جناب فاطمهؑ زهرا کی وصيتیں



via pinterest


جناب فاطمهؑ زهرا (س) کی وصيتیں


مترجم : ابو دانیال اعظمي بریر 

 

۱۔ سياسى وصيتیں

 ۱۔ مخفی طریقہ سے تدفین         

۲۔ حکمران سياست دانوں کی غفلت 

۳۔ تاريخی سياسی سند و ثبوت

 

۲۔ تہذیبی وصيتیں

۱۔ دینی عقائد پر تاکید

۲۔ عفت کی تہذیب کو فروغ دینا

۳۔ قرآن و دعا کے تمدن سے انسیت کی ترویج

 

۳۔ خاندانی وصيتیں

۱۔ شوہر نامدار کیلئے خیر خواہی

۲۔ اولاد کیلئے سفارش

۳۔ بیٹی کیلئےایک یادگار

 

۴۔ معاشرتى وصيتیں

۱۔ وقف عام

۲۔ بنی ہاشم و بنی مطّلب کیلئے وقف خاص

۳۔ ازواج پیغمبرؐ اور بنی ہاشم کی خواتین کیلئے وصیت

۴۔ اپنی بہن زینب کی بیٹی اور دختر ابو ذر کیلئے وصیت

 

أللهم إنا نشكو إليك فقد نبينا صلواتك عليه و آله وغيبة ولينا و كثرة عدونا وقلة عددنا وشدة الفتن بنا وتظاهر الزمان علينا فصل على محمد وآله، و أعنا على ذلك بفتح منك تعجله وبضر تكشفه و نصر تعزه وسلطان حق تظهره.

 اے معبود! بے شک ہم شکوہ کرتے ہیں تیری بارگاہ میں اپنے نبیؐ کے ہمارے درمیان نہ رہنے سے، اور ہمارے مولا کے نظروں سے اوجھل ہونے سے، اور ہمارے دشمنوں کی کثرت سے، اور ہماری تعداد کی قلت سے، اور ہمارے اوپر فتنوں کی سختیوں سے، اور زمانے کی یلغار اور غلبے سے، تو درود بھیج محمدؐ و آل محمدؐ پر اور ان سارے مسائل و مصائب کا سامنا کرنے کے لئے ہماری مدد فرما، تیری طرف کی فتح کے ساتھ، جس میں تو عجلت سے کام لے گا، اور تکلیفیں جو تو دور کرے گا، اور اس نصرت کے ساتھ جس کو تو عظیم تر کردے گا، اور حق کی سلطنت کے ساتھ، جس کو تو ظاہر کرکے غلبہ عطا کرے گا، اور تیری طرف کی رحمت کے ساتھ جو ہم پر سایہ فگن ہوگی، اور تیری طرف کی عافیت کے ساتھ، جو ہمیں ڈھانپ لے گی، تیری رحمت اور مہربانی کے واسطے اے مہربانوں کے سب سے زیادہ مہربان۔

حضرت فاطمہؑ زہرا کی تحریری اور زبانی وصیتوں کے بارے میں تحقیق و تجزیہ فاطمی حکمتوں میں سے ایک فصل ہے اور طالبان حق کی خاطرسیاسی، تمدنی و تہذیبی، خاندانی اور معاشرتی وصیت ناموں کے لکھنے کیلئے اہمترین نمونہ عمل ہے ۔ 

 یہاں پر ہم مختصر سا تجزیہ وتحلیل پیش کریں گے۔ 

         آنحضرتؑ کی وصیتوں میں ایک عمیق نظر کرنے سے ہر دیگرشئےسے پیشتر ایک محقق کو اپنی طرف جذب کرنا سیاسی حکمت ہے۔

کتاب حکمت نامہ فاطمی میں 5 بخش (باب یا اجزا) مع 19 فصلیں اور 3 تجزیہ و تحلیل نیز 800 صفحات پر ہے:

بخش اول: فضائل و مناقب؛ اس میں 5 فصلیں ہیں۔

بخش دوم:  خاندانی حکمتیں؛ 3 فصلوں پر مشتمل ہے۔

بخش سوم: اخلاقی و عملی حکمتیں؛ اس میں بھی 3 فصلیں ہیں۔ 

بخش چہارم: عبادی حکمتیں؛ اس میں بھی 3 فصلیں ہیں۔

بخش پنجم: سیاسی حکمتیں؛ یہ 5 فصلوں پر مشتمل ہے۔

          

  مذکورہ کتاب کو جمعی از پژوہشگران (محققین) ، پژوہش کدہ علوم و معارف حدیث، زیر نظر آیۃ اللہ محمد محمدی ری شہری منشا شہود میں آئی ہےنیز انتشارات دار الحدیث نے اسے چھاپ کر محبان اہلبیت عصمت و طہارت کے استفادہ کیلئے منظر عام پر لائے ہیں تا کہ معصومۂ کونین خاتون جنت حضرت فاطمہ زہرا کی مکمل و اکمل سیرت سے آگاہ ہوں اور اس پر عمل پیرا بھی ہوںنیز معرفت الہی و معرفت معصومینؑ کےحصول کا وسیلہ و ذریعہ قرار پائے ۔

         لیکن ہم اس تحریر میں بخش پنجم یعنی پانچویں باب کی تحقیق و تجزیہ جنہیں بہترین طریقہ سے بیان ہے کہ حضرت فاطمہؑ زہرا واقعہ سقیفہ کے بعد نئے اسلامی معاشرہ پر حاکم و غالب طریقہ کار سے شدت کے ساتھ ناراض تھیں اور اسی وجہ سے اپنے سیاسی و معاشرتی مقام و منزل کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت نبوی کے استمرار اور ولایت علوی کے حریم کے دفاع کیلئےکہ جو پیغمبرؐ اسلام کی طرف سے غدیر خم میں باقاعدہ طور پر اعلان فرمایا تھاجس میں پیغمبرؐ اکرم نے اپنی تمامتر طاقت و قوت کا استعمال کیااور اس راہ میں اپنی جان کو بھی قربانی کرنے سے دریغ نہیں کیا۔

 

۱۔ سياسى وصیتیں

آنحضرتؑ کی وصیتیں حقیقت میں پیغمبر آخر کی بیٹی نےاپنی آخری جد و جہد اورکوشش سلامی معاشرہ پر سیاستمداروں کی حکومت کے ساتھ براہ راست مقابلہ اور جنگ کرنا ہے،یہاں تک کہ اپنی ناراضگی کو بالکل صاف اور واضح اپنی پوری طاقت و قوت سے تاریخ اسلام کے سینہ پر درج کر دی ہے، تا کہ مستقبل کے مسلمانوں کیلئے کچھ لمحہ فکریہ عطا کرے کہ جس کے ذریعہ الہی صراط مستقیم کو تشخیص دے سکیں اورپیروان اہلبیتؑ کے سالک کی خاطر ایک ناقابل تردید اور قابل قبول سند و دلیل یادگار کے طور پر شمار ہو اور اسی مقصود کو متعدد بارچند بنیادی نکات پر آنحضرتؑ کی وصیتوں میں تاکید فرمایا ہے۔ 

 

۱۔  مخفي طریقہ سے تدفین

        یہی تو اصلی نکتہ ہے کہ جو تمام شیعہ اور سنی کتابوں کی تحریریں تاکید کرتی ہیں کہ پیغمبر اسلام کی لخت جگر کو رات کی تاریکی میں مخفی طریقہ سے دفن کیا ہے، آنحضرت نے امام علیؑ سے اپنی وصیت میں تاکید فرماتے ہوئے سفارش کی تھی کہ ان کی تدفین کے مراسم کو اس طرح سے مرتب کیا جائے کہ رات کی تاریکی اورلوگوں کی نظروں سے مخفی طور پر انجام دیا جائےاور سوائے محدودومعدود اورچند رازدار قریبی افراد کے اس آخری تشییع جنازہ میں کوئی اور شرک نہیں ہوا ہے۔  ہم یہاں پر آپ کی خدمت میں چند روایات کے عربی متن کو پیش کر رہے ہیں۔ 

 

پہلی روایت : امام علىؑ سے خطاب

        اس روایت میں جناب فاطمہؑ زہرا نے امام علیؑ سے خطاب کرتے ہوئے وصیت فرمایا ہے: إِذَا أَنَا مِتُّ فَغَسِّلني بِيَدِكَ، وَحَنِّطنِي وَكَفِّنِّي وَادفِنِّي لَيلاً.

        (اے علیؑ) جس وقت میں اس دنیا سے چلی جاؤں تو آپ ہی اپنے ہاتھوں سے مجھے غسل دیں گے اور حنوط کریں اور مجھے کفن دیں گے اور شب کی تاریکی میں مجھے دفن کریں گے۔ [دیکھئے: ص ۶۴۴، ح ۴۵۰.]

 

دوسری روایت : امام علىؑ سے خطاب

        جناب فاطمہؑ زہرا نے امام علیؑ سے خطاب کرتے ہوئے وصیت فرمایا ہے: حَنِّطنِى وَ غَسِّلنى وَ كَفِّنِى بِاللَّيلِ وَ صَلِّ عَلَىَّ وَ ادفِنِّى بِاللَّيلِ وَ لَا تُعلِم أحَداً.

        (اے علیؑ)آپ ہی مجھے حنوط اور غسل دو گے اور مجھے رات کی تاریکی میں ہی دفن کروگے اور مجھ پر نماز پڑھو گے اور مجھے رات کی تاریکی میں دفن کرو گےاور کسی ایک کو بھی با خبر نہیں کرو گے۔ [دیکھئے: ص ۶۲۸، ح ۴۳۵.]

 

تیسری روایت: وصیت کیلئے امامؑ کا قول

          امام صادقؑ نے جناب فاطمہؑ زہرا کی وصیت کونقل فرمایا ہے: أخَذَت عَلَيَّ عَهداً لِلهِ وَ رَسُولِهِ أَنَّهَا إِذَا تُوُفِّيَت لَا أُعلِمُ أَحَداً إِلَّا اُمَّ سَلَمَةَ زَوجَ رَسُولِ الله وَ اُمَّ أيمَنَ وَفِضَّةَ وَمِنَ الرِّجالِ إِبنَيهَا وَعَبد اللهِ بنَ عَبَّاسٍ وَسَلمَانَ الفَارِسِيَّ وَعَمَّارَ بنَ ياسِرٍ وَالمِقدَادَ وَأَبَا ذَرٍّ وَحُذَيفَةَ.

        اس وقت (جناب فاطمہؑ زہرا) نے مجھ سے اللہ اور اس کے رسولؐ کے ذریعہ عہد و پیمان لیا کہ جب ان کی وفات ہو جائے گی تو کسی کو بھی میں با خبر نہیں کروں گا ، سوائےرسولؐ اکرم کی زوجہ ام المومنین ام سلمہ، ام ایمن، فضہ، اور مردوں میں سے ان کے دونوں بیٹے (حسنؑ و حسینؑ) ، عبد اللہ بن عباس، سلمان فارسی، عمار یاسر، مقداد، ابو ذر اور حذیفہ کے علاوہ کوئی اور میرے جنازہ میں شریک نہ ہوں۔ [دیکھئے: ص ۶۳۶، ح ۴۴۷.]

 

چوتھی روایت: امامؑ کا جواب عباس کی تجویز

        عباس بن عبد المطلب نے آنحضرتؑ کی مراسم تدفین میں مہاجرین اور انصار کی حاضری کی تجویز سلسلہ میں امیر المومنینؑ نے جواب میں فرمایا: فَإِنَّهَا وَصَّتنِي بِسَترِ أَمرِهَا.

        پس انہوں نے مجھے وصیت فرمائی ہے کہ میں ان کے آخری مراسم کے امور کو مخفی طریقہ سے ہی انجام دوں گا۔ [دیکھئے: ص ۶۲۶، ح ۴۳۴.]

 

پانچویں روایت: صحيح بخارى و مسلم وغیرهما

        صحيح بخاری و صحيح مسلم اور اہلسنت کی دیگر روایات کی کتابوں میں جناب عائشہ سے منقول اقوال بیان کرتے ہیں:  فَلَمَّا تُوُفِّيَت دَفَنَهَا زَوجُهَا عَلِيٌّ لَيلاً وَلَم يُؤذِن بِهَا أَبَا بَكرٍ. 

        پس جب (حضرت فاطمہؑ زہرا) نے وفات پائی تو ان کے شوہر حضرت علیؑ نے ہی آنحضرتؑ کو رات کی تاریکی میں دفن کیا اور ابو بکر کو ان کے انتقال سے باخبر تک نہیں کیا ۔  [دیکھئے: ص ۵۲۶،  ح ۳۸۹.]

        ہر وہ شخص جو کمترین سیاسی ہوش و شعور رکھنےوالا ہے وہ مذکورہ بالا گزارشات کو ملاحظہ کرنے کے بعد سادگی کے ساتھ تشخیص دے سکتا ہے کہ حضرت فاطمہؑ زہرا کی ابدی سفر کے مراسم کو مخفی اور پوشیدہ رکھنا ہی مکمل طور پر ایک سیاسی اقدام تھا اور خاص مقاصد و اہداف اپنے عقب میں رکھے ہوئے تھا کہ جنہیںآنحضرتؑ کی دیگر وصیت کی عبارتوں میں صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے۔

 

۲۔  حکمران سياستدانوں کی غفلت

          جناب فاطمہؑ زہرا پیغمبرؐ خدا کی اکلوتی بیٹی جو نبوت کی نشانی بچی تھیں جو امت اسلامی میں ایک عظیم ترین سیاسی شخصیت الہی ہیں ۔ 

        عصر پیغمبر ؐاسلام کے بہت سے مسلمانوں نے خاتون جنتؑ کے فضائل و مناقب کو خود رسولخداؐ کی زبانی اپنے کانون سے سنا ہوا ہے، ان میں سے چند فضائل و مناقب درج ذیل ہیں:

        آیت مودت (سورہ شوریٰ ۲۳) آیت تطہیر (سورہ احزاب ۳۳) ، آیت مباہلہ (سورہ آل عمران ۶۱) اور ان کے خاندان کا ایثار (سورہ دہر ۸و۹) اور ان کی دیگرقربانی و خدمات کے بارے میں آیتیں (سورہ کوثر) نازل ہوئی ہیں۔ [دیکھئے: ص ۴۳، پہلی فصل : جناب فاطمہؑ اور تمام اہلبيتؑ کی مشتترکہ فضيلتیں.]

        اسی طرح سے پیغمبرؐ اکرم سے یہ بھی صحابہ نے سنا ہے: فاطمہؑ خدا کی منتخب کنیز ہیں ، اے فاطمہؑ تمہاری رضامندی میں خدا وندعالم کی رضا مندی ہے اور تیری ناراضگی میں پروردگار متعال کی ناراضگی ہے ۔

        پیغمبرؐ خدا کی یہ حدیث بھی اصحاب نے سنی ہے کہ آنحضرتؑ بارے میں فرمایا : فاطمہؑ میراپارۂ جگراور دل کا ٹکڑاہے ، وہ میرے نزدیک سب سے زیادہ محبوب اور عزیز فرد ہے، ان سے صلح کرنا مجھ سے صلح کرنا ہے اور ان سے جنگ کرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے، اس کا احترام کرنا میرا احترام کرنا ہے اور اسے رنجیدہ کرنا مجھے رنجیدہ کرنا ہے یہ جنت کی خواتین کی سردار ہے اور اس کا باپ اپنی بیٹی پر فدا ہو جائے۔

        ایک با عظمت وبا فضیلت ایسی شخصیت کی توصیف بیان کرنے کے قابل نہیں ہے اور پیغمبرؐ آخر کے بعد یہی تو امام علیؑ کا دفاع کرنے والی اصلی رہبر ہیں ، مختصر مدت میں مظلومانہ طریقہ سے اس دنیا سے کوچ فرماتی ہیں، لہذا طبعی طور پر یہی توقعات رہی ہے کہ آنحضرتؑ کے جنازہ کی تشییع اور تدفین کے مراسم عام مسلمان عظیم الشان اور شان وشوکت سے شرکت کرتے اورانعقاد کرتے۔

        جبکہ دوسری طرف اس مظلومہ معظمہ کی آخری مراسم حکمران سیاست دانوں کیلئے آنحضرتؑ کی شدید ناراضگی کو ظاہر کرتی ہے کہ کس قدر دختررسولخداؐ ان خلفائے وقت سے ناراض تھیں کہ جو ایک بہت ہی مناسب فرصت تھی ، اس سے ہم خاتون جنتؑ کی تجلیل و تعظیم قرار دیں تا کہ ان کی عدم رضامندی کی اسناد گذشتہ زمانہ میں لوگوں نے بھلا دیا تھا اسے ہم اسی کو زندہ کریں کہ دختر رسولؐ اکرم کی شہادت مظلومانہ ہوئی ہیں۔ 

        لیکن جناب فاطمہؑ زہرا کی الہی بصیرت وسیاسی تربیتی حکمت عملی نے ان حکمرانوں کو غافل کیا اور انہیں اس طولانی فرصت سے بہرہ مند ہونے سے مانع ہوا؛ کیونکہ انہوں نے صراحت کے ساتھ سفارش کی تھی کہ سیاسی حکومت کے رہنما بھی حاضر نہیں ہوئے اور آنحضرتؑ کے جنازہ پر نماز جنازہ تک پڑھنا بھی نصیب نہیں ہوا۔

جیسا کہ خاتون جنتؑ نے امام علیؑ کو خطاب کرتے ہوئے کتابوں میں ذکر ہوا ہے: نَشَدتُكَ بِاللهِ وبِحَقِّ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللهِ (صلى الله عليه و آله وسلم) أَلَّا يُصَلِّيَ عَلَيَّ أَبُو بَكرٍ وَ لَا عُمَرُ.

میں آپ کو خدا ورسولخدا کے حق کا واسطہ دیتی ہوں کہ ابو بکر اور عمر میرے جنازہ پر نماز نہ پڑھیں ۔ [دیکھئے: ص ۶۳۰، ح ۴۴۰.]

        دوسرے مقام پر اس مظلومہ معظمہ ؑکے کلمات کو یوں درج کیا ہے: سَأَلتُكَ بِحَقِّ رَسولِ الله (صلى الله عليه و آله وسلم) إذا أنا مِتُّ ألاّ يَشهَداني ولا يُصَلِّيا عَلَيَّ.

(اے علیؑ) میں آپ کو اللہ کے رسول کے حق کا واسطہ دیتی ہوں کہ جس وقت میں اس دنیا سے کوچ کروں تو وہ دونوں میرے جنازہ پر حاضر نہ ہوں اور مجھ پر نماز جنازہ نہ پڑھیں۔ [دیکھئے: ص ۶۳۲، ح ۴۴۲.]

        صحيح بخاری اور اہلسنت کی دیگر روایات کی کتابوں میں جناب عائشہ سے نقل کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: فَلَمَّا تُوُفِّيَت دَفَنَهَا زَوجُهَا عَلِيٌّ لَيلاً وَ لَم يُؤذِن بِهَا أَبَا بَكرٍ وَ صَلّى عَلَيهِ.

پس جس وقت (فاطمہؑ) کی وفات ہوئی تو ان کے شوہر حضرت علیؑ نے آنحضرت کو رات کی تاریکی میں دفن کیا اور ابو بکر کو آگاہ نہیں کیا اور خود حضرت علیؑ نے نماز جنازہ پڑھی۔ (کسی اور کو اس کی اطلاع نہیں کیا تا کہ وہ لوگ حاضر نہ ہو سکیں۔) [دیکھئے : ص ۵۲۶، ح ۳۸۹.]

        جب حضرت علیؑ پر ابو بکر نےتنقید کرتے ہوئے کہا کہ تم نے کیوں پیغمبر اسلام کے غسل و کفن انجام دینے جیسے امور کو اپنے سے ہی مخصوص کرتے ہوئے اپنی زوجہ کی بھی غسل و کفن کو اپنے سے ہیں مخصوص کیوں قرار دیا؟ تو امام علیؑ نے جواب میں فرمایا: هِيَ وَ اللهِ  أوصَتنِي أَن لَا تُصَلِّيَا عَلَيهَا.

قسم بخدا ! انہوں نے خود ہی مجھ سے وصیت کی تھی کہ تم دونوں (ابو بکر اور عمر) ان کی میت پر حاضر ہوکی نماز نہ پڑھنے پائیں۔ [دیکھئے : ص ۶۳۲، ح ۴۴۱ .]

        اسی بنا پر حضرت فاطمہؑ زہرا کا اصلی ہدف اور مقصد اس وصیت اور سفارش کرنے سے یہی ہےکہ آنحضرتؑ کے مراسم تدفین کو مخفی رکھیں اور رازداری کے ساتھ انہیں سپرد خاک کریں کہ حکمران سیاسدانوں کا کسی بھی طرح سے بھر پور فائدہ اٹھانے کے تمام راستوں اور مواقع کو مسدود کر دیں۔ 

 

۳۔ تاريخى سياسى ثبوت و سند

          اسی ولایت علیؑ کی حرمت کا دفاع کرنے والی ذات گرامی حضرت فاطمہؑ ہیں کہ جسے غدیر خم میں پیغمبر اسلام کے ذریعہ سوا لاکھ حجاج صحابہ کے درمیان حضرت علیؑ کی جس ولایت کا اعلان کیا تھا اور اسلامی دنیا پرحکومت کا جو طریقہ تحمیل کیا تھا اسی نظام کے خلاف اعتراض کی خاطر ہی تنہا ان لوگوں کا نماز جنازہ ہی نہ پڑھنے پر اکتفا نہیں کیا بلکہ اپنی ایک دوسری تاریخی وصیت میں جو امام حسینؑ سے خطاب کرتے ہوئے مندرجہ ذیل کلمات بیان فرمایا ہے: فَلَمّا حَضَرَتهَا [فَاطِمَةَ] الوَفاةُ وَصَّت أميرَ المُؤمِنينَ أن يَتَوَلّى أمرَهَا، ويَدفِنَهَا لَيلاً، ويُعَفِّيَ قَبرَها. [دیکھئے : ص ۶۳۰، ح ۴۳۷.]

        جس وقت جناب فاطمہؑ کی وفات کا لمحہ قریب آن پہونچا تو امیر المومنینؑ سے وصیت فرمائی کہ ان کی تجہیز و تدفین وہی اپنے ذمہ لیں اور رات کی تاریکی ہی میں انہیں دفن کریں اوران کی قبر کی نشانی کو مٹا دیں گے۔ [دیکھئے : ص ۶۲۹، ح ۴۳۵]

        مزید ایک روایت میں بیان ہوا ہے : وَلَا تُعلِم أَحَداً قَبرِي. کسی بھی شخص کو میری قبر سے آگاہ نہیں کریں گے۔ [دیکھئے: ص ۶۳۶، ح ۴۴۷.]

        آنحضرتؑ کی وصیتوں میں سےیہ متمم و مکمل وصیت ہے کہ جس کی طرف ہم نے پہلے اشارۃً بیان کیا ہےاور ہم کہہ سکتے ہیں آنحضرتؑ کا اصلی و حقیقی مقصد یہی تھا کہ سیاسی تاریخ کی اہمترین سند کو ثبت کر دیں مستقبل کی نسلوں کیلئے اور آنے والی نسلیں ان کی تردید ہی نہ کر سکیں لہذابعد رسولخدا ؐمباحث کے تجزیہ کرتے وقت صحیح اور حقیقی منزل تک سچی راہنمائی کرتا رہے گا۔ 

        وہ کونسی چیزیں باعث ہوئیں یہاں تک کہ صدیقہؑ طاہرہ جیسی شخصیت کو رات کی تاریکی میں غسل دیا نیزتاریکی شب میں ہی سپردخاک کیا اور قبر اقدس کو پوشیدہ و خفیہ رکھا گیا۔؟!

        البتہ آنحضرتؑ کی قبر کے مقام کےسلسلہ میں مختلف اقوال پائے جاتے ہیں:

۱۔ بعض کا قول ہے کہ آنحضرتؑ کی قبر مبارک پیغمبرؐ اسلام کی قبر مطہراور منبر رسولؐ کے درمیان ہے۔

۲۔ بعض کا قول ہے کہ آنحضرتؑ کا مدفن خود ان کا ہی حجرہ شریف ہے۔  

۳۔ بعض کا قول ہے کہ خاتون جنتؑ کی قبرمبارک جنۃ البقیع میں ہے۔

        شيخ طوسی کا قول ہے: پہلی اور دوسری روایت متقارب ہیں لیکن یہ قول بعید نظر آتا ہے کہ آنحضرتؑ کو بقیع میں دفن کیا گیا ہو۔

        ابن بابويہ کا بھی قول ہے: میرے نزدیک صحیح ترین نظریہ یہی ہے کہ آنحضرتؑ کو خود ان کے ہی حجرہ میں دفن کیا گیاہے۔ [دیکھئے : تذکرۃ الفقہاء : ۸/ ۴۵۲.]

        بہر حال کوئی شخص بھی دقیق طور پر یہ نہیں جانتا اور نہ ہی یہ دعوی کر سکتا ہے کہ آنحضرتؑ کو فلاں مقام پر دفن کیا ہے،ہر چند کہ ایک نظریہ حقیقت کے قریب ترین واقع ہوتا ہے ، دعوی یہی ہے کہ آنحضرتؑ کو خود ان کے ہی حجرہ میں سپرد خاک کیا گیا ہے، لیکن حجرہ میں کہاں پر؟ یہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے۔! 

        صدر اسلام کے بہت سے واقعات و حادثات کو روشن کرتا ہے ، یہی ابہام قابل تامل و تفکر ہے۔ 

 

۲۔ تہذیبی وصيتیں

 

        حضرت فاطمہؑ زہرا کی وصیتوں میں چند نکتے قابل توجہ ہیں کہ جو اسلامی تہذیب و تمدن کے مسائل کےبارے میں بھی نظر آتے ہیں۔

 

۱۔ دينى عقائد پر تاکید

        پیغمبرؐ اسلام ایک روایت میں بیان فرماتے ہیں: مَا يَنبَغِي لِإِمرِئٍ مُسلِمٍ أَن يَبِيتَ لَيلَةً إِلَّا و وَصِيَّتُهُ تَحتَ رَأسِهِ. کسی بھی مسلمان کیلئے سزاوار نہیں ہے کہ ایک رات بھی بسر کرے مگر یہ کہ وہ اپنی وصیت کو خود کے سرہانے رکھے۔ [روضۃ الواعظين: ص ۵۲۹، بحار الانوار ۱۰۳/ ۱۹۴، ح ۳.]

        قابل توجہ امر تو ہے جیسا کہ ابن عباس سے منقول روایت میں بیان ہوا ہے ویسا ہی عمل جناب فاطمہؑ زہرا نے نے بھی انجام دیا ہے، جس وقت امام حسنؑ اور امام حسینؑ نے اپنی مادر گرامی کے وفات کی خبر اپنے پدر بزرگوار کو پہونچائی تو حضرت علیؑ جب گھر میں داخل ہوئے تو اپنی زوجہ کے چہرہ سے چادر ہٹایا تو آنحضرتؑ کے سرہانے ایک کپڑے کا ٹکڑا پایا کہ جو آنحضرتؑ کا وصیت نامہ ہی تھا۔ 

        یہ وصیت نامہ دینی عقائد کی تاکید سے ہی شروع ہواہے اور اس وصیت نامہ کے کلمات مندرجہ ذیل ہیں: عن إبن عباس قال .... بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ. هٰذَا مَا أَوْصَتْ بِهِ فَاطِمَةُ بِنْتُ رَسُولِ اللهِ (ص)، أَوْصَتْ وَ هِیَ تَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَ أَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ وَ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَ النَّارَ حَقٌّ وَ أَنَّ السَّاعَةَ آتِیَةٌ لَارَیْبَ فِیهَا وَ أَنَّ اللهَ یَبْعَثُ مَنْ فُی الْقُبُورِ، یَا عَلِیُّ أَنَا فَاطِمَةُ بِنت مُحَمَّدٍ زَوَّجْنَی اللهُ مِنْكَ لِأَكُونَ لَكَ فِی الدُّنیَا وَ الآخِرَةِ، أَنْتَ أَوْلی بِی مِنْ غَیْرِی، حَنِّطْنِی وَ غَسِّلْنِی وَ كَفِّنِّی بِاللَّیلِ وَ صَلِّ عَلَیَّ وَ ادْفِنِّی بِاللَّیْلِ وَ لَا تُعْلِمْ أَحَداً وَ أَسْتَوْدِعُكَ اللهَ وَ اقْرَءُ عَلیٰ وُلْدِی السَّلَامَ إِلیٰ یَومِ الْقِیَامَةِ۔

        ابن عباس نے روایت کیا ہے: اللہ کے نام سے مہربان و رحم کرنے والا ہے، اس تحریر کے ذریعہ رسولخداؐ کی بیٹی فاطمہؑ نے وصیت لکھائی ہے؛ انہوں نے وصیت کیا کہ اور وہ گواہی دے رہی ہیں کہ کوئی بھی معبود نہیں ہے سوائے اللہ کے اور بیشک محمدؐ اللہ کے بندہ اور اس کے رسول ہیں اور بتحقیق جنت حق ہے اور بیشک نار جہنم (بھی) حق ہے اور قیامت (بھی) بلا تردید آنے والی ہےاوربلا شک و تردید اللہ دوبارہ انسانوں کو قبروں سے مبعوث فرمائے گا۔اے علی ! میں محمدؐ کی بیٹی فاطمہ ہوں کہ خداوند عالم نے مجھے آپ کی زوجہ قرار دیا ، تا کہ میں دنیا و آخرت میںآپ کی زوجیت میں ہی ہوں، مجھے ہر کسی سے زیادہ آپ کو بہتر تسلیم کرتی ہوں کہ رات ہی کی تاریکی میں مجھے حنوط اور غسل دینا اور کفن پہنانااور مجھ پر نماز پڑھنا اور رات کی ہی تاریکی میں مجھے دفن (بھی) کرو گےاور کسی ایک کو بھی اطلاع نہ دو گے۔میں نے آپ کو خداوند متعال کے حوالہ کیا اور میری اولاد کو میرا سلام پہونچائے گا یہاں تک کہ مجھ سے قیامت میں ملاقات کروں گی۔ [عوالم، 11/ 514؛ بحار الانوار، 43/ 214  و  100/ 185 و  78/ 390]

ہر چند یہ وصیت نامہ سند کے لحاظ سے معتبر نہیں ہے، لیکن اس کا مضمون آنحضرتؑ کی زبانی وصیتوں سے معتبر کتابوں کی صحیح روایات سے ہماہنگی پائی جاتی ہے اوردیگر روایات مذکورہ بالا وصیت نامہ کی تصدیق بھی کرتی ہے۔

        اسی طرح سے وصیت کو دینی عقیدہ کی تاکید سے شروع کرنا بھی ایک روایت کے مطابق کتابوں میں نقل ہوا ہے کہ جس میں پیغمبر ؐ اسلام نے امام علیؑ کو وصیت کرنے کے طرز عمل کی تعلیم دی ہےاور ختمی مرتبتؐ نے امیر المومنینؑ سے یہ بھی فرمایا ہے:اس وصیت کے طریقہ کو اہلبیتؑ اور اپنے شیعوں کو بھی تعلیم فرماؤ گے۔ [دیکھئے : وسائل الشيعہ : ۱۹/ ۲۶۰،  باب استحباب الوصيۃ بالماثور .]

 

۲/۲۔ عفت کی تہذیب کو فروغ دینا

        میت کیلئے بھی پردہ کا اہتمام کرنا ہے، چند روایات یہ بھی بیان کرتی ہے کہ حضرت فاطمہؑ زہرا خواتین کی جسمانی حجم و بناوٹ تشییع جنازہ کے وقت نمایاں ہونے پر رنجیدہ ہوا کرتی ہیں۔

         اس روایت میں اسماء بنت عمیس سے آنحضرتؑ نے فرمایا ہے: يا اُمِّ، إنّي أرَى النِّساءَ عَلى جَنائِزِهِنَّ إذا حُمِلنَ عَلَيهَا تَشِفُّ أَكفَانُهُنَّ، وَإِنِّي أَكرَهُ ذٰلِكَ.

        اے مادر عزیز! جس وقت میں عورتوں کی میتوں کو جنازہ پر رکھ کر لے جاتے ہیں تو ان عورتوں کے بدن ان کے کفنوں سے نمایاں ہوتے ہیں (یعنی کہ ان کے بدن کی بناوٹ اور قد کو دیکھا جا سکتا ہے) اور مجھے یہ طریقہ پسند نہیں ہے۔ [دیکھئے : ص ۶۵۲، ح ۴۶۱.]

         مزید ایک روایت میں آنحضرتؑ فرماتی ہیں: يَا أَسمَاءُ، إِنّي قَدِ استَقبَحتُ مَا يُصنَعُ بِالنِّساءِ، إِنَّهُ يُطرَحُ عَلَىٰ المَرأَةِ الثَّوبُ فَيَصِفُهَا. 

        اے اسماء! میں اس کام سے کہ جو خواتین کے جنازہ کی تشییع کے وقت میت کے کفن سے جسم کی بناوٹ نمایاں ہوتی ہے اسے بہت براسمجھتی ہوں کہ ایک چارد میت پر ڈال دی جاتی ہے جس سے عورت کے بدن کا حجم نمایان ہو جاتا ہے ۔ [دیکھئے : ص ۶۵۰،  ح ۴۶۰ .]

        ان روایات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ عورتوں کے جنازہ کی تشییع کے وقت تابوت میں نہیں رکھتے  تھےاور اس طریقہ سے حمل کرتے تھے کہ میت کے اوپر ایک چادر ڈال دیتے تھے جس کی بناپر جسم کا حجم آشکار ہو جاتا تھالہذا ایسی طرح سے عورتوں کے جنازے کی تشییع جناب فاطمہؑ زہرا کیلئے قابل قبول نہیں تھی اور اس وجہ سے اپنی زندگی کی آخری دنوں میں آنحضرت نامحروں کی نظروں کے سامنے تشییع جنازہ کے وقت بدن کے حجم کے نمایاں ہونے سے کافی رنجیدہ رہتی تھیں اور جب آنحضرت کو اس مشکل کا راہ حل مشخص ہوا جو تابوت بنانا ہےتو رحلت پیغمبر ؐ اسلام کے بعد انہیں مسکراتے ہوئے دیکھا نہیں گیا مگر تابوت دیکھ کر آپ کے ہونٹوں پر تبسم نظر آیا! 

        اس اقدام سے یہ بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ حجاب اور پردہ کے سلسلہ میں کس حد تک خواتین کی حرمت کی حفاظت کیلئے خاص طور سے جوان عورتوں کی خاطر اہمیت رکھتا ہے، پیغمبر اکرم کی بیٹی جو کہ عین جوانی کی عمر میں اس دنیا سے کوچ کیا ہےجن کے ارے میں یہ روایت ملتی ہے کہ ان کے جنازہ کی تشییع رات کی تاریکی اور مخفی طریقہ سے ہونیز عفت و پاکدامنی کی اسلامی تہذیب و تمدنی کو وسعت دیتے ہوئے تعلیم دیں، تا کہ مسلمان خواتین اپنی زندگی میں مناسب پردہ کا انتخا ب کریں چونکہ اسلامی معاشرہ کی تہذیب و تمدن کی فضا کو صحیح و سالم بنانے میں مدد و نصرت کریں۔

 

۲۔ قرآن و دعا کے تمدن سے انسیت  کی ترویج 

        اسلام میں عبادات انجام دینے کی خاطر بہت زیادہ تلقین کی ہے،دیگر تمام عبادات میں سے قرآن کی تلاوت کرنا ہے۔ [دیکھئے : شناخت نامہ قرآن، ۳/ ۲۴۵ بخش پنجم: تلاوت قرآن.]

        دوسر ے( ماثورہ و مروی) دعائیں پڑھنا بھی شامل ہیں۔ [دیکھئے : نہج الدعاء : ۱/ ۲۳ فصل اول: اہميت دعا.]

        قابل توجہ نکتہ تو یہی ہے کہ حضرت فاطمہؑ زہرا نے اپنی وصیت میں انسان  کوتلاوت قرآن اور دعاؤں سے انسیت رکھنے کا محتاج قراردیا ہے نیز یہی دو امر سب سے پہلا لمحہ ہوتا ہے کہ عالم برزخ اورقبر میں واردہوتے ہی اس کا محتاج ہے ۔ 

        اسی بنا پرصدیقہؑ طاہرہ حضرت علیؑ سے خطاب کرتے ہوئے فرماتی ہیں : وَاجلِس عِندَ رَأسِي قُبَالَةَ وَجهي، فَأَكثِر مِن تِلَاوَةِ القُرآنِ وَالدُّعَاءِ، فَإِنَّهَا سَاعَةٌ يَحتَاجُ المَيِّتُ فِيهَا إِلىٰ اُنسِ الأَحيَاءِ. 

        ( مجھے سپرد خاک کرنے کے بعد)اور میرے سرہانے چہرہ کے مقابل میں بیٹھئے گاپھر قرآن کی تلاوت اور دعا کیجئے گا کیونکہ یہی وہ گھڑی ہوتی ہے جب میت اپنے زندہ متعلقین سے انسیت حاصل کرنے میں محتاج ہوتی ہے۔ [دیکھئے : ص ۶۴۴، ح ۴۵۱.] 

        یعنی جس وقت انسان کا بدن قبر میں قرار دیا جاتا ہےتو اس کی روح اجنبیت کا احساس کرتی ہے اسی لئے تشییع کرنے والوں اور خاص طور سے زوجہ کے شوہر کیلئے بہتر ہے کہ قبر کے پاس کچھ دیر ٹھہرے تا کہ اس کی روح نئے ماحول کے موافق اپنے آپ کو رفتہ رفتہ ڈھال سکے، لیکن صرف قبر کے قریب موجود رہنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ میت کی روح اپنے زندہ اقربا کے ساتھ مانوس ہونا ہے جس کا مقدمہ تلاوت قرآن کرنا اور دعاؤں کا پڑھنا ہے کہ جس کی برکت سے میت کی روح بہرہ مند ہو سکے ۔ 

        اسی بنا پر حضرت فاطمہؑ زہرا کی وصیت کے انہی کلمات سے حقیقت میں انس با قرآن ودعا کی تہذیب و تمدن کو رائج کرنا ہے تا کہ قرآن کی تلاوت اور دعاؤں کے ذریعہ زندگی اور موت کے مختلف مراحل و شرائط میں انسان بہرہ مند ہو سکے۔   

 

۳۔ خاندانی وصيتیں

 

        حضرت فاطمہؑ زہرا کی چند وصیتوں میں علمی نکات اور خاندانی مسائل کے بارے میں بھی اشارہ موجود ہے کہ جن کی رعایت کرنے پر خاندان سے وابستگی کو تقویت ملنے اور رابطہ مستحکم ہونے کا بھی موجب ہوتا ہے جس کی ضرورت خاندان کی بنیادکو مضبوط کیلئے اشد ضروری ہے۔ ہم ذیل میں ان نکات کو مختصر طور پر تحریر کر رہےہیں:

 

۱۔ شوہر نامدار  کیلئے خير خواهى

        جناب زہراؑ جانتی تھیں کہ موت کے ساتھ فاصلہ بہت کم رہ گیا اور جلدی ہی نوجوانی میں اس دنیا سے کوچ کر جائیں گی، کیونکہ حریم ولایت کے دفاع کرنے کے نتیجہ میں جسم نازنین کو جو زخم وصدمات وارد ہوئے ہیںاور پدر بزرگوار کی رحلت کی بنا پر روح پرسختیاں وارد ہوئی ہیں اور ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ حکومت اسلامی کے سلسلہ کو برقرار رکھنے کی خاطر پیغمبرؐ اسلام کی تلقین و سفارش کو نظر انداز کرنا بھی آنحضرتؑ کی جسمانی و روحانی کی طاقت فرسائی نے ایسے حالات پیدا کر ے ہیں کہ رنجیدہ و غمگین رہنے لگی ہیں نیز اپنے بابا جان کو یاد کر کے گریہ و زاری کیا کرتی ہیں، لیکن پھر بھی ایسے حالات میں اپنے شوہر علیؑ کے مستقبل کے بارے میں فکر مند رہتی ہیں۔! 

        ایک طرف جناب فاطمہؑ زہرا کو یہ بھی علم ہے کہ ان کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعدولایت علیؑ کے حریم کا کوئی بھی دفاع کرنے والانہیں ہوگااور ان کے شوہر حضرت علیؑ مدینہ میں بھی اجنبی کی حیثیت سے اپنی زندگی بسر کریں گےاورآنے والا زمانہ مزید دشواری کے ساتھ امام علیؑ کا منتظر ہے، اسی وجہ سے اپنے شوہر کیلئےآنحضرتؑ آنسو بہا رہی ہیں، تو حضرت علیؑ کے پوچھنے پر کہ اے بنت رسولؐ! کس لئے گریہ و زاری کر رہی ہیں؟ تب آنحضرتؑ جواب میں فرماتی ہیں:  لِمَا تَلقى بَعدِي. جو کچھ آپ میرے بعد (مصائب و آلام) دیکھیں گے اسی کیلئے میں گریہ و زاری کر رہی ہوں۔ !

        حضرت علیؑ بھی خاتون جنتؑ کی دلجوئی کرتےہیں اور دلاسہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: لَا تَبكِي، فَوَ الله  إِنَّ ذٰلِكَ لَصَغيرٌ عِندي في ذاتِ الله. 

        (اے بنت رسولؐ) آپ گریہ و زاری نہ کریں،خدا کی قسم بیشک پروردگار عالم نے ان( سختیوں )کو جو اس کی راہ میں میرے سامنے آئے گی وہ ذات وحدہ لا شریک سے بھی چھوٹی ہیں (اور ان کا تحمل کرنا اللہ کی راہ میں میرے لئے آسان) ہے۔! [دیکھئے : ص ۶۷۶، ح ۴۷۰ .]

        دوسری طرف جناب فاطمہؑ زہرا کو حضرت علیؑ کے بارے میں بھی یہ علم ہے کہ وہ ابھی جوان ہیں اور زندگی بسرکرنے کیلئے ان کے شوہر کو آئندہ ایک زوجہ کی بھی ضرورت ہونے والی ہے،لہذا آنحضرتؑ اپنی طرف ایک زوجہ کے انتخاب کیلئے ایک تجویز رکھتی ہیں کہ جو ان کے بچوں کی خاطر ایک بہتر ماں بھی بن سکے۔

        جیسا کہ آنحضرتؑ نے اپنی ایک وصیت میں فرمایا ہے: يَابنَ عَمِّ، اُوصِيكَ أَوَّلاً أَن تَتَزَوَّجَ بَعدِي بِإبنَةِ اُختِي أُمَامَةَ؛ فَإِنَّهَا تَكُونُ لِوُلدِي مِثلِي، فَإِنَّ الرِّجَالَ لَابُدَّ لَهُم مِنَ النِّسَاءِ. 

        اے چچا کے فرزند! میں آپ کو وصیت کرتی ہوں کہ میرے بعد پہلے میری  بہن کی بیٹی (یعنی بھانجی) اُمامہ سے تزویج کریں گے کیونکہ وہی میری اولاد کیلئے میرے مثل رہےہوگی، پس بتحقیق مردوں کیلئے زوجہ رکھنے کے علاوہ کوئی بھی چارہ کار نہیں ہے۔ [دیکھئے : ص ۶۴۰، ح ۴۴۹.]

        پس آنحضرتؑ کے جسمانی و روحانی سخت ترین حالات میں بھی اس طرح سے اپنے شوہرحضرت علیؑ کی خیر خواہی کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے وصیت فرمائی ہے کہ بالآخر یہ تمام مسلمانوں اور مومنین کیلئے ایک ہمیشہ باقی رہنے والی تعلیم کو پہونچایا ہےکہ خاندان کی زندگی کی خاطر یہ لازمی ہےاور خاندان کے افراد جدا جدا نہ ہوں ایک خاندان کو بکھرنے سے بچایا جا سکے۔

 

۲۔ اولاد کیلئے وصیت

        جناب فاطمہؑ یہ بھی جانتی تھیں کہ ان کے شوہر حضرت علیؑ مقام عصمت و طہارت کے حامل ہیں نیز اپنی اولاد اور اپنی ذات کے حق میں کوتاہی نہیں کریں گےان سب کے باوجود آنحضرتؑ تاکید فرماتی ہیں:  أُوصِيكَ فِي وُلدِي خَيراً. 

        میں آپ کو اپنی اولاد کے ساتھ خیر و نیکی کرنے کی وصیت کرتی ہوں۔ [دیکھئے : ص ۶۴۴، ح ۴۵۱.]

        دوسری روایت میں بھی آنحضرتؑ کی وصیت کے الفاظ کتابوں میں اس طرح سے مذکور ہیں: فَإِن أَنتَ تَزَوَّجتَ إِمرَأَةً إجعَل لَهَا يَوماً وَ لَيلَةً وَ إجعَل لِأَولَادِي يَوماً وَ لَيلَةً، يَا أَبَا الحَسَنِ، وَ لَا تَصِحّ فِي وُجُوهِهِمَا فَيُصبِحَانِ يَتِيمَينِ غَرِيبَينِ مُنكَسِرَينِ، فَإِنَّهُمَا بِالأَمسِ فَقَدا جَدَّهُمَا وَ اليَومَ يَفقِدَانِ أُمَّهُمَا، فَالوَيلُ لِأُمَّةٍ تَقتُلُهُمَا وَ تُبغِضُهُمَا.

        اگر کسی عورت کے ساتھ تزویج کرو گے تو ایک دن و رات اس کیلئے قرار دو گے اور ایک دن و رات میری اولاد کیلئے بھی خاص قرار دو گے، اے ابو الحسنؑ ! ان بچوں پر آپ نہ چیخو گے اور نہ چلاؤ گےکہ یہ بچے یتیم، غریب اور شکستہ دل ہیں، کیونکہ ابھی کل ہی انہوں نے اپنے جد بزرگوار کو کھویا ہے اور آج اپنی ماں کو کھونے والے ہیں، پس ایسی امت پر نفرین و لعنت ہے جو ان دونوں کو قتل کرے گی اور جو لوگ ان دوسے بغض رکھنے والے ہوں گے۔ [بحار الانوار  ۴۳/ ۱۷۹، ح ۱۵.]

 

۳۔ بیٹی کیلئے ایک یادگار

        حضرت فاطمہؑ زہرا کی وصیتوں میں ایک روایت یہ بھی بیان کرتے ہیں: اپنی بیٹی ام کلثومؑ کے سن بلوغ تک پہونچنے کے بعدامور خانہ داری کے تمام ہی وسائل اسی بیٹی سے مخصوص رہیں گے۔ [دیکھئے : ص ۶۴۵،  ح ۴۵۱.].

        اسی طرح سے یہ بھی کتابوں میں تذکرہ ملتا ہے کہ گھر کے تمام پردے اپنی بیٹی کے سپرد کیا ہے۔ [دیکھئے : ص ۶۵۵، ح ۴۶۲.]

        قابل ذکر بات تو یہی ہے کہ آنحضرتؑ کے گھر کے وسائل مادی لحاظ سے تو اس قدر گران قیمت یا قیمتی نہیں تھے ، لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں اس وصیت کا مقصد ماں کے وسائل زندگی کو اپنی بیٹی کیلئے یادگار اور نشانی قرار دینا ہے۔  

 

۴۔ معاشرتی وصيتیں

 

        حضرت فاطمہؑ زہرا کی معاشرتی وصیتیں بہت زیادہ اہمیت کی حامل اور قابل تامل و تفکر ہیں۔آنحضرتؑ نے اپنے تمام مال دنیا کو راہ خدا میں دوسروں کے حوالے کر دیا ہے جن میں سے فاطمی موقوفات و صدقات کو ہم چند حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں:

 

۱۔  وقفِ عام

 

   ۱۔ حیطان سبعة

        حیطان سبعہ: یعنی سات احاطے یا باغات تھے جن کے اطراف میں دیواریں بنی ہوئی تھیں۔ ایک روایت سے یہ پتہ چلتا ہے کہ حضرت فاطمہؑ زہرا نے اپنی وصیت میں ان باغوں کو امور خیر کی خاطر وقف کر دیا تھا۔

        امام باقرؑ نے فرمایا ہے: میری جدہ ماجدہ جناب فاطمہؑ زہرا نےاس کے بارے میں وصیت فرمائی اور میرے جد بزرگوار حضرت علیؑ نے اس وصیت نامہ کو تحریر کیا تا کہ ہمیشہ کیلئے وقف باقی رہ جائے۔

  آنحضرتؑ کا وصیت نامہ ذیل میں ملاحظہ کیجئے:

 بِسمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیم. هٰذَا مَا أَوصَت بِهِ فَاطِمۃ بِنت مُحَمَّد رَسُولُ اللهِ أَوصَت بِحَوَائِطِهَا السَّبعَۃ: العَوَاف وَ الدَّلَال وَ البُرقة وَ المَثیب وَ الحُسنیٰ وَ الصَّافیة وَ مَا (مَشربة) لِأُمِّ إبرَاهِیم إِلیٰ عَلِیِّ بنِ أَبِی ‌طَالِبٍ فَإِن مَضیٰ عَلِیٌّ فَإِلیٰ الحَسَنِ فَإِن مَضیٰ الحَسَنُ فَإِلیٰ الحُسَینِ فَإِن مَضیٰ الحُسَینِ فَإِلیٰ الأَكبَرِ مِن وُلدِی. شَهِدَ اللهُ عَلیٰ ذٰلِكَ وَ المِقدَاد بنِ الأَسوَد وَ الزُّبَیر بنِ عَوام وَ كَتَبَ عَلِیُّ بنِ أَبِی ‌طَالِبٍ. [فروع کافی، شیخ کلینی، 7/ 48، حدیث 5؛ بحار الانوار، 43/ 235.]

        جس کی تولیت حضرت علیؑ کے ذمہ تھی اور ان کے بعد امام حسنؑ متولی ہوں گے پھر ان کے بعد امام حسینؑ متولی بنے گے پھر امام حسینؑ کے بعد ان کی اولاد میں جو فرزند اکبر ہو گا اسے ہی اس کی تولیت ملتی رہے گی۔ اس وصیت نامہ پر اللہ، مقداد اور زبیر کو گواہ قرار دیا اور اس وصیت کو تحریر کرنے والے حضرت علیؑ ہی تھے۔ 

 

 ۲۔ أمُّ العیال کا وقف

        جناب فاطمہؑ زہرا کے موقوفات میں سے دوسرا وقف باغ ام العیال ہے جس میں ۲۰ ؍ہزار نخل تھےاور اس باغ میںپھلوں کے پیڑ بھی لگے ہوئے تھے جیسے لیموں اور سنترہ وغیرہما موجود تھے،جناب صدیقہؑ طاہرہ نے اس باغ کو فقرا اور سادات کیلئے وقف کیا جس کا تذکرہ شیعہ اور سنی کتابوں میں بھی اس طرح سے نقل ہوا ہے: أُمُّ العَیَالِ صَدقَةُ فَاطِمَۃَ بِنتِ رَسُولِ الله ﷺ۔ 

ام العیال رسولخداؐ کی بیٹی فاطمہؑ  کا صدقہ (وقف) ہے۔

        حضرت فاطمہؑ زہرا نے اس کیلئے بھی مخصوص وصیت نامہ تحریر کیا، کیونکہ یہ منطقہ بہت ہی زیادہ اہمیت کا حامل تھا، آج کل بھی اس مقام پر پانی سے بھرپور چشمے موجود ہیں اوراب بھی یہ علاقہ سرسبر و شاداب، گرمی کے موسم میں بھی سرد مقام یعنی بلاد صیف میں شمار ہوتا ہے۔ [معجم معالم الحجاز، عاتق بن غیث البلادی، 6/  194.]

        ثقۃ الاسلام کلينی اور شيخ طوسی کی روایت کی بنیاد پر وہ ۷؍ باغات جن کے گرد دیواریں بنی ہوئی تھیں ان کے نام ہم ذیل میں تحریر کر رہے ہیں: عَواف، دَلال، بُرقة، مَثيب، حُسنیٰ، صافية و مشربة (ام ابراہيم)

        ۱۔ باغ عَواف، ۲۔ باغ دَلال، ۳۔ باغ بُرقہ،۴۔ باغ مَثيب، ۵۔ باغ حُسنی، ۶۔ باغ صافيہ، ۷۔ باغ مشربہ، (یہ باغ مشربہ جو کہ ام ابراہیم کے اختیار میں رہتا ہے۔) آنحضرتؑ نے ان سات باغوں کو وقف کیا ہے۔

        مشربة: اس لفظ کے معنی بوستان، باغ، پھلوں کا باغ یا نرم زمین ہوتا ہے کہ جس پر گھانس آسانی سے پیدا ہوتی ہے، اس سر زمین کو بھی کہا جاتا ہے جس کے درمیان ایک بلند ٹیلہ ہوتا ہے یا کوئی کمرہ یا حجرہ یا غرفہ یا کوئی عمارت ہوتی ہے۔

        مشربہ ایک باغ ہے کہ جس کے درمیان ایک چبوترہ یا صفہ یا غرفہ یا کمرہ بنا ہوا ہوتا ہے اور اسی مقام پر ام المومنین ماریہ قبطیہ سے رسولخداؐ کے ایک بیٹے ابراہیم کی پیدائش ہوتی ہے۔ [وفاء الوفاء ،  ۳/ ۸۲۵.]

قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ اس روایت میں کس کیلئے وقف کیا ہے اس کا پتہ نہیں چل رہا ہے نیز کس مقصد کے تحت وقف کیا ہے اور شائد اسی طرح سے بعض عام مقصد کی خاطر وقف معلوم ہوتا ہے۔ (نصرت اسلام کیلئے فی سبیل للہ وقف کیا ہو۔)  [دانش نامہ فاطمی ۱/ ۳۲۳.]

        اس مدعا کیلئے بغیر قرینہ کے وقف میں ذکر کیا ہو اشارہ کے وقف کیا ہو یہی معنی مذکورہ کلام سے انہوں نے مطلب یا نتیجہ نکالا ہے۔

        البتہ شیخ طوسی مذکورہ روایت کے بارے میں امام باقر سے نقل کرتے ہیں: وَ رُوِيَ أَنَّ هٰذِهِ الحَوَائِطَ كَانَت وَقفاً وَ كَانَ رَسُولُ اللهِ يَأخُذُ مِنهَا مَا يُنفِقُ عَلىٰ أَضيَافِهِ وَ مَن يَمُرُّ بِهِ فَلَمَّا قُبِضَ جَآءَ العَبَّاسُ يُخَاصمُ فَاطِمَةَ (س) فِيهَا فَشَهِدَ عَلِيٌّ وَغَيرُهُ أَنَّهَا وَقفٌ عَلَيهَا. 

        روایت میں وارد ہوا ہے کہ یہ سارے بوستان (پھلوں کے باغ) وقف کئے ہیںاور رسولخدااسی بوستانوں سےاپنے مہمانوں کی پذیرائی کیا کرتے تھےاور جو کوئی بھی اس کے پاس سے گذرتا تھا انہیں کچھ چیزیں بخشاکرتے تھے، جس وقت رسولخدا نے رحلت فرمائی تو عباس جناب فاطمہؑ کے پاس آئےان بوستانوں کے بارے میں گو مگو و مخاصمت ہوئی پس آنحضرتؑ نے حضرت علیؑ وغیرہ نے گواہی دی کہ یہ جناب فاطمہؑ کی خاطر وقف ہے۔ [تہذيب الاحکام : ۹/ ۱۴۵، ح ۵۰.]

        دوسری روایت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ آنحضرتؑ کے تصرف میں رہنے والے اموال و سرزمین کا مصرف روایت میں بیان ہوتا ہے کہ سات باغات کو وقف عام سمجھنا قابل قبول نہیں ہے ۔ بلکہ یہ وقف خاص ہی تھا جو آنحضرتؑ کے قبضہ میں بھی رہا ہے۔

 

۲۔ بنی ہاشم و بنی مطلب کیلئے وقف خاص

        مرحوم کلينی اپنی معتبر سند کے ساتھ ابو مریم انصاری سے روایت نقل کرتے ہوئے تحریر کیا ہےکہ راوی نے امام صادقؑ سے رسولخدؐا اور امیر المومنینؑ کے موقوفہ کے بارے میں سوال کیا تو آنحضرتؑ نے فرمایا:  هِيَ لَنا حَلالٌ وَ قالَ: إنَّ فاطِمَة (س) جَعَلَت صَدَقَتَها لِبَني هاشِمٍ و بَنِي المُطَّلِبِ. 

        وہ ہمارے لئے حلال ہے۔ پھر امامؑ نے ارشاد فرمایا: بیشک حضرت فاطمہؑ زہرا نے اپنی طرف سے بنی ہاشم اور بنی مطلب صدقہ چھوڑا ہے۔ [دیکھئے : ص ۶۵۶، ح ۴۶۵.]

        دیگر ایک روایت تذکرہ ملتا ہے کہ آنحضرت ؑنے بنی ہاشم اور بنی مطلب کے ہر ایک ضرورتمندوں کی خاطر ۵۰؍ اوقیہ چاندی صدقہ کرنے کی وصیت فرمائی ہے۔ [دیکھئے : ص ۶۵۳، ح ۴۶۲.] 

نوٹ: ہر ایک اوقيہ میں ۴۰؍ درہم  ہوتے ہیں۔

 

۳۔ ازواج پيغمبرؐ و خواتین بنى هاشم کیلئے وصیت

        امام صادقؑ کی ایک روایت کے مطابق جناب فاطمہؑ زہرا نے اپنے اموال میں سے ازواج پیغمبرؐ اسلام اور بنی ہاشم کی خواتین کیلئے ۲؍ اوقیہ چاندی دینے کی وصیت فرمائی ہے۔ [دیکھئے : ص ۶۵۹، ح ۴۶۹.]

        ایک اور روایت میں وارد ہوا ہے کہ آنحضرتؑ نے والد ؐ ماجد کی (ہر ایک) ازواج کیلئے ۴۵؍ اوقیہ چاندی دینے کا دستور فرمایا ہے۔ [دیکھئے : ص ۶۵۳، ح ۴۶۲.]

 

۴۔ اپنی بھانجی اور ابو ذر کی بیٹی کیلئے وصيت 

         حضرت زہرؑا نے اپنی بہن زینب کی بیٹی جن کا نام اُمامہ ہے ان کیلئے بھی اپنی میراث میں سے کچھ حصہ بخشا۔ [دیکھئے : ص ۶۵۹، ح ۴۶۹.] 

        خاتون جنتؑ نے کچھ معین اشیاء کو رسولخداؐ کے مخلص صحابی کی بیٹی کی خاطر مخصوص فرمایا اور وصیت فرمائی کہ اگر مذکورہ بالا ہر ایک کیلئے سفارش فرماتی ہیں کہ وصیت کے مطابق اپنا معین کردہ حصہ دریافت کرنے سے قبل اس دنیا سے چلے جاتے ہیں توان کا حق محتاجوں اور ضرورتمندوں کو ادا کیا جائے گا۔ [دیکھئے : ص ۶۵۵، ح ۴۶۲.]

        حضرت فاطمہؑ زہرا کی وصیتوں کے آخری حصہ میں چند نکات قابل توجہ ہیں:

        اول: آنحضرتؑ کی اکثر وصیتوں کی روایات میں جو »وصيت و تصدّق« جیسے الفاظ بیان ہوئے ہیں ان کے ظاہری مراد »وقف« کےہی ہوتے ہیں ، البتہ متون اسلامی میں »وقف«  کو »صدقہ« سے بھی تعبیر کرنا رائج و شائع ہے۔ [وسائل الشيعۃ ۱۹/ ۱۷۱، کتاب الوقوف والصدقات باب ۱.]

        دوم: پیغمبرؐ اسلام نے پیشنگوئی فرمائی ہے کہ ان کی رحلت کے وقت جو لوگ زمام اقتدار کو اپنے ہاتھوں میں لینے والے ہیں اسی بنا پر آنحضرتؐ نے اپنے اختیار و قبضہ کے اموال کے ایک حصہ کو اپنی لخت جگر جناب فاطمہؑ زہرا کے حوالے کر دیا ہے کہ شائد ان کے احترام و حرمت کی رعایت کریں گےاور ان اموال کو پیغمبر ؐاسلام کے عمل و نظریہ کا لحاظ کرتے ہوئے اسی طرح رکھیں گے اور ان املاک کو غصب کرنے سے منصرف ہو جائیں گے اورحق شناسی کیلئے کم از کم ایک حجت و برہان قرار پائے ۔ 

        سوم: حضرت فاطمہؑ زہرا کی مالی وصیتوں سے یہ بات بالکل صاف اور واضح پتہ دیتی ہے کہ واقعہ »فدک« میں آنحضرتؑ کا حکمران سیاستدانوں کے ساتھ اختلاف کوئی شخصی یا ذاتی نہیں تھی، بلکہ آنحضرتؑ کا مقصد و ہدف میراث نبوی اور حکومت علوی کا دفاع کرنا اور غاصبین کو روشنی میں لانا ہی ہوتا ہے۔وگرنہ دوسروں کی ضرورتوں کو پوری کرنے سے زیادہ مقدم اور اہمیت اپنی اولاد کی حاجات کو پوری کرنا ہوتاہے۔

        جیسا کہ آنحضرتؑ کے شوہر نامدار امیر المومنین امام علیؑ نے فدک اور غیر فدک کے متعلق اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا ہے: وما أصنع بفدك وغير فدك۔ مجھے فدک اور غیر فدک کی کیا ضرورت ہے۔ [نہج البلاغۃ، مکتوب  ۴۵.]

        چہارم: حضرت فاطمہؑ زہرا کا باغ فدک غاصبانہ طریقہ سے چھیننے کے بعدجو دیگر املاک و موال آنحضرتؑ کے اختیار میں تھے ان کے انجام کے بارے میں حالات و احوال مبہم نظر آتے ہیں۔

        ایک طرف تو ہمیں ایسی چند روایات میں تذکرہ ملتا ہے کہ بقیہ املاک و جائداد آنحضرتؑ کی طرف سے موقوفات و صدقات میں شمار ہوتی ہیں تو ان روایات سے ظاہری دلالت یہی پائی جاتی ہے وہ املاک و جائداد آنحضرتؐ کے ہی اختیار و قبضہ میں رہتی ہیں اور اسی بنا پر آنحضرتؑ نے اپنی وفات سے پہلے ہی ان بقیہ اموال و جائداد کے مصرف و استعمال کو معین فرما یا ہے ۔

        دوسری طرف بعض روایات سے یہ بھی مطلب اخذ ہوتا ہے کہ رسولخداؐ نے اپنی تمام اموال و جائداد کو جناب فاطمہؑ زہرا کے سپرد کر دیا تھا یہاں تک کہ ۷؍ باغات جس کے بارے میں ہم نے سابق میں تحریر میں اشارہ کیاہے اسے بھی خلیفہ اول کی حکومت کے زمانہ میں  غصب کر لیا جاتا ہے۔  [السيرۃ الحلبيۃ،  ۳/ ۳۶۱.] 

        پھرمزید دوسری روایات میں تذکرہ ملتا ہے کہ ابو بکر باغ »عواف« میں آئے ۔ [بحار الانوار ۲۲/ ۲۶]

        یہاں پر لفظ »عواف« صحيح ہے ۔ مگر ابن شبہ نے اپنی کتاب تاریخ المدینة میں بھی اس کا ذکر کیا ہے لیکن اکثر روایات میں  لفظ »اعواف« استعمال ہوا ہے اور بعض روایات میں  لفظ »عواف« بھی استعمال ہوا ہے لیکن یہ بحار الانوار میں جو لفظ استعمال ہوا ہے اس کے بر خلاف ہے۔ [در تاريخ المدينۃ چاپ شدہ (۱/ ۲۱۱)]

         نيز بعض روایات میں لفظ »اعواف« کا بھی ذکر ملتا ہے جس باغ کو جناب فاطمہؑ زہرا کے حوالہ کیا گیا۔ [تاريخ المدينۃ المنورۃ: ۱/ ۲۱۱.]

         پھر دوسری روایات کی بنا پر خلیفہ دوم نے رسولخداؐ کی بعض املاک و جائداد من جملہ بنی نضیر کے باغات حضرت علیؑ اور پیغمبرؐ اسلام کے چچا عباس کے اختیار میں قرار دیا تا کہ ان باغات کی آمدنی انہیں امور میں صرف و خرچ کریں جن امور میں پیغمبر ؐاکرم نے معین فرمایا تھا۔ [صحيح البخاری ۳/ ۱۱۲۶، ح ۲۹۲۶.]

        اسی بنا پر حضرت فاطمہؑ زہرا کی وصیتوں کے اجرا کے بارے میں ہمارے لئے قطعی و یقینی طور پر اظہار نظرکرنا مقدور نہیں ہے، وہ بھی اس صورت حال میں کہ مذکورہ املاک و جائداد آنحضرتؑ اختیار و قدرت سے خارج ہو گیا ہو، لہذا یہ بھی احتمال پایا جاتا ہے کہ آنحضرتؑ کی مالی وصیتوں کا مقصد و ہدف وہی نکات ہیں جنہیں ہم نے دوسرے اور تیسرے کالموں میں گذر چکے ہیں۔ [برای گزارش توصيفی وصيتہای حضرت فاطمہؑ: دانشنامہ فاطمی ۱/ ۳۱۷.]

 

ضمیمه و تتمه اور تكمله

        ۱؍ اوقیہ ۴۰؍ درہم کے مساوی ہوتا ہے

         نیز ۵۰؍ اوقیہ کو ۴۰؍درہم سے ضرب دیں گے تو ۲۰۰۰؍ درہم ہوں گے۔ 

        ہم یہاں پر کم از کم وزن اورزیادہ سے زیادہ وزن کو درج کر رہے ہیں:

         یہ نکتہ یاد رہے کہ درہم شرعی اور درہم (چاندی کا سکہ) کے اوزان میں فرق ہوتاہے، درہم شرعی کا وزن دور جاہلیت سے آج تک ایک ہی وزن ہے لیکن درہم (چاندی کا سکہ) کا وزن مختلف ہوتا ہے، لہذا ہر درہم کو درہم شرعی نہیں کہا جائے گا۔

         ۱؍ درہم (چاندی کا سکہ) جس کا وزن ٤١٩٢ء٢؍ گرام یا ٩٧٥ء٢؍ گرام نیز اسانڈرڈ درہم ٢٠٧ء٣ ؍گرام یا ٠٨٨ء٣؍ گرام کا ہوتا ہے۔ ٢٥ء٤ یا ٥ء٤ ؍گرام ٖچاندی کے وزن کے برابر ہوتا ہے۔

  لہذا ہم ٥ء٣؍ گرام کو اختیار کرہے ہیں جو درمیانی وزن ہے۔

         ۲؍ اوقیہ کو ۴۰؍ درہم سے ضرب دیں گے تو ۸۰ درہم ہوں گے۔ 

          ۴۵؍ اوقیہ کو ۴۰؍ درہم سے ضرب دیں گے تو ۱۸۰۰؍ درہم ہوں گے۔

        پیغمبرؐ ؐاسلام کی وفات کے وقت ایک متوسط خاندان کا ماہانہ خرچ صرف ۴؍ درہم ہوا کرتا تھا۔

         اواخر دسمبر ۲۰۲۰؁ء کو عام بازار میں فی گرام چاندی کی قیمت ١٥٦ء٦٨؍ روپئے صرف تھی۔ 

 تأملى در وصيتهاى فاطمهؑ زهرا (س)

 تحت اشراف:  آیة اللہ محمد محمدی ری شہری مد ظلہ العالی

 جمعی از پژوهشگران، پژوهشکدہ علوم و معارف حدیث

مترجم : ابو دانیال اعظمی بریر

 

DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی