مدینہ سے کربلا تک فلسلفہ عاشورا




امام حسینؑ  کے منتخب اقوال

مدینہ سے کربلا تک


    امام حسینؑ کی تحریک کے فلسفہ کو آنحضرتؑ کی مدینہ سے روانگی سے شروع ہوئی اور امام نے مختلف موقع و محل پر اپنے سفر کی منزلوں کے دوران رونما ہونے والے واقعات و حادثات کے مقابلے میں موقف و خیالات کے اظہارات کو ہم تحقیق کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں۔


۱۔ مدینه منورہ:

نصف دوم ماه رجب، سنه ۶۰ هجری


    مدینہ کا حاکم وقت ولید بن عتبه بن صخر ابو سفیان جو معاویہ کا چچا زاد بھائی تھا اور معاویہ بن صخر ابو سفیان کی وفات کے بعد حکم ملا تا کہ امام حسینؑ سے یزید کی خاطر بیعت لے۔  تب ہی امام حسینؑ نے فرمایا: یزید ایک ایسا فرد ہے جو شرابی ہے اور فاسق ہے کہ جو ناحق خون بہاتا ہے اور فساد کی نشر و اشاعت کرنے والا ہے اور اس کا ہاتھ بے گناہوں کے خون میں ملوث ہے اور مجھ جیسا اس جیسے کی بیعت نہیں کرنے والا ہے امام حسینؑ ۲۸ رجب سنہ ۶۰ ہجری کو رات میں اپنے خاندان کے اکثر افراد نیز بعض انصار کے ہمراہ اپنے جد بزرگوار پیغمبر اکرم کی قبر سے رخصت ہو کر مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے۔ 


 قول امام حسینؑ: امام نے مدینہ سے خروج کے مقصد کو اپنے وصیت نامہ میں اس طرح بیان فرماتے ہیں: بس میں اپنے جد کی امت کی اصلاح کی خاطر خارج ہوا ہوں اور میرا ارادہ تو بس یہی ہے کہ نیکی کی ہدایت کروں اور برائی سے منع کروں اور میں اپنے جد رسولخدا اور اپنے والد حضرت علی کی سیرت پر چلتا ہوں جو شخص بھی خدا کی طرف دعوت دیتا ہے تو اس نے نیک عمل انجام دیا اور کہہ دو کہ میں مسلمانوں میں سے ہی ہوں خدا و رسولخدا سے جدا نہیں ہونے والا ہوں۔


۲۔ مکه مکرّمه :

از ۳ شعبان تا ۸ ذی الحجه، سنه ۶۰ هجری

14/09/680


    امام حسینؑ ۳ شعبان کو مکہ پہونچے اور جناب عباس ابن عبد المطلب کے گھر میں قیام فرما ہوئے آنحضرت کے پاس مسلم ابن عقیل کا خط اس بات پر مبنی کہ کوفہ والوں نے ان کی بیعت کر لی ہے اور دوسری طرف خانہ کعبہ کی حفاظت کی خاطر اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ حکومت وقت نے ان کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا ہے لہذا آنحضرت نے حج کو عمرہ میں تبدیل کیا اور ۸ ذی الحجہ کو اصحاب و انصار کی سخت مخالفت کے باوجود کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔


قول امام حسینؑ : امام نے مکہ میں اپنے آخری خطبہ میں فرمایا ہے کہ ہم اہلبیت خدا کی رضا میں راضی ہیں … جو شخص بھی ہماری راہ میں جان کی بازی لگانا چاہتا ہے اور اپنے خون کو پروردگار عالم کی ملاقات کی راہ میں نثار کرنا چاہتا ہے تو وہ ہمارے ساتھ روانہ ہو چلے۔ 


۳۔ صفاح:

چهارشنبه ۹ ذی الحجه،سنه ۶۰ هجری

15/09/680


    اسی منزل پر عرب کا شاعر فرزدق نے آنحضرت کے ساتھ ملاقات کیا اور امام نے جب کوفہ کے حالات کے بارے میں معلوم کیا تو جواب میں انہوں نے کہا لوگوں کے دل تو آپ ہی کے ساتھ ہے لیکن ان کی تلواریں بنی امیہ کے ساتھ ہیں۔


قول امام حسینؑ : امام نے اسی منزل پر فرزدق کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ اگر آنے والے حالات اپنی مراد کے مطابق رونما ہوتے ہیں تو خدا کی ان نعمتوں پر شکر ادا کرنا چاہئے اگر آنے والے حالات اپنی مراد کے مطابق رونما نہیں ہوتے تو وہ شخص کہ جس کی نیت حق ہے اور تقوا اس کی دل پر حکومت کر رہا ہے تب راہ حق سے خارج نہیں ہوتا ہے اور اسے کوئی نقصان بھی نہیں پہونچے گا۔ 


۴۔ ذات عرق :

دوشنبه ۱۴ ذی الحجه، سنه ۶۰ هجری

    20/09/680


قول امام حسینؑ : امامؑ نے والی مدینہ عمر بن سعید کے امان نامہ کے جواب میں جو آنحضرت کیلئے بھیجا تھا اسی منزل پر لکھا ہے کہ بہترین امان خداوند عالم کی امان ہے تم خدا سے ڈرو اسی سے تم دنیا میں چاہو تا کہ قیامت میں ہمیں امان بخشے۔


۵۔ حاجز:

سه شنبه ۱۵ ذی الحجه، سنه ۶۰ هجری

21/09/680


    حضرت امام حسینؑ نے ایک خط کوفہ کے چند لوگوں کیلئے تحریر فرما کر اپنے قاصد قیس ابن مسہر کے ذریعہ بھیجا جس میں تحریر فرمایا کہ مسلم بن عقیل کا خط اس بات کی حکایت کر رہا ہے کہ تم لوگوں نے اجماع کر لیا ہے کہ ہمارے حق کے مطالبہ پر مدد کروگے پروردگار عالم تمہاری اس مددو نصرت کی خاطر عظیم اجر عطا کرے گا جس وقت میرا یہ قاصد تمہارے پاس وارد ہو تو تم اپنے وعدہ میں مستحکم رہنا اور جد و جہد کرتے رہنا کہ بس میں تمہارے پاس چند ہی دنوں میں پہونچنے والا ہوں۔


قول امام حسینؑ : مکہ سے کربلا کے درمیان امام حسینؑ نے یہ بیان فرمایا ہے کہ میں موت کو نہیں دیکھتا مگر اس میں سعادت پاتا ہوں اور ستمگروں کے ساتھ زندگی بسر کرنے کو سوائے ننگ و عار کے کچھ نہیں سمجھتا۔


۶۔ خزیمیه: 

جمعه ۱۸ ذی الحجه، سنه ۶۰ هجری

    24/09/680


قول امام  حسینؑ : آنحضرت جناب زینب کبری سے خطاب کرتے ہوئے اس منزل پر فرماتے ہیں کہ اے میری بہن! جو مشیت پروردگار کا ارادہ ہے وہی ہو کر رہے گا۔


۷۔ زرود:

دوشنبه ۲۱ ذی الحجه، سنه ۶۰ هجری

27/09/680


    زہیر ابن قین جو کہ عثمان کے شیعہ کے نام سے مشہور تھے اسی سال حج کے مراسم انجام دینے کے بعد کوفہ کی طرف پلٹ رہے تھے نیز امام کی دعوت کی بنا پر عقیدہ اور نظریہ تبدیل ہو گیا اور امام کے ساتھ کربلا تک آئے۔


قول امام حسینؑ : آنحضرت نے زہیر قین کی شہادت کے بعد فرمایا ہےکہ اے زہیر! خداوند عالم تم کو اپنے لطف و کرم سے دور نہ رکھے اور تمہارے قاتلوں کو ملعونوں کی طرح مسخ کرے جیسے بندر اور سور کی طرح ملعونوں کو مسخ کیا۔


۸۔ ثعلبیه:

سه شنبه ۲۲  ذی الحجه، سنه ۶۰ هجری

28/09/680


    اس منزل پر امام رات میں وارد ہوئے اور جناب مسلم بن عقیل اور ہانی بن عروہ مرادی کی شہادت کی خبر ہوئی جس کے بعد آنحضرت نے فرمایا: «انا للہ وانا الیہ راجعون»

    ہم اللہ کیلئے ہیں اور ہم سب پلٹ کر اسی کی طرف جانے والے ہیں. بس اس کے بعد زندگی میں کوئی فائدہ نہیں ہے اسی وقت امام کی آنکھوں سے اشک جاری ہوئے اور آپ کے اصحاب نے بھی گریہ و زاری کیا ۔


قول امام حسینؑ : امام نے اپنے اصحاب و انصار پر اتمام حجت کی خاطر فرمایا کہ ایک گروہ امام کے ساتھ اس لئے ہوا کہ اسے دنیا کے مال اور منصب کا لالچ تھا پس اس خبر کے سنتے ہی ایسے افراد امام سے جدا ہو گئے۔


۹۔ زباله:

چهارشنبه ۲۳ ذی الحجه، سنه ۶۰ هجری

29/09/680


حضرت امام حسینؑ نے اس منزل پر یہ فرمایا : کوفہ کے نام نہاد شیعوں نے بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے تم میں سے جو شخص بھی واپس پلٹنا چاہتا ہے تو اس کی گردن پر ہمارا کوئی حق نہیں ہے پس وہ واپس جا سکتا ہے۔


۱۰۔ بطن العقبه:

جمعه ۲۵ ذی الحجه، سنه ۶۰ هجری

    01/10/680


قول امام حسینؑ : اسی منزل پر امام نے فرمایا کہ بنی امیہ مجھے ہرگز نہیں چھوڑیں گے یہاں تک کہ مجھے جان سے مار دیں گے جب ایسا کریں گے تو خداوند متعال ان لوگوں پر ایسے افراد کو مسلط کرے گا جو انہیں ذلیل و خوار کرتا رہے گا۔


۱۱۔ شراف (ذو حسم):

شنبه ۲۶ ذی الحجه، سنه ۶۰ هجری

03/10/680


    امام حسینؑ کا قافلہ اور جناب حر کی سرداری میں بنی امیہ کا ایک ہزار سپاہیوں کے لشکر کا آمنا سامنا ہوتا ہے جناب حر نے ظہر و عصر کی نماز امام  حسینؑ کی امامت میں پڑھی، جبکہ امام نے حر سے یہی پوچھا تھا کہ کیا تم اپنی نماز جماعت الگ سے قایم کرو گے یا پھر ہمارے ساتھ پڑھو گے؟ تب حر نے جواب میں عرض کیا: ہم آپ کی معیت میں ہی نماز جماعت قائم کریں گے. نماز کے بعد امام نے حر کے لشکر کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا: ہم اہلبیت تم پر ولایت اور حکومت کے زیادہ حقدار ہیں ان جھوٹے دعویداروں کے مقابل میں جو عدل و انصاف کی بنیاد پر لوگوں کے ساتھ سلوک نہیں کرتے اور وہ ظالم و جابر حاکم  تمہارے حق میں ظلم و ستم کو روا رکھتا ہے، اے لوگوں میں تمہاری طرف آ رہا ہوں شاید تم لوگوں نے ہی تو مجھے دعوت دی ہے اگر میرے آنے سے تم خوش نہیں ہو تو میں واپس پلٹ جاتا ہوں۔ 


قول امام حسینؑ: اسی منزل پر امام نے یہ خطبہ فرمایا کہ کیا تم دیکھ نہیں رہے ہو کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا ہے اور باطل سے پرہیز بھی نہیں کر رہے ہیں پس ایسے حالات میں ایک مومن کیلئے یہی مناسب ہے کہ وہ اللہ سے ملاقات کی تمنا دل سے کرے۔


۱۲۔ بِیضَةٌ:

یکشنبه ۲۷ ذی الحجه، سنه ٦٠ هجري

05/10/680


    امام حسینؑ کا قافلہ اور حر کا لشکر دونوں ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے اسی منزل تک آن پہونچے۔


قول امام   حسینؑ: اے لوگوں رسولخدا نے فرمایا کہ جو ظالم سلطان پیمان شکنی کرتا ہو، حرام کو حلال کرتا ہو، اللہ کے رسول کی سنت کی مخالفت کرتا ہوا دیکھائی دے تو اس کے مقابلہ کیلئے کھڑے نہیں ہوتے ہو تو ایسے شخص کا آخری ٹھکانا ظالم کے ساتھ جہنم ہے۔


۱۳۔ عُذَیبُ الهِجَانَاتِ:

دوشنبه ۲۸ ذی الحجه، سنه ٦٠ هجري

05/10/680


    امام حسینؑ سے اہل کوفہ کے چند افراد ملاقات کرتے ہیں اور شہر کوفہ کے حالات اس طرح بیان کرتے ہیں کہ کوفہ کے اشراف کو بڑی بڑی رقموں (تقریبا ٣٠ ہزار درہم یا دینار یعنی ) کی رشوتیں دی گئی ہیں لہذا ایک دل اور ایک زبان ہو کر آپ سے دشمنی کر رہے ہیں لیکن ان کے دل آپ کے ساتھ ہیں بلکہ آئندہ آپ کے خلاف اپنی شمشیریں کھینچیں گے۔


قول امام  حسینؑ: اس منزل پر امام نے قرآن مجید کی ایک آیت کی تلاوت فرمائی ہے کہ مومنین میں سے ہی کچھ مرد ایسے ہیں جو اپنے عہد و پیمان پر قائم رہتے ہیں جنہوں نے اپنے خدا سے کیا ہے اور اپنے عہد و پیمان سے وفاداری رکھتے ہیں اور شہادت کی منز ل تک پہونچتے ہیں اور ان میں سے بعض اپنی شہادت کا انتظار کر رہے ہیں۔


۱۴۔ قَصرُ بَنِی مُقَاتِل:

چهار شنبه ١ ماہ محرم سنه ۶۱ هجری

08/10/680


    اس منزل پر اہل کوفہ سے ایک گروہ خیمہ زن تھا تو امام نے ان سے پوچھا: کیا تم میری مدد کر سکتے ہو تو بعض لوگوں نے کہا کہ ہمارا دل مرنے کیلئے راضی نہیں ہے اور بعض نے کہا ہم کثیر العیال و اولاد ہیں نیز لوگوں کا بہت سا مال ہمارے پاس ہے اور اس جنگ کے انجام سے بھی بے خبر ہیں لہذا ہم آپ کی مدد و نصرت کرنے سے معذور ہیں پھر آنحضرت نے اپنے جوانوں کو حکم دیا کہ مشکوں میں پانی بھر لیں کیونکہ یہ قافلہ رات میں یہاں سے کوچ کرنے والا ہے۔


قول امام  حسینؑ : اسی منزل پر امام عبید الله بن حر جُعفی سے یہ فرماتے ہیں کہ پس اگر ہماری مدد و نصرت نہیں کرتے ہو تو تم خدا کیلئے ان افراد میں شامل ہونے سے پرہیز کرو جو ہم سے جنگ کرنے والے ہیں خدا کی قسم اگر کوئی شخص ہماری فریاد کو سنے اور ہماری مدد و نصرت نہیں کرے گا تو اسے اوندھے منھ جہنم کی آگ میں جھونکا جائے گا۔ 


۱۵۔ کربلا (نینوا) :

پنجشنبه ٢ محرم الحرام سنه ۶۱ ہجری

09/10/680


١- امام حسینؑ نے کربلا میں وارد ہونے کے بعد اپنے فرزندوں و برادران اور اہلبیت کو جمع کر کے ان پر اپنی نظر ڈالی اور تھوڑی دیر روتے رہے پھر فرمایا: "پروردگارا! ہم تیرے نبی حضرت محمد مصطفی کی عترت ہیں، ہم ستائے ہوئے گئے ہیں، وطن سے نکالے گئے ہیں اور اپنے نانا کے روضہ سے نکال باہر کئے گئے ہیں، ہم پر بنی امیہ نے زیادتی کی ہے. اے معبود! ہمارے حق کا واسطہ تو ہماری دستگیری فرما اور کافروں کی قوم کے مقابلہ میں ہماری نصرت فرما."


٢- دوسری محرم کے روز امام حسینؑ سرزمین کربلا میں وارد ہونے کے بعد اپنے اصحاب سے فرمایا:" لوگ دنیا کے بندے ہیں اور دین ان کی زبان پر چٹنی کی طرح ہے جب تک اس دین کے ذریعہ سامان معیشت ملتا رہتا اس دین کی حفاظت کرتے ہیں لیکن جب آزمائش میں پڑتے ہیں تو دیندار بہت تھوڑے رہ جاتے ہیں." 



منابع و مصادر و مآخذ

‬‎

  1. بلاغة الإمام الحسینؑ - حسين الموسوي أبو سعيدة

  2. سخنان حکمت آمیز امام حسینؑ ترجمه بلاغه الحسینؑ اثر مصطفی محسن موسوی‌ حائری‌ آل‌ اعتماد

  3. موسوعة الإمام الحسینؑ في الکتاب و السنّة و التاريخ - الشيخ محمد الري شهري

  4. مجموعه آثار: امام حسینؑ اثر اصغر محمدی‌ همدانی

  5. فرهنگ سخنان امام حسینؑ: (مجموعه نهج الحیات) اثر محمد دشتی

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی