کوفہ والوں کی نفسیات و خصوصیات اور صفات



via pinterest


 بشر شناسی اور کوفیوں کے نفسیات


مترجم: ابو دانیال  اعظمی بریر

راقم: نعمت اللہ صفری فروشانی 


١۔ روحانی او ر نفسیاتی خصائل و خصوصیات


الف : کوفیوں کی مثبت خصوصیات


        ۱۔       شجاعت و بہادری

        ۲      ۔ایمان اور حمیت و غیرت  دینی

        ۳      ۔صاحبان علم  


ب : کوفیوں کی منفی صفات اور خصوصیات


        ۱    ۔ دنیا پرستی

        ۲      ۔کسی بھی نظام حکومت کی عدم قبولیت (چاہے عادل ہو یا ظالم)

        ۳      ۔بے جا اجتہادات 

        ۴      ۔احساسات و جذبات کے ما تحت

        ۵     ۔ غَدَّاری اور فریب کاری کا سلوک 

        ۶      ۔بخیلی اور کنجوسی (فارسیوں کا اثر )

        ۷     ۔ خیانت کاری (نَبطیوںکا اثر )


٢۔ انسانی صفات سے وابستگی


        ۱      ۔ سلام کرنا

        ۲      ۔مصافحہ کرنا

        ۳      ۔معانقہ کرنا

        ۴      ۔خداحافظ کہنا

        ۵      ۔احترام کیلئے کھڑا ہونا

        ۶      ۔چھینک آنے پر دعائیہ کلمات کہنا

        ۷      ۔کوفیوں کی دیگر نیک خصلتیں

        ۱       ۔والدین کے ساتھ نیکی و بھلائی کرنا

        ۲      ۔پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرنا

        ۳        مسلمانوں کے ساتھ حسن معاشرت 

        ۴      مسلمان مریضوں کی عیادت کرنا

        ۵      تشییع جنازہ کرنا( مسلمانوں کی تشییع جنازہ) 

        ۶      اطعام (کھانا کھلانے) کی مجالس برپا کرنا   وغیرہم

 

١۔ روحانی او ر نفسانی خصائل و خصوصیات


        ہر ملت اور امت میں ممکن ہے کہ صفات میں سے تلفیقی طور پراور مثبت و منفی خلقیات کو رکھتے ہوں گے کہ زمانہ کے تناسب سے اور تاریخ کی مختلف عبارتوں میں ایک یا چند صفات ان سے ظاہر ہوئی اور دیگر صفات تو بھی تحت الشعاع قرار دے اور کوئی ایک حادثہ کے وجود میں آنے کا باعث ہوا۔ تاریخ میں یہی امر سبب ہوا ہوگا کہ لوگ اس موقع و محل کے اس صفت کے ساتھ یا خصوصیات سے انہیں پہچانتے ہوں گے۔ 

        شہر کوفہ کے عواوم بھی تاریخی مضامین میں بھی مقام بحث میں ۳؍ طرح کے صفات، فضائل اور رذائل کو رکھتے تھے ، لیکن یہاں تک کہ ان کے منفی صفات و خلقیات شیعہ اماموں کے ساتھ سلوک و برتاؤ جیسے امام علیؑ، امام حسنؑ و امام حسینؑ و نیز اہلبیت عصمتؑکے ساتھ کوفیوں کےبرتاؤ نے اس شہر پر ایک باقی رہنے والا خراب و برا کردار کا اثر ڈالا ہے۔ لہذاتاریخ اسلام کے اکثر مورخین اور تجزیہ نگاروں نے ان صفات کوکوفیوں کی خصوصیات کو ذکر کر رہے ہیں اوران لوگوں کی مثبت صفات سے غافل رہتے ہیں۔ لیکن اس دوران مصنفین و مولفین میں سے بعض مورخین کوفہ پر تاریخی ظلم سے برآشتفہ ہوئے اور ظلم کے اختتام کیلئےاہل کوفہ اور شہر کوفہ کی فضیلت میں کتابیں تحریر کی ہیںاور ان کوفیوں کی منفی صفات و خصوصیات سے چشم پوشی سے کام لیا ہے۔ جیسے : إِرشَادُ أَہلِ القِبلَۃِ إِلیٰ فَضلِ الکُوفَۃِاور فَضلُ الکُوفَۃِ  وَ مَسَاجِدُہَانامی کتابوں میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

        ان کوفیوں کے دیگر برے صفات نے تجلی پیدا کی ہے البتہ جہاں تک کوفیوں کی بری صفات کا تعلق ہے تو اس کے وحشیانہ و دہشتگردانہ آثار پہلی صدی ہجری میں ہی ظاہر ہوئےہیں، اسی وجہ سے سب سے اہمترین حصہ اس تحقیق میں انہی صفات پر تجزیہ و تحلیل کوہم نےاپنی اکثر تحریر میں مخصوص قرار دیا ہے۔ 

        اس کتاب کے راقم کے نظریہ کے مطابق اہل کوفہ کی مکمل و جامع خلقیات منفی و مثبت صفات کی آگاہی و معلومات پرمبنی ہے اور یہی اہمترین تاریخ کی مختلف عبارتوں کے ساتھ تحقیق و تجزیہ کا امکان پذیر نہیں ہےکیونکہ تاریخ کے کسی بھی ایک موڑ پر ان لوگوں کی نیک صفات و خصلت ہوئی ہے تو تاریخ کے دیگر موڑ پر بھی بری خصلت و صفات نے جلا پیدا کیا ہے، البتہ جہاں تک کوفیوں کی بری خصوصیات کے تعلق سے خوفناک آثار پہلی صدی ہجری میں ہی ظاہر ہوئے اسی لئے ہماری اس تحریر میں اکثر و بیشتر حصہ میں اسی صفات و خصلت کی تحقیق پر ہی تجزیہ و تحلیل سے مخصوص پائیں گے۔


الف : کوفیوں کی مثبت خصوصیات اور صفات

 

۱۔ شجاعت و بہادری

        ہم جانتے ہیں کہ کی پہلی آبادی کی جڑوں کو ایسے لوگ تشکیل دے رہے تھے کہایران کی طاقتور بادشاہت کے ساتھ جنگ کرنے کیلئےتمام ہی شبہ جزیرہ عرب سے ایران کی سرحد کی طرف سپاہی چلے جا رہے تھے۔ (جنگ قادسیہ میں شرکت کرنے والے مختلف قبائل اور ان کی تعداد کے بارے میں مزید معلو مات کیلئے مذکورہ کتاب کی طرف رجوع کیجئے: کوفہ پیدایش شہر اسلامی، ص40 و 41.)

        یہ لوگ اپنے قدیم ابتدائی زمانہ کے اسلحے لے کر ایران کی دانتوں تک مسلح لشکر کت مقابل میں شجاعت و بہادری کے ساتھ جنگ کی اور قادسیہ، نہاوند، جلولاء وغیرہ جیسے معرکوں میں ایرانی سپاہیوں کو شکست دی اور آخر کار اس عظیم شہنشاہیت کے سقوب کے اسباب فراہم کئے ۔

        حضرت علیؑ بصرہ کی طرف جا رہے تھےتو کوفہ کا لشکر مقام ذی قار میں آنحضرت سے ملحق ہوا  تو وہاں کے باشندوں نے انہیں خوش آمدید کہا اور عجم کی شان و شوکت کے ٹوڑنے میں ان کی شجاعت کو یاد بھی کیا۔(تاریخ الطبری،  3/ 502.)

        حضرت علیؑ کی تینوں جنگوں یعنی جنگ جمل، صفین (معاویہ کے سپاہیوں کے ذریعہ قرآن کو نیزوں پر اٹھانے سے قبل تک) اور نہروان میںیہی عنصر آنحضرت کےبہت کام آیا اورباعث ہوا کہ ان کے سپاہیوں کو کامیاب و کامرانی حاصل ہوئی۔لیکن جنگ صفین میں ان کے سپاہیوں کے درمیان اختلاف واقع ہونے کے بعدیہی عنصر ہاتھوں سے چلا گیا۔ وہ بھی اس طرح سے ہوا کہ ان لوگوں کے دلوں میںاس عنصر کے بجائے شام کے لشکر کا خوف و ڈر بیٹھا اسی وجہ سے شامیوں کی لوٹ مار اور قتل وغارتگری کے مقابل میں حضرت علیؑ  کے ماتحت شہروں میں سے کسی ایک شہر میں بھی سنہ ۳۹ ہجری میں مناسب رد عمل اپنی طرف سے ہرگزظاہر نہیں کیااور یہی امر باعث ہوا کہ حضرت علیؑ  ان لوگوں سے شاکی رہےاوران سے شکوہ و شکایت اس طرح کی تھی کہ آنحضرت انہیں مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں:» اے اہل کوفہ (تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ ) جب بھی شام کی فوج میں سے ایک لشکر کی روانگی کے بارے میں سنتے ہو تو اپنے گھروں میں پناہ لیتے ہواور اپنے ہی اوپر گھر کا دروازہ بند کرلیتے ہو بالکل ویسے ہی جیسے گوہ اور لکڑبھگا اپنے آشیانہ یا ماند کی طرف رینگتے ہوئے جاتے ہیں۔« (تاریخ الطبری، 4/ 103.)

        کوفہ پر عبید اللہ کی حکومت کے زمانہ میں یہی عنصردنیا پرستی کی وجہ سے اپنی صلاحیت کو بھی اپنے ہاتھوں سے ضائع اور برباد کر دیااور یہ سبب بنا کہ عبید اللہ کے سپاہیوں کے مقابل میں جناب مسلم کو تنہا چھوڑ دیا۔(مروج الذہب، 2/ 69؛ تجارب الامم، 2/ 50، الاخبار الطوال، ص 239.)

        واقعہ کربلا کے بعد اسی عنصر کو تحریک توابین اور انتقام مختار جیسی تحریکوں میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں۔

 

۲ ۔ایمان اور حمیت و  غیرت دینی

        ایران کے سپاہیوں پر عربوں کا ایمان ان کی کامیابی و کامرانی میںایک عظیم نقش رکھتا تھا۔ 

        ان لوگوں کی اسی دینی ایمان و حمیت ہی تھی کہ سنہ ۳۰ ہجری میں کوفہ کے گورنر کی شراب خواری اور فسق وجہ قرار پایا کہ اسے یعنی ولید بن عُقْبَہ کے معزول ہونے کا باعث ہوا، حتی کہ خلیفہ سوم عثمان کو بھی مجبور کیا یہاں تک کہ مدینہ میں اس پر شرب خمر کی حد شرعی جاری کری۔(تاریخ الطبری، 3/ 329 بعد.)

        ان لوگوں کی یہی دینی حمیت و تعصب ہی باعث ہوا کہ جب کوفیوں نے عثمان کی خلاف کاریوں کو دیکھنے کے ساتھ ہی ان کی مخالفت میں تحریک چلانے والوں میں سے ایک رکن کی حیثیت سے میدان میں آئے اور آخر کار انہیں خلافت سے معزول کر دیا۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ و الاقتصادیۃ فی الکوفۃ، ص 264.)

        حضرت علیؑ بھی جنگ جمل سے پہلے کوفیوں سے مدد طلب کرنے کے سبب ان کوفیوں کے ایمان یعنی ان کی اللہ اور اس کے رسول سے محبت کو ہی عنوان قرار دیتے ہیں۔ (تاریخ الطبری، 3/ 513.)

        اسی طرح سے آنحضرت نے جنگ صفین کی ابتدا سے پہلے ہی کوفیوں کو معاویہ کیلئے اس طرح سے تعریف کرتے ہیں: »اہل شام دنیا کی بنسبت اہل کوفہ سے بھی حریص تر ہیں جبکہ اہل کوفہ آخرت کی بنسبت اہل شام سے بھی زیادہ حریص ہیں۔« (مروج الذہب، 3/ 23.)

        بنی امیہ کے مسلط ہونے اور اموی تبلیغات کی وجہ سےنیزاس سے قبل کہ ان کوفیوں کے اجتہادات کے ذریعہ اور حضرت علی ؑکے دفاع کرنے میں  ان کی سستیاں اور بالآخر ان لوگوں کا دنیا کی طرف میلان طبع نے اسی دینی ایمان و حمیت کو کمتر اور بے اثر کر دیا ۔  اس طرح سے کہ سنہ ۶۱ ہجری میں فرزند رسولخدا کو انہی کوفیوں نے تنہا چھوڑ دیا بلکہ آنحضرت کے ساتھ جنگ کیا۔ 

        اسی طریقہ سےسخت ایمان اور بغیر صحیح بصیرت کے ایک گروہ خوارج جیسا پیدا ہوا کہ جس نے حق کی حکومت کو مضمحل کرنے میں ایک عظیم موثر کردار ادا کرنا سمجھا جا سکتا ہے۔ 

 

۳۔ صاحبان علم  

        شہر کوفہ شام کے شہروں کے بر خلاف تھا کو قرآن و حدیث کے عالموں سے بھرا پڑا تھا؛ کیونکہ یہ نیا بنایا ہوا شہر سپاہیوں کے ذریعہ بنیاد رکھا گیا تھا کہ ان کی اکثریت نے پیغمبر اکرم کو پایا تھااور آنحضرت کے ذریعہ معارف اسلامی سے آشنا ہوئے تھے ۔

        اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ خلیفہ دوم عمرجس وقت بعض انصار کو کوفہ کی طرف روانہ ہونے والوں کی مشایعت کر رہے تھے تو انہیں خطاب کرتے ہوئے کہا: »تم ایک ایسے گروہ کی طرف جا رہے ہو کہ جن کے سینوں میں قرآن ہےاور ان لوگوں کی تلاوت قرآن کی صدا شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کے مثل کانوں میں پہونچتی ہے۔«(فضل الکوفہ، ص 97.)

        بہر حال دیگربڑے اسلامی شہروں کے مقائسہ میںشہر کوفہ کچھ زیادہ ہی ترقی یافتہ رہا ہے اس طریقہ سے کہ جنگ صفین میں شرکت کرنے والے اصحاب کی تعداد کو مورخین نے ۲۰۸۰؍ افراد تحریر کی ہے کہ جن میں سے ۹۰۰؍افراد بیعت شجرہ میں شرکت کرنے والے صحابہ تھے اور ۷۸؍ افراد وہ لوگ تھے جو جنگ بدر میں شریک ہونے والے اصحاب تھے۔ (مروج الذہب، 2/ 347.) 

        علوم اسلامی کی ترقی کے بارے میں یہی نکتہ قابل ذکر ہونا کافی ہے کہ جنگ صفین کے بعد حضرت علیؑ سے کنارہ کشی کرنے والے خوارج کے افراد کی تعداد ۱۲؍ ہزار سپاہیوں میں قُرّاء حضرات تھے یعنی اتنی بڑی تعداد قرآن کے قاریوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ (مروج الذہب، 2/ 405.)

         ایسا نظر آتا ہے کہ ان تین صفات و خصوصیات کے مجموعہ جن کا ہم تذکرہ کر چکے ہیں ائمہ اطہارؑ کی زبان مبارک کی روایات باعث ہوئی ہیں جو انہوں نے کوفہ کی مدح و ثنا میں بیان فرمایا ہے؛ کچھ روایات میں تو ائمۂ اطہارؑنے کوفہ کے بارے میں  اس طرح کے القاب سے تاریخی کتب میں یاد کیا گیا ہے جیسے»جُمْجُمَۃُ الإِسلَامِ و کَنْزُ الإِیمَانِ« اور شمشیر و نیزہ خدا کہ جنہیں جس مقام پر چاہیں قرار دے سکتے ہیں۔ (فضل الکوفۃ، ص 71.)

 

ب : کوفیوں کی منفی صفات اور خصوصیات


        مختلف مصنفین و مولفین نے کوفہ کے لوگوں کیلئے بہت زیادہ منفی خصوصیات و صفات کو تاریخی کتب میں مقام بحث قرار دیتے ہوئے تذکرہ کیا ہے کہ جس کا ذکر ہم آئندہ کرنے والے ہیں لیکن اس سے پہلے ہم ۲ ؍نکات کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے تحریر کر رہے ہیں: 


اول: یہ صفتیں اور خصوصیات تمام ہی اہل کوفہ سے مربوط نہیں ہیں۔

دوم: یہ خصائل اور صفات ایک خاص مرحلہ میں ابھرتی ہوگی تو بسا اوقات دیگر مراحل میں ان صفات کی ضد کوفیوں کے درمیان پائی جاتی ہوگی۔

        بہر حال وہ خصوصیات و صفات ہم ذیل میں تحریر کر رہے ہیں:

 

۱۔ دنیا پرستی 

        ایران اور مسلمانوں کی جنگوں کے شروع سے ہی عربوں کے مختلف قبائل کے گروہوں نے غنائم کے چکر میں ہی لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے تھے ۔ (کوفہ پیدایش شہر اسلامی، 129.)

        یہی گروہ شہر کوفہ کی بنیاد رکھنے کے بعد اسی مقام پر قیام پذیر ہو ئے اور دیگر لوگوں کے اخلاقیات پر بھی اثر انداز ہوئے، کوفیوں میں اسی صفت کی موجودگی باعث تھی تا کہ »نان بہ نرخ روز خوردن«یعنی روزانہ کی قیمت پر روٹی کھانے کی نفسیات کو کسب کیاہے اور ہر ماجریٰ اور کسی بھی حکومت سے اسی بات کے امیدوار اور طرفداری کے خواہاں رہتے تھے کہ ان کی دنیاوی معیشت کو بھی حکمران ہی چلائیں ۔ جیسا کہ مختلف تاریخی حادثات اس مدعا کی تائید بھی کر رہے ہیں۔

        جنگ جمل میں حضرت علیؑکو دشمن کی فوج پر کامیابی کا احتمال کم تھا لہذا ٓنحضرت کے لشکر سے بہت کم تعداد میں ملحق ہیں  یعنی ۱۲؍ ہزار افراد کہ شائد کوفہ کی آبادی کے ۱۰؍ فیصدی افراد پر مشتمل تھی۔ (تاریخ الطبری، 3/ 513.) 

        گرچہ کوفیوں میں سے بہت کم ہی با ایمان و شجاع افراد کی یہ تعداد تھی اور انہوں نے اس جنگ کے سرنوشت کو بھی تبدیل کیا لیکن جنگ کی کامیابی کے بعد بعض اصلی اعتراضات میں سےایک یہی اعتراض حضرت علیؑ پر تھا کہ وہ ما غنیمت تقسیم کرنے کی بابت ہی تھا۔(تاریخ الطبری، 3/ 545.)

        جنگ صفین میں حضرت علیؑ کی خلافت و حکومت کی بنیادوں کو محکم و مستحکم کیا اور آنحضرتؑ کی کامیابی کا بھی احتمال بہت زیادہ تھا،لہذا کوفیوں کی زیادہ رغبت جنگ میں حاضر ہونے کو ظاہر کر رہی تھی اس طریقہ سے کہ آنحضرتؑ کے سپاہیوں کی تعداد ۶۵؍ ہزار سے ۱؍ لاکھ ۲۰؍ ہزار تک تحریر کی ہے کہ جس میں غیر کوفی افراد سپاہیوں کی تعداد ناچیز ہی تھی۔ (تاریخ الطبری، 4/ 59؛ مروج الذہب، 2/ 385.)

        حضرت علیؑکے بعد  کوفیوں کی بہت بڑی تعداد امام حسنؑ کی فوج میں شامل ہوئےلیکن جس وقت آنحضرتؑ کی فوج کمزور دیکھا تو کوفیوں نے اپنے آپ کو دستہ دستہ یا گروہ گروہ آنحضرتؑ کی فوج سے خارج کر لیا۔ (مزید معلومات کیلئے دیکھئے: صلح امام حسنؑ)

        حضرت مسلمؑ کی بیعت کرنے والےکی بہت سی تعداد ۱۲؍ ہزار سے ۴۰؍ ہزار کے درمیان مورخین نے تحریر کی ہے۔ (حیاۃ الامام الحسینؑ 2/ 327.)

         اسی اصول کے مطابق ہم یہ بھی توجیہ یا تاویل کر سکتے ہیںکیونکہ ایک طرف اس وقت معاویہ کی موت اور ایک یزید جیسے جوان کو شام کی مرکزی خکومت کے سبب کمزور دیکھ رہے تھےاور دوسری طرف کوفہ کے گورنر یعنی نعمان بن بشیرکی حکومت کو کمزور دیکھنے کی بنا پر کیونکہ اسے ایک سنجیدہ تحریک کے مقابلہ کیلئے قادر نہیں دیکھ رہے تھے، البتہ اس کے یہ معنی بھی نہیں ہے کہ تمام بیعت کرنے والے افراد ہی کو طالب دنیا سمجھیں،بلکہ بیعت کی ابتدا کرنے والے سلیمان بن صرد خزاعی جیسے افراد ہی تھےکہ جو ایک مخلص، با ایمان اور شجاع فرد تھے، لیکن جب ان لوگوں کا کام کچھ ترقی کرتا ہے تو بہت سے دنیا کے طلب کرنے والے بھی انہی سے ملحق ہو ئے ، یہاں تک کہ لوگ عبید اللہ کے کوفہ میں وارد ہونے کے بعد بھی کامیابی کی امید لگائے ہوئے تھے،اسی بنا پر جناب مسلمؑ کے ساتھ کوفیوں کی ایک بڑی تعداد عبید اللہ کے قصر کے محاصرہ میں شریک رہی۔ (الاخبار الطوال، ص 238.)

        لیکن جس وقت خطرہ محسوس کیا تو جناب مسلمؑ اور ہانیؑ کو تنہا چھوڑ دیا اور اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ، یہی خطرہ کا احساس اس وقت شدت اخیتار کر لیتا ہے کہ جب عبید اللہ کے حامیوں کی طرف سے یہ افواہ لوگوں کے درمیان پھیلائی جاتی ہے کہ شام کی فوج کی روانگی خبر اڑائی جاتی ہے کہ شامی فوج سے ڈرنا ہی کوفیوں کی دنیا طلبی کے نتائج میں سے ایک حاصل ہے۔  (تاریخ الطبری، 4/ 277.)

        امام حسینؑ جب سر زمین کربلا میں وارد ہوئے تو اس طرح سے کوفیوں کی دنیا طلبی کی صراحت فرمائی تھی:

        »إِنَّ النَّاسَ عَبِيدُ الدُّنيَا وَ الدِّينُ لَعْقٌ عَلَىٰ أَلْسِنَتِهِمْ يَحُوطُونَهُ مَادَرَّتْ مَعَائِشُهُمْ فَإِذَا مُحِّصُوا بِالْبَلَاءِ قَلَّ الدَّيَّانُونَ.«

        بیشک لوگ دنیا کے بندے ہیں اور دین ان لوگوں کی زبانوں پر چٹنی جیسا امر ہے، اسی وقت دین کی طرف جاتے ہیں کہ ان لوگوں کی (دنیاوی) معیشت برقرار ہے، لیکن جب بھی یہ لوگ امتحان میں پڑ جاتے ہیں تو ان لوگوں میں دیندار افراد کی تعداد بہت کم ہو جائے گی۔ (موسوعۃ کلمات الامام الحسینؑ ص 373.)

۲۔ نظام حکومت کی عدم قبولیت (چاہے عادل ہو یا ظالم)

        کوفہ کے اکثر ساکنین کو ایسے لوگوں کا طبقہ تشکیل دیتے تھے کہ جو شہری زندگی بسر کرنے سے پہلے اپنے قبائل کے درمیان صحرا و بیابانوں میں رہا کرتے تھے ۔ (نقشہ ہای 26- 29) 

        ان لوگوں پر عربوں کا بدوپن حاکم تھا اور یہ پہلی بار تھا کہ شہری زندگی کےتجربہ سے گذر رہے تھے۔ (کوفہ پیدایش شہر اسلامی، ص 80.) 

        ان صحرا نشینوںکی صفتوں میں سےایک صفت یہ تھی کہ انہیں بے حد اور غیر محدود آزادی حاصل ہوا کرتی تھی کہ انہیں جو صحرا و بیابانوں میں ہی میسر ہوتی تھی، یہی صفت باعث ہوئی کہ ایک منظم قوانین کے مقابل میں کمتری صبر و تحمل کا اظہار کیا کرتے تھے،اسکے بر خلاف شام کے لوگ صدیوں سے شہری زندگی بسر کر رہے تھے اسی لئے شامی حکومت کے مقابل میں مطیع و صلح پسند عوام کی حیثیت رکھتے تھے۔(تاریخ الدولۃ الاسلامیۃ، ص 58.)

        کوفیوں کی یہی صفت باعث ہوتی ہے حتی کہ یہ دائمی طور پر اپنے حکمرانوں اور والیوں کے ساتھ رکھتے رہیں اسی خصلت کے سبب ہی خلیفہ دوم عمر بن خطاب کو اپنے ہی ہاتھوں سے پریشان وحیران کر دیا تھا اس طریقہ سے کہ شکوہ کے مقام پر کھڑا کر دیا تھا کہ ان کوفیوں کی شکایت کرتے ہوئے کہا: »اس سےبڑھ کر مصیبت کیا ہو سکتی ہے کہ ایک لاکھ کی آبادی والوں سے رو برو ہوا جائے کہ نہ وہ لوگ ہی اپنے حکمران سے خوش ہیں اور نہ ہی ان کا حاکم اس رعیت کے ہاتھوں رضامندی رکھتا ہے۔ «(تاریخ الطبری، 3/ 243.)

        اسی مقام پرہم کوفیوں کا اپنے حکمرانوں سے سلوک کی چند مثالوں کو اس بات سے قطع نظر کہ ان لوگوں کے ساتھ ایسا سلوک برحق تھا یا نہیں ، ذیل میں ذکر کر رہے ہیں:

        ۱۔کوفیوں نے اپنے سب سے پہلے والی و امیر سعد بن ابی وقاص کیلئے یہ بہانہ تراشہ کہ وہ نماز اچھی طرح سے نہیں پڑھتے تھے۔ (فتوح البلدان، ص 277.)

        بیت المال کو بھی مساوات کی بنیاد پر تقسیم نہیں کرتے تھے اور رعیت کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ سلوک نہیں کرتے تھے اور جنگ کے وقت خود میدان جنگ میں حاضر نہیں ہوتے تھے۔

 یہی مذکورہ کوفہ کے عوام اعتراضات کیا کرتے تھے اور سعد نے بھی کوفیوں کے مقابل میں اس طرح سے لعنت و نفرین کیا تھا: »خدایا! کسی بھی امیر کو ان لوگوں سے راضی نہ کر اور انہیں بھی ان کے امیروں سے راضی نہ فرما۔ (تاریخ الطبری، 3/ 208 و 209.) 

        ۲۔ عمر نے لوگوں کی شکایت کے بعد سعد کو معزول کیا اور رسولخدا کے جلیل القدر صحابی عمار یاسر کو ان کا جانشین قرار دیا لیکن لوگ پھر بھی یہ بہانہ لائے کہ یہ کمزور حاکم ہے اور سیاست سے بھی نابلد ہونے کی شکایت کی، اسی لئے عمر نے ا؍ سال ۹؍ مہینے کے بعد انہیں بھی معزول کیا۔ (فتوح البلدان، ص 278.)

        ۳۔ جناب عمار کے بعد ابو موسی اشعری عمر کی طرف سے ان کے جانشین ہوئے اور ۱؍ سال ان پر حکمرانی کیا لیکن کوفہ کے لوگوں نے ایک سال کے بعد پھر بہانہ یہ لائے کہ ان کا غلام کوفہ کے پل کے مقام  پر جانوروں کی غذا کی خرید و فروخت میں مشغول ہوتاہےلہذا اس کی شکایت عمر کے پاس کیا اور عمر نے بھی انہیں گورنری سے معزول کر کے انہیں بصرہ کی ولایت پر منصوب کیا۔ (تاریخ الکوفۃ، ص 262؛ تاریخ الطبری، 3/ 240.)

        ۴۔ کوفیوں نے اپنے ہی والی سعد بن عاص کی موجودگی کے باوجوداسی کی مجلس میں شرطہ (پلیس) کے سردار کو اس قدر مارا پیٹا کہ وہ بیہوش ہو گیا۔(الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 262.)

        ۵۔ہم نے قبل میں یہ تحریر کیا ہے کہ عثمان کے زمانہ حکومت میں شراب خوری کی بنا پر کوفہ کے والی ولید بن عقبہ کی حقیقت میں ہی  حاکم وقت سے شکایت کیا اور اس کے معزول ہونے کا سبب بنے اور شرعی حد کھانے کا بھی باعث ہوئے۔ (تاریخ الطبری، 3/ 329.) 

        کوفہ کی عوام اسی نفسیات کی طرف متوجہ تھے کہ فقط چند گورنر ہی کوفہ پر حکمرانی میں دوام لا سکے کہ جیسے مغیرہ بن شعبہ (تجارب الامم، 2/ 15.) اور نعمان بن بشیر (تجارب الامم، 2/ 42.) نے اس طریقہ سے کوفی عوام کے ساتھ برتاؤ کیا کہ کوفہ کے مختلف عقائد کے گروہوں یا جماعتوں کے ساتھ کم از کم ٹکراؤ پیدا ہو سکے،نیززیاد بن ابیہ اور اس کا بیٹا عبیداللہ جیسے والیوں نے ایک مطلق العنان یا ڈکٹیٹر کی طرح شدت پسندی کے ساتھ عمل کرتے ہوئے حکمرانی کرنے والے تھے۔

 

۳۔ بے جا اجتہادات 

        اس خصلت کو حقیقت میں ہم گذشتہ صفت کے نتائج سمجھ سکتے ہیں لیکن اس دلیل کو جداگانہ طور پر ذکرکر رہے ہیں کہ اسی خصوصیت میں علم ہی نظام حکومت کی عدم قبولیت کے ساتھ مخلوط ہو ا ہے ۔

         ان کوفیوں کے درمیان صحابہ اور قاریان قرآن کی تعداد بہت زیادہ موجود تھی، خود کو اکثر حکومتی اور جنگی مسائل کے بارے میں صاحب نظر سمجھتے تھےاور حکومت کے مقابل میں خود اپنے ہی نظریہ پر ترجیح دیتے تھے ۔

         اس بے جا اجتہاد کی واضح کو ہم جنگ صفین میں دیکھ سکتے ہیں کہ جس میں حضرت علیؑکی مخالفت کا باعث ہوا اور پھر ایک گروہ خوارج کے نام سے وجود میں آنے کا مشاہدہ کیا۔ (الامامۃ و السیاسۃ، 1/ 127.) 

        اسی طرح صلح امام حسن کے موقع پر مختلف گروہوں کا امام کے مقابل میں اظہار نظر کرنے کا تذکرہ کتابوں درج ہوا ہے۔(دیکھئے صلح امام حسنؑ.)

 

                        ۴۔ احساسات و جذبات کے ما تحت

        اس خصوصیت و خصلت کوکتب تاریخ کے متون (عبارتوں) کے مطالعہ کے ساتھ کوفہ کی حیات کے مختلف شعبوں میں مشاہدہ کیا ہے، بہت سے حوادث کی تحقیق و تجزیہ کریں گے تو کوفیوں کا جذباتی ہونا خطباء کی خطبوں کے وسیلہ یا پھر کسی دیگر عامل کے ذریعہ جذبات مشتعل و محرک ہوئے اور انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ وہ کوئی جذباتی کام کریں، لیکن جذبات کے کے سرد ہونے کے بعد اپنے سابقہ عزم پر واپس پلٹ گئے اور اس جذباتی کام کو جاری رکھنے سے منحرف ہو گئے، جس کی ایک واضح مثال انہوں نے جناب مسلم کی بیعت کرنے کے ساتھ اور قصر حکومت کر حملہ کرنے کے باوجود انہیں تنہا چھوڑ دینے کا مشاہدہ ر سکتے ہیں۔(تاریخ الطبری، 4/ 275 و 276.)

        اسی طرح عبید اللہ کے قصر کا محاصرہ جب قبیلہ مِذحَج کے ذریعہ ہانی کی گرفتاری کے اعتراض میں بھی ہم ایک بہترین شاہد (گواہی) کو اپنی دلیل میں تسلیم کر سکتے ہیں۔ (تاریخ الطبری، 4/ 274.) 

         کوفیوں کا گریہ و زاری کرنا واقعہ کربلا کے بعد ام کلثوم اور امام سجاد کے خطبے کے وسیلہ سے دوسری مثال کو ان کی اسی خصلت کے سلسلہ میں خصوصی صفت شمار کر سکتے ہیں۔(مقتل الحسینؑ، مقرّم، ص 316 و 317.)

        ابن کوّاء بھی کوفیوں کی اسی صفت کے بارے میں کہتے ہیں: وہ لوگ میدان میں متفقہ طور پروارد ہوتے تھے اور پھر اسی کاروائی سے گروہ گروہ اپنے آپ کو باہر کھینچتے تھے۔ (سیمای کوفہ، ص 42.)

        کوفیوں کے درمیان یہ خصوصیات اس حد تک پہونچ گئی تھی کہ لائق و فائق حکمرانوں اور سرداروں جیسے حضرت علیؑ و فرزندش امام حسنؑ  عوام کی جنگ کی تشویق و ترغیب کیلئے اس سے فائدہ اٹھانے کے علاوہ کوئی بھی چارہ کار نہ رہاکہ ان کے جذبات و احساسات کو تحریک کرنے والے کو ہتھیار بنائیں یعنی خطابت و مقررین اور خطباء نہیں ہوتے تھے جیسا کہ جنگ جمل سے پہلے انجام دیا تھا۔ (تاریخ الطبری، 3/ 500.) 

        طبعی طور پر جس وقت مد مقابل حذبات کو ابھارنے والے کو ایک اسلحہ کے طور پر استعمال کرتے تھےتو وہ سردار ان مشکلات سے دچار ہوتے تھےچنانچہ اسی امر کو ہم جنگ صفین میں جس وقت قرآنوں کو نیزوں پر بلند کیا گیا تو مشاہدہ کیا۔(تاریخ الطبری، 4/ 34.)

        شائد یہی خصلت اصلی علتوں میں سے ایک ہے کہ ایمان ان کے دلوں میں رسوخ نہیں کر سکا ہے۔ دیگر بیان یہ ہے کہ قبائل کے افراد اسلام کی شوکت کو دیکھنے کے بعدمسلمان ہوئے اور اپنی دنیاوی مفاد کی خاطر جنگ پر گئے لہذا نو مسلموں سے اس کے علاوہ کیا انتظار کیا جا سکتا ہے۔ 

 

۵۔ غَدَّاری اور فریب کاری کا سلوک 

        یہ خصلت و خاصیت کوفیوں کے درمیان اس قدر مشہور و معروف تھا کہ عربوں نے انہی پر ایک ضرب المثل کے بنا ڈالی : »أَغْدَرُ مِنَ الکوفی« یعنی کوفیوں سے بھی زیادہ غدارکہاوت وجود میں آگئی۔

        ہم ان لوگوں کی اسی خصلت کو دنیا طلبی اور جذباتی ہونے کا معلول سمجھ سکتے ہیں، تاریخی کتب کی تحریروں کے درمیان ایسی عبارتیں بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ اس صفت کی موجودگی کو کوفیوں میں تذکرہ ہوا ہے۔انہیں ہم ذیل میں بطور مثال رقم کر رہے ہیں:

        ۱۔ حضرت علیؑ کوفیوں کو  خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: »تم صلح کے وقت شیر کے مانند ہو اور جنگ کے دوران لومڑی کی شبیہ ہوتے ہو۔« (جمہرۃ خطب العرب، 1/ 420 و 425.)

        ۲۔آنحضرت نے خداوند عالم کی بارگاہ میںکوفیوں کی شکایت کے موقع پر فرماتے ہیں:»خدایا میں نے جس قدر بھی ان لوگوں کے ساتھ بھلائی کی مگر میری بھلائی کے مقابلہ میں فریب کے ساتھ ہی مجھے جواب دیااورجب بھی میں نے انہیں امین شمار کیا تو انہوں نے میرے ساتھ خیانت بھی کرتے رہے۔«(مختصر کتاب البلدان، ص 171.)

        ۳۔ اسی طرح آنحضرت سے نقل ہوا ہے کہ کسی ماجرا کی بنا پر کوفیوں کے بارے میں فرمایا ہے:»إنَّهُمْ قَوْمٌ خَدِع« یعنی بتحقیق یہ فریب کار قوم ہے۔(ترجمۃ الامام علیؑ 3/ 199.)

        ۴۔ خود عبد الله بن عباس نے امام حسینؑ  کو نصیحتیں کرتے ہوئے تا کہ آنحضرت کوفہ کی سمت راونگی سے باز آجائیں فرماتے ہیں: »إنَّ أْهلَ الْعَراقِ قَوْمٌ غُدَرٌ فَلا تَقْرِبَنَّهُمْ«  یعنی بیشک اہل عراق (کوفہ اور بصرہ کے لوگ) ایک فریب کار قوم ہےپس ان کے قریب مت رہو۔(جمہرۃ خطب العرب، 2/ 43.)

        ۵۔ امام حسینؑ بھی اپنی آخری حیات کے لمحات میں فرماتے ہیں :»أَللّٰهُمَّ إنَّ أهْلَ الْعَراقِ غَرُّونی و خَدَعُونی« یعنی خدایابیشک اہل عراق (کوفہ) نے مجھے فریط دیا اور خدعہ و نیرنگ کے راستہ سے وراد ہوئے ۔(موسوعۃ کلمات الامام الحسینؑ، ص 500.)

        ۶۔ جناب مسلم ؑ بھی اپنے آخری لمحات میں فرماتے ہیں: خدایاتو خود ہی ہمارے اور اس گروہ کے درمیان جنہوں نے ہمیں فریب دیا اور تکذیب کیا اورپھر اسی وقت ہمیں خوار کیا اور قتل کیا بہترین فیصلہ فرما۔(مروج الذہب، 3/ 69.)

        ۷۔ امام سجادؑ نے اپنے ایک خطبہ میں کوفیوں سے خطاب کرتے ہیں جس وقت کربلا کے اسیروں کا قافلہ کوفہ میں وارد ہوا تو انہی لوگوں کی اسی صفت کا تذکرہ کرتے ہیں: خطبہ کے بعد کوفہ کے لوگ جذبات کی بنا پر جوش میں آئے تھے،آنحضرت سے مطالبہ کیا کہ ان لوگوں کی رہبری اپنے ذمہ لیں اور کوفی لوگ آنحضرت کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں اور آنحضرت کے دستورات کے سامنے سر جھکائیں گے، لیکن امامؑ نے ان الفاط میں ان کے مطالبہ کو رد کر دیا تھا: »اَیُّها الغَدَرَهُ المَکَرَه« یعنی اے غدار فریبی لوگو! (مقتل الحسینؑ، مقرّم، ص 317.)

 

۶۔ بخیلی و کنجوسی

        حذیفہ کی طرف سے اس صفت کی نسبت کوفیوں کو دی گئی ہے اورکہا گیا ہے کہ انہوں نے بخیلی کی صفت کو (قوم فارس) فارسیوں سے کسب کیا ہے۔  (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 262.)

 

۷۔ خیانت  کاری

        حذیفہ کی طرف سے اس صفت کی نسبت کوفیوں کو دی گئی ہے اور کوفیوں کا خیانت کی صفت (قوم نبط) نبطیوں سے حاصل کرنا شمار کیا ہے۔ (الحیاۃ الاجتماعیۃ، ص 262.)

 

٢۔ انسانی صفات سے وابستگی

        جہاں تک انسانی مناسبات جو رفتار میں شامل ہوتی ہیں جن کے ذریعہ لوگ ایک دوسرے سے معمول کےمطابق رو ز مرہ سلوک و براؤ کرتے تھے، تاریخی کتابوں میں کمتر انہیں یاد کیا گیا ہے۔ 

        آپ کی اطلاع کیلئے ان مناسبات میں سے ایک پہلو کو ہم اپنی روایات کی کتابوں میں اور جو روایات مختلف ابواب میں معاشرت کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں انہی سے استفادہ کر رہے ہیں۔لیکن ہماری بحث کے دقیق تر ہونے کیلئے ہم اپنے آپ کو چند روایات سے استفادہ کر یں گے کہ جو ائمہ معصومینؑ کی زبان مبارک سے تاریخی متون میں محل بحث یعنی صدر اسلام سے قرن اول کے نصف دوم ہجری میں صارد ہوئے ہیں۔

 

الف: سلام کرنا

سلام کے سلسلہ میں  قرآنی آیات  ملاحظہ کیجئے:

۱۔ وإذا حييتم بتحية فحيوا بأحسن منها أو ردوها إن الله كان على كل شئ حسيبا۔ (سورہ  نساء ۸۶)

۲۔ وتحيتهم فيها سلام۔ (سورہ یونس ۱۰)

۳۔ولقد جاءت رسلنا إبراهيم بالبشرى قالوا سلاما قال سلام إلى قوله تعالى: رحمة الله وبركاته عليكم أهل البيت۔  (سورہ ہود ۶۸ ۔ ۷۳)

۴۔ تحيتهم فيها سلام۔ (سورہ ابراہیم ۱۰)

۵۔ ونبئهم عن ضيف إبراهيم * إذ دخلوا عليه فقالوا سلاما۔  (سورہ حجر ۵۱ ۔ ۵۲)

۶۔يقولون سلام عليكم ادخلوا الجنة بما كنتم تعملون ۔(سورہ نحل ۳۲)

۷۔ قال سلام عليك سأستغفر لك ربي. لا يسمعون فيها لغوا إلا سلاما۔ (سورہ مریم ۴۷ ۔ ۶۲)

۸۔ فإذا دخلتم بيوتا فسلموا على أنفسكم تحية من عند الله مباركة طيبة كذلك يبين الله لكم الآيات لعلكم تعقلون۔ (سورہ نور ۶۱)

۹۔ وإذا خاطبهم الجاهلون قالوا سلاما. وقال تعالى: ويلقون فيها تحية وسلاما۔ (سورہ فرقان ۶۳ ۔ ۷۵)

۱۰۔ تحيتهم يوم يلقونه سلام۔ (سورہ احزاب ۴۴)

۱۱۔ إذ دخلوا عليه فقالوا سلاما قال سلام۔ (سورہ ذاریات ۲۵)

۱۲۔إلا قيلا سلاما سلاما۔ (سورہ واقعہ ۲۶)

سلام کرنا بھی آداب اسلامی میں سے ایک عمل ہے کہ قرآن میں بھی اس کیلئے سفارش ہوئی ہے۔  .....فَإِذَا دَخَلتُم بُیُوتاً فَسَلِّمُوا عَلیٰ أَنفُسِکُم تَحَیَّۃً مِن عِندِ اللہِ مُبَارِکَۃً طَیِّبَۃً..... پس جب گھروں میں داخل ہو تو اپنے نفسوں کو سلام کرو، یہ اللہ کی طرف سے مبارک پاکیزہ ہدیہ ہے ۔ (دیکھئے سورہ نور کی آیت نمبر 61.)

v  اسلام میں سلام جیسی سنت پر تاکید ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرم کے کلام میں اس طرح نقل ہوا ہے: »جس وقت بھی سلام سے قبل کوئی بات کہنا شروع کر دے تو اس کا جواب مت دیا کرو۔« (بحار الانوار، 76/ 3.)

 ٦ـ عن أبي عبد الله: قال: قال رسول الله: من بدأ بالكلام قبل السلام، فلا تجيبوه،

v  اسی طرح آنحضرت نے لوگوں میں سب بڑا بخیل شخص اسے خیال کیا ہے کہ جو سلام کتنے میں خل سے کام لیتا ہو۔ (بحار الانوار، 76/ 4.)

١٧ـ عن أبي عبد الله قال: البخيل من بخل بالسلام

v  سلام کرنے کے آداب میں سے ایک افشائے سلام بھی ہے یعنی بآواز بلند سلام کرنا ہوتا ہےکہ پیغمبر اکرم کی طرف سے بھی اس کی سفارش کی گئی ہے۔(بحار الانوار، 76/ 2 و 4.) 

۱ـ عن الصادق….. أن رسول الله 9 أمرهم بسبع: عيادة المرضى، واتباع الجنائز، وإبرار القسم، وتسميت العاطس، ونصر المظلوم، وإفشاء السلام، وإجابة الداعي.

٢ـ عن الصادق: قال: قال رسول الله: إن في الجنة غرفا يرى ظاهرها من باطنها، وباطنها من ظاهرها يسكنها من أمتي من أطاب الكلام، وأطعم الطعام، وأفشى السلام، وصلى بالليل والناس نيام، ثم قال: إفشاء السلام أن لا يبخل بالسلام على أحد من المسلمين.

٧ـ  عن رجل عن ابن المنكدر رفعه قال: قال رسول الله: خيركم من أطعم الطعام، وأفشى السلام وصلى والناس نيام.

٨ـ عن أنس قال: قال رسول الله يوما: يا أنس أسبغ الوضوء تمر على الصراط مر السحاب، أفش السلام يكثر خير بيتك، أكثر من صدقة السر فانها تطفئ غضب الرب عزوجل

٩ـ عن أبي عبد الله قال: من يضمن لي أربعة بأربعة أبيات في الجنة: من أنفق ولم يخف فقرا، وأنصف الناس من نفسه وأفشى السلام في العالم، وترك المراء وإن كان محقا.

٤١ـ الحسن بن علي، عن ثعلبة عن زرارة، عن أبي جعفر قال: إن الله يحب إطعام الطعام، وإفشاء السلام۔

v  سلام کی عبارت کے بارے میں دو طرح کی الفاظ روایات میں وارد ہوئے ہیں :

         ۱۔ »اَلسَّلَامُ عَلَیکُم« (بحار الانوار، 76/ 6 و 7.)

١٨ـ من كتاب الدلائل للحميري، عن إسحاق بن عمار الصيرفي قال: دخلت على أبي عبد الله وكنت تركت التسليم على أصحابنا في مسجد الكوفة، وذلك لتقية علينا فيها شديدة، فقال لي أبو عبد الله، يا إسحاق متى أحدثت هذا الجفاء لإخوانك؟ تمر بهم فلا تسلم عليهم؟ فقلت له: ذلك لتقية كنت فيها فقال: ليس عليك في التقية ترك السلام وإنما عليك في التقية الاذاعة إن المؤمن ليمر بالمؤمنين فيسلم عليهم، فترد الملائكة: سلام عليك ورحمة الله وبركاته أبدا.

        ۲۔»حَیَّاکَ اللهُ بِالسَّلَامِ« (بحار الانوار، 76/ 4.)

وقال: إذا قال لك أخوك: "حَيَّاكَ اللهُ بِالسَّلَامِ" فقل أنت: "فَحَيَّاكَ اللهُ بِالسَّلَامِ"، "وَأَحَلَّكَ دَار المُقَامِ.".

v  بعض روایات کے مطابق بہتر ہے کہ خواتین ان الفاظ میں سلام کہے: »عَلَیکُمُ السَّلَام« (بحار الانوار، 76/ 7.)

٢٤ـ سأل الساباطي أبا عبد الله عن النساء كيف يسلمن إذا دخلن على القوم؟ قال: المرأة تقول: عليكم السلام، والرجل يقول: السلام عليكم۔

v  اسی طرح اہل کتاب سے ملاقات پر پیغمبر اکرم سے اس طرح نقل ہوا ہے:»تم انہیں سلام کرنے میں ابتدا مت کرواور جس وقت وہ تمہیں سلام کریں تو تم ان کے جواب میں فقط اتنا ہی کہو۔« : »عَلَیکُم« (بحار الانوار، 76/ 9.) 

٣٧ـ أبو البختري عن الصادق، عن أبيه أن رسول الله ص قال: لا تبدؤا أهل الكتاب بالسلام، فان سلموا عليكم فقولوا: عليكم۔

v  بعض روایات میں یوں وارد ہوا ہے کہ کوئی بھی مسلمان خود اپنے ہی گھر میں داخل ہو رہا ہو اور گھر مین کوئی بھی نہ ہو تو بہتر ہے کہ اس طریقہ سے سلام کے کلمات ادا کرے:»اَلسَّلَامُ عَلَیْنَا مِنْ رَبِّنَا« (بحار الانوار، 76/ 4.)

٣ـ «فإذا دخلتم بيوتا فسلموا على أنفسكم» في رواية أبي الجارود عن أبي جعفر قال: يقول: إذا دخل الرجل منكم بيته، فإن كان فيه أحد يسلم عليهم، وإن لم يكن فيه أحد فليقل: "السلام علينا من عند ربنا"، يقول الله: «تحية من عند الله مباركة طيبة».

أقول: وفي بعض النسخ: وقيل: إذا لم ير الداخل بيتا أحدا يقول فيه: "السلام عليكم ورحمة الله"، يقصد به الملكين اللذين عليه شهود.

أقول : وفي بعض النسخ: وقيل: إذا لم ير الداخل بيتا أحدا يقول فيه: "السلام عليكم ورحمة الله"، يقصد به الملكين اللذين عليه شهود.

v  گرچہ روایات میں ہر مسلمان کو سلام کرنے کی سفارش وارد ہوئی ہے۔

v   مگر بعض مسلمان کو سلام نہ کرنے کی تاکید بھی شریعت نے فرمائی ہے۔ (بحار الانوار، 76/ 12.) 

v  جنازہ کے ساتھ جانے والے ، نماز جمعہ کیلئے جانے والے اور جوحمام میں ہے انہیں سلام نہیں کریں گے۔

٣١ـ عن ابن أبي الخطاب رفعه إلى الصادق (ع): ثلاثة لا يسلمون: الماشي مع جنازة، والماشي إلى الجمعة، وفي بيت حمام.

v  بعض روایات میں یہ وارد ہوا ہے کہ بہتر ہے کہ سوار شخص پیدل چلنے والے کو سلام کرے گا اور جماعت میں سے کوئی  ایک فرد بھی  سلام کرے گی تو بھی کافی ہے۔ (بحار الانوار، 76/  7.)

v  اسی طرح کھڑا ہونے والا شخص بیٹھے ہوئے شخص کو سلام کرے گا۔ (بحار الانوار، 76/ 12.)

٢٦ـ عن علي بن حماد أن رسول الله قال: ليسلم الراكب على الماشي وإذا سلم من القوم واحد أجزأ عنهم.

v  جب کسی مجلس سے رخصت ہونا چاہو تو سلام کے ذریعہ وداع کہا کرو۔(بحار الانوار، 76/ 12.)

٣٦ـ عن الصادق، عن أبيه، عن النبي قال: إذا قام الرجل من مجلسه فليودع إخوانه بالسلام، فإن أفاضوا في خير كان شريكهم، وإن أفاضوا في باطل كان عليهم دونه.

v  گرچہ روایات میں ہر مسلمان کو سلام کرنے کی سفارش وارد ہوئی ہے لیکن بعض لوگوں کو سلام کرنے کی ممانعت بھی روایات میں وارد ہوئی ہے؛  جیسے یہودی، نصاریٰ، مجوس، بت پرست، شرابخوار، شطرنج و نرد کھیلنے والا، مخنث، ، وہ شاعر جو شادی شدہ خواتین کی طرف قذف کی نسبت دیتا ہے،نماز پڑھنے والاکیونکہ نمازی جواب دینے کی استطاعت نہیں رکھتا، اس لئے کہ سلام کرنا سنت ہے مگر جواب سلام  فرض ہے، سود خور، جو شخص بیت الخٗلا میں بیٹھا ہے، جو حمام میں نہاہا رہا ہے اور جو شخص کھلم کھلا فسق و فجور کرتا ہے، ان سب کو سلام کرنا منع ہے۔ (بحار الانوار، 76/ 12.) 

٣٥ـ عن الصادق عن أبيه قال: لا تسلموا على اليهود، ولا على النصارى، ولا على المجوس، ولا عبدة الأوثان، ولا على موائد شراب الخمر، ولا على صاحب الشطرنج والنرد، ولا على المخنث، ولا على الشاعر الذي يقذف المحصنات، ولا على المصلي وذلك لأن المصلي لا يستطيع أن يرد السلام لأن التسليم من المسلم تطوع والرد عليه فريضة ولا على آكل الربا، ولا على رجل جالس على غائط، ولا على الذي في الحمام، ولا على الفاسق المعلن بفسقه.

 

ب: مصافحه کرنا

        مصافحہ کرنا یعنی ایک دوسرے سے ملاقات کے وقت ہاتھ ملانا ہے۔ اسلام کی سنتوں میں سے ایک سنت مصافحہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔ 

        پیغمبر اکرم کی زبانی اس طرح بیان ہوا ہے :»ملاقات کے وقت سلام اور مصافحہ سے ایک دوسرے کے ساتھ برتاؤ کرو۔« (بحار الانوار، 76/ 20.) 

حضرت علیؑ سے بھی ایک روایت میں وارد ہوا ہے: »جس وقت اپنے برادران ایمانی سے ملاقات کرو تو ایک دوسرے سے مصافحہ بھی کرو اور اپنی خوشی کا بھی اظہار کرو اور بشاشت کے ساتھ سلوک کرویہاں تک کہ اپنے دشمن کے ساتھ بھی مصافحہ کرواگر چہ اس عمل سے تمہیں خوشی محسوس نہ بھی ہوتی ہو۔« (بحار الانوار، 76/ 20.)

 

ج: معانقه کرنا

        معانقہ یعنی مسلمان کا ملاقات کے وقت ایک دوسرے سے گلے ملنا ہے۔ اس کے بارے میں بھی اسلام کی طرف تائید ہوئی ہے اور اس کی دلیل میں پیغمبر اکرم کا حبشہ سے واپسی پر جعفر طیار سے معانقہ کرنا ہے۔ (بحار الانوار، 76/ 43.)

د: خداحافظ کہنا (رخصت  ہونا)

         پیغمبر اکرم کی ایک روایت میں اس طرح سے نقل ہوا ہے کہ آخری رخصت یا خدا حافظی کے وقت سلام (سَلام لفظ) کے ذریعہ ایک دوسرے کو خدا حافظ کہا کرو۔ (بحار الانوار، 76/ 11.)

        دیگر روایت میں آنحضرت نے یوں فرمایا ہے کہ طلب مغفرت کے وسیلہ سے ایک دوسرے کیلئے استغفار کرتے ہوئے جدا ہوا کرو۔ (بحار الانوار، 76/ 5 و 28.)

 

ھ: احترام کیلئے کھڑا ہونا

        روایات میں بھی احترام کی خاطر کھڑا ہونا بھی وارد ہوا ہے ۔ پیغمبر اکرم نے اس طرح نقل ہوا ہے کہ آنحضرت نے انصار سے خطا کرتے ہوئے فرمایا ہے:»جس وقت بھی تمہارا سید و سردار تمہارے پاس وارد ہو تو کھڑے ہوجایا کرو۔ «

        یہ بھی آنحضرت کی سیرت میں وارد ہوا ہے کہ جب بھی حضرت فاطمہؑآنحضرت کے پاس وارد ہوتی تھیں تو   حضور کھڑے ہوجایا کرتے تھےاور حبشہ سے واپسی پر جعفرؑ طیار اوریمن سے واپسی پر عکرمہ بن ابی جہل کیلئے بھی آنحضرت کھڑے ہوئے تھے۔ (بحار الانوار، 76/ 38.)

 

و: چھینک آنے پر دعائیہ کلمات کہنا

        روایات میں اس دعا کی سفارش ہوئی ہے کہ چھینکنے پر ان دعائیہ کلمات کو زبان پر جاری کرنا چاہئے، اس طرح سے کہے: »اَلْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ عَلیٰ کُلِّ حَالٍ«اور اس کے ہمراہی افراد ان کلمات کو اپنی زبان پر جاری کرتے ہوئے کہیں گے:»یَرْحَمُکُمُ الله« اور اس کے جواب یہ کہیں گے:»یَغفِرُ اللهُ لَکُم وَ یَرحَمُکُم«یا»یَغفِرُ اللهُ لَکُم« (بحار الانوار، 76/ 52 و 54.) 

        مذکورہ بالااس عمل کو روایات کی اصطلاح میں»تَسمِیّت عَاطِس«یا»تَشمِیّت عَاطِس« یعنی جو شخص چھینک رہا ہے اس کیلئے دعا کرناکہا جاتا تھا اور بعض روایات میں مومنین کے حقوق میں سے ایک حق اسی کو شمار کیا گیا ہے۔ (بحار الانوار، 74/ 236.)

        حضرت علیؑ سے نقل ہوا ہے کہ ۳؍ مرتبہ تک چھنکنے والے کے جواب یہی کہیں گے (جو مذکورہ بالا تحریر میں بیان ہوا ہے) اور اگر چوتھی چھینک بھی آتی ہے تو یہ مرض کی دلیل ہوتی ہے اور اس کے جواب میں اس طرح کہا جائے گا: »شَفَاکَ اللہُ« (بحار الانوار، 76/ 54.)

 

ز: کوفیوں کی دیگر نیک خصلتیں

        روایات کی کتب میں مختلف مناسبات کے سلسلہ میں بہت سی احادیث جوامع اسلامی پائی جاتی ہیں جیسے:

        ۱۔ماں باپ کے ساتھ نیکی کرنا، 

        ۲۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرنا، 

        ۳۔ مسلمانوں کے ساتھ حسن معاشرہ رکھنا، 

        ۴۔ مسلمان مریضوں کی عیادت کرنا، 

        ۵۔ مسلمانوں کے جنازے کی تشییع میں شرکت کرنا، 

        ۶۔ مجالس اطعام برقرار کرنا، وغیرہم

        مذکورہ بالاامور خیر کتابوں میں وارد ہوا ہے کہ ان کے واضح ہونے کی بنا پر ہم ان روایات کو ذکر کرنے سے پرہیز کر رہے ہیں۔ (ان کی مزید معلومات کیلئے کتاب بحار الانوار، جلدنمبر  74کی طرف رجوع کیجئے۔)


اقتباس از کتاب : کوفہ از پیدائش تا عاشورا

فصل سوم : مردم شناسی و روانشناسی مردم کوفہ

راقم: نعمت اللہ صفری فروشانی

 




via pinterest


DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی