امام حسینؑ کے پیغام میں نماز كي اہميت



۱۰۔ امام حسینؑ کے پیغام میں نماز کی اہمیت


ترجمه: اَبُو دَانِیَّال اَعظَمِی بُرَیر

        مقدس دین اسلام میں نماز کو تمام اعمال و عبادات میں سر فہرست قرار دیا ہے، چنانچہ خداوند عالم نے متقین کے اوصاف میں بہترین بندوں کے سلسلہ میں فرماتا ہے: ....الذین یومنون بالغیب و یقیمون الصلٰوة .....(سورہ بقرہ   3) ۔۔۔ (پرہیزگاران) وہی لوگ ہیں کہ جو غیب (وہ چیزیں جو حِس سے پوشیدہ اور پنہاں ہیں) پر ایمان لاتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔۔۔

        یہ عبادت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ نہ ہی فقہ دین اسلام میں بلکہ ادیان سابق اور گذشتہ انبیاء کے شرائط میں بھی تمام عبادات و اعمال کے اوپر قرار دیا ہوا تھا لہذا جناب ابراہیمؑ خداوند عالم سے اپنے اور اپنی ذریت کیلئے نماز قائم کرنے کی توفیق کی درخواست کرتے ہوئے کہتے ہیں: ....رب إجعلنی مقیم الصلٰوة و من ذریتی.... (سورہ ابراہیم   40)

        اور حضرت لقمانؑ حکیم بھی اپنے فرزند کو نماز قائم کرنے کی وصیت و سفارش کرتے ہیں؛ ....یا بنی أقم الصلٰوة.... (سورہ  لقمان :  17)

        اور حضرت عیسیؑ بھی اسی نماز کو اپنے اولین وظائف میں شمار کرتے ہوئے کہتے ہیں: ....و أوصانی بالصلٰوة و الزکٰوة ما دمت حیاً .... (سورہ  مریم  31)

         جب تک میں زندہ ہوں مجھے نماز اور زکات کی سفارش و وصیت کی گئی ہے۔

        بس نماز کی اہمیت کیلئے یہی کافی ہے کہ تمام اعمال و عبادات کی قبولیت و عدم قبولیت کا معیار قرار دیا گیا ہے۔: ...فان قبلت ماسواها و ان ردت رد ماسواہا... (بحار الانوار 83/ 25)

        اسی بنیاد پر ہی امام حسینؑ اپنے پیغام اور نعرہ کے ساتھ آنحضرت کےاصحاب نے بھی نماز کی اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے اور آپ کے اصحاب ،انصار و احباب نے ان حساس ترین لمحات میں بھی نماز ادا کی چاہے نماز خوف کی صورت میں قصر نماز ہی پڑھ کر یہاں تک صرف ایک ہی نماز کے قائم کرنے کے بعد اپنی جان امام ؑ کے قدموں میں نثار کر دی تا کہ امامؑ کی معیت میں اپنی آخری نماز ادا کر سکیں، بلکہ پوری رات عبادت کیلئے ایک ہی رات کی مہلت حاصل کر لی جاتی ہے، جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے۔ 

1/ 10- ارجع الیهم فان استطعت ان توخرهم الی غدوة و تدفعهم عنا العشیة لعلنا نصلی لربنا اللیلة و ندعوه و نستغفره. (ارشاد مفید:  230 و طبری:  6 / 238 و کامل ابن اثیر:  3 / 285)

جناب ابو الفضل العباس کو اشقیاء کے پاس بھیجتے ہیں تا کہ ان سے آج کی رات مہلت لے کر آئیں یہاں تک کہ کل صبح تک جنگ کو ملتوی کر دیں اس امید پر کہ پوری رات نماز، دعا اور استغفار اپنے پردردگار کی بارگاہ میں مشغول رہیں۔

امام حسینؑ کا نماز، تلاوت قرآن، کثرت دعا اور استغفار سے اس قدر لگاؤ تھا کہ آنحضرت نے کچھ یوں اظہار فرمایا ہے:

2/ 10- فهو یعلم انی قد کنت احب الصلوة له و تلاوة کتابه و کثرة الدعاء و الاستغفار . (ارشاد مفید: 230 و طبری: 6/ 238 و کامل ابن اثیر: 3/ 285)

پس خدا ہی جانتا ہے کہ بیشک میں نماز، اللہ کی کتاب کی تلاوت، دعا کی کثرت اور استغفار کرنے سے محبت کرتا ہوں۔

        امامؑ کے یہ جملے کو جو دو پیغام اور مستقل اعلان پر مشتمل بیان نماز کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں، نویں محرم کو  عصر کے وقت دشمن نے امامؑ کے خیمہ کی طرف چڑھائی کر دی تو آنحضرت نے اپنے بھائی جناب ابو الفضل العباس کو قریب بلاتے ہوئے فرمایا: کیونکہ پہلے ہی مرحلہ میں امامؑ نے حکم دیا کہ دشمن کے پاس جائیں اور اس چڑھائی کی وجہ دریافت کریں تو ان اشقیاء کا جواب یہی تھا کہ نیا اور تاکیدی حکم ابن زیاد کی طرف سے آیا ہے کہ ابھی اسی وقت جنگ کریں یا پھر یزید کی بیعت کریں۔

        جب حضرت ابو الفضل العباس نے دشمن کے پیغام کو امامؑ کی خدمت پہونچایا تو دوسرے مرحلہ میں امامؑ نے حکم فرمایا کہ جی ہاں! یہی مقرر ہوا تھا کہ نویں محرم کو عصر کے وقت جنگ شروع کریں لیکن امامؑ نماز اور قرآئت قرآن کے اہتمام کیلئے شقی دشمن سے ایک رات کی مہلت کی درخواست فرمائی۔

3/ 10- ذکرت الصلاة جعلک الله من المصلین الذاکرین . (مقتل مقرم: 244 و طبری: 6/ 251 و کامل ابن اثیر: 3/ 291) اے ابو ثمامہ تم نے نماز کا تذکرہ کیا خداوند عالم تمہیں نماز گزاروں میں قرار دے ۔

4/ 10- نعم، هذا اول وقتها، سلوهم ان یکفوا عنا حتیٰ نصلی. (مقتل مقرم : 244 و طبری:  6/ 251 و کامل ابن اثیر: 3/ 291)

        جی ہاں! یہ نماز کا اول وقت ہے، دشمن سے کہو کہ جنگ کو موقوف کر دیں تا کہ ہم اپنی نماز ادا کر سکیں۔

         امامؑ نے اس جملے کو پہلے جملے کے مثل دو اعلان سے ملا دیا ہے جو ابو ثمامہ صیداوی اسدی امام کے اصحاب کے جواب میں ارشاد فرمایا: جبکہ جنگ کی شدت کے درمیان متوجہ ہوئے کہ اول ظہر کا وقت ہو گیا ہے لہٰذا آنحضرت سے عرض کیا: بنفسی أنت؛ میری جان آپ پر قربان ہو! گرچہ یہ لوگ اپنے حملوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن خدا کی قسم ! جب تک مجھے قتل نہیں کر دیتے آپ تک ہرگز دسترسی حاصل نہیں کر سکتے اور میں چاہتا ہوں کہ جس وقت خدا کی بارگاہ میں جاؤں تو آپ کی امامت میں اپنی آخری نماز بجا لاؤں۔

5/ 10- نعم، انت امامی فی الجنة. (مقتل مقرم: 246 ومقتل عوالم: 17/ 8 8 ولہوف: 95 ومثیر الاحزان و تنقیح المقال مامقانی شرح حال سعید بن عبد الله) اےسعید! تم ہم سے پہلے ہی جنت میں پہونچ جاؤ گے۔

        عاشورا کے روز نماز ظہر کی ادائیگی کیلئے امام حسینؑ کی طرف سے حملہ بند کرنے کی تجویز سے عملاً موافقت حاصل نہ کر سکی اور آنحضرت نے بھی بغیر متوجہ ہوئے دشمنوں کی تیروں کی بوچھار میں خیموں کے باہر اور اہل کوفہ کے ہی سامنے صف بستہ نماز کیلئے کھڑے ہوئے اور چند جان نثار اصحاب منجملہ سعید بن عبد اللہ اور عمرو بن قرضہ کعبی انحضرت کے سامنے سینہ سپر بن کر کھڑے ہو گئے اور جو تیر امامؑ کی طرف آتے تھے انہیں اپنے سینہ اور سر پر لیتے تھے اسی کی بنا یہی دونوں نماز کے بعد زمین پر گر گئے اور درجہ شہادت پر فائز ہوگئے۔

        سعید آنحضرت کی نماز کے بعد شدید ضعف کے ساتھ اور خوں آلود زمین پر گرے، اپنی آنکھوں کو کھولا اور امام ؑ کو اپنے قریب پایا کہ جو زمین پر بیٹھے ہیں اور خاک و خون کو ان کے چہرہ سے صاف کر رہے ہیں، امامؑ کی اس محبت آمیز سلوک کے مقابل میں سر اور پیر کی پہچان نہیں ہوتی تھی، اس طرح سے عرض کیا: أوفیت یا إبن رسول اللهﷺ۔ اے فرزند رسولخداؐ! کیا میں نے اپنے وظیفہ کو احسن طریقہ سے انجام دیا ہے؟

        امام نے بھی ان کے جواب میں فرمایا: جی ہاں! تم مجھ سے پہلے بہشت میں داخل ہو جاؤ گے۔

        6/ 10- نعم، أنت إمامی فی الجنة، فاقرء رسول الله منی السلام و اعلمه انی فی الاثر . (مقتل مقرم: 248 ومقتل عوالم: 17/ 88 ولہوف: 95 و مثیر الاحزان) اے عمرو! تم بھی مجھ سے پہلے بہشت میں پہونچو گے تو میری طرف سے رسولخداؐ کو سلام پہونچانا اور ان سے عرض کرنا کہ میں بھی تمہارے پیچھے ان کی خدمت میں جلد ہی آرہا ہوں، عمرو بن قرضہ جو سعید کے پاس گرگئے تھے اور امامؑ اور ان کے مکالمہ کو سن رہے تھے کہ کس طرح آنحضرت انہیں یقینی جنت کا وعدہ کر رہے تھےاور انہوں نے بھی ویسا ہی سوال امامؑ سے کیا: أوفیت یابن رسول الله؟ میں نے  اپنی ذمہ داری کو اچھی طرح سے پوری کر دی ؟

  1.         امامؑ نے بھی وہی  جواب ديا جو جناب سعید کو دیا تھا اور اس جملہ کے اضافہ کے ساتھ کہ میرا سلام رسولخداؐ  کو پہونچانا اور ان سے عرض کرنا کہ میں (حسینؑ) کچھ لمحات کے عرصہ میں آپ کے دیدار کیلئے عازم ہیں۔


أللهم إنا نشكو إليك فقد نبينا صلواتك عليه و آله وغيبة ولينا و كثرة عدونا وقلة عددنا وشدة الفتن بنا وتظاهر الزمان علينا فصل على محمد وآله، و أعنا على ذلك بفتح منك تعجله وبضر تكشفه و نصر تعزه وسلطان حق تظهره.

 اے معبود! بیشک ہم شکوہ کرتے ہیں تیری بارگاہ میں اپنے نبی ـ صلی اللہ علیہ و آلہ ـ کے بارے میں ہمارے درمیان نہ رہنے سے اور ہمارے مولا کے نظروں سے اوجھل ہونے سے اور ہمارے دشمنوں کی کثرت سے اور ہماری تعداد کی قلت سے اور ہمارے اوپر فتنوں کی سختیوں سے اور زمانے کی یلغار اور غلبے سے، تو درود بھیج محمد و آل محمد پر اور ان سارے مسائل و مصائب کا سامنا کرنے کیلئے ہماری مدد فرما، تیری طرف کی فتح کے ساتھ، جس میں تو عجلت سے کام لے گا اور تکلیفیں جو تو دور کرے گا اور اس نصرت کے ساتھ جس کو تو عظیم تر کردے گا اور حق کی سلطنت کے ساتھ، جس کو تو ظاہر کرکے غلبہ عطا کرے گا اور تیری طرف کی رحمت کے ساتھ جو ہم پر سایہ فگن ہوگی اور تیری طرف کی عافیت کے ساتھ، جو ہمیں ڈھانپ  (احاطہ کر) لے گی، تیری رحمت اور مہربانی کے واسطہ اے مہربانوں کے سب سے زیادہ مہربان۔





DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی