ کہ ان کے نام جو کہ بعد میں مستقل شخصیت میں تبدیل کر دی گئی ہے۔

مزید معلومات کیلئے آپ مذکورہ کتاب "تحریف اسماء اولاد المعصومینؑ" (اولاد معصومینؑ کے اسماء کی تحریف) راقم: شیخ نجاح الطائی کا مطالعہ کر سکتے ہیں نیز مذکورہ لنک سے کتاب ڈاؤنلوڈ بھی کر سکتے ہیں۔

http://s5.picofile.com/file/8114953950/تحریف_أسماء_أولاد_المعصومین_علیهم_السلام_للدکتور_نجاح_الطائی.pdf.html

عثمان نام کے بارے میں خود حضرت علی نے فرمایا: میں نے اپنے فرزند کا نام میرے بھائی عثمان بن مظعون کے نام پر  رکھا ہے۔ (نہ کہ عثمان ابن عفان کے نام پر)

مقاتل الطالبین لابی الفرج الإصبهانی، 1/ 53

http://www.shiaweb.org/books/muqatel/pa7.html

اول: عمر نام رکھنے کے بارے میں خود حضرت عمر کی عادات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔

حضرت عمر کی عادت یہ بھی تھی کہ لوگوں کے ناموں کو جبراً تبدیل کر دیتے تھے اور اپنی مرضی و منشاء کے مطابق اس کا نام رکھا کرتے تھے. 

مؤرخین کی رائے کے مطابق حضرت عمر نے بہت سے لوگوں کے نام تبدیل کر کے اپنے نام پر رکھا لہذا انہی کے نام سے وہ لوگوں میں پکارے جا رہے ہیں۔

 بلاذري نے انساب الأشراف ميں تحریر کیا:

و كان عمر بن الخطاب سمّي عمر بن عليّ بإسمه. 

اور عمر  بن خطاب  نے حضرت علي کے فرزند کا نام اپنے ہی نام پر  «عمر» رکھا۔

(البلاذري، أحمد بن يحيى بن جابر (متوفي 279 هـ) أنساب الأشراف، 1/  297.) 

ذهبي صراحت کے ساتھ اپنی کتاب سير اعلام النبلاء ميں تحریر کرتے ہیں:

و مولده في أيام عمر فعمر سماه بإسمه. 

عمر کے زمانہ میں بچے کی ولادت ہوئی پس اس کا نام بھی اپنے ہی نام پر ، «عمر» رکھا۔

(الذهبي، شمس الدين محمد بن أحمد بن عثمان، (متوفاي 748 هـ) سير أعلام النبلاء، 4/ 134، تحقيق: شعيب الأرناؤوط، محمد نعيم العرقسوسي، ناشر: مؤسسة الرسالة- بيروت، الطبعة: التاسعة، 1413هـ.) 

http://library.islamweb.net/newlibrary/showalam.php?id=412

نیز تاريخ میں عمر بن خطاب نے دوسرے افراد کے ناموں کو جبراً تبدیل کیا ہے اس کا ثبوت کتابوں میں موجود ہے۔

ہم فقط تین مثالون کو بطور اشارہ تحریر کرتے ہیں۔

١. إبراهيم بن حارث کا نام تبدیل کر کے «عبد الرحمن» رکھ دیا:

عبد الرحمن بن الحارث … كان أبوه سماه إبراهيم فغيّر عمر اسمه۔

ان کے والد حارث نے اپنے بیٹے کا نام ابراهيم رکھا تھا … لیکن عمر نے ان کے نام کو (جبرا) تبدیل کر کے «عبد الرحمن» رکھ دیا۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفي 852 هـ) الإصابة في تمييز الصحابة، 5/ 29، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل، بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.

٢. أجدع أبي مسروق کا نام تبدیل کر کے «عبد الرحمن» رکھ دیا:

الأجدع بن مالك بن أمية الهمداني الوادعي... فسماه عمر «عبد الرحمن»۔

عمر بن خطاب نے أجدع بن مالک بن أمية همداني وادعي کا نام تبدیل (جبرا) کر کے «عبد الرحمن» رکھ دیا۔

العسقلاني الشافعي، أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل (متوفي 852 هـ) الإصابة في تمييز الصحابة، 1/ 186، رقم: 425، تحقيق: علي محمد البجاوي، ناشر: دار الجيل، بيروت، الطبعة: الأولى، 1412 - 1992.

٣. ثعلبة بن سعد کا نام تبدیل کر کے «معلي» رکھ دیا:

و كان إسم المعلي ثعلبة، فسماه عمر بن الخطاب المعلي.

اور «معلی» کا نام ثعلبه تھا پس عمر نے ان کا نام (جبرا) تبدیل کر کے «معلی» رکھ دیا۔

الصحاري العوتبي، أبو المنذر سلمة بن مسلم بن إبراهيم (متوفي 511 هـ) الأنساب، 1/ 250.

پس اگر یہ مانا جائے کہ امام علی نے اپنے ایک فرزند کا نام «عمر» پر رکھا تھا تو اس نام کا انتخاب آپ نے ہرگز نہیں کیا ہے۔ 

ششم: اهلسنت کی اکثر مدارک، منابع و مصادر میں «عمرو» لکھا ہی ہے نہ کہ «عمر» أفسوناک پہلو تو یہی ہے کہ اس صدی کے طویل زمانے میں اور بالخصوص اخیر کی صدی میں «عمرو» کی «واو» کو حذف (ختم) کر کے اسے «عمر» میں تبدیل کر دیا ہے!!۔

ابن ابی شیبه متوفی 232 هـ  بخاری کے استاد نے تحریر کیا ہے:

حدثنا خالد بن مخلد قال: حدثني موسى قال أخبرني محمد بن "عمرو بن علي عن علي بن أبي طالب" …… 

ہم سے خلد بن مخلد نے حدیث بیان کی انہوں نے فرمایا مجھ سے موسیٰ نے حدیث بیان کی انہوں نے فرمایا مجھ سے محمد بن «عمرو بن علي» انہیں علي بن ابيطالب نے خبر دی انہوں نے علی بن ابیطالب سے روایت کی ……. 

المصنف، 8/ 357، شمارہ: 291، الطبعة الأولى جمادى الآخرة 1409 ه‍، دار الفكر  بيروت۔ لبنان

http://shiaonlinelibrary.com/الكتب/1911_المصنف-ابن-أبي-شيبة-الكوفي-ج-٨/الصفحة_0?pageno=357#top

حدثنا أبو أسامة عن عبد الله بن محمد بن «عمرو بن علي» قال حدثني أبي قال: قال علي …. 

ہم سے ابو اسامہ نے حدیث بیان کی عبد الله بن محمد بن «عمرو بن علي» سے روایت ہے انہوں نے فرمایا مجھ سے میرے والد بزرگوار سے روایت کی ہے ….. 

المصنف، 8/ 612، شمارہ: 137، الطبعة الأولى جمادی الآخرة 1409 ه‍، دار الفكر  بيروت۔ لبنان

http://shiaonlinelibrary.com/الكتب/1911_المصنف-ابن-أبي-شيبة-الكوفي-ج-٨/الصفحة_612

موجودہ چھپی ہوئی کتابوں میں اسی طرح «عمرو» کی «واو» کو حذف (ختم) کیا ہے اور اسے «عمر» میں تبدیل کر دیا ہے!!۔

مصعب بن عبد الله زبیری متوفی: 236 هـ نے تحریر کیا ہے:

فاطمة بنت الحسين بن الحسن بن علي بن أبي طالب 

و أمها: أم حبيب بنت عمرو بن علي بن أبي طالب. 

فاطمة بنت حسين بن حسن بن علي بن أبيطالب اور ان کی والدہ أم حبيب بنت «عمرو» بن علي بن أبيطالب ہیں. 

نسب قریش، 1/ 51، چاپ دار المعارف۔ مصر

http://shamela.baharsound.ir/40519/1/51

خلیفة بن خیاط متوفی : 240 هـ و بخاری کے شیخ نے تحریر کیا ہے:

و محمد بن عمرو بن علي بن أبي طالب أمه أم عبد الله و أمها أسماء بنت عقيل. 

اور محمد بن «عمرو» بن علي بن أبيطالب ان کی والدہ أم عبد الله اور ان کی والدہ أسماء بنت عقيل

الطبقات لخلیفة بن خیاط، صفحہ: 417، شمارہ: 2048، چاپ دار الفکر، سال1414هـ = 1993م

http://shamela.ws/browse.php/book-8682#page-402

زبیر بن بکار متوفی: 256 هـ ان کے چچا مصعب زبیری بہی نقل کرتے ہیں:

كان «عمرو» آخر ولد علي بن أبي طالب

علي بن أبيطالب کے آخری فرزند «عمرو» ہی تھے۔ 

شرح الأخبار للقاضی النعمان المغربی، 3/ 187

http://lib.eshia.ir/16045/3/187

اسی طرح کی عبارت کو ابن عساکر نے مصعب زبیری سے روایت کیا ہے۔ لیکن اس میں بھی  «عمرو» کو «عمر» میں تبدیل کر دیا ہے!۔

ابو عیسی ترمذی متوفی 279 هـ بھی تحریر کرتے ہیں:

حدثنا صالح بن عبد الله الترمذي، حدثنا الفرج بن فضالة أبو فضالة الشامي، عن يحيى بن سعيد، عن محمد بن عمرو بن علي، عن علي بن أبي طالب …. 

صالح بن عبد اللہ ترمذی نے ہم سے حدیث بیان کیا، فرج بن فضالہ ابو فضالہ شامی نے ہم سے حدیث بیان کیا، یحییٰ بن سعید سے انہوں نے  محمد بن «عمرو بن علي» سے، انہوں نے علی بن ابیطالب سے روایت کیا ہے۔

سنن الترمذی، حدیث: 2140

http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=195&hid=2140&pid=

نیز محمد بن جریر طبری متوفی  310 هـ تحریر کرتے ہیں:

حدثني الحارث، قال: حدثنا ابن سعد، عن الواقدي، قال: "كان النسل من ولد علي لخمسة: الحسن و الحسين، و محمد ابن الحنفية، والعباس بن الكلابية، وعمرو بن التغلبية،  

حضرت علی کی فقط 5 ہی اولاد سے نسل آگے بڑھی ہے:

١. امام حسنؑ
٢. امام حسينؑ (اول و دوم خاتون جنت کی اولاد)
٣. حنفيه خاتون کے فرزند محمد
٤. كلابيه خاتون کے فرزند عباس
٥. تغلبيه خاتون کے فرزند «عمرو»۔

تاريخ الطبري، 3/ 163، طبعة دار الكتب العلمية، بيروت 1407 هـ

http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?indexstartno=0&hflag&pid=157327&bk_no=334&startno=1

موجودہ زمانہ کی بعض کتابوں کے ایڈیشنوں میں بھی «عمرو» کو  «عمر» میں تبدیل کر دیا ہے!!

من جمله مؤسسة عز الدين بيروت کی چھپی ہوئی کتاب جلد نمبر 5 کے صفحہ 80 پر ملاحظہ کر سکتے ہیں. 

حاکم نیشاپوری متوفی 405 هـ نے تحریر کیا ہے:

.... ثنا عيسى بن عبد الله بن "عمرو بن علي" عن أبيه عن جده عن على…. 

….عيسى بن عبد الله بن «عمرو بن علي» اپنے والد (حسینؑ) سے اور اپنے جد علی سے روایت کی ہے ...

نوٹ: یہاں پتہ چلتا ہے کہ امام سید سجادؑ کے بیٹے کا نام "عمرو" ہے جیسا کہ الفاظ حدیث سے واضح ہے۔

معرفة علوم الحدیث، صفحہ: 96، نوع 17، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الثانية، 1397هـ - 1977م

http://islamport.com/w/mst/Web/3088/18.htm

افسوسناک بات تو یہ ہے کہ نئی اور جدید ایڈیشنوں کی کتابوں میں «واو» کو حذف (ختم) کر دیا ہے۔

جیسا کہ ابن عساكر نے اپنی تحریر کردہ تاریخ میں ذکر کیا ہے۔

قال ابن عساكر في تاريخه: 4/ 164

و ممن تولى أمر الصدقات من بني الحسن: الحسن المثنى، "فنازعه عمه «عمرو الأطرف» و كان الحسن بن الحسن بن علي (ع) وصي أبيه، و ولي صدقة علي (ع). فسأله الحجاج بن يوسف الثقفي – وهو على المدينة - "أن يدخل «عمرو» بن علي في الوصية"، فأبى۔

ان اشخاص میں سے جو  شخص اولاد امام حسنؑ میں سے امور صدقات پر حاکم مقرر ہوئے وہ حسن مثنیٰ ہیں پس ان سے ان کے چچا «عمرو اطرف» سے نزاع کیا جبکہ حسن بن حسنؑ بن علی (حسن مثنیٰ) اپنے والد کے وصی تھے اور صدقہ کا انتظام ان کے ہی سپرد تھا پس حجاج بن یوسف ثقفی نے (جبکہ وہ مدینہ پر حاکم تھا) «عمرو بن علی» کو وصيت میں داخل کرنے کی فرمائش کی مگر آپ نے انکار کر دیا۔

شرح الأخبار للقاضی النعمان المغربی، 3/ 190

http://lib.eshia.ir/16045/3/190

بڑے ہی افسوس کی بات یہ ہے کہ تاریخ دمشق کی چھپی ہوئی کتاب کو میں نے دیکھا ہے جس میں سے «واو» کو حذف (ختم) کر دیا گیا ہے!

ابن اثیر جزری متوفی: 630 هـ تحریر کرتے ہیں:

قال علیّ بن عبد الله بن محمّد بن عمرو بن علیّ

علیّ بن عبد الله بن محمّد بن «عمرو» بن علیّ نے کہا۔ 

الکامل فی التاریخ، 5/ 521 دار الصار، بیروت، الطبعة الأولی، 1386هـ = 1966م

http://shiaonlinelibrary.com/الكتب/3497_الكامل-في-التاريخ-ابن-الأثير-ج-٥/الصفحة_0?pageno=521#top

بڑے افسوس کا مقام تو یہی ہے کہ بعض ایڈیشن میں «واو» کو حذف (ختم) کر دیا ہے!۔

یوسف مزّی متوفی: 742 هـ رقم طراز ہیں:

مُحَمَّد بن عمرو بن علي بن أبي طالب القرشي الهاشمي. 

محمد بن  «عمرو» بن علي بن أبيطالب قرشي هاشمي 

تهذیب الکمال، 20/ 447، شمارہ: 5514

http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=1857&pid=655829

http://library.islamweb.net/hadith/RawyDetails.php?RawyID=7226

شمس الدین ذهبی متوفی : 748 هـ می نویسد:

محمد بن عمرو بن علي بن أبي طالب عن جده 

محمد بن «عمرو» بن علي بن أبيطالب نے اپنے جد سے روایت کی ہے۔

من له رواية في الكتب الستة، 2/ 207، شمارہ: 5087

http://islamport.com/w/trj/Web/1073/896.htm

حافظ صلاح الدین علائی متوفی 761 هـ لکھتے ہیں:

محمد بن عمرو بن علي بن أبي طالب أخرج له الترمذي عن جده عنه عن النبي صلى الله عليه و سلم حديث

 محمد بن «عمرو» بن علي بن أبيطالب نے اپنے جد نبی اکرم سے روایت کی ہے اسے ترمذی نے استخراج کیا ہے۔

جامع التحصیل، 1/ 267، شمارہ: 703

http://lib.eshia.ir/40346/1/267

ابن حجر عسقلانی متوفی 852 هـ رقم کرتے ہیں:

محمد بن عمرو بن علي بن أبي طالب عن علي

محمد بن «عمرو» بن علي بن أبيطالب نے علي سے روایت کیا ہے۔

تهذیب التهذیب، 9/ 377، شمارہ: 620

http://shamela.ws/browse.php/book-3310/page-4384

جلال الدین سیوطی متوفای 911 هـ می گوید:

قال السيوطي رضي الله عنه: جملة أولاد علي رضي الله عنه من الذكور أحد و عشرون و الذي أعقب منهم خمسة الحسن و الحسين ابنا فاطمة الزهراء رضي الله عنها و محمد بن الحنفية نسبة لبني حنيفة و العباس بن الكلابية و عمرو بن التغلبية نسبة لقبيلة يقال لها تغلب

سيوطي نے کہا کہ جملہ أولاد علي رضي الله عنه اکیس فرزند نرینہ ہوتے ہیں اور ان میں سے پانچ کی ہی نسل آگے بڑھی ہے۔ جو مندرجہ ذیل ہیں۔ فرزندان فاطمہ زهراء رضي الله عنها میں سے دو حسنؑ و حسينؑ اور حنفيہ خاتون کے فرزند محمد ان کی نسبت بني حنيفه کی طرف دی جاتی ہے۔ كلابيه خاتون کے فرزند عباس اور تغلبيه خاتون کے فرزند «عمرو» جن کی نسبت قبیله بنی تغلب کی طرف دی جاتی ہے۔

حاشية الجمل على المنهج الطلاب، 4/ 59

http://www.al-islam.com/Page.aspx?pageid=695&BookID=520&PID=2731&SubjectID=23284

علي متقی هندی متوفای 975 هـ تحریر کرتے ہیں:

حدثني علي بن عمرو بن علي بن أبي طالب عن أبيه عن جده ..... ابن جرير  و قال: هذا خبر عندنا صحيح سنده إن كان عمرو بن علي هذا هو عمر بن علي بن أبي طالب۔

علي بن «عمرو» بن علي بن أبيطالب نے اپنے والد سے انہوں نے اپنے جد سے روایت کیا ہے..... ابن جرير نے کہا ہے کہ یہ خبر ہمارے نزدیک سند کے اعتبار سے صحیح ہے۔ جس سند میں «عمرو» بن علي ہوں۔ یہی تو عمر بن علي بن أبيطالب ہیں۔

كنز العمال، 1/ 478، حدیث: 9876، طبعة دار بيت الأفكار الدولية الطبعة الأولى

روایت کی موجود سند میں سے دوسرے ایڈیشن کی کتاب سے «عمرو» کی «واو» کو حذف (ختم) کر دیا ہے!

لیکن تحریف کرنے والے نے خود کو ہی مفتضح کیا ہے۔ کیونکہ تحریف کی گواہی کو باقی چھوڑ دیا ہے اور وہ علي متقی هندی کا ابن جریر طبری سے نقل قول کرنا ہے:

"هذا خبر عندنا صحيح سنده إن كان «عمرو» بن علي هذا هو عمر بن علي بن أبي طالب"!! کی عبارت درج کی ہے۔ 

کنز العمال، 4/ 129، حدیث: 9876

http://shamela.ws/browse.php/book-2677#page-2486

 ہمارے ہم عصر  وهابی و سلفی ماہر نسب شناس، یوسف بن عبد الله جمل لیل تحریر کرتے ہیں:

ولد له (أي الإمام علي) من الصهباء أم حبيبة من بني تغلب (عمرو) ولد توأماً لأخته رقية،

(یعنی امام علي) کی زوجہ قبیلہ بني تغلب کی خاتون "صهباء" جنکی کنیت "ام حبیبه" تھی انکے بطن سے جڑواں اولاد ایک بیٹا (عمرو) اور ایک بیٹی رقيه (بھائی اور بہن) متولد ہوئے۔

الشجرة الزكية في الأنساب وسير آل البيت النبوة، صفحہ: 414


اولاد امام حسنؑ كے نام

اول: مکتب سقیفه کے پیروان نے عبید الله بن حسنؑ کیلئے ابو بکر کی کنیت بناؤٹی و جعلی قرار دی ہے۔ نہ کہ ان کا نام جبکہ اختلاف روایات کی بنا پر ابو بكر کا نام "عبد الكعبة یا عتيق یا عبد الله" وغیرہ کتابوں میں ملتا ہے!۔ 

دوم: عمر نام ہرگز نہیں تھا بلکه «عمرو» ہی نام رکھا تھا۔

محمد بن اسماعیل بخاری تحریر کرتے ہیں:

عن محمد بن «عمرو» بن الحسن بن علي … قال: قدم الحجاج فسألنا جابر  بن عبد الله. 

صحیح البخاری، کتاب مواقیت الصلاة، باب وقت المغرب، حدیث: 529

http://library.islamweb.net/hadith/display_hbook.php?bk_no=146&hid=529&pid=


حاکم نیشابوری نے رقم کیا ہے: ... و «عمرو» بن الحسن بن علي و محمد بن «عمرو» بن حسن بن علي … 

معرفة علوم الحدیث، صفحہ 96، نوع 17، دار الكتب العلمية، بيروت، الطبعة الثانية، 1397 هـ - 1977 م

http://islamport.com/w/mst/Web/3088/18.htm

یوسف مزّی لکھتے ہیں:

خ م د س مُحَمَّد بن عمرو بن الحسن بن علي بن أبي طالب القرشي الهاشمي أَبُو عَبْد اللَّهِ المدني و أمه رملة بنت عقيل بن أبي طالب

محمد بن «عمرو» بن حسن بن علي بن أبيطالب قرشي هاشمي جن کی کنیت أبو عبد الله مدني و ان کی والدہ رملہ بنت عقيل بن أبيطالب ہیں۔

تهذیب الکمال ، شمارہ : 5508

http://library.islamweb.net/hadith/RawyDetails.php?RawyID=7216

شمس الدین ذهبی لکھتے ہیں: 

محمد بن عمرو بن الحسن بن علي بن أبي طالب عن بن عباس و جابر و عنه سعد بن إبراهيم و جماعة وثق خ م د س

محمد بن «عمرو» بن حسنؑ بن علي بن أبيطالب یہ ابن عباس اور جابر سے اور ان سے سعد بن إبراهيم روایت نقل کرتے ہیں اور ایک جماعت نے ان کی توثیق کی ہے۔

من له رواية في الكتب الستة، 2/ 206، شمارہ: 5082

http://islamport.com/w/trj/Web/1073/895.htm

ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں: 

محمد ابن عمرو ابن الحسن ابن علي ابن أبي طالب ثقة من الرابعة خ م د س

محمد ابن «عمرو» ابن حسن ابن علي ابن أبيطالب ثقہ کے چوتھے طبقہ میں سے ہیں۔

تقریب التهذیب، صفحہ: 499، شمارہ: 6183

http://shamela.ws/browse.php/book-8609/page-

467#page-425


اولاد امام حسينؑ كے نام

اول: ابو بکر  بن حسینؑ ہرگز نہیں تھا بلکه ابو بکر بن حسن یا عبد الله بن حسینؑ نام تھا اور ابو بکر کی بناؤٹی کنیت جبرا چسپاں کی گئی ہے۔

ابو الفرج اصفهانی تحریر کرتے ہیں:

و أبو بكر بن الحسين بن علي بن أبي طالب (ع) و أمه أم ولد ... أن عبد الله بن عقبة الغنوي قتله

اور «أبو بكر» بن حسينؑ بن علي بن أبيطالب و ان کی والدہ أم ولد تھیں ......  بتحقیق  ان کو عبد الله بن عقبہ غنوي نے قتل کیا. 

مقاتل الطالبین، 1/ 57

http://lib.eshia.ir/22033/1/57

مصر  کی چھپی ہوئی کتاب میں «ابو بکر» بن حسنؑ لکھا ہوا ہے!

مندرجہ ذیل ثبوت کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ تصحیف و تحریف یعنی رد و بدل ہوئی ہے اور حسنؑ کو حسینؑ میں تبدیل کر دیا گیا ہے!

ابو الفرج اصفهانی تحریر کرتے ہیں:

القاسم بن الحسن بن علي بن أبي طالب و هو أخو أبي بكر بن الحسن المقتول قبله لأبيه و أمه

قاسم بن حسنؑ بن علي بن أبي طالب اور ان کے بھائی «أبو بكر» بن حسنؑ اپنے والدین کے پہلے قتل کر دیئے گئے۔

مقاتل الطالبین، 1/ 58

http://lib.eshia.ir/22033/1/58

و قتل أبو بكر بن الحسن بن علي بن أبي طالب و أمه أم ولد قتله عبد الله بن عقبة الغنوي

اور «أبو بكر» بن حسنؑ بن علي بن أبيطالب قتل کئے گئے اور ان کی والدہ أم ولد تھیں انہیں عبد الله بن عقبہ غنوي نے قتل کیا۔

تاریخ الطبری، 4/ 359، طبعة لیڈن سال 1879 م

http://shiaonlinelibrary.com/الكتب/3477_تاريخ-الطبري-الطبري-ج-٤/الصفحة_359

طبری کے بعض ایڈیشن میں یہی عبارت تحریف شدہ موجود ہے اور حسنؑ کو بھی حسینؑ میں تبدیل کیا گیا ہے!

دوم: «عمرو» بن حسنؑ نام تھا جس کو عمر  بن حسینؑ میں تبدیل کر دیا گیا ہے!۔

جیسا کہ ابن قتیبه دینوری کی کتاب میں درج ہوا ہے:

و كان يزيد إذا حضر غذاؤه دعا علي بن الحسين و أخاه عمر فيأكلان معه، فقال ذات يوم لعمر بالحسين … 

اور يزيد کے سامنے جب کھانا حاضر ہوتا تھا تو وہ علي بن حسينؑ اور ان کے بھائی عمر  کو بھی بلاتا تھا تو وہ دونوں اس کے ساتھ کھانا کھاتے تھے پس ایک روز اس نے عمر بن حسینؑ سے کہا ....

الأخبار الطوال، صفحہ: 240، طبعة دار الأرقم

جبکہ حقیقت میں روایت اس طرح سے ہے:

و كان يزيد لا يتغدى و لا يتعشى إلا دعا علي بن الحسين إليه قال فدعاه ذات يوم و دعا عمرو بن الحسن بن علي و هو غلام صغير فقال لعمرو بن الحسن… 

یزید روزانہ صبح و شام علی بن حسینؑ کو اپنے پاس بلاتا تھا راوی کا بیان ہے ایک روز اس نے انہیں بلایا اور «عمرو» بن حسنؑ  بن علی کو بھی بلایا جبکہ وہ کمسن بچہ تھے پس اس نے «عمرو» بن حسنؑ سے کہا… 

تاریخ الطبری، 4/ 353

http://shiaonlinelibrary.com/الكتب/3477_تاريخ-الطبري-الطبري-ج-٤/الصفحة_353


اولاد امامؑ سجاد کے نام

اول: «عمر» ہرگز نہیں تھا بلکه «عمرو» نام ہی تھا. 

ابو عثمان جاحظ متوفی 255 هـ تحریر کرتے ہیں:

عن عمرو بن علي ابن الحسين عن أبيه علي بن الحسين (ع) 

اپنے والد علي بن حسينؑ سے «عمرو» بن علي ابن حسينؑ نے روایت کیا ہے. 

العثمانية للجاحظ، صفحہ: 283

http://shiaonlinelibrary.com/الكتب/3459_العثمانية-الجاحظ/الصفحة_0?pageno=283#top

ابو بکر بزار متوفای 292 هـ تحریر کرتے ہیں:

حدثني علي بن عمرو بن علي بن الحسين قال: حدثني أبي عن جدي علي بن أبي طالب

علي بن «عمرو» بن علي بن حسينؑ نے مجھ سے حدیث بیان کیا، انہوں نے فرمایا مجھ سے میرے والد نے اور ان سے میرے جد علی بن ابیطالب نے حدیث بیان کیا۔

مسند البزار، 2/ 148، ح 509، المكتبة الالكترونية الشاملة الإصدار الثاني

افسوسناک بات تو یہ ہے کہ چھپی ہوئی کتاب کو میں نے دیکھا کہ «عمرو» کی «واو» کو حذف (ختم) کر دیا ہے!۔

حاکم نیشابوری متوفای 405 هجری تحریر کرتے ہیں:

… ومحمد وعبد الله وزيد وعمرو وحسين بني علي بن الحسين … 

… اور محمد، عبد الله، زيد، «عمرو» اور حسين یہ پانچوں امام  علي بن حسينؑ کے لڑکے ہیں ... 

معرفة علوم الحدیث، صفحہ: 96، نوع؛ 17،

دار الكتب العلمية- بيروت، الطبعة الثانية، 1397هـ - 1977م

http://islamport.com/w/mst/Web/3088/18.htm

ابن ابی الحدید معتزلی شافعی متوفی 656 هـ تحریر کرتے ہیں:

روى محمد بن سعيد الأصبهاني، عن شريك، عن محمد بن إسحاق، عن عمرو بن علي ابن الحسين، عن أبيه علي بن الحسين (ع)، قال: قال لي مروان ما كان في القوم أدفع عن صاحبنا من صاحبكم قلت فما بالكم تسبونه على المنابر قال إنه لا يستقيم لنا الأمر إلا بذلك۔

محمد بن سعید اصفہانی نے شریک سے انہوں نے محمد بن اسحاق سے انہوں نے «عمرو» بن علي بن حسينؑ سے انہوں نے اپنے والد علي بن حسينؑ سے روایت کی ہے۔ علی بن حسینؑ نے فرمایا کہ مجھ سے مروان نے کہا قوم میں کوئی بات نہیں تھی جو ہم لوگوں کو آپ لوگوں سے دور کر سکے، میں نے کہا تک لوگوں کو کیا ہو گیا ہے جو منبروں پر انہیں گالیاں دیتے ہو اس نے کہا یہی وہ چیز ہے جس کے بغیر ہماری حکومت مضبوط نہیں ہو سکتی ہے. 

شرح نهج البلاغه ابن ابی الحدید معتزلی شافعی، 13/ 220

http://shiaonlinelibrary.com/الكتب/2197_شرح-نهج-البلاغة-ابن-أبي-الحديد-ج-١٣/الصفحة_220

علامه متقی هندی متوفی 975 هـ تحریر کرتے ہیں:

فإني أظنه عمرو بن علي بن الحسين، و ذلك أنه قد روى عنه بعضه مرسلا

پس بتحقیق میرا ظن و گمان یہ ہے کہ «عمرو» بن علي بن حسينؑ ہی ہیں اور جن سے بعض مرسل مروی ہیں. 

کنز العمال، 4/ 129 ،حدیث: 9876 

http://shamela.ws/browse.php/book-2677#page-2486

دوم: عائشہ نام کی کوئی بھی دختر ہرگز نہیں تھیں اور  امام سجاد کی اولاد میں عائشه نام کی کسی ایک بھی دختر  کی شخصیت کے موجود ہونے پر  معتبر روایت سے کوئی دلیل ہرگز نہیں ملتی۔ بلکه ہم نے تو ایسی شخصیت کے عدم وجود پر دلائل و ثبوت پائے ہیں!۔ 


اولاد امام کاظمؑ کے نام

امام کاظم کی اولاد کے اسماء اور تعداد کے سلسلہ میں مختلف نظریے پائے جاتے ہیں۔ لیکن اب تک میں نے کتابوں میں دیکھا ہے کہ ان کی اولاد میں سے کوئی ایک بھی "ابو بکر و عمر" نام کے ہرگز موجود نہیں ہیں نیز معتبر روایت میں بھی ان کا ہرگز وجود نہیں پایا جاتا نیز عائشہ نام کی دختر تو اس سلسلہ میں بھی اختلاف ہی ہے۔ اور بعض نے ان کی دختر کا نام عباسه تسلیم کیا ہے۔

اور بہت سے لوگ ایسی شخصیت کے منکر ہی ہیں۔ یہاں تک کہ نسب شناس اهلسنت کے عالم فخر  الدین رازی جیسی شخصیت نے بھی اپنی کتاب "الشجرة المبارکة في الأنساب الطالبية" میں امام کی اولاد کے درمیان عائشہ نام کی شخصیت کے وجود کیلئے کوئی بھی ایک دلیل و ثبوت ہرگز نہیں ملتے!۔ بلکه ہمارے نزدیک صحیح روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی بیٹی میں عائشہ والی بات کذب محض ہے فقط!

مرحوم کلینی صحیح سند کے ساتھ اس طرح  روایت کرتے: 

"الْحـُسـَيـْنُ بـْنُ مـُحَمَّدٍ عَنْ مُعَلّىٰ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنِ الْوَشَّاءِ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِنَانٍ عَنْ يَعْقُوبَ السَّرَّاجِ قَالَ دَخَلْتُ عَلَى أَبِى عَبْدِ اللَّهِ (ع) وَ هُوَ وَاقِفٌ عَلَى رَأْسِ أَبِى الْحَسَنِ مُوسَى وَ هُوَ فـِى الْمـَهـْدِ فـَجـَعـَلَ يـُسـَارُّهُ طـَوِيلًا فَجَلَسْتُ حَتَّى فَرَغَ فَقُمْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ لِى ادْنُ مِنْ مـَوْلَاكَ فـَسـَلِّمْ فَدَنَوْتُ فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ فَرَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ بِلِسَانٍ فَصِيحٍ  ثُمَّ قَالَ لِيَ اذْهـَبْ فـَغَيِّرِ اسْمَ ابْنَتِكَ الَّتِى سَمَّيْتَهَا أَمْسِ فَإِنَّهُ اسْمٌ يُبْغِضُهُ اللَّهُ وَ كَانَ وُلِدَتْ لِيَ ابْنَةٌ سَمَّيْتُهَا بِالْحُمَيْرَاءِ  فَقَالَ أَبُو عَبْدِ الله (ع) انْتَهِ إِلَى أَمْرِهِ تُرْشَدْ فَغَيَّرْتُ اسْمَهَا"۔

يـعـقـوب سرَّاج نے بیان کیا: میں امام صادق کی خدمت میں پہونچا، آنحضرت ابو الحـسنؑ موسی کاظم کے گهواره کے سرہانے کھڑے تھے جب کہ امام کاظم گهواره میں تھے۔ پس آنحضرت نے کچھ دیر راز و نیاز کی باتیں کیں۔ میں بیٹھا رہا یہاں تک کہ آنحضرت فارغ ہوئے پھر میں آنحضرت کے قریب گیا۔ آنحضرت نے فرمایا اپنے مولا کے قریب جاؤ اور انہیں سلام کرو پس میں (گهواره) کے نزدیک گیا اور سلام كیا۔ پس اس (بچہ) نے فصیح زبان میں میرے سلام کا جواب دیا۔ پھر فرمایا جاؤ! کل اپنی بیٹی کا جو نام رکھا ہے اسے تبدیل کر دو کیونکہ خدا اس نام کو مبغوض رکھتا ہے۔ يعقوب نے کہا: میرے یہاں ایک بیٹی متولد ہوئی تھی جس کا نام میں نے حُمَيرَآء رکھا تھا۔ امام صادق نے فرمایا: حکم کے مطابق عمل کرو تا کہ ہدايت یافتہ رہو۔ پس میں نے بھی اس بیٹی کا نام تبدیل کر دیا۔   

اصول كافى، 2/ 85، حدیث: 11


امامؑ رضا کی اولاد کے اسماء

امام رضا کے اولاد کے درمیان عائشه نام کی شخصیت کے وجود خارجی پر کوئی بھی معتبر دلیل و ثبوت ہرگز موجود نہیں ہے۔ مشهور و یقینی قول کی بنیاد پر امام رضا کے یک و تنها فرزند اور وہ بھی فقط امام جواد ہی ہیں۔ دوسرے اقوال میں اختلافات اور بھی بہت ہی زیادہ ہیں۔ یہ بھی اهلسنت  کے منابع و مصادر سے سر چشمہ لئے ہوئے ہے کہ البته اکثر میں عائشہ نام کا کہیں بھی کوئی ذکر ہرگز نہیں ہے۔

امامؑ هادی کی اولاد کے نام

امام هادی کے فرزندان کے در میان عائشہ نام کی شخصیت کے وجود خارجی پر کوئی بھی معتبر دلیل و ثبوت ہرگز موجود نہیں ہے۔

 امام کی فقط ایک ہی دختر تھیں کہ جن کا تذکرہ کتابوں میں منقول و مذکور ہرگز نہیں ہے۔ ان کیلئے فقط تین ناموں کا ذکر ہوا ہے۔ "علیّه، عاليه اور عائشہ" که جس کی قدر و قیمت اور حیثیت استدلال کے قابل ہرگز نہیں ہے.

تیر و تلوار تم مت اٹھاؤ،

کیوں یہ کرتے ہو بے کار زحمت۔

جانتے ہیں تمہاری کلائی،

بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں ہے۔

http://valiasr-aj.com/fa/page.php?bank=question&id=437

مترجم: ابو دانیال اعظمی بریر

Jr.


Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی