اقتصادی فعالیت

 


 via pinterest


ب: رفتار شناسی پیامبر (ﷺ)

اقتصادی فعالیت

 

ترجمہ: ابو دانیال اعظمی بریر

 

تشویق

        ایک روز انصار کا ایک شخص آنحضرت کے پاس آیا اور مادی مدد کی درخواست کی، پیغمبر اکرم نے اس سے پوچھا: تمہارے گھر میں کوئی ایک بھی چیز ہے؟ اس مرد نے جواب دیا: ہاں! ایک فرش ہے جس کا نصف حصہ (سردی کے موسم میں ہمارے لئےامان میں رہنے کا ذریعہ) ہم لپٹتے ہیں اور اس کا ایک حصہ بچھاتے ہیں اور ایک پیالہ ضخیم اور لکڑی کابھی ہے کہ جس میں ہم پانی پیتے ہیں۔

        آنحضرت نے فرمایا:» اُنہیں لے کر آؤ «مرد انہیں لے کر آیا۔ آنحضرت نے اُنہیں لیا اور فرمایا: اِنہیں کون خریدتا ہے؟ صحابہ میں سے ایک شخص نے کہا: میں ان دونوں کو ایک درہم (250 ₹) میں خریدوں گا، پیغمبر نے پھر پوچھا: کون اس سے زیادہ میں خریدے گا؟ صحابہ میں سے ایک شخص نے کہا: میں اسے دو درہم (500 ₹) میں خریدوں گا۔ آنحضرت نے انہیں اس کے حوالہ کیا اور دو درہم (500 ₹) لیا۔ پھر پیغمبر نے مرد انصاری کو وہ درہم دیا اور فرمایا: اس ایک درہم (250 ₹) سے کھانا پینا خریدو اور اپنے خاندان والوں کو دو اور دوسرے ایک درہم (500 ₹) کی کلہاڑی خریدواورمیرے لئے ایک لکڑیاں لےکرآؤ۔اس مرد نے ایسا ہی کیا، آنحضرت نے ایک لکڑی کو (دستہ کے طور پر)اس میں لگا دیا، پھر فرمایا؛ جاؤ! جلانے والی لکڑیاں جمع کرواور پندرہ روز تک میرے پاس مت آؤ۔اس مرد نے دو ہفتہ کے بعد دس درہم کی آمدنی سے لباس اور کچھ کھانے پینے کی چیزیں خریدی ۔

        اس سے پیغمبرؐ اکرم نے فرمایا: تمہارا یہی کام لوگوں سے مطالبہ کرنے سے بہتر ہے، لوگوں سے مانگنے سے قیامت کے روز تمہارے چہرہ پر ایک نقطہ یا دھبہ ظاہر ہو جائے گا، لہٰذا کسی سے مانگنا مناسب نہیں ہے، سوائے ضرورتمند کے جو بھوکا یا مقروض ہو کہ ادائیگی کی قدرت نہیں رکھتا یا پھر ایک دردمند صاحب دیتا ہے۔

        پہلے سے بھی عظیم تشویقات کی گفتار یہ مبارک کلام ہے: »جو شخص بھی اپنی محنت مزدوری کی کمائی کھائے گا تو محشر کے دن پیغمبروں کے زمرہ میں قرار دیا جائے گا اور ان ہی کی جزا بھی اسے ملے گی.«

        آمدنی اور اقتصادی فعالیت میں تمام تشویقات کے ساتھ، ہمیشہ معیشت کی صحیح و حلال راہ کو گم نہ کرنے اور حرام سے آلودہ نہ کرنے کو مسلمانوں کی آنکھوں اور کانوں کو قرار دیتے تھے اور فرماتے تھے: »جو شخص بھی اپنی عبادتوں کی قبولیت سے خوش ہوتا ہے اسے چاہئے کہ اپنی آمدنی کے راستوں کو پاک و پاکیزہ بنائے۔«

        صبح سویرے اپنے رزق کی تلاش میں گھر سے باہر نکلنا مستحب شمار کیا گیا ہے اور آنحضرت نے فرمایا: »خداوند عالم نے صبح سویرے کو میری امت کیلئے مبارک قرار دیا ہے«

        بغیر دلیل کے پیشہ کو بدلنا اور احساسات کے ماتحت مشاغل سے خوش نہیں رکھتے تھے اور فرماتے تھے: »جس کسی کی بھی روزی ایک کام یا چیز قرار دی ہے یہاں تک کہ ناگزیر نہ ہو تو اسے تبدیل نہ کرے۔«

        آنحضرت کے پاس چند گوسفندیں اور دودھ دینے والی اونٹنیاں تھی کہ جس کے ذریعہ اپنا اور خاندان کیلئے غذا حاصل کیا کرتے تھے۔ آنحضرت کی تمامتر تشویق معاشی فعالیت میں پھر بھی خبردار کرتے رہتے تھے: »اس طرح سے دنیا میں جستجو میں کہ یہاں سے منہ نہیں پھیر نے والے ہو (اور آخرت تمہیں بری نہیں ہوگی.)«

        آنحضرت بیکاری کے دشمن تھے، جب بھی کسی جوان مرد کو دیکھتے تھے تو اس کے پیشہ کے سلسلہ میں پوچھتے بھی تھے، اگر وہ جواب دیتا تھا: بیکار ہے، تو فرماتے تھے: میری نظر سے گر گئے ہو! اور آنحضرت سے جب یہ پوچھا جاتا تھا کہ کیوں؟ تو فرماتے تھے: کیونکہ جب بھی مومن کوئی ہنر نہیں رکھے گا تو دین کے راستہ سے اپنی روٹی کھائے گا۔

        آنحضرت نے فرمایا: عبادت کے ۷۰؍ حصے ہوتے ہیں کہ اس میں سے عظیم حصہ حلال آمدنی میں ہے۔

        آنحضرت فرماتے تھے: ایک (حلال) روزی جو سایہ ساز ہے سوائے عرش خداوندی کے سایہ نہیں ہے، تو ایک مرد اس سایہ میں (محشر کے روز) رہتا ہے کہ جو اپنی اور خاندان کی روزی کیلئے زمین کو الٹ پلٹ کرتا ہے اور فضل خداوند میں تلاش و جستجو کیلئے نکلاہے۔

        آنحضرت نے فرمایا: کچھ ایسے بھی گناہ وجود رکھتے ہیں کہ جنہیں نماز مٹاتی نہیں ہے اور نہ ہی صدقہ، لوگوں نے پوچھا: اے اللہ کے رسول! پھر وہ کون سی چیز انہیں مٹائے گی؟ آنحضرت نے فرمایا: (حلال) رزق کی راہ میں تکلیف اٹھانا ہے۔

        آنحضرت خرمہ کھاتے تھے اور اس کی گٹھلی زمین میں بوتے تھے۔

        آنحضرت فرماتے تھے: جو شخص بھی خود ہی محنت مزدوری کر کے رزق حلال کھائے گا تو وہ پل صراط سے بجلی کی تیزی کے مثل گذر جائے گا۔

 

آداب

پاکیزہ ترین آمدنی، تجارت سے حاصل شدہ آمدنی ہے: جب بھی بات کرتے ہیں، جھوٹ بولتے نہیں ہیں اور جب بھی کوئی انہیں امین بنائیں تو خیانت کرتے نہیں ہیں اور اگر وعدہ کرتے ہیں تو مخالفت کرتے نہیں ہیں  اور جب کوئی چیز خریدنا چاہتے ہیں (سستا خریدنے کیلئے) تو اس چیز کی برائی کرتے نہیں ہیں اور جب کوئی چیز بیچنا چاہتے ہیں تو (اس چیز کی) حد سے زیادہ (مبالغہ) تعریف کرتے نہیں ہیں (اور کسی چیز یا اپنے قرض کو لینے کیلئے) معطل کرتے نہیں ہیں اور جب طلبگار ہوتے ہیں تو اپنے مقروض کو تنگ کرتے نہیں ہیں۔

        آنحضرتؐ کسی بھی راستے سے ثروت اندوزی کی مذمت کیا کرتے تھے اور فرماتے تھے: »جو شخص بھی میری امت کیلئے ایک رات ہی گررنی کی آرزو کرے گا، خداوند عالم اس کی ۴۰؍ سالہ عبادت کو باطل کرتا ہے۔«

        جو شخص بھی صبح سویرے اپنے رزق اور ضروریات کی جستجو میں جائے گا، کیونکہ سحر خیزی یعنی صبح سویرے اٹھنا برکت اور فلاح کا سبب ہے۔

        پُر دلی کو تجارت کے آداب میں شمار کرتے تھے اور فرماتے تھے: »ڈرپوک تاجر ناکام ہے اور پر دل تجارت کرنے والا روزی کھائے۔«

        خداوند عالم اس شخص کو جو خرید و فروخت کے وقت، لین دین میں سخت گیر نہیں ہے سے محبت کرتا ہے۔  

        جو شخص بھی اپنی محنت کی کمائی کھائے، پروردگار اس پر مہربانی کی نظر ڈالتے گا اور اسے ہرگز عذاب میں مبتلا نہیں کرے گا۔

        جو شخص بھی اپنی محنت کی کمائی سے فائدہ حاصل کرتا ہےتو بہشت کے دروازے اس کیلئے کھول دیئے جاتے ہیں تا کہ جس دروازہ سے بھی وہ داخل ہونا چاہے اس سے وارد ہو جائے۔

  بیشک خداوند متعال دیندارماہرہنر مند سے محبت کرتا ہے۔

 

تجارت

        آنحضرت فرماتے: »بَرَکَت کے ۱۰؍ جز ہوتے ہیں کہ جس میں سے ۹؍ جز کو تجارت میں قرار دیا ہے اور اس کا دسواں جز چمڑوں [یعنی گلہ بانی] میں قرار دیا ہے۔«

        آنحضرت فرماتے: »سچا امین تاجر؛ انبیا، صدیقین اور شہدا کے ساتھ ہوتا ہے۔«

        اگر خداوند عالم جنتیوں کو تجارت کی اجازت دیتا ہے، تو وہ عطر اور کپڑے کی تجارت کرتے ہیں۔

 

مشغلہ و پیشہ

        جس وقت قریش اور یہودیوں نے مدینہ پر حملہ کرنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ ہوگئے، پیغمبر اسلام ؐ سلمان فارسی کی تجویز ہر شہر کت اطراف میں خندق کھودنے کا حکم دیا اور آنحضرت خود بھی اس کام میں مشغول ہوگئے، پھاؤڑا یا کدال مارتے تھے اور اس کی مٹی کو دوسرے مقام پر ڈالتے تھے۔

        آنحضرت فرماتے تھے: کوئی بھی اپنی ہی محنت مزوری کی کمائی سے بہتر غذا نہیں کھائے گا۔

        آنحضرت مدینہ میں مسجد بنانے کے زمانہ میں پتھروں کو خود ہی اٹھاتے تھے۔

        عایشہ کہتی ہیں: »آنحضرت کو ہرگز اپنے ہی گھر میں بیکار بیٹھے ہوئے نہیں دیکھا یا تو اپنی ہی نعلین کو سیتے تھے یا پھر کسی محتاج کے نعلین کو یا کسی بیوہ عورت کے کپڑے میں پیوند لگاتے تھے۔ «آنحضرت فرماتے تھے: »بیکاری؛ سنگدلی لاتی ہے۔«

        آنحضرت فرماتے تھے: ۷؍ چیزیں ہیں کہ جن کی جزا آدمی کے مرنے کے بعد جن وہ قبر میں ہوتا ہے تو دی جاتی ہے، آنحضرت نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا: [ایک تو یہ کہ] ... یا تو نہر جاری بنائے یا ایک کنواں بنائے یا پھر ایک درخت بوئے۔

 

کیفیت کی پابندی

         معاذ کے فرزند سَعد، کی تدفین کے وقت خود ہی آنحضرتؐ قبر میں گئے پتھر یا اینٹ کو اس کی جگہ پر رکھا اور فرمایا: ایک پتھر مجھے دیجئے، مٹی دیجئے، خشت (اینٹ) رکھنے کے بعد، خشتوں (اینٹوں) کے درمیان کی جگہوں کو مٹی سے بھرا، جب کام مکمل ہو گیا تو قبر پر خاک کو پھیلا دیا اور قبر کی (خاک) کو صاف کیا اور فرمایا: »میں بخوبی جانتا ہوں کہ بہت جلد ہی اس قبر کو گزند پہونچے گا اور ویران ہو جائے گی لیکن پروردگار اس شخص سے محبت کرتا ہے کہ بندہ جب بھی کسی کام کو انجام دے تو اس کام کو احسن و مستحکم طریقہ سے انجام دے. «چونکہ خود ہی کام کر رہے تھے تو اس کو بھی صحیح طریقہ سے انجان دیتے تھے۔ لوگوں میں بہترین شخص وہی ہے کہ جو کسی کام کو انجام دینے میں اپنی تمامتر سعی و کوشش اور صلاحیتوں کو بروئے کار لائے۔

 

خوبصورتی کی اهمیت

        محمد بن قیس کے بیٹے عثمان، کہتے ہیں: میرے والد نے میرے ہاتھ میں بغیر دستہ کا تازیانہ دیکھا تو کہا: پیغمبر گرامی نے ایک شخص سے فرمایا: اپنے تازیانہ کا بند خوبصورت بناؤ؛ کیونکہ پروردگار عالم جمیل ہے اور جمال سے محبت کرتا ہے۔

        آنحضرتؐ خواتین سے اپنے سروں کو تراشنے سے منع فرماتے تھے۔

        پروردگار عالم خوبصورت آواز سے محبت رکھتا ہے۔

        اچھی آواز سے قرآن کی خوبصورتی میں اضافہ ہوتا ہے۔

        خوبصورتی کی آفت خود پسندی کو جانتے تھے۔

        خوشخط حق کی روشنی میں اضافہ کرتا ہے۔

        جس وقت بھی تم میں سے کوئی ایک قاصد میری طرف بھیجتے ہو تو کسی ایسے کو جو خوبصورت اور نیک نام ہے اسی کو ہی بھیجو۔

        ہر چیز کی زینت ہوتی ہے اور قرآن کی زینت خوبصورت آواز ہے۔

        جو شخص بھی قرآن کو اچھی آواز میں تلاوت نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

 

تفریحات

        آنحضرت فرماتے تھے: کبھی کبھی اپنے دلوں کو بھی آسائش دو۔

        آنحضرت روایتی افراد کے کھیلوں کو دیکھتے تھے اور مانع بھی نہیں ہوتے تھے۔

        اپنے اصحاب کے باغوں میں بھی جایا کرتے تھے۔ آنحضرت اپنے اصحاب سے سفارش کرتے رہتے تھے: (جائز و حلال) تفریح انجام دیا کرو اور کھیلو بھی، میں اس بات کو محبوب نہیں رکھتا کہ تمہارے دین میں ایک بھی وحشت و خشونت (شدت و سختی) دکھائی دے۔

 

ورزش میں مسابقات

        امام سجادؑ نے فرمایا: گھوڑوں کی دوڑ کا مسابقہ برپا کرتے اور جیتنے والے کو چاندی کا ایک ظرف بطور انعام قرار دیا۔

        امام صادقؑ نےفرمایا: عرب کے صحرا نشین آنحضرتؐ کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! کیا آپ اس اونٹنی کے ساتھ مجھ سے مسابقہ کریں گے؟ پیغمبر نے قبول کیا، جب مسابقہ منعقد ہوا تو صحرا نشین مرد جیت گیا تو آنحضرت نے فرمایا: »تم نے میرے دوست اونٹ کو اوپر اوپر سے ہی جیت گئے، مگر خدا محبوب رکھتا ہے کہ نیچے نیچے ہی رہو، پہاڑوں نے کشتی نوح کیلئے اپنی گردنیں اونچی کر لیں، لیکن کوہ جودی نے فروتنی کا ثبوت دیا اور خداوند متعال نے کشتی کو اسی پر ٹھہرا دیا۔«

 

میانه روی [اعتدال]

         کامل انسان امیر المومنینؑ حق طلبی اور حق گوئی کی توصیف میں فرماتے ہیں: حق کے بیان کرنے اور اجرا میں کوتاہی نہیں کرتے تھے اور اپنا پیر بھی اس سے باہر نہیں نکالتے تھے۔ اسی طرح پہلے امام نے پیغمبرؐ اسلام کے شیوہ اور سیرت کو میانہ روی اور »افراط و تفریط سے دور« بیان کرتے رہتے تھے۔

        پیغمبر اکرم اپنے کلام میں نہ ہی فقط مسلمانوں اور دیندار لوگوں کو، بلکہ کرہ ارض کے تما م ہی انسانوں کو ہر وقت و زمانہ میں عمل کرنے کیلئے، 3 بار میانہ روی کی طرف دعوت دیتے رہتے تھے: »تم پر میانہ روی لازمی ہے، تم پر میانہ روی لازمی ہے، تم پر میانہ روی لازمی ہے!«

        تم میں سے بہترین شخص وہی ہے کہ جو آخرت کیلئے دنیا کو نہ چھوڑے اور اس کے بر عکس یعنی دنیا کیلئے آخرت کو نہ چھوڑے۔

        عائشہ کہتی ہیں: میں پیغمبر گرامی کے پاس گئی اور میرے ساتھ  »بنی اسد« کے قبیلہ کی ایک عورت بھی تھی، آنحضرت نے پوچھا: وہ عورت کون ہے؟ میں نے کہا: فلان عورت ہے، جو راتوں میں عبادت کی خاطر سوتی نہیں ہے، آنحضرت نے فرمایا: »بس کرو! اپنی طاقت و قوت کے اعتبار سے ہی عبادت کرو ... خدا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب نیک کام اور عبادت ہے، وہی ہے کہ اس کو انجام دینے والا اس پر مستقل عمل کرتا رہے [نہ یہ کہ بہت زیادہ انجام دے اور خود کو تھکا لے۔]«

        پیغمبر رحمت نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا: اے ابو دردا! تمہارے جسم تجھ پر حق رکھتے ہیں؛ خاندان بھی تم پر حق رکھتے ہیں؛ پس کبھی کبھار مستحبی روزہ رکھو اور کبھی کبھی مستحبی روزہ مت رکھو، نماز پڑھو اور سو جاؤ [اور تمام راتوں کو مستحب نماز کیلئے بیدار مت رہو] لہٰذا ہر کسی کا حق انہیں دو۔

        عبادت میں میانہ روی کرنا کتنا بہتر ہے۔

        اپنی توانائی کے مطابق ہی خدا کی  عبادت کریں۔

        تم چاہتے ہو کہ میں تمہیں ایک عبادت سے آشنا کرو کہ جو تمام عبادتوں میں سے بدن کیلئے سب سے آسان ہے؛ خاموشی اور حسن اخلاق۔

        »1 قیراط: ایک قسم کا وزن اور پیمانہ ہے جو 60 صاع یعنی 180 کلو گرام یعنی 240 مشت (مٹھی) کے برابر ہوتا ہے. 

پس ہر صاع 4 ایک متوسط مشت »مٹھی« کے برابر ہوتا ہے اور موجودہ زمانہ میں ہر صاع تقریباً 3 کلو گرام کے برابر ہوتا ہے۔«

હય્યાકલ્લાહો બીસ્સલામ

حَیَّاکَ اللّٰهُ بِالسَّلَام

HaiyakAllaho Bis Salam

حَيَّاكَ اللّٰهُ بِالسَّلَام

हय्याकल्लाहो बीस्सलाम

نوٹ: اس مقالہ کے ۱۰۰ سےزائد مصادر و منابع ہیں جو مجلہ شمیم یاس کے دفتر میں موجود ہیں۔

مجلہ: شمیم یاس، ماہ خرداد: ۱۳۸۴، شماره: ۲۷، صفحہ: ۴۶



via pinterest


DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی