واقعات و حادثات قصبہ مبارکپور - تمہید



 فہرست واقعات و حادثات قصبہ مبارکپور



تحرير و تاليف: شیخ محمد علی حسن ابن شیخ غلام مرتضی ابن شیخ وصی احمد مرحوم

۱. تمہید

۲. حادثہ اوّل قصبہ مباركپور

۳. حادثہ دوم قصبہ مباركپور

۴. حادثه سوم معروف رکهئى ساهي


بسم الله الرحمن الرحیم


قصبہ مبارکپور میں روضہ قدم رسول صلعم کا ایک فضائی منظر

تمہید

الحمد لله رب العالمين و الصلوة و السلام على رسوله محمد و آله و أصحابه أجمعين بعد حمد پروردگار نعت رسول مختار و مدح أل اطهار و اصحاب کبار و ائمہ ابرار كے یہ چند اوراق در بیان "واقعات و حادثات قصبہ مبارکپور" بفرمائش "شيخ گدا حسین صاحب" سلمہ نمبردار و زمیدار كے یہ راقم یعنی شیخ محمد علی حسن ابن شیخ غلام مرتضی ابن شیخ وصی احمد مرحوم یکی از شرفای قصبہ مذکور رقم طراز ہے که زمانہ تعليم مدرسہ میں يہ راقم بھى مدرسہ مباركپور میں پڑھتا تھا ایک روز برخوردار بلند اقبال نور بصر "شیخ غلام حیدر خلف الرشید شیخ گدا حسین صاحب" موصوف بہ عمر ہمہ سالگی مکتب میں سبق پڑھ رہے تھے که تقریباٌ کسی ںے حادثه رکهئى ساہى كا ذكر شروع كيا كه ايسا حادثہ عظيم كسى ںے ساكنان قصبہ سے كبهى ديكھا نہ سنا اور اس قدر خونريزى ہوئى كه الامان و الحفيظ اس پر برخوردار مسطور ںے یہ ارشاد فرمایا که قبل آپ لوگوں کے اور بحالت موجودگی ایسے ایسے حوادث ظہور میں آئے ہم لوگ کیا جانیں گے اگر تذکره ان حوادث کا کسی طرح سے تکلیف گوارا فرما کے تھوڑا تھوڑا قلمبند فرماویں تو ہم لوگوں کو واقفیت ہو اور بر آئنده ایک یادگار کے طور ایک رسالہ مختصر تیار ہو جائے چنانچه راقم ںے باوجود عدیم الفرصتی شغل تعلیم وغیره سے حسب خواہش اونکی روزانہ دو دو ایک ایک صفحہ برابر لکھنا شروع کیا ناظرين با تمكين سے التماس ہے كه اگر کہیں خلاف محاوره روز مره کے پاویں تو بقلم اصلاح درست فرماويں که راقم ان اوراق کا محض طفل مکتب اور باشنده دیہات کا ہے محاوره اردو سے بالکل بے بهره ہے۔

و الله ولی التوفیق و بیده و ازمنة التحقیق۔

حادثہ اوّل قصبہ مباركپور

یہ حادثہ قصبہ مبارکپور میں قبل عملداری سرکار انگلشیہ آخر عملداری نواب وزیر میں واقع ہوا تھا کیفیت اوس کی اس طرح  هے اور یہ حادثہ مشہور بہ تکرار شیعہ و سنّى کے ہے صورتحال اس طرح پر ہے کہ جب مسلمان کے گهر کوئی لڑکا پیدا ہوتا تھا خواه شادی بیاه ہوتے ہی تو ہر خاص و عام کے گهروں سے بیڑا سرپت کا بنا کر اوس میں دو چار چراغ جلا کر ایام بھادوں میں تالاب خواه کسی جهیل بیڑے كو بہاتے تھے بلکه ہنوز یہ رسم جا بجا جاری ہے که عورتیں گاتے ہو ئے معہ باجہ كے جاتے ہيں اور ماليده بہت احتياط سے وہاں تيار كر كے نياز خواجہ خضر عليہ السلام كے دلاتے ہيں سو موضع كٹره متعلقہ املو میں چنانکہ بالفعل بازار لگتا ہے ایک شخص کے مکان پر بیڑا تیار کر کے تالاب میں بہانے کو بڑے دهم دهام سے چلے اور اوس تالاب کا نام کوہارگڈھ مشہور ہے اور یہ تالاب مقام كٹره کے اوتر جانب كو واقع ہے واسطے تماشہ کے صدہا خلقت موجود تھی ایک شخص بہت ضعیف سن رسیده بازار کر کے اپنے مکان کو مبارکپور جاتا تھا اور اوسی زمانہ میں محلہ شاه محمد پور من محلات قصبه مبارکپور اور موضع كٹره سے با خودہا در باب اكهاڑه کے نزاع و تکرار رہتا تھا سو اوس بیچاره ضعیف مسمی حسام الدین کو به تہمت تبّرا کہنے کے تنها پا کر تلوار سے مارا اور ہر چند اوس نے شور و غل کیا کسی نے اوس کی فریاد نہ سنی اور تلواروں سے اوس کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا جب تک یہ خبر شاه محمد پور پہونچتی اور لوگ وہاں سے دوڑے تب تک اوس کو بوٹی بوٹی کاٹ کر کے سب فرار ہو گئے وہاں ایک متنفس نہ رہا حاصل کلام قصبہ مبارکپور محلہ پورانی بستی میں ایک شخص سردار و افسر تمام مہتران و سرداران قوم نور بافان مبارکپور کا بنام شہاب مہتر که ایسا شخص وجیہ و شجاع و عاقل که فی زماننا تلاش ہو تو اوس کا نظیر اورمثل نظر نہ آوے سو انہوں نے اکثر چوکیات اور تھانہ جات پر اطلاع کی مگر کوئی شنوا نه ہوا نه داد كو پہونچا یہ خوبی سرکار انگریزی میں البتہ ہے کہ از رئيس تا سائیس جو مظلوم استغاثہ کرتا ہے بخوبی اپنی مراد کو پہونچتا ہے بر وقت ثبوت جرم کے ممکن نہیں کہ سزا یاب نہ ہوا اسی وجہ سے ہر خاص و عام مداح عملداری سرکار انگریز بہادر کے ہیں اور واسطے قیام اس عملداری کے دست بدعا ہیں۔

الغرض سردار مذکور نے جب دیکها که تھانہ دار و کوتوال سے کچھ مطلب برانی نہ ہو گا تب بہزار مشقت و کوشش شہر لكهنؤ جا كر تمام حالات و سر گذشت جو مبارکپور میں واقع ہوے تھے لکھوا کے بذریعہ درخواست سرکار فیض آباد نواب نامدار وقت کے گذارنا اور وه زمانہ جناب نواب سعادت علیخان بہادر کا تھا قصہ کوتاه بہ سعی بسیار و کوشش بیشمار کے حضور پر نور سرکار نواب عالیمقدار عاملان اقتدار سے یہ حکم نفاذ پایا که بنام عامل پرگنہ کے پروانہ جاری ہو که اس مقدمه کے بخوبترین وجه تحقیقات کر کے بشرط ثبوت دعوی مدعی کے تدارک بمدعا علیہم کا قرار واقع کیا جائے اب بعد صدور حکم حضور کے جو کچھ عامل پرگنہ ںے ساتھ اہل سنت کے اقرار لیا اور اوس اقرار نامہ کو بحضور نواب وزیر کے شہر لکهنؤ روانہ کر کے مہر و دستخط کرایا اور شہاب مہتر مرحوم کو اوس کی نقل دیا۔ لکهنا اوس کا باعث رنجیدگی سنت و جماعت کا ہے وجہ یہ ہوئی که نواب مذہب شیعہ اور عامل وقت بھی یہی مذہب رکھتے تھے لہذا اسی قدر پر اکتفا کیا گیا غرض که بائيس سو روپیہ سنت و جماعت کا اور دو سو روپیہ شیعوں کا اس معاملہ میں صرف ہوا لیکن شہاب مہتر مرحوم نے وه انتظام کیا که ہر فریق کے لوگ اون سے راضی و خوشنود رہے بلکه آج تک اون کے انتظام سے لوگ مداح و ثنا خوان ہیں۔ فقط

حادثہ دوم قصبہ مباركپور

جو بگّو ساہى كر كے مشہور ہے. يہ حادثہ ابتداۓ عملداری سرکار انگریز بهادر میں واقع ہوا کیفیت اس کی اس طرح ہے کہ ایام عشره محرم میں بتاریخ ساتویں علم و شدّے تمام قصبہ كے ايک ساتھ بڑے کرّ و فر سے اوٹھتے تھے پھر اوس وقت کسی کوچہ و گلی میں باعث اژذہام و ہجوم خلقت کے کسی طرف گذرنا امر دشوار تھا وجہ یہ تھی که اوس زماںے میں ہر مذہب کے لوگ شیعہ و سنی سب باہم متفق ہو کر تعزیہ داری کرتے تہے اور با خودہا ایسا ربط و ضبط رکھتے تھے کہ صرف بر وقت نماز کے  ہاتھ باندھنے اور کهلا رکهںے سے تمیز ہوتی تھی که یہ شیعہ ہے اور یہ سنی ہے ورنہ تعزیہ داری بشوق تمام اور باعتقاد ما لا کلام جناب سید الشهدا عليہ السلام کے كرتے تھے اور بدل و جان مستعد و آماده رہتے تھے؟؟؟ کالے کپڑے پهنے خواه جوته پهن کے ساتویں نویں اور دسویں تاریخوں کو باهر نکلے غرض که ساتویں تاریخ کو علم و شدّے نكلے اور مرثیه خوان سے حال مصائب جناب سيد الشهدا حسين مظلوم كربلا كا سنتے اور سينه زنى كرتے هوۓ متصل روضه قدم رسول کے پهونچ کر خوب ماتم کیا لوگ به سبب گریه و زاری و بحالت اضطراری کے مصروف آه و زاری کیے که اتںے میں وه فقیر مسمی بکو شاه که کسی ایک شخص شیعه مذهب سے عداوت رکهتا تها اوسی مجمع عام میں پکار کر کهنے لگا که فلان شخص ں تبرا کها هے یه کیا غضب هے که جهاں اس قدر سنی هوں وهاں کوئي شیعه تبرا کهه کر بسلامت جان بر هو چونکه اوس جگه هزارها خلقت موجود تهی اوس کے کهنے پر کسی کو باور نه هوا جب لوگوں نے اندر روضه کے داخل هوںے کا قصد کیا تو وهی فقیر پهلے هی زینه کے متصل کهڑا تها کسی سخص ںے یه سوچا که اسی ںے نا حق ایک شخص پر تهمت بیجا کر کے فساد برپا کرنا چاها تها اوس کو ایک طمانچه مار بیٹها اوس کے مارںے پر پهر تو جو آیا سو دو چار گهونسا یا که لات مارا اوس هجوم عام میں کون پوچهتا هے هر چند بکّو شاه دوهائي دلاتا اور فرياد كرتا تها مگر کون کسی ںے اوس کی فریاد نه سنی اس قدر مارا گیا که هر ایک کو گمان هوا که مر گیا یه کیفیت دیکھ کے تمام لوگ جو وهان حاضر تهے سب کے سب بهاگ گۓ سیواۓ اون لوگوں کے جو شدّا و علم لیۓ هویۓ تهے وه سب شاه محمد پور کے رهںے والے تهے چند اشخاص جو باهم متفق تهے اور حالاںکه وهاں موجود نه تهے مگر بوحه عداوت کے که محله مذگور سے رکهتے تهے یه مشهور کیا که شاه محمد پور کے لوگوں نے تبرا کها اور بکّو شاه ںے جب منع كيا تو اون كو اس قدر مارا هے كه اميد زيست كے نهيں هے غرض كه تهانه دار کے پاس تهانه محمد آباد میں اطلاع کیا اور تهانه دار نے چند لوگوں کو گرفتار کر کے شهر گورکهپور چلان کر دیا اوس زمانه میں عدالت کلکٹری و ججی وغیره اعظم گڈھ میں نه تهے اوس زمانه میں صدر مقام گورکهپور تها الحاصل طرفین سے ایسی سعی هونے لگی که مقدمه بهت طول کو کهچا شهاب مهتر جن کا ذکر سابق بیان هو چکا هے اوس وقت تک موجود تهے یه ایسا شخص عاقل مبارکپور میں تها که اون کا ثانی آج تک اس قصبه میں نه پیدا هوا جس مقدمه میں سعیر مستعد هوتے هو بوقت اوس کار کے ایسے ایسے عجب اور دلیل قانوناٌ و عرفاٌ پیش کرتے تهے که حکام لوگ اوس پر بهت خیال کرتے تهے قصه کوتاه مقدمه مذکور سردار مسطور کی سعی سے خارج هو گیا اور کسی پر کچھ جرم عائد نه هوا بخوشى و خورمى لوگ گورکهپور سے واپس آۓ اور بکّو شاه وهیں گورکهپور میں اندر هفته کے خارج هونے مقدمه مذکور سے مر گیا واقعه سن 1810 عیسوی مطابق سن 1226 هجری کے وقوع میں آیا۔ فقط

حادثه سوم معروف رکهئى ساهي

تیسرا اور سب سے بڑا واقعه قصبه مبارکپور کا رکهئى ساهى هے يهي اوس كو دیكهنے والوں نے یوں بیان کیا هے که پوره رانی متعلقه قصبه مبارکپور میں جس جگه که اب مدرسه سرکاری قائم اوس جگه ایک درخت پکڑ کا بهت عظیم واقع تها اور نیچے اوس درخت کے ایک پخنه چوک امام صاحب کا قدیم سے تها اور بعده جس کے پکڑ کر کے یه درخت مشهور هوا اور اسی مقام پر قوم هندؤں کی ایک پرستش گاه یعنی شیواله ایک مهاجنوں کے مسمی اگنو ساهو قوم کلوار نے بنوایا اور سب هندو قصبه کے اوسی شواله میں پوجا پاٹ کرتے تهے اور بر طبق اپنے دستور کے بها و بهجن همیشه کیا کرتے تهے۔ اور مسلمان بهی دس روز عشره محرم اوس جگه اپںے چوک کے پاس تعزیه داری امام حسین علیه السلام کی هر مذهب کے لوگ باخودها متفق هو کر کیا کرت تهے مگر محرم میں دس روز تک هندو لوگ اپنے بها و بهجن کو موقوف رکتے تهے اسی طرح سے چار پانچ برس بخیریت تمام گذرا بعد از آن کئی مفسدوں نے یه دل میں سوچا که دس باره روز تک همارا پوجا پاٹ اور بها و بهجن سب موقوف هو جاتا هے اور دین اسلام همارے دین پر غالب رهتا هے کوئی فکر ایسی هو که یه چوک اس جگه سے نکل جاوے تو بهتر هے تب مهاجنان قصبه ںےبغرور دولت و مال کے ایک احاطه کهینچ کے چوک اور درخت جس کے پکڑ کو اندر کر لیا اور یه چاها که بعد چند روز کے جب همارا قبضه اور اختیار کما حقه هو جاوے گا تو چوک کو نکال ڈالیں گے تا که مسلمانوں کی رسائی همارے معبد و پرستشگاه تک نه هو جب مسلمانوں نے دیکها که هندؤں نے چوک امام کو جو قدیم الایام سے هے گم کیا چاهتے هیں تب بعد صلح و مدارا مهاجنوں و مالک شیواله سے که اوس کا نام اگنو ساهو تها منت و معذرت کے که آپ لوگوں کو مناسب نه تها که همارے قدیم چوک کو تم لوگ اپںے احاطه میں کر لیا تمام مسلمان سکناۓ پوره رانی واسطے نیاز و فاتحه کے طعام پاکیزه باحتیاط تمام پکا کے لا کر نیاز و فاتحه کرتے هیں هم لوگوں کو کیوں کر گوارا هوگا سو هم لوگ یه چاهتے هیں که اس دیوار کو نکال ڈالو اور همارے چوک قدیم کو بدستور اپنے سے الگ کر دو ورنه عشره محرم میں دقت فاتحه و نیاز کے هم لوگوں کو تکلیف هو گی هر چند مسلمانوں نے بمنت و سماجت فهمائش کی مگر اون لوگوں نے مطلق خیال نه کیا اور اپنی کثرت دولت پر نازاں تهے جب که مسلمانوں نے دیکها که یه کسی طور سے نهیں مانے گے بتاریخ 11 ماه ربیع الثانی حسب اتفاق و گفتگو طرفین کے بعد دو تین روز کے تاریخ مذکور کا گیارهواں دن آیا اور اوس تاریخ کو اکثر مسلمان پیران پیر غوث العظم دستگیر کی نیاز کرتے هیں سو ایک جماعت نے متفق هو کر یه بات تجویز کی که هندو لوگ هماری تعزیه داری کو اس جگه سے مٹانا چاهتے هیں اور هماری هتک دین ان کو منظور هے تب ایک راس گاۓ بهت فربه لے کر اوسی چوک کے پاس ذبح کیا اور خون  اوس گاۓ کا اوسی شیواله میں بهر چهار سمت چهڑک دیا اور اوس گاۓ کی انتڑیوں ان مورتوں کے گلے اور تمام بدن میں لپیٹا پهر وهاں سے اوٹھ کر ایک سنگهت میں جو که محله پورانی بستی میں کناره تالاب کهجوا کے جو هنوز موجود هے پهونچ کر گاؤ کا گوشت اوس میں رکها اور جو جگه ؟؟؟ اوس کے پوجںے کی تهی سب کو خون آلوده کر ڈالا بعده سنگهت مذکور کو خراب کر کے فصبه کے پورب جانب محله خواجه کے پوره میں ایک عبادت گاه قوم هنود کے بنام ٹهاکر دواره کے واقع هے اور وه تعمیر کرده رکهئی ساهو کا مشهور هے غالب هے که ایسا مکان اور اس قطع و شان کا ضلع اعظم گڈھ میں نه هو گا اور مستحکم ایسا که هنوز اگر چه اسی برس کا بنا هوا هے معلوم هوتا هے که ابهی آج بنا هوا هے وهاں پهونچ کر جو بت اور مورتیں تهیں اوس کی صورتیں خراب کر کے گوشت و خون گاؤ سے ایک نئی صورت بنا دیا اور بتوں کو شکست و ریخت کر کے وه سب لوگ اپنے اپنے مکان پر جا بیٹهے اور کهںے لگے هر چه بادا باد ایک دن اور ایک رات تو امن رها کسی ںے چوں و چرا نه کیا اور نه دم مارا اس اثنا میں مسمی دیبے دوبے ساکن موضع املو اور بشمبر مصر ساکن محله پوره رانی بستی متعلقه قصبه مبارکپور ںےباتفاق مهاجنان ساکنان قصبه کے اطراف و جوانب قصبه مبارکپور کبفاصله دو کوس چار کوس بلکه دس کوس تک چٹهیاںو کیا اور یهی سب کیفیت گذشته جو مذکور هوئیں اپنی چٹهیوں میں لکها که هماریرستش گاه اب یهاں کوئی باقی نهیں هے سب کو مسلمانوں نے خراب کر ڈالا اور گئو مار کر اوس کے رکت سے سب دیوتاؤں کو نهلایا مانس گئو کا اون بتوں کے منهه میں ڈال دیا اب اگر هماری اعانت کسی طرح نه کرو گے تو هم سب برهمنان یهاں کے اپنا اپنا پیٹ مار کر اپنے گهر میں ره جاویں گے جب مضمون چٹهی کا باره گانو کے راجپوتوں نے سنا اور یه باره گانو مبارکپور کے اوتر طرف بفاصله ایک دو کوس کے واقع هیں سب ایکجا جمع هو کر قسمی هوۓ اور کها که تف هے همارے جنم میں اور تهوڑی هے همارے جیںے پر که همارے عبادت گاه میں گئو ماری جاوے اور هم گهر میں بیٹهے عیش کریں الغرض با خود ها یه مشوره کر کے بارهو گانو کے راجپوت جو که بهادری میں مشهور تهے قسمی هو کر معه اپنی رعایا کے سب مبارکپور میں آۓ اور رکهئی ساهو کی کوٹهی میں ٹهرے اور بچه خوک منگواۓ اوس کو فرش قدم رسول پر جو که گوله بازار میں واقع هے ذبح کیا اور چاها که کواڑ توڑ کے اندر روضه کے داخل هو کر حرکت نا شائسته کریں اور اوس جاۓ متبرک کو نجاست آلود کریں قربان شان ایزدی که هر چند اون ظالموں نے زور کیا اور پهاؤڑے لگاۓ مگر مطلق اوس کواڑ پر خط نه پڑا وه جگه بجز فرش بیرونی اندر روضه مبارک کا نجاست سے محفوظ رها، راجپوتوں اور گنواروں نے یه سب بدعتیں کیں اور یه سب راجپوت تخمیناً هزار آدمی سے کم نه تهے بلکه زائد هی هوں گے مگر یه بهی خوف اون کے دل میں بندها هوا تها که ایسا نه هو که کهیں مسلمانوں کو خبر هو اور آکر مقابله کریں تو ایک بهی جیتا هوا گهر کو سلامت نه پهونچے گا اور واقعی میں یهی حال هوا که حب اندر قصبه کے خبر هوئی که ایسے بدعت روضه پر هوئی یهاں تو بے خوف و خطر مسلمانان اپنے اپنے کاروبار میں مصروف تهے ورنه کیا مجال تهی که ایسے بدعت کر کے قصبه سے باهر نکل جاتے کسی کو اصلاً یه گمان نه تها که هندو لوگ باهر سے گنواروں کو بولا کر خواه راجپوتوں کو طلب کر کے ایسا کریں گے ورنه شب و روز حفاظت قدم رسول خواه دوسری عبادتگاه پر مستعد رهتے غرض اون هندؤں نے یه جرات کیا اور مثل باد صرصر کے گذر کر گۓ جب سے خبر اندر قصبه کے منتشر هوئی که مهاجنان قصبه هذا ںے دیهاتوں سے کافر گنوار بلوا کے همارے روضه قدم رسول کے فرش پر ایسی حرکت بیجا کر کے اوس جگه کو نجس کیا تب تو هر صغیر و کبیر بلکه هر برنا و پیر و رضیع و شریف کے دل میں آتش غضب ایسی مشتغل هوئی که گویا سب مبهوت هو گۓ نه تو اپنے مرںے کا خیال اور نه زن و فرزند کے گرفتاری کا ملال پهلے اوس جگه پهونچ کر اوس فرش نجس شده کو خوب دهو کے پاک و صاف کیا بعد از آن هر محال میں ایک نقیب مقرر کیا که جس کو اپںے دین کے شرکت منظور هو فوراً مفام قدم رسول میں حاضر هو، اور ایک درخت املی کا جو اب تک محاذی دروازه روضه شریف کے هے اوس پر ایک نقاره آهنی رکهه کر بجانا شروع کیا تو اوس نقاره کی آواز سن کر کس کو گهر میں چین پڑتے بموجب۔ شعر (چو آواز نقاره آمد عجیب ، كه نصر من الله فتح قريب) غرض هر جوان و پیر و هر صغیر و کبیر اپنے اپںے گهروں سے نکل کے صحن مبارک قدم رسول میں آموجود هوۓ اور با خودها هر شخص کے راۓ میں یهی تجویز میں آئی که یه مفسده رکهئی ساهو کے جانب سے هوا هے اور یهی سخص تمام مهاجنوں کا سرغنه هے اسی ںے راجپوتوں کو بلوا کے یه بدعت کرائی هے اور پهلے خود دیوار شیواله کے بنوا کر همارے چوک کو حلقه میں کر لیا بصلاح ایسے مفسد کے یه سب فسادات پیدا هوۓ هیں سو اب ایسے کمبخت کافر کو چل کر غارت کریں آینده جو کچهه افتاد هو گی سو هو گا اگر گهر تک لٹ جاوے گا تو غم نهیں زن و بچه اسیر هوں یا مریں تو اس کا الم نهیں مگر هم لوگ مسلمانان اپنی عبادتگاه بچشم خود دیکهه کے بے انتقام لئے نه دانا کهائیں گے اور نه پانی پئیں گے نه چین سے بچهونه پر سوئیں گے حاصل کلام جماعت مسلمانوں کے ایک مرتبه علی علی کرتے هوۓ رکهئی ساهو کے کوٹهی میں گهسے اور رکهئی کو تلاش کرںے لگے هر چند اوس کے جستجو کے مگر اوس کو نه پایا جب ساهو مذکور ںے دیکها که ایک هجوم عام میری تلاش میں هے گهر کے راه سے نکل کے کفایت شاه کے مکان میں هو کر ماتم خانه میں که متصل قدم رسول کے هے گهس کر کوٹهی پر جا کر چهپ بیٹها ادهر جب مسلمانوں نے اوس کو مکان کے اندر ته پایا تب اوس کے مکان کو آک سے پهونک دیا لیکن اوس کے نال و دولت یا اساس زیست کے طرف مطلق متوجه نه هوۓ فقط اوسی سے لوگوں کو غرض تهی جب کهیں مکان میں سراغ نهیں میلا تو سب متحیر تهے که وه بانی فساد کیا هوا اور کهاں بهاگا اتنے میں ایک شخص نے یه خبر دی که رکهئی ساهو کو میں نے دیکها که امام باڑه کے کوٹهه پر جا چکا هے الغرض یه سنتے هی تمام لوگ دوڑے اور اوس تعزیه خانه میں دیکها تو دروازه کوٹهه کا جس میں سے هو کر کوٹهه میں جانا هوتا هے بند هے سب حیران هوۓ که اب کیا کریں اتنے میں کسی نے یه راۓ دی که اوپر چڑھ کر کوٹهی کی چهت کاٹ کے نیچے اوتریں اور اوس کو گرفتار کریں جب چهت کاٹی گئی اور لوگوں نے چاها که اوتریں تو رکهئی ساهو نے کیا کیا نشان و علم کے ڈانڈ جو اوس میں رکهے تهے اور عشره محرم میں آراسته کئے جاتے تهے اون سب ڈانڈوں میں پهل آهنی لگے تهے تلوار نیزوں کو لے کر نیچے سے اوپر کے آدمیوں کو چهیدنے لگا اور کئی آدمی مجروح هو گۓ تب تو اور بهی آتش غضب کا دلوں و سینوں میں مشتعل هوئی که دیکهو یه مفسد اس قدر لوگوں کے هجوم کو  کچهه خیال میں نهیں لایا چاهتا تها که اس وقت تعب میں بالحاح و زاری کے پیش آتا اور هر شخص سے منت و سماجت کرتا شاید کسی کو کچهه رحم آجاتا کیونکه بهت لوگ مقروض و باقیدار اوس کے تهے مگر اژدهام میں کس کو کون پوچهتا تهے اور لوگوں کے مجرح و زخمی هوںے سے سب کی طبیعت برگشت هوگئی آخر الامر آٹهه دس آدمی کوٹهی کے اندر کود پڑے اور ساهو مذکور کو گرفتار کر کے کوٹهی سے باهر گهسیٹ لاۓ اور مار مارو کا شور هوا تب اوس وقت بمنت تمام و الحاح و زاری ما لا کلام دانتوں کو نکال کے کهںے لگا که مجهه کو گاؤ کا گوشت کهلا دو اور خون پلا دو مگر مارو مت تمهارا قدم رسول سوںے و چاندی سے بنوا دوں لیکن کون سنتا هے پهر تو اوس وقت بچهیه ذبح کر کے اوس کا خون پلایا اور بعضوں نے پیشاب اوس کے منه میں کر دیا پهر بعده اوس کو تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے بلکه بوٹی بوٹی کر ڈالا جب رکهئی ساهو کا کام تمام هو گیا تب تمام لوگ قوم مسلمانوں نے اپںے اپںے مکانوں پر جا کے بیخوف و خطر باطمینان تمام اپںے کار و پیشه میں مصروف  هوئی یه سب واردات هوگئے مگر حکام تک کسی ںے خبر نه کی وجه یه تهی که اوس زمانه میں عدالت ضلع گورکهپور اور تهانه مقام محمدآباد میں تها اوسی سال حکام عالیمقام اعظم گڈھ میں رونق افروز هوئے سلسه عدالت کا قائم هوا چوکیداروں اور محافظوں کے هر چند تهانه میں اطلاع کیا گیا مگر تهانه دار صاحب نے مقام تهانه سے جنبش نهیں کیا جب بعد خرا بی بسیار کے تشریف لائے تو کسی نے اون کو نه سںتے اور کچهه نه سمجها که کون ؟؟؟ هیں اور اون سے کچهه ممکن بهی نه هوا اور یهاں قصبه مبارکپور کے برهمنان اور مهاجنان ںے تمام اطراف و جوانب چٹهیانو کیا تو تیسرے روز بهیڑ گواروں کے اس طرح هوئی که جس طرف نظر جاتی تهی میدان کثرت گنواروں سے سیل دریا کے موج مار رها تها اور گویا ایک عالم سیلاب نظر آتا تها پهلے آمد ںے سمت دکهن سے راجپوتوں کے هوئی چنانچه علاقه بلهابانس جو متصل چریاکوٹ کے هے اسے مبارکپور کے بدولت ابهی کتںے زمیندار اهل دول بنے هیں الحاصل چاروں گرف سے گنواروں آکر قصبه سے باهر باغوں میں قیام کیا جب تعداد میں نوبت چالیس هزار کے پهونچی اور صبح کو اون کی آمد موقوف هوئی جو سمت دکهن سے آئے تهے وه تو قصبه کے دکهن کے باغ میں تهے که ناگاه اوتر کے جانب سے باره گیاں کے راجپوت معه اپنی رعایا کے جو قوم کمینه سے تهی لے کر آئی اور اوتر جانب قصبه ک متصل بستی کے ایک باغ هے اور وه پوره دلهن میں متعلقه زمیداری سکٹهی میں واقع هے اور اوسی باغ دلکشا و گلزار جان افزا میں ایک امام باڑه تعمیر کرده رمضان شاه نام مرحوم معروف بمکان رمضان شاه هے اور اس قصبه میں کیا بلکه دوسرے قصبه و شهر میں جو اس ضلع میں پانچ سات کوس تک گرد و اواح میں واقع هیں ایسے ساخت و مستحکم عمارت نهیں هے ایسے طغرے و رباعیاں اور اشعار اوس میں رمضان شاه مرحوم کے کنده کرائے اور رنگ آمیزی کرائی هے که جس کا جواب نهیں اوس کے شان میں یه قول راست و درست هے۔ بیت۔ (اگر فردوس بر روے زمین است ، چنین است و چنین است و چنین است) الغرض وه سب گنوار آتے هے رام رام بهت کهتے هوئے اوسی طرف جهکے اور وه ایام برسات کا تها اور کهلیان گانو کے کاشتکاران کا اوسی امام باڑه کے عقب یعنی ؟؟؟ رکهے تهی اور ارهر کے رهٹه کے انبار وهاں لگے تهی پهلے آتے هی اونهیں رهٹوں کے بوجهه بنا کر امام باڑه کے دیوار میں لگا کر آگ لگا دیا پهر تو وه رهٹه با ؟؟؟ خوب جلا که شعله اون کا مکان کے چهت میں لگا اور وه آتش ایسے بهڑکے که تمام امام باڑه کے ؟؟؟ کو پکڑ کے اندر پهیل گئے پهر تو دور سے دیکهںے والوں کو یه نا معلوم هوتا هے که سارا گانو جال رها هے اور لکڑیاں اوس میں شیشم اور ساکهو اور بانس کے بهت عمده عمده اور موٹے موٹے جا بجا لگے هوئے تهے جب جلںے لگے تو ایسے آواز اوس سے نکلںے لگی که گویا توپیں سر هو رهی هیں قصبه هذا کے مسلمانوں نے جو یه کیفیت دیکهے تو هائے هائے کرتے هوئے اور یا علی مدد کهتے هوئے اور تلوار زنگ خورده و بندوق جس کے گهر میں جو هتهیار بے مرمت اور پورانا نا قابل جنگ کے تها لے لے کر وهاں پهونچے اور اس قدر لڑے که کلهم چالیس یا بیالیس نفر مجاهد تهے مگر صدها کافروں کو مارا اور کشتوں کا پشته کر دیا بموجب بیت گنجوی (ز بس کشته بر کشته مردان مرد ، شده راه بر بسته براه نورد ، وران مسلخ آدمي زادگان ، زمین کشته کوه از پس اوفتادگان) جب وه راجپوتان اور گواران تاب مقابله نه لا کر کے فرار کرنے لگے تو مجاهدوں نے للکارا اور کها که تف هے تمهارے جنم میں کیا چمائینوں کا دودھ هے ائے کمبختو کیوں بهاگتے هو۔ اگر تم کو دعوی اپنی شجاعت اور دلاوری کا هے تو میدان جنگ میں ثابت قدم رهو اور هم سے لڑو کیوں منه پهیرتے هو یه کلام طنز التیام سن کر کے وه غیرت میں آئے اور پهر پڑے تو مقابله باهم هوا تو ایسی جنگ اور جدال هوئی که سامان قتل دارا و سکندر سے کم نه تها۔ مسلمانوں کو موقع لڑنے کا یه میلا تها که رمضان شاه کے امام باڑے کے اندر احاطه اهل اسلام تهے اور جم غفیر راجپوتوں کی سب باهر کهیت میں پڑی ایک آواز میں جو بندوق سر هوتی تهی دو دو تین تین مثل شکار چڑیوں کے گرتے تهے اور اون کے بندوق کی گولیاں دیوار احاطه میں امام باڑه کے لگتی تهی چنانچه ابهی تک که عرصه بهتر سال کا گذرا داغ گولیوں کا موجود هے۔ وه دیوار ایسی مستحکم هے که فقط گولی سے برابر داغ پڑتا تها اگر دوسری دیوار هوتی تو عجب کیا که منهدم هو جاتی جسقدر مصالح بندوق مثل بارود اور گولی کے تها لڑتے رهے یه کیا معلوم تها که ایسی مهابهارت عظیم هوگی اور مصیبت سخت هم پر پڑے گی اور بمقابله کفار جنگ و جدال نوبت آوے گی فقط دو دو چار چار آواز کا بارود تها جب مصالحه بندوق کا چک گیا تو تلوار لے کر کے باهر نکل پڑے اور راجپوتوں کی غول میں گهس کر کے ایسا لڑے اور داد جوان مردی کی دی که اوس وقت رستم اور اسفندیار موجود هوتے تو شاباش کی صدا دیتے لیکن باعث عدم موجودگی بارود و گولی کے مجبور تهے یه لوگ تلوار مارتے تهے اور وه بندوق دور سے سر کرتے تهے غرض که تیس یا بتیس آدمی شربت شهادت نوش فرما کے خلد بریں کی راه لی اور کفار کی لاش کا کچهه حد و شمار نه تها چنانچه ایک شخص ناقل تها که ایک گهر میں سکناؤں باره گیان میں سے سات بیٹے تهے اور ساتوں لڑنے کو آئے تهے اس میں سے ایگ بهی جیتا مکان پر نه گیا۔ سب کے سب فی النار و السقر هو گئے۔ چنانچه اون ساتوں راڈوں سے دو بیوه هنوز موجود هیں اور مجاهدوں میں سے ایک شخص مسمی حاتم ایسا جوش شجاعت سے مست تها که ایک عدد نقاره آهنی که کسی سے اوٹهتا نه تها مگر اوس نے اوس وقت قوت خدا داد سے اوس نقاره کو اوٹها کر اندر احاطه سے باهر پهینک دیا تو اوس کے ضرب سے پانچ چار جوان قوی هلاک هو کر کے واصل جهنم هوئے اور اسی امام باڑه کے تین طرف بهت خوش قطع سائیبان بهی تهے اور اسی میں ایک متبحر عالم فاضل بے مثل بنام مولوی نثار علی مرحوم ساکن قصبه سرائے میر اور چچا زاد شیخ جان علی صاحب مرحوم خوشنویس علوم اور فارسی کا درس دیتے تهے اور اسی امام باڑه میں قیام پذیر تهے اونهوں نے ايسى شجاعت اور بهادري كي كه فقط تن تنها بيس پچیس راجپوتوں کو جو اون میں بڑے جنگی اور بهادری میں مشهور تهے مثل کتے اور بلی کے فی النار کیا جب اون سبهوں نے دیکها که هم کسی طرح سے شمشیر زنی میں عهده برآ نه هوں گے تو پشت کی جانب جا کر کے گولی ماری با وصف گولی لگںے کے دو جوان قوی کو گرتے گرتے مارا جب مولوی نثار علی ںے اپنی جان کو فی سبیل الله نثار کیا تب بهت سے راجپوت دوڑے که اون کی سیف لے لیویں اور وه بهت عمده اور بیش قیمت اور بے مثل زمانه تهی جانا که جان بحق تسلیم هوئے دوڑ کر کے چاها که هاتهه سے چهین لیں پڑے هی پڑے با وصف ضعف اور پریشانی حال کے ایسی ضرب لگائی که اون دونوں راجپوتوں کا پاؤں کٹ گیا اور وهیں واصل به جهنم هوئے بعده اون کے همراهیوں نے که وه دس پندره آدمی تهے آ کر مولوی صاحب مرحوم کی پشت پر چڑھ کے اور تلوار اور برچهی سے مجروح کر کے اوس تیغا کو لے لیا چنانچه وه شمشیر بے نظیر باره گیان میں ایک زمیدار کے پاس ایام غدر تک موجود تهی ادهر تو داد شجاعت اور مردانگی کی دے کے مولوی صاحب ںے راه جنت کی لی پهر اودهر ایک طرف سے ایک بابو مقام سورجپور سے هاتهی پر سوار بڑی شان و شوکت سے اور ساتهه میں دو سو سوار اور پیاده نمودار هوا اور معه جم غفیر کے مستعد جنگ چاها که هو اتںے میں ایک شخص مسمی بودین که فن تفنگ اندازی میں ایسا مشاق تها که اگر چاهتا تو شب تاریک میں چیونٹی کے جس پاؤں کوئی کهتا اوسی پاؤں میں مارتا سو اس نے ایسا تاک کر اس بابو کی پیشانی پر مارا که وه مثل ماهی بے آب تڑپ کر عماری سے نیچے گر کر اسفل السافلین کو روانه هوا پهر تو کسی همراهیوں کی همت نه پڑی که مسلمانوں سے آماده کار زار هو اولٹے پاؤں سب کے سب اپنے گهر کی راه لی۔ جب هندؤں کے بهیڑ اور راجپوتوں کا غول پراگنده هو گیا تو دکهن جانب کا غول اور بهی دوسری دوسری طرف سے گنوار کثرت سے جمع هو کر اندر قصبه کے گهس کر مکانوں کو پهونکنا اور جلانا شروع کیا پهر تو ایسا بلوه عام هوا که خداوند کریم کسی مسلمان کو ایسے مصیبت میں نه ڈالے۔ ايک طرف صغیر لڑکوں کا مادروں کے گودوں میں شور کرنا اور چلانا اور عورتوں کا جلتے هوئے مکان سے با حال پریشان باهر نکلنا اون کے بیکسی کو دیکهه کے زمین کو زلزله تها اور دو دو سو چار چار سو ایک ایک مکان میں گهستے تهے اور جو گهر کے مالک تهے اوس کو تنها پا کر مار ڈالتے تهے ایک اکیلا شخص سو دو سو سے کیوں کر مقابله کرتا مگر شاباش اون کی همت پر که باوجود تنهائی کے دو چار کو مار کے خود مرتا تها کهاں اکیلا کهاں نا بکار بے حد و بی شمار اور جو لڑںے والے تهے وه سب رمضان شاه کے امام باڑه پر واسطے حفاظت کے وهاں م.جود تهے تاهم صدها کفار اندر فصبه کے لوگوں کے مکانوں فی النار و السقر مع الجد و الپدر هوئے القصه برابر نو دن نو رات مبارکپور لوٹا گیا کتںے هزار من غله و مال و اسباب جو بقدر اپںے حیثیت کے رکهتا تها غارت هوا اور یهی قوله هندؤں کا تها که مرد ذات کا نام نه چهوڑو عورتوں سے حو هوں اون سے تعرض نه کرو مگر قسم مردوں سے اگر شش ماهه بچه بهی هو تو مار ڈالو مگر هزار هزار احسان پروردگار عالم کا هے ایسے تائید غیبی هوئی که وقت شمار لاش شهیدوں کے 35 یا که 36 نفر شهید شمار هوئے اور راجپوت جو مارے جاتے تهے اون کے لاشوں کو مثل کتوں کے گهسیٹ کر دریائے ٹونس موضع گوشجرپار میں ڈالتے تهے تا که یه ظاهر نه هو که مسلمانوں کے هاتهوں سے اس قدر هنود مارے گئے که موجب هتک اور باعث غیرت کا هو گا القصه تحقیقات حال سے واضح هوا که تین سو سے زیاده اطراف و جوانب کے جو راجپوت وغیره به نیت غارت و باراده جنگ آئے تهے مارے گئے الغرض نویں روز حکام عالی مقام شهر گورکهپور سے معه کئی گارد تلنگوں کے رونق افروز قصبه کے هوئے اور اون کے تشریف آوری سے تمام گنوار بخوف حاکم جان لے کر بهاگ گئے پهر صاحبان ذی شان ںے هر کسی کو گرفتار کرنا شروع کیا هندؤں نے جو پهلی چوده شخص کو بنسبت گاؤ کشی کے روز نامچه میں لکهایا تها حاکم نے اونهیں لوگوں کو گرفتار کرنا چاها چنانچه اون میں سے دو تین شخصون نے فرار کیا اور روپوش هو گئے پهر اون کی تلاش بهی هوئی پانچ چار مهینه باهر گهوم گهام کے مکان پر چلے  آئے حکام عالیمقام ںے جب اندر قصبه کے واسطے ملاحظه کے قدم رنجه فرمایا تو مکانوں کو سوخته اور مال و اسباب کو غارت شده دیکها تو انگشت بدندان هو کے بڑا تاسف کیا اور فرمایا که اگر مسلمان لوگ گاؤ کشی نه کرتے تو کاهے کو یه نوبت تاراجی اور غارت گری کی آتی حاصل کلام بعد تحقیقات مقدمه کے سات نفر مسلمان اوسی چوده نفر مذکوره سے بمیعاد پانچ پانچ سال کر کے ضلع خارج هوئے شهر گورکهپور میں حکم قیدی کا هوا اور شهر اعظیم آباد میں انقضائے میعاد کر کے بصحیح و سلامت مکان پر آئے بوقت میعاد هوںے هندؤں نے عرض کیا که جناب عالی اب هماری کوئی پرستش گاه همارے قصبه مبارکپور میں باقی نهیں رهی هم لوگ پوجا پاٹ کهاں کریں گے صاحب بهادر نے ارشاد فرمایا که تم لوگوں نے خود حاکمی کر کے دیهات سے کاؤ کوهار بلوا کے تمام قصبه کو غارت کر کے برباد کرا دیا اور اس قدر خون نا حق هوا اگر اوس وقت صبر کر ک عدالت عالیه میں استغاثه کرتے تو جیسا مناسب وقت هوتا قانوناً سرکار حکم کرتے اب تمهارا عذر کسی طرح قابل سماعت کے نهیں هے المختصر یه حادثه سن 1813 عیسوی مطابق سن 1229 هجری میں واقع هوا اور اسی سال سن اور سال میں عدالت مقام اعظم گڈھ اور تهانه قصبه مبارکپور میں قائم هوا۔ فقط.

ان شاء الله المستعان بقيه "واقعات و حادثات قصبه مباركپور" كے مضامیں قسط وار شائع ہوں گے.

زیر نگرانی: منہال رضا خیرآبادی

باز نویسی: ا.د.ا.ب.


DEDICATED TO SHAHE KHORASSAN IMAM ALI IBNE MUSA REZA AS

Post a Comment

To be published, comments must be reviewed by the administrator *

جدید تر اس سے پرانی