امام صادقؑ کی نظر میں
اقتصادی فعالیت
تحریر : حجت الاسلام عبد الکریم پاک نیا تبریزی
ترجمہ : ابو دانیال اعظمی بریر
فهرست مطالب
★ اقتصادی فعالیت کی قدر و قیمت جاننا
★ اقتصادی فعالیت میں اصول کی رعایت کرنا
۱۔ تجربہ سے مستفید ہونا
۲۔ فرصت سے استفادہ کرنا
٣۔ سعی و کوشش کرنا
۴۔ مخارج میں اعتدال رکھنا
★ مشاغل کی تقسیم بندی کرنا
★ امام جعفرؑ کی نظر میں بہترین مشاغل و پیشے
۱۔ باغبانی اور زراعت و کاشت کاری کرنا
۲۔ تجارت اور کار وبارکرنا
★ پیشہ ور وں کیلئے امام صادقؑ کی حیات بخش دستاویز
★ آئندہ کیلئے سرمایہ محفوظ کرنا يعني بچت کرنا
★ اقتصادی فعالیت کی اہمترین شرائط
* مقدمہ
آسمان ولایت کے چھٹے ستارۂ ہدایت نے وَ عَلیٰ اللهِ فَلیَتَوَکَّلِ المُتَوَکِّلُون. أَی اَلزَّارِعُون قرآن مجید میں ترتیب کے اعتبار سے سورہ نمبر ۱۴ یعنی سورہ ابراہیم کی آیت نمبر ۱۲ کی تفسیر میں فرمایا ہے: "توکل کرنے والے انسانوں میں واضح ترین مصداق زراعت اور کاشت کرنے والے ہوتے ہیں."
مشرق نیوز (خبری تحلیلی ویب سائٹ) کی گزارش:
آئیڈیل معاشروں کا ایک واضح ترین امتیاز یہی ہے کہ صحیح و سالم اور پائدار اقتصاد رکھنا اور اس کے اجرا کرنے والے فعال افراد کا وجود اور متعہد و تجربہ کار افراد اقتصادی میدانوں میں رہیں۔
اللہ کے پیغمبروں نے بھی وسیع سطح پر عدل و انصاف معاشرہ کے مختلف طبقات کے درمیان رائج و مرسوم کرنے کیلئے اور لوگوں کی مادی ضروریات کو مہیا و آباد کرنے اور انہیں عادلانہ طور پر امکانات، سرمایہ، مناسب مواقع، ہمیشہ انہیں اطلاع رسانی کرنے اور بالآخر احسان و نیکی کی ترویج اور خدمت رسانی کے وسیلہ سے معاشرہ میں تقسیم کرنے کی سعی و کوشش کی ہے تا کہ لوگوں کو سعادت و خوشبختی کی طرف لے جائیں۔
یہ تلاش و جستجو مقاصد الہی اور توحیدی ادیان آسمانی کے اہداف اور خداوند متعال کے پیغمبروں و رسولوں کے ہاتھوں متحقق اور انجام پذیر ہو۔
جس کا مقصد عبودیت کے مقامات کو فراہم کرنا اور عام انسانوں کیلئے طلب سعادت و حقیقت کے ذریعہ تقرب الہی کی منزلوں کو طے کرنا ہے۔
موجودہ تحریر کو اسلام کےاقتصادی نظام کو واضح کرنے کیلئے منتخب کیا ہے لہذا امام صادقؑ معاشرہ کی ایک فرد کی اقتصادی نظریہ میں سے بعض کے بارے میں جو اسلامی معاشرہ کی فضا میں بیان ہوئے ہیں ان ہی کا ہم مختصر طور پر تجزیہ و تحلیل کریں گے۔
★ اقتصادی فعالیت کی قدر و قیمت
حضرت امام صادقؑ انسانی زندگی کی ضرورتوں کی راہ میں سعی و کوشش کو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے مترادف قرار دیتے ہیں اور ایک حدیث میں فرماتے ہیں:
عَن أَبِي عَبدِ اللهِ (ع) قَالَ: اَلکَادُّ عَلیٰ عِیَالِهِ کَالمُجَاهِدِ فِی سَبِیلِ اللهِ.(وسائل الشیعہ، 17/ 66، [۲۲۰۰۱] ۱ ۲۳-۔ باب وجوب الکدّ علی العیال من الرزق الحلال.)
اپنے ہی اہل و عیال کیلئے رزق (حلال) مہیا کرنے والا یا متلاشی شخص خدا کی راہ میں جہاد کرنے والے کے مثل ہوتا ہے۔
تفسير عیاشی مذکورہ آیت شریفہ کے ذیل میں: ..... وَ عَليٰ اللهِ فَليَتَوَكَّلِ المُتَوَكِّلُونَ..... [سورہ ابراہیم، آيت 12.]
(اور تمامتر توکل کرنے والوں کو چاہئے کہ فقط اللہ پر ہی توکل کریں) امام صادقؑ سے مروی ہے کہ آنحضرتؑ نے فرمایا: "اَلزَّارِعُونَ" یعنی زراعت یا کاشت کاری کرنے والے ہی ہیں۔ [تفسير عیاشی، 2/ 222، ح 6.]
امامؑ ششم کی نظر سے کاہل عناصر و بے کار اور بے حس افراد، غیظ و غضب الہی کے مستحق قرار پاتے ہیں. چنانچہ آنحضرتؑ نے فرمایا ہے:
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ (ع) قَالَ: إِنَّ اللهَ عَزَّ وَ جَلَّ يُبْغِضُ كَثْرَةَ النَّوْمِ وَ كَثْرَةَ الْفَرَاغِ.
(الکافی، 5/ 84، ح 3.)
خدا وند متعال کثرت سے سونے والے اور فارغ رہنے والے سے بغض رکھتا ہے۔
امامؑ کے ایک صحابی علاء بن کامل ایک روز آنحضرتؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دعا کی التماس کرتے ہوئے مزید عرض کیا: اے فرزند رسول! خداوند متعال سے طلب فرمائیں کہ میری زندگی آسائش و آسودہ اور راحت کے ساتھ گذرے! تو امام صادقؑ نے جواب میں فرمایا:
عَنْ أَيُّوبَ أَخِي أُدَيْمٍ بَيَّاعِ الْهَرَوِيِّ قَالَ: كُنَّا جُلُوساً عِنْدَ أَبِي عَبْدِ اللهِ (ع) إِذْ أَقْبَلَ الْعَلَاءُ بْنُ كَامِلٍ فَجَلَسَ قُدَّامَ أَبِي عَبْدِ اللهِ (ع) فَقَالَ: أدْعُ اللهَ أَنْ يَرْزُقَنِي فِي دَعَةٍ فَقَالَ: لَا أَدْعُو لَكَ اطْلُبْ كَمَا أَمَرَكَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ.
(الکافی، 5/ 78، ح 3.)
میں تمہارے لئے دعا نہیں کروں گا جیسا کہ تم نے کہا ہے، کیونکہ تم [زندگی کی آسودگی اور آرام کو ] اسی راستہ سے ہی طلب کرو جس کا دستور خداوند عالم نے تمہیں فرمایا ہے۔ [یعنی سعی و کوشش کے راستہ سے۔)
حالات زندگی اور معاشرہ میں بعض اقتصادی پروگرام کی فراہمی کو توسیع بخشنا نہ صرف ایک مسلمان انسان کیلئے عیب و نقص شمار نہیں کیا جاتا بلکہ ایمان کی قوت سے متاثر ہونا اور مستحکم ارادہ کے ساتھ ایک عظیم و اعلی معنوی اہداف کی راہ میں پہونچنا ہے ۔
مذہب جعفری کے سید و سردار اسی فکر پر زور دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
عَن أَبِي عَبدِ اللهِ (ع) قال: إنَّ فِي حِكمَةِ آلِ دَاؤُد: يَنبَغِي لِلمُسلِمِ العَاقِلِ أَن لَا يُرَى ظَاعِناً إِلَّا فِي ثَلَاث: مَرَمَّةٍ لِمَعَاشٍ، أَو تَزَوُّدٍ لِمَعَادٍ، أَو لَذَّةٍ فِي غَيرِ ذَاتِ مُحَرَّمٍ.
ایک عاقل مسلمان کیلئے سفر یا ہجرت کرنا مناسب نہیں ہے مگر ان ۳؍ امور کیلئے سفر کر سکتا ہے: اقتصادی حالات کو بہتر بنانے کیلئے (تجارتی سفر )، آخرت کیلئے توشہ حاصل کرنے کیلئے (زیارتی سفر)، حلال لذت کے حصول کی خاطر (سیاحتی سفر)۔
(وسائل الشیعہ، ۱۷/ ۶۳، [۲۱۹۸۷]-۱، ۲۱۔ باب إِستِحبَابِ مَرَمَّةِ المَعَاشِ وَ إِصلَاحِ المَالِ.)
امام صادقؑ نے نیک بندوں کو اقتصادی فعالیت کی ترغیب فرمائی ہے نیز خود آنجناب بھی اپنے ایک غلام "مصادف" کو بھی یہی دستور فرماتے تھے:
عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُرَازِمٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ (ع) لِمُصَادِفٍ مَوْلَاهُ اتَّخِذْ عُقْدَةً أَوْ ضَيْعَةً فَإِنَّ الرَّجُلَ إِذَا نَزَلَتْ بِهِ النَّازِلَةُ أَوِ الْمُصِيبَةُ فَذَكَرَ أَنَّ وَرَاءَ ظَهْرِهِ مَا يُقِيمُ عِيَالَهُ كَانَ أَسْخَى لِنَفْسِهِ.
(الکافی، 5/ 92، ح 5.)
درخت سے بھرپور کوئی ایک سرزمین یا مستقل و غیر منقول ملکیت حاصل کرو! کیونکہ جس وقت بھی ایک شخص کیلئے کوئی ایک حاثہ یا مصیبت رونما ہو جائے اور یہ احساس کرے کہ اس کے خاندان کی خاطر اپنے بعد ایک محفوظ سرمایہ رکھتا ہے تو اس کی روح [اور جان] کو سب سے زیادہ آرام اور راحت پہونچے گی۔
عَنْ مَسْعَدَةَ بْنِ صَدَقَةَ قَالَ: دَخَلَ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ عَلَى أَبِي عَبْدِ اللهِ (ع) فَرَأَى عَلَيْهِ ثِيَابَ بِيضٍ كَأَنَّهَا غِرْقِئُ الْبَيْضِ، فَقَالَ لَهُ إِنَّ هَذَا اللِّبَاسَ لَيْسَ مِنْ لِبَاسِكَ فَقَالَ لَهُ اسْمَعْ مِنِّي وَ عِ مَا أَقُولُ لَكَ فَإِنَّهُ خَيْرٌ لَكَ عَاجِلًا وَ آجِلًا إِنْ أَنْتَ مِتَ، عَلَى السُّنَّةِ وَ الْحَقِّ وَ لَمْ تَمُتْ عَلَى بِدْعَةٍ أُخْبِرُكَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ (ص) كَانَ فِي زَمَانٍ مُقْفِرٍ جَدْبٍ، فَأَمَّا إِذَا أَقْبَلَتِ الدُّنْيَا فَأَحَقُّ أَهْلِهَا بِهَا أَبْرَارُهَا لَا فُجَّارُهَا وَ مُؤْمِنُوهَا لَا مُنَافِقُوهَا وَ مُسْلِمُوهَا لَا كُفَّارُهَا فَمَا أَنْكَرْتَ يَا ثَوْرِيُّ فَوَ اللهِ إِنَّنِي لَمَعَ مَا تَرَى مَا أَتَى عَلَيَّ مُذْ عَقَلْتُ صَبَاحٌ وَ لَا مَسَاءٌ وَ لِلهِ فِي مَالِي حَقٌّ أَمَرَنِي أَنْ أَضَعَهُ مَوْضِعاً إِلَّا وَضَعْتُهُ قَالَ فَأَتَاهُ قَوْمٌ مِمَّنْ يُظْهِرُونَ الزُّهْدَ وَ يَدْعُونَ النَّاسَ أَنْ يَكُونُوا مَعَهُمْ عَلَى مِثْلِ الَّذِي هُمْ عَلَيْهِ مِنَ التَّقَشُّفِ فَقَالُوا لَهُ إِنَّ صَاحِبَنَا حَصِرَ، عَنْ كَلَامِكَ وَ لَمْ تَحْضُرْهُ حُجَجُهُ-
(الکافی، 5/ 65 کتاب المعیشۃ، ح 1، بَابُ دُخُولِ الصُّوفِيَّةِ عَلَى أَبِي عَبْدِ اللهِ ؈ وَ احْتِجَاجِهِمْ عَلَيْهِ فِيمَا يَنْهَوْنَ النَّاسَ عَنْهُ مِنْ طَلَبِ الرِّزْقِ.)
چھٹے امامؑ نے ان افراد سے جنہوں نے ظاہر میں زہد فروشی کی، مسلمان لوگوں کو تقوا اور ترک دنیا کے بہانہ سے اقتصادی فعالیتوں سے منع کرتے تھےان ظاہری زاہدوں پر تنقید بھی کرتے تھےاور ان کے غلط طریقہ کار کو خطا شمار کرتے تھے، سفیان ثوری زہد فروش عالم اور خود کو صوفی بتاتا تھا کہ عام لوگوں اور امام صادقؑ کو بھی دنیا داری کے اظہار سے منع کرتا تھا جس وقت مذکورہ فردنے امامؑ کے نئے اور مناسب لباس کا مشاہدہ کیا ہے تو آنحضرت سے کہا: آپنے آپ کو دنیا کے زیوروں سے آلودہ نہیں کرنا چاہئے! آپ کیلئے زہد و تقوا اور دنیا سے دوری اور اس کی ظاہری زینت سے بچنا ہی مناسب ہے۔
امام صادقؑ نے اپنے منطقی جواب کے ذریعہ اس کی غلط فہمی اور اعتراض سے واقف فرمایا نیز اس کے صوفیانہ اور منحرف خیالات کی شدت کے ساتھ تنقید کرتے ہوئے فرمایا: میں تم سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں، خوب توجہ کرو،میرا کلام تمہاری دنیا اور آخرت کیلئے مفید ہو گا، اے سفیان! رسول اسلام اس زمانہ میں زندگی بسر کرتے تھے کہ عام لوگ اقتصاد اعتبار سے تنگ حال تھے اور کود پیغمبر اکرم انہیں لوگوں کے ساتھ ہماہنگی کلے طور پر سادگی اور فقیرانہ زندگی گذارتے تھے لیکن اگر لوگوں کی معیشت کے حالات بہتر ہوئی ہے تو اہل ایمان اور نیک لوگوں اور اچھے دنوں سے فائدہ حاصل کرنا ہی مناسب ہے، نہ کہ فاجر و منافق اور کافر انسان۔ اے ثوری! خدا کی قسم! اس حالت میں کی میری معاشی حالت بہتر ہے اور میں خداوند عالم کی عطا کردہ نعمتوں سے مکمل طور پر بہرہ مند ہوتا ہوں، لیکن جس روز سے میں نے خود کو پہچانا ہے تو مجھ پر شب و روز نہیں گذرتا مگر یہ کہ اپنے مالی حقوق کو خداوند عالم کے فرمان کے مطابق جو مجھ پر واجب کیا ہے اسے میں ادا کرتا ہوںاور مناسب طور پر اس کا استعمال و مصرف بھی کرتا ہوں۔
★ اقتصادی فعالیت میں اصول کی رعایت
ایک دور اندیش شخص اپنی ساری زندگی اس بات کی جد و جہد کرتا ہے کہ اقتصادی فعالیت میں اصولوں سے بہرہ مند ہونے کے ساتھ ہی اپنی اور اپنے خاندان کی آسائش و آسودگی میں مزید اضافہ کرے گا اور زندگی کی راحت و آرام کو سعادت و خوشبختی کی راہ کو طے کرتا چاہتا ہے۔
پس امام جعفرؑ صادق ان بعض اصولوں کو بیان فرماتے ہیں جنہیں ہم آئندہ اس تحریر میںذکر کریں گے۔
إِنْ شَآءَ اللهُ الْمُسْتَعَانُ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم
۱۔ تجربہ سے مستفید ہونا
بغیر تردید کے ہر تجربہ کار انسان اپنے مستقبل کے پروگراموں یا منصوبوں میں اسی تجربہ سے مدد لیتا ہے اور جس قدر زندگی کے تجربات زیادہ ہوں گے تو انسان بھی ان سے اپنی زندگی میں بروئے کار لائے گا۔ یہ بات مسلم ہے کہ اس سلسلہ میں توفیقات بھی زیادہ ہی رکھتا ہو۔
جیسا کہ امیر المؤمنینؑ نے فرمایا ہے:
.....اَلعَقلُ حِفظُ التَّجَارِبِ.....
(نہج البلاغہ، مکتوب 31.)
.....عاقل کی علامت یہی ہے کہ وہ تجربات کو محفوظ رکھتا ہے.....
اسی سلسلہ میں مسعود سعد نے کیا خوبصورت شعر کہا ہے:
ای مبتدی، تو تجربہ، آموزگار گیر
زیرا کہ بہ، ز تجربہ، آموزگار نیست
امام صادقؑ اسی سلسلہ میں طالب حق کے سالکین کی مشکلشائی کرتے ہوئے راہنمائی فرماتے ہیں اور یہ تاکید بھی فرماتے ہیں:
عَن أَبِي عَبدِ اللهِ (ع) قَالَ: اَلمُؤمِنُ حَسَنُ المَعُونَةِ، خَفِيفُ المُؤُونَةِ، جَيِّدُ التَّدبِيرِ لِمَعِيشَتِهِ، وَلَا يُلسَعُ مِن جُحرٍ مَرَّتَينِ.
(وسائل الشیعہ، ۱۵/ ۱۹۳، [۲۰۲۵۵]-۲۹، ۴۔ باب إِستِحبَابِ مُلَازِمةِ الصِّفَاتِ الحَمِیدَۃِ وَ إِستِعمَالِهَا وَ ذِکرِ نَبذۃ مِنهَا۔)
مؤمن تعاون کرنے میں بہترین ہوتا ہے، (یعنی دوسروں کی بہترین انداز میں مدد کرتا ہے) اور تکلفّات (بھی) کمترین رکھتا ہے، (دوسروں کیلئے تکلف ساز نہیں ہے)، اپنی زندگی بہتر انداز میں چلاتا ہے، (اپنی معیشت کیلئے بہتر تدبیر کا حامل ہوتا ہے) اور مومن ایک ہی سوراخ سے دو بار ڈسا نہیں جاتا. (پہلا ہی تجربہ اس کیلئے کافی ہوتا ہے)
۲۔ فرصت سے استفادہ کرنا
کبھی کبھی زندگی میں بہت سی فرصتیں اور مواقع حاصل ہوتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اس فرصت و موقع سے بنحو احسن اپنی دین و دنیا کی فلاح و بہبود کی خاطر فائدہ اٹھا سکتا ہے تیز نگاہ اور آئندہ کی نظر رکھنے والے افراد کا سبب قرار پاتا ہے کہ ان سنہری فرصتوں اور مواقع کے عامل کو اپنی معنوی اور سماجی مقام و منزلت کی ترقی کیلئے فائدہ اٹھائے، بیشک اس طرح کی فرصتوں اور مواقع کو ہاتھ سے جانے دینا غم و اندوہ اور پشیمانی کا موجب ہوگا۔
سعدیا، دی رفت و فردا همچنان موجود نیست
در میان این و آن فرصت شمار امروز را
امام صادقؑ نے اس سلسلہ میں فرمایا ہے:
اَلأَیَّامُ ثَلَاثَةٌ فَیَومٌ مَضَیٰ لَا یُدرِک وَ یَومٌ النَّاسُ فِیهِ فَیَنبَغِی أَن یَغتَنِمُوہُ وَ غَداً إِنَّمَا فِی أَیدِهِم أَمَلُهُ.
ایام ۳؍ طرح کے ہوتے ہیں؛ ایک وہ دن ہے کہ جو گذر گیا (یعنی ماضی) اور دوسرا وہ کہ جو حاصل نہیں ہوگا (یعنی مستقبل) اور ایک وہ روز ہے کہ جس میں لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں (یعنی حال) اور مناسب یہی ہے کہ اسے ہی غنیمت سمجھا جائے یا پھر آنے والا دن ہے کہ جس تک پہونچنے کی آرزو رکھتے ہیں۔
(بحار الانوار 75/ 237؛ تحف العقول، ص 322.)
امامؑ ششم دیگر حدیث میں ان مواقع اور فرصتوں سے بہرہ مند ہونے کے بارے میں تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا ہے:
جو شخص بھی فرصت و موقع کو حاصل کرے گا اور اس حالت میں کہ وہ اس سے بھی بہترین موقع و فرصت کا منتظر ہو گا، لہذا زمانہ میں ایک نہ ایک دن اسے وہ سنہری فرصت و موقع حاصل ہوگا تو اسے اپنے ہاتھ کی گرفت میں رکھے گا؛ کیونکہ وقت اور زمانہ کی یہی عادت ہے کہ فرصتوں کا سلب ہونا اور زمانہ کی رسم ہے کہ مواقع ختم ہو جاتے ہیں۔
(تحف العقول، ص 381.)
۳۔ سعی و کوشش کرنا
زندگی میں توفیق کے رموز میں اہمترین راز یہی ہے کہ دائمی اور مستقل طور پر ہدف کے راستہ پر ہی چلتا رہے، تحرک اور حرکت کی قابلیت کہ جس کا انسان راسخ طور پر اعتقاد رکھتا ہے اپنے مقاصد کا سر چشمہ قرار دیتا ہے، متاد تک پہونچنے کے راستہ میں ایک ضروری ترین عامل شمار ہوتا ہے، ایک مسلمان انسان کو آخرت کی سعادت تک پہونچنے کیلئے اپنی دنیا کے امور میں سعی و کوشش کرنا بھی چاہئے اور دنیا کے امور کو وسیلہ اور پل کی حیثیت سے مطلوب تک پہونچنے کو مد نظر رکھے۔
الصّادق (ع) عَلِیِّ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیزِ قَالَ قَالَ لِی أَبُو عَبْدِ اللهِ (ع) مَا فَعَلَ عُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاکَ أَقْبَلَ عَلٰی الْعِبَادَۃِ وَ تَرَکَ التِّجَارَۃَ فَقَالَ وَیْحَهُ أَمَا عَلِمَ أَنَّ تَارِکَ الطَّلَبِ لَا یُسْتَجَابُ لَهُ إِنَّ قَوْماً مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللهِ ﷺ لَمَّا نَزَلَتْ وَ مَنْ یَتَّقِ اللهَ یَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجاً ف وَ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لا یَحْتَسِبُ (سورہ طلاق، آیت 2 و 3.)
أَغْلَقُوا الْأَبْوَابَ وَ أَقْبَلُوا عَلٰی الْعِبَادَۃِ وَ قَالُوا قَدْ کُفِینَا فَبَلَغَ ذٰلِکَ النَّبِیَّ ﷺ فَأَرْسَلَ إِلَیْهِمْ فَقَالَ مَا حَمَلَکُمْ عَلٰی مَا صَنَعْتُمْ قَالُوا یَا رَسُولَ الله ﷺ تُکُفِّلَ لَنَا بِأَرْزَاقِنَا فَأَقْبَلْنَا عَلٰی الْعِبَادَۃِ فَقَالَ إِنَّهُ مَنْ فَعَلَ ذَلِکَ لَمْ یُسْتَجَبْ لَهُ عَلَیْکُمْ بِالطَّلَبِ.
(تفسیر اہلبیت ۱۶/ ۳۵۲؛ من لا یحضرہ الفقیہ، ۳/ ۱۶۶؛ مستدرک الوسایل، ۱۳/ ۲۰۴؛ الجعفریات، ص ۱۵۳؛ نور الثقلین)
امام صادقؑ سے ایک روایت کو علی بن عبد العزیز نے نقل کیا ہے: راوی کہتا ہے کہ مجھ سے ایک روز امامؑ ششم نے عمر بن مسلم کی احوال پرسی فرمائی تو میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں وہ تو تجارت سے دستبردار ہو گئے ہیں اور عبادت ، نماز اور دعاؤں میں مشغول رہتے ہیں، تب امامؑ نے فرمایا: "اس پر وائے ہو! کیا وہ نہیں جانتا کہ ہر شخص دنیا حلال روزی کے حصول کے پیچھے نہ جائے گا تو اس کی دعا مستجاب نہیں ہو گی." پھر امامؑ نے مزید فرمایا: جس وقت سورہ طلاق کی یہ آیت نمبر ۲ و ۳ نازل ہوئی؛ جس کا ترجمہ یہ ہے کہ جو شخص تقوائے الہی کو اختیار کرے گا تو (خداوند متعال) اس کیلئے مشکلات سے خروج کا راستہ بھی قرار دے گا اور اس کا رزق ایسے مقام سے قرار دے گا جس کا وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔
مذکورہ بالا آیت کا شان نزول یہی ہے کہ پیغمبر اسلام کے بعض اصحاب نے کارو بار زندگی اور تجارت سے دست بردار ہو گئے اور محنت و مزدوری کے دروازہ کو اپنے اوپر بند کر لیا اور فقط عبادت میں مشغول ہو گئے تا کہ خداوند عالم ان کی روزی عبادت کے راستہ سے انہیں پہونچائے، جس وقت رسولخدا با خبر ہوئے تو ان لوگوں کو حاضر ہوئے تو آنحضرت نے فرمایا: تم لوگوں نے کس دلیل سے کار و بار زندگی اور تجارت سے دست برداری اختیار کی ہے اور معاشرہ سے دور ہوگئے ہو اور (صرف) عبادت میں ہی مسغول ہوگئے ہو؟ ان لوگوں نے جواب میں عرض یہی کیا: اے اللہ کے رسول! خداوند متعال نے ہمارے رزق کی کفالت لی ہے اور ہم بھی بس اسی کی عبادت طرف ہی متوجہ ہوئے ہیں! پس رسول اکرم نے فرمایا:
إِنَّهُ مَن فَعَلَ ذٰلِکَ لَم یُستَجَب لَهُ، عَلَیکُم بِالطَّلَبِ۔
جو شخص بھی ایسا کرے گا تو اس کی دعا مستجاب نہیں ہو گی، تم پر لازم ہے کہ حصول رزق [روزی و آمدنی] کی طلب میں جد و جہد کرو۔
(تہذیب الاحکام، 6/ 323.)
حضرت امام صادقؑ دیگر حدیث میں وضاحت فرماتے ہیں کہ پروردگار عالم بعض افراد کی دعاؤں کو کبھی بھی قبول نہیں فرمائے گا۔ جیسا کہ ذیل کی روایت سے واضح ہوتا ہے:
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ (ع) قَالَ: صَحِبْتُهُ بَيْنَ مَكَّةَ وَ الْمَدِينَةِ فَجَاءَ سَائِلٌ فَأَمَرَ أَنْ يُعْطَى ثُمَّ جَآءَ آخَرُ فَأَمَرَ أَنْ يُعْطَى ثُمَّ جَآءَ آخَرُ فَأَمَرَ أَنْ يُعْطَى ثُمَّ جَآءَ الرَّابِعُ فَقَالَ أَبُو عَبْدِ اللهِ (ع) يُشْبِعُكَ اللهُ ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَيْنَا فَقَالَ أَمَا إِنَّ عِنْدَنَا مَا نُعْطِيهِ وَ لٰكِنْ أَخْشَى أَنْ نَكُونَ كَأَحَدِ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ لَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ دَعْوَةٌ رَجُلٌ أَعْطَاهُ اللهُ مَالًا فَأَنْفَقَهُ فِي غَيْرِ حَقِّهِ، ثُمَّ قَالَ: أَللّٰهُمَّ ارْزُقْنِي فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُ وَ رَجُلٌ يَدْعُو عَلَى امْرَأَتِهِ أَنْ يُرِيحَهُ مِنْهَا وَ قَدْ جَعَلَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ أَمْرَهَا إِلَيْهِ، وَ رَجُلٌ يَدْعُو عَلٰى جَارِهِ وَ قَدْ جَعَلَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ لَهُ السَّبِيلَ إِلىٰ أَنْ يَتَحَوَّلَ عَنْ جِوَارِهِ وَ يَبِيعَ دَارَهُ.
(اصول کافی، 2/ 510، ح 1، باب من لا تستجاب دعوته.)
خلاصہ حدیث: جس کے باعث جن لوگوں کی دعائیں بارگاہ الہی میں مستجاب نہیں ہوتی ہے ان میں سے ایک سبب یہی ہے کہ آدمی گھر میں بیٹھا رہے اور ہمیشہ اللہ سے یہی کہتا رہے: خدایا! مجھے روزی عطا فرما! تو خداوند منان اسے کہتا ہے: کیا میں نے تجھے فرمان نہیں دیا کہ [روزي] کی طلب میں گھر سے باہر نکلو۔ بہر صورت مقصود تک پہونچنے کیلئے جد و جہد کرنا چاہئے اور اس تلاش و جستجو کی راہ میں مشکلات و سختیوں کو جان کے بدلہ میں خریدے تا کہ دوسروں سے بے نیاز ہوکر اقتصادی اعتبار سے خود مختاری اور آزادی کو پہونچے گا۔
عطار نیشاپوری کیا خوب کہتے ہیں :
بیک باری نیاید کارها راست
بباید کرد رہ را بارها راست
بیک ضربت نخیزد گوهر از سنگ
بیک دفعت نریزد شکر از تنک
نگردد پختہ هر دیگی بیک سوز
نیاید پختگی میوہ بیک روز
۴۔ مخارج میں اعتدال رکھنا
خواهی اگر کہ حفظ کنی آبروی خویش
بردار لقمہ لیک بہ قدر گلوی خویش
مخارج زندگی میں اعتدال و میانہ روی کی رعایت اور آمدنی و درآمد زندگی میں آسائش و رفاہ کا موجب ہوگا، اسراف و تبذیر، سخت گیری و تنگ نظری، کنجوسی و لالچی پن زندگی کے نظم و نسق کے اختلاف کا باعث ہوتی ہے اور مذکورہ برے اخلاقی صفات بعض اوقات تو ایک فرد کی سماجی حیثیت کو بھی متزلزل کر دیتی ہے اور کبھی کبھار تو یہ انسان کی آبرو اور شخصیت کو بھی ختم کر دیتی ہے مگر اسی وقت جب معمولاً ایک فرد فضول خرچی کو انجام دیتا ہے تو تنگدستی و غربت سے دچار ہو جاتا ہے اور پھر گردش زمانہ اور وقت کی سختی کی شکایت بھی کرتا رہتا ہے نیز اپنی بد قسمتی و بد بختی کے اتفاقات سے گلہ و شکوہ کرتا ہے۔
امام صادقؑ فرماتے ہیں:
إِنَّ السَّرفَ یُورِثُ الفَقرَ وَ إِنَّ القَصدَ یُورِثُ الغِنیٰ
(من لا یحضرہ الفقیہ، 3/ 174.)
بیشک اسراف فقیری کا سبب اور میانہ روی غنیٰ کا باعث ہوتی ہے۔
سعدی نے کتنا اچھا شعر کہا ہے:
چو دخلت نیست خرج آهستہ تر کن
کہ می گویند ملاحان سرودی
اگر باران بہ کوهستان نبارد
بسالی دجلہ گردد خشک رودی
امام صادقؑ نے سورہ بنی اسرائیل کی ایک آیت کی تفسیر میں کنجوسی اور میانہ روی کو امامؑ نےبیان فرمایا ہے:
[۲۲۰۰۰]-۹ عن عبد الله بن سنان، عن أبي عبد الله (ع) في قول الله عزّ وجلّ: وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ۔ (سورہ اسراء آیت 29.)
قال: فضمّ يده فقال هٰكذا: وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ۔ [سورۃ الاسراء ۱۷: ۲۹.]
قال فبسط راحته وقال: هٰكذا. (وسائل الشیعہ، 17/ 66. [۲۲۰۰۰]-۹، ۲۲۔ باب إستحباب الإقتصاد و تقدیر المعیشة۔)
عبد الله بن سنان ایک روایت امام صادقؑ سے نقل کرتے ہیںکہ قرآن کریم کے سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۲۹ وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ کی تفسیر کے بارے میں فرماتے ہوئے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو مکمل بور پر بند کیا اور اپنے ہاتھ کو مٹھی بنایا اور پھر فرمایا: یعنی اس طرح مت کرو کہ یہی بخل و خساست کی انتہا ہے اور اس آیت وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ (سورہ اسراء آیت 29.) کے معنی یہی ہے۔ بلکہ ہاتھ کو مکمل طور پر کھلا بھی رکھو اور فرمایا: اس طرح بھی درست نہیں ہے؛ یعنی انسان کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ سب ہی خرچ کر ڈالے اور کوئی بھی چیز اس کے ہاتھ کی ہتھیلی میں نہ رہے۔
اس آیت شریفہ کے نتیجہ میں یہی معلوم ہوتا ہے کہ مال دنیا کے امور میں خرچ کرنے پر افراط و تفریط کی نفی کیا ہے اور یہی آیت خرچ کرنے میں میانہ روی و اعتدال کی سفارش بھی کرتی ہے۔
★ مشاغل کی تقسیم بندی کرنا
جب اسلامی معاشرہ میں ایک فرد کسی شغل یا پیشہ کی تلاش میں جاتا ہے اور اقتصاد کی آمدنی دینے والے امور میں سے کسی ایک کا انتخاب کرتا ہے تو لازم ہے کہ کار و بار زندگی میں کسی بھی پیشہ یا شغل میں وارد ہونے سے قبل اس کی کیفیت کے بارے میں تحقیق کر لے اور اسلام اور ائمہ معصومینؑ کے نظریہ کو اس شغل و پیشہ کے مد مقابل کے بارے میں رکھتا ہے یہاں تک کہ آئندہ وہ اندرونی تشویش اور بے اطمینانی سے دچار نہ ہو؛ کیونکہ ہر اقتصادی پیشہ و شغل کے مقام و منزلت اور اس کی آمدنی کو اسلامی نقطہ نظر کو نگاہ میں رکھے، اس کے معنوی، تہذیبی اور سیاسی مسائل محل توجہ رہے اور ہر شغل و پیشہ سے کسی بھی فرد کا فائدہ اٹھانے کو اسلام مبین کی تہذیب کی نظر سے دیکھیں کہ وہ پیشہ و شغل معاشرہ اور ملک کی مصلحت میں سوچیں، اسی کے سبب ہر سماج و معاشرہ میں رائج مشغلوں یا پیشوں کو دو حصوں نمبر ١ میں حلال اور نمبر ٢ میں حرام پر تقسیم کر کے مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
ہم اپنی بات کے ثبوت میں ایک طولانی روایت کے فقط عربی متن کو ہی رقم کر رہے ہیں اور اس کا خلاصہ ترجمہ کے طور پر تحریر کر رہے ہیں:
الحسن بن علي بن شعبة في (تحف العقول) عن الصادق (ع) أنّه سُئل عن معايش العباد، فقال: جميع المعايش كلّها من وجوه المعاملات فيما بينهم ممّا يكون لهم فيه المكاسب أربع جهات: ويكون منها حلال من جهة، حرام من جهة، فأول هذه الجهات الأربعة الولاية، ثم التجارة، ثم الصناعات تكون حلالاً من جهة حراماً من جهة، ثم الإِجارات، والفرض من الله على العباد في هذه المعاملات الدخول في جهات الحلال، والعمل بذلك الحلال منها، واجتناب جهات الحرام منها، فإحدى الجهتين من الولاية ولاية ولاة العدل الذين أمر الله بولايتهم على الناس، والجهة الاُخرى ولاية ولاة الجور، فوجه الحلال من الولاية ولاية الوالي العادل، وولاية ولاته بجهة ما أمر به الوالي العادل بلا زيادة ولا نقصان، فالولاية له والعمل معه ومعونته وتقويته حلال محلّل.
وأمّا وجه الحرام من الولاية فولاية الوالي الجائر وولاية ولاته، فالعمل لهم والكسب معهم بجهة الولاية لهم حرام محرم معذب فاعل ذلك على قليل من فعله أو كثير، لأن كل شيء من جهة المؤونة له معصية كبيرة من الكبائر، وذلك أن في ولاية الوالي الجائر دروس الحق كلّه، فلذلك حرّم العمل معهم ومعونتهم والكسب معهم إلاّ بجهة الضرورة، نظير الضرورة إلى الدم والميتة.
وأمّا تفسير التجارات في جميع البيوع ووجوه الحلال من وجه التجارات التي يجوز للبائع أن يبيع ممّا لا يجوز له، وكذلك المشتري الّذي يجوز له شراؤه ممّا لا يجوز له، فكلّ مأمور به ممّا هو غذاء للعباد وقوامهم به في أمورهم في وجوه الصلاح الّذي لا يقيمهم غيره مما يأكلون ويشربون ويلبسون وينكحون ويملكون ويستعملون من جميع المنافع التي لا يقيمهم غيرها، وكلّ شيء يكون لهم فيه الصلاح من جهة من الجهات فهذا كلّه حلال بيعه وشراؤه وإمساكه واستعماله وهبته وعاريته.
وأما وجوه الحرام من البيع والشراء فكلّ أمر يكون فيه الفساد مما هو منهي عنه من جهة أكله أو شربه أو كسبه أو نكاحه أو ملكه أو إمساكه أو هبته أو عاريته أو شيء يكون فيه وجه من وجوه الفساد، نظير البيع بالربا، أو البيع للميتة أو الدم أو لحم الخنزير أو لحوم السباع من صنوف سباع الوحش والطير، أو جلودها، أو الخمر، أو شيء من وجوه النجس فهذا كله حرام ومحرم، لأن ذلك كلّه منهيّ عن أكله وشربه ولبسه وملكه وإمساكه والتقلّب فيه، فجميع تقلّبه في ذلك حرام، وكذلك كلّ بيع ملهوّ به، وكلّ منهي عنه مما يتقرب به لغير الله أو يقوى به الكفر والشرك من جميع وجوه المعاصي، أو باب يوهن به الحق فهو حرام محرم بيعه وشراؤه وإمساكه وملكه وهبته وعاريته وجميع التقلّب فيه، إلاّ في حال تدعو الضرورة فيه إلى ذلك.
وأمّا تفسير الإِجارات فإجارة الإِنسان نفسه أو ما يملك أو يلي أمره ـ إلى أن قال:
وأما تفسير الصناعات فكلّما يتعلّم العباد أو يعلّمون غيرهم من أصناف الصناعات مثل الكتابة والحساب والتجارة والصياغة والسراجة والبناء والحياكة والقصارة والخياطة وصنعة صنوف التصاوير ما لم يكن مثل الروحاني وأنواع صنوف الآلات التي يحتاج اليها العباد منها منافعهم وبها قوامهم وفيها بلغة جميع حوائجهم فحلال فعله وتعليمه والعمل به وفيه لنفسه أو لغيره، وإن كانت تلك الصناعة وتلك الآلة قد يُستعان بها على وجوه الفساد ووجوه المعاصي وتكون معونة على الحقّ والباطل فلا بأس بصناعته وتعليمه، نظير الكتابة التي هي على وجه من وجوه الفساد تقوية ومعونة لولاة الجور، كذلك السكين والسيف والرمح والقوس وغير ذلك من وجوه الآلة التي تصرف إلى جهات الصلاح وجهات الفساد، وتكون آله ومعونة عليهما، فلا بأس بتعليمه وتعلّمه وأخذ الأجر عليه والعمل به وفيه لمن كان له فيه جهات الصلاح من جميع الخلائق، ومحرم عليهم فيه تصريفه إلى جهات الفساد والمضار، فليس على العالم والمتعلّم إثم ولا وزر لما فيه من الرجحان في منافع جهات صلاحهم وقوامهم وبقائهم، وإنّما الإِثم والوزر على المتصرف بها في وجوه الفساد والحرام، وذلك إنّما حرم الله الصناعة التي هي حرام كلّها التي يجيء منها الفساد محضاً، نظير البرابط والمزامير والشطرنج وكلّ ملهوّ به، والصلبان والأصنام وما أشبه ذلك من صناعات الأشربة الحرام، وما يكون منه وفيه الفساد محضاً، ولا يكون منه ولا فيه شيء من وجوه الصلاح فحرام تعليمه وتعلّمه والعمل به وأخذ الأجر عليه، وجميع التقلّب فيه من جميع وجوه الحركات كلّها إلاّ أن تكون صناعة قد تتصرّف إلى جهات الصنائع، وإن كان قد يتصرف بها ويتناول بها وجه من وجوه المعاصي، فلعلّة ما فيه من الصلاح حلّ تعلّمه وتعليمه والعمل به، ويحرم على من صرفه إلى غير وجه الحق والصلاح.
فهذا تفسير بيان وجه اكتساب معايش العباد وتعليمهم في جميع وجوه اكتسابهم. إلى أن قال: وأمّا ما يجوز من الملك والخدمة فستة وجوه: ملك الغنيمة، وملك الشراء، وملك الميراث، وملك الهبة، وملك العارية، وملك الأجر، فهذه وجوه ما يحل وما يجوز للإِنسان إنفاق ماله وإخراجه بجهة الحلال في وجوهه، وما يجوز فيه التصرف والتقلّب من وجوه الفريضة والنافلة.
(وسائل الشیعہ، 17/ 83، [۲۲۰۴۷]-۱، ۲۔ باب جواز التکسب بالمباحات و ذکر جملة منها ومن المحرمات، ط۔ آل البیت.؛ تحف العقول، ص 331 تا 338.)
خلاصہ حدیث مزبور:
حدیث بالا میں امام صادقؑ فرماتے ہیں: ایک تقسیم بندی میں معاشرہ و سماج میں کلی طور پر تمام موجودہ مشغلوں و پیشوں کو ۴؍ طرح سے تقسیم ہوتے ہیں:
۱۔ تجارت و معاملات؛
۲۔ صنعت و حرفت؛
۳۔ حکومت کے عہدہ داران اور اراکین؛
4- اجارات (جائداد و ملکیت کا کرایہ اور مزدوروں کی آمدنی).
پھر امامؑ مذکورہ بالا شغلوں کو ۲؍ نوعیت میں تقسیم کرتے ہیں: پہلی قسم حلال کی اور دوسری قسم حرام کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
..... والفرض من الله على العباد في هذه المعاملات الدخول في جهات الحلال، والعمل بذلك الحلال منها، واجتناب جهات الحرام منها .....
..... اور خداوند متعال نے واجب کیا ہے کہ اس کے بندے حلال کے سلسلہ میں اقدام کریں اور حرام مشاغل سے دوری اختیار کریں.....
یہاں پر ہم امامؑ کے کلام کا خلاصہ حلال و حرام کے پیشوں کے تعیین کے معیار کی طرف اشارہ کر رہے ہیںکہ تجارت میں حلال اور حرام کا معیار یہی ہے کہ ہر وہ چیزیں جو عام لوگوں کیلئے ضروری ہے اور معاشرہ کا نفع و مصلحت اس کی خرید و فروخت میں ہوتا ہےتو اس کی تجارت حلال ہے اورہر وہ معاملہ کہ جو اسلامی معاشرہ میں فساد و ضرر کا باعث ہوتا ہے اس کی تجارت حرام ہوتی ہے۔
۱۔ تجارت و معاملات:
جیسے سودی معاملات میں خرید و فروخت اور چیزوں کی ذخیرہ اندوزی اسلام کی نظر میں مشروع نہیں ہے۔
(بغیر تذکیہ کا گوشت، خنزیر کا گوشت، درندہ حیوانات کا گوشت اور چرم، شراب، قمار اور لہو و لعب کے آلات وغیرہم)
اسلام کے دشمنوں کو اسلحہ فروخت کرنا اور ہر وہ معاملہ جو باطل کے محاذ کی تقویت کا موجب ہو۔
(جیسےجاسوسی اور دشمن کو اطلاعات فروخت کرنا) اور وہ معاملات جو فریب کاری اور جھوٹ کے ذریعہ انجام دیا جائے۔
۲۔ صنعت و حرفت:
صنعت و حرفت میں بھی اسلامی معاشرہ کی مصلحت کو ہی معیار قرار دیا جاتا ہے یعنی ہر صنعت و حرفت جو اسلامی معاشرہ کی تقویت کا موجب ہو اور جو مسلمانوں کی صلاح، ترقی اور بلندی کیلئے باعث ہوتا ہے.
امام صادقؑ کی نظر میں جائز ہے اور ہر وہ حرفت جو معاشرہ کے مفسدہ اور ضعف کا سبب ہوتا ہے تو اسے شریعت ممنوع قرار دیتی ہے.
جیسے شراب سازی، جادوگری وغیرہ اور جو صنعت فساد اور فحشا کا باعث ہوتی ہے، وہ ذرائع جو مسلمانوں کے عقائد کی تضعیف اور تخریب کا موجب ہو ظالمین کے ساتھ تعاون کرنا، سرقت و چوری کرنا وغیرہ جیسے صنائع اور حرف حرام ہیں۔
۳۔ حکومت کے عہدہ داران اور اراکین:
اگر حکومت کے عہدہ داران اور ملازمین جو ایک عادل حاکم یا ائمہ معصومینؑ یا ائمہؑ کے وکلا کی نظر کے ماتحت وظیفہ کو انجام دیں تو اس کی آمدنی اور تنخواہ حلال ہے و گر نہ حرام ہو جائے گی؛ مگر یہ کہ ایک ملازم غیر عادل کی حکمرانی میں حاکم شرع کی اجازت کے ساتھ یا یہ کہ مسلمانوں کے مصالح کی خاطر حکومتی نظام میں وارد ہوتا ہے۔
۴۔ اجارات
(ملکیت کا کرایہ یا مزدوروں کی آمدنی):
اجارہ و ملکیت کا کرایہ اور کاریگروں کی مزدوری بھی اسی زمرہ میں شمار ہوتی ہے: یعنی اول یہ کہ معاشرہ کی مصلحت اور فساد کو مد نظر رکھا جائے گا اور دوسرے یہ کہ حلال اور حرام میں مال یا جنس اور محرک و علت مقدر ہوتا ہے۔
(آنحضرت کے کلام کی مزید تفصیلی معلومات کیلئے عربی متن کی روایت کو ملاحظہ کر سکتے ہیں، دیکھئے کتاب وسائل الشیعة، جلد نمبر ۱۷ میں صفحہ نمبر ۸۳ سے صفحہ نمبر ۸۶ تک، [۲۲۰۴۷]-۱، ۲۔ باب جواز التکسب بالمباحات و ذکر جملة منها ومن المحرمات، ط۔ آل البیت. يا پھر مسائل الشریعہ ترجمہ وسائل الشیعہ کی جلد نمبر 12 کی کتاب التجارۃ میں باب کسب و اکتساب، صفحہ نمبر 77 سے 79 پر ملاحظہ کر سکتے ہیں. (مترجم)
★ امام جعفرؑ کی نظر میں بہترین مشاغل و پیشے
حضرت صادقؑ ہمیشہ اپنے شیعوں اور پیروکاروں کو حلال ذرائع معاش کے انتخاب اور جو شماج و معاشرہ کیلئے ضروری و لازمی پیشے و مشاغل اختیار کرنے کی سفارش اور تاکید کیا کرتے تھے، کیسا کہ ہم نے سابق میں ذرائع معاش کی تقسیم بندی میں حلال و حرام آمدنی کے وسائل کا تذکرہ کیا ہے اور اب یہاں پر ہم مکروہ ذرائع آمدنی کا بھی ذیل میں ذکر کر رہے ہیںنیز ان کے مکروہ ہونے کے اسباب بھی امام نے بیان فرمایا ہے:
عن إسحاق بن عمار قال: دخلت على أبي عبد الله (ع) فخبرته أنّه ولد لي غلام، قال: ألا سميته محمّداً؟ قلت: قد فعلت، قال (ع): فلا تضرب محمّداً ولا تشتمه جعله الله قرّة عين لك في حياتك وخلف صدق بعدك، قلت: جعلت فداك في أي الأعمال أضعه؟ قال. (ع) إذا عدلته عن خمسة أشياء فضعه حيث شئت: فَإِنَّ الصَّيْرَفِيَّ لَا يَسْلَمُ مِنَ الرِّبَا، ولا تسلّمه بياع أكفان، فإنّ صاحب الأكفان يسرّه الوباء إذا كان، ولا تسلمه بياع طعام، فإنّه لا يسلم من الإحتكار، وَ لَا تُسْلِمْهُ جَزَّاراً فَإِنَّ الْجَزَّارَ تُسْلَبُ مِنْهُ الرَّحْمَةُ، ولا تسلّمه نخاساً، فإنّ رسول الله ﷺ قال: شر الناس من باع الناس.
(وسائل الشيعہ، ط-آل البیت، حرعاملی، شيخ ابو جعفر، 17/ 135و 136، [۲۲۱۸۶]۔۱، باب ۲۱۔ باب كراهة الصرف، وبيع الأكفان والطعام والرقيق والصياغة وكثرة الذبح)
شیخ کلینیؒ باسناد خود اسحاقؒ بن عمار سے روایت کرتے ہیںان کا بیان ہے کہ میں حضرت امام جعفر صادقؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کو اطلاع دی کہ میرے یہاں پر ایک بچہ پیدا ہوا ہے امامؑ نے فرمایا: کیا تم نے اس کا نام محمد نہیں رکھا؟ عرض کیا: ہاں رکھا ہے! امامؑ نے فرمایا: اس کو نہ مارنا اور نہ ہی اسے گالی دینا، خدا اسے تمہاری زندگی میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور تمہارے بعد تمہارا اچھا جانشین بنائے۔ راوی نے عرض کیا: میں آپ پر قربان ہو جاؤں! میں اسے کس کام میں لگاؤں؟ تو امامؑ نے فرمایا: جب تم اسے 5 کاموں سے الگ تھلگ کر لو تو پھر جس کام میں چاہو لگاؤ؛
۱۔ اسے زرگر کے حوالہ مت کرو کیونکہ زرگر سود سے بچ نہیں سکتا۔
۲۔ اسے کفن فروش کےحوالہ مت کرو کیونکہ کفن فروش وبا سے خوش ہوتا ہے۔ (جس سے انسانوں کا ضیاع ہو)
۳۔ اسے خوراک فروش کے حوالہ مت کرو کیونکہ خوراک فروش احتکار (گرانفروشی کیلئے روک رکھنے) سے محفوظ نہیں رہتا۔
۴۔ جزار یعنی جانور کو ذبح کرنے والا قرار مت دو کیونکہ اس عمل سے اس کے دل سے رحم سلب ہوجاتی ہے. (قصابی کا پیشہ اختیار کرنے سے رحم دلی ختم ہو جاتی ہے انسان قسی القلب ہو جاتا ہے.)
٥- اسے نخاس (غلام بیچنے والے) کے حوالہ مت کرو کیونکہ حضرت رسولخدا نے فرمایا ہے: بدترین انسان وہ ہے جو انسانوں فروخت کرے۔ (الفروع، علل الشرائع، التہذیب، الاستبصار)
لیکن دیگر مشاغل و پیشوں کے درمیان بعض پیشے و مشاغل کو ائمہؑ طاہرین کی نظر میں زیادہ پسندیدہ اور محبوب شمار ہوتے تھے کہ جن کو ہم بطور مثال ذیل میں مختصراً تحریر کر رہے ہیں:
۱۔ باغبانی اور زراعت کرنا
تفسير عیاشی میں سورہ ابراہیم کی آيت نمبر 12 کے ذیل میں: ..... وَ عَليٰ اللهِ فَليَتَوَكَّلِ المُتَوَكِّلُونَ..... اور تمامتر توکل کرنے والوں کو چاہئے کہ فقط اللہ پر ہی توکل کریں۔ امام صادقؑ سے مروی ہے کہ آنحضرتؑ نے فرمایا کہ "المُتَوَكِّلُونَ" سے مراد حقیقت میں "اَلزَّارِعُونَ" یعنی زراعت و کاشت کاری کرنے والے ہی ہیں۔ [تفسير عیاشی، 2/ 222، ح 6.]
مذکورہ بالا تفسیر کی روایت کو علامہ حر عاملی نے اپنی کتاب وسائل الشیعہ میں بھی نقل فرمایا ہے:
عن أبي عبد الله (ع) في قول الله: (وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ) [ابراہيم ١٤ : ١٢.] قال (ع): الزارعون. (وسائل الشیعہ، 17/ 42، [۲۱۹۳۵]-۵، ۱۰۔ باب استحباب الغرس و الزرع و السقی الطلح و السدر.)
امامؑ کے قول کے مطابق زراعت کرنے والے اللہ کی سر زمین پر خزانے ہیں جیسا کہ ذیل کی روایت سے واضح ہوتا ہے:
عن يزيد بن هارون الواسطي قال: سألت جعفر بن محمّد (ع) عن الفلاّحين؟ فقال: هم الزارعون كنوز الله في أرضه، وما في الأعمال شيء أحبّ إلى الله من الزراعة، وما بعث الله نبياً إلّا زرّاعاً، إلاّ إدريس (ع) فإنّه كان خياطاً. (وسائل الشیعہ، 17/ 41 و 42، [۲۱۹۳۳] ۳، ۱۰۔ باب استحباب الغرس و الزرع و السقی الطلح و السدر.)
یزید ابن ہارون واسطی بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک روز امام صادقؑ سے کاشت کاروں کے بارے میں سوال کیا تو آنحضرت نے جواب میں فرمایا: کاشت کاری کرنے والے اللہ کے خزانے ہیں جو اس کی سرزمین پر ہیں۔ پھر امامؑ نے مزید ارشاد فرمایا: اللہ کی نظر میں کسی بھی چیز کے اعمال میں سے زراعت سے سے زیادہ محبوب کوئی اورنہیں ہے نیز خداوند متعال کے کسی بھی نبی کو مبعوث نہیں فرمایا مگر یہ کہ تمام انبیاء زراعت و کاشت کاری کرتے تھے سوائے ادریس نبی نے خیاطی یعنی درزی کا پیشہ اختیار کیا تھا۔
امام صادقؑ نہ صرف مسلمانوں کو زراعت اور درخت کاری کی ترغیب دیتے تھے بلکہ خود بنفس نفیس عملی طور پران امور میں مشغول رہتے تھے، جیسا کہ مندرجہ ذیل میں کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے:
عن أبي عمرو الشيباني قال: رأيتُ أَبا عَبدِ اللهِ (ع) وَبِيَدِهِ مسحاة وَعَلَيهِ أزار غَلَيظ يَعمل فِي حَائِط لَهُ، وَالعرق يتصابّ عَن ظَهرِهِ، فَقُلتُ: جعلت فِدَاكَ أَعطِنِي أكفكَ، فَقَالَ لِي: إِنِّي أُحِبُّ أَن يَتَأَذّى الرَّجُلَ بِحَرِّ الشَّمسِ فِي طَلَبِ المَعِيشَةِ. (وسائل الشیعہ، 17/ 39، [۲۱۹۲۴]-۷، ۹۔ باب إِستِحبَاب العَمَلِ بِالیَدِ.)
ابو عمر شیبانی کہتے ہیں کہ ایک روز میں نے امام صادقؑ کو ان کے باغوں میں سے ایک باغ میں کام کرنے کے لباس پہنے ہوئےاور بیل یا پھاؤڑا ہاتھ میں لئے ہوئے کام کرنے میں مشغول تھے تو میں دیکھا اور خیال کیا کہ آنحضرت اس قدر دل و جان سے کام میں مشغول تھے کہ بدن مبارک پسینہ سے شرابور تھا، میں امام کی خدمت میں گیا اور عرض کیا: میری جان آپ پر قربان ہو جائے، آپ مجھے اجازت فرمائیں کہ میں خود آپ کے بدلہ میں بیل یا پھاؤڑا چلاؤں اور میں اس سخت کام کو انجام دوں، امام نے اس درخواست کو قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے فرمایا: میں اس بات کو محبوب سمجھتا ہوں کہ حلال رزق و آمدنی کو حاصل کرنے کیلئے آفتاب کی تمازت کی تمازت کو برداشت کرے۔
جی ہاں! بہترین اور پاک و پاکیزہ ترین انسان کی آمدنی اسی وقت ہو سکتی ہے کہ جب پیشانی کے پسینہ اور دست رنج یعنی محنت و مشقت کے ذریعہ رزق حاصل کرے اور رسول اسلام عالم امکان کی پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے ایک محنت کش یا مزدور کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں:
هٰذه ید لا تمسها النار. (اسد الغابہ، 2/ 169.)
یہی ہاتھ ہیں کہ جسے جہنم کی آگ مس بھی نہیں کرے گی۔
۲۔ تجارت اور کار و بار کرنا
امام صادقؑ دیگر مشاغل کے سلسلہ میں یہی تاکید کرتے ہیں کہ تجارت و معاملات حلال ہے کیونکہ آنحضرتؑ اس پر معتقد تھے کہ تجارت کے علاوہ اقتصادی معاملات فائدوں سے سرشار ہوتا ہے جو عقل میں زیادتی، تفکر و تدبیر اور تجربہ کی قدرت میں افزائش کا موجب ہے:
قَالَ الصَّادِقُ (ع): اَلتِّجَارَةُ تزيد فِي العَقلِ.
(وسائل الشیعہ، 17/ 17، [۲۱۸۶۷]-۱۲، ۲۔ باب کَرَاہَة تَرکِ التِّجَارَۃِ.)
اسی وجہ سے آنحضرتؑ فرماتے ہیں: خرید و فروخت کے امور کو انجام دینا یعنی تجارت کرنا عقل میں اضافہ کا باعث ہوتا ہے۔
مزید امامؑ دوسری حدیث میں ارشاد فرماتے ہیں:
عن أسباط بن سالم قال: دخلت على أبي عبد الله (ع) فسألنا عن عمر بن مسلم ما فعل؟ فقلت: صالح ولكنّه قد ترك التجارة، فقال أبو عبد الله (ع): عمل الشيطان ثلاثاً، أما علم أنّ رسول الله ﷺ اشترى عيراً أتت من الشام، فاستفضل فيها ما قضى دينه، وقسّم في قرابته، يقول الله عزّ وجلّ "رِجَالٌ لَّا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَن ذِكْرِ اللهِ" [النور ۲۴ : ۳۷.]
إلى آخر الآية، يقول القصّاص: إنّ القوم لم يكونوا يتّجرون، كذبوا، ولكنهم لم يكونوا يدعون الصلاة في ميقاتها، وهم أفضل ممّن حضر الصلاة ولم يتجر.
(وسائل الشیعہ، 17/ 14 و 15، [۲۱۸۶۰]-۵، ۲۔ باب کراهة ترک التجارۃ.)
اسباط بن سالم نے کہا ہے کہ میں امام صادقؑ کے حضور میں شرفیاب ہوا تو آنحضرتؑ نے مجھ سے پوچھا: محمد بن مسلم کیا کر رہے ہیں؟ (یعنی کیا کر رہے ہیں؟) تب میں نے عرض کیا: ان کا حال اچھا ہے۔ لیکن اب وہ تجارت نہیں کرتے (یعنی تجارت کے مشغلہ کو ترک کر دیا ہے) پس امامؑ نے فرمایا: "تجارت کو ترک کرنا شیطانی عمل ہے"، امامؑ نے مذکورہ جملہ کو تین بار مکرر فرمایا ہے۔ پھر امام نے مزید فرمایا: بیشک رسولخدا ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ جو شام سے آیا کرتے تھے تو ان سے معاملہ کیا کرتے تھے اور اپنی آمدنی کے ایک حصہ سے اپنا قرضہ ادا کرتے تھے اور اپنی آمدنی کا دوسرا حصہ اپنے خاندان کے ضرورت مندوں کے درمیان تقسیم کیا کرتے تھے۔ پس امام نے اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: خداوند عالم نے موحد و متقی تاجروں کے بارے میں ہی فرماتے ہیں: معاملات و تجارت کرنے والے مردوں کو اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی ہے. (سورہ نور، آیت 37.) یعنی تجارت کی مشغولیت انہیں اللہ کی یاد سے غافل نہیں کرتی۔
★ پیشہ وروں کیلئے امامؑ کی حیات بخش دستاویز
امام صادقؑ کی اقتصادی سیرت میں امانتدار اور صادق تاجروں کو ایک اعلی و ارفع مقام و منزلت رکھتے ہیں۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل روایت سے ثابت ہوتاہے:
عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَيَابَةَ قَالَ: لَمَّا هَلَكَ أَبِي سَيَابَةُ جَاءَ رَجُلٌ مِنْ إِخْوَانِهِ إِلَيَّ فَضَرَبَ الْبَابَ عَلَيَّ فَخَرَجْتُ إِلَيْهِ فَعَزَّانِي وَ قَالَ لِي هَلْ تَرَكَ أَبُوكَ شَيْئاً فَقُلْتُ لَهُ لَا فَدَفَعَ إِلَيَّ كِيساً فِيهِ أَلْفُ دِرْهَمٍ وَ قَالَ لِي أَحْسِنْ حِفْظَهَا وَ كُلْ فَضْلَهَا فَدَخَلْتُ إِلَى أُمِّي وَ أَنَا فَرِحٌ فَأَخْبَرْتُهَا فَلَمَّا كَانَ بِالْعَشِيِّ أَتَيْتُ صَدِيقاً كَانَ لِأَبِي فَاشْتَرَى لِي بَضَائِعَ سَابِرِيٍّ وَ جَلَسْتُ فِي حَانُوتٍ فَرَزَقَ اللهُ جَلَّ وَ عَزَّ فِيهَا خَيْراً كَثِيراً وَ حَضَرَ الْحَجُّ فَوَقَعَ فِي قَلْبِي فَجِئْتُ إِلىٰ أُمِّي وَ قُلْتُ لَهَا إِنَّهَا قَدْ وَقَعَ فِي قَلْبِي أَنْ أَخْرُجَ إِلىٰ مَكَّةَ فَقَالَتْ لِي فَرُدَّ دَرَاهِمَ فُلَانٍ عَلَيْهِ فَهَاتِهَا وَ جِئْتُ بِهَا إِلَيْهِ فَدَفَعْتُهَا إِلَيْهِ فَكَأَنِّي وَهَبْتُهَا لَهُ فَقَالَ لَعَلَّكَ إسْتَقْلَلْتَهَا فَأَزِيدَكَ قُلْتُ لَا وَ لٰكِنْ قَدْ وَقَعَ فِي قَلْبِيَ الْحَجُّ فَأَحْبَبْتُ أَنْ يَكُونَ شَيْئُكَ عِنْدَكَ ثُمَّ خَرَجْتُ فَقَضَيْتُ نُسُكِي ثُمَّ رَجَعْتُ إِلٰى الْمَدِينَةِ فَدَخَلْتُ مَعَ النَّاسِ عَلىٰ أَبِي عَبْدِ اللهِ (ع) وَ كَانَ يَأْذَنُ إِذْناً عَامّاً فَجَلَسْتُ فِي مَوَاخِيرِ النَّاسِ وَ كُنْتُ حَدَثاً فَأَخَذَ النَّاسُ يَسْأَلُونَهُ وَ يُجِيبُهُمْ فَلَمَّا خَفَّ النَّاسُ عَنْهُ أَشَارَ إِلَيَّ فَدَنَوْتُ إِلَيْهِ فَقَالَ لِي أَ لَكَ حَاجَةٌ فَقُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ أَنَا عَبْدُ الرَّحْمٰنِ بْنُ سَيَابَةَ فَقَالَ لِي مَا فَعَلَ أَبُوكَ فَقُلْتُ هَلَكَ قَالَ فَتَوَجَّعَ وَ تَرَحَّمَ قَالَ ثُمَّ قَالَ لِي أَ فَتَرَكَ شَيْئاً قُلْتُ لَا قَالَ فَمِنْ أَيْنَ حَجَجْتَ قَالَ فَابْتَدَأْتُ فَحَدَّثْتُهُ بِقِصَّةِ الرَّجُلِ قَالَ فَمَا تَرَكَنِي أَفْرُغُ مِنْهَا حَتّىٰ قَالَ لِي فَمَا فَعَلْتَ فِي الْأَلْفِ قَالَ قُلْتُ رَدَدْتُهَا عَلَى صَاحِبِهَا قَالَ فَقَالَ لِي قَدْ أَحْسَنْتَ وَ قَالَ لِي أَ لَا أُوصِيكَ، قُلْتُ بَلَى، جُعِلْتُ فِدَاكَ۔ فَقَالَ: عَلَيْكَ بِصِدْقِ الْحَدِيثِ وَ أَدَاءِ الأَمَانَةِ. تَشْرَكُ النَّاسَ فِي أَمْوَالِهِمْ هٰكَذَا وَ جَمَعَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ، قَالَ فَحَفِظْتُ ذٰلِكَ عَنْهُ فَزَكَّيْتُ ثَلَاثَمِائَةِ أَلْفِ دِرْهَمٍ.
(الکافی، 5/ 134 ح 9)
آنحضرتؑ سے عبد الرحمن بن سیابہ روایت بیان کرتے ہیں: جب میرے والد اس دنیا سے چلے گئے تو میرے والد کے دوستوں میں سےایک دوست ہمارے گھر پر تشریف لائے اور تعزیت و تسلیت کے بعد انہوں نے کہا: کیا تمہارے والد نے کوئی میراث باقی چھوڑی ہے تا کہ تم اس کے ذریعہ ذریعہ معاش کا بندو بست کر سکو؟ میں نے جواب میں کہا: نہیں! تب انہوں نے ایک ہزار درہم (یعنی کہ آج کل کے اعتبار سے مبلغ تقريبا ۲,۳۸,۵۴۶ روپئے) پر مشتمل ایک تھیلی تھی جسے میرے حوالہ کرتے ہوئے کہا: اس سرمایہ کو اچھی طرح سے محفوظ رکھو اور اس کے نفع سے اپنی زندگی کا خرچ چلاؤ! میں بہت خوش ہو کر اپنی والدہ کے پاس دوڑا دوڑا گیا اور انہیں اس واقعہ سے باخبر کیا، پھر رات کے وقت میں اپنے والد کے دوستوں میں سے ایک دوست کی خدمت میں پہونچایا اور انہوں نے میرے لئے تجارت کے مقدمات فراہم کئے۔ اس طرح ان کے تعاون سے کچھ مقدار میں کپڑا مہیا کیا اور میں ایک دکان میں تجارت کی خاطر مشغول ہوا، بفضل الہی کار تجارت نے رونق پکڑی اور پھر میں مختصر سے زمانہ میں مستطیع ہو گیا اور سفر حج کا عزم کر کے نکل پڑا۔
سفر حج کے ارادہ سے نکلنے سے پہلےمیں اپنی والدہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے ارادہ سے انہیں آگاہ کرتے ہوئے سفر حج کی تجویز رکھی، میری والدہ نے مجھ سے سفارش فرمائی کہ اے میرے بیٹے! فلاں (یعنی میرے والد کے دوست) کے قرض کو پہلے ادا کرو، اس کے بعد سفر حج پر جاؤ! میں نے بھی ایسا ہی کیا، ان کی عطار کردہ مبلغ انہیں واپس کیا تو صاحب مال بہت زیادہ خوش ہوئے گویا کہ میں نے انہیں اپنی ہی جیب سے انہیں وہ ایک ہزار درہم کی رقم (یعنی کہ آج کل کے اعتبار سے مبلغ تقريبا ۲,۳۸,۵۴۶ روپئے) عطا کی ہے اور انہوں نے مجھ سے پوچھا: اس رقم کو تم نے مجھے کیوں دیا ہے، شائد مذکورہ رقم کچھ کم تھی؟ تو میں نے جواب میں کہا:نہیں! بلکہ میں سفر حج پر جانے کا رادہ رکھتا ہوں لہذا میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کسی کا مال میرے ذمہ رہے۔
پھر میں نے مکہ کی طرف عزم کیا اور اعمال حج انجام دینے کے بعد مدینہ امام صادق کی خدمت میں شرفیابی سے مشرف ہوا، اس روز امامؑ کے بیت الشرف پر بہت مجمع تھا، اس وقت میں ابھی جوان ہی تھا نیز مجمع کی آخری صف میں کھڑا ہو گیا، لوگ امامؑ کے قریب جاتے اور زیارت کے بعد لوگ اپنے سوالوں کے جواب آنحضرتؑ سے دریافت کرتے تھے۔
جس وقت امامؑ کی مجلس میں خلوت ہوئی تو امامؑ نے مجھے اشارہ فرمایا اور میں آنحضرتؑ کے قریب گیا۔ تب امامؑ نے فرمایا: کیا تمہیں مجھ سے کوئی کام ہے؟ تو میں نے عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں! میں عبد الرحمن بن سیابہ ہوں۔ پھر امامؑ نے مجھ سے فرمایا: تمہارے والد کیا کام کرتے ہیں؟ تو میں نے عرض کیا: وہ تو اس دنیہا سے کوچ کر گئے ہیں۔ تب آنحضرتؑ محزون ہوئے اور مجھے تعزیت پیش کیا اور میرے والد کیلئے رحمت کی دعا فرمائی۔ پس امامؑ نے مجھ سے پوچھا: کیا انہوں نے تمہارے لئے مال دنیا میں سے کوئی چیز میراث میں چھوڑا ہے؟ میں نے عرض کیا: نہیں! پھر امامؑ نے ارشاد فرمایا: تب تم کس طرح مکہ سے مشرف ہوئے؟ تو میں نے اپنے والد کے ایک نیک دوست اور اپنے تجارت کی داستان کو آنحضرتؑ کی خدمت میں (کچھ تفصیلی تو کچھ مختصر سی) عرض کیا۔
ابھی میری بات تمام بھی نہیں ہوئی تھی کہ امامؑ نے پوچھا: تم نے اس شخص کی ایک ہزار درہم امانت کا کیا کیا؟ میں نے عرض کیا: اے فرزند رسولخدا! وہ رقم تو میں نے اس کے مالک کو سفر حج سے پہلے ہی واپس کردی ہے۔ امامؑ نے خوشی کے ساتھ ارشاد فرمایا: أَحسَنت! پھر آنحضرتؑ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایک سفارش کروں؟ میں نے عرض کیا: میری جان آپ پر قربان ہو جائے! البتہ آپ میری راہنمائی فرمائے! تب امامؑ نے ارشاد فرمایا: تم پر صداقت اور امانتداری لازمی و ضروری ہے کہ اس صورت میں تم لوگوں کے مال میں شریک رہو گے پھر امامؑ نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو ایک ساتھ ملایا اور فرمایا: اس طرح سے ہو گے۔ عبد الرحمن بن سیابہ کہتے ہیں: امامؑ کی سفارش کے مطابق عمل کرنے کی وجہ سے میری مالی حالت اس قدر بہتر ہوگئی کہ ایک مختصر سی مدت میں ہی ٣؍ لاکھ درہم (یعنی کہ آج کل کے اعتبار سے مبلغ تقريبا ۷,۱۵,۶۳,۸۰۰ روپئے) اپنے مال کی زکات ان کے مستحقین کو ادا کیا۔
(الکافی، 5/ 134 ح 9؛ بحار الانوار، 47/ 384.)
نوٹ: ہم نے ا؍ درہم جو زیادہ سے زیادہ ۳ء۵؍ گرام کے برابر وزن كي چاندی کا سکہ ہوتا ہے کو منتخب کیا ہے۔ پس ۱؍ درہم آج کل کے مروجہ روپئے کے لحاظ سے تقریبا ۲۳۸ء۵۴۶ ₹ قرار پائے گا۔ (مترجم)
★ آئندہ کیلئے سرمایہ محفوظ کرنا
یعنی مستقبل کی خاطر بچت کرنا
★ عَنْ مِسْمَعٍ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي عَبْدِ اللهِ (ع) إِنَّ لِي أَرْضاً تُطْلَبُ مِنِّي وَ يُرَغِّبُونِّي فَقَالَ لِي يَا أَبَا سَيَّارٍ أَ مَا عَلِمْتَ أَنَّ مَنْ بَاعَ الْمَاءَ وَ الطِّينَ ذَهَبَ مَالُهُ هَبَاءً قُلْتُ جُعِلْتُ فِدَاكَ إِنِّي أَبِيعُ بِالثَّمَنِ الْكَثِيرِ وَ أَشْتَرِي مَا هُوَ أَوْسَعُ رُقْعَةً مِمَّا بِعْتُ قَالَ فَلَا بَأْسَ۔
امام صادقؑ ہمیشہ یہ سفارش فرمایا کرتے تھے: ہر شخص کو اپنے آئندہ کیلئے بچت کرنا بھی چاہئے تا کہ خدا نکردہ اس کیلئے کوئی مشکل پیش آتی ہے یا پیسے کی اشد ضرورت پڑی جاتی ہے تب دوسروں کا محتاج نہ رہے۔ امامؑ کے ایک صحابی بنام مِسمَعؒ کہتے ہیں: ایک روز میں نے اپنے مولا حضرت صادقؑ کی خدمت میں مشورہ کی خاطر عرض کیا: اے میرے مولا و آقا! میرے پاس ایک زمین موجود ہے کہ اس کیلئے ایک بہتر خریدار آیا ہے اور مناسب قیمت پر زمین کا مطالبہ کر رہا ہے۔ پس امامؑ نے فرمایا: اے ابو سیار! کیا تم جانتے ہو کہ جو شخص بھی اپنی ملکیت میں سے پانی اور مٹی بیچے گا تو اس کی قیمت کا مال برباد ہو جائیے گا۔ میں نے امامؑ عرض کیا: میں آپؑ پر قربان جاؤں! اسے اچھی قیمت میں بیچوں گا اور موجودہ رقبہ سے زیادہ وسیع زمین خریدوں گا۔ امامؑ نے فرمایا: مذکورہ صورت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (الکافی، 5/ 92. ح 8)
★ عن جعفر بن محمّد (ع) في حديث طويل ـ قال: ثم من قد علمتم في فضله وزهده سلمان وأبو ذر رحمهما الله، فأمّا سلمان فكان إذا أخذ عطاءه رفع منه قُوته لسنته، حتى يحضر عطاؤه من قابل. فقيل له: يا أبا عبد الله أَنتَ فِي زُهدِكَ تصنع هٰذا؟ وأنت لا تدري لعلك تموت اليوم أو غداً، فكان جوابه أن قال: مالكم لا ترجون لي البقاء كما خفتم عليّ الفناء؟ أما علمتم يا جهلة أنّ النفس قد تلتاث على صاحبها إذا لم يكن لها من العيش ما تعتمد عليه، فإذا هي أحرزت معيشتها اطمأنّت.
(وسائل الشیعہ، 17/ 435، [۲۲۹۲۹]-۴، ۳۱۔ بَاب إِستِحبَاب إِدخَار قُوتِ السِّنَةِ وَ تَقدِیمِهِ عَلیٰ شِرَاءِ العقدۃ.)
امام جعفر صادقؑ فرماتے ہیں: پیغمبر اسلامؐ کے اصحاب میں سے قریب ترین صحابی کو فضل و زہد اور تقوی میں آپ لوگ جانتے ہو جن کے نام سلمانؒ اور ابو ذرؒ ہیں۔ جناب سلمانؒ کی زندگی کا طرز عمل اس طرح کا تھا کہ جس وقت بھی بیت المال میں سے آپؒ کو سالانہ حصہ کی نقد یا جنس حاصل کرتے تھے تو ایک سال کے مخارج کو محفوظ کر دیتے تھے یہاں تک کہ آئندہ میں ملنے والے حصہ کا وقت آن پہونچتا تھا۔ لوگوں نے بطور اعتراض کہا: اے ابو عبد اللہؒ! آپؒ اس قدر صاحب زہد و تقوی ہو پھر بھی اپنے مستقبل کیلئے ذخیرہ کرتے ہو! اگر آج اور کل میں موت تم تک پہونچ جائے! (پھر تو یہ سرمایہ محفوظ کرنا کس کام کا رہے گا؟!) جناب سلمانؒ جواب میں فرماتے تھے: تم لوگ مرنے کی ہی فکر کیوں کرتے ہو اور زندہ رہنے کے بارے میں خیال نہیں کرتے؟ اے جاہل انسانو! تم لوگ اس نکتہ کی طرف سے غفلت کرتے رہتے ہو کہ انسان کا نفس اگر کافی مقدار میں زندگی کے وسائل نہیں رکھے گا تو حق تعالی کی اطاعت میں سستی اور کوتاہی کرتا ہے اور نشاط و قوت سے محروم ہو جاتا ہے؛ لیکن اسی قدر جتنی اسے ضرورت و حاجت ہے مال دنیا اور وسائل زندگی فراہم کرے گا تو اطمینان و آرام کے ساتھ مزید حق تعالی کی اطاعت میں مشغول رہے گا۔
★ عَنْ عَمْرِو بْنِ جُمَيْعٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللهِ (ع) يَقُولُ لَا خَيْرَ فِي مَنْ لَا يُحِبُّ جَمْعَ الْمَالِ مِنْ حَلَالٍ يَكُفُّ بِهِ وَجْهَهُ وَ يَقْضِي بِهِ دَيْنَهُ وَ يَصِلُ بِهِ رَحِمَهُ.
امام صادقؑ نے فرمایا ہے: جو شخص بھی حلال راستے سے اور اپنی آبرو محفوظ رکھنے کی خاطر اور قرض کی ادائیگی کے واسطہ اور اپنے اہل و عیال کے اخراجات کیلئے مال حاصل کرنے کو محبوب نہ سمجھے تو اس شخص میں کوئی بھی خیر نہیں ہے۔ (الکافی، 5/ 72، ح 5.)
★ اقتصادی فعالیت کی اہمترین شرط
اسلام کی نظرمیں اقتصادی فعالیتیں انسانی کمالات و فضائل کی منصوبہ ساز ہوتی ہیں اور اگر ایک فرد اس تحریک و مقصد کے ساتھ اقتصاد کے میدان میں وارد ہوگا تو مادی و ظاہری منفعت پر اضافہ کے ساتھ اور معنوی و روحانی فائدہ سے بھی بہرہ مند ہوتا رہے گا۔
عَن عَبدِ اللهِ بنِ أَبِي يَعفُور قَالَ: قَالَ رَجلٌ لِأَبِي عَبدِ اللهِ (ع) : وَاللهِ إِنَّا لنطلب الدُّنيَا، وَنحبّ أن نؤتاها، فَقَالَ: تحبّ أن تصنع بها ماذا؟ قال: أعود بِهَا عَلىٰ نَفسِي وَعِيَالِي، وأصل بِهَا، وَأتصدّق بِهَا، وَأحجّ وَأعتمر، فَقَالَ أَبُو عَبدِ اللهِ ؈: لَيسَ هٰذا طَلَبُ الدُّنيَا، هٰذَا طَلَبَ الآخِرَةِ. (وسائل الشیعہ، 17/ 34، [۲۱۹۱۰]-۳، ۷۔ بَاب إِستِحبَاب جمع المال مِن حَلَال لِأَجل النفقة فِی الطَّاعَات وَ کَرَاهَة جَمعه لِغَیرِ ذٰلِکَ.)
عبد الله بن ابی یعفور کہتے ہیں کہ میں امام صادقؑ کی خدمت میں حاضر تھا کہ ایک شخص نے آنحضرتؑ سے عرض کیا: خدا کی قسم ہم دنیا کے پیچھے جاتے ہیں اور ہم محبوب رکھتے ہیں کہ اسے حاصل کریں۔ تو امامؑ نے فرمایا: تم دنیا طلبی کے ساتھ اور آمدنی کے حاصل کرکے کیا کرو گے؟ تو اس شخص نے جواب میں عرض کیا: میں چاہتا ہوں کہ اپنی ضرورتوں کو بر طرف کروں، اپنے خاندان کی خبر گیری کروں، صدقہ ادا كروں اور احسان کروں اور حج و عمرہ بھی انجام دوں۔ آنحضرت نے فرمایا: یہ تو دنیا طلبی نہیں ہے؛ یہی تو آخرت کے پیچھے دوڑنا اور ثواب الہی کے پیچھے جانا ہے۔
انسان کا آمدنی کے حصول اور مادی منفعت کے پیچھے جانا تقرب الہی کی نیت سے ہی جانا چاہئے اور اسے الہی مقاصد تک پہونچنے کیلئے وسیلہ قرار دینا چاہئےو گرنہ دنیا طلبی ایک بری اور ناپسند امر قرار پائے گا؛ چنانچہ بعض افراد دنیا کی دولت و ثروت جمع کرنے کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، اس حالت میں کہ ان میں کوئی بھی مادی و معنوی اور خیر و بھلائی کا ہدف ہی مد نظر نہیں ہوتا، کبھی کبھی تو اس برح کے افراد مال کے جمع کرنے میں اتنے حریص ہوتے ہیں یہاں تک کہ خود اپنی اور اپنے خاندان کی سلامتی کو ثروت اندوزی کی راہ میں قربان کر دیتے ہیں۔
مكارم الأخلاق: من كتاب اللباس المنسوب إلىٰ العياشي، عن أبي السفاتج، عن بعض أصحابه أنه سأل أبا عبد الله (ع) فقال: إنا نكون فِي طَرِيقِ مَكَّةٍ فَنريد الإِحرَام فلا يكون معنا نخالة نتدلك بها من النورة، فندلك بالدقيق، فيدخلني من ذلك ما الله به أعلم، قَالَ: مخافة الإِسرَاف؟ قُلتُ: نَعم، قَالَ: "لَیسَ فِیمَا أَصلَحَ البَدَن إِسرَاف"، أنا ربما أمرت بالنقي فيلت بالزيت فأتدلك به، "إِنَّمَا الإِسرَاف فِیمَا أَتلَفَ المَال وَ أَضَرَّ بِالبَدَنِ"، قُلتُ: فَمَا الإِقتَار؟ قَالَ: أَكلُ الخُبز وَالمِلح وَأَنتَ تقدر عَلىٰ غَيرِهِ، قُلتُ: فَالقَصد؟ قَالَ: اَلخُبزُ وَاللَّحمُ وَاللَّبَنُ وَالزِّيتُ وَالسَّمَنُ مَرَّةً ذَا وَمَرَّةً ذَا. (تہذیب الاحکام، 1/ 377؛ بحار الانوار، ۷۲/ ۳۰۳)
ایک حدیث میں امام صادقؑ ایسے ہی لوگوں کو ہوشیار کرنے کیلئے فرماتے ہیں: بدن کی اصلاح و سلامتی کیلئے جو کچھ خرچ کرو گے وہ اسراف نہیں ہے؛ بتحقیق اسراف کا مقام ہی وہ ہے کہ جہاں پر انسان مال کو خرچ کرنے کے بعد کوئی فائدہ حاصل نہ کر سکے یعنی مال تلف ہو جائے اور بدن کو بھی ضرر پہونچے مطلب یہ کہ انسانی بدن کی صحت کو نقصان پہونچے۔ پس یہی تو اسراف ہے.
امام صادقؑ کی نظر میں جو شخص بھی دنیا کو آخرت کے وسیلہ کی حیثیت سے فائدہ اٹھائے گا اور جو دنیا پرستی اور ثروت اندوزی کو ہی اپنا پیشہ قرار دے گا تو ان دونوں کے فرق کو واضح طور پر بیان فرماتے ہیں، اسی بنا پر مال دنیا سے دلبستگی رکھنے والے اور دنیا پرستی کا اظہار کرنے والے افراد پر لعنت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللهِ (ع) قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَنْ عَبَدَ الدِّينَارَ وَ الدِّرْهَمَ، مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَنْ كَمِهَ أَعْمَى (عَن وِلَایَةِ أَهلِ بَیتِی)، مَلْعُونٌ مَلْعُونٌ مَنْ نَكَحَ بَهِيمَةً.
امام جعفر صادقؑ نے رسولخدا کی حدیث کو نقل کیا ہے: لعنت ہے نیز وہی شخص خدا کی لعنت کا مستحق ہے جو دینار اور درہم کا غلام ہوتا ہے، وہ شخص (بھی) ملعون و خدا کی لعنت کا حقدار ہے جو میری اہلبیت کی ولایت کی طرف سے اندھا ہوتا ہے، وہی شخص ملعون (بھی) ہے نیز خدا کی لعنت کے قابل ہے جو حیوانات سے بد فعلی کا مرتکب ہوتا ہے۔ (اصول کافی، 2/ 270، ح 9، باب الذنوب، حدیث 9؛ بحار الانوار، ۷۰/ ۳۱۹، ح ۷.)
تو دوسری طرف امام صادقؑ اپنے چاہنے والوں سے سفارش کرتے ہوئے تاکید فرماتے ہیں:
عَن عُمَر بنِ سَيف الأَزدِي، قَالَ: قَالَ لِي أَبُو عَبدِ اللهِ جَعفَر بنِ مُحَمَّد (ع): لَا تَدَع طَلَبَ الرِّزقِ مِن حِلِّهِ، فَإِنَّهُ عَونٌ لَكَ عَلىٰ دِينِكَ، وَإِعقِل رَاحِلَتَكَ وَتَوَكَّل.
(وسائل الشیعہ، 17/ 34، [۲۱۹۱۲]-۵، ۷۔ باب إِستِحبَاب جَمع المَال مِن حَلَال لِأجل النَّفقَةِ فِی الطَّاعَاتِ وَ کَرَاہَةِ جمعهُ لِغَیرِ ذٰلِکَ.)
حلال راہوں سے طلب رزق کو (ہرگز) ترک مت کرو؛ کیونکہ حلال مال تمہارے دین میں تمہارا معاون و مددگار ہے اور اپنی سواری کی رسی (عقال) کو اچھی طرح باندھ لو پھر اللہ ہی پر توکل رکھو۔
کار و تلاش اقتصادی از دیدگاه امام صادقؑ
تحریر : حجت الاسلام عبد الکریم پاک نیا تبریزی
منبع : کیهان
ایک تبصرہ شائع کریں