مختصر مقاصد و نتائج عاشورا و کربلا

 


Via Pinterest


تحریک عاشورا کے مختصر مقاصد اور نتائج


ترجمہ : ابو دانیال اعظمی بریر


امام حسینؑ کے قیام کے اغراض و مقاصد کو ہم بآسانی اور بغیر زحمت و تکلیف کے خود سید الشہداء امام حسینؑ کے اقوال و فرامین کی روشنی ميں اخذ و استنباط کر سکتے ہیں.

جس وقت امام حسینؑ کے اوپر حکومت کے کارندوں کی طرف سے شدید دباؤ اور بیعت کے مطالبہ کے سبب مجبور ہوئے کہ مدینہ چھوڑ دیں تب ہی امام حسینؑ نے اپنے خروج کے اغراض و مقاصد ضبط تحریر میں لا کے اس کا اظہار مندرجہ ذیل الفاظ میں فرمایا ہے: 

«إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِراً وَ لا بَطَراً وَ لا مُفْسِداً وَ لَا ظالِماً وَ إِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الإِصْلاحِ فى أُمَّةِ جَدّى (ص) أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ أَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أَسِيرَ بِسِيرَةِ جَدّى (ص) وَ أَبِى عَلِىِّ بْنِ أَبِى طَالِب (ع)»

يعنى: «بیشک میں خود غرضی اور تفریح طبع، فتنہ و فساد اور ستمگری کی غرض سے نہیں نکلا ہوں. بتحقیق میں تو فقط اپنے جد امجد کی امت میں اصلاح کی غرض کی بنا پر ہی وطن سے نکلا ہوں. 

میرا أراده تو بس نیکی کی ہدایت کرنا اور برائی سے باز رکھنا ہے اور میری غرض و غایت اپنے  جد مکرم کی سیرت پر عمل کرنا ہے اور اپنے پدر بزرگوار کے نقش قدم پر چلنا ہے.»

آنحضرت کے مذکورہ کلام میں چند نکات توجہ کے قابل ہیں: 

١. جد امجد کی امت کی اصلاح کرنا،

٢. امر بالمعروف اور نهى عن المنكر جیسے اہمترین فریضے کو انجام دینا، 

٣. پيغمبر اسلام اور على کي سیرت و طریقہ کو متحقق کرنا.


«أَللّٰهُمَّ إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا كَانَ مِنَّا تَنَافُساً فِى سُلْطَان وَ لَا إِلْتِمَاساً مِنْ فُضُولِ الْحُطَامِ وَ لٰكِنَّ لِنَرُدَّ الْمَعَالِمَ مِنْ دِينِكَ وَ نُظْهِرَ الإِصْلَاحَ فِى بِلَادِكَ وَ يَأْمَنَ الْمَظْلُومُونَ مِنْ عِبَادِكَ وَ يُعْمَلَ بِفَرَائِضِكَ وَ سُنَنِكَ وَ أَحْكَامِكَ.»

«پروردگارا! تو ہی بہتر جانتا ہے کہ ہم  جو کچھ اظہار کر رہے ہیں اس میں قدرت کے رقابت اور دنیا کی دولت کے حصول کی غرض غايت شامل نہیں ہے بلکہ ہماری غرض و غایت یہی ہے کہ تیرے دین کی نشانیاں اس کے اصل مقام پر لائیں اور تیرے شہروں کی اصلاح کریں تا کہ تیرے مظلوم بندو‌ں كو امن و امان حاصل ہو اور تیرے دین کے واجبات و سنتوں اور احکامات پر عمل ہوتا رہے

امام كے مذکورہ کلام میں چند نکات توجہ کے شایان شان ہیں:

١. دین کی علامتوں اور نشانیوں کو اس کے اصلی مقامات پر قرار دینا. 

٢. تمام شہروں میں اصلاحات کو انجام دینا. 

٣. مظلوموں کیلئے امن و امان کی فضا قائم کرنا.

٤. اللہ کے فرائض و سنتوں اور احکامات پر عمل کرنے کیلئے ماحول فراہم کرنا. 


جب امام حسینؑ  مکہ سے کوفہ کی طرف سفر کرتے ہوئے ایک منزل جس نام کا شراف ہوتا ہے اس مقام پر وارد ہونے کی تاریخ 26 ذی الحجہ سنہ 660 ہجری مطابق اکتوبر سنہ 680 عیسوی بروز شنبہ (سنیچر) کو وارد ہوئے تو امام کے قیام کی مدت تقریبا نصف روز تک ہوتی ہے لہذا اسی مقام پر حر بن یزید ریاحی کے ایک ہزار پر مشتمل بھوکے پیاسے لشکر سے روبرو ہوئے سب سے پہلے امام نے انہیں کھانا پینا عطا فرمایا پھر امام اور حر کے بیچ گفت و شنید کا سلسلہ چلا یہاں تک کہ ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا تب امام کے مؤذن حجاج بن مسروق جعفی نے اذان دی اور امام اپنے خیمہ سے نعلین اور عبا زیب تن کئے ہوئے برآمد ہوئے اور امام نے حر سے استفسار کیا: تم اپنے ساتھیوں کے ساتھ نماز پڑھو گے؟ تو حر نے جواب میں کہا: میں آپ کے ساتھ ہی نماز پڑھوں گا. نماز ظہر پڑھ کر ہر ایک افراد اپنے اپنے خیمہ میں تشریف فرما ہوئے. پھر بعد میں عصر کی نماز کے وقت نماز جماعت قائم ہوئی تو امام نے خطوط کا تذکرہ کرتے ہوئے خطبہ ارشاد فرمایا:

«أَيُّهَا النّاسُ فَإِنَّكُمْ إِنْ تَتَّقُوا اللهَ وَ تَعْرِفُوا الْحَقَّ لا أَهْلِهِ يَكُنْ أَرْضى للهِ وَنَحْنُ أَهْلُ بَيْتِ مُحَمَّد (ص) أَوْلىٰ بِوِلايَةِ هٰذا الاَْمْرِ مِنْ هٰؤُلاءِ الْمُدَّعينَ ما لَيْسَ لَهُمْ وَ السّائرينَ بِالْجَوْرِ وَ الْعُدْوانِ.»

«اے لوگو! اگر تم لوگ خوف خدا رکھتے ہو اور حق کو اس کے اہل کے ذریعہ پہچانتے ہو تو یہی عمل خداوند متعال کی خوشنودی کا موجب قرار پائے گا اور ہم اہلبیت رسول ان نالائق جھوٹے دعویدار اور ظالم و جابر کارندوں کے مقابلہ میں زیادہ حقدار اور مستحق ہوں

 

«إِنّا أَحَقُّ بِذٰلِكَ الْحَقِّ الْمُسْتَحَقِّ عَلَيْنا مِمَّنْ تَوَلَّاهُ.»

«ہم اہلبیت حکومت و حاکمیت کے سب سے زیادہ حقدار و سزاوار ہیں ان لوگوں کی بنسبت جنہوں نے حکمرانی کو اپنے تصرف میں کر رکھا ہے وہ تو اس امت کی حاکمیت و حکمرانی کے لائق ہی نہیں ہیں

امام کے اس کلام کے دو حصے ہیں جس سے یہ بات  بالکل صاف طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ آنحضرت خود کو امت کی رہبری اور زمامداری کیلئے لائق و فائق سمجھتے تھے، نہ کہ فاسد یزید اور اس کی ظالم و جابر حکومت کے کارندوں کو لائق سمجھا.

اسی بنا پر امام حسینؑ کا مقصد اس تحریک کے سلسلہ میں مکمل طور پر صاف و شفاف تھا اور اس نظریہ پر کامل طور پر حق بجانب بھی تھے.

آنحضرت جن امور کو اپنی تحریک کے فلسفہ کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں جیسے:

١. امت کی اصلاح،

٢. امر بالمعروف اور نهى عن المنكر،

٣. پيغمبر اکرم اور امام على کی سیرت کو تحقق بخشنا،

٤. دین کی علامتوں اور نشانیوں کو ان کے اصلی مقام پر پلٹنا،

٥. شہروں میں اصلاحات کے عمل کو انجام دینا،

٦. معاشرتی امن و امان قائم کرنا،

٧. احکام الہی کے اجرا کیلئے ماحول سازی کرنا.

مذکورہ بالا یہ تمام ہی کے تمام امور اسی وقت قابل تحقق اور قابل اجرا ہو سكتے ہیں کہ جب ولایت و حکومت اپنے اصلی راہ پر گامزن رہے اور یہ امام کے دست مبارک میں رہے اور اسی لئے امام نے اسے غیر اسلامی حکومت و سلطنت بتایا ہے، لہذا آنحضرت نے فرمایا: «ہم پیعمبر اسلام کے اہلبیت ہی اس مقام و منصب کے سب سے زیادہ لائق و فائق افراد ہیں، وہ لوگ ہرگز امت کی رہبری و راہنمائی کیلئے مناسب نہیں ہیں جن متجاوزین و ظالمین نے حکومت کو اپنے تصرف میں کر رکھا ہے

پس آنحضرت کا آخری غرض و غایت غیر اسلامی حکومت کو اکھاڑ پھینکنا اور اس کے بدلے ایک اسلامی حکومت کی تشکیل کیلئے سعی و کوشش کرنا جس کی بنیاد پیغمبر اسلام اور امام علی کی سیرت پر استوار ہو کہ جس کی روشنی میں احکام الہی کا اجرا ہوتا ہے اور دین کی علامتوں کو ظاہر کریں اور شہروں کے امور کی اصلاح کریں اور مظلوموں کی خاطر امن و امان قائم کریں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو انجام دیں اور پیغمبر اسلام و امام علی کی سیرت کو تحقق بخشیں، جس کے نتیجہ میں پیغمبر اسلام کی امت کی اصلاح ہو جائے. 

قابل توجہ نکتہ یہی ہے کہ اس مخلصانہ سعی و کوشش بس غیر اسلامی کو ہٹانا اور ایک عدل و انصاف پر مبنی خالص دیندار حکومت کو قائم مقام قرا دینا جو تمام خیرات و برکات کا سر چشمہ اور مرکز قرار پائے کہ جس کے اہمترین شعبہ میں ولایت علی اور آل علی بھی شامل ہو کہ جس کی حاکمیت و قبولیت کی تفسیر کو وہی دینداری ہے، حکومت و سلطنت استبدادی و ریاست طلبی اور مملکت کی سرزمین میں توسیع پسندانہ کی بنیاد پر نفسانی ہوا و ہوس ہے کہ جو تمام ہی مفاسد و شرور کی اصل و جڑ ہےـ 


حسيني تحریک کے نتائج


١. بنی امیہ کی خوفناک بناوٹی دینی حکومت کے ارکان کو توڑنا:


خاندان بنی امیہ و اموی حکومت پر قابض عہدیداروں کو جس بات پر استوار بنایا گیا تھا اور بنی امیہ کے تبہکار حکمران افراد اس بات پر مسلسل سعی و کوشش میں لگے ہوئے تھے کہ زمانہ جاہلیت کے رسم و رواج زندہ کرنے میں لگے ہوئے تھے. لہذا اس دور جاہلیت کے معاشرہ کو زندہ کرنے پر انہیں ذلیل و رسوائی حاصل ہوئی. 


٢. خواب غفلت میں سوئے ہوئے ضمیروں کو بیدار کرنا:


کربلا کے میدان میں امام حسینؑ کی دردناک شہادت نے مسلمانوں کی روح و نفسیات میں احساس گناہ کی ایک شدید موج اٹھی کہ ان کی مدد و نصرت نہیں کیا لہذا تحریک توابین اور انتقام مختار جیسا انقلاب برپا ہوا.

اسی احساس گناہ کے ہمیں دو پہلو نطر آتے ہیں:

١. ایک طرف انہیں اس بات پر مجبور کیا کہ جس گنسہ کے وہ مرتکب ہوئے ہیں اسے کفارہ کے ذریعہ دھوئیں. 

٢. دوسری طرف یہ ہے کہ جنہوں نے انہیں اس طرح کے گناہ کے ارتکاب پر مجبور کیا تھا ان کے خلاف دشمنی اور نفرت کا اظہار کریں.

اس طرح سے ہے کہ توابین کی تحریک کا محرک وہی امام حسینؑ کی مدد و نصرت نہ کرنے کا كفاره اور بنی امیہ سے انتقام لینا ہی ٹھہرا.

مقدر میں تو یہی تھا کہ اس احساس گناہ کی آگ مستقل طور پر اسی شعلہ آور رہے اور بنی امیہ سے انتقام کی تحریک کی بنا پر ہر انقلاب کے فرصت اور ظالمین کے بر خلاف تحریک کا آخری نجام تک پہونچے. 


٣. نئے سرے سے اخلاقیات کا تعارف کرانا:


امام حسینؑ كی تحریک اس بات کا سبب بنی کہ معاشرہ میں ایک قسم کے بلند نظرانہ اخلاق رونما ہو. امام و بنی ہاشم اور آنحضرت کے انصار نے بنی امیہ کے خلاف تحریک میں اسلامی اخلاق کا سب سے ہی اعلی و ارفع تمام کمالات و صفات اور خصائل کی تازگی کا نمونہ عمل پیش کیا ہے.

انہوں نے ان اخلاقی خصائل و صفات کو زبان پر جاری نہیں کیا بلکہ اپنے ہی خون سے اسے مزین و معطر بنایا ہے.

قبائل کے عام لوگ کی یہی عادت بن گئی تھی کہ اپنے دین و نفس کو معمولی قیمت پر بیچ دیں اور ظالمین کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والے یہان تک کہ ظالم حاکم کے عطیات ست بہرہ مند ہوں.

مسلمانوں کی عام زندگی کا مقصد صرف یہی تھا کہ وہ اپنی ذاتی حیات تک ہی محدود رہے اور فقط اپنی حیات سے متعلق ہی سوچتے رہتے تھے. 

عام مسلمانوں میں معاشرہ کی سماجی درد کا کوئی اثر یا احساس ہی نظر نہیں آتا تھا جیسا کہ شاعر نے کیا ہے:

"از درد سخن گفتن و از درد شنيدن با مردم بي درد نداني كه چه دردى است"!

درد کے بارے میں بات چیت کرنا اور درد کی آواز سننا بے درد لوگوں کے ساتھ تم نہیں جانتے کہ کیا کچھ درد ہوتا ہے.!

ان لوگوں کی صرف اور صرف یہی جد و جہد ہوا کرتی تھی کہ اپنے ہاتھوں سے کمائی ہوئی آمدنی کو محفوظ رکھیں اور رانمائوں کی توجیہات کے سامنے مطیع و فرمان بردار رہیں کہ مبادا ان کا نام وظیفہ خواروں کی فہرست سے نکال دیا جائے لہذا ظلم و جور کے مقابل میں جبکہ وہ دیکھ بھی رہے ہیں خاموشی اختیار کر رکھی تھی اور ان لوگوں کی تمام ہی سعی و کوشش یہی رہتی ہے کہ قبیلہ پرستی کے فخر و مباہات کو دہرائیں اور اپنی جاہلیت کے سنتوں اور رسوم و رواج کو زندہ کریں.

امام حسینؑ کے اصحاب کچھ دوسری ہی طرح کی لوگ تھے جو اپنے انجان سے باخبر ہو کر امام کے ساتھ ہوئے تھے جبکہ یہ لوگ صاحب اہل و عیال اور صاحبان دوست بھی تھے اور بیت المال سے وظیفہ بھی لیتے رہتے تھے اور نسبتا اپنی زندگی کچھ راحت و آرام سے بسر کرتے تھے اور اپنی حیات سے لطف اندوز بھی ہو سکتے تھے مگر آسودگی کی زندگی سے چشم پوشی کیا اور اپنی جانوں کا نذرانہ امام حسینؑ کی راہ نثار کرتے ہوئے ظالموں سے جہاد کیا. اس دور کے مسلمانوں کیلیے یہی کافی دلچسپ تھا کہ ایک انسان ذلیلانہ زندگی اور شرافت مندانہ موت کے درمیان میں سے عزت کی زندگی کو اپنی ذلت آمیز حیات پر ترجیح دے یہی ایک حیرت انگیز اور عالی ترین عمل لوگوں کی خاطر ایک نمونہ تھا. لہذا ایسی خصلت نے مسلمانوں کی روح تک کو جھنجھوڑ دیا اور انہیں گہرے خواب غفلت اور طویل راحت طلبی اور موقع پرستی سے بیدار کر دیا تھا تا کہ ایک دوسری ہی اسلامی طریقہ زندگی لے؛ اسی شکل میں جو امام حسینؑ کی تحریک سے پہلے ہی لوگوں کے درمیان مٹ چکی تھی. 

امام حسینؑ کی تحریک مختصر ست وقفہ کی خاموشی کے بعد پھر نئے سرے سے اٹھنے کا موجب ہوتی ہے کہ لوگوں میں جہاد کی روح کو متحرک کر دے اور اسی طرح سے یہ حسینی تحریک اور ان کے کربلا کی قربانی نے سماجی و نفسیاتی اور جذباتی تمام ہی سد راہ جو انقلاب و تحریک کے درمیان مانع اور دیوار بنے ہوئے تھے اب ہی کو درہم برہم کر دیا. 

امام حسینؑ کی تحریک  نے لوگوں کو یہی درس تعلیم دیا ہے کہ وہ لوگ یہی کہیں گے: سر تسلیم خم نہ کرو، اپنی انسانیت کو تجارت کے مقام پر قرار نہ دو، شیطانی طاقت کے ساتھ جنگ کرو اور تمام چیزوں کو محمد مصطفی کے اسلام کی تمناؤں کے تحقق کی راہ میں فدیہ قرار دیں گے. 

حسينى تحریک نے لوگوں کے بہت سے گروہوں کی نفسیات و ضمیر کو اس فکر و خیال کو ہیجان نے اس قدر متحرک کیا ہے کہ امام حسینؑ کی حمایت نہ کرنے کو گناہ کا ارتکاب ہونا متصور کیا ہے اور اس کا کفارہ بھی وہ لوگ ادا کریں اور اس کفارہ کی ادائیگی، ظالم و جابر حاکموں کے ساتھ جنگ و جہاد اور استبداد کی فاسد بنیاد کو ختم کرنے کے سوا کوئی اور چارہ کار نہیں ہے. 

اس طرح سے حسینی انقلاب کے بعد دین و مذہب میں ایک تازہ روح پھونک دی ہے اور لوگ بھی ایک یقینی اور قطعی راہنما و رہبر کے انتطار میں تھے اور جس وقت ظلم و ستم کے مقدمات حاصل ہوتے تھے تو بنی امیہ کی حکومت کے بر خلاف انقلاب کی کاروائی کیلئے دست بدست ہو جاتے تھے.

ان تمام ہی انقلابات میں انقلابیوں کا بس یہی نعرہ "یَا لَثَارَات الحُسَین" یعنی امام حسینؑ کے خون کا انتقام ہی ہوتا تھا. 

سنہ 63 ہجری میں قبيلہ بني اوس کی فرد "عبد الله بن حَنظَلة (غسيل الملائكة) بن ابی‌ عامر انصاري" کی رہنمائی میں مدینہ کے لوگوں کا انقلاب یا سنہ 64 ہجری میں سُلیمان بن صُرد خزاعی کی رہبری میں توابین کا انقلاب یا سنہ 66 ہجری کوفہ میں مختار ثقفی کی پیشوائی میں کربلا کے شہدا کے انتقام لینے کی تحریک ہے اور سنہ 122 ہجری میں زید بن امام زین العابدینؑ کی قیادت میں ظلم و ستم کے خاتمہ کی تحریکیں برپا ہوتی رہیں.

مذکورہ بالا چند مثالیں ہیں جو تمام ہی تحریکیں عاشورا کی حسینی تحریک کی بے نظیر و بے مثل تحریک سے نشأت حاصل کرتی رہی تھیں.

مسلمانوں کے ان انقلابات میں مستقل طور پر آزادی اور عدل و انصاف کے حصول کی خاطر جاری و ساری رہے تھے کہ حکمران طبقہ ان انقلابات کو دباتے رہتے تھے اور یہ تمام تحریکیں حسینی تحریک کی برکت و تحریکات کی ہی دین تھی.

لہذا اس طرح سے امام حسین نے حریت و آزادی اور استقلال و ظلم و ستم کے خلاف قیامت تک تمام انسانوں کو درس تعلیم کیا ہے. 

* حضرت ابو عبد اللہ حسینؑ کے اقوال و فرامین جو آنحضرت کے عظیم اغراض و مقاصد کا ایک بہترین معرف اور وسیلہ ہے، کیونکہ آنحضرت کے ایک ایک کلمات سے اللہ پر توکل، انسان دوستی، حریت و آزادی، عدل و انصاف، ظلم و ستم کی مخالفت کی صدا بلند کرنا اور ظالم و جابر حکمرانوں کے مال و طاقت کے مقابل میں حسینی صدا پہونچتی رہتی ہے. 

* ہم آنحضرت کے کلمات و اقوال میں 40 منتخب احادیث کو قارئین گرامی کی خدمت میں ایک جداگانہ مضمون کی شکل پر ہماری اسی ویب سائٹ پر شائع و نشر کریں گے. 

آن شاء اللہ المستعان العلی العظیم

* * *


via pinterest


DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS



Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی