عاشورا کے پیغامات
فہرست مطالب
1. اعتقادي پیغامات
١. مقصد تخلیق و معاد میں توحيد و ايمان رکھنا
٢. پيغمبر کی رسالت پر عقیدہ رکھنا
٣. ولایت و امامت کا عقیدہ رکھنا
٤. شفاعت کا عقیدہ رکھنا
٥. بدعت سے مقابلہ کرنا
2. اخلاقي پیغامات
١. آزادی و حریت کا ہونا
۲. ايثار و قربانی کا مظاہرہ کرنا
۳. اللہ پر توکّل رکھنا
۴. نفس کے ساتھ جہاد کرنا
۵. شجاعت و بہادری کا اظہار کرنا
۶. صبر و پائیداری رکھنا
۷. عزّت و افتخار ظاہر کرنا
۸. حجاب، عفت و پاکدامنی کو اپنانا
۹. تکلیف شرعی پر عمل کرنا
۱۰. غيرت و حمیت سے الفت رکھنا
۱۱. کرامت نفسی و جواں مردي کا اظہار کرنا
۱۲. مواسات، ہمدردی و غمخواری رکھنا
۱۳. وفادار ہونا
3. عرفاني پیغامات
١. پر خلوص ہونا
۲. امتحان و ابتلا کی مقام پر ہونا
۳. تسليم و رضا کی منزل میں ہونا
۴. طالب شهادت ہونا
۵. خداوند عالم سے با معرفت محبت کا اظہار کرنا
۶. خدا کو ياد رکھنا
4. تاريخي پیغامات
١. حجت کو تمام کرنا
۲. دشمن کا انکشاف کرنا
۳. سقیفه ہی عاشورا کیلئے سبب بنا
۴. عبرت انگیز اور سبق آموز ہونا
5. سماجی سياسي پیغامات
١. معروف کا حکم دینا و منکر سے باز رکھنا
۲. معاشرہ و سماج کی اصلاح کرنا
۳.مسلحانه جهاد کرنا یعنی جهاد اصغر
۴. عدل و انصاف کا مطالبہ کرنا
۵. عزت و سعادت کا مطالبہ کرنا
۶. ہجرت کرنا
6. بیداری کے پیغامات
١. کتاب و سنت کو زندہ کرنا
۲. دين و مذهب کو زندہ کرنا
٣. نماز قائم کرنا
حاصل و نتیجه بحث
$}{@J@r
امام حسینؑ و اصحاب با وفا کے کلمات جو نقل ہوئے ہیں اس روحانی و پر جوش تحریک عاشورا کے مقصد کو واضح، روشن طور پر بیان کرتے ہیں اور طویل صدیوں میں انسانوں نے اس سے درس و عبرت کے طور پر فائدہ اٹھایا ہے کو آشکار کرتا ہے اور اپنی تعلیمات کو تمام افراد کیلئے ظاہر کرتا ہے۔
ہم اس مختصر تحریر میں عاشورا کے پیغامات، اسباق، دروس و عبرتوں کو جس نے اس خونریز انقلاب اور جہاد کو برپا کیا ہے خود انہیں کی زبانی بیانات یہاں درج کر رہے ہیں۔
١. اعتقادی پیغامات
١. مقصد تخلیق و معاد میں توحيد و ايمان رکھنا:
مقصد خلقت و معاد میں توحید و ایمان راہ خداوند عالم میں جہاد، قربانی و ایثار کیلئے اہمترین عامل ہے، ایسا اعتقاد رکھنے کا محور امام حسینؑ کے کلمات، اشعار و رجز اور ان کے اصحاب کے نقوش میں ملتا ہے.جس وقت حر کے لشکر نے امام حسینؑ کے قافلہ کا راستہ بند کیا تو آنحضرت نے اس ضمن میں ایک خطبہ بیان کرتے ہوئے فرمایا: «میرا بھروسہ خدا پر ہی ہے نیز وہی مجھے تم لوگوں سے بے نیاز کرے گا.»
عاشورا کے روز جب اپنی بہن کو بیتاب و بیچین دیکھا تو آنحضرت فرماتے ہیں: «اے میری بہن! خدا کو ہی اپنی نظر میں رکھو، جان لو کہ زمین پر پر رہنے والی تمام مخلوقات موت سے ہمکنار ہوگی، آسمانی مخلوقات بھی موت سے نہ بچ سکے گی، یہاں تک کہ ہر چیز کیلئے موت ہے سوائے خالق کائنات خداوند عالم کے ہر مخلوق ختم ہوجائے گی»
عاشورا کی صبح کو بھی جب کوفہ کے لشکر نے شور و غل کرتے ہوئے فوجی چھاؤنی میں دوڑے تو آنحضرت نے خداوند عالم سے مناجات کرتے ہوئے یہی فرماتے ہیں: «ہر مصیبت، شدت و بلا میں میری تکیہ گاہ و امید تو ہی ہے اور ہر ایک حادثہ جو میرے لئے رونما ہوتا ہے تو ہی میرا پشت پناہ ہے»!
معاد کا عقیدہ انسان کی فطرت کے رشتوں کو دنیا سے منقطع کرتا ہے اور وہ مدد پہونچاتا ہے تاکہ واجب عمل کے راستہ میں اطمینان کے ساتھ اپنی جان کو بھی قربان کر سکتا ہے.قرآن حکیم:
وما خلقت الجن والإنس إلا ليعبدون.
۲. پيغمبر کی رسالت پر عقیدہ رکھنا:
بعد پيغمبر امت ٹوٹ پھوٹ و اختلاف کا شکار ہوگئی، بعض آنحضرت کے دین و سنت کے وفادار باقی رہے، لیکن لوگوں کی اکثریت بدعت و ضلات سے دچار ہمکنار ہوگئے. مکہ میں حضرت سید الشہدا نے ابن عباس کے ساتھ بنی امیہ کے سلسلہ میں جو بات چیت کرتے تھے اور ان سے پوچھا: «تمہارا نظریہ ان لوگوں کے بارے میں کیا ہے میں جو اپنے پیغمبر کی بیٹی کو ان کی جائے پیدائش، گھر اور وطن سے نکال دیا اور انہیں آوارہ دشت و بیابان کیا اور انکے قتل کے پیچھے پڑ گئے نیز اس کا خون بہانا چاہتے ہیں؟
اس حالت میں کہ وہ پیغمبر کا بیٹا نہ تو خدا کیلئے کسی شریک کا قائل ہوا، نہ ہی غیر خدا کو اپنا سرپرست بنایا اور نہ ہی پیغمبر خدا کے دین و قانون سے دوری اختیار کی ہے».
ابن عباس نے جواب میں عرض کیا: «اس کے بارے میں میں کچھ بھی نہیں کہوں گا سوائے اس آیت قرآنی کی تلاوت کے: (وہ لوگ خدا و اس کے پیغمبر کے سلسلہ میں کافر ہوئے.....)
اس کے بعد آنحضرت نے فرمایا: "خدایا تو گواہ رہنا کہ ابن عباس نے صراحت کے ساتھ ان کی نسبت خدا و رسولؐ کے سلسلہ میں کفر کی گواہی دی".
سفر کے دوران بھی امامؑ اور ان کے خاندان مسلسل رسولخداؐ کو یاد کرتے تھے اور اپنے آپ کو آنحضرت کی نسل سے پہچنواتے تھے و اس پر افتخار کرتے تھے نیز اپنی شرافت و کرامت کو اسی میں جانتے تھے.
۳. ولایت و امامت کا عقیدہ رکھنا:
اسلام کا سیاسی فلسفہ معاشرہ و سماج کو چلانے کیلئے دین پر مبنی امامت کی شکل و صورت میں تجلی پاتا ہے، اہلبیت پیغمبر ذاتی صلاحیتوں کے لحاظ سے دوسروں کی بنسبت اس مسلمانوں کی خلافت کے عہدہ کیلئے دوسروں سے کہیں زیادہ لائق و فائق ہیں، جو کچھ غدیر خم میں واقع ہوا کئی بار کیلئے پھر سے تاکید تھی کہ رسولخداؐ کے بعد امت کی رہبری کیلئے مناسبترین فرد انکے بعد یعنی امیر المومنینؑ عہدہ دار تھے، ہر چند کہ عہدہ پرست و زور مدار بعض افراد نے سقیفہ میں شور و غل مچا کر مسلمانوں کی امامت کو دوسرے راستہ پر لگا دیا اور امت کو حضرت علیؑ کی امامت سے محروم کر دیا، لیکن یہی ان مسلم حق تھا اور خود وہ بھی خلافت تک پہونچنے سے پہلے نیز انکے بعد خلفاء و معاویہ کے ساتھ اختلافات و احتجاجات کرتے رہے اور انکی شہادت کے بعد شیعوں کے دیگر اماموں نے بھی اسی حق مسلم کی تاکید کرتے رہے نیز خلافت کو اپنا حق اور دوسروں کو غاصب شمار کرتے رہے۔
عاشورا کی تحریک اس مطالبہ حق و نابودی باطل اس اہمترین رکن کا اسلامی سماج و معاشری کے ساتھ ربط و ضبط رکھتا تھا، امام حسینؑ نے کوفی کے راستہ میں سپاہ حر سے ملنے کے بعد ایک خطبہ ارشاد دیتے ہوئے اس طرح فرمایا:
"و نحن أهل بيت محمد (ص) أولى بولاية هذا الأمر من هؤلاء المدعين ما ليس لهم و السائرين بالجور و العدوان"
«اے لوگو! اگر تقوائے الٰہی اختیار کرو اور حق کو اسکے حقدار کیلئے پہچانو، خدا تم سے زیادہ راضی ہوگا، ہم پیغمبر کی اولاد و نسل ہیں اور تم پر اس امر ولایت و عہدہ داری کیلئے ہم سب سے زیادہ لائق و فائق ہیں جب کہ دوسرے جو ناحق مدعی ہوتے ہیں و تمہارے درمیان ظلم و ستم کی حکومت کرتے ہیں».
پیغام عاشورا یہی ہیکہ اسلامی معاشرہ و سماج میں ولایت و حاکمیت کا حق مناسب ترین افراد کو ہی ہے؛ یعنی کہ جو فرد تعہد ایمانی میں افضلیت رکھتا ہے اور فرامین قرآن و خالص اسلام کو معاشرہ کی ہدایت کے جاری کرنے کیلئے جد و جہد کرے نیز اپنی اس کی حکومت کا طریقہ کار عدل و انصاف پر ہی مبنی ہونا چاہئے۔
۴. شفاعت کا عقیدہ رکھنا:
پیغمبر اکرمؐ و اہلبیتؑ اطہار کیلئے قیامت میں شفاعت کے مقام کو شیعہ اعتقاد میں ایک اہمترین رکن ہے، جب کوفہ میں امام سجادؑ کو اس رقت بار حالت میں زنجیر میں دست بستہ لائے تو آنحضرتؑ ایک خطبہ کے ضمن میں چند اشعار بیان کرتے ہوئے اشارہ فراماتے ہیں: «اگر قیامت کے روز ہم اور رسولخدا یکجا جمع ہو جائیں گے تو تم لوگ ان سے کیا کہو گے؟ اور کیا کلمات کہنے کیلئے ہوں گے یا معذرت طلب کرو گے؟».
جناب زینبؑ نے بھی کوفہ میں ایک خطبہ دیا اس میں ایک شعر کو مثال کے طور پر بیان کیا ہے: «اس وقت (قیامت میں) جب پیغمبر اکرمؐ تم سے پوچھیں گے کہ تم لوگوں نے کیا؟ کہ تم تو آخری زمانہ کی امت ہو تو تمہارے پاس کیا جواب ہوگا؟».
شفاعت کے اعتقاد میں دشمنوں کے عمل کرنے پر ياد دہاني بھی ایک طرح سے ملامت بھی ہوگی، کیونکہ ان لوگوں کی جنایت و جرم پیغمبرؐ اسلام کی ذریت کے ساتھ آنحضرت کی شفاعت کے عقیدہ کے بر خلاف ہے.
شفاعت کی امید و درخواست ان کیلئے جیسا کہ زیارت ناموں میں مذکور ہے، یہی تربیت کی تاثیر رکھتا ہے جیسا کہ یہ جملے زیارت امام حسینؑ میں ہم پڑھتے ہیں:
"اللّهم ارزقني شفاعة الحسين يوم الورود"
پروردگارا! مجھے امام حسینؑ کی شفاعت کا رزق محشر میں ورود کے روز عطا فرما۔
۵. بدعت سے مقابلہ کرنا:
امام حسينؑ اس تکلیف الٰہی پر عمل کرنے نیز حریم دین الٰہی کے دفاع کا ظاہری مصداق ہیں اور اپ کی تحریک کا مقصد دین کو زندہ و بدعت سے مقابلہ کرنا شمار کیا جاتا ہے، من جملہ بزرگان بصرہ کو جو خط لکھا اس میں رقم طراز ہیں:
"أدعوكم الي كتاب الله و سنة نبيّه فان السنّة قد اُميتت و البدعة قد اُحييت"
میں تم لوگوں کو کتاب خدا و سنت رسولخداؐ کی دعوت دیتا ہوں پس بتحقیق سنت پیغمبر مرگئی اور بدعت زندہ ہو گئی ہے.
٢. اخلاقی پیغامات
١. آزادی و حریت کا ہونا:
حضرت عليؑ ایک مقام پر فرماتے ہیں: «کیا کوئی آزاد شخص نہیں ہیکہ آدھی کھائی ہوئی (دنیا) کو اسکے اہل کیلئے ہی چھوڑ دے؟ یقیناً تمہارے وجود کی قیمت سوائے بہشت کے کوئی بھی چیز نہیں ہے پس اپنے آپ کو بہشت کے علاوہ مت بیچو». آزادی اس میں ہیکہ کرامت انسانی و اپنے شرف کو پہچانے اور پستی، ذلت، حقارت، دنیا کی اسیری اور انسانی اعلیٰ اقدار کو پیروں تلے روندنے میں نہیں ہے.
تحریک عاشورا آزادی کا کھلا ہوا جلوہ امام حسینؑ، آپ کے خاندان و اصحاب کے سلسلہ میں ہے، بطور نمونہ جس وقت آنحضرتؑ سے جبراً یزید کی بیعت لینا چاہی تو امام حسینؑ نے انہیں ان کلمات سے جواب دیا اور فرمایا:
«خدا کی قسم! ہرگز نہیں، میں اسکے ہاتھ میں ذلت و رسوائی کے ساتھ ہاتھ نہیں دوں گا اور نہ ہی غلامون کی طرح اسکی حکومت کے سامنے سر تسلیم خم کروں گا»
اس آزادی کو کربلا کا منظر بھی کچھ دوسرا ہی جلوہ دکھا رہا تھا، آنحضرت کو دو امور کے درمیان اختیار دیا یعنی شمشیر یا ذلت افتخار کے ساتھ موت کو قبول کیا اور فرمایا:
ألا و إن الدعي بن الدعي قد ركز بين إثنتين بين السلة و الذلة و هيهات منّا الذلة
اگر آزادی کی راہ اور ظلم سے رہائی چاہنے والے لوگ جنگ کر رہے ہیں اسی آزادی کے سایہ میں ہے جوا عاشورا کا تحفہ ہمیشہ تاریخ کیلئے ہے.
۲. ايثارو قربانی کا مظاہرہ کرنا:
عاشورا کے منظر نامہ میں سب سے پہلے ایثار کرنے والے خود آنحضرت ہی تھے کہ جو خود حاضر ہوئے دین خدا پر اپنی جان فدا کریں و اللہ کی رضا کو تمام چیزوں پر مقدم رکھا، اصحاب امامؑ میں سے ہر ایک نے اپنی جان آنحضرت پر بھی قربان کر دیں.
اصحاب امام حسینؑ کے اظہارات جو شب عاشور میں کیا جیسا کہ مشہور ہے، ایک کے بعد ایک اصحاب امامؑ اٹھے اور اپنی جان نثاری و قربانی کیلئے آمادگی کو امامؑ کی راہ میں اظہار کیا؛ بطور نمونہ مسلم بن عوسجہ کی اس گفتگو کو جو امام حسینؑ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: «میں ہرگز آپ سے جدا نہیں ہوں گا اگر ان سے جنگ کیلئے کوئی ہتھیار نہ بھی ہوگا تو ان سے پتھر کے ذریعہ جنگ کروں گا یہاں تک کہ آپ کے ساتھ درجہ شہادت پر پہونچ جاؤں»
۳. اللہ پر توکّل رکھنا:
امام حسينؑ نے مدینہ سے اپنے سفر کے آغاز میں فقط اللہ پر ہی توکل کو ہی اس راہ میں منتخب کیا اور پورے راستےمیں اپنی تکیہ گاہ خدا کو قرار دیا تھا یہاں تک کہ آنحضرت کا توکل اپنے اصحاب پر بھی نہیں کیا تھا، اسی لئے ان اصحاب سے مطالبہ کیا کہ جو کوئی جانا چاہتا ہے واپس چلا جائے اور یہی توکل باعث ہوا کیسے بھی حالات درپیش ہوں عزم و استقلال میں کوئی خلل وارد نہ ہو سکا. اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو اپنی وصیت میں جو مدینہ سے سفر کے آغاز میں امامؑ نے کیا، اپنی تحریک کے ہدف و مقصد کے ضمن میں بیان کرتے ہوئے آخر میں فرمایا: سورہ ہود کی آیت نمبر ۸۸ کی تلاوت فرمائی:
وَمَا تَوْفِيْقِى إِلَّا بِاللهِ ۚ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَ إِلَيْهِ أُنِيْبُ
اور مجھے تو صرف اللہ ہی سے توفیق حاصل ہوتی ہے، میں اسی پر بھروسہ کرتا ہوں اور اسی کی ہی طرف رجوع کرتا ہوں۔
نیز اپنے ایک خطبہ میں جو روز عاشورا بیان کیا جیساکہ سورہ ہود کی آیت نمبر ۵۶ کو امامؑ نے بيان کیانيز یہ آیت امامؑ کی اسی روحانیت کی جلوہ گر ہے:
إِنِّـىْ تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ رَبِّىْ وَ رَبِّكُمۚ
میں نے اللہ پر بھروسہ کیا ہے جو میرا اور تمہارا رب ہے۔
۴. نفس کے ساتھ جہاد کرنا:
اپنا تزکیہ نفس کرنا یعنی نفس کے ساتھ جہاد کرنا (جو جہاد اکبر بھی ہے) باہری دشمن کے ساتھ جہاد کرنے کی بنیاد ہی ہے اور اسکے بغیریہ دونوں بھی بے ثمر ہی ہے نیز کربلا ان مجاہدات سے سرشار ہے۔
نافع بن ہلال کی منگیتر بھی تھیں اور ابھی ان کی رخصتی بھی نہیں ہوئی تھی، جب کربلا کے میدان میں جنگ کیلئے جانا چاہتے تھے تو انکی منگیتر نے دامن پکڑ لیا اور گریہ و زاری کرنے لگیں،یہ منظر کافی تھا کہ ایک جوان کو متزلزل کر دے اور جہاد کے جذبہ کو سلب و سرد کر دے لیکن امام نے بھی اس سے مطالبہ کیا کہ منگیتر کی خوشی کو میدان جنگ پر ترجیح دے، اس دنیاوی و غریزی پر غلبہ حاصل کیا اور کہا: «اے فرزند رسولؐ! اگر میں آج کے دن آپ کی مدد و نصرت نہیں کروں گا تو کل پیغمبرؐ اسلام کو کیا جواب دوں گا؟» یہاں تک کہ جنگ میں گئے اور درجہ شہادت پر فائز ہوئے.
۵. شجاعت و بہادری کا اظہار کرنا:
تحریک عاشورا کے مجاہدین کی شجاعت و بہادری کی جڑیں انکے ہی اعتقاد میں موجود تھی، یہ لوگ شہادت کے عشق و محبت سے سرشار جنگ کر رہے تھے، موت سے خوف و وحشت نہیں رکھتے تھے تا کہ دشمن کے مقابلہ میں کمزور اور سست پڑ جائیں اور یہی دلیل و سبب تھا کہ دشمن کے فوجی ان سے مقابلہ کرنے سے گریز کرتے تھے چونکہ یزیدیوں میں فردی مقابلہ کی طاقت و قوت نہیں رکھتے تھے اور گروہی طور پر حملہ کرتے تھے اور انہیں اسی طرح شہید کرتے تھے.
حوادث کربلا کے راویوں میں سے ایک راوی حمید بن مسلم کہتا ہے: «قسم بخدا! کسی بھی محاصرہ والے کو میں نے کثیر بھیڑ بھاڑ میں نہیں دیکھا کہ جس کی اولاد، خاندان و اصحاب کو قتل کر دیا گیا ہو چونکہ حسین بن علیؑ کا دل قوت، استقامت و شجاعت سے بھر پور تھا».
۶. صبر و پایئداری رکھنا:
جس چیز نے حماسہ كربلا کو جاویدان و استقامت بخشی ہے وہ امام حسینؑ و انکے اقرباء و اصحاب کی اسقامت و صبر جمیل کا جذبہ ہی تھا، آنحضرت نے مکہ سے کربلا کے درمیان کسی ایک منزل پر اس طرح فرمایا: «اے اولاد سادات! صبر و استقامت اختیار کرو کیونکہ تمہاری موت کو رنج و سختی سے عبور کرنا ہوگا اور جو بہشت کی طرف پھیلا ہوا ہے اور ہمیشگی کی نعمتوں تک پہونچائے گی».
نشیب میں آنحضرت کے زندگی کی آخری لحظات میں چند کلمات اپنی زبان پر جاری کئے تو وہ صبر و قضائے الٰہی کے بارے میں ہی سنائی دے رہے تھے.
۷. عزّت و افتخار ظاہر کرنا:
امامؑ نیز اپنے خاندان واصحاب کو مختلف مواقع و منازل میں اپنی عزت و افتخار کو عملی و قولی طور پر اظہار بھی کرتے رہے ہیں اور یزید و شجرہ خبیثہ کی ذلت و خواری کے مقابلہ میں اپنی عزت و شرف کو ثابت بھی کیا ہے کہ ان بیشمار نمونوں میں سے ایک نمونہ یہ ہے کہ جب والی مدینہ نے یزید کی بیعت کی تجویز آنحضرت کے سامنے رکھی تو آنحضرتؑ نے اس کو رد کرتے ہوئے اس عمل کو ذلیلانہ شمار کرتے ہوئے فرمایا:
و مثلي لا يباع مثله
«مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرے گا».
دوسرے مقام پر اس تجویز کو رد کرتے ہوئے سر تسلیم خم کرنے کے سلسلہ میں فرمایا:
و الله لا أعطيهم يدي إعطاء الذليل
«خدا کی قسم ذلیل کے مثل میں تمہارے ہاتھ پر بیعت ہرگز نہیں کروں گا».
۸. حجاب، عفت و پاکدامنی کو اپنانا:
تحریک عاشورا دینی قدر و منزلت کے اقدار کو زندہ کرنے کیلئے تھی اور ان اقدار میں سے مسلمان عورت کا حجاب و عفت کی محفوظ کرنا ہے۔ سید بن طاؤسؒ بیان کررت ہیں: شب عاشورا امام حسینؑ نے اپنے خواندان والوں کے ساتھ گفتگو میں حجاب و عفت و پاکدامنی کی وصیت فرمائی۔
امام کی بیٹیوں و بہنوں کی ذمہ داری تھی کہ اہلبیتؑ پیغمبر کی عفت، پاکدامنی کو جہاں تک ممکن ہوسکے محفوظ کریں.
ام کلثوم نے قیدیوں کے مامور سے کہا: «جب ہمارا قافلہ شہر دمشق میں وارد ہوں گے تو ایسے در سے ہمیں وارد کریں جہاں پر تماشہ دیکھنے والوں کی تعداد کمتر ہو» اور ان سے یہ بھی درخواست کیا کہ شہداء کے سروں کو اہل حرمؑ کے اونٹوں کے درمیان سے فاصلہ پر رکھیں تا کہ لوگوں کی نگاہیں ان کی طرف رہے نیز اہلبیتؑ رسولخدا کا تماشہ نہ دیکھیں۔
۹. تکلیف شرعی پرعمل کرنا:
شیعوں کے ائمہؑ مختلف سماجی شرائط کے مطابق اپنے وظیفہ پر ہی عمل کر رہے تھے اور اس راہ میں کسی بھی چیز کو مانع قرار نہیں دے سکتے تھے. تحریک عاشورا بھی ایک واضح دلیل اپنے وظیفہ پر عمل کرنے کا ہی جلوہ تھا اور اسکو امام حسینؑ نیز انکے اہلبیتؑ و اصحاب نے کردار و گفتار کے ذریعہ پایہ ثبوت کو پہونچا دیا ہے۔
آنحضرت جب مکہ سے کوفی کی طرف روانہ ہوئے تو جواب میں ابن عباس کہ جنہوں نے عراق کی طرف جانے سے خبردار کیا (جبکہ ابن عباس امام کے سفر کوفہ کے مخالف تھے) تو آنحضرت نے فرمایا: «جہاں تک میں جانتا ہوںکہ تم خیر خواہی و شفقت کی بنا پر ایسا کہہ رہے ہو، لیکن میں نے مصمم ارادہ کر ہی لیا ہے».
كأني بأوصالي تقطعها عسلان الفوات بين النواويس وكربلا فيملأن مني اكراشا جوفا و اجريه سغبا
گويا میں دیکھ رہا ہوںکہ بیابانوں کے درندے (حامیان بنی امیہ) سر زمین نواویس و کربلا کے درمیان میرے اعضائے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے اور اپنے شکموں کو سیر اور اپنے انباروں کو پر کریں گے۔
۱۰. غيرت وحمیت سے الفت رکھنا:
پسندیدہ خصلتوں میں سے ایک خصلت غیرت ہے اور خداوند عالم بھی اپنے غیرت مند بندوں سے محبت کرتا ہے۔حادثہ عاشورا میں بني هاشم کے جوانان مستقل طور پر سفر میں اہلبیت کے خیموں کی حفاظت کرتے تھے، راتوں میں انکی حفاظت کے ساتھ خاص طور سے قمر بنی ہاشمؑ کی پہرہ داری میں خواتین اہل حرم آسودہ خاطر و بے خوف ہو کر سوتی تھیں. خود آنحضرت بھی جب تک زندہ رہے اس بات کو تحمل نہیں کر سکتے تھے کہ غیر مرد لوگ اہل حرم کے قریب ہو سکیں، یہاں تک لکھا ہے: آنحضرت اپنے حملوں میں میدان جنگ کے ایسے منطقہ کا انتخاب کیا تھا کہ جو خیام اہل حرم کے قریب ہوتا تھا تاکہ دشمنوں کا مخدرات عصمت و طہارت سے کوئی متعرض نہ ہو سکے۔ آخری لمحات میں بھی جب کہ آنحضرت مجروح و زخمی زمین کربلا پر گرے تھے، جب یہ سنا کہ دشمن کے سپاہی خیموں کی طرف حملہ نیز عورتوں و بچوں سے تعرض کا ارادہ رکھتے تھے تو آنحضرت نے ان پر بلند آواز میں کہا:
ویحکم یا شیعة آل أبی سفیان! إن لم يكن لکم دین و کنتم لا تخافون المعاد فکونوا أحراراً فی دنیا کم ہٰذہ وإرجعوا إلیٰ أحسابکم إن کنتم عربا کما تزعمون … أنا الذی أقاتلکم و تقاتلونی و النساء لیس علیہن جناح فامنعوا عتاتکم و طغاتکم و جہالکم عن التعرض لحرمی مادمت حیّاً»
«اے پیروان آل ابو سفیان! اگر تمہارے پاس دین نہیں ہے اور قیامت سے بھی خوف نہیں ہے تو کم سے کم اس دنیا میں تو آزاد رہو ... میں تمہارے ساتھ جنگ کرتا ہوں اور تم میرے ساتھ جنگ کر رہے ہو اور عورتوں سے تعرض نہیں کرنا چاہئے جب تک کہ میں زندہ ہوں، اپنے سرکش و طغیان و جہال کو میرے اہل حرم سے تعرض کرنے سے باز ہی رکھو».
۱۱. کرامت نفسی و جواں مردي ظاہر کرنا:
امام حسينؑ و انکے اصحاب نے اپنی جواں مردی و فتوت کا بہترین و خوبصورت مظاہرہ حماسہ عاشوا میں آشکار کیا ہے، وہ چاہے حق کی حمایت یا امام کے ساتھ اپنی جانوں کا نزرانہ پیش کر کے درجہ شہادت پر پہونچنا یا یہاں تک کہ دشمنوں کے ساتھ انسانی سلوک کی صورت میں ہو۔
راستے میں جب امامؑ کا لشکر حر سے آمنا سامنا ہوتا ہے تو آنحضرتؑ کے اصحاب میں سے کسی نے یہ تجویز پیش کی کہ یہ چھٹا سا گروہ ہے اور انکے ساتھ جنگ کرنا بھی بہت آسان ہے بنسبت اس بڑے گروہ کے جو بعد میں آنے والا ہے، تب آنحضرت نے جواب میں فرمایا: «جنگ کی ابتدا ہماری جانب سے نہیں چاہتا».
اور دوسرا منظر بھی ہے کہ لشکر حر کو جو پیاسا تھا اسے آنحضرت نے سیراب کیا یہاں تک کہ جو لشکر کا آخری فرد تاخیر سے پہونچا تھا امامؑ نے اسے بھی سیراب کیا.
۱۲. مواسات، ہمدردی و غمخواری رکھنا:
اخلاقی خصلتوں میں خوبصورت ترین خصلت مواسات ہے یعنی غمخواری، ہمدردی اور دوسروں کی مدد کرنا ہے. مواسات کا کھلا ہوا جلوہ حادثہ عاشورا کے منظر نامہ میں بھی نظر آتا ہے کہ بنی ہاشم و امام کے دیگر اصحٓب کے درمیان پیش آیا ہے اور ان میں سے ہر ایک شخص دوسرے سے پہلے موت کو گلے لگانے کیلئے حاضر تھا.
شب عاشورا میں حضرت عباس علمدار نے بنی ہاشم کے خیمہ میں خطبہ کچھ اس طرح بیان فرمایا: «کل آنے والی صبح کو تم ہی لوگ کا پہلا گروہ ہونا چاہئے جو میدان جنگ میں جانے والا ہو،ہم ان سے پہلے موت کے استقبال کیلئے جائیں گے تا کہ لوگ یہ نہ کہیں کہ اصحاب کو آگے بھیج دیا ...» پھر بنی ہاشم بھی اٹھے اورتلواروں کو کھینچا نیز انہوں نے کہا: «ہم بھی آپ کے ساتھ ہی ہیں».یعنی کہ آپ کے نظریہ کے موافق ہیں۔
۱۳. وفادار ہونا:
جب ہم عاشورا کے مناظر کو دیکھتے ہیں تو زبردست وفاداری کے مظاہرہ کو مالاحظہ کرتے ہیں. شب عاشورا سید الشہداء جب اپنے اصحاب سے گفتگو کرتے ہیں تو انکی وفاداری کی مدح و ثنا کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: «میں اپنے اصحاب سے بہتر و وفادارترین اصحاب کو نہیں پہچانتا»
٣. عرفاني پیغامات
١۔ پر خلوص ہونا:
عاشورا کے منظر میں ایسا تصفیہ طلب منظر بھی ںظر آتا ہے جس میں مخلص کو غیر مخلص سے جدا کرتا ہے، کچھ لوگ تو پہلے سے ہی بغیر رضائے الہی، تقرب خدا و اپنے وظیفہ پر عامل ہونے کے امام کے ساتھ کربلا کی طرف روانہ ہوئے پھر ہر ایک کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر امام سے جدا ہوئے اور فقط وہی لوگ باقی بچے جو اس راہ میں خلوص کا انتخاب کئے ہوئے تھے و انہوں نے اپنے خلوص کا اظہار شب عاشور و روز عاشورا بھی کیا۔ امام نے بھی مدینہ سے راونگی سے پہلے مفصل خطبہ ارشاد فرمایا کہ کسی بھی طرح کی دنیا طلبی، ریاست خواہی، قدرت و طاقت کی جنگ کو رد کر دیا اور اپنی تحریک کا مقصد خالص سماجی و دینی اصلاح کو قرار دیا۔
دوسرے مقام پر آنحضرت نے اس طرح فرمایا:
و إنى لم أخرج أشراً و لا بطراً و لا مفسداً و لا ظالماً، و إنما خرجت لطلب الإصلاح فى أمة جدى، أريد أن آمر بالمعروف و أنهى عن المنكر
«میں ہرگز شورش، خوشگذرانی، فتنہ و فساد اور ظلم کیلئے نہیں نکلا ہوں (بلکہ) میں اپنے جد کی امت کے اصلاح کیلئے نکلا ہوں، میرا ارادہ امر با لمعروف اور نہی عن المنکر کرنا ہے».
۲. امتحان و ابتلا کے مقام پر ہونا:
عرفاءایمان ہیکہ فقط امتحان سے نہیں گزرتے بلکہ اسکو لطف الٰہی اپنی جان و روح کی پاکیزگی کا سبب جانتے تھے اور اسکے استقبال کیلئے آگے بڑھتے تھے۔
عاشورا کے روز سید الشہداء ایک مناجات میں جو اپنی زندگی کے آخری لمحات میں خدا کے ساتھ کرتے ہیں، خداوند عالم کی نعمتوں سے سرشار آپ کی ذات تھی اور نیک بلا کی بھی حمد و ثنا کرتے ہیں۔
۳. تسليم و رضا کی منزل میں ہونا:
اہلبيتؑ مشیت پروردگار وتقدیر الٰہی کے سامنے مکمل طور پر راضی و خوش رہے اور اسکی پشت پناہی کے سبب ہر مشکل و بلا کو صبر و محبت کے ساتھ تحمل کرتے رہے۔
امام حسینؑ جس وقت مدینہ سے نکلے رہے تھے تو قبر پیغمبرؐ کو الوداع کرتے ہوئے خدا سے مطالبہ کیا کہ جس میں اسکی رضا ہے اس کیلئے مقدر کرے۔
کوفہ کے راستہ میں بھی جب «فرزدق» شاعر سے ملاقات ہوتی ہے اور کوفہ کے حالات سے باخبر کرتے ہوئے کہتا ہے: «اگر قضاي الہی کسی چيزي پر نازل ہوتی ہے، تو ہم اس سے بھی محبت کرتے ہیں».
۴. طالب شهادت ہونا:
عاشورا کے منظر میں امام حسینؑ کے با ایمان اصحاب کی شہادت طلبی کا جلوہ تھا خود آنحضرت اس میدان میں ایک نمونہ عمل اور سبقت بھی رکھتے تھے۔ جب امام مکہ سے روانہ ہونا چاہا تو ایک خطبہ بیان فرمایا جس میں راہ خدا میں موت کی خوب صورتی کے سلسلہ میں گفتگو فرمائی اور لوگوں سے چاہا کہ جو کوئی بھی طالب شہادت ہے نیز اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا جذبہ رکھتا ہے وہ آنحضرت کے ساتھ چلے۔
۵. خداوند عالم سے با معرفت محبت کا اظہار کرنا:
«عمان ساماني» شاعرنے حادثہ کربلا کو عرفانی و محبت خدا کے زاویہ سے دیکھتے ہوئے اپنے دیوان «گنجينہ الاسرار» میں اس نے حماسہ حسینی کا تجزیہ عرفانی ذوق کے مد نظر کیا، وہ امام حسینؑ کو شوق و معرفت الہی ہے سرشار دیکھتا ہے، انکو دریا سے اٹھتی ہوئی ایک موج جانتا ہیکہ جو حقیقت خدا میں محو ہے اور عقل و معرفت کے جدال میں سپاہ معرفت کو غالب کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ الوداع کے وقت اپنی بہن کو بھی کہہ دیتے ہیں کہ وہ خداوند عالم سے ملاقات میں حجاب نہ بنیں۔
۶. خدا کو ياد رکھنا:
سيد الشهد اؑتمام حالات میں اور بحرانی ترین ماجرا میں اللہ کو یاد کرتے ہوئے اپنا اطمینان حاصل کرتے ہیںنیز اسی اطمینان قلبی کو اپنے خاندان و اصحاب میں بھی منقل کرتے تھے.
آنحضرت نے اپنی اصحاب کیلئے خطبہ ارشاد فرماتے ہیں: اسے حمد و ثنائے الہی سے آغاز کرتے ہیں، عاشورا کی صبح میں جب دشمن کی فوج آپ کے سامنے آتی ہے تو آنحضرت فرماتے ہیں: «خدايا! میری هر مشکلات میں، بس تو ہی میرا پشت و پناہ ہے».
۴. تاريخي پیغامات
١. اپنی حجت کو تمام کرنا:
تحریک عاشورا میں امام حسینؑ اور انکے اصحاب اس سے پہلے کہ جنگ میں شرکت کریں اور انکے پاک خون سے دشمن اپنے ہاتھ کو آلودہ کریں اتمام حجت کرتے تھے نیز آیات بینات کے ذریعہ صحیح و حق راہ کو انہیں بتا دیا تھا تاکہ کہیں کوئی شخص جہالت کی بنا پر اپنے آپ کو عذاب الہی میں مبتلا کرے۔ عاشور کے روز آنحضرت نے ایک خطبہ کے ضمن میں اس طرح ارشاد فرمایا:
أيها الناس! انسبونى من انا، ثم ارجعوا الى انفسكم و عاتبوها، وانظروا اهل يحل قتلى و انتهاك حرمتى، الست ابن بنت نبيكم وابن وصيه وابن عمه و اول المؤ منين بالله و المصدق لرسوله بما جاء من عند ربه ؟ اوليس حمزة سيدالشهداء عم ابى ؟ اوليس جعفر الطيار عمى؟ اولم يبلغكم قول رسول الله لى ولاخى : هذان سيد شباب اهل الجنة ...؟"
«اے لوگو! میرے حسب و نسب کے بارے میں غور و فکر کروکہ میں کون ہوں؟ پھر اپنے ضمیر کی طرف پلٹو اور اپنے آپ کی سرزنش کرو، اس پر غور کرو کہ کیا مجھے قتل و میری ہتک حرمت کرنا تمہارے لئے مناسب ہے؟ کیا میں تمہارے پیغمبر کی دختر کا فرزند نہیں ہوں؟ کیا میں پیغمبر کے وصی و چچازاد کا فرززند نہیں ہوں؟ کیا حمزہ سید الشہداء اور جعفر طیار میرے چچا نہیں ہیں؟کیا پیغمبر کا یہ کلام تمہارے کانوں تک نہیں پہونچا کہ ارشاد گرامی ہوا: یہ دونوں (حسنؑ و حسینؑ) جنت کے جوانوں کے سردار ہیں؟.... جو کچھ میں کہہ رہا ہوں حقیقت ہے اور ابھی تک کوئی ایک جھوٹا کلام نہیں کہا ہے، اگر تم گمان کرتے ہو کہ میں جھوٹ کہہ رہا ہوں تو جابر بن عبد الله انصاري، ابو سعيد خدري، سهل ساعدي، زيد بن أرقم و أنس بن مالک سے ہی پوچھ لو کہ یہ افراد کہیں گے کہ اس کلام کو پیغمبر اسلام سے میرے اور میرے بھائی سے متعلق سنا ہے، کیا یہ کافی نہیں ہیکہ میرے خون میں اپنے ہاتھ کو آلودہ مت کرو؟».
۲. دشمن کا انکشاف کرنا:
حادثه كربلا میں باقی بچ جانے والوں کیلئے ایک ذمہ داری پیغام پہونچانا بھی تھا کہ جو دشمن اس حادثہ میں تھے انکو منکشف کرنا تھا اور اموی سلطنت کو کربلا کی تحریک مقاصد کو بیان کرتے ہوئے واضح و روشن پیغام پہونچانا کہ کربلا میں کیا رونما ہوا، اس سلسلہ میں امام سجادؑ اور جناب زینب کا کردار بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔ امام نے کوفہ کے مجمع کثیر کے درمیان ایک خطبہ اپنی آپ کو اس طرح پہچنوایا:
«اے لوگو! جو کوئی بھی مجھے پہچانتا ہے سو وہ جانتا ہے اور جو کوئی مجھے نہیں پہچانتا (تو وہ مجھے پہچان لے) میں علی بن حسینؑ ہوں، میں اسکا بیٹا ہوں جس کی حرمت پیروں تلے پامال کی گئی، آسائش و آرام اس سے سلب کر لیا، اسکا مال غارت ہوا، اسکے اہل حرم کو اسیر بنایا، میں اسکا بیٹا ہوں جس کا سر فرات کے کنارے بے گناہ کاٹا»
۳. سقيفہ ہی عاشورا کیلئے سبب بنا:
عاشورا حقیقت میں اہلبیتؑ عصمت و طہارت کے ساتھ بنی امیہ کی دشمنیوں کی انتہائی تجلی واقع ہوئی تھی کہ تمام مخفی و ظاہر عوامل باہم مل کر تشکیل پائے، اگر پیغمبر کی وصیت انکے بعد مسلمانوں کی سرنوشت کے سلسلہ میں عملی ہو جاتی ولایت کی حاکمیت نافذ ہو جاتی تو وہ مدتوں، سابقہ حالات کی طرف پلٹنا، کینہ کی آگ کا شعلہ ور ہونا، احزاب شرک کے باقی ماندہ عداوت اور اسلام کی تیغ کی ضرب کھائے ہوئے طاقت نہ پاتے، عاشورا میں امام حسینؑ اور ان کے اصحاب کی شہادت ان کے پہلے ظلم و ستم کا ایک دوسرا ورق تھا، روز عاشورا جو ایک تیر قلب حسینؑ پر لگا اور آنحضرت کا خون زمین پر گرا حقیقت میں یہ روز سقیفہ میں ہی چلایا گیا تھا اور عاشور میں اپنے نشانہ پر بیٹھا!
یہی وجہ ہیکہ امام حسین کے قتل کے بعد غرور و نخوت کے ساتھ کہتا ہے: کاش میرے آباء و اجداد آج ہوتے اور اس انتقام کا مشاہدہ کرتے۔ یہی قدیم کینہ و عداوت کی دوسری علامت و نشانی ہے۔
۴. عبرت انگیز و سبق آموز ہونا:
حادثہ كربلا، الهام بخش وعبرت آموز حوادث میں سے ایک ہے، اس حالت میں کہ تمام طالبین حق، عدل و انصاف کے طلب گاروں، حق و آزادی کی راہ میں جہاد کرنا الہام بخش مصادر میں سے ایک غنی ترین مصدر و مأخذ ہے نیز دوسرے نظریہ کے اعتبار سے دردناکترین فجائع و تلخ ترین حوادث میں سے ایک ہے جو امت پیغمبرؐ کے ہاتھوں ظاہر ہوا اور یہی مقام و منزل ہیکہ اس تلخ حادثہ کے بارے میں دقت نظر سے مطالعہ کریں نیز اسکے ظہور کے عوامل کی اصلیت کو تلاش بھی تلاش کریں۔
مقام معظّم رہبري اپنی ایک تقریر میں بیان کرتے ہیں: «ملت اسلامی کیلئے غور و فکر کرنے کا مقام ہے کہ وفات پیغمبرؐ اسلام کے ۵۰ سال کے بعد اسلامی ملک اس مقام پر پہونچ گئے تھے کہ ان کے وزراء، امراء، رؤساء، علماء، قرّاء و قضات سے لے کر اجنبی اور اوباش قسم کے لوگ کوفہ و کربلا میں جمع ہوتے ہیں اور جگر گوشہ پیغمبرؐ کہ جس کا وہ لوگ کلمہ پڑھتے ہیں مظلومیت کی حالت میں خاک و خون سے نہلاتے ہیں! بہتر ہیکہ انسان کو غور و فکر میں پڑنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ... بلکہ انجام کار یہاں تک پہونچ گیا کہ اہل حرم پیغمبرؐ کو مجمع عام کے درمیان گلی و بازار میں پھیرایا جاتا ہے پھر ان پر خارجی ہونے کی تہمت بھی لگائی جاتی ہے».
۵. سماجی سياسي پیغامات
١. معروف کا حکم دینا و منکر سے باز رکھنا:
قرآن كريم: و روایات کے مصادرمیں اس اہمترین اصول کو فرائض کے عنوان کے تحت، بلکہ فرائض میں بلندترین درجہ کے طور پر ذکر کیا ہے کہ مگر شرائط کے فراہم ہونے کی صورت میں تمام لوگوں پر واجب ہے۔
سورہ آل عمران کی آیت نمبر۱۰۴ میں ارشاد خداوندی ہے:
"وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْـرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۚ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْنَ
اور چاہئے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو نیک کام کی طرف بلاتی رہے اور اچھے کاموں کا حکم کرتی رہے اور برے کاموں سے روکتی رہے اور وہی لوگ نجات پانے والے ہیں"
پھر سورہ توبه کی۷۱ نمبر کی آیت میں خدا فرماتا ہے:
وَالْمُؤْمِنُـوْنَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُـمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍ ۚ يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْـهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيْمُوْنَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوْنَ الزَّكَاةَ وَيُطِيْعُوْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـه ۚ اُولٰٓئِكَ سَيَـرْحَـمُهُـمُ اللّـٰهُ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ عَزِيْزٌ حَكِـيْـمٌ
اور ایمان والے مرد و ایمان والی عورتیں ایک دوسرے کے مددگار (ولی) ہیں، نیکی کا حکم کرتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتیے ہیں اور اللہ اور اسکے رسول کی فرمانبرداری کرتے ہیں، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا، بیشک اللہ زبردست حکمت والا ہے اور حدیث میں بھی امر بالمعروف (نيكيوں کا حکم دینا) و نہی عن المنکر (برائی سے باز رکھنا) کا سبب کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے:
إن الأمر بالمعروف و النهى عن المنكر…. فيضة عظيمة بها تقام الفرائض و تأمن المذاهب و تحل المكاسب و ترد المظالم و تعمر الأرض و ينتصف من الأعداء و يستقيم الأمر
بیشک نیکی کا حکم دینا اور برائی سے باز رکھنا ... عظیم فریضہ ہے جس کے ذریہ فرائض کو قائم کیا جاتا ہے، راستے محفوظ ہوتے ہیں، مکاسب و محصول حلال ہوتی ہے، مظالم کی تردید کی جاتی ہے، زمیں کو آباد کیا جاتا ہے، اعداء سے انصاف کیا جاتا ہے اور امر کو استقامت ملتی ہے"
امام حسینؑ اپنی تحریک کے مقاصد بیان کرتے ہوئے اپنے قول میں اس اہم نقطہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
أريد أن آمر بالمعروف و أنهيٰ عن المنكر
میرا ارادہ تو بس نیکی کا حکم دینا اور برائی سے باز رکھنا ہے."
۲. معاشرہ و سماج کی اصلاح کرنا:
ایسا معاشرہ و سماج جو انحطاط و تنزلی کا شکار ہوتا ہے نیز اقدار و صفات حسنہ سے فاصلہ اختیار کر لیتا ہے تو وہ سماج و معاشرہ فساد سے دچار ہو جاتا ہے، خصوصاً وہ معاشرہ جس میں طاقت و قدرت کی باگ ڈور پر ایسے افراد کے ہاتھ میں ہوتی ہے جو خود بھی مکمل طور پر مظاہر فساد ہر حیثیت سے ہوتا ہے، ایسے معاشرہ کو ہی اصلاح کی ضرورت ہوتی ہے اور سماج کے ہر دانشمند اور درد دل رکھنے خصوصاً ہادیان دین پر فرض و وجب ہیکہ خاموش نہ بیٹھیں اور اس اہمترین امر کیلئے تحریک چلائیں، امام حسینؑ کی تحریک اسی اصلاحی تحریک کا ہی طریقہ تھا و خود آنحضرت کے مشہور کلمات میں اسکی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
إنّما خرجت لطلب الإصلاح في أمة جدّي
بیشک میں اپنے جد کی امت کی اصلاح کیلئے نکلا"
۳.مسلحانہ جہاد کرنا یعنی جہاد اصغر:
امام حسينؑ کے زمانہ میں لوگ ظالم و فاسد حکومت میں گرفتار ہو گئے تھے کہ جو دینی مقدسات، اسلام و مسلمانوں کیلئے کسی بھی حرمت و عظمت کے قائل نہیں تھے اور اسلام ایسے شرائط میں معرض نابودی میں تھا، امام حسينؑ کی تحریک ایسی حکومت کی ضرورت کو واجب و لازم دیکھتے تھے اور یزید کی بیعت سے نکار کے ساتھ ہی مکہ گئے اور وہاں پر کوفہ جانے کا عزم کیا تاکہ شیعوں کو ظلم و ستم کے خلاف جہاد کی رہبری اپنے ہاتھ میں لیں۔
خود آنحضرت «فرزدق» کے ساتھ کوفہ کی راہ میں ملاقات کرتے ہیں، اموی حکومت کے مفسدات کو گنانے، حدود الٰہی کے معطل ہونے، شراب خواری کا رواج پانے اور لوگوں کے اموال کی لوٹ گھسوٹ کرنے کے ضمن میں فرمایا: «میں مناسب ترین شخص ہوں کہ خدا کے دین کیلئے اٹھ رہا ہوں اور اسکی شریعت مطہرہ کو میں عزیز رکھتا ہوں اور اسکی راہ میں جہاد کروں تا کہ کلام الٰہی بلند و بالا ہو».
وكنا أهله و أوليائه و أوصيائه و ورثته و أحق الناس بمقامه فى الناس ... و نحن نعلم إنا أحق بذلك الحق المستحق علينا ممن تولاه.
اور ہم ہی اس کی اہلیت، اسکی ولایت، اس کی نیابت و وراثت کا حق رکھتے ہیں اور لوگوں میں سے سب زیادہ ہم ہی تو اس مقام و منزلت کے حقدار ہیں ..
اور ہم جانتے بھی ہیں کہ میں ہی اس کا زیادہ حقدار ہوں، ہم طالب حق ہیں جس حکومت کے ولی بنایا جائے."
۴. عدل و انصاف کا مطالبہ کرنا:
پيام عاشورا انسانوں کو دعوت دیتا ہیکہ عدل و انصاف کی راہ کو قائم و دائم کرنے کیلئے جد وجہد کرتے رہیں کیونکہ بغیر انصاف و عدل پر مبنی سماجی و معاشرتی زندگی کے تمام اقدار تباہ و برباد ہو جاتے ہیں اور قوانین الٰہی و دستور دینی کی موت کا میدان فراہم ہوتا ہے۔
امام حسينؑ اپنے ایک خطبہ میں رسولخداؐ کی فرمایش کو سند قرار دیتے ہیں کہ جابر و ظالم کے خلاف قیام کرنا لازمی شمار کرتے ہیں، اور خود کو اس تحریک کے نفاذ کیلئے مناسب ترین فرد سمجھتے ہیں کہ جو حکومت کو تبدیل کرنے اور سیاسی بناوٹ کو پہچنواتے ہیں، یہ ہدف امام کے اصحاب کے کلام میں دیکھا جا سکتا ہے۔
گرفتاری کے بعد مسلم بن عقیل نے ابن زیاد سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: «ہم آئے ہیں تا کہ عدالت کے ساتھ حکمرانی کریں اور قرآن کے حکم کی طرف دعوت دیں».
۵. عزت و سعادت کا مطالبہ کرنا:
امام حسین ظلم و عدوان کے ساتھ جہاد کی راہ میں مرنے کو سعادت و خوشبختی جانتے تھے اور ظالمین کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو ذلت و رسوائی کا سبب شمار کرتے تھے۔
لا أري الموت إلّا سعادة والحياة مع الظالمين إلّا بَرَماً
میں نہیں دیکھتا موت کو سوائے سعادت کے اور ظالمین کے ساتھ حیات کو غلامی سمجھتا ہوں"
۶. ہجرت کرنا:
قرآن کريم مہاجرین کو عزت و وقار کے ساتھ یاد کر رہا ہے، تاریخ اسلام میں بھی حبشہ و یثرب کی طرف ہجرت کرنا مقام احترام و عظمت دیا گیا ہے اور ہجرت کرنا ایک با عظمت اقدار شمار کیا جاتا ہےنیز یہی ہجرت ہی ہماری تاریخ کا حساب کتاب کرنے کا مصدر قرار پاتی ہے۔
تحریک عاشورا میں بھی امام حسینؑ ظالم و جابر حکومت سے مقابلہ نیز نیکی کا حکم دینا و برائی سے بار رکھنا اور دین کے زندی کرنے کیلئے ہجرت فرمائی، مدینہ کو مکہ کیلئے پھر مکہ کو عراق کیلئے چھوڑا۔
آنحضرت مدينه سے نکلتے وقت سورہ قصص کی آیت نمبر ۲۱ کی تلاوت فرماتے ہیں كه جب حضرت موسيؑ ہجرت کرتے ہیں جبکہ فرعون کے ظلم و ستم سے دور جانا چاہتے ہیں.
فَخَرَجَ مِنْـهَا خَآئِفًا يَّتَـرَقَّبُ ۖ قَالَ رَبِّ نَجِّنِىْ مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِيْنَ
پھر وہاں سے ڈرتا انتظار کرتا ہوا نکلا، کہا اے میرے رب! مجھے ظالم قوم سے بچا لے"
۶. بیداری کے پیغامات
١. کتاب و سنت کو زندہ کرنا:
سيدؑ الشهداء کے اقوال میں بہت سی مثالوں کو ملاحظہ فرما سکتے ہیں جیسے سنتوں کا مرنا، بدعتوں کا زندہ ہونا نیز کچھ جملوں میں اصول کو زندہ کرنا، بھولے ہوئے اقدار اور چھوٹے ہوئے کلمات کو دیکھا جا سکتا ہے۔
جیسا کہ آنحضرت نے اپنے ایک خط میں جو بصرہ کے لوگوں سے مخاطب کرتے ہوئے تحریر فرمایا تھا:
و أنا أدعوکم إلیٰ کتاب و سنة نبیه، فإنّ السنة قد أمیتت و البدعة قد أحییت تسمعوا قولی أهدکم إلیٰ سبیل الرشاد
«میں تمہیں کتاب خدا اور سنت نبی کی طرف بلاتا ہوں کیونکہ سنت مر چکی ہے اور بدعت کو زندہ کیا گیا ہے، اگر میری باتوں کو سنو گے و میرے فرمان پر عمل کرو گے، تو تمہیں راہ فلاح و نجات کی طرف لے جاؤں گا».
۲. دين و مدهب کو زندہ کرنا:
سيدؑ الشهدا راہ حق میں موت اور اس کو زندہ کرنے کو زندگی سمار کرتے تھے اور اس راہ میں شہادت سے بھی خوف و ڈر نہیں رکھتے تھے، یہ قول آنحضرتؑ کا ہی ہے: کتنی آسان ہے موت اس راہ پر جس میں عزت تک پہونچے اور حق کو زندہ کریں۔
حضرت عباسؑ علمدار نے بھی عاشورا کے روز اپنے رجز میں ان الفاظ کو بیان فرمایا ہے: جب آپ کا داہنا شانہ قلم ہوا تو دین کی حمایت ہمیشہ جاری و ساری رکھنے کی تاکید و تائید کا اظہار بھی فرمایا:
و الله إن قطعتم يميني إنّي أحامي أبداً عن ديني
٣. نماز قائم کرنا:
تحریک عاشورا میں امام حسینؑ و ان کے اصحاب باوفا نماز نیز اسے قائم کرنے کو بہت ہی زیادہ اہمیت دیتے تھے، شب عاشورا اسی عبادت کی خاطر مہلت طلن فرمائی تھی، نماز، دعا و استغفار سے بے انتہا لگاؤ امامؑ کے دل پر اس طرح نقش تھا کہ اپنے بھائی جناب عباسؑ علمدار سے فرمایا: «اس گروہ سے مطالبہ کرو کہ آج کی شب و کل کے دن تک کیلئے جنگ کو ملتوی کردیں اور آج کی رات ہم نماز، دعا و استغفار میں مشغول رہیں، خدا بہتر جانتا ہیکہ میں مستقل طور پر نماز و آیات الٰہی کی تلاوت سے شوق و شغف رکھتا ہوں».
حاصل و نتيجه بحث
عاشورا انسان سازی کا مکتب ہے اور امام حسینؑ عظیم بشریت کے استاد، عاشورا ایک حادثہ ہی نہیں ہے بلکہ ایل مکتب ہے، ایک ایسا مکتب جو درس ایمان و عقیدہ، شجاعت و شہادت، طلب عدالت و آزادی، ہمت و غیرت، جہاد و تحریک، صبر و استقامت، امامت و ولایت، ایثار و حقانیت بلکہ مختصراً ایک کلام میں "تمام بشر کو نیز ان تمام لوگوں کو جو انسان بننا چاہتے ہیں و انسانیت کی زندگی بسر کریں گے ان سب کو درس انسانیت دیتا ہے"۔
عاشورا ظاہر میں تو فقط ایک ہی دن ہے لیکن حقیقت میں یہی ایک دن تمام زمانوں و صدیوں سے بھی بلند و برتر ہے نیز تحریک عاشورا کے افراد ظاہر میں تو محدود تعداد میں ہی ہیں لیکن حقیقت میں دنیا کے تمام عدالت و انصاف کے طلبگار اور آزادی کے چاہنے والے نیز وہ تمام لوگ جن کے قلوب انسانیت کیلئے ڈھڑکتے ہیں کی کثیر تعداد پر مشتمل ہے۔ (قیامت تک کیلئے)
جی ہاں! اس زمانہ میں گرچہ ظاہر میں یزید خاندان پیغمبرؑ پر مسلط ہو جاتا ہے اور ان کے بدنوں کو گھوڑوں کی ٹاپوں سے پامال کر دیتا ہے لیکن عاشورا کی تحریک کا مکتب و راستہ ہرگز مٹتا نہیں نیز جب تک حق و حقانیت کا وجود پایا جاتا ہے، حسینؑ و حسینت بھی زندہ و پائیندہ رہے گی اور یہی اس تحریک کی زندگی و بقاء کا راز و رمز ہے۔
مذكوره بالا پیغامات کی مزید تفصیل کیلئے مندرجہ ذیل کتابوں کا مطالعہ کر سکتے ہیں:
الإحتجاج؛ الطبرسي، احمد بن علي، متوفی ۵۶۰ھ، نشر دار النعمان، بيروت، لبنان.
الإرشاد؛ شيخ مفيد، متوفی ۴۱۳ھ، نشر دار المفيد، تحقيق مؤسسة آل البيت:، قم.
بحار الأنوار، مجلسي، محمد باقر، متوفی ۱۱۱۱ ھ، نشر مؤسسة الوفاء، بيروت، لبنان.
حماسه حسيني؛ مطهري، متوفی ۱۳۵۸ش، مجموعة آثار، جلد: ۱، انتشارات صدرا، تهران.
حياة الامام الحسينؑ؛ قرشي، باقر شريف، معاصر، مطبة أدب، نجف أشرف.
صحيفة الحسينؑ؛ قيومي إصفهاني، جواد، معاصر، مؤسسة نشر إسلامي، قم.
العوالم، بحرانی؛ عبد الله، متوفي ۱۱۳۰ھ، نشر مدرسة الإمام المهدي (عج) قم.
كلمات الإمام الحسينؑ؛ شريفي، محمود، معاصر، نشر دار المعروف، قم.
مسند الإمام الشهيدؑ؛ عطاردي، عزيز الله، معاصر، انتشارات عطارد.
معالم المدرستين؛ عسكري، سيد مرتضي، معاصر، مؤسسة النعمان، بيروت، لبنان.
مناقب آل أبيطالبؑ؛ إبن شهر آشوب، متوفی ۵۸۸ھ، مطبعة الحيدرية، النجف.
تحرير : ادارہ مشاورہ و پاسخ
(مشاورت اور جوابات کا ادارہ)
ایک تبصرہ شائع کریں